کہتے ہیں دنیا میں تمام جھگڑوں کا باعث تین چیزیں ہیں۔ زر، زمین اور زن۔ مجھے نہیں معلوم کہ نظریاتی اور مذہبی جھگڑے انکے درمیان کہاں فٹ ہوتے ہیں۔ اس لئے ممکن ہے کہ یہ مقولہ، معاشرتی جھگڑوں پہ زیادہ جچتا ہو۔
آپ میری اس رائے سے اختلاف کریں یا انکار، اس سے فرق نہیں پڑتا۔ کیونکہ جھگڑے اپنی رفتار سے جاری ہیں اور جاری رہیں گے۔ آج ایک وجہ کو ختم کریں کل کسی اور نام سے اٹھ کھڑے ہونگے۔ اس لئے عقلمند لوگ، پرانے جھگڑے نہیں نبٹاتے۔ یہ جتنے پرانے ہوں، اتنی ہی مہارت سے لٹکائے رکھے جا سکتے ہیں۔ یوں بہت سے لوگوں کی دانش اور مہارت کا سکہ جما رہتا ہے۔ اگر پرانے جھگڑے فی الفور نبٹا دئیے جائیں۔ تو ہر نئے جھگڑے پہ نئ مہارت حاصل کرنی پڑے گی۔ اس سے ارتقاء کی رفتار بڑھ جانے کا اندیشہ ہوگا۔ جس سے نئ مخلوقات سامنے آئیں گی۔ وہ دعوی کریں گی کہ یہ جھگڑا ہمارا ہے اور ہم اسے بہتر طور پہ حل کر سکتے ہیں۔ لیجئیے پھر نسلی تفاخر کی جگہ بننا مشکل ہو جائے گی۔ اس طرح، معاشرے کے تارو پود بکھر جانے کا خطرہ پیدا ہو جائے۔
تارو پود کے بکھرنے سے ، غریب، ترقی پذیر معاشروں کو سب سے زیادہ ڈر لگتا ہے۔ کیونکہ ان تاروں کے بکھرنے میں تبدیلی کا کرنٹ بہتا ہے۔ انہیں واپس انہی بنیادوں پہ ایستادہ نہیں کیا جا سکتا۔ جس سے پرانے جھگڑے مر جاتے ہیں۔ اتنے مانوس صیاد سے ہو گئے ہیں اب رہائ ملی تو مر جائیں گے۔ اور پود کے متعلق مجھے بھی کچھ اندیشہ ہائے دراز لا حق ہیں۔ پورب جاءو یا پچھم، وہی کرم کے لچھن۔
اس سلسلے کو یہیں فل اسٹاپ لگا کر اپنے اصل موضوع کی طرف واپس آتے ہیں۔ زر، زمین اور زن۔
پچھلے دنوں میں نے دوتحریریں پڑھیں۔ ایک مصری ادیب علاء الاسوانی کی کہانی اور دوسرے ایک پاکستانی ادیب محمد اقبال دیوان کی کہانی۔ ایک کے پیچھے مصر کا پس منظر اور اسکے سیاسی، معاشی و معاشرتی حالات جھانک رہے ہیں اور دوسرے میں پاکستان اپنی انہی تلخ حقیقتوں کے ساتھ موجود ہے۔ لیکن ان دو تحریروں میں ایک چیز مشترک لگتی ہے وہ مرد کا عورت سے رشتہ۔ اور یوں لگتا ہے دنیا کا ہر انقلاب ان دونوں کے اس رشتے سے ہو کر گذرتا ہے۔ تو کیا دنیا کا ہر جھگڑا زر، زمین اور زن کے گرد گھومتا ہے۔
میری تو خواہش تھی کہ اقبال دیوان کی کہانی کو پورا ڈال دیتی ہے۔ کہ اس میں آجکا پاکستان جھلکتا ہے۔ لیکن یہ تیس صفحوں پہ مشتمل ہے۔
علاء الاسوانی کی تحریر کے ساتھ بھی کچھ ایسا ہی مسئلہ ہے۔ اس لئے دونوں کہانیوں کے کچھ صفحات کے اسکین شدہ حصے ہی مل پائیں گے۔ آج مصری ادیب کو پڑھیں۔ مصر کی تہذیب میں ویسے ہی بڑی سحر انگیزیاں ہیں اسکے ادیب کا سحر دیکھیں۔ یہ حصہ انکے ناول عمارت یعقوبیان کے دوسرے باب سے ترجمہ کیا گیا ہے۔ مترجم ہیں محمد عمر میمن۔ شائع ہوا ہے دنیا زاد میں۔ اب دنیا زاد والوں کو مجھے اپنے ایڈورٹائزنگ سیکشن کاحصہ سمجھنا چاہئیے۔
:)
یہ اسکین شدہ صفحات ہیں۔ بہتر طور پہ پڑھنے کے لئے تصویر پہ کلک کیجئیے۔
پڑھنے میں دقت ہورہی ہے ۔ تصویر مزید بڑی ہونی چاہیے تھی۔
ReplyDeleteویلے ٹائم ہی ٹرائی کروں گا۔
آپ کو پڑ گئی ہے عادت ..
ReplyDeleteسکین شدہ صفحات لگا کر بری الذمہ ہوجاتی ہیں۔ سستی نئیں چلنے کی۔ ان صفحات کو ٹائپ کرکے پوسٹ کیجئے۔ یونیکوڈ میں ہونا لازمی ہے تاکہ ریکارڈ رہے اور سرچ کرنے پر دستیاب ہو۔ اس مشورے پر عمل نہ کرنے کی صورت میں میں تمام سکین شدہ صفحات والی پوسٹوں کا بائیکاٹ بھی کرسکتا ہوں۔
یہ تو آپ نے کھیلن کو مانگے چاند والا حساب کر دیا۔ ٹائپ نہیں ہو سکتے بھئ۔ وقت نہیں ہے یہ سب کرنے کا۔ کوئ اور چاہے تو ٹائپ کر کے اپنے بلاگ پہ لگا دے۔ اگر ہمت ہے تو۔ میری طرف سے اجازت ہے۔
ReplyDeleteشاگرد عزیز تو بڑی زیادتی کرتے ہیں،
ReplyDeleteہم نے تو بھئی ان ہی صفحات کو جیسے تیسے کر کے پڑھ لیا،
جہاں چاہ وہاں راہ!!!
آپ تو مجبور کیئے دے رہی ہیں دنیا زاد کا مسلسل قاری بننے پر،
زرا اس کا پوسٹل ایڈریس تو لگائیں نا بلاگ پر۔
Abdullah
عثمان صاحب
ReplyDeleteتصویر کو کنڑول پلس کے بٹن دبانے سے بڑا کیا جا سکتا ہے۔ اس طرح الفاظ بڑے ہو جاتے ہیں۔
یہی طریقہ استعمال کرتا ہوں۔ لیکن تحریر دھندلا جاتی ہے۔
ReplyDelete