Saturday, February 27, 2010

تقدیر کی تدبیر

نجانے یہ کس نےکہا کہ تقدیر کو بدل دیتی ہے دعا بھی دوا بھی۔ اب ذرا ان خاتون کے بارے میں سوچیں جو ایک رکشے میں ولادت کی تکلیف سے گذر رہی ہو اور موقع پہ موجود حکام اسے ہسپتال تک نہ جانے دیں کیونکہ صدر صاحب  اس وقت شہر میں تشریف لانے والے ہیں۔ ملک کی نہایت اہم شخصیت، صدر پاکستان کے اعزاز میں دنیا میں آنیوالے اس نئے بچے کو احترماً اپنی پیدائش میں کچھ تاخیر ہی کردینی چاہئیےتھی۔ لیکن اس ناہنجار نے ایسا نہ کیا۔ یقیناً اس خاتون نے بڑی دعائیں کی ہونگیں۔ لیکن تقدیر نہیں بدلی۔ بقول وزیر اعظم گیلانی جس بچے کو جہاں پیدا ہونا ہوتا ہے وہ وہیں پیدا ہوتا ہے۔ تو یہ اسکی تقدیر تھی۔ اس بچے کو وہیں پیدا ہونا تھا۔ صدر صاحب کی تقدیر یہ تھی کہ وہ انتہائ اہم امور نبٹانے کوئٹہ پہنچیں۔  ائیر پورٹ پہ موجود انکے استقبال کے لئیے آنیوالے وزراء کی تقدیر یہ تھی کہ وہ ائیر پورٹ پہ صدر صاحب کا انتظار کرتے رہ جائیں اور بعد میں انہیں کوئ اطلاع دے کہ ارے صدر صاحب، تو ہیلی کاپٹر سے جہاں انہیں جانا تھا، چلے گئے۔
تقدیر کی جلوہ گری یہیں نہیں ختم ہوتی۔ جس وقت وہ خاتون خدا سے دعا کر رہی ہوگی کہ کسی طرح وہ ہسپتال پہنچ جائے اور موقعے پہ موجود سیکیورٹی حکام نےاسے سیکیوریٹی کی بلو بک کے حساب سے روک رکھا  ہوگا عین اس وقت اسلامی جمہوریہ پاکستان کی محفوظ قومی اسمبلی کی تقدیر میں اس بات پہ بحث کرنا لکھا تھا کہ اسمبلی میں موجود مرد اراکین میں سے اسی فی صد مردوں نے دوسری شادی کی ہوئ ہے اور یہ کہ دوسری شادی کرنا اتنا برا نہیں جتنا برا بنا کر اسے پیش کیا جاتا ہے اور اسلام نے اسکی اجازت دی ہوئ ہے۔
اب واپس اسی کیفیت میں ان خاتون کے پاس جائیے۔ پوچھئیے کیا مردوں کو دوسری شادی کرنا چاہئیے۔ وہ کیا کہے گی۔ ارے خدا کی مار ہو تم پہ۔ مجھے پہلے اس تکلیف سے تو نجات دلاءو۔ ارے خدا کے واسطے مجھے ہسپتال لے چلو۔
لعنتیوں۔ میں بہت تکلیف میں ہوں۔ وزیر اعظم کہتے ہیں بچے پیدا ہونا تو روزمرہ کی بات ہے بچے تو ہوائ جہاز میں بھی پیدا ہوتے ہیں۔ جس بچے کو جہاں پیدا ہونا ہوتا ہے وہیں پیدا ہوتا ہے۔
اقبال کہتے ہیں کہ
پابندی تقدیر کہ پابندی احکام
یہ مسئلہ مشکل نہیں ہے اے مرد خرد مند
اسکی وجہ بتانے سے پہلے یہ دیکھتے چلتے ہیں کہ تقدیر پہ اتنا بھروسہ کرنے والے، سجادہ نشیں خاندان سے تعلق رکھنے والے مختلف روحانی سلسلوں میں گھرے ہوئے گیلانی صاحب اس تقدیر پہ اس وقت بھروسہ نہیں کرتے جب وہ نواز شریف کے پاس جا کر رائے ونڈ میں ناشتہ کرتے ہیں۔ ڈیل کرکے حالات کو اپنے حق میں کرنے کے لئیے وہ سب کچھ کر سکتے ہیں تقدیر سے لڑ بھی سکتے ہیں اس لئیے اقبال مزید کہتے ہیں کہ
اک آن میں سو بار بدل جاتی ہے تقدیر
ہے اسکا مقلد ابھی ناخوش، ابھی خور سند
تقدیر کی مزید خوبی دیکھیں، رکشے میں پیدا ہونے والی بچے کو صدر مملکت کی طرف سے پانچ لاکھ روپے ملے۔ اور اسکے باپ نے صدر کا یہ احسان یاد رکھنے کے لئیے اپنے بچے کا نام آصف خان رکھ دیا ہے۔ یہ سب تقدیر کے کھیل ہیں صرف پانچ لاکھ میں آصف نام دو نسلوں میں تو یاد رکھا جائے گا۔ غریب آدمی جب زندگی میں پہلی بار ایک ساتھ پانچ لاکھ روپے کا چیک لے گا تو اپنا نام بھی تبدیل کر کے آصف رکھنے پہ تیار ہو جائے، نوزائیدہ بچہ کس کھاتے میں ہے۔ تقدیر کی یہ ادا بھی دیکھنے والی ہے کہ وہ بچہ خوش قسمت ٹہریگا اور پاکستان بد قسمت۔
ہاں تو میں کہہ رہی تھی کہ تقدیر کو بدل دیتی ہے دعا بھی دوا بھی، میں نے یہ بسوں کے پیچھے لکھا ہوا پڑھا ہے۔ اس میں دوا سے کیا مراد ہے؟

حوالہ؛
ٹریفک جام، رکشے میں بچے کی ولادت

پاکستانی قومی اسمبلی میں دوسری شادی پہ بحث
پاکستانی قومی اسمبلی میں دوسری شادی پہ بحث-2

Thursday, February 25, 2010

میرا پیغمبر عظیم تر ہے

میں یہاں اس نبی کا تذکرہ کرنے نہیں جا رہی، جسکا سایہ نہ تھا، جو اپنے لعاب دہن سے امراض کو اچھا کر دیتا تھا  جس کی انگلیوں سے پانی کی دھاریں بہیں، جس کی انگلی کے اشارے سے چاند دو ٹکڑے ہو گیا اور جسکی پیدائش پہ  ایوان کسری کے چودہ کنگورے گر گئے، مجوس کا آتش کدہ ٹھنڈا ہو گیا، بحیرہ سادہ خشک ہو گیا اور اسکے گرجے منہدم ہو گئے۔
یہ ایک انسان کے بارے میں ہے جسے قرآن کے الفاظ میں انسانوں کے درمیان سے نبوت کے عہدے پہ فائز کیا گیا۔ تاکہ دوسرے  انسان اسکی تعلیمات سے اسی طرح سیکھیں جیسے اور انسانوں سے سیکھتے ہیں اور انہیں یہ اعتراض نہ ہو کہ  یہ تو ہے ہی ایک مافوق الفطرت شخص ہم بھلا کہاں اسکے جیسے کام کر سکتے ہیں۔
یہاں میں ایک کتاب کا حوالہ دینا چاہونگی  جسکے مصنف مائیکل ہارٹ ہے یہ میرے کتابوں کے مجموعے میں دس سال پہلے شامل ہوئ۔ انیس سو اٹھتر میں شائع ہونے والی اس کتاب میں دنیا کی تمام تاریخ سے سو افراد کو چنا گیاہے۔ سو ایسے افراد جنہوں نے انسانی تاریخ کا دھارا بدل دیا اور جنکے اثر سے دنیا آج بھی آزاد نہ ہو سکی ان سو افراد کو ترتیب دیتے ہوئے مائیکل نے جس شخصیت کو سب سے پہلا نمبر دیا وہ رسول اللہ کی ذات ہے۔
وہ کہتا ہے میرا یہ انتخاب کچھ پڑھنے والوں کو حیران کر دیگا۔ لیکن در حقیقت محمد[صلعم]  دنیا کی تاریخ میں وہ واحد شخص ہیں جنہوں نے  مذہبی اور سیکولر دونوں سطحوں پہ بے انتہا کامیابی حاصل کی۔ محمد [صلعم] نے دنیا کے عظیم مذاہب میں سے ایک کی تبلیغ کی اور ایک انتہائ پر اثر سیاسی رہ نما ثابت ہوئے۔
 تاریخ کی بہت اہم شخصیات کے بر عکس محمد[صلعم] کو دنیا کے کسی اہم  تہذیبی مرکز یا ثقافتی سطح پہ یا سیاسی طور پہ اہمیت کی حامل قوم میں موجود ہونے کا فائدہ نہیں ملا۔ بلکہ وہ علاقہ جہاں وہ موجود تھے اس وقت دنیا کا ایک پسماندہ علاقہ تھا۔ انکی اپنی زندگی آسانیوں سے مرقع نہ تھی اسلامی تعلیمات کے مطابق وہ پڑھے لکھے نہ تھے۔ عرب کے مختصر حالات یہ تھے کہ وہ بہت سارے خداءووں پہ یقین رکھتے تھے۔ کچھ یہودی اور عیسائ بھی وہاں موجود تھے لیکن وہ بھی اتنا اثر نہ رکھتے تھے۔ عرب قبائل آپس کی جنگوں میں الجھے رہتے تھے اور انہیں  بے تحاشہ معاشی مسائل کا سامنا تھا۔
 وہ مزید کہتا ہے کہ اگرچہ دنیا میں عیسائیوں کی تعداد مسلمانوں سے تقریباً دوگنی ہے تو یہ سوال کیا جا سکتا ہے کہ پھر محمد [صلعم] کو نمبر ایک کیوں دیا۔  اسکی وجہ اسکے مطابق  یہ ہے کہ اسلام کو مرتب کرنے میں اور اسے پھیلانے میں محمد[صلعم] نے جتنا کام کیا۔  وہ کرائسٹ یعنی حضرت عیسی نے نہیں کیا۔

حتی کہ مسلمانوں کی مذہبی کتاب قرآن کو لکھوانے  اور محفوط رکھنے کا جو کام محمد[صلعم] نے کیا
وہ حضرت عیسی بلکہ انکے نائیبین  نے بھی نہیں کیا۔
 اسی طرح کی اور مثالیں دیتے ہوئے مائیکل محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو تاریخ کی سب سے زیادہ کامیاب اور پر اثر شخصیت قرار دیتا ہے۔
مائیکل وہ واحد شخص نہیں جو اس چیز کا اعتراف کرتا ہے۔ یہ اعتراف ہر وہ شخص کرتا نظر آتا ہے جو رسول اللہ کی جدو جہد کی داستان کو بغیر کسی جانبداری اور عقیدت کے پڑھتا ہے۔ انہیں اپنے ماحول کے لحاظ سے اتنے انقلابی فیصلے کرتے دیکھتا ہے۔ انہیں جنگیں لڑتے دیکھتا ہے۔ حاصل ہونے والی فتح سے بردباری سے نبٹتے دیکھتا ہے۔ اور شکست ہونے پہ اپنا رد عمل ظاہر کرتے ہوئے دیکھتے ہے۔ انہیں اپنی خاندانی زندگی گذارتے دیکھتا ہے، خوشی اور غم کو برتتے دیکھتا ہے اور لوگوں  کیساتھ دیکھتا ہے اور پھر خلوت میں دیکھتا ہے۔ اپنے عزم پہ جمے دیکھتا ہے اور لوگوں کی ہمتیں باندھتے دیکھتا ہے ، ایک سپہ سالار کو دیکھتا ہے اور ایک واعظ کو دیکھتا ہے، مسلمانوں کیساتھ دیکھتا ہے اور غیر مسلموں کیساتھ دیکھتا ہے اور ان سب چیزوں کو دیکھنے کے بعد انکی ذات سے متائثر ہونا ، پھر ان دیکھے خدا پہ ایمان لے آنا کتنا ہی آسان اور صحیح کام  لگتا ہے۔ محمد مصطفی سے آشنا ہونے کے بعد کیا کوئ خدا سے نا آشنا رہ سکتا ہے۔
کشف الدجی بجمالہ 
حسنت جمیع خصالہ
صلو الیہ وٰاٰلہ

 نوٹ؛ سیرت طیبہ پہ آج ڈان میں اصغر علی انجینیئر صاحب کی ایک تحریر چھپی ہے۔ اسے ضرور دیکھیں۔ لنک یہ ہے
حوالہ؛


                                                               

Tuesday, February 23, 2010

تین سو ساٹھ خدا

میں شہر کے وسط میں ہونے والی ایک تقریب میں شرکت کرنے کے لئیے گھر سے نکلی تو راستے میں، میں نے نوٹ کیا کہ شہر میں مختلف چو رنگیوں پہ سیمنٹ کے بنے ہوئے ایسے آرائشی ٹاورز مختلف جگہوں پہ لگائے جا رہے ہیں جن پہ اللہ کے ننانوے نام لکھے ہوتے ہیں۔ اس سے پہلے طارق روڈ کے قریب اللہ کا ایک تعمیری نمونہ لگایا تھا جو اتنا مقبول ہوا کہ کہ میں نے اسے بعد میں متعدد جگہوں پہ حتی کہ گھروں کے داخلی دروازے پہ لگا ہوا دیکھا۔  شہر میں مختلف روڈز پہ دور تک اللہ کے ناموں کی تختیاں جڑی ہیں۔ کیا یہ ان ناموں کی حرمت کا تقاضہ ہے کہ انہیں اس طرح ہر جگہ لگا دیا جائے۔ کیا انکی وجہ سے ہم زیادہ مسلمان نظر آتے ہیں۔ کیا ان نمائشی اشیا کو مستقبل مین انکی جگہ سے ہٹانے پہ اسے اسلام کیخلاف کارروائ نہیں قرار دیا جائےگا۔  کیا ہم ہندوءووں اور عیسائیوں سے مقابلہ کرتے ہوئے اپنے خدا کو یہ روپ دے رہے ہیں۔
ان ٹاورز کو دیکھ کر مجھے یہ خیال آتا ہے کہ اسلام نے  خدا کا جو تصور دیا وہ  کوئ ان دیکھی، اور تصور میں نہ آنے والی چیز تھا جسے صرف اسکی صفات سے پہچانا جاتا تھا۔ اور جو سب کا خدا تھا۔ آخر کس جذبے کے تحت اسے اتنا زیادہ وجود دینے کی کوشش ہو رہی ہے حالانکہ ہمارے ایمان کی خصوصیت تو غیب پہ ایمان لانا ہے۔
  میں آگے بڑھتی ہوں اور صدر کےقریب نمائش سے گذرتی ہوں یہاں نمائش کے سگنل پہ کان پڑے آواز نہیں سنائ دے رہی۔ ایک طرف امام بارگاہ ہے جہان سوگ کے دن ختم ہونے کی تیاریاں ہیں۔ اور دوسری طرف ربیع الاول کی تیاریاں عروج پہ۔ نوجوان سر پہ امامہ باندھے ہوئے خانہ ء کعبہ پہ چڑھے کالا کپڑا چڑھا رہے ہیں یہ وہ خانہ ء کعبہ نہیں بلکہ اصل کی نقل ہے۔ اور اسکے بالکل برابر میں ایک خاصہ بڑا نمونہ مسجد نبوی کا بھی رکھا ہے جو روشنی سے جگمگا رہا ہے۔ روڈ پہ دور تک سنی تحریک کے رہ نماءووں کی بڑی بڑی تصویریںآویزاں ہیں۔
 مجھے یہ سب دیکھ کر ایک اور منظر یاد آیا کہ فتح مکہ کے بعد رسول خدا خانہ کعبہ میں داخل ہوتے ہیں جہاں ہر قبیلے نے اپنے خدا لا کر رکھے ہوئے ہیں اور اس طرح سے انکی تعداد تین سو ساٹھ تک پہنچ جاتی ہے۔ اور رسول خدا ان بتوں کو توڑتے جاتے ہیں اور کہتے جاتے ہیں۔ حق آگیا اور باطل مٹ گیا۔ بے شک باطل مٹنے ہی کے لئیے تھا۔ ہر چیز ختم ہو گئ۔ باقی رہ گیا اللہ کا نام۔، وہی باقی رہ جانیوالا ہے۔
اور لگتا ہے کہ اب ہم پھر سے اس مہم پہ لگ گئے ہیں کہ ان تین سو ساٹھ خداءووں کوجمع کر لیں۔

Sunday, February 21, 2010

اجازت ہے؟

میری اماں بہت ناراض ہو رہی تھیں۔ کہنے لگیں یہ جو ہم اس مسجد میں ہر جمعرات کو درس سننے جاتے ہیں تو آجکل یہاں جماعت اسلامی کی خواتین درس دے رہی ہیں۔ بالکل دماغ خراب ہو گیا ہے انکا۔ میں نے تو جانا چھوڑ دیا۔ میں اطمینان سے انکے روحانی ڈائجسٹوں کے مجموعے کی ورق گردانی کرتی رہی کہ روحانی ڈائجسٹ انہیں بہت پسند ہے۔  اور ویسے بھی ہم سب جانتے ہیں کہ وہ جب ایک دفعہ بولنا شروع کریں تو پھر وہی بولتی ہیں۔
کہنے لگیں یہ ان لوگوں نے اب ایک نیا تماشہ نکالا ہے۔ میں نے سر اٹھا کر انکی طرف دیکھا۔ اب یہ لوگ کہنے لگے ہیں کہ اپنے شوہروں کی دوسری اور تیسری چوتھی شادی کراءوو جبھی یہ شادی کا مسئلہ حل ہوگا۔ ارے انکی عقل تو ہمیں لگتا ہے کہ گھاس چرنے چلی گئ ہے۔
یہ وہ پہلا دن تو نہیں تھا جب میں نے یہ نظریہ سنا  اس سے پہلے بھی میں نے اس طرح کی بات سنی کہ یہ اسلامی احکامات سے رو گردانی کی وجہ سے ہے۔ حالانکہ اسلام میں دوسری شادی ک حکم نہیں اجازت ہے۔ البتہ یہ پہلا رد عمل ضرور تھآ جو مجھے ڈائریکٹ حاصل ہوا۔
اور اب جناب  پنجاب اسمبلی میں ہماری ایک محترم خاتون ممبر نے اس نظرئیے کی ترویج کی اور وہ بھی اسمبلی کے پلیٹ فارم سے کہ مردوں کی ایک سے زائد شادیوں پہ انکی بیگمات کو انہیں ترغیب دینا چاہئیے۔ یہی شادی کے مسئلے کا حل ہے۔ اور میں اپنی اماں کے الفاظ استعمال نہ کرنا چاہوں تو کہوں کہ انکی عقل کولہو کے بیل کی طرح ایک کولہو پہ گھومے جارہی ہے۔ یہ تو اتنی معذور ہیں کہ انکی عقل گھاس تک چرنے نہیں جا سکتی۔ اور یہ وہ لوگ ہیں جن  سے قوم یہ توقع کرتی ہے کہ وہ ملک کے بہتر مستقبل کے لئیے قانون سازی کریں گے۔ کچھ ساز کرنے کے لئیے محض آواز کا ہونا کافی نہیں اس کے لئیے انسانی دماغ کو اسکی متوازن حالت میں استعمال کرنا  آنا ضروری ہے۔
اب میں بغیر کسی حدیث اور قرآنی حوالوں کے کے اس بات کو اس طرف لیجاتی ہوں جو آجکے پاکستان کے بنیادی حقائق ہیں۔ اور حقیقت یہ ہے کہ پاکستان کی انیس سو اٹھانوے کی مردم شماری کے نتائج کے مطابق مردوں کی تعداد عوتوں سے زیادہ ہے اور سو عوتوں کے لئیے تقریباً ایک سو آٹھ مرد موجود ہیں۔ جبکہ اسلامی رواج کے مطابق ایک عورت اور ایک مرد کی شادی ہوتی ہے تو دراصل پاکستان میں خواتین کی قلت ہو گئ ہے۔ اس قلت کے اپنے اسباب ہیں جو اس وقت ہمارا موضوع نہیں ہے۔ لیکن جہاں پہلے ہی خواتین کی تعداد کم ہو وہاں مردوں کو ایک سے زائد شادی کے مشورے دینا اور اسے شادی نہ ہونے کی وجہ سمجھنا، سوائے جہالت کے اور کسی چیز کو ظاہر نہیں کرتی۔ یہاں یہ بھی جاننا چاہئیے کہ قدرتی حیاتیاتی نظام میں تقریباً ہر اسپیشی میں مادہ کی تعداد عام طور سے زیادہ ہوتی کہ اسی میں نظام کی بقا ہوتی ہے۔
یہ وہ شدت پسند روئیے ہیں جو مسائل کے صحیح اسباب جاننے کی کوشش نہیں کرتے بلکہ کسی نہ کسی طور اسے مذہب سے منسلک کرنا ضروری سمجھتے ہیں۔ اس سے ثواب جو حاصل ہوتا ہے۔ شاید پاکستانی عوام کو ایک لمبے عرصے تک انتظار کرنا پڑیگا کہ کب ہمارے قانون سازی کرنیوالے ادارے اور لوگ اتنا شعور حاصل کر پائیں کہ گناہ اور ثواب کے دائروں سے نکل کر مسائل کی اصل وجوہات کو جانیں اور لوگوں کی فلاح کے لئیے کچھ کر پائیں۔
معاشرے میں شادی نہ ہونا اور خاص طور پہ خواتین کی شادی کا مسئلہ، ہمارے حرص، لالچ، نمو د و نمائش اور انسانی قدرتی ضروریات کو نظر انداز کرنے سے جڑا ہوا ہے۔ اور اسے اسکے صحیح تناظر میں دیکھ کر ہی اس مسئلے کا حل نکالا جا سکتا ہے۔ ورنہ تو ہم عوام حکومت سے اس بات کا مطالبہ کرنے میں حق بجانب ہونگے کہ اسمبلی کی سطح  سے ایسے لطیفوں کی آمد روکی جائے اور اس قسم کے احمقانہ مشوروں کو پیش کرنے سے پہلے ممبران پہ یہ پابندی عائد کی جائے کہ وہ اعداد و شمار کو ان میں ضرور شامل کریں۔ معزز ارکان پارلیمنٹ وہاں اپنا وقت خوشگوار طریقے سے گذارنے نہیں جاتے۔ بلکہ ایک لمبے چوڑے خرچے کے بعد انہیں وہاں اس لئیے عیاشی کرائ جاتی ہے کہ وہ ملکی مسائل کا اجتماعی طور پہ کوئ حل نکالیں۔

حوالہ جات؛

Friday, February 19, 2010

ڈونٹ ٹیل می

میں گھر میں داخل ہوئ تو صرف فرد حاضر ہی میسر تھے کہ انہیں آجکی پیش آنیوالی داستاں سنائ جائے۔ چنانچہ میں نے سامان اٹھا کر کچن میں رکھا اور فرد حاضر کو  سنانا شروع کیا۔
میں؛ آج جب میں گھر سے نکل کر نکڑ والے راءونڈ اباءوٹ پہ پہنچی تو وہاں تو ٹریفک پولیس والوں کا پوار جلوس موجود تھا۔ ایک ٹریفک کار کھڑی تھی ، چار پانچ ٹریفک پولیس والوں کی موٹر سائیکلز اور آٹھ دس ٹریفک پولیس والے۔
فرد حاضر جو اپنے کام میں مصروف تھے میری بات میں ایک مصنوعی دلچسپی لیتے ہوئے بولے، کیوں کوئ وی آئ پی گذرنے والا تھا۔
میں؛ ہاں، پہلا خیال تو مجھے یہی آیا پھر میں نے دیکھا کہ وہ اکثر گاڑیوں کو روکے کھڑے تھے۔ اور تب مجھے اندازہ ہوا کہ وہ دیہاڑی بنانے سے لگے ہوئے ہیں۔
فرد حاضر؛ آپکو تو کچھ نہیں کہا ہوگا۔ خواتین کی تو ایسے موقعوں پہ بچت ہوجاتی ہے۔
میں؛جی میرا بھی یہی خیال تھا۔ لیکن ان میں سے ایک نے انتہائ ذمہ داری کا مظاہرہ کرتے ہوئے مجھے سائیڈ میں لگنے کا اشارہ کیا۔
فرد حاضر؛ ڈونٹ ٹیل می، پھر کیا ہوا۔ آپ نے کسی ٹریفک رول کی خلاف ورزی کی ہوگی۔
میں؛ جی نہیں، یہی میں نے اس سے پوچھا تو اس نے اسی سنجیدگی سے ونڈ اسکرین کے اوپر والے حصے پہ لگی ایک تین انچ چوڑی پٹی کی طرف اپنی انگلی سے اشارہ کیا کہ آپکا اسکی وجہ سے چالان ہوگا۔
مجھے تو یہ سن کر غصہ آ گیا۔  اتنے عرصے میں پہلی دفعہ مجھے پتہ چلاکہ ونڈ اسکرین پہ ایک ایسی پٹی لگی ہے جو قانوناً جرم ہے۔
فرد حاضر؛ اسے معلوم نہیں ہوگا کہ پی ایچ ڈی کی کیا نشانیاں ہوتی ہیں۔ حالانکہ اسے آپکو رعایت دینی چاہئیے تھی۔
میں انکی اس بات کو نہیں سنتی اور قصہ جاری رکھتی ہوں۔ وہ کہنے لگا مجھے گاڑی کے کاغذات اور اپنا لائسنس دکھائیں۔
میں نے تو صاف کہہ دیا۔ یہ پیسہ بنانے کا دھندہ ہے۔ نہ میں اپنے کاغذات دکھا رہی ہوں اور نہ آپ میرا چالان کر سکتے ہیں۔ کہنے لگا ایسا کیسا ہو سکتا ہے۔ اگر چالان کا ڈر ہے تو چالان تو ہوگا۔
فرد حاضر؛  آپکے پاس لائسنس نہیں ہوگا اس لئیے اتنا طیش دکھا رہی تھیں۔ اکثر آپکا موبائل فون اور لائسنس گھر میں ہی پڑے ملتے ہیں۔
میں انکی بات سنی ان سنی کرتے ہوئے۔ پھر وہ اپنے افسر بالا کو بلا لایا۔
فرد حاضر؛ اچھا پھر۔ اب آپکو مزہ آنا شروع ہوا ہوگا۔
میں ایک دفعہ پھر انکی بات سنی ان سنی کرتے ہوئے۔ افسر بالا نے آکر یہی کہا کہ چالان ہوگا۔ میں نے کہا کس بات کا ۔ اس پٹی کے لگے ہونے کا۔  اسے اتار لیں۔
افسر بالا نے کہا کہ نہیں یہ تو اب آپ گھر جا کر اتارئیے گا۔ اب تو مجھے اور غصہ آنا ہی تھا۔ میں نے کہا دہشت گرد اپنے زخمی لیڈر کو وزیرستان سے لیکر کراچی تک پہنچ جاتے ہیں آپ لوگوں کو نظر نہیں آتے۔ میری گاڑی کے اندر کا منظر دیکھنے میں اس پٹی کی وجہ سے کوئ رکاوٹ ہے کیا؟ یہی قانون ہے ناں کہ میری گاڑی کے اندر کا منظر صاف نظر آنا چاہئیے۔ اس سے آپکو کوئ مشکل ہے۔ میری گاڑی میں کوئ بم یا اسلحہ ہے۔ میں نے ٹریفک کا کوئ اصول توڑا ہے۔اس پہ وہ چڑ گیا اور کہنے لگا اچھا جی آپکا چالان نہیں کرتے۔ صرف اپنا لائسنس دکھا دیں۔ اپنے طور پہ انہوں نے اب میری دکھتی رگ پہ ہاتھ رکھا۔
فرد حاضر نے  بھی اپنا کام چھوڑ کرمسکراتے ہوئے ہاتھ اپنے سینے پہ باندھے۔ اور اس منظر کو سننے کی تیاری کرنے لگے جس میں میرے پرزے اڑنا متوقع تھے۔ 
میں نے انکے تجسس کو دیکھتے ہوئے ایک ادائے بے نیازی دکھائ اور بیان جاری رکھا۔ 'میں نے اپنا والٹ کھولا اور لائسنس نکال کر اسے دکھا دیا۔ بس اسکا چہرہ اتر گیا۔  کھسیانی مسکراہٹ کیساتھ کہنے لگا۔ ٹھیک ہے بس آپ جائیں۔ اتنی سی بات تھی'۔
فرد حاضر؛ ڈونٹ ٹیل می۔ قسمت سے پڑا رہ گیا ہوگا۔
میں؛ جی نہیں،آپ جانتے نہیں خواتین کی چھٹی حس تیز ہوتی ہے۔ میں نے جاتے وقت سوچا کہ پرس لینے کی کیا ضرورت ہے صرف والٹ سے کام چل جائے گا۔ اور میرے والٹ میں اکثر لائسنس ہوتا ہے البتہ موبائل فون کی اس میں جگہ نہیں۔
فرد حاضر؛ اچھا چلیں، آپکے لئیے ایک مزے کی خبر ہے۔
میں؛ وہ کیا؟
فرد حاضر؛ پشاور میں ویلنٹائن ڈے ایکدن پہلے یعنی اتوار کے بجائے ہفتے کو منایا گیا۔
میں انتہائ حیرانی سے انکا چہرہ دیکھتی ہوں۔ لیکن کیوں؟
فرد حاضر؛ کیونکہ سعودی عرب میں ہفتے کو ویلنٹائن ڈے تھا۔
میں: ڈونٹ ٹیل می۔


حوالہ؛
پشاور میں ویلنٹائن ڈے

Thursday, February 18, 2010

نئے افکار انکا حصول اور ترویج-۵


 یہ ہے وہ چھاپہ خانہ جو سولہویں صدی کے یوروپ کی بیداری میں حصے دار ہے۔ یہ وہی چھاپہ خانہ ہے جو مغل بادشاہ اکبر کے زمانے میں جب ہندوستان کی سر زمین پہ اجازت باریابی چاہ رہا تھا تو بادشاہ نے یہ کہہ کر اسے خوش آمدید نہ نہا کہ اس سے ہندوستان میں فن کتابت ختم ہو جائیگا۔

یوروپ کے دور تاریک کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ آٹھ سو سن عیسوی میں شورع ہوا اور اٹھارویں صدی میں اس سے نجات پائ گئ۔ لیکن تاریخ میں ایسی تبدیلیوں کا کوئ معین دن نہیں ہوتا۔  قوموں کی پیدائش اور موت کا دن مقرر کرنا اتنا آسان نہیں۔کیونکہ یہ تبدیلیاں زیادہ تر انتہائ خاموشی سے دستک دیتی ہیں اور پھر حالات کے گرد اپنا ایسا جال بن جاتی ہیں کہ انکی وجوہات کو صحیح طور سے جانچنے پہ بھی بڑی محنت کرنی پڑتی ہے۔ بہرحال سولہویں صدی کا یوروپ اب بیدار ہونے کو تیار تھا
چھاپے خانے نے کتابوں تک پہنچ کو آسان بنا دیا۔ اور وہ کتابیں جن سے غیر یوروپین علم نے بارہویں صدی میں یوروپ کے اندر جگہ بنائ تھی اب ان تک زیادہ تر لوگ پہنچ سکتے تھے۔ یونانی کتابوں کے میسر لاطینی تراجم کا انگریزی میں ترجمہ ہوا۔
چودھویں صدی کے وسط میں جب قسطنطنیہ کا سقوط ہوا تو یونانی مفکر اور انکی تصنیفات یوروپ میں چھا گئیں۔ انسان نے اپنی آنکھیں اپنے داخل سے ہٹا کر پھر کائنات پہ مرکوز کیں اور سائینسی انکشافات نے جنم لینا شروع کیا۔یہ سب کچھ اس لئیے  بھی ہوا کہ ابن رشد اور ابن خلدون نےعقلی تحریکوں کو تقویت دی تھی۔
یوروپ کے پر تشدد مذہبی حالات نے وہاں کے انسان کو مذہب سے ہٹا کر عقل سے قریب کر دیا تھا چنانچہ یہاں ابن رشد کا استدلالی طریقہ مشہور ہوا۔ فلپ حطی نے 'عربوں کی تاریخ' میں لکھا کہ'دور وسطی کے مغربی متکلمین  اور اہل قلم کے ذہنوں میں جتنا ہیجان ابن رشد نے برپا کیا اور کسی نے نہیں کیا'۔
مسلمانوں کی علمی شمع اب بجھ رہی تھی اس لئیے ابن رشد کی روشنی سے یوروپ نے اپنی قندیلوں کو روشن کیا۔ اس طرح سے عیسائ کلیسا کے خلاف پیدا ہونے والی تحریک سے کلیسا ابن رشد کے دشمن ہو گئے اور اسے بے تحاشہ گالیاں دینے لگے۔ اور ایک زمانہ ایسا بھی آیا کہ یوروپین تعلیم گاہوں میں ان کتابوں کا پڑھانا ممنوع ہو گیا اور بعض جگہ جلا بھی دیا گیا۔
 مسلمانوں کے دور زوال میں ابن خلدون نے جنم لیا وہ سائینسی طرز فکر کے حامی تھے اور جس نظرئیے پہ ابن رشد، ارسطو کی مدد سے پہنچا اس پہ ابن خلدون اپنے نظریہ ء تاریخ  سے پہنچا۔ وہ اپنی نسلی تعصبات سے بلند تھا اور عرب نژاد ہونے کے باوجود یہ کہتا تھا کہ 'عرب تہذیب و تمدن کے دشمن ہیں اور دنیائے اسلام میں علوم و فنون کے حامل عجم ہیں'۔ ابن خلدون نے عربی مزاج کی بدویت کو پہچانا اور آزاد فکر کی روش پیدا کی۔ یہ اتنا بڑا کارنامہ تھا کہ ٹائن بی نے بھی اسکی تعریف کی اور ابن خلدون کو فلسفہ ء تاریخ کا پیش رو قرار دیا۔
 چھاپہ خانہ نے بائبل کو بھی ایک عام عیسائ کے ہاتھوں میں پہنچا دیا اور اب بائبل کا مطالعہ بھی ایک عام کتاب کی طرح کیا جا سکتا تھا۔ بائبل کو اب پرانے عقائد کے بجائے نئے طریقہ ءکار سے پڑھا جاتا تھا۔
اسکے بعد بارود  اور مقناطیسی گھڑی کا استعمال ، انہوں نے نے زندگی کے دھارے کو تبدیل کر دیا۔ واسکو ڈی گاما نے نے ہندوستان پہنچنے کا نیا بحری راستہ نکالا اور کولمبس نے امریکہ دریافت کر لیا۔ کوپر نیکس نے اس وسیع کائنات میں زمین کو محض ایک سیارہ قرار دیا جو سورج کے گرد حرکت کر رہا ہے اور اس سے اپنے حصے کی روشنی لیتا ہے اور اسکی اس بات کی تصدیق گلیلیو گلیلے نے کی۔ کائنات کے اس نئے تصور نے انسان کے کائنات میں مرتبے کو متائثر کیا اور اسکے بہت سارے نظریات کو تبدیل کر دیا۔
زمانے نے کروٹ لی اور انسان زراعت سے تجارت کی طرف متوجہ ہوا۔  جاگیر داری نظام اپنے اختتام کی طرف بڑھا اور اس طرح متوسط طبقے پہ مشتمل انسانوں کے اس گروہ نے جنم لیا۔ جو اب چیزوں کو استدلالی نکتہ ء نظر سے دیکھتا تھا۔
یہ تمام قوتیں جو تبدیلی کی قوتیں تھیں اس صدیوں کے جمود کا نتیجہ تھیں جس پر کسی محرک قوت نے اثر انداز ہونے کی کوشش نہ کی تھی۔ اس سارے ماحول کے نتیجے میں تبدیلی کے تین عناصر یعنی مذہب، فلسفہ اور سائنس ایکدوسرے کے سامنے آ کھڑے ہوئے۔ زندگی کی معنویت میں تبدیلی نے  ہر شعبہ ء زندگی میں کسی تحریک کا بیج ڈالدیا تھا۔

 لیونارڈو ڈے ونشی کی مونا لیزا  آنیوالے دنوں کے خیال سے مسکرا رہی تھی۔ جس کی تخلیق اسی زمانے کی ہے جب یوروپ زندگی کے نئے چلن سے آشنا ہو رہا تھا۔ صرف لیونارڈو ہی نہیں اس وقت کے بیشتر تخلیق کار اپنی اپنی سطح پہ مصروف بہ عمل نظر آتے ہیں۔ یوں تخلیقی بنجر پن ختم ہوا اور ایسا لگتا تھا کہ ساری فضا متحرک ہو گئ ہے۔
نوٹ؛ یوروپ کی تاریخ کا یہ سفر جاری ہے۔ آپ بھی کچھ شامل کرنا چاہیں تو خوش آمدید۔


حوالہ جات؛
اردو ادب کی تحریکیں، مصنف ڈاکٹر انور سدید
تاریخ فلاسفۃ الاسلام، مصنف محمد لطفی جمعہ
خدا کے نام پہ لڑی جانیوالی جنگ، مصنفہ کیرن آرمسٹرون۔ 
The battle for God by Karen Armstrong

Monday, February 15, 2010

نئے افکار انکا حصول اورترویج-۴




یہ تصویر آج دنیا کے  کسی خطے کی نہیں بلکہ آج سے کئ صدیاں پہلے اس لزبن شہر کی ہے جو یوروپ کے تاریک دور میں سانس لے رہا تھا۔ اس تصویر میں ایک اجتہادی کو زندہ جلانے کی تیاری ہو رہی ہے۔ اور عوام کا ہجوم اسے ان خیالات کے پیش کئیے جانے پہ جلتا دیکھنے کے لئے جمع ہو رہے ہیں جو اس نے اپنی فکر اور تحقیق  سے صحیح جانے البتہ وہ مروجہ روایات کے خلاف ہونگے۔ یہ اس انجام کا شکار ہونیوالا کوئ پہلا یا آخری شخص نہ تھا۔


لیکن یہ جاننا چاہئیے کہ وہ کیا حالات تھے جو کہ اس بربریت کا باعث بنے جس کی تشفی انسانوں کو زندہ جلا کر بھی نہ ہوتی تھی۔

عیسائیت نے اس وقت جنم لیا جب اس دور کا انسان زمینی بادشاہت کے فروغ سے تنگ آچکا تھا۔اور ایک ایسے نظام کا آرزو مند تھا جو امارت اور غربت کے فرق کو ختم کر دے اور انسان کو خدا کے ساتھ ہمکلام ہونے کا موقعہ دے۔ عیسائیت نے اس خواہش کو کسی حد تک پورا کرنے میں مدد کی اور خدا کو مطلق حقیقت قرار دیکر تمام کائنات کو اسکے تابع کر دیا۔ اس طرح سے پست و بلند کا امتیاز ختم ہو گیا۔ اور آسمانی بادشاہت میں سب کے لئیے دروازے کھول دئیے۔

عیسائت کے فروغ نے  اس وقت کےشاہی نظام پہ بڑی کاری ضرب لگائ جس میں بادشاہ کو خدائ حیثیت حاصل تھی۔  لیکن عیسائیت کے عروج نے کلیسا کا نظام اتنا بلند کر دیا کہ ریاست کے اندر ایک اور اقتدار کا مرکز ابھر آیا جو کسی کے آگے جوابدہ نہیں تھا۔ کلیسا کی مرکزی شخصیت پوپ طاقت کا سرچشمہ بن گئ جسے  سلطنت کے معاملات میں براہ راست دخل اندازی کا موقع مل گیا اور وہ آہست آہستہ اقتدار کے حصول کا ذریعہ بن گیا۔ چنانچہ جلیل القرد بادشاہ اور حکومتیں اب مذہبی طاقت کے مرکز یعنی کلیسا کے حکم کے آگے سر تسلیم خم کرنے پہ مجبور ہوگئیں۔

جسکا نتیجہ بالآخر پر تشدد کلیسا کی صورت نکلا۔ طاقت کا احساس خرابی لاتا ہے اور کامل طاقت مکمل خرابی لاتی ہے۔ کلیسا اور تخت کے درمیان کشمکش شروع ہوگئ اور مذہب کھوکھلا ہوتا چلا گیا۔ کلیسا کا یہ آہنی شکنجہ توڑنے میں مغرب کو کئ سو سال صرف کرنے پڑے۔ یہ وہ دور تھا جسے مغرب کا دور تاریک کہا جاتا ہے۔ اسے تاریک سمجھنے کی وجہ اس پورے عہد میں تخلیقی قوتوں کا بنجر پن ہے۔ ایک ایسا عہد جب ادب، تحقیق، فنون لطیفہ اور فلسفے کی نمو کے روک دیا گیا۔ کلیسا نے قریباً ایک ہزار سال تک سارے یوروپ کو عیسائیت کی ایک ایسی مضبوط تنظیم میں جکڑے رکھے جو مشین کے مشابہ تھی اور جس نے فرد کی انفرادیت کو کچل دیا تھا۔ ان اعتقادات نے زندگی کو ایک خول میں بند کر کے اس کا بیرونی چھلکا جامد کر دیا تھا۔

 یہ اس زمانے کا ہی قصہ ہے جب گلیلیو کو مذہبی عدالت میں حاضر کیا گیا۔ اس پہ الزام تھا کہ اس نے یہ کہہ کر کہ زمین حرکت کرتی ہے  بائبل میں موجود اس بیان کو غلط ثابت کرنے کی کوشش کی ہے  کہ  زمین ساکن ہے اور سورج اسکے گرد حرکت کرتا ہے۔ اپنے اس باغیانہ خیال کی وجہ سے اسے قید وبند کی صعوبت سے گذرنا پڑا۔ بالآخر گلیلیو نے عدالت کے سامنے توبہ کی کہ وہ آئندہ نہیں کہے گا کہ زمین حرکت کرتی ہے لیکن عدالت سے باہر آ کر اس نے کہا ' میں نہیں کہونگا کہ زمین حرکت کرتی ہے لیکن زمین اسکے باجود حرکت کرتی رہے گی'۔

شہرہ ء آفاق کالون نے مشیل سرقیہ کو ایک طویل عرصے تک قید و اذیت کے بعد زندہ جلا دینے کا حکم دیا۔ اسکا جرم یہ تھا کہ اس نے انسان کے جسم میں دوران خون کا پتہ چلایا تھا۔ حالانکہ اسکے بعد یہی نظریہ تاریکی کے اس اندھیرے کے ہٹنے کے بعد ہاروے نے پیش کیا اور شہرت کمائ۔ ان ناموں کے علاوہ ان لوگوں کی گنتی نہیں معلوم جنہیں کسی سوچ کو حقیقت بننے سے قبل ہی موت کے گھاٹ اتار دیا گیا۔

اسی معاشرے میں معززین کو زمینیں بخشی گئیں جنکے لئیے وہ صرف بادشاہ کو یا پوپ کو جوابدہ تھے۔ اس پہ بسنے والے لوگ اسے زرخیز بنانے کے ذمہ دار تھے اور اسکی آمدنی پہ انکا کوئ حق نہ تھا۔ البتہ انہیں یہ سہولت حاصل تھی کہ کسی بیرونی حملہ آور کی صورت میں ریاست انہیں تحفظ فراہم کرے گی۔ تو اس طرح سے یہ ایک ایسی غلامی تھی جس سے نجات ممکن نہ تھی۔

اسکے علاوہ ایک محکمہ ء احتساب بھی قائم کیا گیا۔ جو لوگوں کو انکی حدوں سے باہر نکلنے پہ سزا دینے پہ قادر تھا۔ لوگوں کا قصور اجتہاد کی بات کرنا، بائبل کے متعلق کلیسا کی تشریحات میں خامیاں نکالنا، دوسری شادی کرنا، جادو گری میں دلچسپی لینا اور اسطرح کے دوسرے جرائم جنکی ہولناک سزائیں لوگوں کو پابند سلاسل رہنے پہ مجبور کرتی تھیں۔ یہودیوں کے لئیے مخصوص سزائیں الگ تھیں کہ وہ مذہبی عقائد میں انکے حریف تھے۔ محکمہ ء احتساب نےکئ ہزار یہودیوں کو موت کے گھاٹ اتارا۔  اسپین سے لاکھوں کی تعداد میں یہودی جلاوطن ہوئے اور لاکھوں کی تعداد میں یہودیوں کو عیسائ ہونے پہ مجبور کیا گیا۔

جن لوگوں پہ اجتہادی سوچ کا الزام لگایا جاتا انہیں اپنی غلطی سے رجوع کر کے معافی مانگنے کے لئیے مہینہ بھر کا عرصہ ملتا اور جو ایسا نہیں کرتے انہیں شدید سزائیں دی جاتیں، جیسے جلا دینا۔، قتل کر دینا۔ عام طور پہ یہ سزائیں سر عام دی جاتی تھیں۔ احتساب کا یہ عہد تقریباً تین سو سال چلا۔ یہ قتل و غارت گری خدا مے احکامت کے نام پہ کی جاتی تھی کہ مذہبی کتاب میں دشمنون کیساتھ ایسا ہی سلوک رو رکھنے کے لئیے کہا گیا ہے۔

  ادب، تعمیر، دیگر فنون لطیفہ جیسے مصوری اورتحقیق سب پہ عیسائیت کی چھاپ ہونا ضروری تھی۔ نتیجے میں یوروپین  مصوروں نےحضرت عیسیٰ کو گورے رنگ  اور سنہرے بالوں اور رنگین آنکھوں والا یوروپین شخص بنادیا گیا۔ جس سے آج بھی عیسائ مذہب پرست چھٹکارا نہ پا سکے۔

  فرانس جہاں بادشاہت تھی۔ قوم کے مسیحی تشخص پہ زور دیا گیا اور بادشاہ کو مجبور کیا گیا کہ وہ ملکی قوانین قدیم مسیحی طرز پہ مرتب کرے البتہ یہ حق مذہبی یسوعی جماعت کو ہی رہیگا کہ وہ مختلف مذہبی قوانین کی کیا تشریح پیش کرتے ہیں۔یہ قانون بھی بایا گیا کہ اگر کسی کتاب میں موجود موادمذہب یا مملکت کیخلاف پایا گیا تو ناشر، مصنف اور کتاب فروش کو سزائے موت دی جائے گی۔ یہ ایک معاشرہ تھا جہاں غریب کو غریب رہنے کا مشورہ دیا جاتا تاکہ دولت پہ ریاست کے طاقتور لوگوں کا قبضہ رہے، عوام کو قربانی اور خیرات کا حکم ملتا، اور حکومتی ارکان پہ کوئ ٹیکس نہ تھا۔

یوروپ میں کلیسا کے اس طرز عمل نے ان سائنسی، علمی اور تحقیقی تبدیلیوں کے آنے میں بہت زیادہ رکاوٹ ڈالی جنہوں نے کچھ ہی عرصے میں تہذیب انسانی کو تبدیل کر دیا۔ لیکن اس جبر نے عام انسان کو مذہب سے بیزار کرنے میں ایک اہم رول ادا کیا۔

 یہ دور جس کی کوئ مقررہ تاریخ آغاز یا اختتام نہیں ہے۔ اور اسے بعض مءورخ تسلیم کرنے سے بھی ہچکچاتے ہیں اور کہتے ہیں کہ اگر یہ دور تاریک تھا تو دراصل یہ تاریکی رحم مادر کی تاریکی سے مشابہ تھی۔ یعنی تخلیق کا جذبہ درون خانہ پنپ رہا تھا۔ شاید یہ درست ہو۔ ہر جبر اور ظلم کے نیچے ایک انقلاب سانس لے رہا ہوتا ہے۔ یوروپ نے کسطرح نئے افکار کی روشنی حاصل کی۔ تحریر جاری ہے۔ آپ میں سے جو چاہے اس میں اپنے علم کا اضافہ کر سکتا ہے۔ 
حوالہ جات؛
اس تحریر کی تیاری میں مندرجہ ذیل ذرائع سے مدد لی گئ ہے۔

تاریخ اور فلسفہ ء تاریخ، مصنف ڈاکٹر مبارک علی
اردو ادب کی تحریکیں، مصنف ڈاکٹر انور سدید
خدا کے نام پہ لڑی جانیوالی جنگ، مصنفہ کیرن آرمسٹرونگ
حریت فکر کے مجاہد، مصنف وارث میر

Friday, February 12, 2010

فلائینگ کوئین، نسیم حمید

مجھے انڈین فلم چک دے انڈیا بہت پسند ہے۔ وجہ اسکی فلم میں شاہ رخ خان کی موجودگی نہیں ہے بلکہ فلم کی کہانی ہے جو انڈیا کے پسماندہ علاقوں سے تعلق رکھنے والی خواتین کھلاڑیوں  کی کہانی ہے۔ جن میں ایک مرد کوچ اپنی تربییت سے  وہ مہارت اور جذبہ پیدا کر دیتا ہے کہ وہ ہاکی کے ورلڈ کپ میں ایک ٹیم کے طور پہ اپنے ملک کی پہچان بن جاتی ہیں اور دنیا بھر میں اسکے فخر کا باعث۔
یہ کہانی شاید فلمی ہی لگتی، اگر نسیم حمید یہ ثابت نہ کر دیتی کہ دراصل دنیا میں کچھ بھی نا ممکن نہیں ہوتا اور اگر انسان اپنے ہدف جانتا ہو اورانکے حصول کی کوشش کرے تو اس سے فرق نہیں پڑتا کہ اپ پاکستان جیسے ملک کے پسماندہ علاقے میں رہتے ہیں۔ جہاں خواتین کی تعلیم کو عیاشی سمجھا جاتا ہے اور انکے کھیلنے کو غیر اسلامی۔
مجھے یاد ہے کہ اب سے چند سال پہلے لاہور میں ایک میراتھن ہونے والی تھی جس میں بھاگنے والوں کے تمام اہل خانہ کی شرکت متوقع تھی۔ لیکن اسکے خلاف ایک مہم چلادی گئ۔ معاشرے کے ایک طبقے کے نزدیک یہ وطن میں اخلاقی قدروں کے لئے لڑنے والا جہاد بن گیا۔ حالانکہ یہ صرف ایک دوڑ تھی۔ معاشرے میں اگر صحتمندانہ سرگرمیوں کے لئیے جگہ نہ چھوڑی جائے تو یہ توانائیاں نہ صرف کسی غیر پیداواری سرگرمی میں خرچ ہونے لگتی ہیں۔ بلکہ نوجوانوں میں مایوسی پیدا کرتی ہیں۔ تمام ترقی یافتہ ممالک میں کھیل تعلیم کا حصہ ہوتے ہیں اور ہر طالب علم کو کسی نہ کسی کھیل میں حصہ لینا ہوتا ہے۔
 کھیل انسانی توانائیوں کو نہ صرف مثبت طریقے سے سے خرچ کرنے کا نام ہے۔ بلکہ یہ انسان میں دیگر خواص بھی پیدا کرتے ہیں جیسے جہد مسلسل، برداشت، باہمی تعاون،اور باہمی میل جول کے طریقے۔
بہر حال کراچی سے تعلق رکھنے والی اس فلائنگ کوئین نے نہ صرف اس شہر کے باسیوں کا سر اونچا کیا ہے بلکہ وہ پاکستانی خواتین کے لئیے کامیابی کا ایک نیا نشان بن کر ابھری ہیں۔ انہیں ہم سب کی طرف سے اس کامیابی کی مبارکباد۔ اسکے ساتھ ہی وہ تمام لوگ بھی مبارکباد کے مستحق ہیں جنہوں نے اس بائیس لڑکی کو وہ آسانیاں فراہم کیں کہ وہ ہم سبکی فخر کا باعث بنی۔
 اگرچہ کہ یہ حق نسیم حمید کا ہے کہ وہ پیغامات دیں۔ میں انکی کامیابی کی ترجمان بن کر نوجوانوں سے یہ کہنا چاہتی ہوں  کہ کچھ کرنے کا موقع آج ہی کا ہے۔ ہر عہد اپنے نوجوانوں کا ہوتا ہے۔ ہم سے پہلے کے لوگ اپنے حصے کا کام کر گئے۔ یہ ہمارا عہد ہے اور ہمیں یہ ثابت کر دینا چاہئیے کہ ہم تمام ترمشکلوں کے باوجود اسے بدل دینے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ ہم انسانی فکر کی اس آزادی پہ یقین رکھتے ہیں جو انسانوں کو اپنے ماحول سے آگاہ کرتی ہے اور جو اسے دوسرے انسانوں کے لئیے آسانیاں پیدا کرنے کے قابل بناتی ہے۔ ہم اس قابل ہیں کہ اپنے لوگوں کو اپنے ملک کو ایک نئ پہچان دیں۔
تندی ء باد مخالف سے نہ گھبرا اے عقاب
یہ توچلتی ہیں تجھے اونچا اڑانے کے لئیے
تو پھر اپنے پر، پرواز کے لئیے کھول دیں۔ بلندی کی کوئ حد نہیں ہے۔

حوالہ؛
نسیم حمید

نسیم حمید کی کہانی

Thursday, February 11, 2010

فروری اے فروری

کل رات مجھے پتہ چلا کہ گوادر میں بھی بسنت کا اہتمام پتنگ اڑا کر کیا گیا۔ اس سلسلے میں سنگھار میں واقع پی سی ہوٹل میں ایک تقریب کا اہتمام کیا گیا تھا جس میں سات آٹھ خاندانوں نے شرکت کی۔ اسکے علاوہ گوادری بلوچوں نے بھی اپنے میدانوں میں پتنگیں اڑائیں۔ ویسے بلوچیوں کو فٹبال کھیلنا پسند ہے۔ اور میں نے گوادر میں اکثر کھیل کے میدانوں میں  اس کے لئیے لوگوں کا ہجوم دیکھا۔ تو اب چشم تصور سے انہی گوادریوں کو پتنگ اڑاتے دیکھتی ہوں تو بڑا مزہ آتا ہے۔
میں ایک ناکام پتنگ باز ہوں۔ بچپن میں کئ دفعہ پتنگ اڑانے کی کوشش کی۔ لیکن ایک تو پتنگ سطح زمین سے میری بلندی سے زیادہ نہیں اٹھ پاتی تھی جسکی وجہ اسکا میرے ہاتھوں میں ہی رہنا تھا۔ دوسرا  مانجھے یا ڈور کی وجہ سے میری انگلیوں کا کٹ جانا تھا۔ یہ ایسا باریک کٹاءو ہوتا ہے جو اوپر سے اتنا نظر نہیں آتا جتنی تکلیف دیتا ہے۔ ان دو وجوہات کی بناء پہ میں نے اس کھیل کو خیر باد کہہ کر کنچے اور گلی ڈنڈا کھیلنا کی کوشش کی لیکن آگے کیا ہوا۔ یہ پھر کبھی سہی۔ البتہ آخر میں جو ہوا وہ آپکے سامنے ہے۔
فروری کا مہینہ ہمارے ملک میں اگرچہ شروع تو کشمیر پر احتجاج سے ہے لیکن بسنت اور ویلینٹائنز ڈے کی وجہ سے منظر ایکدم تبدیل ہو جاتا ہےاور کچھ لوگوں کی عید ہو جاتی ہے۔ جس میں  قانون بنانے والے، ،کارڈز بنانے والے، پتنگ نانے والے، کارڈز، پھول , اسٹفڈ ٹیڈی بیئر,  چاکلیٹ بیچنے والے، پتنگ بیچنے والے، عشاق اور پتنگ باز سجنا کے علاوہ لکھنے والوں کی بھی ایک بڑی تعداد شامل ہے۔ موقع کی نزاکت سے فائدہ اٹھاتے ہوئے دینی فتووں کا بھی موسم آجاتا ہے۔ 
سچ ہے یہ رنگا رنگی اپنے وطن میں ہی نظر آسکتی۔ ایک طرف چھجو کے چوبارے پہ بو کاٹا ہو رہا ہے دوسری طرف شہر کے کسی گمنام گوشے میں کچھ بھاری بھاری ہاتھ کچھ نازک نازک ہاتھوں کو گجرے پہنا رہے ہیں اور سرگوشی کر رہے ہیں کاش میں تیرے حسیں ہاتھ کا کنگن ہوتا، کاش  اے کاش میں تیرے کان کا بالا ہوتا۔ جی چاہتا ہے ان نازک نازک ہاتھوں والی گوریوں کے کان میں ایک سرگوشی اور کہوں کہ یہ بالا آخر بلا کیوں بن جاتا ہے۔ مگر نہیں ان خلوت کدوں میں یہ سرگوشیاں اچھی نہیں لگتیں۔ کچھ لوگ اس سودے میں حاصل ہونے والی کمائ گن رہے ہیں۔ اور کچھ قلم اس عوامی ہنگامے کو بدعت قرار دیکر  مصروف جہاد۔
ہمارے ملک میں بسنت کی 'بدعت'  پنجاب کے پیلے سرسوں سے کھلے میدانوں سے شروع ہوئ اور اسے باقی ملک کے ان لوگوں نے جنکا تذکرہ اوپر موجود فہرست میں ہے اپنے اپنے علاقوں میں رائج کرنے کی بڑی کوشش کی۔ لیکن اسے وہ پذیرائ نہیں مل سکی جتنی کہ ویلینٹائنز ڈے کو ملی۔
آج بھی کراچی میں  ڈیفینس کے پوش علاقوں میں شاید کچھ  پتنگیں اڑتی نظر آئں۔ لیکن سرخ گلابوں کے کارڈز ہر دوکان پہ سجے ہیں۔ پھول والوں کے درمیان دوڑ لگی ہے۔ وہ زیادہ سے زیادہ اسٹاک جمع کر لیں۔  پھولوں کی قیمتوں میں تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے۔
کچھ ذہنوں میں خیالی پلاءو پک رہے ہیں۔ کیا پہنیں گے، کیا کہیں گے اب کیا ہوگا۔ دل کو دھڑکانے اور اسے اس طرح مصروف رکھنے کے لئے ہی یہ سرگرمیاں ہوتی ہیں۔ ورنہ شاعر کیوں کہتا

دل دھڑکنے کا سبب یاد آیا
وہ تیری یاد تھی، اب یاد آیا
 
میں اپنی انگلیوں کو دیکھتی ہوں ان پہ مانجھے کی ڈور سے کٹنے کے نشان موجود نہیں۔ ان پہ گلاب کے پھول کے ساتھ موجود کانٹے کی چبھن کے نشان بھی نہیں، مگر پھر بھی سوچتی ہوں،  یہ کیا ہوا دل بے قرار بھر آیا۔

Wednesday, February 10, 2010

دہشت گردی بمقابلہ دانشوری

اگرچہ مشتاق احمد یوسفی کے دوست عبد القدوس کی طرح میں بھی جھیل سیف الملوک کی چڑھائیاں کسی ٹٹو کی پیٹھ پہ چڑھ کر طے کرنے کے بجائے پا پیادہ ہی طے کرنا پسند کروں کہ کسی دوسرے کی غلطی کے بجائے اپنی غلطی سے مرنا بدرجہا بہتر ہے ۔  مگر کبھی کبھی اقبال کے فرمودات پہ بھی عمل کرنے کو دل چاہتا ہے۔ یعنی اچھا ہے دل کے ساتھ رہے پاسبان عقل۔ لیکن کبھی کبھی اسے تنہا بھی چھوڑ دے۔
تو ایکدن جبکہ ایک اپائنٹمنٹ پر پہنچنے میں خاصہ کم ٹائم رہ گیا تھا  میں نے  باقی لوگوں سےفارغ بیٹھے ڈرائیور کو مصروف کرنے کے لئیے گاڑی چلانے کی ذمہ داری اسے دیدی۔ وہ حسب معمول تیز لین میں گاڑی اڑا رہے تھے کہ طارق روڈ کے پل پہ پہنچ کر میں نے انہیں یاد دلایا کہ  میں انہیں پہلے بھی کہہ چکی ہوں کہ ہمیں پل پہ ہمیں الٹے ہاتھ پہ مڑنا ہے تو سگنل پہ دو لائنوں کو کاٹ کر نکلنے سے بہتر ہے کہ درمیانی لائن میں چلا جائے یا پھر پہلی لین میں آجایا جائے۔ جیسے ہی جملے کا فل اسٹاپ آیا۔ اس نے زندگی میں پہلی بار تابعداری کا مظاہرہ کرتے ہوئے عین اسی لمحے آگے پیچھے دیکھے بغیر لین تبدیل کی اورساتھ ہی ایک ہلکی سی ٹکر کی آواز آئ۔ گاڑی رکی اور اب وہ آگے والی گاڑی سے ٹکرا کر کچھ ترچھی حالت میں اس طرح کھڑی تھی کہ دو لینز بلاک ہو گئیں۔ ٹکر اتنی ہلکی تھی کہ بظاہر سب ٹھیک لگ رہا تھا۔ اور میں نے سوچا کہ دونوں ڈرائیورکچھ منہ ماری کے بعد چل پڑیں گے۔ لیکن سب ٹھیک نہ تھا۔
آگے والی گاڑی کا دروازہ کھلا اس میں سے ڈرائیور نکلا اور آکر ہمارے ڈرائیور کے پاس کھڑا ہو گیا۔ یہ صاحب پہلے ہی اپنا دروازہ کھول کر خوش آمدید کہنے کے منتظر تھے۔ لیکن یہ کیا ہوا اس ڈرائیور نے گاڑی میں ہاتھ ڈالا اور اگنیشن میں سے چابی نکال  کر قبضے میں کرلی۔ میں نے پیچھے بیٹھے یہ سارا تماشہ دیکھا اور سر پکڑ لیا کہ لاٹھی تو گئ اب بھینس کا کیا ہوگا۔ دونوں ڈرائیورز کے درمیان الزام تراشی جاری تھی۔ لیکن ظاہر سی بات تھی کہ غلطی ہمارے ڈرائیور کی ہی تھی۔ وہ اکثر ایسا ہی کرتا تھا۔ میں نے سوچا اب اسے بھگتنے دو۔
 بات اس نکتے پہ پہنچی کہ پانچ ہزار دینا ہونگے۔ اب یہ صاحب منہ پھاڑے کھڑے تھے کہ کچھ بھی تو نہیں ہوا ہے کس بات کے پانچ ہزار۔  کچھ دنوں پہلے اسے وارننگ دی گئ تھی کہ روڈ پہ بے احتیاطی دکھانے کی صورت میں خرچہ اسکے ذمے ہوگا۔اس موقع پہ آگے والی کار کا دروازہ ایکبار پھر کھلا اور ایک تقریباً ساٹھ پینسٹھ سال کے صاحب تھری پیس سوٹ میں بر آمد ہوئے اور آتے ہی ڈرائیور سے کہنے لگے کہ گاڑی کے کاغذات میرے حوالے کرو ورنہ پانچ ہزار دو۔ اس موقع پہ فلم میں ان خاتون نے  اپنی مداخلت ضروری سمجھتے ہوئے مس بنکاک کی طرح اینٹری دینے کی کوشش کی۔ اور وہ گاڑی سے اتر کر آگے والے ڈرائیور کے پاس پہنچیں اور اسکے ہاتھ میں لٹکی چابی پہ زور لگاتے ہوئے کہا۔' فوراً چابی واپس دو ورنہ'۔ اسکے بعد انہوں نے بغیر سوچے سمجھے کہا 'ورنہ میں قریبی پولیس اسٹیشن پہ جا کر اطلاع کرتی ہوں کہ میری گاڑی چوری کر رہے تھے تم'۔ ڈرائیور اور ان صاحب نے غضبناک ہو کر ان بالشت بھر کی خاتون کو دیکھا۔ 'ہاں چلیں کہاں جانا ہے۔ اب تو بات دس ہزار تک جائیے گی'۔ اپنے تئیں انہوں نے انکو مزید خوفزدہ کربے کی کوشش کی۔ یا اللہ، کیا مصیبت ہے۔ کیسے اس سے جان چھٹے گی۔ پل پر اور اسکے پیچھے تک ٹریفک جام ہوچکا تھا۔ اور مسئلہ حل ہونے کی کوئ صورت نظر نہ آرہی تھی کہ خاتون کے پاس ایک بائک آکر رکی۔ اس پر سے ایک چوبیس پچیس سالہ  مضبوط جثّے  اور درمیانے قد کے شخص نے چھلانگ لگائ۔ اور قریب پہنچتے ہی ڈرائیور کو چیخ کرحکم دیا کہ چابی ان خاتون کو دو۔ اتنی دیر سے تم سے کہہ رہی ہیں۔ سنتے نہیں ہو تم کیا۔ اتنی دیر سے سارا ٹریفک روک رکھا ہے۔ اسکا تحکمانہ انداز دیکھ کر وہ ابھی شش وپنج ہی میں تھا کہ اس نے ایک تھپڑ اسکو رسید کیا۔ اگلے ہی لمحے چابی میرے ہاتھ میں تھی۔ دوسرا تھپڑ پڑا تو ڈرائیور گاڑی کے اندر۔ سوٹ میں ملبوس صاحب ہکلائے 'یہ کیا ہو رہا اس گاڑی نے میری گاڑی کو ٹکر ماری تھی'۔ 'کچھ نہیں ہوا انکل، اب جا کر اپنی گاڑی میں بیٹھیں۔ آپکی گاڑی بالکل صحیح ہے۔ روڈ پہ ایسا ہوتا ہی رہتا ہے '۔ وہ گھگھیائے ہوئے اپنی گاڑی میں جا بیٹھے۔ میرا ڈرائیور اپنی جگہ سنبھال چکا تھا۔ اس غیبی مددگار نے مجھے دیکھا، مسکراتی آنکھوں سے آگے چلنے کا اشارہ کیا اور یہ جا وہ جا۔
کیا  دہشت گردی کو دانشوری نہیں، دہشت گردی ہی شکست دے سکتی ہے؟

Tuesday, February 9, 2010

نئے افکار کا حصول اور انکی ترویج-۳

اخوان الصفاء نے اپنے فرقے میں شامل لوگوں کو اس بات کا پابند کیا کہ انکی خاص مجالس ہوں۔ اوقات معینہ پہ ہونے والی ان مجالس میں کوئ اجنبی شرکت نہ کرے۔ اس میں وہ اپنے علوم پہ بحث کریں اور انکے اسرار پہ گفتگو ہو۔انکی بحث کے موضوعات علم نفس، حس محسوس، عقل معقول کے علاوہ کتب الہٰیہ، تنزیلات نبویہ کے اسرار اور مسائل شریعت کے معنی نیز ریاضی، عدد ہندسہ، نجوم، تالیف ہوا کرتے تھے۔
اپنے پیروکاروں کے لئیے انکا کہنا تھا کہ کسی علم سے نفرت نہ کریں، کسی کتاب کا مطالعہ ترک نہ کریں اور نہ کسی مذہب سے تعصب برتیں۔ کیونکہ اخوان الصفاء کا مذہب تمام مذاہب پہ حاوی ہے۔
انکا کہنا تھا کہ اس فریبی دنیا میں بعض لوگ ایسے ہیں جو علماء کا جامہ پہن کر اہل دین کا دھوکا دیتے ہیں وہ نہ فلسفے سے واقف ہوتے ہیں اور نہ شریعت کی انکو تحقیق ہوتی ہے۔ آگے ان لوگوں کی مزید خصوصیات بیان کرتے ہوئے جو کہ اس مضمون کو طویل کر دیں گی وہ کہتے ہیں ان لوگوں سے احتراز کیا جائے۔ انکا کہنا تھا کہ فرسودہ بوڑھوں کی اصلاح میں کوشاں نہ ہوں۔ یہ لوگ بچوں جیسے فاسد  اور ردی خیالات رکھتے ہیں اور تمہیں پریشان کریں گے۔ اور اپنی حالت کی اصلاح بھی نہ کریں گے۔  نصیحت سلیم الطبع نوجونوں کے لئے ہے۔ اللہ نے ہر نبی کو نوجوانی میں نبوت عطا فرمائ اور اپنے ہر بندے کو اس وقت حکمت دی جب وہ عالم شباب میں تھا۔
اخوان الصفاء نے اپنے پیروکاروں کے عمر کے حساب سےچار درجے متعین کئیے۔
اہل صنعت؛ انکی عمر پندرہ سال کے قریب، یہ پہلے مرتبے کے لوگ ہیں  جنکی خصوصیات، نفس کی صفائ، حسن قبول، اور سرعت تصور ہے۔ انہیں 'ابرار'کہا جاتا تھا۔
اہل سیاست؛ انکی خصوصیات بھائیوں کی مراعات، سخاوت نفس، شفقت، رحم ہیں۔ یہ خصوصیات تیس سال کی عمر میں حاصل ہوتی ہیں۔ اس مرتبے کے لوگوں کو 'اخیار اور فضلاء' کہا جاتا تھا۔
بادشاہ؛ یہ تیسرا مرتبہ تھا جو چالیس سال کی عمر میں حاصل ہوتا تھا اسکا تعلق امر و نہی امداد، دفع عناد اور دشمن سے مقابلے کے وقت اسکی مخالفت کو نرمی، لطف اور مدارت کے ذریعہ دفن کرنے پہ ہے۔ انہیں 'فضلائے اکرام' بھی کہا جاتا تھا۔
نبی اور فلسفی؛ یہ تسلیم اور تائید الہی کو قبول کرنا اور حق تعالی کا اعلانیہ مشاہدہ کرنا ہے۔ چونکہ معراج کا واقعہ لگ بھگ اسی عمر میں ہوا تھا تو یہ پچاس برس کی عمر والوں کو تفویض کیا گیا۔ اسکے ذریعے انسان عالم ملکوت کی جانب پرواز کرتا ہے اور قیامت کے حالات جیسے نشر، حشر، حساب، میزان، صراط، دوزخ اور خدائے تعالی کے قرب کا مشاہدہ کرتا ہے۔ انکو ملائکہ بھی کہا جاتا تھا۔ انکا کہنا تھا کہ فیثا غورث نے اپنے رسالہ ذہبیہ کے آخر میں اسی طرف اشارہ کیا کہ۔'اگر تو میری ہداہت پہ عمل کرے تو جسد سے علیحدہ ہونے کے بعد ہوا میں باقی رہیگا۔ نہ تو پھر اس دنیا میں لوٹے گا نہ تجھ پہ موت کا حملہ ہو گا'۔
تو جناب میں اخوان الصفاء کے فلسفے کی تفصیل میں جائے بغیر ان کی یہ دلچسپ کہانی یہاں ختم کرتی ہوں۔ لیکن ہم دیکھ سکتے ہیں کہ انسان کی عقلی قوتوں کو کھنگالنے کا کام آ ج سے ہزاروں برس پہلے بھی کیا گیا اور خود مسلمانوں  میں سے بھی کئ گروہ اس طرف تمام تر سختیوں اور پابندیوں کے باوجود متوجہ ہوئے۔ اب ہمیں سرسید کی خدمات کا جائزہ لینے سے پہلے یوروپ کے دور تاریک اور وہاں پیدا ہونے والے رد عمل پہ ضرور نظر ڈالنی چاہئیے کہ یہ ہمارے ایک مبصر کی صائب رائے ہے۔ لیکن اس سے پہلے میں سوچتی ہوں کہ اپنے کچھ قارئین کی دل پشوری کا سامان کروں کہ وہ تھک گئے ہونگے۔ ہم اکیسویں صدی میں رہتے ہیں۔ دنیا آواتار دیکھ رہی ہے اور آپ اخیار کا تذکرہ کر رہی ہیں۔

 جاری ہے۔

حوالہ جات؛
کتاب 'تاریخ فلاسفۃ الاسلام'، مصنف محمد لطفی جمعہ۔

Sunday, February 7, 2010

نئے افکار انکا حصول اور انکی ترویج-۲

فلسفہ ، اگر انسانی مشاہدات کو عقل کی کسوٹی پہ پرکھنے کا نام ہے تو سائینس ایک قدم آگے بڑھتی ہے اور اس میں تجربے کو بھی شامل کر دیتی ہے ۔ 
دور عباسی میں فلسفے کو بڑی اہمیت حاصل ہوئ خلیفہ مامون ا لرشید نے فلسفے کی کتابوں کا ترجمہ عربی میں کرایا۔ اطباء نے اس میں بالخصوص دلچسپی لی۔ اس زمانے میں فلسفیوں کو الحاد کا الزام دیا جاتا تھا اور  فلسفہ اس قدر    کفر کے مماثل تھا کہ ابن تیمیہ نے اسکے متعلق لکھا کہ' میں نہیں سمجھتا کہ خدائے تعالی مامون سے غافل رہیگا۔ بلکہ اس نے امت پہ جو مصیبت نازل کی ہے اسکا ضرور اس سے بدلہ لیگا'۔
ان حالات کو سامنے رکھتے ہوئے اہل فلسفہ اپنے خیالات کوچھپانے لگے اور یوں کئ خفیہ تنظیمیں وجود میں آئیں۔ ان میں سے ایک اخوان الصفاء ہے۔ جن لوگوں کو جاسوسی کہانیوں سے دلچسپی ہے انہیں یہ ساری حقیقت بھی خاصی دلچسپ لگے گی کہ انکے اجلاس پوشیدہ ہوا کرتے تھےجن میں فلسفے کی مختلف اقسام پہ گفگتگو ہوتی تھی۔ اس میں یونان، فارس اور ہند کے فلسفوں سے واقفیت حاصل کرنے کے بعد انہیں اسلام کی روح میں ڈھالا گیا تھا۔
انکا خیال تھا کہ شریعت اسلامیہ جہالت اور گمراہی سے آلودہ ہو گئ ہے۔ اور اسکی صفائ صرف فلسفے سے ہی ممکن ہے۔ اور جس وقت فلسفہ ء یونان اور شریعت محمدیہ میں امتزاج پیدا ہو جائیگا تو اس وقت کمال حاصل ہوجائے گا۔
  ان تمام خیالات کا مجموعہ باون رسائل کی صورت میں ظاہر ہوا۔ جنکا نام ' رسائل اخوان الصفاء' رکھا گیا۔ البتہ ان فلسفیوں کے نام پوشیدہ رکھے گئے۔
 یہ رسائل اپنے مولفین کی کامل غوروفکر اور انہماک کو ظاہر کرتے ہیں۔ اور ان میں اتنے جدید خیالات بھی پائے جاتے ہیں جنکی اس زمانے میں بڑی شہرت ہے جیسے نشو ونما اور ارتقاء کے نظرئیے۔
 یہ رسائل معتزلہ اور انکی تقلید کرنیوالوں نے بھی استعمال کئیے، بعد ازاں یہ  قرطبہ لیجائے گئے۔
یہ رسائل بمقام لینبرگ ۱۸۸۳ میں طبع ہوئے اور بمبئ میں ۱۸۸۶ اور مصر میں ۱۸۴۹ اور لندن میں ۱۸۶۱ میں طبع ہوئے۔ انکا ہندوستانی زبان میں ترجمہ بھی کیا گیا۔
ان رسائل کی چار بنیادی قسمیں ہیں۔
اول: چودہ رسالے ریاضی کے متعلق
دوئم: سترہ رسالے طبعی جسمانییت سے متعلق
سوم: دس رسالے عقلی نفسیات سے متعلق
چہارم:  گیارہ رسالے احکام الہی سے متعلق
  میں انکی تفصیلات میں جانے سے گریز کرتی ہوں لیکن یہ بتاتی چلوں کہ ان باون رسالوں میں انتہائ تفصیل سے دنیا کے تقریباً ہر موضوع پہ گفتگو کی گئ ہے۔
انہوں نے اپنے علوم کے ماخذ چار قسم کی کتابوں کو قرار دیا۔ ایک تو وہ کتب جو ریاضی اور طبیعیات میں حکماء اور فلاسفہ کی تصنیف کردہ ہیں۔ دوسری وہ جو انبیاء علیہ السلام پہ نازل ہوئیں۔تیسری طبیعیات کی وہ کتابیں جن میں کائنات میں موجود چیزوں کی اشکال اور انکی مختلف قسموں پہ بحث کی جاتی ہے اس مین فلک سے لیکر نباتات، حیوانات اور انسان بھی شامل ہے۔ اور چوتھی وہ کتب الہی جنکو صرف پاکیزہ سرشت ملائکہ ہی چھو سکتے ہیں اور جو بزرگ نیکوکار فرشتوں کے ہاتھ میں ہوتی ہیں۔ اور ان میں انسان کی تقدیر و تدبیر و تحریک  سے لیکر اسکے اعمال تک بحث میں آتے ہیں۔
یہاں تک آتے آتے میں حیران ہوتی ہوں کہ آج سے تقریباً گیارہ سو سال پہلے کسی گروہ نے اتنے نظم وضبط کے ساتھ اتنے نا مصائب حالات میں کیسے کیسےعقلی کارنامے انجام دئیے۔
اخوان الصفاء پہ گفتگو جاری ہے۔
حوالہ؛
کتاب، 'تاریخ فلاسفۃ السلام ' مصنف  محمد لطفی جمعہ۔


Friday, February 5, 2010

نئے افکار کا حصول اور انکی ترویج-۱

مسلمان اکابر فلسفہ کا سلسلہ کندی سے شروع ہوتا ہے اور ابن رشد پہ ختم ہوتا ہے۔ اسلامی تحریک کا دور عروج ابن رشد سے بہت عرصہ پہلے اور عثمانی فتوحات کے فوراً بعد ختم ہو چکا تھا۔ دور زوال یعنی تیرھویں صدی میں ابن خلدون کے بعد یہ پھر نہ اٹھ سکا۔  اگر ان حکماء کا وجود نہ ہوتا تو یوروپ کا کوئ جدید فلسفی عالم وجود میں نہ آسکتا تھا۔  ان علماء  کی کتابوں کے پوروپینز زبان میں ترجمے کئیے گئے اس طرح یوروپینز نے ان افکار کی نشر واشاعت کی اوراپنے اشتیاق سے اس میں مزید اضافہ کیا۔  انکی اس تجارت میں انہیں بے حد نفع ہوا۔
اسلام کے ابتدا ئ دور میں اسلام ایک مدنیت کا نام تھا۔ اور اسی قیاس کی بناء پہ اسرائیلی اور مسیحی فلسفیوں اور دوسرے آزاد خیال مفکرین کو اسلامی تمدن میں پھلنے پھولنے کے مواقع ملے اور عباسی، اموی اور فاطمی خلفاء نے غیر مسلم مصنفین، مفکرین، اور ادیبوں کو اپنا قرب بخشا ۔ انہیں حکومت کے اعلی عہدوں پہ فائز کیا۔اس سلسلے میں کچھ نام لئیے جا سکتے ہیں جیسے سعید بن یعقوب، ہموئیل بن حنفی جو یہودی تھےاور ایک اسرائیلی عالم موسی بن میمون جو میمونید کے نام سے مشہور ہے۔
اسلام کے ابتدائ سوا سو سال عروج کا زمانہ ہے جس میں جمودی فکر ختم ہوا اور لوگوں میں مطالعہ علم اور بحث نظر پیدا ہوا۔ عباسیوں نے اپنے عہد میں علم و ادب کی ترقی کے لئیے بے حد کام کیا۔ اور اس وجہ سے رعایا میں بھی علم سے محبت پیدا ہوئ۔ دور عباسی اس حدیث سے متائثر تھا کہ ایک عالم کے قلم کی سیاہی، مجاہد کے خون سے بہتر ہے۔ انکے عہد میں جو دراصل تین ادوار پہ مشتمل ہے۔  دوسری زبانوں سے مختلف علوم عربی زبان میں منتقل کئیے گئے۔ان خلفاء کے زمرے میں جنہوں نے اجنبی یا داخلی علوم کو یونانی، فارسی، سریانی اور ہندی زبانوں میں سے عربی میں ترجمہ کروایا۔ ایک تو منصور ہے جس نے فلکیات اور طب کی جانب توجہ کی۔ دوسرے ہارون رشید جسکے زمانے میں ریاضیات میں کتاب 'محیطی' کا ترجمہ ہوا۔ پھر مامون نے مختلف علوم بالخصوص فلسفے اور منطق کے ترجمے کا اہتمام کیا۔ اس طرح مختلف ادور میں جن کتابوں کا ترجمہ کیا گیا انکی تعداد سینکڑوں تک پہنچ گئ جن میں سے اکثر یونانی زبان سے منتقل کی گئیں۔ خود ان لوگوں کی تعداد درجنوں تک پہنچتی ہے جنہوں نے ترجمہ کرنے میں حصہ لیا۔
یہ امر واضح ہے کہ مسلمانوں نے اپنے عہد زریں میں تمام مروجہ علوم، فلسفہ، طب، فلکیات، ریاضیات اور اخلاقیات کو عربی میں منتقل کیا اور ہر قوم کا بہترین سرمایہ اپنے قبضے میں کیا۔ان تمام تالیفات، جنکا عربی میں ترجمہ کیا گیا، کی حیثت بیج جیسی تھی۔ ان سے بارآور درخت کے اثرات آج بھی موجود ہیں۔عباسیوں کے پہلے دور میں ترجمہ کرنیوالوں کی اکثریت غیر مسلم تھی۔ جب ترجمے کا کام مکمل ہو چکا تو مسلمانوں نے اصل کام کی طرف توجہ کی۔  اور اس مرحلے پہ اسلام کے پہلے فلسفی یعقوب کندی کی آمد ہوتی ہے۔ پھر اسکے بعد بہت سے فلاسفہ، حکماء، اطباء،علمائے ریاضیات، فلکیات اور کیمیا نے جنم لیا جنکی شہرت سے تمام عالم گونج اٹھا۔حکمت کا یہ سلسلہ گو کہ گیارہویں صدی تک چلا اور ابن خلدون کو شامل کریں تو تیرہویں صدی تک،  لیکن اسکے اثرات آج بھی موجود ہیں۔

 نوٹ؛ یہ سلسلہ جاری ہے اور اس کے ، اگلے حصے میں، میں سرسید احمد خاں کی اس تحریک کا تذکرہ کرنا چاہونگی جو ہند کے مسلمانوں میں  اجنبی علوم کی ترویج  کا باعث بنی۔
حوالہ؛
اس تحریر میں موجود مواد کتاب تاریخ 'فلاسفۃ الاسلام' سے لیا گیا ہے جسکے مصنف  عرب عالم 'محمد لطیفی جمعہ' ہیں۔اسکا اردو ترجمہ ڈاکٹر میر ولی الدین پروفیسر جامعہ عثمانیہ حیدر آباد دکن نے کیا ہے۔تحریر میں کچھ حصہ ڈاکٹر انور سدید کی کتاب 'اردو ادب کی تحریکیں' سے بھی لیا گیا ہے۔

  عباسی خلفاء

عباسی اور اموی عہد حکومت

Thursday, February 4, 2010

کراچی میں رینجرز

تازہ ترین احکامات کے مطابق کراچی میں رینجرز کو پولیس کے اختیارات دے دئیے گئے ہیں۔  اس سے قبل انیس سو چھیاسی سے لیکر نوے کی دہائ تک کراچی میں رینجرز کا راج رہا۔ اور انہوں نے اس سونے کی چڑیا سے خوب کمایا۔ اس وقت کراچی کا ہر نوجوان ایم کیو ایم کا غنڈہ تھا۔ جسکے ساتھ رینجرز جو دل چاہے سلوک کرتی تھی۔ حقیقت یہ تھی کہ اس وقت کراچی کے نوجوانوں کو یہ کرنے کی تربیت دی جا رہی تھی۔ اس عرصے میں رینجرز کے اختیارات اتنے زیادہ تھے کہ وہ جسکو چاہتے پکڑ کر لیجاتے۔ اور عام لوگوں کا کہنا یہ تھا کہ پولیس تو ایک دو ہزار میں مک مکا کرتی ہے۔ رینجرز کے پاس جانے کا مطلب بیس پچیس ہزار سے کم نہیں ہوتا۔ 
انہی وقتوں میں مجھے یاد ہے ایک دفعہ ڈبل سواری پہ پابندی ہٹائ گئ تو ٹی وی پہ یہ اعلان سننے کے بعد  میرا ایک انیس بیس سالہ رشتےدارلڑکا موٹر سائیکل پہ اپنے دوست کے ساتھ نکل گیا۔ رینجرز والوں نے اسکا پیچھا کیا، اور پکڑ کر بیچ روڈ پہ اتنا مارا کہ اسکی کلائ کی ہڈی ٹوٹ گئ۔ اور بیہوشی کی حالت میں وہیں پھینک کر آگے روانہ ہوگئے۔ اسکا دوسرا ساتھی موقع سے فرار ہوا اور تب گھر والوں کو اسکی زبانی اطلاع ملی۔
ایسا اگر مقبوضہ کشمیر میں ہوتا تو تمام پاکستانی لیڈران مذمتی بیانات جاری کرتے۔ کیونکہ وہ انکے مسلمان بھائ ہیں۔ قصور ان مسلمان بھائیوں کا یہ تھا کہ رینجرز والوں کو اس حکم کی کاپی نہیں ملی تھی۔ یہ تو ایک معمولی سا قصہ ہے۔ جانے کتنے نوجوانوں کو روندا گیا کہ اب ان جوانوں کو ہتھیار اٹھاتے کوئ افسوس نہیں ہوتا۔ اور اب اس حکم کے بعد مزید کتنوں کی باری آتی ہے۔
ابھی تھوڑی دیر پہلے میں نے جیو پہ حامد میر کا پروگرام دیکھا۔ جس میں ایم کیو ایم کے حیدر رضوی، پی پی کے نبیل گبول اور اے این پی کے شاہی سید صاحب سے کراچی میں ٹارگٹ کلنگ کے حوالے سے بات ہو رہی تھی۔ نبیل گبول صاحب نے اپنے جیالے انداز میں ایک نہایت'کارآمد' تجویز پیش کی کہ کراچی کے سب منتخب ممبرز کو اپنے علاقوں کا ذمہ لینا چاہئیے۔ اور میں لیاری اور ملیر کا ذمہ لیتا ہوں کہ وہاں ایسا نہیں ہوگا۔
میرے ایک جاننے والے کو نبیل گبول صاحب کے علاقے میں ٹارگٹ کلنگ کا نشانہ بناتے ہوئے بیس دن پہلے مار دیا گیا۔ وہ صاحب اس علاقے سے تعلق نہیں رکھتے تھے۔ دوران سفر انکے علاقے کی مسجد میں نماز پڑھنے چلے گئے مسجد سے نکلے تو چار افراد انہیں پکڑ کر اپنے ساتھ لے گئے اور شام کو ایدھی والوں کا فون آیا کہ آکر لاش پہچان لیں۔ 
پیپلز پارٹی نے اپنے ووٹرز کے حلقوں کو کچھ نہیں دیا سوائے مجرمانہ سرگرمیوں کی پشت پناہی کے۔ یہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے دوسرے لوگوں کو مجبور کیا کہ وہ ہتھیار ہاتھ میں اٹھائیں۔ اور آج بھی وہ اپنی داداگیری میں مصروف ہیں۔ یہ وہی لوگ ہیں جنہوں نے راول پنڈی میں مرنیوالی بے نظیر کا بدلہ کراچی کو جلا کر لیا۔ اس سارے واقعے میں کراچی والوں کا کیا قصور تھا۔ اور کیوں اس وقت پکڑے جانیوالے ملزمان چھوڑ دئیے گئے۔ اس وقت نبیل گبول یا انکی پارٹی نے اپنے علاقے کا ذمہ نہیں لیا تھا۔ یا شاید زرداری صاحب پاکستان کھپے کا نعرہ تخلیق کرنے کے مراحل میں تھے۔
 وہ لوگ جو ایم کیو ایم کے وجود پہ ناک منہ چڑاتے ہوئے اہل کراچی پہ پھٹکاریں بھیجتے ہیں کہ وہ انہیں کیوں سپورٹ کرتے ہیں کیا انہیں اب بھی سمجھ میں نہیں آتا کہ لوگ اپنے ہاتھوں میں ہتھیار کیوں اٹھاتے ہیں۔ 
کل رات کو ساڑھے نو بجے جب میں شہر کی سڑک سے گذر رہی تھی تو اس مصروف ترین سڑک پہ پھیلے ہوئے سناٹے اور اندھیرے کو دیکھتے ہوئے سوچا کہ کیا یہ صحیح ہے کہ جیسے آپکے دوست ہوں آپ بھی ویسے ہی ہوجاتے ہیں یا جیسے آپکے دشمن ہوں ویسا ہی بننا پڑتا ہے۔ کیا اس شہر کے رہنے والوں کو مجبور کر کے اپنا جیسا بنانے کی سازشیں کامیاب ہو رہی ہیں۔ کیا ہمیں بھی اب ہتھیار کی بالادستی کو مان لینا چاہئیے۔
میرے آگے ایک ٹھیلے پہ کینو سنبھالتا ہوا ایک مایوس پٹھان جا رہا تھا ۔ عام دنوں میں وہ شاید رات بارہ بجے تک کھڑا رہتا لیکن اس وقت ایسا ممکن نہیں تھا۔ کچھ پٹھان بھی تو مارے گئے ہیں۔ اسلحے کی سیاست میں ایسا ہی ہوتا ہے۔ کوئ نہیں بچتا۔  
کراچی میں ہونیوالی ٹارگٹ کلنگ کی عدالتی تفتیش ہونی چاہئیے۔  نہ صرف یہ بلکہ عدالت کو ازخود اس بات کا نوٹس لینا چاہئیے کہ یوم عاشور پہ آگ لگانے والے لوگ کون تھے۔ جبکہ ایک بڑی تعداد عینی شایدین کی یہ کہتی ہے کہ لوٹ مار کرنیوالے لیاری سے تعلق رکھتے تھے۔ رینجرز کو یہ اختیار دینے کا مطلب ایک اور مکروہ تاریخ لکھنے کے علاوہ کچھ نہیں ہے۔

حوالہ؛

Monday, February 1, 2010

غالب اور بہتّر حوریں

غالب نے کہا کہ سو پشت سے ہے پیشہ آباء سپہ گری، کچھ شاعری ذریعہ عزت نہیں مجھے۔   تحریراً، انہوں نے بھی مغل بچہ ہونے کی وجہ سےاسی بات پہ اکتفا کیا کہ یا تو مارو یا مار رکھو۔ لیکن افسوس تلوار اپنے ہاتھ میں کبھی نہ اٹھائ کہ خانہ ء دل میں مژگاں کی تلواریں تو گڑی رہتی ہیں، دستی تلواروں کا کام نہیں۔ ویسے بھی جو گڑ سے مر رہاہو اسے تلوار سے کیا مارنا۔ اگرچہ کہ فی زمانہ گڑ سے مارنے کا طریقہ بھی استعمال ہو رہا ہے۔ لیکن اس زمانے کے بارے میں کیا کہیں ہر غیر مستعمل طریقہ مرنے اور مارنے کے لئیے استعمال ہو رہا ہے۔ جدت شاید اسے ہی کہتے ہیں۔ خیر بات غالب کی ہو رہی تھی۔ایک واضح وجہ جو سمجھ میں آتی ہے اپنے  آباء کے پیشے سے انحرف کی۔وہ انہوں نے کچھ اس طرح پیش کی کہ،
ایسی جنت کا کیا کر ے کوئ
جس میں لاکھوں برس کی حوریں ہوں
قیاس کہتا ہے کہ وہ سمجھتے تھے کہ میدان جنگ میں مارے جانے کے بعد انعام میں جو حوریں ملیں گی وہ اسٹاک میں ایک دفعہ بنا لی گئ ہیں اور بس ان میں سے ہی بہتّر  اب ہر مرد مجاہد کے حصے میں آتی رہیں گی۔ ایسی بہتّر حوروں کے اپنے پہلو میں رہنے سے وہ اتنے خائف تھے کہ شاعری اور شوق خمار کے بعد انکساری سے کچھ اور تدبیروں پہ غور کیا کرتے تھے۔
مرنے کی اے دل، اور ہی تدبیر کر کہ میں
شایان دست و بازوئے قاتل نہیں رہا
لوگوں کا کہنا ہے کہ ایسی ہی ایک تدبیر کے نتیجے میں انہوں نے قرض کی مے پینے کی لت پالی۔ لیکن  بعد میں اس معاملے کو بروز ابر مہتاب کبھی کبھی پہ چھوڑ کے  علم بغاوت بلند کیا اور  شدت جذبات میں حوروں کی تحقیر کرنے میں کوئ کسر نہ چھوڑی۔ کچھ بی جمالو صفت لوگوں کا کہناہے کہ معاملہ کو اس نوعیت پہ پہنچا دیا کہ خاکی خواتین اور حوروں کو آمنے سامنے کر کے خاکی خواتین کے پاءوں دھوتے رہے اور اہل تماشہ کے جذبات کو برانگیختہ کرنے کی کوشش میں اس طرح کی اطلاعات پہنچائیں کہ
میں جو کہتا ہوں کہ ہم لینگے قیامت میں تمہیں
کس رعونت سے وہ کہتے ہیں کہ ہم حور نہیں
یوں ایسی مغرور خاکی خواتین سے بیزار ہونے والوں کا  ایک حلقہ وجود میں آگیا جو آج حیرانی سے پوچھتا ہے کہ خاکی ناپاک عورتوں کا دنیا میں کیا کام ہے۔ انہی لگائ بجھائ کرنے والوں کا فرمانا ہے کہ محترم شاعر نے اپنی شاعری کے ہنر کو اس جنگ میں بخوبی استعمال کیا اور خاکی خواتین کا دماغ خراب کرنے میں کو ئ کسر نہ چھوڑی۔
تسکیں کو ہم نہ روئیں جو ذوق نظر ملے
حوران خلد میں تیری صورت مگر ملے
ان عناصر کا یہ بھی کہنا ہے کہ آج سے ڈیڑھ سو سال پہلے انہوں نے آج پیش آنیوالے واقعات کا میں دخل اندازی کرنے کی کوشش کرتے ہوئے جنت کو بھی بس ایسی ویسی جگہ قرار دینے کی کوشش کی، اور کہا
کم نہیں جلوہ گری میں، ترے کوچے سے بہشت
یہی نقشہ ہے، ولے اسقدر آباد نہیں
یہاں میں اتنا ہی کہہ سکتی ہوں کہ وہ دوزخ کی آبادی کو جنت میں تلاش کر رہے تھے ، اور اسکا سرا کسی کے کوچے سے ملا دیا۔ لیکن یہ بھی انکی ادا ہی تھی ورنہ وہ یہ کیوں کہتے کہ
سنتے ہین جو بہشت کی تعریف، سب درست
لیکن خدا کرے، وہ ترا جلوہ گاہ ہو
انکی اس قسم  کی باتوں پہ کچھ بد بختوں نے جب  انہیں کافر قرار دینے کی کوشش کی تو انہوں نے اس الزام کو ایک جنبش قلم سے پرے کر دیا کہ ہوں ولی پوشیدہ اور کافر کھلا۔ امتداد زمانہ سے اب اس بات پہ فخر کیا جانے لگا ہے کہ پوشیدہ طور پہ کافر ہوں مگر کھلے ولی ہوں۔ جناب گئے زمانے کے بزرگ بھی کیا طبیعت رکھتے تھے۔
کچھ دشمنوں نے یہ بھی پھیلانے کی کوشش کی یہ سب انہوں نے پریزادوں سے انتقام لینے کے لئیے کیا تھا۔ اور اسی لئیے انہوں نے کہا کہ
ان پریزادوں سے لینگے خلد میں ہم انتقام
قدرت حق سے یہی، حوریں اگر واں ہو گئیں
لیکن جیسا کہ کوئ بھی دیکھ سکتا ہے کہ اس شعر میں بھی حوروں سے انکی مراد یہی خاکی خواتین ہیں۔انکی خاکی خواتین سے یہ انس و محبت دیکھ کر یہ حقیر، انجمن آزدی ء نسواں سے یہ التماس کرنا چاہتی ہے کہ انہیں حقوق خاکی خواتین کے علمبرداروں میں سے ایک سمجھا جائے اور تمام رپورٹس اورخبروں میں انکی شاعری کی ترویج کی جائے۔مملکت خداداد میں جہاد کیخلاف چلنے والی تحریکوں میں اس بات کا تذکرہ بار بار کیا جائے کہ حاصل ہونے والی بہتّر حوریں کس قدر پرانی ہیں کہ اماں حوا کی نانی ہیں۔ انہیں بتایا جائے کہ دنیا میں ایک مخلوق عورت نامی بھی بستی ہے اور اسکے ساتھ رہنے سے لڑائ بھڑائ کی صلاحیتیں گھر کی گھر میں ہی خرچ ہو جاتی ہیں۔ اور انہیں قابو میں رکھنے کی فکر میں،مرنے کے بعد کیا ہوگا کی فکر سے نجات مل جاتی ہے۔
مخالفین سے درخواست ہے کہ اس قسم کے شعر لا کر غالب کے صحیح الدین ہونے اور جانبداریت پہ مسئلہ نہ کھڑا کریں کہ
چھوڑونگا نہ میں بت کافر کو پوجنا
چھوڑے نہ خلق گو مجھے کافر کہے بغیر
یہ سب دشمنوں کی اڑائ ہے۔ وہ بہرحال خاکی مسلمان خواتین کے قدردانوں میں سے تھے اور  اپنی اس غلطی سے یہ کہہ کر رجوع کر چکے  تھے کہ
دل دیا جان کے کیوں اسکو وفادار اسد
غلطی کی جو کافر کو مسلماں سمجھا
تو پیاری بہنوں ہمیں مرد حق غالب کے خلوص نیت پہ شک نہیں کرنا چاہئیے
حق مغفرت کرے عجب آزاد مردتھا۔

حوالہ؛