پنجاب اسمبلی میں میڈیا کے خلاف قرار داد پاس ہوئ جس میں میڈیا کی مذمت کی گئ۔ پنجاب جو ہمارے ملک کی آبادی کا ساٹھ فی صد ہے۔ اس ساٹھ فی صد آبادی کے اقتدار میں موجود نمائندوں نے میڈیا کے روئیے کی مذمت کی ہے۔
کیوں؟
اس کی نمایاں وجوہات میں یہ کہ میڈیا نے جعلی ڈگریوں کے ضمن میں غیر ذمہ داری کا مظاہرہ کیا۔ میڈیا ، حکومت مخالف سرگرمیوں میں مصروف ہے جس سے جمہوریت کو خطرہ ہے۔ یہ جعلی ڈگریوں اور جمہوریت والا مسئلہ چونکہ عام لوگوں کو سمجھ میں نہیں آتا اور نہ یہ انکا 'روزمرہ' ہے۔ تو اس میں عوام کو بھی شامل رکھنے کے لئے ایک وجہ اور بیان کی گئ ہے وہ پارلیمنٹ کی خواتین کے حوالے سے میڈیا میں ایک فضول ویڈیو کی تشہیر، جو میں نے ابھی تک نہیں دیکھی۔
یہ اس پنجاب اسمبلی کی قرارداد مذمت ہے جس نے ایک آمر کی حکومت کو گرانے کے لئے میڈیا کی پیٹھ ٹھونکی۔ جس نے لال مسجد کو ایک سانحے میں تبدیل کرنے کے لئے میڈیا کو شاباش کہا۔ اور جس نے انتہا پسند گروہوں کو عوامی ہیرو بنانے میں میڈیا کے تعاون خیر پہ انہیں بھی جنت میں اپنے ساتھیوں میں شامل کہا ہوگا۔
آج پنجاب ، جبکہ سیاسی ماحول کے حساب سے ایک گرم صورت حال میں ہے۔ جناب نواز شریف اور شہباز شریف پہ الزام ہے کہ وہ انتہا پسند گروپوں کی حمایت حاصل کرنے اور انہیں تحفظ دینے میں سرگرم عمل ہیں۔ یہی نہیں بلکہ جھوٹی جعلی ڈگریوں کے بل بوتے پہ سیاسی طاقت حاصل کرنے والے، ملک کی تقدیر کا فیصلہ کرنے کے دعوے دار اور معاشرے کو عدل اور انصاف کی صبح نو کا پیغام دینے والے ہیں۔ یقیناً، میڈیا کو اس چیز کو بے نقاب کرنے اور اس پہ شور وغوغا کرنے پہ، مذمت کا سامنا کرنا چاہئیے۔
کیوں؟
اس لئے کہ اس سے جمہوریت کو نقصان پہنچتا ہے۔ اس جمہوریت کو جس کے نتیجے میں ہماری اسمبلیوں میں، ملک کے امیر ترین اشخاص اپنے غلیظ ترین ذہنوں کے ساتھ ہمارے مستقبل کا سہارا لے کراسکی لگامیں تھامتے ہیں۔ جب کہ انہیں یہ بھی معلوم نہیں ہوتا کہ ہمارا مستقبل انکے مستقبل سے کتنا الگ ہے۔ کیونکہ وہ اس خزانے پہ جسے ہمارے مستقبل کے تحفظ پہ خرچ ہونا چاہئیے۔ اپنی اور اپنی نسل کے مستقبل کی بقا کے لئے وقف سمجھتے ہیں۔ وہ سمجھتے ہیں کہ اس ملک کے عوام کا فرض ہے کہ وہ اس اقتدار کے مسند پہ براجمان گروہ کی حفاظت کے لئے اپنے مسائل بھول جائے اور اپنے وسائل ان پہ نچھاور کرتا رہے۔ جسکے نتیجے میں، نسل در نسل بادشاہی خاندان جنم لیتے ہیں۔ چند شاہی خاندان آپس میں حکومتی طاقت کو مل بانٹ کر استعمال کرنے کے عمل کو جمہوریت کا نام دیتے ہیں۔ اور جب انکی یہ پول پٹی کھلنے لگتی ہے تو لازماً اس سے اس جمہوریت کو نقصان پہنچتا ہے۔ ہر وہ عمل جس سے انکے اثر و رسوخ کو ذرہ برابر بھی نقصان پہنچے، وہ جمہوریت کی راہ میں حائل ہے۔
وہ تمام لوگ جو اس ملک میں عوام کی حاکمیت اعلی دیکھنا چاہتے ہیں۔ جو سمجھتے ہیں کہ جمہوریت اسکا نام ہے کہ عوام کی حکومت، عوام کے لئے عوام کے ذریعے سے۔ وہ سوال کرتے ہیں کہ کیا اس طرح طاقت کے سہارے پہ میڈیا سنسر ہونا چاہئیے؟ کیا کسی کو یہ حق ہونا چاہئیے کہ جب تک اسکے مفادات کے حق میں کوئ چیز جا رہی ہو تو وہ ہر غلط اور صحیح چیز کی حمایت کرتا رہے اور جب اسے اسی طرز عمل سے نقصان پہنچنے لگے تو وہ قرار داد مذمت پاس کرے؟ کیا ہمیں ایک ایسی جمہوریت کی حفاظت کی تگ و دو میں لگا رہنا چاہئیے جو تمام مجرمین کو، جھوٹے اور کرپٹ لوگوں ، نظام کو محض با اثر لوگوں کی بقاء اور انکی نسلوں کی فلاح کے لئے استعمال کرنے والوں کو تحفظ دینے کے لئے قوانین بناتا رہے؟
مجھ سے پوچھیں، جوتے پڑنے چاہئیے انہیں۔ ان سب کو۔ اور انہیں ان اسمبلیوں سے گندے انڈوں کی طرح نکال کر باہر پھینک دینا چاہئیے۔ انہیں وہاں ہم نے اپنے بچوں کا مستقبل بہتر بنانے کے لئے، اپنے مسائل کے حل کے لئے بھیجا ہے اور یہ ہمارا بنیادی حق ہونا چاہئیے کہ وہ اگر ہم سے جھوٹ بولتے ہیں، وہ اپنے ذاتی مفادات کو ہمارے مفادات پہ ترجیح دیتے ہیں، وہ حکومتی مصارف کو ادا کرنے کے لئے ہمارے ٹیکس کی صورت میں جمع کردہ چندے کو اپنی اور اپنے خاندانوں کی عیاشی پہ خرچ کر کے ہمیں دن بہ دن حقیر فقیر بنا کر ہمارا مذاق اڑانے پہ تلے ہوئے ہیں تو ہم اپنی طاقت استعمال کر سکتے ہیں۔ ہم ان سے کہہ سکتے ہیں۔ اب بہت ہو گیا، اب دفع ہو جاءو ہمیشہ کے لئے۔ جان چھوڑو ہماری، ورنہ-----------۔
بلکل درست فرمایا مگر بات وہی آتی ہے کے پہلا پتھر کون مارے گا
ReplyDeleteبقول شاعر" میںکس کے ہاتھ پر اپنا لہو تلاش کروں
تمام شہر نے پہنے ہوۓ ہیں دستانے "
میڈیا والے بلیک میلر ہیں سارے نہیں لیکن اکثریت انہی لوگوں پر مشتمل ہے
ReplyDeleteپیجاب اسمبلی کا حق ہے کہ وہ جو محسوس کریں اسے بیان کریں ۔ کیا آزادی سبھی کو نہیں ہے یا صرف میڈیا والے ہیں آزادی کا حق رکھتے ہیں۔
اس میڈیا کے لیے بدمعاش میڈیا کہیں تو غلط نہ ہوگا۔
تقریبا سارے ہی بکے ہوئے لوگ ہیں آپ کسی کا نام لیں جو بکا ہوا نہیں ہےایک آدھ سے کوئی فرق نہیں پڑنے والا
ایک وقت ایسا آنے والا ہے کہ صرف اور صرف میڈیا کی ہی حکومت ہوگی۔
یہی لوگ پہلے بھی حکومتوں کو گراتے تھے اب بھی ایسا ہی کرنے والے ہیں
یہ کیا بات ہوئی کہ چند لوگ بیتھ کر سیاسی جماعتوں کی برائیاں کریں ان کے بخیے ادھیڑ دیں اور جب ان کے خلاف کوئی بات کرے تو قیامت کا منظر بن جائے
کون سی بات غلط تھی جسے یہ میڈیا والے غلط کہہ رہے ہیں
ہم نے اس بدمعاش میڈیا کو جاپان میں بھی دیکھا کہ یہ ایسا ہی ھے۔لیکن حکمران پاکستان جیسے غلیظ نہیں ھیں۔اپنے مفاد کیلئے یہاں پر میڈیا پر پابندیاں نہیں لگائی جاتیں۔اگر جمہوریت ہے تو میڈیا کو آزادی تو ھوگی۔اگر میڈیا سے شکایت ھے تو یہاں پر حکمران بھی عدالت کی طرف ہی جاتے ہیں۔اور اس کے بعد پارلیمنٹ میں قانون بناتے ہیں۔پاکستان میں اگر سیاست کرنی ہے تو بدمعاشی پہلے آنی چاھئے۔جب بد معاش اور مفاد پرست طبقہ سیاست میں ھو گا تو ایسا ہی نتیجہ نکلے گا۔
ReplyDelete"ورنہ "
ReplyDeleteايک مخصوص صوبہ کے مزاج کو بڑی اچھی طرح پيش کيا ہے اور بنگاليوں سے ليکر بلوچيوں اور انکے درميان تمام قوميتوں کو بخوبی تجربہ ہے-
پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹس نے کہا ہے کہ قرارداد کا مقصد ذرائع ابلاغ کے کردار کو کمزور کرنا اور عوام کی توجہ اصل مسئلے سے ہٹانا ہے۔
ReplyDeleteمسلم لیگ نون کا کہنا ہے کہ یہ قرارداد ان کی پارٹی قیادت کا نہیں بلکہ بعض ارکان اسمبلی کا ذاتی فیصلہ تھا۔
عوامی مسلم لیگ کے سربراہ شیخ رشید کے مطابق نواز شریف برے صغیر کے واحد سیاستدان ہیں جو ملک میں تلخی اور گرمی کے وقت غیرملکی دورے پر چل پڑتے ہیں۔ تاہم مسلم لیگ کا کہنا ہے کہ نواز شریف اپنی اہلیہ کے سالانہ طبی چیک اپ کے لیے لندن جا رہے ہیں۔
Pornistan
ReplyDeleteNo. 1 Nation in Sexy Web Searches? Call it Pornistan
They may call it the "Land of the Pure," but Pakistan turns out to be anything but.
The Muslim country, which has banned content on at least 17 websites to block offensive and blasphemous material, is the world's leader in online searches for pornographic material, FoxNews.com has learned.
http://www.foxnews.com/world/2010/07/12/data-shows-pakistan-googling-pornographic-material/
عنیقہ صاحبہ
ReplyDeleteآپ کی بات سے اس سے زیادہ متفق نہیں ہوا جا سکتا ۔ پاکستان کی تاریخ میں پہلی دفعہ مقتدر حلقوں کو مزاحمت کا سامنا ہے اور ان کے معاشرے پر تسلط جمانے کے فرسودہ طریقے عوام کے سامنے بری طرح آشکار ہو رہے ہیں ۔
جعلی ڈگریوں والوں کے خلاف کارواٌئی هونی چاهئے مگر!!!
ReplyDeleteکیا کسی نے پیش هونے والی قرارداد پڑھی هے؟؟؟ اُس میں کس لائین میں جعلی ڈگریوں پر رپورٹنگ پر مذمت کی گٌی هے؟؟؟؟
عنیقہ صاحبہ میڈیا کا کردار کسی صحیح سمت کی طرف نہیں ہے صرف دکان سجائی جاتی تاکہ زیادہ سے زیادہ کاروبار چمکے ۔ چند روز تک ایک سچی کہانی بیان کرتا ہوں میڈیا کے کردار کے متعلق کیسے پہلے قلم اب کیمرے کاا ستعمال کیا جاتا ہے ۔
ReplyDeleteشعیب صفدر صاحب، یہ خبر اگرچہ ملک کے تمام اخبارات اور الیکٹرونک میڈیا پہ آئ۔ لیکن میں نے ڈان سے لی ہے اور ڈان سے منسلکہ اسکا لنک بھی دیا ہے۔ آپ اور مجھ سمیت تمام لوگ اصل دستاویزات نہیں بلکہ خبروں کے ذرائع سے ہی خبر حاصل کرتے ہیں۔ منسلکہ خبر میں جو نکات دئیے گئے ہیں میں نے انکا ٹرانسلیشن کر دیا ہے۔
ReplyDeleteاس قراداد کے اسمبلی میں پاس ہونے سے پہلے بھی مسلم لیگ نون کے رہنماءووں میں سے کسی کا بیان گذرا تھا کہ جعلی ڈگریوں کے ضمن میں میڈیا جس طرح چیزوں کو پیش کر رہا ہے اس سے اسمبلیاں خطرے میں پڑ جائیں گی۔
جیسا کہ یاسر صاحب نے کہا اگر میڈیا کے طرز عمل یا انکے پیش کردہ حقائق سے کسی کو انکار ہے تو اسے عدالت میں جانا چاہئیے۔ جیسا کہ حامد میر کے کیس میں ہوا۔ ہر دو فریق ایکدوسرے کو عدالتی کارروائ کی دھمکی دیتے رہے مگر کسی نے کچھ نہیں کیا۔ اس سے میں تو ایک ہی نتیجہ نکالرتی ہوں وہ یہ کہ معاملے میں کسی نہ کسی حد تک کہیں کوئ سچائ تھی اور یہ کسی ڈیل کے نتیجے میں منظر سے غائب ہو گیا۔
میڈیا کو کوئ اور نہیں سیاستداں اپنے مفادات کے لئے استعمال کرتے ہیں۔ ان میں سے بعض چینلز تو انکے پیسوں پہ کام کرتے ہیں۔ لیکن جب انکے مخالف چینلز اس جنگ میں انکے حامی چینلز کو پیچھے چھوڑ دیتے ہیں تو انہیں قرارداد مذمت پیش کرنے کی ضرورت ہوتی ہے۔ ابھی کل ہی کے ڈان میں نواز شریف کے حوالے سے خبر ہے کہ انہوں نے جمہوریت کی بحالی کے سلسلے میں میڈیا کی سابقہ سرگرمیوں کو سراہا۔ دیکھئیے گا۔
http://epaper.dawn.com/ArticleText.aspx?article=14_07_2010_001_008
صرف جعلی ڈگریوں کے خلاف کارروائ نہیں ہونی چاہئیے۔ بلکہ طاقت کے بل پہ غلط کو صحیح اور صحیح کو غلط ثابت کرنے والے روئیے کے خلاف بھی کارروائ ہونی چاہئیے۔
جعلی ڈگریوں کا مسئلہ بھی اس وجہ سے پیدا ہوتا ہے کہ ایک دفعہ آپ طاقت کے ستونوں میں شامل ہو جائیں، پھر دیکھا جائے گا۔ کس مائ کے لعل میں جراءت ہوگی کہ نکال سکے۔ اور ان میں تو ویسے ہی اخلاقی جراءت کا فقدان ہوتا ہے۔
ریاض شاہد صاحب، میڈیا کے اس دنگل میں عوام کو بہت کچھ پتہ چلا ہے۔ لیکن بات اب پتہ چلنے سے آگے بڑھنی چاہئیے۔
ارے کیا اب اعزازی ڈگریاں بھي پیسے دیکر لیجاتی ہیں ورنہ کونسی ایسی ڈگری ہے جسکو لینے کیلئے خرچا نہیں کرنا پڑتا ۔
ReplyDeleteجاہل سنکی، تو آپکا خیال ہے کہ جعلی ڈگریاں اعزازی ڈگریوں کی ضمن میں آنا چاہئیں۔
ReplyDeleteجی ہاں، آپ نے صحیح کہا، ہر ڈگری کے لئے پیسہ خرچ کرنا پڑتا ہے۔ مگر کچھ ڈگریاں لوگ یوں حاصل کرتے ہیں کہہر پرچے کے سوالات، حاصل کردہ نمبر اور رول نمبر تک یاد رہ جاتے ہیں اور کچھ ڈگری یافتگان کو اپنی یونیورسٹی یا کالج کا نام بھی یاد نہیں رہتا۔ اس سے انکی اصل قیمت کا اندازہ ہوتا ہے۔
Your reply to Mr Shoaib Safdar is not correct. Your post is based on views of the newspaper reporter and your biased opinion. Below, I have copied the news from the link given by you distinguishing the resolution from the view of the reporter.
ReplyDeleteVIEW OF THE REPORTER
LAHORE: The Punjab Assembly on Friday passed a resolution condemning the role of media and alleged it of ‘irresponsible behaviour’ amid the on-going fake degree controversy.
The resolution, forwarded by PML-Q MPA Sanaullah Mastikhel, was passed with full consensus of the house. It was met with a strong opposition by various journalists’ unions across the country, who vowed to boycott the proceedings of the National Assembly and all four provincial assemblies.
RESOLUTION
The resolution recommends that a joint committee, comprising members of the assembly and media representatives, be formed to resolve the differences between the two parties.
Local media has been held responsible for promoting anti-government propaganda that could destabilise Pakistan’s democratic future.
The resolution also condemned the dramatic coverage of assembly proceedings, where clips of female members of the house based on movie songs are played on several private news channels.
VIEW OF THE REPORTER
Members of the assembly have been criticizing the role of local media regarding the fake-degree saga. Several members of the Punjab assembly had been vocal in their opposition, which led to the unanimous vote on the resolution.
Reporters and other media persons covering the Punjab Assembly session chanted slogans against the Chief Minister of Punjab and the provincial government after the resolution was passed. Meanwhile several journalist unions vowed to discontinue coverage of provincial and national assembly sessions until the resolution was revoked. —DawnNews
اصل مسئلہ قراردادکا متن نہیں بلکہ وہ تقاریر تھیں جو پنجاب اسمبلی میں کی گئیں!
ReplyDeleteافتخار اجمل صاحب، آپ نے کس بنیاد پہ جانبداریت کا الزام لگایا ہے اس سے تو آپ ہی واقف ہونگے۔ لیکن جس پس منظر میں یہ قرارداد پیش کی گئ۔ کیا وہ کسی سے ڈھکی چھپی ہے۔ ملک میں خواتین کو برہنہ کر کے پھرایا جاتا ہے تب تو پارلیمنٹ میں کوئ قرارداد مذمت نہیں پیش ہوتی، فاضل جماعت کے نمائمدے جعلی ڈگریوں کے حامل افراد کی الیکشن مہم میں حصہ لیتے ہیں اور انہیں اپنی پارٹی کا ٹکٹ دیتے ہیں تب بھی کوئ قرارداد مذمت ایوان میں پیش نہیں ہوتی، ملک میں مڈ ٹڑم الیشن کی درپردہ ڈیمانڈ کو پیدا کرنے والے عناصر سے جمہوریت کو کوئ خطرہ نہیں ہوتا اور نہ انکے خلاف قراداد پیش ہوتی ہے۔ لیکن میڈیا کو کس ضمن میں قابل مذمت سمجھا جاتا ہے جب حکومتی ارکان کی اصلیت کھولی جاتی ہے۔ یہ قرارداد مذمت اس وقت پیش نہیں ہوتی جب انکی مخالف جماعتوں کے ارکان کا کچا چٹھا کھل رہا ہوتا ہے۔ لیکن یہ قرارداد مذمت اس وقت پیش ہوتی ہے جب یہ بات سامنے آ رہی ہوتی ہے کہ جعلی ڈگریوں کی ضمن میں مسلم لیگ نواز کا پلہ تمام سیاسی پارٹیوں میں سب سے بھاری ہے۔
ReplyDeleteاصل بات یہ نہیں ہے کہ آپ کیا کہہ رہے ہیں اصل بات یہ ہے کہ آپ کیوں کہہ رہے ہیں۔
آپکو جانبداریت اس لئے لگی کہ آپ یہ محسوس کرتے ہیں کہ یہ بات پنجاب کے خلاف ہے اور چونکہ آپکا تعلق وہاں سے ہے اس لئے یہ بات اگر میں نے کہی تو جانبداریت ہے یا آپ یہ تصور کرتے ہیں کہ یہ بات صرف مسل لیگ نون کے خلاف کہی جارہی ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ کسی بھی سیاسی پارٹی کے ارکان دودھ کے دھلے نہیں۔ لیکن پنجاب پاکستان کا سب سے بڑا صوبہ ہے اور اسکی آبادی پورے ملک کی آبادی کا ساٹھ فی صد ہے۔ باقی تین صوبوں میں ملک کی چالیس فی صد آبادی رہ رہی ہے۔ آج اکثریتی آبادی کتے ارکان بجائے معاملات کو صحیح کرنے کے محض اپنی طاقت کے بل پہ قرار داد مذمت پاس کرتے ہیں کل چھوٹے صوبے کے لوگ بھی یہی کریں گے۔ یعنی صحیح اور غلط کا معیار صرف یہ بات بنے گی کہ کون زیادہ طاقت رکھتا ہے۔
کل بلوچستان کے وزیر اعلی بھی میڈیا کو برا بھلا کہیں گے کہ میری یہ تقریر کیوں نشر کی گئ کہ ڈگری ، ڈگری ہوتی ہے چاہے اصلی ہو یا جعلی، ان دونوں میں کوئ فرق نہیں۔
زرداری کہیں گے۔ کہ میری کردار کشی کی جا رہی ہے، بابر اعوان کو اعتراض ہوگا کہ ہماری مٹی پلید ہو رہی ہے، جمشید دستی کہیں گے ہمیں برا کہا جا رہا ہے۔ شخصیات کی کردار کشی سے کیا مراد ہے؟
In Pakistan's Punjab, an Unconvincing Terror Crackdown
ReplyDeletehttp://www.time.com/time/world/article/0,8599,2003814,00.html
اب ایک اہم سوال ان تمام حضرات سے جنہیں میڈیا پر اعتراض ہے،
ReplyDeleteاگر یہ جعلی ڈگریاں نون لیگ کے بجائے متحدہ کے لوگوں کی ہوتیں تو کیا تب بھی آپ کے بلاگ اور تبصروں کا یہی لب و لہجہ اور یہی انداز ہوتا؟؟؟؟؟؟؟
عبداللہ، آپکا سوال دلچسپ ہے۔ میں اس میں ایک اضافہ کرنا چاہونگی کہ اگر یہ قرارداد سندھ اسمبلی میں متحدہ نے پیش کی ہوتی تو کیا تب بھی یہ لوگ یہی کہتے؟
ReplyDeleteHOPE YOU READ THE ANSWER OF MY QUESTION!!!!!
ReplyDelete:)