ٹی وی پہ ایک خبر گذر رہی تھی کہ کراچی میں پاکستان کی سب سے بڑی فوڈ اسٹریٹ کا افتتاح ہو گیا ہے۔ ہمیں بھی خواہش ہوئ کہ لاہور کی فوڈ اسٹریٹ کے درشن تو حاصل کر چکے۔ اب دیکھیں کہ کراچی کی فوڈ اسٹریٹ کیسی ہے جس کا نام ہے پورٹ گرانڈ۔ نام سے تو شاہوں کی چیز لگتی ہے، لیکن کراچی کی فوڈ اسٹریٹ شاہانہ کیسے ہو سکتی ہے؟ تین دن ارادے باندھنے اور توڑنے کے بعد بالآخر ہم گھر سے نکلنے میں کامیاب ہو گئے۔
ایکسپریس وے سے نیچے اترے تو پولیس کی گاڑیاں موجود تھیں۔ ٹریفک بالکل رینگ رہا تھا۔ لگتا ہے ہم نے غلط دن چن لیا۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ بند ہو۔ اگلے دن معلوم ہوا کہ لیاری کے معروف باکسر ابرار حسین شاہ کو کوئٹہ میں ٹارگٹ کلنگ میں مار دیا گیا۔ ٹریفک کے ہجوم سے باہر نکلے ہوٹل بیچ لگژری کی طرف گاڑی مڑی تو مجھے حیرانی ہوئ۔ یہ فوڈ اسٹریٹ اتنی خاص الخاص جگہ پہ کیوں ہے۔ یہاں عام لوگ کیسے پہنچ سکتے ہیں۔ اسے تو کسی عوامی جگہ پہ ہونا چاہئیے تھا۔
لیکن آگے چل کرجب شہر کی جدید ماڈل کی گاڑیاں نظر آنے لگیں تو دل میں اور وسوسے آنے لگے۔ ہم تو عوامی ہونے کے چکر میں کچھ ایسے اہتمام سے نہ نکلے تھے۔ لیکن داخلی دروازے پہ اترتے ہی ہمارے سب وسوسے حقیقت کا روپ دھار چکے تھے۔
کراچی کے اور بیرون ملک ڈیزائینرز کے کپڑوں میں ملبوس لوگ، اپنے شیر خوار بچوں سے انگریزی میں گفتگو فرماتے لوگ۔ ہمارا دل تو یہ منظر دیکھ کر ہی ہٹ سا گیا۔
داخلہ ٹوکن فی آدمی تین سو روپے کا، اگر اندر کچھ کھالیں تو دو سو روپے اس میں سے منہا ہو جائیں گے یعنی ایڈ جسٹ ہو جائیں گے۔ اگر نہیں کھاتے تو آپ کا ہی نقصان ہے واپس نہیں ملیں گے۔ چھوٹے بچوں کے لئے رعایت۔ چھوٹے سے کیا مراد ہے یہ معلوم نہیں ہوا۔ ہمیں مل گئ۔ ہماری بیٹی ابھی چار سال کچھ مہینے کی ہے۔
داخل ہوتے ہی سامنے ایک چھوٹا سا شاپنگ ایریا بنا ہوا ہے جہاں مغربی ملبوسات اور مغربی پرفیوم کی دوکان نظر آئ، جس پہ بڑا بڑا لکھا تھا ماشاء اللہ۔ باقی دوکانوں کو دیکھنے کی ہم نے ضرورت محسوس نہیں کی۔ اندازہ ہو چلا تھا کہ کراچی کے طبقہ ء اشرافیہ یعنی ایلیٹس کے ذوق نظر کو سامنے رکھتے ہوئے مال مصالحہ رکھتی ہونگیں۔
ادھر اس طرف بڑھے جہاں ایک قطار میں کھانے پینے کی دوکانیں بنی ہوئیں ہیں تو زیادہ تر بیرون ملک فاسٹ فوڈ کی دوکانیں نظر آئیں مثلاً ون پوٹیٹو، ٹو پوٹیٹو، اومور کا آئس کریم پارلر، سوشی جاپانی کھانا اور اسی طرح کی چنداور دوکانیں۔ سمندر کے ساتھ والے حصے پہ شیشے کی چھوٹی سی دیوار بنادی گئ ہے۔ اسکے ساتھ نوجوانوں کی ٹولیاں بیٹھی ہوئیں تھیں۔ خوش باش، آسودہ اور پر تعیش زندگی گذارنے والے نوجوان۔
چونکہ ہم لوگ بالکل بھی سینڈ وچز اور برگر کھانے کے موڈ میں نہیں تھے تو نظر انتخاب وہاں کی واحد مقامی کھانوں کی ایک دوکان پہ پڑی شیخ عبدالغفار کباب ہاءوس۔ لوگوں کی اکثریت کے ساتھ شاید یہی مسئلہ تھا۔ اس وجہ سے وہاں خاصہ رش تھا۔ پتہ چلا کہ چالیس منٹ بعد باری آئے گی کہ بیٹھنے کی جگہ ملے۔
ہم نے سوچا اس سے تو بہتر ہے کہ انسان، بار بی کیو ٹونائٹ چلا جائے۔ وہ یہاں سے نزدیک ہے۔ لیکن پھر ٹوکن کے پیسوں کا خیال آیا اور رک گئے۔ چالیس منٹ مشعل کے ساتھ آرٹ اینڈ کرافٹ فار کڈز میں گذارے۔
باری پہ اندر گئے۔ مزید صدمہ، مینو میں صرف چار چیزیں شامل تھیں۔ آرڈر دیا۔ آدھ گھنٹے بعد جب وہ آئیں تو اندازہ ہوا کہ سرونگ خاصی کم ہے ایک شخص ، خاص طور پہ ایک مرد پیٹ بھر کے نہیں کھا سکتا۔ مزید کے لئے آرڈر دیا۔ کھانا بالکل عام مزے کا۔ پیسے چار سو روپے فی پلیٹ۔ تیس روپے ایک چپاتی۔
باہر نکل کر سوچا کہ سامنے گولا گنڈے والا کھڑا ہے اسے ٹرائ کرنا چاہئیے۔ لاہور کی فوداسٹریٹ پہ بڑے مزے کا ، خوب بڑا گولا گنڈا بناتا ہے۔ اپنے بچپن میں بھی گولے گنڈے پہ جان دیتے تھے۔ وہاں پہنچے تو معلوم ہو اکہ ایک گلاس میں برف چور کر کے بھر کے اوپر سے مختلف سیرپ ڈال کر دے رہے ہیں۔ گولے گنڈے کی یہ توہین برداشت نہ ہوئ۔ ان سے پوچھا کہ ڈنڈی پہ نہیں ملے گا۔ فرمایا، ہم اسٹک پہ نہیں لگاتے۔
چناچہ ہم وہاں سے سٹک گئے۔ پر تعیش زندگی کے عادی لوگوں کے نخرے دیکھے۔ اور واپسی کا سوچا۔
رات کے گیارہ بج چکے تھے۔ حساب لگایا کہ گھر پہنچنے میں ساڑھے گیارہ بج جائیں گے۔ساڑھے نو سے، ساڑھے گیارہ بجے والا لوڈ شیڈنگ کا ٹائم ختم ہو جائے گا۔ بس اس آءوٹنگ میں ایک مثبت بات یہی نکلے گی۔
داخلی دروازے سے باہر کھڑے ویلے پارکنگ سے گاڑی کے باہر آنے کا انتظار کرتے ہوئے میں نے دیکھا کہ فٹ پاتھ پہ تین خواتین بڑے بڑے مدنی برقعے پھیلائے فٹ پاتھ پہ بیٹھی تھیں۔ انکے پاس ایک آٹھ نو سال کی بچی کھڑی تھی۔ اس نے بھی کالے رنگ کا عبایہ پہنا ہوا تھا اور اسکارف باندھا ہوا تھا۔
ایک طرف مغربی اور جدید لبادوں میں ملبوس فیشن ایبل خواتین کی لمبی قطار، درمیان میں ، میں اور دوسری طرف مدنی برقعے جو کہ ایک ایک بچی بھی پہنے ہوئے تھی۔ میں نے سوچا ہم تینوں ہی یہاں آکر مایوس ہوئے ہونگے۔ مدنی برقعے، مغربی لبادوں کو دیکھ کر اور مجھے بے حجاب دیکھ کر، مغربی لبادے مدنی برقعوں کو دیکھ کر یہ بھی یہاں موجود ہیں اور میں یہ سوچ کر کہ کیا اب حکام کے پاس ہم جیسے عوام کے لئے پروجیکٹس ختم ہو گئے ہیں۔ شہر میں ہم اکثریت میں ہیں اور کثیر سرمائے سے عیاشی کے پروجیکٹس اقلیت کے لئے۔
جن افضل لوگوں کے لئے آپ نے یہ سب کچھ بنایا، انہیں تو اب بھی اس میں کوئ قابل ذکر بات نہیں نظر آئے گی سوائے اسکے کہ لیٹسٹ ٹرینڈز فیشن کے دیکھنے اور دکھانے ہوں تو یہاں آجائیں۔ اندازہ ہے یہ اس طبقے کے نوجوان کو مصروف رکھنے کے لئے تیار کی گئ ہے۔ جو چائے کی پیالی میں طوفان اٹھائیں یا بیٹھ کر نیرو کی طرح بانسری بجائیں۔ البتہ یہ کہ الکوحل اور نشہ آور اشیاء پہ پابندی ہے۔ یہ زیادتی ہے۔ اس ماحول اور طبقے کے ساتھ۔
عام لوگوں کے لئے اول تو یہاں پہنچنا ہی مشکل ہے۔ یہاں پہنچ جائیں تو اس مہنگے، بے مزہ کھانے پہ اتنا کیوں خرچ کریں۔ پاکستان تو دور، فی الحال تو اسے کراچی کی بھی سب سے بڑی فوڈ اسٹریٹ نہیں کہا جا سکتا۔ اس سے تو بہتر ہے کہ بوٹ بیسن کی فوڈ اسٹریٹ چلے جائیں۔ وہ کہیں گے، اتنی دیر میں یہ بات سمجھ میں آئ۔ بوٹ بیسن آپکے لئے ، پورٹ گرانڈ ہمارے لئے۔
لیکن خیر، ہمارے کراچی کے بلاگرز چاہیں تو ایک میٹ اپ یہاں رکھ لیں۔ سمندر کے کنارے تازہ ہوا کے ساتھ رات کو پورٹ کی روشنیاں دیکھیں۔ احتیاط سے گفتگو فرمائیں۔ دل چاہے تو کچھ ہلا گلا کریں اور کھانے میں اپنے ٹوکن کے دو سو روپے استعمال کریں ۔ الگ سے کچھ خرچ کرنے کی ضرورت نہیں۔
شاپنگ ایریا میں وقت ضائع کرنے کی ضرورت نہیں۔ غیر شادی شدہ، خوش شکل، خوش پوش، انگلش بہتر طور پہ بول لینے والے نوجوان چاہیں تو کسی اعلی خاندان کی حسینہ سے میل جول پیدا کرنے کے لئے یہاں پہ کوشش کر سکتے ہیں. ۔
اسکی مشہوری کرنے والے ادارے اپنا سلوگن تبدیل کر لیں۔ پاکستان میں ایلیٹس کے لئے مخصوص سب سے بڑی فوڈ اسٹریٹ۔ جسکی تعمیر میں امریکہ، اٹلی اور تھائ لینڈ کے ماہر اداروں نے حصہ لیا ہے۔
اگر وہ ایسا نہیں کریں گے تو عوام وہاں پہنچ کر صدمے کا شکار ہوتے رہیں گے۔ اور واپس آ کر کہیں گے سب شہنشاہوں نے پیسے کا سہارا لے کر، ہم غریبوں کی بھوک کا اڑایا ہے مذاق۔ عوام کی بھوک کا مذاق اڑانا، اشرافیہ کے مستقبل کے لئے اچھا نہیں ہے۔ یہ تمام الہامی و اساطیری دانش کا کہنا ہے۔
شام آرہی ہے، ڈوبتا سورج بتائے گا
تم اور کتنی دیر ہو ، ہم اور کتنی دیر
بڑی محنت کی ہے آپ نے یہ فیچر لکھنے میں۔ لیکن آپ کی محنت رائیگاں نہیں گئی کیونکہ ہماری معلومات میں اضافہ ہی ہوا۔ آپ کی بات درست مگر اشرافیہ کیونکر عوامی مزاج کا خیال رکھے گی۔ یہ تو کوئی عوامی نمائندہ ہی عوام کو سہولتیں پہنچائے گا۔
ReplyDeleteیونین کونسل کا نظام اچھا چل رہا تھا۔ مصطفی کمال کے کارنامے کمال کے تھے مگر حیرانی ایم کیو ایم پر ہوتی ہے کہ وہ بھی یونین کونسلوں کی بحالی پر احتجاج نہیں کر رہی۔
کراچی کے اردو بلاگر تو متواسط طبقے ہے ہیں اس لئے اول تو یہاں رکھ ہی نہیں سکتے ملاقات دوئم فیملی کا داخلہ ممکن ہے لڑکے ممنوع ہیں تنہا۔۔
ReplyDeleteباقی یہ بات درست ہے اب متواسط طبقے کی تفریح کی نئے منصوبے نہ ہونے کے کے برابر ہیں جبکہ غریب و متواسط طبقے کی تفریح کا سامان کیا جائے تو ملک میں پھیلی احساس محرومی کم ہو سکتی ہے
جب کھانے کے لئے ٹوکن کے دو سو روپے استعمال ہوسکتے تھے تو آپ نے الگ سے پیسے خرچ کیوں کئے؟
ReplyDeleteمذکورہ طبقہ تصاویر میں دیکھائی نہیں دیا۔ یا آپ ہی نے ان کی تصاویر نہیں کھینچی ؟
لاہور کی فوڈ سڑیٹ تو میں کبھی دیکھ ہی نہیں سکا۔ میرے بعد بنی ، اور اب تو ختم بھی ہوچکی۔ آپ دیکھ چکی ہیں تو آپ نے اب تک سفرنامہ لاہور کیوں نہیں لکھا ؟
عام بندہ وہاں نہیں پہنچ سکتا تو گولے گنڈے والا کیسے پہنچ گیا۔ کیا طبقہ اشرافیہ بھی گولا گنڈا نوش فرماتا ہے؟
طبقہ اشرافیہ نشے میں کون کون سے چیزوں سے شغل فرماتا ہے۔ تفصیلاً بیان کریں۔
طبقہ اشرافیہ کے حدود اربعہ پر بھی روشنی ڈالیے۔
اگر میں کراچی آؤں تو یقیناً آپ مجھے وہاں لے کر جائیں گی۔ چلیں میں نہیں جاتا، تین سو روپے نقد ارسال کردیجئے۔
طبقہ اشرفیہ کے ہوٹلوں وغیرہ میں اکثر یہ بات ہوتی ہے کہ ایک تو معمولی سا عام کھانا کچھ زیادہ مزیدار نہیں ہوتا ، دوسرے بات یہ کہ آیک آدمی کیلئے ناکافی ہوتا ہے۔ خود میرے ساتھ ہی اسطرح کئی بار ہوا ہے کہ اعلیٰ ہوٹل وغیرہ میں جب آرڈر دیا تو بس ایک ہی نوالے میں کام تمام ۔ دوسرا کافی منگا ہوتا ہے۔
ReplyDeleteمزا تو متوسط ہوٹلوں میں ہوتا ہے کہ کھانا وافر مقدار میں ملتا ہے اور مزیدار اور سستا بھی ہوتا ہے۔
چلو آپکی توسط سے کراچی فوڈ سٹریٹ کا تصویری چکر لگا لیا۔
شعیب صفدر صاحب، آپکی بات سن کر مجھے حیرانی ہے۔ کیونکہ میں نے وہاں بڑی تعداد میں لڑکے لڑکیاں دیکھے جو گروپ کی شکل میں بیٹھے ہوئے تھے۔ میرا خیال ہے کئ لڑکے لڑکیاں مل کر جائیں تو فیملی ہی تصور ہونگے۔
ReplyDeleteعثمان، دو سو روپے میں میرا خیال ہے کوئ چھوٹی موٹی چیز آجائے گی۔ جیسے پوپ کارنز یا گولا گنڈا اور سموسے وغیرہ۔ ہم تو کھانا کھانے بیٹھ گئے تھے۔ اس لئے نقصان رہا۔ تین چار تصویریں کھینچنے کے بعد کیمرہ موصوف نے اطلاع دی کہ بیٹری ختم ہو گئ ہے۔ میں گھر پہ چیک کرنا بھول گئ تھی۔ اس میں سے دوتین تصویریں ہی میری ہیں۔ اور ان میں لوگ نہیں ہیں۔
تو آپ سمجھتے ہیں کہ گولا گنڈا اور اس قسم کی چیزیں صرف عوام ہی کھاتے ہیں۔ بڑے بھی کھاتے ہیں مگر اسٹائل سے۔ اسی لئے تو ڈنڈی پہ برف ٹھونس کر نہیں لگائ اس نے۔ سُڑک سُڑک برف چونسنے سے اسٹائل خراب ہوتا ہے۔
کچھ چیزوں کے لئے الگ سے پوسٹ لکھنی پڑے گی۔ طبقہ ء اشرافیہ کا حدود اربعہ کراچی میں تو موجود ہے اور اسکے لئے اکثر پل کے اس پار کی اصطلاح استعمال کی جاتی ہے۔
اگر آپ کراچی آئے تو میں برنس روڈ لے جاءونگی۔ وہاںہم دونوں چار سو روپے میں گولا کباب کھائیں گے۔ پھر سامنے سے ربڑی خریدیں گے۔ یا پھر کیفے پیالہ سے جا کر ملائ پراٹھہ ، پٹھآن کی دودھ پتی کی چائے کے ساتھ۔ چار سو روپے میں چار لوگ کھالیں گے۔ لوگوں کی لائیو مالش ہوتے دیکھیں، یہ سین الگ سے۔ فیملی کا ساتھ میں ہونا ضروری نہیں۔ معمولی گاڑی میں بھی جائیں تو لوگ آپ سے خوشدلی سے پیش آئیں گے۔
تین سو روپے کینڈیئن ڈالر میں چار ڈالر سے بھی کم بنیں گے۔ آپ وہاں اس سے چاکلیٹ ہی لے کر کھا سکتے ہیں۔ دانت خراب ہونگے۔ چھوڑیں جانے دیں۔
عثمان کا سوالیہ پرچہ حل کرنے کے ۱۰ نمبر ہیں اور خوش الفاظی کے اضافی دو کباب مع چپاتی
ReplyDeleteعثمان، مجھے یہ جان کر صدمہ ہوا کہ لاہور کی فوڈ اسٹریٹ بند ہو گئ۔ عوامی جگہیں جہاں خواتین کے ساتھ بد تمیزی نہ ہو۔ مجھے بہت مزے کی لگتی ہیں۔
ReplyDeleteفوڈ سڑیٹ کے بارے میں سنا ہے کہ باضابطہ طور پہ بند نہیں کی گئی۔ لیکن اب اس کے وہ انتظامات بھی نہیں رہے جو کبھی ہوا کرتے تھے۔ فوڈ سڑیٹ دراصل گوالمنڈی کے علاقے میں واقع ہے جو کہ میاں صاحب کا ایک آبائی انتخابی حلقہ ہے۔ یہاں کھانے پینے کی دکانیں پہلے ہی سے موجود تھیں۔ مشرف دور میں اس کی سج دھج کرکے توسیع کی گئی۔ اور یہ علاقہ محض گوالمنڈی سے ترقی پا کر ایک مقبول سیاحتی مقام کی شہرت اختیار کر گیا۔ شام کو یہاں ٹریفک بند کردی جاتی تھی جس کی وجہ سے شائد علاقے کے مقینوں کو شکایات رہتی تھی۔ میاں صاحب کی حکومت جب واپس آئی تو غالباً ان شکایات کے پردے میں فوڈ سڑیٹ کا قصہ پاک ہوگیا۔ اب پھر محض گوالمنڈی ہی رہ گئی ہے۔
ReplyDeleteبہرحال مجھے تو ذیادہ تفصیل معلوم نہیں۔ لوگوں ہی سے سنا ہے۔ جاوید چودھری یا شائد رؤف کلاسرہ نے اپنے کالم میں تذکرہ کیا تھا کہ فوڈ سڑیٹ کو بندکرنے کے پیچھے بغض مشرف کارفرما ہے۔ میاں صاحب کو پسند نہ تھا کہ عین ان کے "گھر" میں ان کے رقیب کا بنایا منصوبہ کامیابی سے چل رہا ہے۔
ارے یہ کیا .. میں تو شجر ممنوعہ پر پھسل پڑا .. چل عثمان بھاگ یہاں سے۔
مجھے کراچی کے طبقہ اشرافیہ کے بارے میں جاننے کا بہت شوق ہے جی۔ یہاں انٹرنیشنل سٹوڈنٹ سے کچھ میل ملاقات رہی ہے۔ لیکن پھر بھی کوئی اتنا ذیادہ میل جول نہ تھا۔ میرا خیال تھا کہ باقی کسر آپ کے ساتھ کراچی کی سیر میں پوری کرلوں گا۔ لیکن آپ کے منصوبے تو کافی مایوس کن ہیں۔ آپ تو بس چائے اور گولے گنڈے پر ہی ٹرخا رہی ہیں۔
ReplyDeleteکراچی آتے تو مجھے ویسے بھی ڈر لگتا ہے۔ بلکہ اب تو پاکستان کا سوچ کر ہی ڈر لگتا ہے۔
درویش خراسانی صاحب، مجھے بڑے ہو ٹلز پہ اعتراض نہیں ہوتا۔ معاشرے کے ہر طبقے کو سوشلائزیشن کے لئے مقامات چاہئیے ہوتے ہیں ۔ لیکن حکومتی ادارے جب منصوبہ بندی کرتے ہیں تو اسے عوام کو سامنے رکھنا چاہئیے نہ کہ خواص کو۔ خواص کے لئے کراچی میں جگہوں کی کوئ کمی نہیں۔ اور انکے وسائل ایسے ہیں کہ جب چاہا پاکستان سے باہر نکل گئے۔
ReplyDeleteحکومت ایک منصوبہ بناتی ہے اس پہ زر کثیر صرف ہوتا ہے۔ اسکی تشہیر کی جاتی ہے۔ لیکن وہاں پہنچ کر ایک عام شخص کو اندازہ ہوتا ہے کہ یہ اسکے لئے نہیں ہے۔ اسے کیسا محسوس ہوگا؟
دوسرے بڑے ہوٹلز میں اچھا ماحول ملتا ہے کم از کم چار لوگ بیٹھ کر اطمینان سے بات کر سکتے ہیں، سروس ملتی ہے، پریزینٹیشن ہوتی ہے ان سب کے ساتھ کھانے کی قیمت زیادہ ہو تو برا نہیں لگتا۔ لیکن ماحول میں افراتفری، برنس روڈ پہ ملنے والے چار ٹشو ایک پلیٹ میں اور کھانا بھی کسی مزے کا نہیں۔ تو پھر اسکے پیسے دیتے ہوئے سوچنا پڑتا ہے۔ کیا اتنے پیسے اس جگہ خرچ کرنا درست ہے۔
عثمان، اکثر چیزیں ایک ماحول میں درست کگتی ہیں لیکن دوسرے ماحول میں مذاق بن جاتی ہیں۔ مثلاً پاکستان میں کسی بچے کو اماں کے ہاتھوں پٹتا دیکھیں تو معمول کی کارروائ ہے۔ لیکن یہی چیز آپکو کینیڈا میں نظر آجائے تو آپکو حیرت ہوگی یا اگر آپ نے وہیں جنم لیا تو صدمہ۔
اشرافیہ کے روئیے کے اندر خاص بات ہوتی ہے۔ جسے آپ پاکستان میں رہ کر محسوس کر سکتے ہیں۔ کینیڈا میں یہ اتنی آسانی سے پتہ نہیں چلے گی۔
جل کراچی موج کمائیاں دھوتئ چھاڈکہ پینٹا پا ئیا
ReplyDeleteپورا پاکستان ہی اشرافیہ کیلئے بنا تھا۔ آپ تو صرف ایک جگہ کو رو رہی ہیں۔
ReplyDeletehttp://www.newleftreview.org/?view=27
امید ہے آپکی رسائی ہو گی اس آرٹیکل کے مکمل متن تک۔
نہ ہو تو بتا دیجیے گا۔
چار سو روپے فی پلیٹ اور تیس روپے چپاتی؟ :| اللہ معاف کرے۔۔۔
ReplyDeleteکل ہی ددھیال میں سب جمع تھے تو اس فوڈ اسٹریٹ کی بات ہونے لگی جس کے بارے میں یہ دعوا بھی پتا چلا کہ یہ ایشیا کی سب سے بڑی فوڈ اسٹریٹ ہے۔۔۔ سوچا تھا کہ کبھی سب کزنز مل کر چکر لگالیں گے لیکن اس روداد کے بعد تو کوئی ارادہ نہیں۔
فیصل صاحب،آپکے اس لنک کا شکریہ لیکن اسکے مکمل متن تک میری رسائ نہیں ہو سکی۔
ReplyDeleteعمار ابن ضیاء، ایک دفعہ ضرور چکر لگائے۔ لکھنے لکھانے کا شوق رکھنے والوں کو ذاتی تجربہ ضرور لینا چاہئیے۔ بس یہ کہ زیادہ امید مت رکھیں۔ ایشیا کی سب سے بڑی کیا مشتہر کو آزادی ہے وہ اسے دنیا کی سب سے بڑی کہہ دے۔ کون چیلینج کرے گا۔
ہم نے تو جی ایک اصول بنالیا ہے کہ اچھا کھانا صرف ڈھابے پر ہی ملتا ہے چاہے وہ دنیا کے کسی بھی خطے کا ہو اور اب بالکل مایوسی نہیں ہوتی :)
ReplyDeleteپاکستان نہیں بلکہ دنیا میں ہر جگہ طبقہ اشرافیہ کا سریا ایک ہی فیکٹری میں تیار ہوتا ہے۔۔ اس میں اچھنبے کی بات نہیں۔ تفریح کے لیے تو ایسی جگہوں پر جانے میں کچھ حرج نہیں لیکن پیٹ پوجا کے لیے تو قطعا نہیں۔ اور کراچی میں تو کئی اچھی اور اعلی میعار کی جگہیں دستیاب ہیں۔
بات تو درست ہے جناب۔۔۔ کہ جو کھانا چھوٹے ریسٹورینٹ یا ڈھابے پر ملتا ہے۔۔۔ اس کا مقابلہ کوئی فائیو سٹار ریسٹورنٹ یا انیٹرنیشنل چین نہیں کر سکتی۔۔۔
ReplyDeleteبڑی جگوں پر جانے اور کھانے بھی تو بڑوں کا فیشن ہی ہے۔۔۔ اسٹیٹس سمبل ہی کہہ لیں۔۔۔
ہم لوگ تو جہاں دری بچھی ملی۔۔۔ وہیں بیٹھ کر سکون سے کھاتے ہیں۔۔۔
بہت اچھا لکھا ہے آپ نے ۔ حيرت ہے کہ کراچی پر حکمران جماعتيں تينوں عوام کا غم کھانے کی دعويدار ہيں مگر ؟ ؟ ؟
ReplyDeleteلاہور کی فوڈ سٹريٹ جو گوالمنڈی ميں بنائی گئی تھی کم از کم 2 سال قبل بند کر دی گئی تھی ۔ وجہ عوامی احتجاج بتائی جاتی ہے ۔ قريبی بازاروں کے گاہکوں اور رہائشيوں کيلئے مشکلات پيدا ہو گئی تھيں
اسلام آباد ميں 2 فوڈ سٹريٹس کاميابی سے چل رہی ہيں ۔ پہلے ايک ميلوڈی مارکيٹ ميں بنی تھی ۔ اس کی کاميابی کے بعد دوسری بليو ايريا ميں بنائی گئی تھی ۔ ميلوڈی مارکيٹ والی کھانے اور انتظامات کے لحاظ سے بہتر ہے وہاں خاندانوں کے علاوہ اکيلی عورتيں يا لڑکياں اور اکيلے مرد يا لڑکے بھی جاتے ہيں مگر اکيلوں پر ہی نہيں خاندانوں پر بھی سيکيورٹی والے نظر رکھتے ہيں جو کہ عام کپڑوں ميں ہوتے ہيں ۔ سب کو صرف کھانے کيلئے بيٹھنے کی اجازت ہے دوستياں بنانے کيلئے نہيں
لاہور میں دو فوڈ سٹریٹس تھیں۔ ایک پرانی جو کہ گوالمنڈی میں تھی جس کو اب ختم کر دیا گیا ہے۔دوسری
ReplyDeleteانار کلی میں اب بھی موجود ہے۔
دوستوں کے ساتھ وہاں جانے کا اپنا ہی مزہ ہے۔ کھانا بھی مناسب قیمت کا ہوتا ہے۔ اور مزا بھی روایتی لاہوری۔۔۔۔