Showing posts with label مرد. Show all posts
Showing posts with label مرد. Show all posts

Wednesday, March 14, 2012

آپکی ہمدردی میں

مرد جب اپنے دکھ کی داستان سنانا شروع کرتا ہے تو وہ کسی ایک عورت کے متعلق نہیں ہوتی۔ بلکہ اس میں کئ عورتیں شامل ہوتی ہیں۔ سر فہرست اماں، بہنیں اور وہ یعنی بیگم۔  اس لئے کہا جاتا ہے کہ ناکام مرد کے پیچھے کئ خواتین ہوتی ہیں۔ ویسے یہ ایک پروپیگینڈہ ہے۔ اسکی صداقت کا اندازہ دنیا میں کامیاب مردوں کی تعداد سے لگایا جا سکتا ہے۔
خوفزدہ نہ ہوں یہ پوری تحریر مردوں کی ہمدردی میں لکھی گئ ہے۔
:)
کچھ لسانی ماہرین کا کہنا ہے کہ بیگم دراصل بے غم کی استعمال شدہ شکل ہے۔ لیکن ارتقاء  سے انحراف کرتے ہوئے، بیگم کے بھی غم ہوتے ہیں۔ بیگم کے غم مردوں کے متعلق نہیں بلکہ مردوں سے تعلق رکھنے والی عورتوں سے متعلق ہوتے ہیں یا پھر لان کے پرنٹس۔
وہ پوچھتے ہیں کہ اندرون خانہ مردوں پہ ظلم ہوتے ہیں انکا بھی سد باب ہونا چاہئیے۔ دو مرغوں اور ایک مرغی کو ایک دڑبے میں بند کر کے ایک طرف رکھ دیں اور پھر جب اس میں دھماچوکڑی ہو تو کہیں کہ  مرغوں نے بڑا پریشان کیا ہوا  ہے۔ نہ جناب یہ شکایت درست نہیں۔
لیکن پھر بھی ہم اصل وجہ سے صرف نظر کرتے ہوئے جو کہ ہمارا قومی خاصہ ہے۔ اس سلسلے میں مختلف مردوں کے آزمائے ہوئے گُر بتاتے ہیں۔
اگرایک مرد نے ابتدائ زندگی میں ہی اپنی صلاحیتیں استعمال کر کے دولت کا ایک انبار جمع کر لیا تھا یاوہ منہ میں سونے ، چاندی کا چمچ لے کر پیدا ہوا توہر دروازہ اس کے لئے کھلتا جائے گا۔ جو لوگ کہتے ہیں کہ دولت سے سکون نہیں خریدا جا سکتا۔ وہ ابھی جان لیں گے کہ انکا زندگی کا عملی تجربہ کتنا کم ہے۔
پیسہ پھینک تماشہ دیکھ کے مصداق،  بیگم کے اکاءونٹ میں فروری میں ایک خطیر رقم جمع کرادے اور خموشی سے اپنے کاموں میں لگ جائے۔ اب دیکھئیے کہ یہ وظیفہ کیسےاسے بے غم کرتا ہے۔
فروری کے مہینے سے نئ لان کے نمائش کے اشتہار آنا شروع ہوتے ہیں جو امید ہے کہ اپریل کے وسط تک جاری رہیں گے۔ بیگم اس دوران اس میں مصروف رہیں گی ۔ نمائیش سے کپڑے خرید کر درزی کو پہنچانا، اور انکے لئے میچنگ کی لیس خریدنا پھر درزی سے اسکے ڈیزائین پہ سیر حاصل بحث کرنا، اس سرگرمی کے بعد اتنا سرور رہے گا کہ اگر کوئ لڑنے پہ آمادہ ہو تو بھی اسکے منہ لگنے کو دل نہ چاہے گا۔ پہلا نشہ، پہلا خمار۔ نیا پیار ہے نیا انتظار، کیا کر لوں میں اپنا حال اے دل بے قرار۔  جینے کی امنگ پیدا ہوتی ہے صرف اس لئے کہ جب تک کپڑے بن کر آئیں ہم شگفتہ نظر آئیں۔ آخر لوگ ہمارا چہرہ ہی تو دیکھتے ہیں۔ 
اپریل کے درمیان میں نئ سرگرمی شروع ہوگی۔  درزی کے پاس سے کپڑے بن کر آئیں گے، پھر پہن کر انکی فٹنگ چیک ہوگی، اس دوران  سب کی بلا درزی کے سر پڑی رہے گی۔  کس کو فکر کے وہ سارا دن کس حرافہ کے ساتھ رہے۔
مئ کا مہینہ ان کپڑوں کی نمائیش کے لئے مختلف پارٹیز میں گذرے گا، ساتھ ہی ساتھ پارلر والوں کی بھی آمدنی میں اضافہ رہے گا۔ جون کے مہینے میں ساون کے کپڑوں کی تیاری ہو گی جولائ میں افطار پارٹیز اور عید کے کپڑوں کی تیاری۔ ستمبر میں مڈ سمر کے پرنٹ آجائیں گے۔ خزاں بہت چھوٹا سا مہینہ ہوتا ہے اس لئے اس دوران ہی سردیوں کے گرم کپڑوں کی تیاری شروع ہو گی۔ دسمبر، جنوری آجکل شادیوں کے لئے انتہائ مناسب خیال کئ جاتے ہیں اور جناب ایک بار پھر فروری آ گیا۔ پچھلے سال کے تجربے کے بعد اسے معلوم ہونا چاہئِے  کہ اب کیا کرنا ہے۔
بیگم جب بھی نئے کپڑے پہن کر سامنے آئیں تو شاندار کہنا نہ بھولیں، وقتاً فوقتاً معلوم کرتے رہیں کہ آج نیا جوڑا کیوں نہیں پہنا۔ بیگم کو زیادہ مصروف رکھنا ہو تو درزی یا پارلر والوں کے کاموں میں نقص نکال دیں اور انہیں درزی یا پارلر تبدیل کرنے کا مشورہ دے دیں۔ اگرسونے پہ سہاگا چاہتے ہیں تو جون جولائ کی چھٹیوں کے لئے بیوی اور اماں کو باہر بھیج دیں مگر خیال رکھیں کہ دونوں مختلف مقامات پہ جائیں۔
اگر آپ مڈل کلاس سے تعلق رکھتے ہیں تو اصل مصیبت آپکے لئے ہے۔ یہاں آکر ہم مردوں کو تین جماعتوں میں تقسیم کر سکتے ہیں۔ عقل مند روائیتی مرد، بے وقوف روائیتی مرد اور غیر روائیتی مرد۔
عقل مند روائیتی مرد کمپیوٹر پہ مصروف رہتا ہے۔ چاہے وہ فیس بک پہ چیٹنگ ہی کیوں نہ ہو۔ لیکن شکل ایسی بنا کر رکھیں گے کہ کوئ اہم پروجیکٹ چل رہا ہے۔  اگر یہ پروجیکٹ بر وقت مکمل نہ ہوا تو گھر والوں کو آٹے دال کا بھاءو پتہ چل جائے گا۔ لہذا بیوی کو یہ شکایت نہیں رہتی کہ اماں کے پاس زیادہ وقت گذارتے ہیں، بہنوں کی فکر میں مرے جاتے ہیں اور نہ اماں بہنوں  کو یہ شکوہ رہتا ہے کہ شادی کے بعد ایک دم بیوی کا غلام ہو گیا ہے۔ ہم تو سوچ بھی نہ سکتے تھے یہ ایسا نکلے گا۔ شادی سے پہلے تو یوں ہوا کرتا تھا۔ یہ سب چالاکیاں بیوی کی سکھائ ہوئ ہیں۔ ایک کمپیوٹر ہزار بلائیں ٹالتا ہے۔
بے وقوف روائیتی مرد تعداد میں سب سے زیادہ ہوتے ہیں یہ سمجھتے ہیں کہ بس واقعی میں کائینات کی لگامیں انکے ہاتھ میں ہیں اور اگر کوئ چیز انکے قابو میں نہیں آئ تو اس سے انکی مردانگی کو بھاری نقصان پہنچے گا۔ نتیجتاً انکی کمزوری یعنی مردانگی کو ہر فریق نشانہ بنائے رکھتا ہے اور انکا ہر دن روز عذاب بنا رہتا ہے۔ یہ اپنی روائیت پسندی چھوڑ نہیں سکتے اس لئے اس حالت میں صبح ہوتی ہے شام ہوتی ہے عمر یونہی تمام ہوتی ہے۔ مرتے وقت بھی فکر رہتی ہے کہ مر کے بھی چین نہ پایا تو کدھر جائیں گے۔ لیکن پھر بھی انکے لئے حوروں کی تسلی ایک قوی امید ہوتی ہے بیگم کو کبھِ کبھی اسکی دھمکی بھی دینے کی کوشش کرتے ہیں مگر بیگم کا رد عمل ایسا ہی ہوتا ہے کہ ہونہہ جا کر تو دکھاءو، دوسرے ہی دن بھاگ جائے گی اس سے تو دوزخ ہی بھلا۔ ان میں سے جو زیادہ چھوٹے دل ہوتے ہیں وہ بہتر حوروں والا راستہ لیتے ہیں۔
غیر روائیتی مرد کو ان سب باتوں کی کیا فکر۔ وہ اور انکی بیگم ایک ساتھ صبح گھر سے نکلتے ہیں۔ بچوں کو اسکول چھوڑتے ہوئے اپنے اپنے آفس کو روانگی۔ اب سارا دن گھر میں امّاں کا راج۔ شام کو بیگم کی اماں کے گھر سے بچوں کو لیتے ہوئے گھر پہنچے۔ یہاں آ کر خاتون خانہ بچوں کو نہلانے دھلانے، ہوم ورک کرانے اور رات کے کھانے کے چکروں میں ایسا الجھیں گی کہ انہیں پتہ ہی نہیں چلے گا کہ شوہر صاحب کتنی دیر اماں کے پاس بیٹھے رہے۔ اماں کو بھی یک گونہ تسلی رہتی ہے کہ بیٹے کی آمدنی بیگم کے نخرے اٹھانے میں خرچ نہیں ہو رہی۔
آخیر میں بچ جاتے ہیں غریب مرد۔  یہ فساد اور جھگڑے تو انکی زندگی کی رونق اور تفریح ہیں۔ زندگی کی تلخی کو مزید تلخیوں سے ملاتے ہیں اور یہ اکثر ان مردوں کے بارے میں سوچ کر حیران ہوتے ہیں کہ یہ کیسے مرد ہیں جو لڑے بغیر یا کسی لڑائ میں پڑے بغیر اپنی زندگی گذارتے ہیں۔ یہ جینا بھی کوئ جینا ہے للّو۔ ڈو نہ کیا تو پھر کیا جیا۔

Thursday, October 13, 2011

حجاب، جزاک اللہ

جب ہم نے کینیڈا کےحسین شہر کیوبک سٹی میں سیاحوں کی رہنمائ کرنے والے ادارے سے معلوم کیا کہ  شہر میں جاری میلے کی کیا نوعیت ہے اور ہمیں کیا کرنا چاہئیے تو اس نے بتایا کہ میلہ شہر کے پرانے حصے میں ہو رہا ہے۔ کیوبک سٹی کی مشہور آبشار پہ آج رات سالانہ آتشبازی کا خوبصورت مظاہرہ ہونے والا ہے لیکن گاڑی پارک کرنے کے لئے آپکو وہاں کم از کم ڈیڑھ گھنٹہ پہلے پہنچنا ہوگا۔ اسکے علاوہ پرانے شہر میں آج ایک سرکس بھی ہو رہا ہے ہر سال ہوتا ہے اور یہ نہ صرف مفت ہوتا ہے بلکہ بہت شاندار۔
ہم نے آتشبازی پہ سرکس کو ترجیح دی، اسکی وجہ پھر کسی تحریر میں۔ ہم وقت سے آدھ گھنٹہ پہلے وہاں موجود تھے۔ لوگوں کا ایک جم غفیر۔ جہاں تک نظر اٹھائیں لوگ نظر آرہے تھے۔ اسکا انتظام ایک فلائ اوور کے نیچے کیا گیا تھا۔ ہر عمر کے عورت مرد اور بچے موجود۔
میں ایک پاکستانی خاتون دھڑکتے دل کے ساتھ وہاں موجود کہ یا الہی کہاں پھنس گئے۔ عورتوں کے لئے کوئ الگ انتظام نہیں۔ سب لوگ کھڑے ہیں، بیٹھنے کی بھی جگہ نہیں۔
مگر پھر غور کیا، میرے اردگرد کوئ بھی عورت ہراساں نہیں تھی۔ ہر طرح کی سیاح عورتیں، مقامی فرانسیسی نسل کی حسین عورتیں، مختصر ترین کپڑوں میں اوراٹھارہویں صدی کے طویل عریض کپڑوں میں۔ سب خوش، بے فکر۔ پھر میرا دل کیوں دھڑک رہا تھا کہ ابھی کوئ چلتے چلتے ہاتھ نہ مار دے، چٹکی نہ لے لے، کوئ فحش بات کہتا ہوا نہ گذر جائے اور نہیں تو یہ ہی نہ کہہ ڈالے کہ دوپٹہ سر سے اوڑھو۔
شو شروع ہونے سے پہلے گھپ اندھیرا کر دیا گیا اب صرف سرکس والوں کی روشنیاں دائرے میں گھوم رہی تھیں۔ لیکن سب لوگ اب بھی مطمئن، میرے علاوہ کوئ بھی بے چین نہ تھا۔ اوہ خدا، اندھیرا، اتنے مرد و عورت ایک جگہ پہ۔ آخر یہاں آنے کی ضرورت ہی کیا تھی۔ ایک گھنٹے بعد یہ واقعی شاندار سرکس ختم ہوا۔ سوائے جانوروں کی پرفارمنس کے اس میں سب کچھ تھا اور پرفارمرز کی شاندار پرفارمنس وہ بھی مفت۔ کوئ نا خوشگوار واقعہ پیش نہ آیا کوئ عورت کسی مرد کو ڈانٹتی پھٹکارتی نظر نہ آئ اور نہ خواتین نےخود بخود اپنا ایک الگ گروہ قائم کیا۔ ہلکی سی روشنی ہوئ۔
اب یقیناً نکلتے ہوئے دھکے لگیں گے۔ یا اللہ اب کیا ہوگا۔ اس ہجوم میں تو میرے ساتھی بھی نجانے کہاں گم ہو گئے، میرے ہمراہ نہیں۔ میں ہجوم کے ساتھ اپنی بچی کے اسٹرولر کو آہستہ آہستہ دھکا دیتی، محتاط انداز میں باہر روڈ پہ نکل آئ۔ درحقیقت کچھ بھی نہ ہوا۔ کوئ عورت گھبرائ ہوئ، سراسمیہ نہ تھی۔ دس منٹ بعد وہ جگہ ایسے صاف تھی جیسے یہاں کچھ  ہوا ہی نہ تھا۔ لیکن شاید خوف پاکستانی عورت کے اندر گوندھ دیا جاتا ہے۔
اسکے کچھ عرصے بعد میں پاکستان روانہ ہوئ۔ جہاز میں میری پڑوسی خاتون ، اپنے تین بچوں  اور شوہر کے ساتھ پشاور جا رہی تھیں۔ لگ بھگ پینتالیس کی پر کشش خاتون۔ ریشم کے نفیس کپڑوں اور گلے میں شیفون کا دوپٹہ ڈالے ہوئے۔ سفیدی مائل ہاتھوں پہ عنابی نیل پالش لگی ہوئ۔ بال تراشے ہوئے۔ کینیڈا میں گذشتہ دس سال سے مقیم، روزانہ اپنے بچوں کو خود ہائ وے کی پندرہ منٹ ڈرائیو کر کے اسکول پہنچانے والی خاتون۔ وہ تین سال بعد اپنی بیمار والدہ کو دیکھنے جا رہی تھیں۔  انہیں ایک دن اسلام آباد کے ایک ہوٹل میں رکنا تھا اور پھر وہاں سے پشاور روانگی تھی۔
پائلٹ نے اعلان کیا کہ آئیندہ دس منٹ میں ہم اسلام آباد ائیر پورٹ پہ اترنے والے ہیں۔ انہوں نے اپنا ہینڈ بیگ کھولا شیفون کا دوپٹہ لپیٹ کر اس میں رکھا اور ایک بڑی سی چادر نکال  کر اسے اچھی طرح اپنے گرد لپیٹ لیا۔
کفار کے مردوں کے درمیان گلے میں دوپٹہ ڈال کر پھرنے والی خاتون نے اسلامی جمہوریہ پاکستان میں ایک بڑی سی چادر نکال لی۔  حالانکہ ہمارے ملک میں سرکاری طور پہ اسکی کوئ پابندی نہیں۔ اور اسلام آباد ملک کا دارالخلافہ بھی ایسی کوئ ثقافت نہیں رکھتا۔
میں کراچی ایئر پورٹ پہ اترتی ہوں۔  میں نوٹ کرتی ہوں کہ اکثرمردوں کی نظریں خواتین کا بڑی دور تک تعاقب کرتی ہیں۔ اس سے فرق نہیں پڑتا کہ وہ اسکارف لئے ہوئے ہیں یا جینز شرٹ میں ہیں۔ میری بچی بھاگ کر اپنے باپ سے لپٹ جاتی ہیں۔ میرے شوہر مجھ سے ہاتھ ملاتے ہیں اور میرا ماتھا چومتے ہیں۔ لوگ اس منظر میں بھی بڑی دلچسپی لیتے ہیں۔ میں ہمیشہ اس پہ خجل ہو جاتی ہوں۔ حالانکہ وہ اسی طرح اپنی ماں اور بہنوں کا بھی استقبال کرتے ہیں۔ کیونکہ انکی زندگی کا بیشتر حصہ پاکستان سے باہر گذرا ہے۔
شہر میں داخل ہوتی ہوں۔  روڈ پہ بڑے بڑے بینرز لہرا رہے ہیں۔ عالمی یوم حجاب، چار ستمبر۔ اسکے چند دن بعد جب ملک میں عافیہ ڈے منایا جا رہا تھا۔ کراچی سے محض چند سومیل کے فاصلے پہ لاکھوں افراد سیلاب کے پانی میں گھرے ہوئے تھے۔ سیلاب جس نے انکی عورتوں کو گھر کی چار دیواری سے باہر لا کھڑا کیا تھا۔ کھلے آسمان کے نیچے پانی سے پناہ تلاش کرتی عورتیں، اپنی بقاء کی جنگ لڑتے ہوئے پاکستانی عوام سے حجاب کی نہیں کھانے کی طلبگار ہیں۔ یاد رہے یہ وہ ملک ہے جہاں پچھلے سال بھی سیلاب آیا تھا اور اگلے سال بھی آنے کی توقع ہے۔ اب وہی عالمی یوم حجاب منانے والے عوام سے اس آفت کے شکار لوگوں کے لئے صدقہ خیرات مانگ رہے تھے۔ انہوں نے پچھلے سال بھی مانگا اور امید ہے اگلے سال بھی مانگیں گے۔
ادھر نیٹ کی دنیا میں مختلف فورمز پہ مرد حضرات اس بات پہ اتنے متفکر نہیں کہ آخر سیلاب جیسی قدرتی آفات سے لڑنے کے لئے بھیک مانگنے، لوگوں کو بھیک کا عادی بنانے  اور بھیک بانٹنے کے بجائے کوئ باوقار منصوبہ بندی کی جائے۔ مردوں کی ایک بڑی تعداد جن ویڈیوز اور تصویروں کو ایکدوسرے سے شیئر کررہی ہے، پسندیدگی کے لئے کلک کر رہی ہے، جزاک اللہ کے نعرے بلند کر رہی ہے وہ خواتین کے حجاب کے متعلق ہے۔ مردوں کا یہ جوش و خروش دیکھ کر حیرانی بھی ہوتی ہے، ہنسی بھی آتی ہے اور تشویش بھی ہوتی ہے۔ کہتے ہیں جب روم جل رہا تھا تو نیرو بیٹھا بانسری بجا رہا تھا۔ کارواں کے دل سے احساس زیاں جاتا رہا۔


 

ایک ایسی ہی ویڈیو پہ جس میں یہ پیغام دینے کی کوشش کی گئ تھی کہ جینز اور شرٹ میں ملبوس خواتین کی مرد عزت نہیں کرتے بلکہ اسکارف اور عبایہ پہننے والی خواتین کی عزت کرتے ہیں اور اس طرح حجاب کرنے والی خواتین مردانہ دسترس سے محفوظ ہوتی ہیں۔ میں نے پوچھا کہ کیا وجہ ہے کہ مغربی معاشرے میں جہاں خواتین مختصر ترین کپڑوں میں پھر رہی ہوتی ہیں  وہاں کے مرد ایسی نظریں جمائے نہیں بیٹھے ہوتے ہیں جیسی ہمارے یہاں اچھے خاصے کپڑے پہنے ہوئے خاتون پہ بیٹھے ہوتے ہیں۔ جواب ملتا ہے اس لئے کہ وہاں  مرد اتنی پھیلی ہوئ فحاشی کی وجہ سے اسکے عادی ہو گئے ہیں۔ میں نے وہاں یہ جواب دینے سے گریز کیا کہ پھر کیا حرج ہے کہ یہاں  بھی مردوں کو عادی بنانے کے لئے فحاشی پھیلا دی جائے۔ تاکہ وہ کچھ دوسرے مسائل پہ بھی یکسو ہو کر توجہ کر سکیں۔
خواتین کی بے حیائ اور حجاب کے ان نعروں پہ تقاریر لکھنے والے مرد حضرات اکثر سب کے سب مغرب کی عورت کی تصویریں دیتے ہیں اور انکے معاشرے کا رونا روتے ہیں مگر یہی مرد حضرات اپنے ملک کی عورت کی تصاویر دیکھنے سے محروم رہتے ہیں۔ اور مسلسل اس عالم تبلیغ میں یوں لگتا ہے کہ پاکستان میں دنیا کی بے حیا ترین خواتین پائ جاتی ہیں اور دنیا کے سب سے زیادہ غیرت مند مرد۔ ایک ناقابل یقین، مگر کلنگ کامبینیشن۔
یہ سب چیزیں تو اب روز کے قصے ہیں۔ مجھے کچھ عرصہ پہلے ایک جرمن سے اپنی گفگتو یاد آتی ہے یہ اس وقت کی بات ہے جب میں دنیا کے حقائق سے ناآشنا ایک ٹین ایجر ہی تھی اور میں نے اس سے بڑے فخر سے کہا تھا ہمارے یہاں عورت کو عزت حاصل کرنے کے لئے اپنی صلاحیت اور علم کا زور نہیں دکھانا ہوتا اسے عزت ملتی ہے کیونکہ وہ ایک عورت ہے۔ مجھے لگا تھا کہ اس نے حیرانی سے میری بات سنی۔ مگر اب احساس ہوتا ہے اس نے سوچا ہوگا، اونہہ کنوئیں کے مینڈک۔
حقیقت یہ ہے کہ اس پاکستان میں عورت کو صرف دوپٹے، اسکارف اور عبایہ کی وجہ سے عزت ملتی ہے۔ اگر ایک عورت رات کو محفل شراب میں مصروف رہے لیکن صبح اپنے سر پہ دوپٹہ جما کر نکلے تو اس سے زیادہ قابل عزت عورت کوئ اور نہیں وہ بھی نہیں  جو آپکے بچوں کا علاج کرتی ہو، انہیں تعلیم دیتی ہو آپکے مسائل کے حل کے لئے کوشاں ہو بس دوپٹہ سر پہ نہ لیتی ہو۔ یہی وجہ ہے ہماری پارلیمنٹ میں موجود خواتین ارکان کی اکثریت ملکی مسائل پہ کام کرنے کے بجائے ہمہ وقت اپنے دوپٹے صحیح  کرتی نظر آتی ہے۔
یہی وجہ ہے کہ جب پنجاب کی ایک تعلیمی درسگاہ میں نقاب پوش مرد لوہے کے  سرئیے لے کر اندر گھس جاتے ہیں تو قابل تشویش بات ان مردوں کا اندر گھس کر ان بچیوں کو ہراساں کرنا نہیں ہوتا بلکہ اس خبر پہ پنجاب کے رہنے مرد کا یہ تبصرہ ہوتا ہے کہ کیا ہوا اگر کچھ مردوں نے بے حیائ روکنے کے لئے یہ حرکت کر ڈالی۔
ویسے یہ بھی بڑا عجیب مشاہدہ ہے کہ خواتین کے حجاب کے سلسلے میں جس صوبے کے لوگ سب سے زیادہ چست نظر آتے ہیں وہ پاکستان کا صوبہ  پنجاب ہے۔
آئیے آج میں آپکو حقیقی پاکستانی خواتین کی تصویریں بھی دکھاتی ہوں۔ جنہیں دیکھنے سے حجاب کی مہم میں پیش پیش افراد شاید محروم ہیں۔ انہیں دیکھیئے اور بتائیے کہ کیا اس ملک کی عورت کو عالمی یوم حجاب کی ضرورت ہے۔ کیا اسے یہ چاہئیے کہ فرزند زمین حجاب کی ویڈیوز کو شیئر کریں ، فارورڈ کریں اور ان پہ جزاک اللہ کہیں۔
















Friday, June 17, 2011

زر، زمین، زن

کہتے ہیں  دنیا میں تمام جھگڑوں کا باعث تین چیزیں ہیں۔ زر، زمین اور زن۔ مجھے نہیں معلوم کہ نظریاتی اور مذہبی جھگڑے انکے درمیان کہاں فٹ ہوتے ہیں۔ اس لئے ممکن ہے کہ یہ مقولہ، معاشرتی جھگڑوں پہ زیادہ جچتا ہو۔ 
آپ میری اس رائے سے اختلاف کریں یا انکار، اس سے فرق نہیں پڑتا۔ کیونکہ جھگڑے اپنی رفتار سے جاری ہیں اور جاری رہیں گے۔ آج ایک وجہ کو ختم کریں کل کسی اور نام سے اٹھ کھڑے ہونگے۔ اس لئے عقلمند لوگ، پرانے جھگڑے نہیں نبٹاتے۔  یہ جتنے پرانے ہوں، اتنی ہی مہارت سے لٹکائے رکھے جا سکتے ہیں۔ یوں بہت سے لوگوں کی دانش اور مہارت کا سکہ جما رہتا ہے۔ اگر پرانے جھگڑے  فی الفور نبٹا دئیے جائیں۔ تو ہر نئے جھگڑے پہ نئ مہارت حاصل کرنی پڑے گی۔ اس سے ارتقاء کی رفتار بڑھ جانے کا اندیشہ ہوگا۔ جس سے نئ مخلوقات سامنے آئیں گی۔ وہ دعوی کریں گی کہ یہ  جھگڑا ہمارا ہے اور ہم اسے بہتر طور پہ حل کر سکتے ہیں۔ لیجئیے  پھر نسلی تفاخر کی جگہ بننا مشکل ہو جائے گی۔ اس طرح، معاشرے کے تارو پود بکھر جانے کا خطرہ پیدا ہو جائے۔
تارو پود کے بکھرنے  سے ، غریب، ترقی پذیر معاشروں کو سب سے زیادہ ڈر لگتا ہے۔ کیونکہ ان تاروں کے بکھرنے میں  تبدیلی کا کرنٹ بہتا ہے۔ انہیں واپس انہی بنیادوں پہ ایستادہ نہیں کیا جا سکتا۔ جس سے پرانے جھگڑے مر جاتے ہیں۔ اتنے مانوس صیاد سے ہو گئے ہیں اب رہائ ملی تو مر جائیں گے۔  اور پود کے متعلق مجھے بھی کچھ اندیشہ ہائے دراز لا حق ہیں۔ پورب جاءو یا پچھم، وہی کرم کے لچھن۔

اس سلسلے کو یہیں فل اسٹاپ لگا کر اپنے اصل موضوع کی طرف واپس آتے ہیں۔ زر، زمین اور زن۔
پچھلے دنوں میں نے دوتحریریں پڑھیں۔ ایک مصری  ادیب علاء الاسوانی کی کہانی اور دوسرے ایک پاکستانی ادیب محمد اقبال دیوان کی کہانی۔ ایک کے پیچھے مصر  کا پس منظر اور اسکے سیاسی، معاشی و معاشرتی حالات جھانک رہے ہیں اور دوسرے میں پاکستان اپنی انہی تلخ حقیقتوں کے ساتھ موجود ہے۔ لیکن ان دو تحریروں میں ایک چیز مشترک لگتی ہے وہ مرد کا عورت سے رشتہ۔ اور یوں لگتا ہے دنیا کا  ہر انقلاب ان دونوں کے اس رشتے سے ہو کر گذرتا ہے۔ تو کیا دنیا کا ہر جھگڑا زر، زمین اور زن کے گرد گھومتا ہے۔
میری تو خواہش تھی کہ اقبال دیوان کی کہانی کو پورا ڈال دیتی ہے۔ کہ اس میں آجکا پاکستان جھلکتا ہے۔ لیکن یہ تیس صفحوں پہ مشتمل ہے۔
علاء الاسوانی کی تحریر کے ساتھ بھی کچھ ایسا ہی مسئلہ ہے۔ اس لئے دونوں کہانیوں کے کچھ صفحات کے اسکین شدہ حصے ہی مل پائیں گے۔ آج مصری ادیب کو پڑھیں۔ مصر کی تہذیب میں ویسے ہی  بڑی سحر انگیزیاں ہیں اسکے ادیب کا سحر دیکھیں۔ یہ حصہ انکے ناول عمارت یعقوبیان کے  دوسرے باب سے ترجمہ کیا گیا ہے۔ مترجم ہیں محمد عمر میمن۔  شائع ہوا ہے دنیا زاد میں۔ اب دنیا زاد والوں کو مجھے اپنے ایڈورٹائزنگ سیکشن کاحصہ سمجھنا چاہئیے۔
:)




یہ اسکین شدہ صفحات ہیں۔ بہتر طور پہ پڑھنے کے لئے تصویر پہ کلک کیجئیے۔

Monday, May 30, 2011

مستی

سارے رند اوباش جہاں کے تجھ سے بے خود میں رہتے ہیں
بانکے ، ٹیڑھے، ترچھے، تیکھے سب کا تجھ کو امام کیا
شیخ جو ہے مسجد میں ننگا، رات کو تھا مے خانے میں
جبہ، خرقہ، کرتا، ٹوپی، مستی میں انعام کیا




Tuesday, April 19, 2011

تُف ہے

خبر محض خبر نہیں ہوتی۔ ہر خبر اپنے معاشرے کی بہترین عکاس ہوتی ہے۔ جیسے آدم خور خاندان کی خبر۔ رپورٹ کہتی ہے کہ صرف دو تین لوگ نہیں بلکہ پورا خاندان مردہ انسانوں کو کھانے میں دلچسپی رکھتا ہے۔ عرصے سے یہ فعل انکے یہاں جاری تھا۔   خاندان کے ایک بچے نے کہا کہ ماں باپ کی علیحدگی کے بعد میرا باپ میرے جسم کے نازک حصوں کو مجروح کرتا تھا۔ بڑے ہو کر اسے لگا کہ اسکی مردانہ قوت کم ہے سو اس نے مردہ انسانوں کا گوشت کھانا شروع کیا۔ بہر حال  رپورٹ لکھنے والے صحافی کے خیال میں ابھی بھی یہ ایک معمہ ہے کہ وہ مردہ انسانی گوشت کیوں کھاتے تھے اور کیوں انکے ارد گرد کے لوگوں نے اتنے لمبے عرصے سے پولیس کو اسکی رپورٹ نہیں کی۔
 دوسری خبر اپنے بلاگستان سے ملی یہ لڑکیوں کے کنوارے ہونے سے متعلق ہے۔ جیسا کہ مجھے توقع تھی کہ یہاں پہ یہ ، یہ لوگ موجود ہونگے اور یہ تبصرے ہونگے۔ عین وہی ہوا۔ لیکن حیرانی مجھے وہاں موجود دو تبصروں پہ ہوئ۔
ایک عبداللہ نامی مبصر، جنہوں نے ایک دلچسپ سوال رکھا کہ خواتین کے کنوارے ہونے پہ جتنی دلچسپی دکھائ جارہی ہے اتنی مردوں کے کنوارے ہونے کے ٹیسٹ کے بارے میں کیوں نہیں ہے۔  یہ مخصوص قبائلی مزاج کا طبقہ اس بات کا جواب دینے سے قاصر ہے۔ کیونکہ بات ہے سمجھ کی یہ وہی طبقہ ہے جو مردوں کی بے راہروی پہ تو فخر فرماتا ہے اور عورت کے حیادار ہونے پہ زور ڈالتا رہتا ہے۔
تف ہے ایسی ذہنیت پہ اور اسکو پروان چڑھانے والوں پہ۔ اور اگر کوئ منصف خدا موجود ہے تو اسے ایسے لوگوں کو انکے قرار واقعی انجام کا مناسب بندو بست کر کے رکھنا چاہئیے۔
خواتین کے کنوارپن کی شادی کے وقت تصدیق ہونی چاہئیے اور مردوں کی نہیں۔ انہیں چھوٹ ہے  وہ جتنے استعمال شدہ ہوں چاہے جائز یا ناجائز طریقے سے انکا کنوارہ ہونا ضروری نہیں ہے۔ واہ، جناب واہ ، آپکی انہی اداءوں پہ درے لگانے کو دل کرتا ہے۔
دوسرا تبصرہ ایک ڈاکٹر صاحب کا ہے۔ حیرت ہے انہوں نے کس ادارے سے میڈیکل کی ڈگری لی ہے۔ میں پی ایم اے والوں سے گذارش کروں گی کہ وہ ایسے ڈاکٹرز کو جو مسیحا ہونے کے نام پہ دھبہ ہیں اور جو انسانیت تو دور اپنے علم سے ہی پوری طرح واقف نہیں انہیں اس طرح کی اہم ڈگریاں دینے سے گریز کرے۔
در حقیقت یہ بات کوئ بھی ڈاکٹر بتا سکتا ہے کہ خواتین کےکنوارے ہونے کے لئے جو خصوصیت بتائ جاتی ہے وہ جہالت پہ مبنی ہے اور بعض خواتین میں یہ محض معمولی بھاگ دوڑ سے ختم ہو سکتی ہے۔
 میرے علم میں بھی یہ بات داکٹر شیر شاہ کے ایک مضمون کے حوالے سے آئ جو نہ صرف پاکستان کے مایہ ناز گائناکولوجسٹ ہیں بلکہ دنیا کے ان بہترین سو گائناکولوجسٹس میں شامل ہیں جنہوں نے اپنی کمیونٹی کی خواتین کی صحت اور ترقی کے لئے نمایاں خدمات انجام دی ہیں۔
اگر ڈاکٹر شیر شاہ جیسے لوگوں سے دنیا واقف نہ ہوں اور صرف اس بلاگ کے لکھنے والے سے یا اس  پہ تبصرہ کرنے والے مردوں سے ملے ہوں تو انکے نزدیک پاکستان صرف ایسے مردوں پہ مشتمل ہوگا جہاں حیوان رہتے ہیں۔
پردہ ءبکارت یا اس سے منسلکہ تمام متھس، قبائلی اقوام کی خصوصیت ہیں۔ صرف یوروپ کے قبائل ہی نہیں ، عرب کے بیشتر قبائل اور پاکستان کے بھی قبائلی علاقوں میں عورت کو اس امتحان سے گذرنا پڑتا ہے۔
البتہ جیسا کہ قبائلی اقوام کی شان ہوتی ہے مردوں کو نیکی کے کسی ایسے امتحان سے نہیں گذرنا ہوتا۔ وہ خدا کے پاس ایڈوانس میں نیکیاں جمع کرا کے آئے ہوتے ہیں۔ ان سے پوچھا جائے کہ تم کنوارے ہوں تو جواب ملے گا کہ ہماری مرضی ہم بتائیں یا نہ بتائیں۔ سوال پوچھنے والا البتہ روشن خیال کی گالی سے نوازا جائے گا۔
یہی وجہ ہے کہ ان تمام قبائلی علاقوں کے مرد تو ہر طرح کی عیاشی کر سکتے ہیں مگر انکی عورتیں قابل ترحم زندگی گزارتی ہیں۔ وہ اپنے پوشیدہ امراض کے متعلق کسی عورت تک کو بتانے سے گھبراتی ہیں۔ کیا یہ بات قابل ترحم نہیں کہ ایک عورت اپنے پردء بکارت کا آپریشن کرانے بیٹھی ہو تاکہ اسکی قدر و قیمت برقرار رہے چاہے اسکے حصے میں آنے والا مرد دنیا کا اوباش ترین مرد ہو۔
اگر زانی مرد کسی عورت کے حصے میں آتا ہے تو قرآن کی یہ آیت دہرا دی جاتی ہے کہ زانیوں کے لئے زانی۔ حالانکہ زندگی کا ہلکا سا تجربہ رکھنے والے لوگ بی جانتے ہیں کیسی کیسی پردے دار متقی عورتوں کے شوہر کس قدر آوارہ نکلے۔ اور کیسے کیسے متقی مرد عورت کے معاملے میں آزمائے گئے۔ کیا واقعی یہ لوگ تفیہم قرآن سے واقف ہیں؟
  میں اس بلاگ کو پڑھ کر اسکے تبصروں کو جان کر اب تک حیران ہوں کیا جہالت کی کوئ انتہا ہو سکتی ہے۔ کوئ نہیں ہو سکتی۔ نیکی کی انتہا ہو سکتی ہے مگر بدی کی نہیں۔
حضرت عمر کے پاس ایک صاحب آئے اور کہنے لگے کہ میری بیٹی کنواری نہیں ہے اسکی شادی ہونے جارہی ہے کیا میں اسکے ہونے والے شوہر کے علم میں یہ بات لے آءوں۔ آپ نے فرمایا جس بات کا پردی اللہ نے رکھا اسے تمہیں بتانے کی ضرورت نہیں۔ حتی کہ رسول اللہ نے اپنے آخری خطبے میں کہا کہ بچہ جسکے بستر پہ پیدا ہو گا اس کا کہلائے گا۔
صاحب بلاگ کی اس تحریر اور اسکے اعلی تبصروں کی وجہ سے اگر کسی عورت کی زندگی تباہ ہوتی ہے تو یقیناً اسکا گناہ ان سب لوگوں کے سر ہوگا۔ خدا ہمیں انفرادی دین کی اس برتری کے جذبے سے محروم رکھے جو معاشرے کو بدی کا گڑھ بنادیں۔   اللہ ہمیں لوگوں کی زندگی میں آسانی پیدا کرنے کی توفیق دے۔ آمین۔
یہ وہ دعا ہے جو اکثر اشفاق احمد مرحوم مانگا کرتے تھے اور عجیب بات یہ ہے کہ اسکے سنگین تبصرہ نگاروں میں بابا اشفاق احمد کے چاہنے والے بڑی تعداد میں ہیں۔ ہائے نام نہاد عاشق، عاشق تو دور صرف انسان ہی بن جائیں تو بہت۔
اور ہاں،  اب ہمیں اس بات پہ تو قطعاً حیران نہیں ہونا چاہئیے کہ اس آدم خور گھرانے کی خبر ایک لمبے عرصے تک کیوں نہیں ہو سکی۔