مرد جب اپنے دکھ کی داستان سنانا شروع کرتا ہے تو وہ کسی ایک عورت کے متعلق نہیں ہوتی۔ بلکہ اس میں کئ عورتیں شامل ہوتی ہیں۔ سر فہرست اماں، بہنیں اور وہ یعنی بیگم۔ اس لئے کہا جاتا ہے کہ ناکام مرد کے پیچھے کئ خواتین ہوتی ہیں۔ ویسے یہ ایک پروپیگینڈہ ہے۔ اسکی صداقت کا اندازہ دنیا میں کامیاب مردوں کی تعداد سے لگایا جا سکتا ہے۔
خوفزدہ نہ ہوں یہ پوری تحریر مردوں کی ہمدردی میں لکھی گئ ہے۔
:)
کچھ لسانی ماہرین کا کہنا ہے کہ بیگم دراصل بے غم کی استعمال شدہ شکل ہے۔ لیکن ارتقاء سے انحراف کرتے ہوئے، بیگم کے بھی غم ہوتے ہیں۔ بیگم کے غم مردوں کے متعلق نہیں بلکہ مردوں سے تعلق رکھنے والی عورتوں سے متعلق ہوتے ہیں یا پھر لان کے پرنٹس۔
:)
کچھ لسانی ماہرین کا کہنا ہے کہ بیگم دراصل بے غم کی استعمال شدہ شکل ہے۔ لیکن ارتقاء سے انحراف کرتے ہوئے، بیگم کے بھی غم ہوتے ہیں۔ بیگم کے غم مردوں کے متعلق نہیں بلکہ مردوں سے تعلق رکھنے والی عورتوں سے متعلق ہوتے ہیں یا پھر لان کے پرنٹس۔
وہ پوچھتے ہیں کہ اندرون خانہ مردوں پہ ظلم ہوتے ہیں انکا بھی سد باب ہونا چاہئیے۔ دو مرغوں اور ایک مرغی کو ایک دڑبے میں بند کر کے ایک طرف رکھ دیں اور پھر جب اس میں دھماچوکڑی ہو تو کہیں کہ مرغوں نے بڑا پریشان کیا ہوا ہے۔ نہ جناب یہ شکایت درست نہیں۔
لیکن پھر بھی ہم اصل وجہ سے صرف نظر کرتے ہوئے جو کہ ہمارا قومی خاصہ ہے۔ اس سلسلے میں مختلف مردوں کے آزمائے ہوئے گُر بتاتے ہیں۔
اگرایک مرد نے ابتدائ زندگی میں ہی اپنی صلاحیتیں استعمال کر کے دولت کا ایک انبار جمع کر لیا تھا یاوہ منہ میں سونے ، چاندی کا چمچ لے کر پیدا ہوا توہر دروازہ اس کے لئے کھلتا جائے گا۔ جو لوگ کہتے ہیں کہ دولت سے سکون نہیں خریدا جا سکتا۔ وہ ابھی جان لیں گے کہ انکا زندگی کا عملی تجربہ کتنا کم ہے۔
پیسہ پھینک تماشہ دیکھ کے مصداق، بیگم کے اکاءونٹ میں فروری میں ایک خطیر رقم جمع کرادے اور خموشی سے اپنے کاموں میں لگ جائے۔ اب دیکھئیے کہ یہ وظیفہ کیسےاسے بے غم کرتا ہے۔
اگرایک مرد نے ابتدائ زندگی میں ہی اپنی صلاحیتیں استعمال کر کے دولت کا ایک انبار جمع کر لیا تھا یاوہ منہ میں سونے ، چاندی کا چمچ لے کر پیدا ہوا توہر دروازہ اس کے لئے کھلتا جائے گا۔ جو لوگ کہتے ہیں کہ دولت سے سکون نہیں خریدا جا سکتا۔ وہ ابھی جان لیں گے کہ انکا زندگی کا عملی تجربہ کتنا کم ہے۔
پیسہ پھینک تماشہ دیکھ کے مصداق، بیگم کے اکاءونٹ میں فروری میں ایک خطیر رقم جمع کرادے اور خموشی سے اپنے کاموں میں لگ جائے۔ اب دیکھئیے کہ یہ وظیفہ کیسےاسے بے غم کرتا ہے۔
فروری کے مہینے سے نئ لان کے نمائش کے اشتہار آنا شروع ہوتے ہیں جو امید ہے کہ اپریل کے وسط تک جاری رہیں گے۔ بیگم اس دوران اس میں مصروف رہیں گی ۔ نمائیش سے کپڑے خرید کر درزی کو پہنچانا، اور انکے لئے میچنگ کی لیس خریدنا پھر درزی سے اسکے ڈیزائین پہ سیر حاصل بحث کرنا، اس سرگرمی کے بعد اتنا سرور رہے گا کہ اگر کوئ لڑنے پہ آمادہ ہو تو بھی اسکے منہ لگنے کو دل نہ چاہے گا۔ پہلا نشہ، پہلا خمار۔ نیا پیار ہے نیا انتظار، کیا کر لوں میں اپنا حال اے دل بے قرار۔ جینے کی امنگ پیدا ہوتی ہے صرف اس لئے کہ جب تک کپڑے بن کر آئیں ہم شگفتہ نظر آئیں۔ آخر لوگ ہمارا چہرہ ہی تو دیکھتے ہیں۔
اپریل کے درمیان میں نئ سرگرمی شروع ہوگی۔ درزی کے پاس سے کپڑے بن کر آئیں گے، پھر پہن کر انکی فٹنگ چیک ہوگی، اس دوران سب کی بلا درزی کے سر پڑی رہے گی۔ کس کو فکر کے وہ سارا دن کس حرافہ کے ساتھ رہے۔
مئ کا مہینہ ان کپڑوں کی نمائیش کے لئے مختلف پارٹیز میں گذرے گا، ساتھ ہی ساتھ پارلر والوں کی بھی آمدنی میں اضافہ رہے گا۔ جون کے مہینے میں ساون کے کپڑوں کی تیاری ہو گی جولائ میں افطار پارٹیز اور عید کے کپڑوں کی تیاری۔ ستمبر میں مڈ سمر کے پرنٹ آجائیں گے۔ خزاں بہت چھوٹا سا مہینہ ہوتا ہے اس لئے اس دوران ہی سردیوں کے گرم کپڑوں کی تیاری شروع ہو گی۔ دسمبر، جنوری آجکل شادیوں کے لئے انتہائ مناسب خیال کئ جاتے ہیں اور جناب ایک بار پھر فروری آ گیا۔ پچھلے سال کے تجربے کے بعد اسے معلوم ہونا چاہئِے کہ اب کیا کرنا ہے۔
بیگم جب بھی نئے کپڑے پہن کر سامنے آئیں تو شاندار کہنا نہ بھولیں، وقتاً فوقتاً معلوم کرتے رہیں کہ آج نیا جوڑا کیوں نہیں پہنا۔ بیگم کو زیادہ مصروف رکھنا ہو تو درزی یا پارلر والوں کے کاموں میں نقص نکال دیں اور انہیں درزی یا پارلر تبدیل کرنے کا مشورہ دے دیں۔ اگرسونے پہ سہاگا چاہتے ہیں تو جون جولائ کی چھٹیوں کے لئے بیوی اور اماں کو باہر بھیج دیں مگر خیال رکھیں کہ دونوں مختلف مقامات پہ جائیں۔
اگر آپ مڈل کلاس سے تعلق رکھتے ہیں تو اصل مصیبت آپکے لئے ہے۔ یہاں آکر ہم مردوں کو تین جماعتوں میں تقسیم کر سکتے ہیں۔ عقل مند روائیتی مرد، بے وقوف روائیتی مرد اور غیر روائیتی مرد۔
عقل مند روائیتی مرد کمپیوٹر پہ مصروف رہتا ہے۔ چاہے وہ فیس بک پہ چیٹنگ ہی کیوں نہ ہو۔ لیکن شکل ایسی بنا کر رکھیں گے کہ کوئ اہم پروجیکٹ چل رہا ہے۔ اگر یہ پروجیکٹ بر وقت مکمل نہ ہوا تو گھر والوں کو آٹے دال کا بھاءو پتہ چل جائے گا۔ لہذا بیوی کو یہ شکایت نہیں رہتی کہ اماں کے پاس زیادہ وقت گذارتے ہیں، بہنوں کی فکر میں مرے جاتے ہیں اور نہ اماں بہنوں کو یہ شکوہ رہتا ہے کہ شادی کے بعد ایک دم بیوی کا غلام ہو گیا ہے۔ ہم تو سوچ بھی نہ سکتے تھے یہ ایسا نکلے گا۔ شادی سے پہلے تو یوں ہوا کرتا تھا۔ یہ سب چالاکیاں بیوی کی سکھائ ہوئ ہیں۔ ایک کمپیوٹر ہزار بلائیں ٹالتا ہے۔
بے وقوف روائیتی مرد تعداد میں سب سے زیادہ ہوتے ہیں یہ سمجھتے ہیں کہ بس واقعی میں کائینات کی لگامیں انکے ہاتھ میں ہیں اور اگر کوئ چیز انکے قابو میں نہیں آئ تو اس سے انکی مردانگی کو بھاری نقصان پہنچے گا۔ نتیجتاً انکی کمزوری یعنی مردانگی کو ہر فریق نشانہ بنائے رکھتا ہے اور انکا ہر دن روز عذاب بنا رہتا ہے۔ یہ اپنی روائیت پسندی چھوڑ نہیں سکتے اس لئے اس حالت میں صبح ہوتی ہے شام ہوتی ہے عمر یونہی تمام ہوتی ہے۔ مرتے وقت بھی فکر رہتی ہے کہ مر کے بھی چین نہ پایا تو کدھر جائیں گے۔ لیکن پھر بھی انکے لئے حوروں کی تسلی ایک قوی امید ہوتی ہے بیگم کو کبھِ کبھی اسکی دھمکی بھی دینے کی کوشش کرتے ہیں مگر بیگم کا رد عمل ایسا ہی ہوتا ہے کہ ہونہہ جا کر تو دکھاءو، دوسرے ہی دن بھاگ جائے گی اس سے تو دوزخ ہی بھلا۔ ان میں سے جو زیادہ چھوٹے دل ہوتے ہیں وہ بہتر حوروں والا راستہ لیتے ہیں۔
غیر روائیتی مرد کو ان سب باتوں کی کیا فکر۔ وہ اور انکی بیگم ایک ساتھ صبح گھر سے نکلتے ہیں۔ بچوں کو اسکول چھوڑتے ہوئے اپنے اپنے آفس کو روانگی۔ اب سارا دن گھر میں امّاں کا راج۔ شام کو بیگم کی اماں کے گھر سے بچوں کو لیتے ہوئے گھر پہنچے۔ یہاں آ کر خاتون خانہ بچوں کو نہلانے دھلانے، ہوم ورک کرانے اور رات کے کھانے کے چکروں میں ایسا الجھیں گی کہ انہیں پتہ ہی نہیں چلے گا کہ شوہر صاحب کتنی دیر اماں کے پاس بیٹھے رہے۔ اماں کو بھی یک گونہ تسلی رہتی ہے کہ بیٹے کی آمدنی بیگم کے نخرے اٹھانے میں خرچ نہیں ہو رہی۔
آخیر میں بچ جاتے ہیں غریب مرد۔ یہ فساد اور جھگڑے تو انکی زندگی کی رونق اور تفریح ہیں۔ زندگی کی تلخی کو مزید تلخیوں سے ملاتے ہیں اور یہ اکثر ان مردوں کے بارے میں سوچ کر حیران ہوتے ہیں کہ یہ کیسے مرد ہیں جو لڑے بغیر یا کسی لڑائ میں پڑے بغیر اپنی زندگی گذارتے ہیں۔ یہ جینا بھی کوئ جینا ہے للّو۔ ڈو نہ کیا تو پھر کیا جیا۔
مئ کا مہینہ ان کپڑوں کی نمائیش کے لئے مختلف پارٹیز میں گذرے گا، ساتھ ہی ساتھ پارلر والوں کی بھی آمدنی میں اضافہ رہے گا۔ جون کے مہینے میں ساون کے کپڑوں کی تیاری ہو گی جولائ میں افطار پارٹیز اور عید کے کپڑوں کی تیاری۔ ستمبر میں مڈ سمر کے پرنٹ آجائیں گے۔ خزاں بہت چھوٹا سا مہینہ ہوتا ہے اس لئے اس دوران ہی سردیوں کے گرم کپڑوں کی تیاری شروع ہو گی۔ دسمبر، جنوری آجکل شادیوں کے لئے انتہائ مناسب خیال کئ جاتے ہیں اور جناب ایک بار پھر فروری آ گیا۔ پچھلے سال کے تجربے کے بعد اسے معلوم ہونا چاہئِے کہ اب کیا کرنا ہے۔
بیگم جب بھی نئے کپڑے پہن کر سامنے آئیں تو شاندار کہنا نہ بھولیں، وقتاً فوقتاً معلوم کرتے رہیں کہ آج نیا جوڑا کیوں نہیں پہنا۔ بیگم کو زیادہ مصروف رکھنا ہو تو درزی یا پارلر والوں کے کاموں میں نقص نکال دیں اور انہیں درزی یا پارلر تبدیل کرنے کا مشورہ دے دیں۔ اگرسونے پہ سہاگا چاہتے ہیں تو جون جولائ کی چھٹیوں کے لئے بیوی اور اماں کو باہر بھیج دیں مگر خیال رکھیں کہ دونوں مختلف مقامات پہ جائیں۔
اگر آپ مڈل کلاس سے تعلق رکھتے ہیں تو اصل مصیبت آپکے لئے ہے۔ یہاں آکر ہم مردوں کو تین جماعتوں میں تقسیم کر سکتے ہیں۔ عقل مند روائیتی مرد، بے وقوف روائیتی مرد اور غیر روائیتی مرد۔
عقل مند روائیتی مرد کمپیوٹر پہ مصروف رہتا ہے۔ چاہے وہ فیس بک پہ چیٹنگ ہی کیوں نہ ہو۔ لیکن شکل ایسی بنا کر رکھیں گے کہ کوئ اہم پروجیکٹ چل رہا ہے۔ اگر یہ پروجیکٹ بر وقت مکمل نہ ہوا تو گھر والوں کو آٹے دال کا بھاءو پتہ چل جائے گا۔ لہذا بیوی کو یہ شکایت نہیں رہتی کہ اماں کے پاس زیادہ وقت گذارتے ہیں، بہنوں کی فکر میں مرے جاتے ہیں اور نہ اماں بہنوں کو یہ شکوہ رہتا ہے کہ شادی کے بعد ایک دم بیوی کا غلام ہو گیا ہے۔ ہم تو سوچ بھی نہ سکتے تھے یہ ایسا نکلے گا۔ شادی سے پہلے تو یوں ہوا کرتا تھا۔ یہ سب چالاکیاں بیوی کی سکھائ ہوئ ہیں۔ ایک کمپیوٹر ہزار بلائیں ٹالتا ہے۔
بے وقوف روائیتی مرد تعداد میں سب سے زیادہ ہوتے ہیں یہ سمجھتے ہیں کہ بس واقعی میں کائینات کی لگامیں انکے ہاتھ میں ہیں اور اگر کوئ چیز انکے قابو میں نہیں آئ تو اس سے انکی مردانگی کو بھاری نقصان پہنچے گا۔ نتیجتاً انکی کمزوری یعنی مردانگی کو ہر فریق نشانہ بنائے رکھتا ہے اور انکا ہر دن روز عذاب بنا رہتا ہے۔ یہ اپنی روائیت پسندی چھوڑ نہیں سکتے اس لئے اس حالت میں صبح ہوتی ہے شام ہوتی ہے عمر یونہی تمام ہوتی ہے۔ مرتے وقت بھی فکر رہتی ہے کہ مر کے بھی چین نہ پایا تو کدھر جائیں گے۔ لیکن پھر بھی انکے لئے حوروں کی تسلی ایک قوی امید ہوتی ہے بیگم کو کبھِ کبھی اسکی دھمکی بھی دینے کی کوشش کرتے ہیں مگر بیگم کا رد عمل ایسا ہی ہوتا ہے کہ ہونہہ جا کر تو دکھاءو، دوسرے ہی دن بھاگ جائے گی اس سے تو دوزخ ہی بھلا۔ ان میں سے جو زیادہ چھوٹے دل ہوتے ہیں وہ بہتر حوروں والا راستہ لیتے ہیں۔
غیر روائیتی مرد کو ان سب باتوں کی کیا فکر۔ وہ اور انکی بیگم ایک ساتھ صبح گھر سے نکلتے ہیں۔ بچوں کو اسکول چھوڑتے ہوئے اپنے اپنے آفس کو روانگی۔ اب سارا دن گھر میں امّاں کا راج۔ شام کو بیگم کی اماں کے گھر سے بچوں کو لیتے ہوئے گھر پہنچے۔ یہاں آ کر خاتون خانہ بچوں کو نہلانے دھلانے، ہوم ورک کرانے اور رات کے کھانے کے چکروں میں ایسا الجھیں گی کہ انہیں پتہ ہی نہیں چلے گا کہ شوہر صاحب کتنی دیر اماں کے پاس بیٹھے رہے۔ اماں کو بھی یک گونہ تسلی رہتی ہے کہ بیٹے کی آمدنی بیگم کے نخرے اٹھانے میں خرچ نہیں ہو رہی۔
آخیر میں بچ جاتے ہیں غریب مرد۔ یہ فساد اور جھگڑے تو انکی زندگی کی رونق اور تفریح ہیں۔ زندگی کی تلخی کو مزید تلخیوں سے ملاتے ہیں اور یہ اکثر ان مردوں کے بارے میں سوچ کر حیران ہوتے ہیں کہ یہ کیسے مرد ہیں جو لڑے بغیر یا کسی لڑائ میں پڑے بغیر اپنی زندگی گذارتے ہیں۔ یہ جینا بھی کوئ جینا ہے للّو۔ ڈو نہ کیا تو پھر کیا جیا۔