Wednesday, September 30, 2009

جذبات کی جنگ اور ایموشنل کوشنٹ

دل دھڑکنے کا سبب یاد آیا
وہ تیری یاد تھی اب یاد آیا
شاعر کے اس شعر کو کہنے کی وجہ کچھ بھی ہو ایک بات تو طے ہے کہ اس شعر میں ایک بڑا نکتہ ہے جس پر آجکل کی انسانی رویوں پر تحقیق کرنے والے سائنس دانوں کی گہری نظر ہے اور وہ ہے انسان اور جذبات کا تعلق۔ اسی تعلق کی جڑیں نکالتے نکالتے ایموشنل کوشنٹ کی اصطلاح سامنے آتی ہے۔جہاں آئ کیو دماغی کارکردگی کو تولتا ہے اور کہتا ہے کہ اسکی مقدار کو بڑھایا نہیں جا سکتا ۔ وہاں ایموشنل کوشنٹ وہ خاصیت ہے جو کہ مناسب تربیت سے بہتر جا سکتی ہے۔
ایموشنل کوشنٹ انسانوں کی وہ صلاحیت ہوتی ہے جس سے وہ اپنے جذبات کو محسوس کرتے، سمجھتے اور پر اثر طریقے سے اسے انسانی توانائ، معلومات، تعلقات کو استوار کرنے اور اپنے اثر ونفوذ کو بڑھانے کے لئیے استعمال کرتے ہیں۔
اسکا پہلا مرحلہ اپنے آپکو جاننا ہوتا ہے۔شاعر اپنے آپکو اس حد تک سمجھتا ہے کہ اپنے دل کے دھڑکنے پر وہ غور کرتا ہے کہ میرے دل کے غیر معمولی انداز میں دھڑکنے کی وجہ کیا ہے۔ ایک کامیابی کی تمنا رکھنے والے شخص کو سب سے پہلے اپنے آپکو سمجھنا پڑیگا۔ ہم کیا چاہتے ہیں؟ یہ بہت اہم سوال ہے۔لوگ اپنے مسائل کا انبار لئے پھرتے ہیں کہ کوئ انکا مسئلہ حل کردے۔ لیکن وہ اس بات سے آگاہ نہیں ہوتے کہ وہ خود کیا چاہتے ہیں۔ اپنے آپ سے ملاقات کریں اور اپنے آپ سے سوال کریں اور پھر اپنے اندر  سے اس جواب کو ایمانداری سےسنیں جو آپکا اندر آپکو سنا رہا ہے۔ آپکی بیشتر کمزوریاں اس طریقے سے آپکے سامنے آجائیں گی اور پھر آپ انہیں حل کرنے کے قابل ہو جائیں گے۔ زندگی میں پیش آنیوالی الجھنیں اکثر اسی طرح اپنے آپ سے ملاقات کر کے حل کی جا سکتی ہیں۔ شرط یہ ہے کہ اپنے سامنے حاضری پوری ایمانداری کے ساتھ دیں۔ اور بہانے نہ بنائیں۔
جس لمحے ہم حالات کی ایک مکمل تصویر اپنے سامنے لاتے ہیں عین اس لمحے اسکی ساری خامیاں بھی ہمارے سامنے آجاتی ہیں۔
اس سکے کا دوسرا رخ یہ ہے کہ اپنے احساسات کو بیدار رکھتے ہوئے جب ہم مختلف تجربات سے گذرتے ہیں تو ہمیں یہ اندازہ ہوتا ہے کہ ہم اس تجربے سے کیا کیا چیزیں حاصل کر سکتے ہیں اور اس سے ہماری زندگی میں کیا تبدیلیاں آسکی ہیں
اسکی اہمیت یوں بھی ہے کہ انسانی دماغ ک کام کرنے کی بنیاد چیزوں کو آپس میں کمپیئر کر کے فرق نکالنے سے منسلک ہے۔ آپ میں سے کئ ایک نے وہ پزلز کئے ہونگے جس میں دو تصویروں کے درمیان فرق تلاش کرنے کو کہا جاتا ہے۔ اپنی عملی زندگی میں بھی انسانی دماغ اسی طرح سے آنیوالی صورتحال کو پچھلی والی سے مقابلہ کر کے نئ معلومات کو اسکے حساب سے جمع کرتا جاتا ہے۔
جب ہم اپنے آپکو پڑھنے کے ماہر ہوجاتے ہیں تو دوسروں میں بھی دلچسپی لینے لگتے ہیں اور انکے بارے میں اندازہ لگانے لگتے ہیں کہ اب اس طرح کی صور تحال میں دوسرا شخص کیا کیا کرسکتاہے۔ اگر آپ انسانی جذبات اور انکے ردعمل کو بہتر سمجھتے ہیں تو آپ بہت اچھی طرح آنیوالے حالات کو اور متعلقہ اشخاص کو اپنی آسانیوں کے لئیے استعمال کر سکتے ہیں۔
اسکی مثال ایسی ہے کہ اگر آپ کو یہ اندازہ ہو کہ انرویو ک پینل میں ایک شخص کو اس مضمون میں بڑی دلچسپی ہے تو آپ انٹرویو کے وقت اسکی متعلقہ فیلڈ کی بہتر تیاری کر کے اسے حیران کر سکتے ہیں۔ اور انٹرویو کے وقت انٹرویو پینل میں موجود اشخاص کے رد عمل سے اندازہ کر پائیں گے کہ یہ گفگتگو اب کس نہج پہ جا سکتی ہے۔
جذبات، خیالات اور سیکھنے کا عمل ایکدوسر سے جڑے ہوئے ہیں۔ یہی چیزیں ہمیں چیزوں کی وجوہات کی طرف لےجاتی ہیں۔ اور وجوہات جان لینے کے بعد اس سمت میں کام کرنا آسان ہو جاتا ہے۔
 دنیا صرف ذہین لوگوں کی نہیں ہے۔ بلکہ دیکھا جائے تو بے انتہا ذہین لوگ اپنے ماحول کے ساتھ نہیں چل پاتے اور بیشتر ذہین لوگ زمانے کی نیرنگی کا شکار ہونے  اور موجود نظام سے مطابقت نہ رکھنے کی وجہ سے کچھ غیر معمولی کرنے سے پہلے ہی ختم ہوجاتے ہیں۔
اسی بات کو ڈارون قوت بقاء کا نام دیتا ہے۔  اسکے مطابق جانداروں کی وہ قسمیں زندگی کی جنگ میں جیت جاتی ہیں اور انہوں نے اب تک اپنے آپ کو باقی رکھا ہوا ہے جو اپنے آپ کو ایک نظام میں اس طرح رہنے کے قابل بنا لیں جس میں انکے اندر اتنی لچک ہو کہ وہ بوقت ضرورت بدلتے ہوئے نظام کے مطابق اپنے آپکو ایڈجسٹ کر لیں اور نظام کے سخت ترین حالات کو بھی برداشت کر لیں۔ جو جاندار اس قسم کے حالات کا مقابلہ نہیں کر پاتے وہ معدوم ہو جاتے ہیں۔
بالکل اس طرح جو لوگ انسانی نظام کے چیلینجز کو نہیں سمجھتے۔ وہ اس نظام کا حصہ نہیں بن پائیں گے۔ یہ ایک تلخ ترین حقیقت ہے لیکن اسے جھٹلایا نہیں جا سکتا۔ اب کوئ شخص کتنی خوبی سے اپنی مرضی اور بنیادی اخلاقیات کو نبھاتے ہوئے ان چلینجز کا سامنا کرتا ہے اسکا ایموشنل کوشنٹ اتنا ہی زیادہ ہوگا۔
یقیناً ہم میں سے ہر ایک کی کوشش یہی ہونی چاہئیے کہ سیکھنے کے عمل اور ترقی اور کامیابی کے زینے کو چڑھتے ہوئے دوسروں کو دھکا نہ دیں اور نہ انہیں دوسروں کے قدموں تلے روندنے کے لئیے چھوڑ دیں کہ باقی جانداروں اور انسان میں اسی وصف کی وجہ سے فرق ہے۔ اور وہ ہے درد دل۔

درد دل کے واسطے پیدا کیا انسان کو
ورنہ طاعت کے لئیے کچھ کم نہ تھے کر وبیاں

تو جناب اپنے جذبات کو مناسب شکل دیں اور دوسروں کے جذبات کو اپنے مواقع بہتر بنانے کے لئیے استعمال کریں اور ہاں زندگی میں کسی بھی مرحلے پر اپنی حس مزاح کو ختم نہ ہونے دیں۔
اپنی اگلی پوسٹ میں، میں ایموشنل کوشنٹ کے ایک سوالنامے کو ضرور زیر بحث لانا چاہونگی کہ یہ نکات مزید واضح ہو جائیں۔

ریفرنس؛
ایمو شنل کوشنٹ

10 comments:

  1. حالات سے مطابقت پیدا کرنا یا ایڈجسٹمنٹ یا سمجھوتہ۔۔
    یہ کس قیمت پر کرنا چاہئے
    اپنے اخلاقی معیار، اصول بھی اس سمجھوتے کی زد میں ٓجائیں تو۔۔۔
    یہ ایک طالب علمانہ سوال ہے

    ReplyDelete
  2. بہت اچھا، اور غیر جذباتی مضمون ہے ساتھ ساتھ کچھ خشک بھی ہے لیکن ہماری حسِ مزاح پھر بھی برقرار ہے کیا کیجے۔

    یعنی کچھ نہ کچھ ہم نے بھی اس سے سیکھا ضرور ہے۔

    تفنن بر طرف! عمدہ تحریر ہے ۔ اس سلسلے کے اگلے مضامین کا انتظار رہے گا۔

    ReplyDelete
  3. جعفر بھائی

    بہت اچھا کیا کہ آپ نے طالب علمانہ سوال کیا ہے خدانخواستہ اگر آپ "طالبانہ" سوال پوچھ لیتے تو کوئی بیمہ کمپنی آپ کے بیمے کے لئے بھی تیار نہیں ہوتی۔

    ReplyDelete
  4. جعفر میرے خیال سے پہلے آپکی دی ہوئ اصطلاحات کا فرق ذہن میں رکھنا ضروری ہے۔ پہلے تو میں لفظ سمجھوتے کو نکال دینا چاہونگی۔ یہ ایک خاصہ منفی تائثر لیا ہوا لفظ ہے اور اس سے کسی انسان کی بے چارگی اور بے بسی ظاہر ہوتی ہے۔
    جبکہ ہم یہ کہنا چاہ رہے ہیں کہ ہم اپنی صلاحیتوں اور اپنے مزاج کو جانتے ہوئے اور اپنے اردگرد کے ماحول اور لوگوں کے مزاج کو ذہن میں رکھتے ہوئے ایسے راستے نکالیں کہ جن سے دوسروں کی اور ہماری خود داری اور انا کو ضرب نہ لگے اور جو ہمارا مقصد ہے ہمیں اس تک پہنچنے میں آسانی ہو۔
    چلئیے ہم اپنی دنیا سے پھولوں کی مثال لیتے ہیں۔ اس زمین پر جتنے جاندار موجود ہیں وہ مختلف طریقوں سے اپنی نسل آگے بڑھاتے ہیں۔ اگر وہ ایسا نہ کریں تو انکی نسل ختم ہو جائے۔پھولوں میںنسل آگے بڑھانے کے لئے پولینیشن ضروری ہے یہ ان پھولوں کے لئے آسان ہوتی ہے جو خوش رنگ اور خوشبو دار ہوتے ہیں۔ مگر تمام پھول ایک جیسی شکل اور خوشبو کے نہیں ہوتے۔ کچھ پھول بہت چھوٹے اور بے رنگ ہوتے ہیں مگر انکی خوشبو بہت اعلی ہوتی ہے اور اس طرح وہ دوسرے کیڑے مکوڑوں کو اپنی جانب راغب کر لیتے ہیں۔کچھ کی خوشبو ہوتی ہی نہیں یا بہت مدہم ہوتی ہے مگر وہ اپنے رنگ روپ سے پولی نیشن کے عمل کو اپنے لئے آسان کر لیتے ہیں۔ بعض پھول بہت چھوٹے ہوتے ہیں اور ان میں کوئ خوشبو نہیں ہوتی۔ لیک وہ اپنی پھلواری کو گچھوں کی شکل میں ظاہر کر کے من موہ لیتے ہیں۔
    اب دیکھیں اس مثال میں، پھول کو اپنی طلب پتہ ہےاسے کیڑے مکوڑوں کو اپنی طرف لانا ہے۔ اسے یہ معلوم ہے کہ اس میں کیا اسکی کمزوریاں ہیں اور وہ انہیں دور کرنے کے کیا طریقے اختیار کر سکتا ہے۔ اسکے علم میں اپنے کلائینٹس کی عادت و اطوار بھی ہیں۔ تو وہ اب اہل ہے کہ اسکے حل نکال سکے۔
    یہ ایک خاصہ پیچیدہ اور طویل موضوع ہے۔ اسے ایک پوسٹ میں رکھنا خاصہ مشکل ثابت ہوا۔ لیکن آپکے سوال اور ان پہ دیگر لوگوں کی رائے سے ہم اسے مزید آسان بنا سکتے ہیں۔
    جہاں تک سمجھوتوں اور انکی قیمت کا تعلق ہے اسے میرے خیال میں ایک الگ پوسٹ میں رکھنا چاہئیے کہ یہ اپنے طور پر ایک وسیع مضمون ہے۔
    محمد احمد، کچھ موضوعات کو سنجیدگی سے بیان کر دیا جائے تو وہ کم جگہ گھیرتے ہیں کاغذ پر اور ان میں پیچیدگیاں پڑنے کے امکانات کم ہوتے ہیں دماغ پر۔ آپکو تو معلوم ہوگا کہ ارتقاء کے نتیجے میں کاغذ اور دماغ کا بھی ایک تعلق پیدا ہو چکا ہے۔ اب دیکھیں اس پہ سیر حاصل بحث کرنے کی سعادت کس کے حصے میں آتی ہے۔
    :)

    ReplyDelete
  5. عمدہ لکھا ہے ۔۔
    آج کل دائیں بازو والے بھی آپ سے خوش ہیں

    ReplyDelete
  6. آپکی تحریر نہائت عمدہ اور اور کم از کم میری توقعات، جو اردو میں ایسے موضوعات پہ لکھنے کے لئیے آپ سے وابستہ ہیں، ان توقعات کے عین مطابق ہے۔

    اردو میں ایسی عالمانہ تحاریر بہت کم ہیں۔ امید ہے آپ یہ سلسلہ جاری رکھتے ہوئے اردو میں بہتر مواد میں یونہی اضافہ کرتی رہیں گی ۔آپ کی محنت کی داد نہ دینا ناانصافی ہوگی۔ موضوع پہ عمدگی سے گرفت رکھنے پہ میری طرف سے مبارکباد قبول ہو۔

    ReplyDelete
  7. عنیقہ صاحبہ،

    تحریر خشک ہونے کی بات میں نے از راہِ مذاق کہی تھی ورنہ اس تحریر کا مضمون واقعتا سنجیدہ ہے سو سنجیدگی کا متقاضی ہے اور آپ نے اس کے ساتھ بھرپور انصاف کیا ہے۔

    سمجھوتہ کے حوالے سے آپ کی بات واقعی درست ہے کہ یہ ایک منفی اصطلاح ہے اور ہمارا موضوع سمجھوتے کے بجائے مطابقت ہے۔ اپنے ماحول سے مطابقت ہر ذی روح کے لئیے ضروری ہے کہ اُس کی بقا کا راز اِسی میں مضمر ہے۔ پھولوں کی پولینیشن کی مثال اس ضمن میں اچھی ہے اور بھی جاندار اپنے ماحول کے ساتھ مطابقت اختیار کرتے ہیں، ان میں ایسے درختوں کی مثال لی جاسکتی ہے جن کی کوئی شاخ اگر دیوار سے ٹکرانے لگے تو بتدریج اپنا رخ موڑ لیتی ہے۔ اسی طرح گرگٹ اپنی رنگت بھی بدلتا ہے جسے ہم لوگ منفی تاثر دیتے ہیں لیکن وہ یہ تدبیر اپنی بقا اور تحفظ کے لئے استعمال کرتا ہے ۔ شاید "جیسا دیس ویسا بھیس" جیسی کہاوت گرگٹ کی اس صلاحیت کے طفیل ہی معرضِ وجود میں آئی ہے۔ گرگٹ میں یہ صلاحیت قدرت کی عطا کردہ ہے لیکن ہمیں اسے خودسے اجاگر کرنا ہوتا ہے ۔ ہمیں اس بات کو سمجھنا ہوتا ہے کہ کس طرح کے حالات میں ہمارا کیسا ردِ عمل معاملات کو بہتری کی طرف لے جائے گا اور کس بات کے نتائج اس کے برخلاف ہوں گے۔ بار بار ایک ہی طرح کی صورتحال سے گزر کر ہم اس قابل ہوجاتے ہیں کہ اپنے معاملات پچھلی تجربات کی روشنی میں بہتر انداز میں چلا سکیں۔

    میرا خیال ہے کہ اس سلسلے میں ایک اسپرنگ کی مثال بھی خوب رہے گی جسے اگر دبایا جائے تو وہ وقتی طور پر دب جاتا ہے لیکن جیسے ہی اس پر سے دباؤ ہٹا لیا جائے وہ واپس اپنی اصل حالت میں آجاتا ہے یہ صرف اُس کی لچک کے باعث ممکن ہوا کہ شدید دباؤ کے باوجود بھی وہ ٹوٹا نہیں اور حالات موافق ہونے تک اپنی بقا کا ضامن بنا۔ شاید یہی وہ وقتی مطابقت ہے جسے اختیار کر لینے میں کوئی حرج نہیں ہے۔ بات بہت طویل ہوگئی ہے باوجود اس کے کہ مجھے اس موضوع پر معمولی شُد بُد بھی نہیں ہے ۔بقول غالب:

    بک رہا ہوں جنوں میں کیا کیا کچھ
    کچھ نہ سمجھے خدا کرے کوئی

    ویسے انگریز تو یہ بھی کہتے ہیں کہ "اگر آپ کسی سے لڑ نہیں سکتے تو اُنہی میں شامل ہوجائیں" لیکن مجھے اس میں سے منافقت کی بو آتی ہے۔ آپ کا کیا خیال ہے۔

    ReplyDelete
  8. آپ کے جوابی تبصرے نے کچھ باتیں تو واضح کردی ہیں
    لیکن چند اور سوالات بھی پیدا کر دئیے ہیں
    فراغت میسر آنے پر ان کے بارے میں بھی کمنٹتا ہوں۔۔۔
    شکریہ۔۔۔

    ReplyDelete
  9. راشد کامران صاحب، ایک تعویذ لیا تھا لگتا ہے اثر دکھانا شروع کر دیا۔ مجھے خود یقین نہیں آرہا۔
    :):)
    یہ آپ نے درخت والی مثال بہت اچھی دی ہے۔ اور گرگٹ کی مثال دینے سے میں نے بھی اس لئیے اجتناب کی کہ یہ منفی اثر کی طرف جاتا ہے۔ اور یہ جو انگریز والی بات آپ نے کہی تو اسی کو الٹ کر شاید بش نے کہا تھا کہ یا تو آپ ہمارے دوست ہیں یا دشمن۔ یعنی اگر آپ ہمارے ساتھ شامل نہیں ہوسکتے تو ہم سے لڑنا پڑیگا۔اسی سے انکا ایموشنل کوشنٹ ظاہر ہوتا ہے۔ جس کے نتیجے میں ایک امریکی صدر کو ایک عراقی صحافی کے ہاتھوں سبکی اٹھانے کے بعد تاریخ میں نہ صرف جوتے کی نئ تاریخ مرتب کرنی پڑی بلکہ مغربی معاشرے کو اس مشرقی رواج کے بارے میں کما حقہ آگہی بھی ملی۔
    جعفر آپکے مزید سوالات کے منتظر ہیں۔

    ReplyDelete

آپ اپنے تبصرے انگریزی میں بھی لکھ سکتے ہیں۔
جس طرح بلاگر کا تبصرہ نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں، اسی طرح تبصرہ نگار کا بھی بلاگر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اس لئے اپنے خیال کا اظہار کریں تاکہ ہم تصویر کا دوسرا رخ بھی دیکھ سکیں۔
اطمینان رکھیں اگر آپکے تبصرے میں فحش الفاظ یعنی دیسی گالیاں استعمال نہیں کی گئ ہیں تو یہ تبصرہ ضرور شائع ہوگا۔ تبصرہ نہ آنے کی وجہ کوئ ٹیکنیکل خرابی ہوگی۔ وہی تبصرہ دوبارہ بھیجنے کی کوشش کریں۔
شکریہ