اس وقت جبکہ میں یہ لائینیں لکھ رہی ہوں۔ میرے چاروں طرف اندھیرا ہے۔ اگر آپ اکیسویں صدی کے پاکستانی ہیں تو سمجھ گئے ہونگے، یہ اندھیرا چراغوں میں روشنی نہ ہونے کے باعث ہے۔ آٹھ گھنٹے روزانہ بجلی یہ آنکھ مچولی ہمارے ساتھ کھیلتی ہے۔ میں اپنے اردگرد رہنے والوں سے پوچھتی ہوں کیا ایسا ممکن ہے کہ ہم اپنی باقی کی زندگی میں کوئ ایسا دن جی پائیں کہ سارا دن بجلی موجود رہے؟ وہ ہنس دیتے ہیں، چپ ہو جاتے ہیں۔ کسی کے پردے کی خاطر نہیں بلکہ اس لئے کہ تقدیر پہ راضی برضا ہیں ۔
لیکن کیا کے ای ایس سی کے ان چار ہزار ملازمین کو بھی تقدیر پہ راضی ہوجانا چاہئیے۔ جنہیں کے ای ایس سی وسائل نہ ہونے کی وجہ سے بوجھ قرار دیتی ہے اور انہیں ملازمت سے فارغ کرنا چاہتی ہے۔ کیا واقعی کے ای ایس سی اتنی کنگال ہے کہ وہ چھوٹے گریڈ کے مزدوروں کی تنخواہ ادا نہ کر سکے۔ آئیے دیکھتے ہیں اس میں کتنا سچ ہے۔
پاکستان ٹو ڈے میں شائع ہونے والی ایک رپورٹ کے مطابق نجی ملکیت میں جانے کے بعد کے ای ایس سی کی نئ انتظامیہ نے بجلی کی فراہمی کو بہتر بنانے کے بجائے ، کمپنی کی بہتری کے لئے جس نکتے پہ زور دیا وہ اشرافیہ کے طبقے کے لئے پر تعیش روزگار کا مہیا کرنا ہے۔ یوں کے ای ایس سی مزدوروں کی تنخواہ تو ادا کرنے کے قابل نہیں ۔ وہ انکی تحریک کے خلاف کروڑوں روپے خرچ کر کے اشتہارات چلا سکتی ہے مگر وہ انہیں ملازمت پہ رکھنے سے قاصر ہے۔
یہاں ایک فہرست ہے جس میں چند چیدہ چیدہ شخصیات کے منظور نظر کس طرح اسی کنگال کے ای ایس سی سے اپنی راتیں شب برات اور دن عید کر رہے ہیں۔
نوید حسنین ، پی ایم ایل کیو کے ایم این اے ہمایوں اختر کے قریبی رشتے دار گروپ ہیڈ آف ریکوری کے طور پہ انتیس لاکھ لے رہے ہیں۔
نیات حسین، جو کہ پی پی کی ایم این اے شیری رحمن کے ایک رشتے دار ہیں، ٹیکنیکل گروپ ہیڈ کے طور پہ پچیس لاکھ روپے سے بہر مند ہو رہے ہیں۔
آئ ایس آئ کراچی کے سابق ہیڈ بریگیڈیئر مظہر احمد اور ریاٹائرڈ بریگیڈیئر مسعود احمد، سیکیوریٹی چیف کے طور پہ پندرہ، پندرہ لاکھ روپے ماہانہ لے رہے ہیں۔ انکی تقرری ایوان صدر سے براہ راست ہوئ۔
عاسر منظور، گروپ ہیڈ آف ہیومین ریسورسز کی حیثیت میں بیس لاکھ روپے ماہانہ لے رہے ہیں۔ یہ پہلے اتفاق فونڈری میں کام کرتے رہے۔ وہی اتفاق فونڈری جو شریف برادران کی ملکیت ہے۔ منظور صاحب پہ یہ الزام بھی ہے کہ وہ کے ای ایس سی انتظانیہ اور ورکرز کے درمیان غلط فہمیاں پیدا کرنے کے ذمہ دار ہیں۔
ضرار ناصر خان، جنرل مینیجر، عاسر کے بہنوئ ہیں انکی خوش قسمتی کے اٹھارہ مہینوں میں دو بار ترقی کے مزے چکھے۔ جبکہ انکی تقرری غیر قانونی سمجھی جاتی ہے۔ وہ بھی پانچ لاکھ حاص کرنے میں کامیاب۔
ایم کیو ایم کے صوبائ وزیر، عادل صدیقی کے بھائ آصف حسین سات لاکھ تنخواہ لے رہے ہیں۔
اٹھارہ ریٹائرڈ فوجی کرنلز، کمپنی میں کام کرتے ہوئے پانچ لاکھ مہینہ تنخواہ لے رہے ہیں۔
ایم کیو ایم سے تعلق رکھنے والی ممبر اسمبلی ، شہر کے مشہور صنعت کار کی بیگم اور شو بز میں نام کمانے والی خاتون، خوشبخت شجاعت کے فرزند ارجمند جناب شہباز بیگ بطور ٹریننگ ڈائریکٹر، کنگال کے ای ایس سی سے پانچ لاکھ ماہانہ تنخواہ لے رہے ہیں۔
پی پی کے پیر مظہر الحق کے صاحبزادے بھی پانچ لاکھ روپے حاصل کرنے کی گنتی میں ہیں۔
یہ تقریباً ساڑھے سات سو لوگوں میں سے چند لوگوں کے نام ہیں جو کے ای ایس سی میں سیاسی جانبداریوں کے نتیجے میں موجود ہیں اور جنہیں لاکھوں روپے دے کر، کے ای ایس سی کے حکام سمجھتے ہیں کہ اب بیٹھ کر چین کی بنسی بجائیں
کے ای ایس سی کے وہ ملازمین جو اپنے حقوق کی جنگ لڑ رہے ہیں وہ ہنر مند ہیں جنکی تنخواہیں دس سے تیس ہزار کے درمیان ہیں۔
اس رپورٹ کو پڑھ کر چند سوال ذہن میں اٹھتے ہیں ۔ مثلاً ایسا کیوں ہے کہ ملک بھر میں جتنی ایگزیکیٹو پوسٹس ہوتی ہیں جہاں کام کرنے کو ککھ نہیں ہوتا اور پیسہ ہُن کی طرح برستا ہے یہ ساری پوسٹس چند خاندانوں کے درمیان کیسے بٹتی رہتی ہیں۔
یہ کیا بات ہوئ کہ وہ لوگ جو ہنر مند ہوں جن پہ دراصل ایک ادارہ چل رہا ہو ان کے راضی یا ناراضی ہونے کی تو پراوہ نہ ہو اور وہ جو عہدے اور روپوں سے آگے کچھ نہیں جانتے انہیں راضی رکھنے کی کوشش میں تن من دھن سب لگا دیا جائے۔
یہ کہ ادارہ اپنے اصل کام پہ تو خرچ کرنے کو تیار نہ ہو۔ یعنی کے ای ایس سی بجلی کی پیداوار بڑھانے کے بارے میں تو کچھ خرچ کرنا نہ چاہتی ہو، لیکن چند لوگوں کو خوش کرنے کے لئے اپنی آمدنی کا بیشتر حصہ ان پہ لگادے۔
کہانی یہیں پہ بس نہیں ہوتی۔ کے ای ایس سی کے پاس ان سارے اللے تللوں کے بعد جو پیسہ بچتا ہے وہ اپنے انہی نچلے طبقے کے ملازمین کے خلاف مہم چلانے اور اشتہار بازی پہ خرچ کرنے کو بھی غیر اخلاقی نہیں سمجھتی۔ وہ ملازمین، جو اس ملازمت سے علیحدہ ہوں تو اپنے خاندان کے لئے انکے پاس کچھ نہ ہو۔
مختلف سیاسی جماعتوں سے استفادہ حاصل کرنے والے بادشاہ اور شہزادے یہ کیوں نہیں سمجھتے کہ سونے کے انڈے دینے والی مرغی کو زندہ رکھنا ضروری ہوتا ہے وہ اگر اپنی عیاشیوں میں سے صدقے کے برابر بھی کمی کر لیں تو نچلے طبقے کی زندگی میں آسانیاں پیدا ہو سکتی ہیں۔
اس معاملے کا مزید دلچسپ پہلو اس وقت سامنے آتا ہے جب مولوی صاحب بھی فتوی جاری کرتے ہیں کہ کے ای ایس سی کی انتظامیہ کے خلاف ورکرز کی تحریک غیر اسلامی ہے۔
لو وہ بھی کہتے ہیں کہ یہ بے ننگ و نام ہے۔
جب تک کراچی میں بجلی چوری ختم نہیں ہوگی کراچی اندھرے میں ڈوبا رہے گا
ReplyDeleteجن زمانوں میں میں نے پاکستان چھوڑا تھا اس وقت ہمیں بجلی کا بل شائد کوئی چار پانچ سو روپے آتا تھا۔ جن کے پاس اے سی تھے ان کا ذیادہ ہوگا۔ لوڈ شیڈنگ عموماً شام ہی کو ہوتی تھی۔ آدھ پونے گھنٹے کے لئے چلی گئی۔ یا اگر پتنگ بازی ذیادہ ہے تو زائد مصیبت۔
ReplyDeleteآج کل بل کتنا آتا ہے جی ؟
چلیئے اب آپ نے ایم کیو ایم کے لوگوں کے بھی نام لکھ دیئے ہین تو ان بے غیرتوں کو شائد کچھ شرم آجائے جو آپکی غیر جانبدارانہ باتوں کو اپنی ذہریلی سوچ کے مطابق سمجھتے ہیں!!!!!
ReplyDeleteAbdullah
سب اشرافیہ ایک ہیں ، قربانی بس غریب نے دینی ہے!!!۔
ReplyDeleteعنیقہ بہت خوب ، آپ کی تحریر ایک آئی اوپنر ھے ، کاش ایسی تحریریں ہمارے ارباب اختیار بھی پڑھیں ، اور مجھے پتہ ہے کہ جواب کیا دیں گے ، اور آپنے تحریر کا اختتام بالکل صحیح کیا ہے ، بلکہ میں تو یہ ہی کہوں گا کہ ہمارے معاشرے کے بگاڑ کی جڑ ہی یہ “مولانا“ ہیں ۔ ۔ ۔ ایک بہت اچھی تحریر لکھنے پر مبارک باد اور میں اسے ضرور آگے تک پہنچانے کی کوشش کروں گا
ReplyDeleteعثمان، آٹھ گھنٹے بجلی غائیب رہنے کے بعد جو بل آتا ہے وہ بھی ہزاروں میں ہوتا ہے۔ اس میں اگر اے سی کا خرچ بھی شامل ہو تو بل پانچ ہندسوں میں آئے گا۔
ReplyDeleteشعیب صفدر صاحب، یہ اشرافیہ کی چالاکی ہے۔ وہ اندر سے ملے ہوتے ہیں اور اوپر سے الگ الگ۔ ان کا مقصد ایک ہوتا ہے۔ طاقت اور پیسے کو مل بانٹ کر کھانا۔
اور سب سے بڑا ظلم یہ ہوتا ہے کہ ہم جیسے شریف لوگ جو نہ تو کنڈہ لگاتے ہیں نہ میٹر میں گڑ بڑ کرتے ہیں،اپنا بل بھی وقت پر جمع کرواتے ہیں،
ReplyDeleteہم علاقے میں ایسے مجرمون کے کرتوتوں کی وجہ سے،اپنی استعمال کی ہوئی بجلی سے زیادہ بل ادا کرتے ہیں، کیونکہ کے ای ایس سی والے پورے علاقے میں استعمال ہوئی بجلی کو سب لوگوں پر تقسیم کردیتے ہیں!!!!!
Abdullah
عنیقہ آپکو اور تمام پاکستانیوں کو بہت مبارک ہو،
ReplyDeleteبحری قزاقوں کی قید سے پاکستانیوں کو رہائی ملی،
الحمد للہ رب العالمین،
مگر اس خوشی کو اسلام آباد کے بینک کے سکیورٹی گارڈ کی شہادت نے دھندلا دیا،
پہلے پشاور کا خود کش دھماکہ اور اب یہ پتہ نہیں ہمیں کب دہشت گردوں سے رہائی ملے گی؟؟؟؟؟؟
Abdullah
ان صاحب نے بھی اسی موضوع پر کچھ لکھا ہے،
ReplyDeletehttp://universe-zeeno.blogspot.com/2011/07/blog-post_18.html#comment-form
مگر چونکہ تبصروں کی پبلشنگ بند کی ہوئی ہے تو میں اپنا تبصرہ آپکی اجازت سے یہاں پوسٹ کررہاہوں!
گویا آپ غیر قانونی بجلی استعمال کرنے کے حق میں ہیں؟؟؟
کیا آپ بجلی کا بل بغیر کسی ہیرا پھیری کے ادا کرتے ہیں؟؟؟؟
کیا آپ کا ذریعہ معاش حق حلال ہے؟؟؟؟
ان دو باتوں کے ساتھ کوئی بھی اس ظلم کےلیئے ایسی دلیل نہیں دے گاجیسی جناب دے رہے ہیں!!!!
Abdullah