Showing posts with label ویکسینیشن. Show all posts
Showing posts with label ویکسینیشن. Show all posts

Monday, September 24, 2012

ریبیز اور اسکا عالمی دن

ایک عام خیال یہ ہے کہ ریبیز نامی بیماری صرف کتے کے کاٹنے سے ہوتی ہے۔ لیکن اور بھی بہت سے گرم خون والے جانور ہیں جن سے یہ بیماری ہو سکتی ہے۔ ان میں  گھوڑے، بندر، لومڑی، رکون، نیولا، بھیڑیا، بلیاں، خرگوش اور چمگادڑ بھی اس فہرست میں شامل ہیں۔ جی ہاں انکے کاٹنے سے بھی انسان ریبیز کا شکار ہو سکتا ہے۔ ریبیز ایسا مرض ہے جو ریبیز سے متائثر جانوروں سے انسان میں منتقل ہوتا ہے۔ اسکے جراثیم جانور کے تھوک میں یا اعصاب میں ہوتے ہیں۔ انسان سے انسان میں اگرچہ یہ ممکن نہیں لیکن ٹرانسپلانٹ سرجری کے بعد بعض لوگوں میں ریکارڈ کیا گیا۔ یعنی ایک ریبیز سے متائثر شخص کا کوئ عضو اگر غیر متائثر شخص کو لگا دیں تو اسے ہو سکتی ہے۔


اس طرح،  پہلے جانور کو ریبیز ہوتی ہے اور پھر وہ اس قابل ہوتا ہے کہ انسان میں منتقل کر سکے۔ اس لئے ہر کتے کے کاٹنے سے ریبیز نہیں ہوتا بلکہ صرف اس کتے کے کاٹنے سے ہوتا ہے جو اس مرض میں مبتلا ہو۔
اس مرض کا پہلا دستاویزی ثبوت، دو سو قبل از مسیح میں ملتا ہے۔ جہاں ایک کتے کے کاٹے سے مرض کی علامات ظاہر ہوئیں۔  اٹھرہویں صدی سے پہلے تحقیق کے لئے جانور کی زبان کاٹ کر محفوظ کر لی جاتی تھی۔ یہ بعد میں معلوم ہوا کہ درحقیقت اسکے جراثیم دماغی خلیات میں ہوتے ہیں زبان میں نہیں۔
دنیا بھر میں ہر سال تقریباً پچپن ہزار امواتیں ریبیز کی وجہ سے ہوتی ہیں۔ جنکی اکثریت ایشیاء اور افریقہ سے تعلق رکھتی ہے۔ ستانوے فی صد ریبیز کے کیسز ، کتے کے کاٹنے کی وجہ سے ہوتے ہیں۔
ریبیز لاطینی زبان کا لفظ ہے جسکا مطلب ہے پاگل پن۔ کیونکہ یہ مرض جب اپنی انتہائ حالت پر پہنچتا ہے تو مریض جنونی حرکتیں کرنے لگتا ہے اسکی وجہ یہ ہے کہ اس مرض کا وائرس دماغ پہ اثر انداز ہوتا ہے اور اس میں سوجن پیدا کر دیتا ہے۔ مرض جب اس شدت پہ پہنچ جائے تو مریض چند دنوں کے اندر ختم ہوجاتا ہے۔
یہ وائرس دماغی اعصاب کے ذریعے سفر کرتا ہوا دماغ تک پہنچتا ہے۔ یوں کاٹے جانے والے مقام سے فاصلے کی بنیاد پہ اس مرض کے ظاہر ہونے میں اتنا وقت لگتا ہے۔ یہ مقام جتنا دماغ سے قریب ہوگا اور جتنا زیادہ کاٹنے کا زخم گہرا اور بڑا ہوگا اتنا جلد مرض کی علامتیں ظاہر ہوتی ہیں۔ اور اس طرح چند دنوں سے لیکر چند مہینوں میں مرض کی علامتیں ظاہر ہو سکتی ہیں۔
مرض ظاہر ہونے کی کم سے کم مدت چار دن اور زیادہ سے زیادہ مدت چھ سال ریکارڈ کی جا چکی ہے۔
علامتیں  ظاہر ہونےسے پہلے اگر حفاظتی ٹیکے لے لئے جائیں تو مرض میں مبتلا ہونے کے امکانات ختم ہوجاتے ہیں  وائرس کے دماغ میں پہنچ جانے کی صورت میں یا علامات ظاہر ہونے کے بعد یہ ٹیکے یا کوئ اور دوا کام نہیں کرتی۔

مرض کی علامات؛
مرض کی ابتدائ علامات میں پہلے مرحلے میں، طبیعت گری سی محسوس ہوتی ہے۔ سر درد اور بخار ہو جاتا ہے آہستہ درد ہونا شروع ہوتا ہے، دوسرے مرحلے میں مریض اشتعال میں آجاتا ہے، غیر معمولی جوش، تناءو اور پانی کا خوف بھی ظاہر ہونے لگتا ہے۔ جانور ہونے کی صورت میں وہ ذرا سی حرکت میں اتنا اشتعال میں آسکتا ہے کہ کاٹ لے۔  مریض عجیب و غریب حرکتیں شروع کر دیتا ہے۔ تیسرے مرحلے میں، فالج کا اثر ہو سکتا ہے۔ پاگل پن کی علامتوں کے ساتھ مریض کومے میں چلا جاتا ہے۔ علامات ظاہر ہونے کے دو سے چند دن کے اندر موت واقع ہوجاتی ہے۔ موت عام طور سے اعضائے تنفس کے کام چھوڑ دینے کی وجہ سے ہوتی ہے۔

بچاءو؛
 ریبیز سے محفوظ رہنے کے لئے، ریبیز پیدا کرنے والے جانور کے کاٹنے کے فوراً بعد ٹیکے لگوانا ضروری ہیں۔ ریبیز کا موئثر بچاءو یہ ٹیکے ہیں اگر ایک دفعہ علامات ظاہر ہوجائیں تو مریض کو بچانا ممکن نہیں رہتا۔
اگرچہ یہ کہا جاتا ہے کہ جانور کو پکڑ کر اس میں بیماری تشخیص کی جائے اگر وہ ریبیز کا شکار نہیں ہے تو ٹیکے لگوانے کی ضرورت نہیں ہوتی۔ لیکن عام طور پہ کتے کے کاٹے کے واقعات آوارہ کتوں کے ہوتے ہیں جو کاٹنے کے بعد بھاگ جاتے ہیں اور انہیں ڈھونڈھ نکالنا آسان نہیں ہوتا۔ اگر یہ کوئ پالتو کتا ہے اور اسکی ویکسینیشن باقاعدہ ہوتی  ہے تو پھر ریبیز کے امکانات نہیں ہوتے۔
اٹھارہ سو پچاس میں ریبیز سے بچاءو کے ٹیکے وجود میں آئے۔ لوئ پاسچر اور ایمائل روکس کے سر اسکی دریافت کا سہرا جاتا ہے۔  یہ ویکسین متائچرہ جانور کے دماغی خلیات سے بنائ گئ تھی۔ انیس سو سڑسٹھ میں  جدید ویکسین وجود میں آئ۔ یہ نہ صرف سستی ثابت ہوئ بلکہ بنانے کا طریقہ بھی آسان تھا۔  ترقی یافتہ ممالک میں پالتو کتوں کے لئے ویکسینیشن ضروری ہے اس طرح امریکہ میں اب پالتو کتوں کی وجہ سے ریبیز عموماً نہیں ہوتی بلکہ اسکے ہونے کی بنیادی وجہ چمگادڑیں ہیں۔
بچاءو کے لئے جسب ذیل طریقے اختیار کئے جائیں۔
پالتو جانوروں مثلاً کتے، گھوڑے، خرگوش اور بلیوں کی ویکسینیشن کرائ جائے۔
گھریلو جانوروں پہ نظر رکھی جائے کہ وہ کس طرح کا رویہ رکھتے ہیں۔
آوارہ پھرنے والے جانوروں سے دور رہا جائے اور انہیں چھونے سے گریز کیا جائے۔
پاگل کتا نظر آنے کی صورت میں فوراً انتظامیہ کو اطلاع دی جائے۔
اگر ریبیز پیدا کرنے والے جانور کاٹ لیں تو زخم کو فوراً صابن ملے پانی سے اچھی طرح پانچ منٹ تک دھوئیں تاکہ زیادہ سے زیادہ جراثیم دھل جائیں اور جسم میں داخل نہ ہو سکیں۔ اگر ٹنکچر آئیوڈین یا الکوحل موجود ہو تو اس سے بھی دھو لیجئیے۔ جسم کے سوراخوں جیسے منہ اور ناک کے نتھنے اور آنکھوں کو بھی اچھی طرح پانی سے دھو لیں۔   ڈاکٹر سے فوری رجوع کریں۔
کتے کے کاٹنے کے فوراً بعد بچاءو کے لئے ٹیکے لگوانے چاہئیں۔ پہلے  جو ٹیکے استعمال کئے جاتے تھے وہ عام طور پہ چودہ دن تک مسلسل لگانے پڑتے تھے وہ بھی پیٹ میں۔ پیٹ میں موجود چربی کی موٹی تہہ اس ٹیکے کو جسم میں کنٹرولڈ مقدار میں داخل ہونے دیتی تھی۔  لیکن اب زیادہ مءوثر ٹیکے موجود ہیں جنہیں پیٹ میں نہیں لگانا پڑتا بلکہ بازو پہ لگاتے ہیں اور نہ روزانہ بلکہ چودہ دن میں چار دفعہ لگایا جاتا ہے۔ البتہ یہ کہ پیٹ میں لگانے والے ٹیکے سستے پڑتے ہیں۔

 علاج؛
کیا ریبیز ہو جانے کے بعد اسکا علاج ممکن ہے؟
ریبیز کے علاج کے لئے کوششیں اور تحقیق  جاری ہے۔ اس سلسلے میں پروٹوکول ترتیب دیا گیا جسکے نتائج حوصلہ افزاء ہیں لیکن واقعی کامیاب نہیں۔ اس طریقے سے اب تک چند افراد کو بچایا جا چکا ہے۔ اس سلسلے میں پہلا کیس ایک بچی کا تھا۔ جین گیز نامی اس بچی کو سن دو ہزار چار میں ایک چمگادڑ نے انگلی پہ معمولی سا کاٹ لیا تھا۔ جسے اس وقت صاف ستھرا کر کے چھوڑ دیا گیا کہ معمولی سا زخم ہے۔ تقریبا ایک مہینے بعد جینا میں بیماری کی علاتیں ظاہر ہونا شروع ہوئیں۔ اسے ہسپتال لے جایا گیا جہاں ڈاکٹڑ اسکے اعصابی رد عمل کو دیکھ کر پریشان تھے کہ معمولی بخار سے ایسا کیسے ہو سکتا ہے۔ پھر اسکے گھر والوں کو خیا آیا کہ اسے کچھ دن پہلے چمگادڑ نے کاٹ لیا تھا۔ جینا گیز ریبیز کا شکار ہو چکی تھِ اور اب ٹیکے کا استعمال اسے بچا نہیں سکتا تھا۔ اس لئے ڈاکٹرز نے خاندان والوں کی اجازت سے جینا کو کچھ عرصے کے لئے بے ہوش کر دیا یعنی اسے کومے والی صورت میں لے گئے جہاں دماغ کام کرنا بند کر دیتا ہے اس طرح دماغی خلیات کو تباہ ہونے سے بچایا جا سکتا ہے اسکے بعد جینا کو اینٹی وائرل دوائیں دے کر اسکے جسم کو اس قابل بنایا گیا کہ وہ قدرتی طور پہ ریبیز کے خلاف اینٹی باڈیز بنا سکے۔ چند دنوں کے بعد جب جسم میں اینٹی باڈیز بننے کا عمل شروع ہو گیا تو جینا کو کومے سے واپس لایا گیا۔
جینا کو مکمل طور پہ صحت یاب ہونے میں لمبا عرصہ لگا لیکن وہ اب زندگی کی تمام سرگرمیوں میں حصہ لے سکتی ہے سوائے چند ایک کے۔ یہ پروٹوکول  مل واکی پروٹوکول کہلاتا ہے۔ اب تک چار افراد اس طریق علاج سے بچائے جا چکے ہیں۔ ابھی اس پہ تحقیق جاری ہے کہ کیا واقعی اس پروٹووکول سے ہی مریض بچے یا انکے بچنے کی وجوہات کچھ اور ہیں۔

دنیا بھر میں ریبیز سے آگہی کا عالمی دن اٹھائیس ستمبر کو منایا جاتا ہے۔  اس حوالے سے یہ تحریر معلومات عامہ کے لئے ہے۔
 
   

Friday, July 23, 2010

معالج

ڈاکٹر محبوب میرے ساس سسر کے یونیورسٹی کے زمانے کے  دوست ہیں۔  نظریاتی طور پہ بائیں بازو سے قربت رکھنے والے۔  شادی کے بعد میری ان سے جان پہچان ہوئ اور میری بیٹی کی پیدائش کے بعد وہ میرے بھی دوست بن گئے کیونکہ وہ بچوں کے معالج یعنی ایک پیڈیئٹریشن ہیں۔ وہ  بچوں کے ایسے ڈاکٹر ہیں کہ والدین  کچھ عرصے میں خود اپنا کلینک چلانے لگ جائیں۔ میرے کیس میں دوا کے اجزاء تک بھی بتا دیتے  اور موڈ آف ایکشن بھی۔  پچھتر سال سے زائد  عمر اور ریٹائر ہوئے عرصہ ہوا، مگر اب بھی اپنے کلینک  جاتے ہیں اور خاصی کم فیس میں اپنے مریضوں کا علاج کرتے ہیں۔ ہر مریض اپنی پوری توجہ حاصل کرتا ہے اور تربیت بھی۔   اتنا زیادہ کہ اکثر لائن میں لگے بوریت ہوا کرتی کہ کیا کرتے رہتے ہیں وہ مریضوں کے ساتھ۔
وہ اگرچہ ہمارے خاندان کے اتنے ہی دوست ہیں کہ دوست کم رشتےدار زیادہ لگتے ہیں۔ لیکن میں انکے کلینک پہ اپنی باری کا انتظار کرتی ہوں۔ نہ میں نے ان سے اس تعلق کی وجہ سے کوئ آسانی چاہی اور نہ انہوں نے کبھی آفر کی کہ پہلے مجھے بلا لیا جائے۔
ایک دفعہ ، انکی ملک سے غیر موجودگی میں مجھے اپنی بچی کو کراچی کے مشہور پرائیویٹ ہسپتال کے مشہور پیڈیئٹریشن کے پاس لے جانا پڑا۔  ڈاکٹر کے کمرے میں ایک ساتھ تین والدین اور انکے چار بچوں نے وہ افراتفری مچائ کہ وہ ہمیں بمشکل پانچ منٹ دے پائے۔ جلدی سے ایک اینٹی بائیوٹک لکھی اور ہماری چھٹی ہو گئ۔ اس دن بحیثیت ڈاکٹر انکی خوبیاں زیادہ سامنے آئیں۔
ڈاکٹر محبوب کو اندازہ ہے کہ مجھے اینٹی بائیوٹک دینا پسند نہیں۔ اس لئیے پہلےدو تین دن انتظار میں رکھتے اور پھر جب لکھتے تو اچھی طرح بتا دیتے کہ اب دینا کیوں ضروری ہے۔ ایک دفعہ میری بچی کا سینہ خاصہ جکڑا ہوا تھا اور بخار ایک سودو، عمر دو مہینے ، اتفاقاً گھر کے تمام لوگ ملک یا شہر سے باہر تھے۔ ساری رات وہ مجھے فون کر کے اپ ڈیٹ لیتے رہے۔ انہیں سخت ٹینشن تھی کہ کہیں اسے نمونیا نہ ہو جائے، ہسپتال میں نہ داخل کرانا پڑ جائے، ایسی صورت میں، میں اکیلے کیا کرونگی۔   اگلے دن گھر پہ حاضر۔ 
ایسے حالات میں جب گھر پہ کوئ نہ ہو تو وہ اسکی ویکسینیشن بھی کچھ دنوں کے لئے ملتوی کر دیتے۔ بخار ہو گیا اسے تو کہاں اکیلی سنبھالتی پھروگی۔ حالانکہ میں انہیں اتنا یقین دلاتی کہ باقی لوگ ہوں تو بھی سنبھالنا تو مجھی کو ہوگا۔ لیکن ایک 'نہیں'۔ میری بیٹی  کی دیکھ بھال میں وہ میرے بہترین رفیق رہے۔
ایکدم چست، توانا اور مصروف، لیکن ہفتے بھر پہلے اطلاع ملی کہ انہیں پھیپھڑوں کا کینسر ہو گیا ہے۔ ہم سب کو صدمہ ہوا۔ انکی بیگم اور بچے سب ہی مختلف میدانوں کے ڈاکٹر ہیں۔ چالیس سال سے برٹش قومیت رکھنے کے باوجود پاکستان میں ہی رہتے رہے۔ وہ تو شوکت خانم ہسپتال کے لئے روانہ ہو رہے تھے کہ سب نے زور دیا ، مزید علاج کے لئے اب جلد سے جلد لندن چلے جائیں، آسانی رہے گی۔
تین دن پہلے وہ چلے گئے۔ بیگم محبوب کی بیمار والدہ یہاں اکیلی ہیں ۔ وہ اپنے والدین کی اکلوتی اولاد ہیں سو اس سفر پہ انکے ساتھ  اپنی نوے سالہ بیمار ماں کی وجہ سے نہ جا سکیں۔  ایک غیر یقینی سفر کے لئے خدا حافظ کہہ کر آئیں تو دل گرفتہ کہنے لگیں کہ پینتالیس سال سے زیادہ ہو گئے ہماری شادی کو دو دفعہ محبوب کو روتے دیکھا۔ ایک ڈھاکہ فال کے وقت اور دوسرے آج ائیر پورٹ پہ۔