میں بنکاک ایئر پورٹ پہ جب اتری تووہاں سے تھائ لینڈ کے شہر پھوکٹ جانے والی پرواز میں ابھی چار گھنٹے باقی تھے۔ میرے ساتھ ایک پاکستانی دوست فیملی بھی تھی۔ ہم ایئر پورٹ پہ ونڈو شاپنگ کرنے لگے۔ یعنی چیزیں دیکھ دیکھ کر انکی تصوراتی خریداری سے دل بہلانا۔ چاہے جیب میں دھیلا نہ ہو۔ میرا دل تو دنیا کی بیشتر چیزوں سے اسی طرح بہل کر بھر گیا۔ ہم ٹہلتے ہوئے ایک دوکان میں داخل ہوئے جہاں سچے موتیوں کے زیورات تھے۔ لیکن ہمارے ساتھ موجود خاتون جو میری والدہ کی عمر کی ہونگیں۔ انکی نظریں، سیلز پرسن کے چہرے سے چپک گئیں۔ پھر وہ سرگوشی میں بولیں۔ ائے کیسا ملک ہے۔ یہاں ہیجڑے بھی کام کرتے ہیں۔ انکے لہجے میں ایک کراہیت تھی۔ تو کیا ہوا، اچھی بات ہے کچھ تو کرتے ہیں ہمارے یہاں کی طرح جسم فروشی اور بھیک مانگنے کا کام تو نہیں کرتے۔ یہ دوسرا جملہ میں نے دل میں سوچا۔ بآواز بلند کہتی تو لبرل ہونے کا طعنہ ملتا۔
پھوکٹ میں ایکدن ہمیں اتنا وقت ملا کہ پھوکٹ کے نزدیک واقع پی پی آئلینڈ کا بوٹ ٹرپ لے لیا۔ یہ ٹرپ بہت زیادہ مزے کا تھا۔ لیکن ہماری بڑی خاتون جیسے ہی بوٹ میں داخل ہوئیں ایک دفعہ پھر جھٹکے سے دو چار ہوئیں کہ ٹرپ کا گائڈ یا لیڈر ایک ہیجڑا تھا۔ وہ اسی طرح وقفے وقفے سے ناز ا ادا دکحا کر اور کبھی سنجیدہ ہو کر ہم سب کی توجہ اپنی طرف رکھے رہا۔
جب ہم سب سمندر میں مچھلیوں کو کھانا کھلاتے سینکڑوں مچھلیوں کو اچھلتے کودتے دیکھ رہے تھے ہماری بزرگ خاتون اس گائڈ کے اوپر نظر رکھی بیٹھی رہیں۔ جب ہم سمندر میں آڑی ترچھی اسنارکلنگ کی کوششیں کر رہے تھے اور مشعل یہ ثابت کرنے کے لئے کہ وہ کتنی اچھی تیراک ہیں اپنے دونوں ہاتھوں کو جوڑتیں اور سمندر میں چھلانگ لگانے سے قبل ہم سب کوڈانٹ کر توجہ چاہتیں ہماری بزرگ خاتون ریتیلے ساحل پہ پڑے ہجوم میں اس گائڈ کو تلاش کر رہی ہوتیں۔
حتی کہ پاکستان واپس آکر بھی انہیں یاد آتا رہا کہ تھائ لینڈ کتنا عجیب ملک ہے وہاں ہیجڑے بھی کام کرتے ہیں۔
چار دن پہلے میں اپنے گھر کے نزدیک لگنے والے بچت بازار گئ۔ یہ ہفتے میں تین دن لگتا ہے اور میں یہاں سے پورے ہفتے کی سبزیاں اور پھل لے لیتی ہوں۔ یہاں افغانی بچے پھرتے رہتے ہیں جنکی عمریں پانچ سال سے لیکر چودہ پندرہ سال تک ہوتی ہیں۔ چھوٹے بچے پلاسٹک کی تھیلیاں بیچتے ہیں اور ذرا بڑے بچے سامان بھی اٹھا لیتے ہیں۔ غربت کی سطح اتنی بڑھ چکی ہے کہ جب میں ان میں سے کسی مناسب عمر کے بچے کوسامان اٹھانے میں مدد کے لئے ڈھونڈھ رہی ہوتی ہوں تو چھ سات سال کے بچے بھی سامان اٹھانے کے لئے منتیں کر رہے ہوتے ہیں۔
بہر حال ، ایک بچے نےمجھے ڈھونڈ لیا کہ ہر ہفتے جاتی ہوں۔ اور باقی بچوں کو مجھ سے دور کر دیا۔
خریداری کے بعد جب میں اسکے ساتھ سامان رکھنے میں مصروف تھی تو وہاں پہ ایک ہیجڑا آگیا۔ اور پیسے مانگنے لگا۔ بازار میں آجکل ایسے چار پانچ ہیجڑے پھرتے رہتے ہیں۔ پھر اس نے اپنا سبق شروع کر دیا۔ اللہ تیرے صاحب کو اور دے۔ خدا تجھے چاند سا بیٹا دے۔ اللہ تیری خوشیوں کو قائم رکھے۔ ہم غریبوں کو ہمارا حق دیتی جا۔ میں نے معاف کرنے کا کہا اور خاموشی سے سنی ان سنی کر کے اس بچے کے ساتھ مصروف رہی۔ پھر وہ کہنے لگا کہ روپے دو روپے دینے میں تمہاری دولت کم نہیں ہو جائے گی۔ ہماری تو زندگی ہی تم لوگوں کی خیرات سے ہے۔ تب میں نے اس سے کہا کہ کیوں ہے تمہاری زندگی ہماری خیرات سے۔ اس بچے کو دیکھا تم نے بمشکل دس گیارہ سال کا ہے میرے ساتھ سامان اٹھا کر بازار سے گاڑی تک اٹھا کر لایا ہے۔ آخر تم میں اس سے زیادہ طاقت ہے۔ تم کیوں نہیں سامان اٹھانے کا کام شروع کر دیتے۔ میں اس بچے کو پچیس روپے دیتی ہوں۔ وہی تمہیں دے دونگی۔ ارے میں اپنی چھوٹی بہن کے صدقے، ہم ہیجڑوں میں کہاں طاقت ہوتی ہے۔ یہی تو رونا ہے کہ ہم میں طاقت نہیں ہوتی۔ خدا نے تو ہمیں خالی ہی پیدا کر دیا ہے۔
مجھے تھائ لینڈ کا سیلزمین یاد آگیا جب وہ مجھے اپنے لمبے سنہرے کئے ہوئے بالوں سے ڈھکی گردن پہ سچےموتیوں کی مالا سجا کر دکھا رہا تھا۔ یا وہ گائڈ جو ہنس ہنس کر پورا دن ہمیں مصروف رکھے رہا۔ ان لوگوں میں کہاں سے طاقت آتی ہے۔
نوٹ؛ ان تصویروں میں، میں کہیں نہیں ہوں، البتہ یہ تصاویر میرے کیمرے کی ہیں۔
قصور مخنث کا نہیں۔ یہ ہمارا معاشرہ ہے جو انھیں جینے نہیں دیتا۔
ReplyDeleteنہ تو مجے آپ کا ٹائیٹل پسند آیا ہے نہ ہی آپ نتیجہ صحیح اخذ کرسکی ہیں۔
ReplyDeleteانتہائی اہم معاشرتی و سماجی عناصر تو آپ بالکل بھول گئیں۔
عثمان، نتیجے والی ہیڈنگ میں نے کہاں ڈالی ہے۔ جو آپ نے جلدی سے فرما دیا کہ آپ نے نتیجہ صحیح نہیں نکالا۔ نتیجہ نکالنے کا کام تو میں آجکل دوسروں پہ چھوڑ رہی ہوں۔ آپ نکالیں۔ مجھ سے تو اس ہیجڑے نے کہا وہ میں نے آپکو بتا دیا۔
ReplyDeleteانیقہ بہن آپ نے بہت اچھا لکھا ہے
ReplyDeleteآپکو شائد یہ بات معلوم نہ ہو کہ سرکاری طور پر بھی ہیجڑے پاکستان میں ملازمت کرنے کے اہل نہیں ہیں یا کم از کم نہیں تھے ۔ اس بات کا مجھے یوں پتہ ہے کہ ہمارے گاوں میں ایک عزیز بی بی نام کا ہیجڑہ تھا جو بعد میں محمد عزیز بن گیا ۔ جیسے کسی کے گھر میں ایسا بچہ پیدا ہو تو علاقہ کے دیگر ہیجڑے اسے مانگنے آ جاتے ہیں، اس کے والدین نے اسے ان کے حوالے نہیں کیا ۔
ReplyDeleteبعد میں وہ اسی نام سے سرکاری ملازم بھی بھرتی ہو گیا، لیکن کسی بدخواہ نے اس کے خلاف درخواست دے ڈالی کہ یہ مرد نہیں ہے اس لئے نوکری کا اہل نہیں ۔ مرد ثابت کرنے کے لئے اس نے ایک بیوہ خاتون بمعہ بچے سے شادی کر لی ۔ عقدہ یہ کھلا کہ عورت یا مرد کے علاوہ پاکستان میں سرکاری نوکری نہیں کر سکتے ۔ بلکہ حال ہی میں شائد ایسے لوگوں کے شناختی کارڈ بننا شروع ہوئے ہیں ۔
جس ملک میں ایسے قوانین ہوں، وہ کیسے کام کر سکتے ہیں؟ جہاں ہر جگہ قدرتی خامی کو وجہ بنا کر انہیں مذاق کا نشانہ بنایا جائے ۔
ویسے ہمارے ہاں ہیجڑے اور سنگاپور،امریکا میں جنہیں پاکستانی لوگ ہیجڑے سمجھتے ہیں، ان میں فرق ہے ۔ ہیجڑہ جسمانی کمی جبکہ گے ذہنی بیماری کا نام ہے، اللہ نے انہیں تمام اعضاء سے نوازا ہوتا ہے ۔ اور یہ میرا ذاتی نکتہ نظر ہے ۔
پاکستان میں یجڑے کو اگر کوئی نوکری پر رکھ لے تو لوگ سیٹھ صاحب کی ذات پر انگلیاں اٹھاتے ہیں ۔
ReplyDeleteAniqa, Please apnay blog per baynam tabsaray na honay dain
ReplyDeleteمغلوں کے دور میں ہیجڑے حرم میں ہوا کرتے تھے، کیونکہ ان شاہی خواتین کو کوئی خطرہ نہیں ہوتا تھا۔ ہمارے یہاں یہ ریت تب سے ہی چل رہی ہے۔کم از کم میرا یہ خیال ہے۔ کلچر بن گیا ہے نا۔ ورنہ تو ہیجڑوں کی گالیاں عورتوں والی اور گھسن مردوں والے ہوتے ہیں۔۔۔ ہی ہی ہی
ReplyDeleteThis comment has been removed by a blog administrator.
ReplyDeleteآپ نے بالکل صحیح جواب دیا اس کو۔۔ لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ ہمارے ہاں ایسے لوگوں کی پذیرائی نہیں کی جاتی بلکہ جو ان سے ذرا اچھے طریقے سے پیش آئے اس پہ انگلیاں اٹھائی جاتی ہیں، اس میں کچھ غلطی ان کی اپنی بھی ہوتی ہے۔۔ ہمارے محلے میں ایک ہیجڑے کا چائے کا ہوٹل ہے اور ایک کی بچوں کی ٹکی ٹافیوں کی دکان ہے۔۔ آخر ان میں بھی تو ’طاقت‘ ہے نا۔۔
ReplyDeleteچیف جسٹس افتخار محمد چوہدری نے ایک وکیل کی جانب سے داخل درخواست پر سولہ جون کو یہ حکم جاری کیا ہے کہ چاروں صوبوں کے سماجی بہبود کے محکمے خواجہ سراؤں کے بارے میں سروے کرکے ان کی رجسٹریشن کریں۔
ReplyDeleteخواجہ سراؤں نے سپریم کورٹ آف پاکستان کے چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کا خاص طور پر شکریہ ادا کیا۔
پاکستان میں آج بھی خواجہ سراؤں کو شہری ہی نہیں سمجھا جاتا۔
’جو حیثیت عام مرد کو یا عورت کی ہے یا جو انہیں سہولیات دستیاب ہیں وہ نہیں ہیں نہ ہی پرائیویٹ اداروں میں جگہ ہے جس کی وجہ سے خواجہ سرا ناچ گانے، بھیک مانگنے اور دوسرے کام کرنے پر مجبور ہیں۔‘
This comment has been removed by a blog administrator.
ReplyDeleteتاریخ میں خواجہ سرا جنگیں تک لڑتے رہے ہیں پتہ نہیں وہ کونسا لمحہ تھا جب انہیں معاشرے نے ناکارہ قرار دے دیا تھا ۔ ویسے کیا صرف جسمانی ساخت کا ہونا کسی کے مرد یا عورت ہونے کے لئے کافی ہوتا ہے یا اس کا تعلق دل و دماغ سے بھی سے بھی ہے؟
ReplyDeleteجہانزیب اشرف صاحب، آپ نے صحیح فرمایا کہ جب ملک میں ایسے امتیازی قوانین موجود ہوں تو پھر مختلف کمیونیٹیز بھی اپنے آپکو اس ماحول میں ڈھال لیتی ہیں جیسے ہیجڑے بھیک مناگنے لگے یا جسم فروشی کرنے لگے۔ حالانکہ انہیں قدرت نے جس معذوری کے ساتھ پیدا کیا وہ ایسی ہے کہ وہ بغیر کسی پریشانی کے اپنی ضروریات زندگی پوری کر سکیں۔ قدرت کی یہایک ستم ظریفی کم نہیں کہ دوسری انسانوں نے خود تخلیق کر ڈالی۔
ReplyDeleteگے ہونا تو ایک دماغی بیماری ہو سکتی ہے، مگر واضح طور پہ کسی جنس سے تعلق نہ ہونا ایک معذوری ہے۔
عثمان، میں نے اسکا ٹائٹل طاقت رکھا ہے۔ کیونکہ انسان ایک سماجی جانور ہے یعنی ایک دوسرے انسانوں کے ساتھ مل کر رہتا ہے۔ اپنے معاشروں کی تشکیل کرتا ہے۔ معاشرے میں مختلف وجوہات کی بناء پہ کچھ قوتوں کو زیادہ اثر، رسوخ، آزادی یا محیثیت مجموعی زیادی طاقت حاصل ہوتی ہے۔ جیسے ایک پدری نظام رکھنے والے معاشرے میں مرد کو زیادہ طاقت حاصل ہوتی ہے۔ طاقت کی یہ تقسم اس سماج میں پائے جانے والے قوانین اور رسم رواج سے ظاہر ہوتی ہے۔ مثلاً ایک عورت کے اگر بیٹے زیادہ ہیں تو اسے اس عورت پہ بروتری حاصل ہوتی ہے جسکے بیٹے نہیں ہیں۔ ایک مرد جو بانجھ ہے وہ معاشرے میں سر اٹھآ کر چلنے کے قابل نہیں رہتا۔ تو ان تمام رجحانات کو کس چیز سے طاقت ملتی ہے۔ ان قوانین، رسم و رواج یا عوامی سطح پہ پھیلے ہوئے توہمات وغیرہ سے۔ اسی کی زد میں ہیجڑے بھی آتے ہیں۔ لوگ انکی بد دعاءووں سے ڈرتے ہیں اور انہیں بھیک دیتے ہیں مگر لوگ اس چیز سے نہیں ڈرتے کہ انہوں نے اچھے خاصے انسانوں کو انسان ہونے کے درجے سے گرایا ہوا ہے۔ وہ کیسے طاقت حاصل کر سکتے ہیں؟
اگرچہ کہ اسکا یہ جملہ کچھ ایسے معنوں کی طرف بھی جاتا ہے جس سے کچھ لوگ حظ اٹھائیں لیکن مجھے یہی لگتا ہے کہ نسل در نسل چلنے والے ایک روئیے نے انہیں خود اپنے بارے میں کمزور بنادیا ہے۔
ریاض شاہد صاحب، ہمم میں بھی سوچ رہی ہوں کہ اسے تلاش کرنا چاہئیے۔ جیسا کہ نعیم ملک صاحب نے کہا کہ تاریخ میں مغلوں کے محل سراءووں میں انکا تذکرہ ملتا ہے۔ عابدہ سلطان کی سوانح عمری میں ترکی کے بادشاہ کے محل کا تذکرہ ہے جہان خواتین کا علاقہ شروع ہونے سے پہلے خواجہ سراءووں کا علاقہ آتا تھا، فی زمانہ سنا ہے کہ عرب شیخوں کے محل سراءووں میں بھی انکا اسی قسم کا کام ہے۔
لیکن یہ کہ والدین انکی پیدائش کے بعد اپنے پاس نہ رکھیں اور انہیں مہذب انسانوں کی بستی سے الگ جانوروں سے بھی بد تر حالات میں رہنا پڑے ایسا کیوں ہوا؟ اور کب ہوا؟
ریاض شاہد صاحب، یہ جو آپکا سوال ہے نفسیاتی طور پہ مرد یا عورت ہونا، میرا خیال ہے اس پہ ایک علیحدہ پوسٹ ہونی چاہئیے۔
ReplyDeleteالسلام علیکم ورحمۃو برکاتہ،
ReplyDeleteہمارےمعاشرےمیں ہجیڑوں کوواقعی تیسرےدرجےکاشہری کہہاجاتاہےبلکہ انکی کوئي عزت نہیں کی جاتی بلکہ حقارت سےدیکھاجاتاہےجبکہ یہ رب تعالی کی طرف سےہےلیکن ہم لوگوں نےان کوحقارت کانشان بنالیاہے۔ اللہ تعالی ہم کوسب سےمحبت کرنےکی ترغیب دےاوران ہیجڑوں کوبھی معاشرےمیں ایک مقام دے۔ آمین ثم آمین
والسلام
جاویداقبال
ایک بانجھ مرد یا ایک بانجھ عورت جسمانی طور پر اتنے معذور نہیں جتنے وہ سماجی طور پر بننا دیے جاتے ہیں۔
ReplyDeleteاس طرح ایک مخنث جسمانی طور پر شائد اتنا معذور نہیں جتنا وہ سماجی طور پر بننا دیا جاتا ہے۔
ایک اور بات۔۔
ReplyDelete"ہیجڑہ" ایک تحقیر آمیز لفظ ہے۔ صحیح لفظ مخنث ہے۔
ابھی پچھلے دنوں معلوم ہوا کہ ایک علاقے کے کچھ نیک اور بزرگ حضرات اپنے علاقے کے ہیجڑوں کی پناہ گاہ پر گئے اور اُنسے ملاقات کی۔ْ اور اُن سب کے سروں پر چادر ڈالتے ہوئے کہا کی آپ اِسی اُمت کی مسلمان بیٹیاں ہیں۔۔۔ خیر کافی لمبی بات ہے۔ وہ سب اتنے نازک دل کے تھے یا تھی کہ رونے لگے اور کہنے لگے کہ لوگ ہماری چادریں اُتارنیں آتے ہیں جبکہ آپ لوگ پہلے ہیں جنہوں نے ہمیں چادر اُڑھائی۔ اُن سب نے توبہ کر لی ہے اور اب اللہ کے احکامات کے مطابق زندگی بسر کر رہے یا رہی ہیں۔ اب اُنہوں نے اپنے ساتھ کافی اور ہیجڑوں کو بھی اکٹھا کر لیا ہے۔ اگر ہم انہیں اسی طرح انکا یہ مقام دیتے تو شاید ابھی وہ حالت نہ ہوتی جو ہے۔۔۔۔
ReplyDeleteعثمان، مخنث، عربی ماخذ کا لفظ ہے اور ہیجڑا ہندی ماخذ کا ہے۔ دونوں ہی صحیح الفاظ ہیں۔ ہیجڑا، جنوبی ایشیا میں ایک عام مستعمل لفظ ہے بمقابلہ مخنث کے۔ ہر ایک کو سمجھ میں آتا ہے۔ دونوں میں سے ایک بھی تذلیل کا لفظ نہیں ہے۔ اسکے علاوہ انہیں زنخا بھی کہا جاتا ہے۔ ہیجڑوں کے لئے تذلیل کے الفاظ، چھکا، ہش، یا اور دو الفاظ ہیں جو مجھے اس وقت یاد نہیں آرہے ہیں۔
ReplyDeleteریاض شاہد کاسوال زبردست ہے،
ReplyDeleteجسمانی ساخت سے زیادہ زہنی ساخت اہمیت رکھتی ہے،
ہر معاملے میں!!!!!
مگر کچھ لوگ جسمانی ساخت سے باہر ہی نہیں آتے کہ انہیں یہ بات سمجھ آسکے!!!
باقی جسے ہڈحرامی کی عادت پڑجائے محنت کر کے کھانا اس کے لیئے کسی قیامت سے کم نہیں ہوتا،
ویسے کچھ لوگ صرف دیکھنے میں مرد ہوتے ہیں ورنہ انکی حرکتیں مخنثوں سے کم نہیں ہوتیں!!!