ڈرائینگ روم کا بنیادی مقصد تو کسی زمانے میں گھر کے اندر ایک گوشے کی فراہمی تھا۔ جہاں
بیٹھکر آپ گھر والوں کی بیجا مداخلت سے ہٹ کر گفتگو کر سکیں۔ یہ حصہ ہمہ وقت صاف ہو۔
اس سے کسی افراتفری کا احساس بھی نہیں ہو۔ اور یہ آپکے حسن ذوق کا آئینہ دار بھی
بن جائے۔
گردش دوراں نے اسےکسی کی سماجی حیثیت کا آئینہ دار بنا دیا۔ اور ایسے ڈرائنگ روم وجود میں آگئے جہاں تو بات کرنے کو ترستی ہے زباں میری۔ اس لئیے کہ نظر اٹھتے ہی ایسے نظاروں میں کھو جاتی ہے جو اپنے ساتھ احساس محرومی، احساس کمتری، احساس کمزوری، احساس دوری، احساس مجبوری اور اس جیسے بہت سے دوسرے احساسوں کو لیکر پلٹتی ہے اور جاکر دماغ کے پردہ ء چشم پہ جیسا کہ انسانی حواس کا قدرتی فعل ہے کوئ احساس بصیرت پیدا کرنے کے بجائے سیدھا حس گفتگو پر حملہ کر کے اسے گنگ کر دیتی ہے۔جب گفتار کے کس نکل جائیں تو بکواس کے بل پڑنا شروع ہوجاتے ہیں۔ ایسے بل تعلقات میں دراڑیں ڈالنے کے لئیےتیشے کا کام انجام دیتے ہیں۔اور ان سےکوہ ستوں کے پہاڑوں سے جوئے شیر نہیں بلکہ دلوں سے جوئے لہو جاری ہو جاتی ہے۔ یہ کبھی کبھی آنکھوں سے آنسءووں کی صورت رواں ہوجاتی ہے۔ اور کبھی نالہ بن کے گھر کے درو دیوار پہ بال پھیلا کر پڑ جاتی ہیں۔
اپنے گھروں میں ایک سیدھا سادہ سا گوشہ ضرور رکھیں۔ جہاں آنیوالاپاءووں پسارے یا آلتی پالتی مارے تعلقات کی دھونی جمائے بیٹھا رہے۔ اسکے اسطرح بیٹھے رہنے سے گھروں کی بنیادوں میں جڑیں نکل آتی ہیں جو اس گھر کو گرنے نہیں دیتیں۔
کیا بات کی ہے.. مگر اپنا گھر بھی تب نا..
ReplyDeleteعید مبارک
ReplyDeleteبس ایسی ہی تحاریر کی وجہ سے آپ ہمیں بہت اچھی لگتی ہیں
کیا خوبصورت بات کی ہے ماشاء اللہ۔ گھر کی جڑیں تو عنوان ہی بہت اچھا ہے۔
ReplyDeleteبڑی که ڈوھنگی بات کی هے جی
ReplyDeleteمیں ایک چینی کہاور سنایا کرتا هوں لوگوں که که
دوستوں کے کھر جانا جھوڑ دیں تو راهوں پر گھاس اُگ آتی هے
لیکن جی اپنے سے دولت مند سے اس زمانے میں دوستی هو هی نهیں سکتی که دولت مندوں کو دوست نهیں چمچے چاہیے هیں
اور خود دار بندھ مزدوری کرلیتا ہے چمچه گیری نهیں -
تو جی نتیجه یه نکلا که ڈرائینگ روم کو ساتھ ایک گھر بھی جڑا هونا چاهیے جس کی شکل چاھے مکان جیسی هو یا ناں هو
مکی، مکان اپنا ہو یا نہ ہو گھر تو اپنا ہی ہوتا ہے۔
ReplyDeleteجعفر اور راشد کامران صاحب شکریہ۔
خاور صاحب، بہت اچھی کہاوت ہے۔ لیکن جب پرانے دوست دولتمند ہو جائیں تو کیا کرنا چاہئیے۔ مجھے ذاتی طور پر ایسے گھروں میں جانا پسند ہے جہاں جانے سے پہلے یہ نہ سوچنا پڑے کہ کیا پہنا جائے، جہاں جانے کے بعد یہ نہ یاد آءے کہ وہان کھایا کیا تھا، آیا کچھ کھایا بھی تھا یا نہیں۔ ہاتھ پیر پھیلاتے وقت بلور اور چینی کے شو پیس ٹوٹنے کا اندیشہ نہ ہو۔ اور ہاں جہاں سے اٹھتے وقت بھی یہ خیال ہو کہ ارے یار ابھی تو یہ یہ باتیں ہوئیں ہی نہیں۔ اب دوبارہ کب ملاقات ہوگی۔
اگر دوستی ہے تو ایسی باتیں چہ معنی دارد۔ ویسے بھی جن جگہوں پر اتنا تکلف ہو وہاں جانے کی بجائے تھڑے پر بیٹھ کر حلیم کھانا زیادہ مزے کا کام ہے۔
ReplyDelete