لکھنا تو ہولوکاسٹ پہ تھا کہ موقع بھی ہے دستور بھی ہے۔ لیکن میں پہلے ایک پیش آنیوالے واقعے پہ لکھتی ہوں۔ میں جب صبح صبح اپنی بیٹی کوموٹیسوری چھوڑنے کے لئے اسے گاڑی میں جلدی جلدی اندر بیٹھنے کا کہہ رہی تھی تو مجھے ایک آواز آئ۔ میرے پیچھے ایک دس گیارہ سال کا بچہ کھڑا تھا۔ کہنے لگا ، باجی صفائ کروانی ہے۔ میں نے کہا نہیں صفائ نہیں کروانی ہے۔ باجی صفائ کروالو۔ پھر اس نے باہرگرے ہوئے درخت کے پتوں کی طرف اشارہ کیا۔ سب صاف کر دونگا۔ میں نے کہا نہیں تم اس کام کے لئے بہت چھوٹے ہو اب جاءو مجھے دیر ہو رہی ہے۔ اسکے فوراً بعد میں روانہ ہو گئ۔ لیکن میرے دل میں ایک کھٹک تھی۔ اتنے چھوٹے بچے سے کیا کام کرایا جا سکتا ہے۔ اتنے چھوٹے بچوں کی کیا مدد کی جا سکتی ہے۔ کیا مجھ جیسے تنخواہ دار شخص کو جو اپنے گھر سے گاڑی بھی فاصلہ گن گن کر نکالتا ہو کہ ذرا سا بھی زیادہ ہونے پہ میرا بجٹ متائثر ہوتا ہے۔ گھر کے بلب گن کر روشن کرتا ہو گھر کا اے سی پورے سال میں تین مہینے سے زیادہ نہیں استعمال کرتا ہو اور وہ بھی ایک دن میں پانچ گھنٹے سے زیادہ نہیں اوروہ بھی اپنی بچی کی پیدائش کے بعد کہ سب ہی والدین اپنے بچے کو زندگی میں کچھ آسانیاں دینا چاہتے ہیں۔ جو سبزی اور پھل لینے کے لئے بچت بازار کا رخ کرتا ہو اور جو عام گھریلو خواتین کی طرح ہر مہینے نہیں، ہر سال نہیں کبھی ہی پارلر کا رخ کرتا ہو، جو دوکاندار سے اس سال کے نئے پرنٹس پہ اصرار کرنے کے بجائے پچھلے سال کے پرانے پرنٹس بھی لے لیتا ہو کہ وہ سستے ملیں گے۔ میں ایسے بچوں کی معاشی حالت میں کیا بہتری لا سکتی ہوں۔
واپسی میں جب میں سگنل پہ رکی تو وہاں گیارہ بچے موجود تھے۔ کسی کے ہاتھ میں وائپر اور پانی کی چھوٹی سی بالٹی موجود تھی کہ گاڑیوں کے شیشے صاف کرنے ہیں اور کوئ یونہی پھر رہا تھآ کہ کوئ بھیک دے دے۔ لوگ انکے ہاتھوں پہ چند سکے رکھ کر آگے بڑھ گئے۔ میں اس گیارہ سالہ لڑکی کو گاڑی کا شیشہ صاف کرنے سے منع کر دیتی ہوں۔ باجی شیشہ نہ صاف کرواءو، کچھ پیسے ہی دے دو۔ مگر گداگری ایک لعنت ہے۔ یہ انسان میں سے عزت نفس ختم کر کے انہیں تن آسان بنا دیتی ہے۔ پھر یہ لوگ معاشرے کی ترقی میں کام آنے کے بجائے بوجھ بن جاتے ہیں۔ میں اپنے ہاتھ اور کان سختی سے بند کر دیتی ہوں۔
ملک بھر میں ان بچوں کی ، ان لاوارث اور بے گھر بچوں کی تعداد لاکھوں میں پہنچتی ہے۔ صرف شہر کراچی میں ایسے بچوں کی تعداد ایک محتاط اندازے کے مطابق پندرہ ہزار سے زائد ہے۔ یہ گھروں سے بھاگے ہوئے بچے، غریب والدین کی عدم توجہ کا شکار ہوتے ہیں۔ اور اسکی بنیادی وجہ والدین کے معاشی حالات کا درست نہ ہونا ہوتا ہے جس کی وجہ سے وہ اپنے بچوں کے ساتھ انسانیت سوز سلوک کرتے ہیں جنکی لاتعداد کہانیاں ہمارے اطراف میں پھیلی ہوئ ہیں۔
یہ بچے ان گینگز کے ہتھے لگ جاتے ہیں جو ان سے بہت کم پیسوں کے عیوض ہر کام کراتے ہیں۔ اس میں لوگوں کی جنسی ہوس پورا کرنے کا کام بھی ہے۔ ایک سروےکے مطابق ان میں سے اسی فی صد بچے تیرہ سے اٹھارہ سال کے، پندرہ فی صد نو سے بارہ سال کے اور تقریباً چھ فی صد آٹھ سال تک کے بچے شامل ہیں۔ ان بچوں میں سے نوے فی صد مختلف اقسام کی نشہ آور اشیاء استعمال کرتے ہیں اور اسی سے نوے فی صد بچے جنسی زیادتی کا شکار ہوتے ہیں۔
صرف بے گھر بچے ہی نہیں، بلکہ اکثر اوقات یہ بچے اپنے خاندانوں کے ساتھ بھیک مانگتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ ماں باپ، اپنے نو زائیدہ بچوں کو بھی اس مقصد کے لئے استعمال کر لیتے ہیں۔
میں محسوس کرتی ہوں کہ یہ حکومت کی ذمہ داری ہے کہ وہ ان بچوں کی فلاح و بہبود کے لئے کچھ کرے۔ یوں میں وہاں سے اندرونی طور پہ مطمئن، کسی طرح جان چھڑا کر بھاگنے میں کامیاب ہو جاتی ہوں۔
گھر واپس آتی ہوں وہ بچہ وہیں بیٹھا ہے۔ اسے اندازہ تھا۔ میں کتنی دیر میں واپس آءونگی۔۔ وہ پھر وہی بات کہتا ہے مجھ سے کام کروالو۔ میں اس سے کہتی ہوں کہ نہیں پاکستان میں چائلڈ لیبر کا قانون موجود ہے اسکی رو سے اگر میں نے تم سے گھر کے باہر کے پتے اٹھوائے تو یہ جرم ہوگا۔ تمہاری عمر اٹھارہ سال سے کم ہے اور تم اس قانون میں آتے ہو۔ میں نے صبح سے ناشتہ نہیں کیا۔ تو میں تمہیں اپنے گھر کا بچا کھچا ناشتہ آج کے دن کے لئے دے سکتی ہوں۔ کل کا وعدہ نہیں کرتی جو پہلے آئے گا وہ لے لے گا۔ باجی میں بہت اچھی صفائ کرونگا اور سب کوڑا اٹھا کر کچرا کنڈی تک پھینک آءونگا۔ کچرا ، یہاں روزانہ جمعدار آتا ہے۔ یہاں تو کوئ کچرا نہیں ہے۔ یہ جو درخت کے گرے ہوئے پتے ہیں یہ جمعدار کل لے جائے گا ۔ میں تم سے کوئ کام نہیں کروا سکتی۔
اچھا سنو نادر، یہی نام بتایا تھآ ناں تم نے تمہارے بہن بھائ کتنے ہیں۔ چھ ہیں ایک مجھ سے بڑا ہے باقی سب چھوٹے ہیں۔ ابا کیا کرتا ہے۔ کام کرتا ہے وہ اپنے پیسوں کا کیا کرتا ہے۔ وہ دادی کی آنکھیں بنانے کے لئے پیسہ جمع کر رہا ہے دادی پنجاب میں رہتی ہے۔ مجھے شبہ ہوا ابا جھوٹ بولتا ہے وہ اس سے نشہ پانی کرتا ہوگا۔ اماں کیا کرتی ہے۔ وہ بنگلوں میں جھاڑو پونچھے کا کام کرتی ہے۔ اب اصولی طورپہ تو جیسا کہ فیشن میں ہے مجھے اس سے یہ پوچھنا چاہئیے تھا کہ تم اسکول کیوں نہیں جاتے، کیا تمہارا اسکول جانے کو دل نہیں چاہتا، جب تمہیں روٹی نہیں ملتی تو کیک کیوں نہیں کھاتے۔
رات کے کھانے کا وقت ہو رہا تھا۔ میں اپنی بچی کو سلا کر فارغ ہوتی ہوں اور اب باقی لوگوں کے لئے کھانا لگا رہی ہوں کہ پھر بیل بجی۔ رابعہ گھر جا چکی تھی ورنہ ڈور بیل وہ چیک کر لیتی ہے۔
ایک پندرہ سولہ سال کی بچی اتنا کام کر سکتی ہے۔ میں پلیٹس ٹیبل پہ رکھ کر جلدی سے اسے چیک کرتی ہوں۔ باجی صفائ کر والو۔ صبح سے کچھ نہیں کھایا۔ آخر یہ بچہ میرے ہی ایمان کی آزمائش لینے کے پیچھے کیوں پڑ گیا ہے۔ یہ ان لوگوں کو کیوں نہیں ملتا۔ جو ذہنی نا بالغوں کو بالغ بنا رہے ہیں۔ میں جھلا جاتی ہوں۔ اور سوچتی ہوں کہ اسے کچھ روپے بھیک میں دے دوں ان پیسوں میں سے جو میری پرانی ماسی نذیراں کا حصہ ہیں۔ تاکہ وہ آج رات کا کھانا کھالے۔ کل کا اللہ مالک ہے کسی اور کے پیچھے پڑ کر لے لے گا۔ ورنہ وہی کرے گا جو روڈز پہ پھرنے والے بے گھر بچے کرتے ہیں۔
نذیراں ڈیڑھ سال سے چھاتی اور رحم کے کینسر میں مبتلا ہے۔ اور اسی طرح اپنے پرانے لوگوں سے پیسے جمع کر کے ایک خیراتی ہسپتال سے علاج کروا رہی ہے۔ ہسپتال والے مفت علاج تو کرتے ہیں مگر دوا کے پیسے نہیں دیتے۔ وہ عمران خآن کے ہسپتال سے بھی علاج نہیں کروا سکتی۔ بالکل مفت تو وہاں بھی نہیں ہوتا اور پھر لاہور شہر میں رہنے کا خرچہ کہاں سے لائے گی۔ مگر ٹہریں میں پہلے اس بچے سے نبٹ آءووں یہ مسلسل بیل بجا رہا ہے۔ حکومت کچھ نہیں کرتی،ہمارے لئے اور جو کچھ کر سکتے ہیں انکا ضروری کام تو عصمت چغتائ اور بانو قدسیہ کے نقش قدم پہ چل کے 'اصل حقائق' پیش کرنا ہے۔
آپ میں سے کچھ کو یہ اتنا اچھا نہیں لگے گا۔ اس میں ، میں نے ان بچوں کے ساتھ ہونے والی جنسی زیادتی کی تفصیلات جو نہیں دی ہیں۔
لیکن میں سوچتی ہوں یہ میرے ناول کے لئے یا کہانی کے لئے ایک اچھا انداز ہو سکتا ہے۔ بجائے میری عوامی پوسٹ کے۔ آپ کیا خیال کرتے ہیں۔