ڈاکٹر محبوب میرے ساس سسر کے یونیورسٹی کے زمانے کے دوست ہیں۔ نظریاتی طور پہ بائیں بازو سے قربت رکھنے والے۔ شادی کے بعد میری ان سے جان پہچان ہوئ اور میری بیٹی کی پیدائش کے بعد وہ میرے بھی دوست بن گئے کیونکہ وہ بچوں کے معالج یعنی ایک پیڈیئٹریشن ہیں۔ وہ بچوں کے ایسے ڈاکٹر ہیں کہ والدین کچھ عرصے میں خود اپنا کلینک چلانے لگ جائیں۔ میرے کیس میں دوا کے اجزاء تک بھی بتا دیتے اور موڈ آف ایکشن بھی۔ پچھتر سال سے زائد عمر اور ریٹائر ہوئے عرصہ ہوا، مگر اب بھی اپنے کلینک جاتے ہیں اور خاصی کم فیس میں اپنے مریضوں کا علاج کرتے ہیں۔ ہر مریض اپنی پوری توجہ حاصل کرتا ہے اور تربیت بھی۔ اتنا زیادہ کہ اکثر لائن میں لگے بوریت ہوا کرتی کہ کیا کرتے رہتے ہیں وہ مریضوں کے ساتھ۔
وہ اگرچہ ہمارے خاندان کے اتنے ہی دوست ہیں کہ دوست کم رشتےدار زیادہ لگتے ہیں۔ لیکن میں انکے کلینک پہ اپنی باری کا انتظار کرتی ہوں۔ نہ میں نے ان سے اس تعلق کی وجہ سے کوئ آسانی چاہی اور نہ انہوں نے کبھی آفر کی کہ پہلے مجھے بلا لیا جائے۔
ایک دفعہ ، انکی ملک سے غیر موجودگی میں مجھے اپنی بچی کو کراچی کے مشہور پرائیویٹ ہسپتال کے مشہور پیڈیئٹریشن کے پاس لے جانا پڑا۔ ڈاکٹر کے کمرے میں ایک ساتھ تین والدین اور انکے چار بچوں نے وہ افراتفری مچائ کہ وہ ہمیں بمشکل پانچ منٹ دے پائے۔ جلدی سے ایک اینٹی بائیوٹک لکھی اور ہماری چھٹی ہو گئ۔ اس دن بحیثیت ڈاکٹر انکی خوبیاں زیادہ سامنے آئیں۔
ڈاکٹر محبوب کو اندازہ ہے کہ مجھے اینٹی بائیوٹک دینا پسند نہیں۔ اس لئیے پہلےدو تین دن انتظار میں رکھتے اور پھر جب لکھتے تو اچھی طرح بتا دیتے کہ اب دینا کیوں ضروری ہے۔ ایک دفعہ میری بچی کا سینہ خاصہ جکڑا ہوا تھا اور بخار ایک سودو، عمر دو مہینے ، اتفاقاً گھر کے تمام لوگ ملک یا شہر سے باہر تھے۔ ساری رات وہ مجھے فون کر کے اپ ڈیٹ لیتے رہے۔ انہیں سخت ٹینشن تھی کہ کہیں اسے نمونیا نہ ہو جائے، ہسپتال میں نہ داخل کرانا پڑ جائے، ایسی صورت میں، میں اکیلے کیا کرونگی۔ اگلے دن گھر پہ حاضر۔
ایسے حالات میں جب گھر پہ کوئ نہ ہو تو وہ اسکی ویکسینیشن بھی کچھ دنوں کے لئے ملتوی کر دیتے۔ بخار ہو گیا اسے تو کہاں اکیلی سنبھالتی پھروگی۔ حالانکہ میں انہیں اتنا یقین دلاتی کہ باقی لوگ ہوں تو بھی سنبھالنا تو مجھی کو ہوگا۔ لیکن ایک 'نہیں'۔ میری بیٹی کی دیکھ بھال میں وہ میرے بہترین رفیق رہے۔
ایکدم چست، توانا اور مصروف، لیکن ہفتے بھر پہلے اطلاع ملی کہ انہیں پھیپھڑوں کا کینسر ہو گیا ہے۔ ہم سب کو صدمہ ہوا۔ انکی بیگم اور بچے سب ہی مختلف میدانوں کے ڈاکٹر ہیں۔ چالیس سال سے برٹش قومیت رکھنے کے باوجود پاکستان میں ہی رہتے رہے۔ وہ تو شوکت خانم ہسپتال کے لئے روانہ ہو رہے تھے کہ سب نے زور دیا ، مزید علاج کے لئے اب جلد سے جلد لندن چلے جائیں، آسانی رہے گی۔
تین دن پہلے وہ چلے گئے۔ بیگم محبوب کی بیمار والدہ یہاں اکیلی ہیں ۔ وہ اپنے والدین کی اکلوتی اولاد ہیں سو اس سفر پہ انکے ساتھ اپنی نوے سالہ بیمار ماں کی وجہ سے نہ جا سکیں۔ ایک غیر یقینی سفر کے لئے خدا حافظ کہہ کر آئیں تو دل گرفتہ کہنے لگیں کہ پینتالیس سال سے زیادہ ہو گئے ہماری شادی کو دو دفعہ محبوب کو روتے دیکھا۔ ایک ڈھاکہ فال کے وقت اور دوسرے آج ائیر پورٹ پہ۔
الله کریم ڈاکٹر صاحب کو صحت کاملہ عطا کرے اور انکو بیگم کو صبر دے
ReplyDeleteاچھے اور سچے لوگ ایسے ہی ہوتے ہیں
غالبا ایسے لوگوں کے لئے ہی لفظ مسیحا استعمال ہوتا ہے ۔ اللہ ان کی حفاظت کرے
ReplyDeleteبہت اچھا سو انشاء ہے--
ReplyDeleteاللہ تعالی انہیں اپنی رحمت کاملہ سے شفائے کاملہ وعاجلہ عطا فرمائیں آمین یا رب العالمین
ReplyDeleteاللہ کریم انھیں صحت کاملہ سے نوازے۔
ReplyDeleteآمین
اللہ تعالی انہیں شفائے کاملہ وعاجلہ عطا فرمائیں آمین
ReplyDeleteالله تعالی ڈاکٹر صاحب کو صحت کاملہ عاجلہ عطا کرے
ReplyDeleteڈاکٹر صاحب کو صحت کاملہ عطا کرے اور انکو بیگم کو صبر دے
ReplyDeleteاللہ ان کی حفاظت کرے
السلام علیکم ورحمۃ وبرکاتہ،
ReplyDeleteاللہ تعالی ڈاکٹرصاحب کوصحت کاملہ عاجلہ دے۔ آمین ثم آمین
والسلام
جاویداقبال
عنیقہ آپنے شعیب صفدر کی سیاسی لطیفے والی پوسٹ پر یہ تبصرہ کیا تھا،
ReplyDeleteاے این پی والے بھی کسی سے ڈرتے ہیں۔ حیرانی ہوئ یہ سن کر۔ یہ لطیفہ نہیں، کراچی میں پھیلے تعصب کی اعلی مثال ہے۔ اور جو اسے گردش میں رکھے ہوئے ہیں انکی اپنی عصبیت کی۔
جس کے بعد میرے کیئے ہوئے تبصرے ان حضرت نے ڈلیٹ کردیئے کیوں کہ انہیں سچائی ہضم نہیں ہوتی سو آپکی پوسٹ پرلکھ رہا ہوں
عنیقہ آپ کن لوگوں کو آئینہ دکھارہی ہیں ان کی عصبیت کا اندازہ اس بات سے ہی لگالیں کہ کراچی میں قتل و غارت ہورہی ہے اور یہ اسے انجوائے کررہے ہیں اس پر جوک بنارہے ہیں،اصل کراچی کے دشمن یہی لوگ ہیں جو اسے پھلتا پھولتا دیکھنا ہی نہیں چاہتے کراچی میں اچھا ہو تو یہ اپنی آنکھیں بندکر لیتے ہیں اور برا ہو تو یہ اس طرح اچھل اچھل کر شور مچاتے ہیں جیسے ان کی دلی مراد برآئی ہو،
اور یہ جو روزانہ پنجاب سرحد سندھ اور بلوچستان میں بے شمار لوگ ذاتی دشمنیوں پر قتل کیئے جاتے ہیں یہ بھی ایم کیو ایم والے ہی کرتے ہوں گے؟؟؟؟؟
پنجاب سے جعلی ڈگریوں کی لائن لگی ہے مگرزور کس پر ہے عامر لیاقت پر،
لاہور کی سڑکوں پرکشتیاں چل رہی ہیں مگر نہ بزرگوں کو نظر آرہی ہیں نہ جوانوں کو اور کراچی کی سڑکوں پر ایک انچ بھی پانی کھڑا ہوجائے تو وہ اودھم مچتا ہے کہ الاماں الحفیظ،
اس کے علاوہ میڈیا کے خلاف قرارداد کا متن والی پوسٹ پر
ان کے اس تبصرے کے بعد میرا یہ تبصرہ تھا جس میں موجود سچایک بار پھرانہیں ہضم نہیں ہوا سو مٹا دیا گیا،
شعیب صفدر said...
7/24/2010 10:45:00 PM
ہا ہا ہا! بس انتا۔۔۔۔۔۔
تیری بات نے دی مجھے یہ خبر
ہر بات کا ہے تجھ پر الٹا اثر
عبداللہ کا جواب
اگر نون لیگ کے ارکان غلط کام کریں تو وہ انکا انفرادی معاملہ ہے نون لیگ بے قصور ہے!
اگرایم کیو ایم کے لوگ کچھ غلط کریں تو یہ ان کی پارٹی پالیسی ہے اور ساراقصور ایم کیو ایم کا ہے!
پھربھی ہربات کا الٹا اثرکا الزام مجھ پر ؟
گھر بیٹھ کر جھوٹا رواں تبصرہ آپ کریں دوسروں کی کردار کشی کے لیئے گندی اور جھوٹی تصویریں اور مووی آپ لگائیں ،پھر بھی غلط میں؟
ہاں بھائی صحیح ہے جن کا موٹو ہی
چت بھی میری پٹ بھی میری اور اٹا میرے باپ کا، ان سے کیا بحث!!!!!!!!!!!!!!!!
عبداللہ، آپ نے یہ تبصرہ یہاں لکھا کہ انہوں نے آپکا تبصرہ ڈیلیٹ کر دیا۔ اگرچہ اس میں مجھے تو ایسی کوئ بات نظر نہیں آئ کہ ڈیلیٹ کر دیا جائے۔ بہر حال انکا بلاگ ہے وہ جیسے چاہیں اسے چلائیں۔ لیکن آپکو انکی اس پوسٹ کا لنک ضرور ڈال دینا چاہئیے تھا۔ تاکہ کوئ پڑھنے والا اس پہ جا سکے۔
ReplyDeletehttp://pensive-man.blogspot.com/2010/07/blog-post_25.html#comments
ReplyDeletehttp://pensive-man.blogspot.com/2010/07/blog-post_16.html
عبدل اللہ صاحب اس کو تو جی منافقت ہی کہتے ھیں ،،
ReplyDeleteمزے کی بات یہ دیکھے ،،،
بد تہذیب تبصرے حذف کر دیئے جائیں گے ،،
تلخابہ ،،، ( جماعت اسلامی کے کارکن )
چلو اس سے ثابت ہوا کہ ایک دہشت گرد دوسرے دہشت گرد اور کمینے سے بھی ڈرتا ہے‘ شاید ایک دوسرے کو اچھی طرح جاننے کی وجہ سے۔
بس جناب کیا کہا جائے،کوئی منافقت سی منافقت ہے اور کوئی تعصب سا تعصب ہے!!!!!!!
ReplyDeleteشرم انکو مگر نہیں آتی!!!!!!
ReplyDelete:(
او بہنا جی یہاں سے میرا وہ تبصرہ کدھر غائب ہوا جو میں نے کل لکھا تھا۔ عبداللہ صاحب آپ کے غم کا علاج یہ ہے ایک عدد اپنا بلاگ بنالیں اور اسکا ٹائیٹل رکھیں، "حق پرست بلاگ" وہاں سے آپ کی تحریر کو کوئی نہیں ہٹائے گا۔
ReplyDeleteکاشف نصیر صاحب، آپکا وہ تبصرہ میرے میل اکاءونٹ میں تو ہے مگر یہاں نمعلوم کس لئے نہیں آیا۔ میں اسے کاپی کئے دیتی ہوں۔ مبادا آپ سمجھیں کہ یہ میں نے عبداللہ کے حق میں ہٹا دیا۔
ReplyDeleteعبداللہ صاحب آپکا غم واقعی قابل غور ہے۔ آپکو چاہئے کہ اپنے خیالات کے اظہار کے لئے اس ایک بلاگ بنالیں وہاں سے آُپکے تحریر شدہ خیالات کوئی نہیں مٹائے گا۔
ٹارگیٹ کلنک میں ایم کیو ایم اور اے این پی دونوں ملوث ہیں۔ اب صف ایم کیو ایم کو لعنت ملامت کرنا درست نہیں، شاہی سید بھی کم بدمعاش نہیں۔ اگر برا کہنا ہے تو سارے برے کو برا کہو، صرف تعصب کی بنیاد پر کسی کو برا کہنا درست نہیں۔
کاشف نصیر تم سے یہ کس نے کہا کہ مجھے اس بات کا غم ہے بلکہ مجھے تو خوشی ہے کہ کم سے کم منافقوں کی منافقت سامنے آرہی ہے!!!!!!
ReplyDeleteمیں بلاگ بناؤں یا نہ بناؤں یہ میرا ذاتی مسئلہ ہے تمھیں اس حوالے سے پریشان ہونے کی ضرورت نہیں ہے!!!!
جو ٹارگٹ کلنگ پر بغلیں بجارہے ہیں وہ ہیں اس کے اصل مجرم جنہوں نے ہمیشہ اپنے دشمنوں کو مروانے کے لیئے پٹھانوں کو استعمال کیا ہے،اردو بولنے والا مرے یا پٹھان ان کے لیئے دونوں کا مرنا خوشی کا باعث ہوتا ہے کہ ہر دو صورت انکا دشمن مرتا ہے!
ٹارگٹ کلنگ میں کون ملوث ہے اس کا فیصلہ بھی تم اپنے پاس ہی رکھو کیونکہ عدالتی کمیشن بن گیا ہے جب تک اس کی رپورٹ سامنے نہ آجائے آپ اپنی عقلمندیاں نہ بگھاریں تو بہتر ہوگا!!!!