کہتے ہیں جھوٹ کے پاءوں نہیں ہوتے اس لئے یہ زیادہ دیر قائم نہیں رہ پاتا لیکن کچھ اور لوگ کہتے ہیں کہ ایک سچ اپنے تسمے باندھ ہی رہا ہوتا ہے کہ جھوٹ ساری دنیا کی سیر کر کے آجاتا ہے۔ اب ایمانداری سے بتائیے آپکو کونسا کنکشن پسند آئے گا۔
جھوٹ بولا ، بنایا یا بَکا ہی نہیں جاتا بلکہ پکڑا بھی جاتا ہے۔ مگر کچھ لوگ اسے گھر پہنچا کر بڑا خوش ہوتے ہیں اور ہرجگہ سینہ پھلائے پھرتے ہیں کہ جھوٹے کو اسکے گھر تک پہنچایا، جھوٹا نہ ہوا محلے کی سب سے خوبصورت لڑکی ہو گیا۔
خوبصورت لوگ وہ بھی جنس مخالف کے اگر جھوٹ بولیں تو بالکل برا نہیں لگتا۔ خواتین کے معاملے میں جتنی کم عمر ہوں جھوٹ بولتے ہوئے اتنی حسین لگتی ہیں۔ مشرقی خواتین کو ماچو مردوں کا جھوٹ پسند آتا ہے۔ منمناتے ہوئے جھوٹے سے ڈپارٹمنٹ کے پیچھے والی دوکان سے صرف چھولوں کی پلیٹ منگوائ جا سکتی ہے۔ وہ بھی اسی کے خرچے پہ۔
یوں
بولے تو سہی جھوٹ ہی بولے وہ بلا سے
ظالم کا لب و لہجہ دل آویز بہت ہے
اس ظالم اور اسکے جھوٹ پہ اردو شاعری میں دیوان کے دیوان لکھے جا چکے ہیں۔ جو لگتا ہے کہ سب کے سب جھوٹ کے پلندے ہونگے۔ لیکن شاعر انہیں نسخہ ہائے وفا کہتے ہیں۔
جھوٹ کے پتلے بھی ہوتے ہیں۔ یہ صرف جھوٹ سے بنے ہوتے ہیں اور جھوٹ کے پل بناتے رہتے ہیں۔ اگر وہ جھوٹ نہ بولیں تو پیٹ اپھر جائے۔ انکا نہیں پل بنوانے والوں کا۔ یہ دوسروں کو اتنی آسانی سے جھوٹا بناتے ہیں کہ بننے والے کو اپنے جھوٹا ہونے پہ صداقت کا احساس ہوتا ہے۔ انکا نعرہ ہوتا ہے کہ جھوٹ اتنا بولو کہ سچ معلوم ہونے لگے۔ ایسے لوگ اچھے درباری موءرخ ثابت ہوتے ہیں۔ اپنے زمانے میں بڑا نام کماتے ہیں۔ مگر بعد کے زمانے کے موءرخ ان سے دشمنی دکھاتے ہیں۔ اس طرح یہ سراب کی مانند مٹ جاتے ہیں۔ یوں ایک جھوٹا موءرخ دوسرے جھوٹے موءرخ کے حق میں سم قاتل ہوتا ہے۔ اس قتل و غارت گری کے بعد تاریخ کا مضمون پڑھنے میں آسانی بھی ہوتی ہے اور دشواری بھی۔کیوں اس لئے کہ کس کا یقیں کیجئیے کس کا نہ کیجئیے۔ لائے ہیں اسکی بزم سے یار خبر الگ الگ۔ اس لئے ہم کتابوں کے بجائے سینہ بہ سینہ اور منہ بہ منہ چلی آنے والی تاریخ کو زیادہ پسند کرتے ہیں۔ سینہ اور منہ وہ جو ہمارے قبیلے کا ہو۔
حیران کن طور پہ، جھوٹ کے دفتر بھی ہوتے ہیں۔ جبکہ ایک عمر ہم یہی سمجھتے رہے کہ دفتر میں جھوٹ ہوتا ہے۔ دیکھا خواب تھا جو کچھ کہ دیکھا۔ ایسے موقعوں پہ یقین آتا ہے کہ لا علمی کتنی بڑی نعمت ہوتی ہے۔ آخر کو ہم اس آگ کے دریا کو آگ کا دریا پڑھتے ہوئے پار کر آئے۔
مگر گھبرائیے نہیں جھوٹ ایکدم خالص نہیں ہوتا زیادہ تر باتیں جھوٹ سچ کے زمرے میں آتی ہیں۔ یعنی تھوڑا سا پگلا تھوڑا سیانا۔ اسی میں عافیت ہے۔
کسی زمانے میں لوگ باگ عاجز تھے کہ جھوٹا مرے نہ شہر پاک ہو۔ بعد میں نہ معلوم وجوہات کی بناء پہ شہر پاک کرنے کی کوششیں ترک کر دی گئیں۔ کچھ لوگوں کو اس روایت سے اختلاف ہے کہتے ہیں کہ شہر نہیں ایک ملک تھا اور ایک نہیں سب ہی جھوٹے تھے۔ اللہ کی باتیں اللہ ہی جانے ہم تو یہ جانتے ہیں کہ جھوٹے کے آگے سچا روتا ہے۔ جہاں سچا روتا ہوا واپس آتا ہے وہاں جھوٹا ہنستا ہوا نکل جاتا ہے۔
اگر آپ اب بھی یہ سمجھتے ہیں کہ جھوٹے کا منہ کالا اور سچے کا بول بالا تو اس جھوٹ کی ناءو نہیں چل سکتی۔ اس جھوٹ کی پوٹ اس دن کھلے گی جس دن جھوٹا بات بنا لے گا اور پانی میں آگ لگا لے گا۔ اس لئے کہنے والوں نے اڑائ کہ سچے مر گئے جھوٹوں کو تاپ بھی نہ آئ۔ یہاں مرنے والوں سے میری مراد وہ صحافی سلیم شہزاد نہیں ہے، اور جھوٹے کون ہیں اس بارے میں ، میں اشارتاً بھی بات نہیں کرنا چاہتی۔ جسکو ہو دین و دل عزیز اسکی گلی میں جائے کیوں۔
ہم اور تیری گلی سے سفر، دروغ دروغ
کہاں دماغ ہمیں اس قدر، دروغ دروغ
وضاحت؛
اس تحریر کی انسپیریشن فیروز اللغات سے حاصل کی گئ، سچی مچی۔
.بس سب ايک ہی صوبہ کی دين ہے. آگے اور کيا کہيں
ReplyDeleteبیچاری فیروز الغات
ReplyDeleteپوسٹ میں جس طرح کم عمری اور خوبصورتی کی حسرت کا اظہار کیا گیا ہے وہ لائق تحسین ہے.
ReplyDeleteڈاکٹر جواد احمد خان صاحب، لگتا ہے آپ نے جنت سے یہ تبصرہ لکھا ہے۔ شاید ایک آدھ مل ہی گئ ہے۔ حور اور کیا۔
ReplyDeleteآپ بات بے بات مجھے جنّت میں کیوں پہنچا دیتی ہیں؟ اس کے پیچھے مجھے خیر خواہی کم اور انتقامی جذبات زیادہ دکھائی دیتے ہیں.
ReplyDeleteبات سیدھی سی ہے جو چیز آپکو پسند ہے وہ سچ اور جو نا پسند ہے وہ جھوٹ ....یہی ایک اصول ہے بلاگستان میں ساری گرمی گفتار کا. باقی سب باتیں، بکواس باتیں ہیں.
ڈاکٹر جواد احمد خان صاحب، جب پوری پوسٹ میں سے آپ ایک اپنے مطلب کی حسرت نکالنے کے در پئے ہوں تو پھر کس چیز کی گنجائش باقی رہ جاتی ہے۔ صرف بکواس کی۔ وہ میں نے فرما دی۔ بکواس کے جواب میں بکواس ہی کی جا سکتی ہے۔ آپ سنجیدگی سے بات کریں اور میں بکواس تو ہی شکایت بجا لگتی ہے۔ اس لئے یہ اس وقت آپکی زیادتی ہے۔
ReplyDeleteجھوٹ کے بارے میں اتنا کچھ لکھا ۔ کہ مزید کچھ کہنے سننے کی ہمت نہیں ہے ۔۔ سب پوسٹ ہی میرے مطلب کی تھی ، اب میں نے ڈاکٹر صاحب کی طرح دروغ گوئی سے کام لیا ۔ تو خیر نہیں ۔ ویسے ڈاکٹر جواد اچھے ڈاکٹر ہین ۔
ReplyDeleteنہیں میرا مطلب یہ نہیں ہے کہ خدا نخواستہ آپ نے کوئی بکواس کی ہے میں تو ایک عام سی بات کر رہا تھا جو مجھ سمیت سب پر لاگو ہوتی ہے.کیونکہ میں نے ابھی تک ایک آدمی ایسا نہیں دیکھا کہ جو اپنے نظریات اور خیالات کو الگ رکھ کر صرف اور صرف میرٹ پر چیزوں کے صحیح یا غلط ہونے کا فیصلہ کر سکے. پھر ایسا بھی تو ممکن ہے کہ بہت ساری چیزوں کے لئے صحیح اور غلط کا پیمانہ ہی ناقص ہو .یہ ہوسکتا ہے کہ کسی چیز کو ہم صحیح اور غلط کی عینک سے دیکھ رہے ہوں وہ چیز مختلف پہلو لئے ہوے ہو . ایک پہلو آپ کو اچھا لگتا ہے تو دوسرا مجھے میں اپنے پسندیدہ پہلو کو کل قرار دیتا ہوں اور آپ اپنے پسندیدہ پہلو کو ...اور شاید یہی وجہ ہے کہ مختلف اسکول آف تھاٹس وجود میں آتے ہیں.دین میں تو یہ مقام کئی بار آتا ہے.
ReplyDeleteشرط فقط اتنی ہے کہ وجود سے انکار نہ ہو . .
بہت ہی اعلی۔ ایک طویل عرصے بعد ایک ایسی پوسٹ پڑھی، جسے بیگم کو پڑھ کر سنانے کا دل چاہا۔ انہیں بھی بہت پسند آئی۔
ReplyDeleteواقعی عنیقہ یہ تو آپکی سراسر زیادتی ہے۔۔۔۔۔۔۔
ReplyDeleteحوروں کے ساتھ!
:)
Abdullah
جھوٹے کون ہیں اس بارے میں ، میں اشارتاً بھی بات نہیں کرنا چاہتی۔ جسکو ہو دین و دل عزیز اسکی گلی میں جائے کیوں۔
ReplyDelete۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کیوں جی !! ڈرتی ہیں آئ ایس آئی سے
آپ تو بڑی با ہمت خاتوں ہیں
ابو شامل آپ کا مطلب ہے ۔ کہ یہ پوسٹ اس لیے اچھی ہے کہ خواتین کو پسند آئی ۔ کیوں مرد حضرات بھی پسند کریں ۔ اور اچھی باتیں صرف خواتین کے لیے نہیں مرد حضرات کے لیے بھی ہوتی ہیں ۔۔۔ اب کئی بلاگ ہیں جہاں مرد حضرات اپنی مرضی اور اپنی خواہش کے مطابق رکھتے ہیں ۔ ۔۔۔ ہم بھی وہاں اپنا حصہ ڈالنے جاتے ہیں /۔۔ اس لیے کہ وہ اچھی ہوتی ہیں ۔۔
ReplyDeleteابو شامل، یہ آپنے پسندیدگی کے لئے خاصی کڑی شرط رکھ دی ہے۔
ReplyDeleteتانیہ ررحمن، آپ نے ڈاکٹر صاحب سے علاج کرا کے دیکھ لیا یا سنی سنائ پہ یقین ہے۔
عرفان صاحب، بلوچ کبھی بھی جی نہیں استعمال کرتے۔ آپ بلوچ کے علاوہ کوئ اور کاسٹ استعمال کر لیں۔
آئ ایس آئ سے ڈر کر کیا کروں۔ میرے جیسا بلاگر جسے پچیس تیس قارئین میسر ہیں بمشکل، آئ ایس آئ اسے ڈرا کر کیا کرے گی۔ مجھ جیسوں کے بارے میں اول تو انہیں علم نہیں ہو گا۔ اگر ہوگا بھی تو چھوڑ رکھیں گے تاکہ لوگوں کو پتہ رہے کہ ملک میں اظہار رائے کی آزادی ہے۔ اصل فکر تو انہیں انکی ہوتی ہوگی جنکے ہزاروں، لاکھوں یا کروڑوں سننے والے ہیں۔ دوسرے یہ کہ اصل خطرہ وہ لوگ ہوتے ہیں جنکی پہنچ ہوتی ہے خبر کے منبع تک، میں اس میں نہیں آتی۔
ویسے اس خبر میں یہ ضروری نہیں کہ ئ ایس آئ نے کیا ہو۔ انہیں کردہ گناہوں کی سزا تو نہیں ملی لیکن ایسا بھی ہوتا ہے کہ گناہگار کو نا کردہ گناہوں کی مل جائے۔ یہ بھی ممکن ہے کہ شدت پسندوں نے ہی کیا ہو، لیکن چونکہ موصوف اپنی زندگی میں آئ ایس آئ پہ شبہ کر چکے تھے اس لئے انکی گردن میں یہ فٹ ہو رہا ہو۔
ماضی میں آئ ایس آئ پہ ہمیشہ یہ الزام لگے کہ وہ شدت پسندوں کی مدد کرتی ہے اسے جھٹلایا گیا۔ لیکن پی این ایس مہران پہ حملے کے بعد یہ بات تو کم از کم سامنے آگئ کہ آئ ایس آئ کے اندر گروپس موجود ہیں جو شدت پسندوں کے ساتھ ہیں۔
آئ ایس آئ، سلیم شہزاد کا قتل، پی این ایس مہران پہ حملہ اور الیاس کشمیری کی یلاکت، یہ سارے تانے بانے کسی نہ کسی جگہ ایک دوسرے سے مل ضرور رہے ہیں۔
عنیقہ یہ تبصرہ کم اطلاع زیادہ ہے،
ReplyDeleteجماعت کے بدمعاش دوبارہ بدمعاشی پر اتر آئے ہیں،
اور جھوٹی سچی خبروں پر بلاگس لکھ کر دلکی بھڑاس نکال رہے ہیں،
میرے دو تبصرے ان کی موڈریشن کے منتظر ہیں ،
آپکو بھی بھیج رہا ہوں ،
شائد اگلی پوسٹ کے لیئے موضوع مل جائے!
:)
عبداللہ says:
Your comment is awaiting moderation.
جون ۷ ، ۲۰۱۱ at ۱۰:۵۶ صبح
میرا یہ تبصرہ اظہار الحق صاحب کے بلاگ پر بھی مکمل موجود ہے ،
جو چاہے وہاں جاکر دیکھ سکتا ہے کہ کیا ناشائستگی کی گئی ہے!!!!!
بغیر ثبوت اور تصدیق جھوٹی سچی خبروں پر بلاگ لکھنے والی مذہبی جماعت کے ماننے والے کونسے اسلامی اصول کی پیروی کررہے ہیں ؟؟؟؟؟
اور کسی خبر کو بغیر تصدیق آگے بڑھانے پر احادیث سنانے والے بابا جی کس طرح اچھل اچھل کر تبصرہ کررہے ہیں !!!!!
یہ سب دیکھنے اور سمجھنے سے تعلق رکھتا ہے!
آئ ایس آئ، سلیم شہزاد کا قتل، پی این ایس مہران پہ حملہ اور الیاس کشمیری کی یلاکت، یہ سارے تانے بانے کسی نہ کسی جگہ ایک دوسرے سے مل ضرور رہے ہیں۔
ReplyDeleteyes you are absolutely right!!!!!
Abdullah
اب يہ دروغ گوئی نہ کردينا کہ پنجاب ميں اچھوت نہيں
ReplyDeleteIn Punjab, a Christian can’t present the provincial budget
http://tribune.com.pk/story/183896/in-punjab-a-christian-cant-present-the-provincial-budget/
جب پنجاب کے پڑھے لکھے ممبران اسمبلی ايسے ذہنی مريض ہيں تو عام عوام سے کيا توقع رکھيں
باجی آپ میری کاسٹ کے پیچھے کیوں پڑ گئیں پچھلے تبصرے میں بھی میرے بلوچی ہونے پر اعراض تھا
ReplyDeleteنام کو چھوڑیں ، نام میں کیا ہے آپ ویسے بھی کہہ چکی ہیں بے شک کسی اور نام سے تبصرہ کریں ہو سکتا ہے بلوچستان سے سسرالی رشتہ نکل رہا ہو
جہاں تک سلیم شہزاد کے قتل کا تعلق ہے اس پر بحث کرنا بے کار ہے
لیکن یہ آئی ایس آئی میں گروپنگ کا شوشہ خوب چھوڑا آپ نے ۔۔۔ اطلاع کے لیے عرض کروں کہ فوج میں گروپنگ ہے لیکن انٹیلی جنس کے اداروں میں گروپس بنانے میں ہم ابھی تک کامیاب نہیں ہو سکے
ہاں کوششیں جاری ہیں اور ابھی تک نہیں بھی بنے تھے تو سلیم شہزاد قتل اور پی این ایس مہران کے بعد ہمیں محسوس ہو رہا ہے کہ ہم اس میں کامیاب ہو جائیں گے
ان شاء اللہ
بلکہ سوچ رہا ہوں کہ اگلا بلاگ اسی موضوع پر آنا چاہیے
اچھا آئیڈیا دیا آپ نے
اگر آپ اتنے ہی سچے ہیں تو اس دوسرے عبداللہ کے وہ تمام تبصرے جہاں موجود ہیں انکا لنک یہاں لگائیں تاکہ میں بھی دیکھ سکوں کہ وہ حضرت کون ہیں ،
ReplyDeleteرہی جماعت کی مخالفت کی بات تو ،تو جو زہریلے بیج جماعت اس ملک میں بوتی رہی ہے ،فوج اور ایجینسیوں کے اشاروں پر اس پر ہر سینس ایبل شخص کے ایک جیسے تاثرات ہونا کوئی حیرت انگیز بات نہیں،
امید کرتا ہوں کہ میرا تبصرہ بغیر ایدٹ کیئے شائع کیا جائے گا!
http://www.qalamkarwan.com/2011/06/mqm-and-wikileakes-i-could-not-understand.html
ایک چیز جس پر میرا پہلے دھیان نہیں گیا تھا،
یہ اوپر جس طرح ٹکڑے کاٹ کر تصویر کھینچ کر لگائی گئی ہے ،اس خبر کو مشکوک بنا رہی ہے،
آپ فورا سے پیشتر اس خبر کا اوریجنل لنک لگائیں ،ورنہ ہم یہ سمجھنے میں حق بجانب ہوں گے ،کہ یہ امت اخبار جیسے چیتھڑے سے کاٹ کر اس پر عوام اخبار کا نام لگایا گیا ہے ، اور وہ بھی اس احتیاط کے ساتھ کہ تاریخ نظر نہ آئے؟؟؟؟؟
Abdullah
لیجیئے میری بات صحیح ثابت ہوگئی ایجینسیوں کے پے رول پر موجود لوگ ہی ہیں جو بلوچ نام لگا کر ،دنیا کو بے وقوف بنانے کی کوشش کررہے ہیں،
ReplyDeleteاب ان کی موت نزدیک ہے اس لیئے طرح طرح کے ڈھکوسلے کیئے جارہے ہیں!!!!!!
Abdullah
پنجابی پٹھان سندھی بلوچی،ان سب کی ثقافت میں بندوق لازمی جزو ہے،
ReplyDeleteیہاں تک کے نام نہاد مذہبی جماعتیں بھی اپنے عسکری ونگز رکھتی تھیں،
واحد اردو اسپیکنگ ایسے تھے کہ جنکی ثقافت میں بندوق شامل نہیں تھی،
مگر سروائول کی جنگ میں ایسا ہی ہوتا کہ جب روم میں رہو تو رومیوں کی طرح رہو،
80 کی جماعتی ،لسانی اور ایجینسیوں کی دہشت گردی کے بعد ایم کیو ایم نے بھی جان لیا کہ نہتے مرنے سے بہتر ہے کہ دو چار خبیثوں کو مار کر مرو،
سو دیگر سیاسی پارٹیوں کے بدمعاشوں سے مقابلہ کرنے کے لیئے یہ تو کرنا ہی تھا،
ہماری بندوق جب بھی اٹھی جوابی کاروائی کے لیئے اٹھی ،دہشت گردوں کا مقابلہ خالی ہاتھوں سے تو نہیں کیا جا سکتا نا!
پھر بھی دو کروڑ کی آبادی میں ایک کروڑ اردو بولنے والون کی 35 ہزار بندوقوں پر تو تمھاری اچھل کود دیکھنے والی ہے اور وہ جو تمھارے چاچے مامے ایک ایک گھر میں دس دس بندوقیں رکھتے ہیں ،منی بسوں اور ٹرکوں میں ادھر سے ادھر سپلائی کرتے ہیں ،
جنکا کوئی حساب کتاب کسی کے پاس نہیں کہ وہی اسلحہ بناتے اور بیچتے بھی ہیں،کبھی اپنی شیطانی زبان ان کے لیئے بھی کھول لیا کرو!!!!!!
قلم کارواں کے نام سے یہ وقار جاہل اعظم ہی اس ویب سائٹ کا کرتا دھرتا ہے،
ReplyDeleteعورتوں کے نام سے تبصرے کرتے کرتے ،عورتوں کے نام سے ویب سائٹس بھی چلا نا شروع کردی ہین ان بزدلوں نے،
اندازہ لگائیں ،ایک ایک بندہ کتنے کتنے بلاگس اور ویب سائٹس چلا رہا ہے تاکہ اپنی جھوٹی اکثریت اور مقبولیت کو ثابت کرسکے!!!
ہم بھلا ان شیطانوں کا کہاں مقابلہ کرسکتے ہیں شیطانیت میں،
اب تو اللہ ہی اس ملک کو ان شیطانوں سے نجات دیں تو دیں!
مسٹر ویب منتظم ،اصل وقار جاہل اعظم،
ReplyDeleteدوسروں کو تہذیب سکھانے سے پہلے تھوڑی تمیز تم خود بھی سیکھ لو ،تو دوسرون کو کچھ ذہنی سکون حاصل ہوجائے گا!
یہ لنک تو بہت ہی زبردست ہے اور یہا یم کیو ایم سے ذیادہ تم مذہبی دہشت گردوں کے پول کھولتا ہے اچھا ہی ہوا جو مین نے یہ لنک تمام بلاگس پر پوسٹ کردیا ہے تاکہ وہ تمام لوگ جنہیں علم نہیں ان کو بھی تمھاری اصل شکلیں نظرآجائیں!!!!!
http://www.dawn.com/2011/05/23/armed-gangs-outnumber-police-in-karachi.html
Abdullah