Showing posts with label اقلیت. Show all posts
Showing posts with label اقلیت. Show all posts

Wednesday, June 27, 2012

خوشدلی کے راستے

میں فرسٹ ایئر آنرز کی اسٹوڈنٹ تھی جب وہ میرے پاس آیا۔ وہ اس وقت آٹھویں جماعت کا طالب علم تھا اور خاصہ ذہین۔ نہ صرف ذہین بلکہ شریر بھی تھا۔ وہ اکیلا نہیں آیا تھا بلکہ اسکے ساتھ ایک بہن اور دو بھائ بھی  تھے۔ وہ ان میں سب سے بڑا تھا۔ باقی بہن بھائ بھی اچھے ذہین بچے تھے۔ یہ سب مجھ سے ٹیوشن پڑھنے آتے تھے۔ ذہین بچوں کو پڑھانے میں کسے مزہ نہیں آتا۔ مجھے تو پیسوں کی ضرورت بھی تھی۔ وہ سب مجھ سے پڑھ کر خوش تھے۔ انکے گھر والوں کو ایک تسلی اور بھی تھی اور وہ یہ کہ یہاں ان سے کوئ اس بابت سوال نہیں کرتا تھا کہ وہ قادیانی ہیں۔ اتنے بڑے علاقے میں وہ واحد قادیانی خاندان تھا۔ اگرچہ کسی نے کبھی انکے لئے سخت رویہ اختیار نہیں کیا تھا لیکن ایک چحوٹی جگہ ہونے کی بناء پہ لوگ بطور خاص یہ بات جانتے تھے کہ وہ قادیانی ہیں۔
ان کے دادا نے اپنا قادیانی لٹریچر بھی پڑھنے کو دیا۔ انہی کی دی ہوئ سر ظفراللہ کی سوانح حیات بھی پڑھی لیکن اب مجھے یاد بھی نہیں ہے۔  ہم میں سے کوئ بھی قادیانی نہ ہو سکا۔  پڑھنے کو تو عیسائیوں کا تبلیغی مواد بھی پڑھا۔ خدا جانے کون بھیج دیا کرتا تھا۔ لیکن ہم میں سے کسی کو عیسائ ہونے کی بھی چاہ نہ ہوئ۔ 
آئیندہ ایک ڈیڑھ سال میں وہاب کا قد مجھ سے بھی بڑھ گیا۔  لیکن وہ اسی طرح مسکراتا اپنا کام کرتا رہتا۔ میٹرک کے امتحان میں اس نے اے ون گریڈ لیا۔ یہ اس وقت کی بات ہے جب تھوک کے حساب سے اے ون گریڈ بھی نہیں آتے تھے۔ مجھے بھی خوشی تھی کہ میرے اسٹوڈنٹ کے بیاسی فی صد نمبر آئے ہیں۔ لیکن افسوس بھی تھا۔
وہاب میں اب آپ کو انٹر میں نہیں پڑھا سکوں گی کیونکہ خود میری پڑھائ اب پہلے سے زیادہ وقت لیتی ہے۔ایسی صورت میں کہ میں صبح سات بجے کی نکلی ہوئ  یونیورسٹی سے گھر واپس شام کو  ساڑھے پانچ بجے آتی ہوں دیگر بچوں کو ٹیوشن پڑھانے، گھر کے کاموں اور اپنی پڑھائ کے ساتھ اتنا وقت نہیں بچتا کہ آپکے ساتھ بیٹھ کر تمام مضامین کے نوٹس بناءوں۔ انٹر میں زیادہ محنت چاہئیے ہوتی ہے۔ میٹرک تک پڑھانے کے لئے مجھے بالکل تیاری نہیں کرنی پڑتی تھِی۔اس لئے اب بہتر یہ ہے کہ کسی کوچنگ سینٹر کو جوائن کر لو۔ تم ایک ذہین بچے ہو اور میرے چکر میں تم اپنا وقت خراب نہ کرو۔
وہاب کے لئے یہ بڑا صدمہ تھا اس کا اندازہ مجھے بعد میں ہوا جب ایک ہفتے بعد اسکی والدہ میرے پاس آئیں۔ ایک ہفتہ ہو گیا ہے وہ بستر پہ خاموشی سے پڑا رہتا ہے۔ کہتا ہے پڑھوں گا تو باجی سے پڑھوں گا۔ بیٹا کسی طرح وقت نکال کر اسے پڑھا دو۔  آنٹی میں نے کہا اس وقت میرے پاس جو بچے ہیں انہیں پڑھاتے پڑھاتے رات کو ساڑھے آٹھ بج جاتے ہیں۔ اسکے بعد دیگر کام بھی کرنے ہوتے ہیں ۔ یقین کریں میں صبح پانچ بجے کی اٹھی ہوتی ہوں نیند سے میری آنکھیں بند ہو رہی ہوتی ہے۔ میں آپ کو بالکل ایمانداری سے بتا رہی ہوں کہ اس سے وہاب کے امتحانی گریڈ پہ اچھا اثر نہیں پڑے گا۔ آپ اسے سمجھائیے، زندگی میں انسان بہت سے لوگوں سے ملتا ہے۔ دنیا کسی ایک انسان پہ آ کر ختم نہیں ہوتی۔ وہ خاموش ہو گئیں۔
اس ساری کوشش کے باوجود وہاب کے گریڈز اچھے نہ ہو سکے۔ مجھے لگا کہ وہ ہر جگہ جا کر عدم تحفظ کا شکار رہتا تھا۔ اور یہ عدم تحفظ کا احساس اسے اس عقیدے کی بناء پہ ملا تھا جس میں وہ پیدا ہوا تھا۔
حالانکہ انسانوں کی اکثریت عموماً وہ مذہب رکھتی ہے جس میں وہ پیدا ہوتی ہے۔ اور اسے تبدیل کرنے کی جراءت بھی ان میں ایک خاص عمر سے پہلے نہیں پیدا ہوتی۔ دنیا کے ہر مذہب سے لا تعلقی اختیار کر لینا یا دہریہ ہوجانا، اسے تبدیل کرنے سے زیادہ آسان ہوتا ہے۔ مذہب سے آزادی حاصل کرنے والے یہ عمل احتجاج میں یہ کرتے ہیں۔ ورنہ مذہب اگر اپنی رو میں چلتا رہے تو کسی کو اسے چھوڑنے کی کیا ضرورت۔ ہر گناہ کے بعد توبہ کر لی۔ دنیا کے ساتھ آخرت کی بھی حفاظت کر لی، اگر وہ ہوئ تو نقصان نہ رہے۔ 
ہم اس محلے سے نکل آئے۔ وہاب کے بارے میں مجھے آخری اطلاع جو ملی وہ یہ تھی کہ اسکے انٹر میں باسٹھ فی صد نمبر آئے۔ تعلیمی کارکردگی میں نمایاں کمی  سے زیادہ جس چیز سے مجھے تکلیف پہنچی وہ یہ تھی کہ وہاب شخصی طور پہ متوازن نہیں رہا۔ بس وہاب اب پہلے جیسا نہیں رہا۔ اسے یہ فکر زیادہ رہتی ہے کہ لوگ قادیانی ہونے کی وجہ سے اس کا مذاق اڑاتے ہیں۔ ماں نے ایسے کہا کہ مجھے لگا میں مجرم ہوں۔ وہ ان کا سب سے بڑا بیٹا تھا۔
وہ ابتداً میرے پاس آیا تو اسکی آنکھوں میں شرارت اور ذہانت کی چمک تھی۔ مجھے وہ اپنی ان خوبیوں کی بناء پہ بے حد پسند تھا۔ لیکن  اسکی ان خوبیوں کی حفاظت نہ ہو سکی۔  
 اقلیت بن کر رہنا کوئ آسان کام نہیں، بالخصوص مذہبی اقلیت اور پھر ایسی جگہوں پہ جہاں مذہب بنیادی پہچان بتایا جاتا ہو۔ میں بچپن میں سوچا کرتی تھی کہ آخر سب لوگ ہمارے جیسے کیوں نہیں ہو جاتے۔ ہم جو سچائ پہ ہیں، ہم جو سب سے بہتر ہیں۔ ہم جو سب سے زیادہ ہیں۔
اب  یہ سوچتی ہوں کہ آخر ہم سب اپنے اپنے راستوں پہ چل کر خوشدلی کے ساتھ کیوں نہیں رہ سکتے؟ اس طرح ہماری شخصیات اندرونی ٹوٹ پھوٹ سے محفوظ ہو جائیں گی اور ہم بہت سارے ایسے انسانوں سے مستفید ہو پائیں گے جو زمین پہ خدا کی تخلیق کا عمدہ نمونہ ہوتے ہیں۔ 
  

Thursday, March 3, 2011

شرمندگی کے بول

حالیہ کچھ سالوں نے ہمیں ٹریجڈیز کے علاوہ کچھ نہیں دیا۔ ایک نیا المیہ۔ پاکستان میں اقلیتی امور کے وزیر شہباز بھٹی کو سورج کی روشنی میں قتل کردیا گیا۔ یعنی اب قتل کرنے کے لئے کسی کرامت کی ضرورت نہیں۔ قاتل کو کف آستین اور دامن کے داغ چھپانے کی بھی ضرورت نہیں۔ 
اہل طاقت کے پاس مذمتی بیانات کا وہی پرانا سلسلہ اور اہل فکر کے پاس مستقبل کی پریشان کن تصاویر اور وسوسے۔ یقین نہیں آتا کہ یہ ہے وہ پاکستان جہاں ایک سال میں تین ہزار کے لگ بھگ لوگ دہشت گردی کے حملوں کا شکار ہوئے اور اڑسٹھ خود کش حملے ہوئے۔ اور اہل طاقت اسی طرح طاقت کی رسہ کشی میں مصروف ہیں۔ کوئ اس آگ اور خون اگلنے والی عفریت کو قابو نہیں کرنا چاہتا۔
شہباز بھٹی کے قتک کے ساتھ ہی مختلف قیاس آرائیوں کا سلسلہ ایک دفعہ پھر شروع ہو گیا۔ مذہبی علماء نے اس قتل کی حسب معمول مذمت کی اور پھر سے نجانے کتنی لاکھویں دفعہ یہ جملہ دوہرایا گیا کہ ایک انسان کا قتل پوری انسانیت کا قتل ہے۔ انہوں نے ایک دفعہ پھر اس قتل کے تانے بانے امریکہ سے جوڑے۔
 اس دفعہ ہم اس حلقے میں شامل ہیں جو مذہبی علماء سے یہ سوال کرنا چاہتا ہے کہ پاکستان میں کیا مذہب کو اپنے جنون کے اظہار کے لئے استعمال نہیں کیا جاتا؟  اگر وہ سمجھتے ہیں کہ بیرونی طاقتیں ملک میں فرقہ واریت کی بنیاد پہ فساد کو جنم دینے کی کوشش کر رہی ہیں تو وہ اس بات کی وضاحت بھی کریں کہ اب تک مذہبی انتہا پسندی کو ختم کرنے کے لئے انہوں نے کیا کیا؟ انہوں نے لوگوں کے اندر قوت برداشت پیدا کرنے کے لئے کیا کیا؟ انہوں نے مذہبی رواداری پیدا کرنے کی جو عملی کوششیں کی ہیں ان سے ہمیں آگہی کیوں نہیں اور ہم اب تک اسکے ثمر سے کیوں محروم ہیں؟
ایک اور سیاسی نکتہ رکھنے والا گروہ بھی ہے جو اس قتل کی ذمہ داری حکمراں طبقے کی اعلی قیادت پہ ڈالتا ہے۔ کیونکہ اب تک یہ مسئلہ لا ینحل ہے کہ سلمان تاثیر کے باڈی گارڈز میں قادری کی شمولیت کیوں کی گئ جبکہ اسکے خیالات کسی سے چھپے ہوئے نہ تھا۔ دوئم سلمان تاثیر کے قتل کی شہادتیں صحیح قانونی طریقے سے کیوں نہیں جمع کی گئیں۔ 
اب یہی مسئلہ شہباز بھٹی کے قتل کے ساتھ نظر آرہا ہے۔ قتل کی دھمکیوں کے باوجود قتل کے وقت، سیکیوریٹی انکے پاس موجود نہ تھی۔ یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ شہباز بھٹی ان لوگوں میں شامل ہیں جو سلمان تاثیر کے قتل کی تفتیش میں دلچسپی لے رہے تھے۔
 اسکے باوجود کہ تحریک طالبان نے اسکی ذمہ داری لی ہے یہ حسب توقع ایسے  پیچیدہ سیاسی قتل میں شامل ہو جائے گا جس کے مجرمین کے بارے میں ہمیں کبھی نہیں پتہ چلتا۔ 

ہردو نکتے سے الگ، اگر پاکستان میں امن و امان کی صورت حال کو بہتر بنانا ہے، اور اسے کسی بھی مثبت سمت کی طرف لے جانا ہے تو ایک طرف ہمیں  آزادی فکر کو ترویج دینی ہوگی جس کے لئے برداشت بنیادی چیز ہے۔ اس کے لئے مذہبی جماعتوں کو اپنے یوٹوپیا سے باہر آنا ہوگا۔ کیونکہ اسکے بغیر اصل مسائل کو کارپٹ کے نیچے چھپایا جاتا رہے گا۔
دوسرے ہمیں اپنے سیاسی نظام کو نئے سرے سے تشکیل دینا ہوگا جہاں واقعی عوام کی حکومت عوام کے ذریعے سے ہو، جہاں اہل اقتدار، دولت کی ہوس میں اقتدار سے چمٹے نہ رہیں اور ایکدوسرے کے خلاف سازشوں کے جال بنتے رہیں اس طرح کہ انہیں ملکی اور عوامی مفادات کی ذرہ بھر فکر نہ ہو۔ اور جہاں تبدیلی کے لئے فوج کی حمایت درکار نہ ہو۔


شہباز بھٹی، ہم آپ سے شرمندہ ہیں۔ ہم پاکستان کے کمزورعوام آپکو بچانے کے لئے کچھ نہ کر سکے۔