بنگلہ دیش کبھی پاکستان کا ہی حصہ تھا۔ اور آزادی کی جدو جہد دونوں حصوں کے لئے کی گئ اور دونوں ممالک کے لوگوں نے تاریخی طور پہ حصہ لیا۔ لیکن حالات ایسے رہے کہ مشرقی پاکستان انیس سو اکہتر میں بنگلہ دیش بن گیا۔ اور اس واقعے پہ مسرور اس وقت کی بھارتی رہ نما اندرا گاندھی نے اس دن کہا کہ آج کے دن نظریہ ء پاکستان کو خلیج بنگال میں ڈبو دیا گیا ہے۔
اسی بنگلہ دیش سے موصول حالیہ دو خبریں پاکستانی منظر نامے کے لئے اہم ہیں۔
پہلی خبر سیاسی پس منظر رکھتی ہے۔
مولانا مودودی صاحب کی تمام تصنیفات پہ بنگلہ دیش میں پابندی لگا دی گئ ہے۔
اور تقریباً چوبیس ہزار لائبریریوں کو حکم دیا گیا ہے کہ وہ انکی کتابیں ہٹادیں۔
وجہ یہ بتائ گئ ہے کہ انکی تصنیفات عسکریت پسندی اور دہشت گردی کی ترویج کرتی ہیں۔ اور یہ کہ انکے نظرئیے پہ چلنے والی جماعت حصول اقتدار کے لئے اسلام کا نام استعمال کرتی ہے۔ مزید تفصیلات کے لئے یہ لنک دیکھ سکتے ہیں۔
مولانا مودودی صاحب کی تمام تصنیفات پہ بنگلہ دیش میں پابندی لگا دی گئ ہے۔
اور تقریباً چوبیس ہزار لائبریریوں کو حکم دیا گیا ہے کہ وہ انکی کتابیں ہٹادیں۔
وجہ یہ بتائ گئ ہے کہ انکی تصنیفات عسکریت پسندی اور دہشت گردی کی ترویج کرتی ہیں۔ اور یہ کہ انکے نظرئیے پہ چلنے والی جماعت حصول اقتدار کے لئے اسلام کا نام استعمال کرتی ہے۔ مزید تفصیلات کے لئے یہ لنک دیکھ سکتے ہیں۔
یہاں یہ جاننا ضروری ہے کہ بنگلہ دیش بننے کے بعد نئے ملک نے اپنے آئین کو سیکولر رکھا کہ ملک میں غیر مسلموں کی خاصی بڑی تعداد موجود ہے۔ لیکن نئ مملکت بننے کے چالیس سال بعد اس پابندی کی کیا ضرورت آ پڑی؟ پچھلےپندرہ بیس سالوں میں بنگلہ دیش میں بھی انتہا پسندی میں خاصہ اضافہ ہوا ہے۔ اسکی وجہ؟
ایک اور اہم سوال، کیا اس قسم کی پابندیاں بنیادی حقائق کو تبدیل کرنے میں مددگار ثابت ہو سکتی ہیں؟
دوسری خبر، معاشرتی حالات سے متعلق ہے۔ اور وہ ہے بنگلہ دیش میں خواتین کو جنسی بنیاد پہ ہراساں کرنے کے واقعات میں شدت۔ اسکی وجہ سے خواتین میں خودکشی کا رجحان بہت زیادہ بڑھا ہے اور نہ صرف نو عمر لڑکیاں بلکہ انکے والدین بھی بدنامی کے خوف سے ایسا کرنے پہ مجبور ہو جاتے ہیں۔ اس سال اب تک بائیس لڑکیاں اس سلسلے میں خودکشی کر چکی ہیں۔
ایک رپورٹ کے مطابق اسی طرح کے واقعے میں ایک ٹین ایجر لڑکی کو پٹرول ڈال کر آگ لگا دی گئ۔ کیونکہ اس نے آگ لگانےنے والے کے بھیجے گئےشادی کے رشتے سے انکار کر دیا تھا۔ وہ لڑکی مر گئ یہ کہہ کر کہ اسے اس حالت تک پہنچانے والے کو ہر ممکن سزا دی جائے۔ یہ خبر ہم میں سے بیشتر کو سنی سنی سی لگے گی۔ صرف پٹرول کو تیزاب سے بدلنے کی ضرورت ہے۔
ایک خاتون وکیل کے بقول اس طرز عمل نے ہمارے لئے بے پناہ مشکلات کھڑی کر دی ہیں۔ ایک طرف یہ جارحانہ رویہ ہے اور دوسری طرف ان حالات میں والدین اور معاشرہ لڑکیوں میں ہی خامیاں نکالتا ہے اور انہیں مزید دباءو میں رکھتا ہے۔ مثلاً ہنسی کیوں تھیں۔ سر جھکا کر کیوں نہیں چلتیں، مردوں کے جارحانہ ردعمل کی وجہ خواتین کی لاپرواہی ہوتی ہے۔ یہ بھی آپکو سنا سنا سا لگے گا۔
ہمارے ساتھ آزادی حاصل کرنے والے تیسرے ملک کے حالات بھی اس سے مختلف نہیں۔
بھارتی فلموں کی آزاد روی سے الگ دہلی جیسے دارالحکومت میں کوئ خاتون رات کو آٹھ بجے کے بعد تنہا نہیں نکل سکتی۔ یہ بات میں نے ایک محفل میں ایک ایسی خاتون سے سنی جو کسی پروجیکٹ کے سلسلے میں دہلی گئ تھیں۔
ان حالات کو جان کر مجھے تو کراچی ایکدم جنت لگتا یے جہاں خواتین کی اکثریت تعلیمی اور پیشہ ورانہ سرگرمیوں سے وابستہ ہے روزانہ خواتین لاکھوں کی تعداد میں اپنے گھروں سے نکلتی ہیں اور اکثر بس اسٹاپس پہ خواتن تنہا کھڑے نظر آتی ہیں۔ اورعمومی طور پہ ایک ایسی ہراساں کر دینے والی صورت نہیں کہ ابا ، بھائ اور شوہر کے حفاظتی حصار کے بغیر کچھ نہ کیا سکے۔
لیکن بنگلہ دیش میں ہونے والے یہ واقعات ہمیں کیوں سنے سنے سے لگتے ہیں؟
پہلی بات تو یہ کہ آپ کو یہ نشاندہی کردینی تھی کہ وہ فائل اکانوے صفحات کی ہے. خوامخواہ لنک کھول کر ضائع کیا.
ReplyDeleteدوسرا یہ کہ شدت پسندی کئی عرب اور افریقی ممالک میں بھی بڑھ رہی ہے. میں نہیں سمجھتا کہ مولانا موددی کی کتابیں اس سلسلے میں کوئی شر انجام دے رہی ہے. یہ محض بات کا بتگڑ بنانے والی بات ہے. کہ اصل حقائق کو پس پشت ڈال کر مودا کسی لکھاری پر ڈال دیا جائے.
بنگلہ دیش میں کچھ عناصر جماعت اسلامی پر 1971 میں بنگلہ دیش کی آزادی کی جنگ میں پاکستان کی فوج کا ساتھ دینے کا الزام لگاتے ہیں۔,, بنگلہ دیش حکومت کا کہنا ہے کہ مولانا مودودی کی کتابیں اسلامی تعلیمات کی اصل روح کے منافی اور متنازع ہیں
ReplyDeleteسید ابوالاعلی مودودی کا پاکستانی سیاست میں بھی خاصا گہرا کردار تھا۔
بنگلہ دیش میں شیخ مجیب کی عوامی لیگ برسر اقتدار ہے اور ضیاء الرحمان کی بنگلہ دیش نیشل پارٹی اور اسکی اتحادی جماعت اسلامی حزب اختلاف میں ہے۔ بات دراصل یہ ہے کہ بنگلا دیش کی سیاست میں انتقام ایک بنیادی فلاسفی ہے اور آج کل بی این پی اور جماعت اسلامی بنگلادیش کو اسی انتقام کا نشانہ بنایا جارہا ہے۔
ReplyDeleteوگرنہ جماعت آج سے ستر سال پہلے قائم ہوئی تھی، اسے انتہا پسندی اور دہشت گردی کی موجودہ لہر کے ساتھ نتھی کرنا مارائے عقل ہے۔ پھر بنگلا دیش میں دہشت گردی اور انتہاپسندی کی کوئی ایسی صورت حال نہیں کہ اسطرح اتنہائی اقدام اٹھایا جاتا، عوامی لیگ نے ایک خالص ٹھیٹ سیاسی قدم اٹھایا ہے۔
دوسری بات یہ ہے کہ محترمہ آپ کبھی بنگلہ دیش نہیں گئیں، وہاں کے حالات بہت سے معاملوں میں پاکستان سے بہت بہتر ہے۔ جس طرح لوگ پاکستانی اخبار پڑھ کر یہ سمجھتے ہیں کہ یہاں ہر جگہ آگ لگی ہوئی ہے اسی طرح آپ صرف ایک خبر کی بنیاد پر پورے بنگلا دیش کے بارے میں ایک رائے قائم کر رہی ہیں۔ ہمیں ماننا پڑے گا کہ بنگلا دیش وسائل کی تمام تر کمیابی اور محتاجی کے باوجود معاشی طور پر پاکستان سے بہت پہتر ہے۔
میرے خیال سے یہ پابندی ای سیاسی پابندی ہے۔ کیوں کہ جماعت اسلامی حزب اختلاف کے ساتھ ہے اور انہیں مزید کمزور کرنے کے لیے جماعت اسلامی کو دبایا جا رہا ہے۔
ReplyDeleteمحترمہ ۔ ميں جماعت اسلامی ميں کبھی نہيں رہا مگر مودودی صاحب کی کئی کتابيں پڑھی ہيں ۔ يہ بے جا نہ ہو گا اگر ميں کہوں کہ آدھی صدی قبل دين اسلام کو درست طريقہ ميں سمجھنے کا آغاز ميں نے انہی کی کتابوں سے کيا کيونکہ اُس زمانہ ميں اُردو ميں عام فہم اسلامی کتب دستياب نہ تھيں ۔ تفہيم القرآن تو ساری دنيا ميں مستند مانی جاتی ہے ۔ مودودی صاحب کی کُتب اگر عام تعليم کيلئے استعمال کی جاتيں تو پاکستان ميں انتہاء پسندی جنم نہ ليتی ۔ ان کی اپنی طبيعت اتنی ٹھنڈی تھی کہ ذوالفقار علی بھٹو صاحب اُن کے پاس جانے کے بعد ان کی تعريف کئے بغير نہ رہ سکے تھے ۔ ان کی ايک کتاب کا ايک باب مرزا غلام احمد کو جھوٹا ثابت کرنے کے متعلق ہے جس ميں قرآن شريف اور حديث سے حوالے ديئے گئے ہيں ۔ اُس پر کئی بار اعتراض ہو چکا ہے مگر اُسے کوئی جھٹلا نہيں سکا
ReplyDeleteکراچی میں آنے والے غیر قانونی بنگالی تارکین وطن کی تعداد میں کوئی کمی آئی ہے کہ نہیں؟
ReplyDeleteتحریک پاکستان ایک تحریک کا نام ہے (جغرافیائی /لیسانی/تہذیبی طورسے دو حصہ) فال اف ڈھاکہ کی اصل جڑ بھٹو تھا-- باکیستاں کے انتخابات منضیفانہ ھوئے تھے-- مشرق سے مجیب الحمان کی پارٹی چیتی تھی اور مغربی پاکستان سے ولی خان کی پارٹی جیتی تھی دونوں حکومت بنانے کے موفق مین تھے -- لیکن بھٹو، فوج، اور تہذیبی منافرت نے قبول نہی کیا-- بھٹو ڈھاکہ کے چکر لگاتا رھا-- اخری دفعہ فیض احمد فیض کو ساتھ لے گیا اگر صح کو غلط کردین تو فیض گورنر اف مشرقی باکستان ھونگے (ڈھاکہ سے واپسی) لیکن نہی ھوا-- عوامی بغاوت ھوئی-- ایک ھندو عورت پی ام، مجوسی سپہ سالار، محاذ پر ایک سکھ کے سامنے بیانوے ھزار فوجی ھتیار ڈالے (ریکارڈ) اور باکستانیون کو دو ماہ تک اطلاّع نہی ھوی-- یہ تھی تحریک کے پرخچے خود پاکستان نے اڑاے
ReplyDeleteمودودی صاحب کی تصنیفات پر پابندی دراصل شدت پسندی کی جانب ایک انتہاءی قدم ہے۔۔ شدت پسندی جہالت کی کوکھ سے جن لیتی ہے اور معاشرتی ناانصافی اور غربت کی گود میں پرورش پاتی ہے اس کا عام طور پر لٹریچر سے لینا دینا کم ہی ہوتا ہے۔ یہ لٹریچر پڑھا کر نہیں لٹریچر لہرا کر پھیلاءی جاتی ہے۔۔۔ اگر مودودی صاحب کی تصنیفات سے شدت پسندی پھیل سکتی تو بنیادی طور پر ہر لٹریچر مذہبی و غیر مذہبی مکمل طور پر شدت پسندی کے فروغ کا سبب سمجھا جائے گا۔
ReplyDeleteآپ کی نظر سے غالبا یہ خبر نہیں گزری:
ReplyDeletehttp://www.dw-world.de/dw/article/0,,5780028,00.html
85% یعنی تقریبا ہر خاتون کو ہراساں کیا جا چکا ہے۔
ویسے اس لحاظ سے تو ترقی یافتہ ممالک بھی محفوط نہیں، یہاں تک کہ کینبرا جیسا پرسکون شہر اور اے این یو جیسی اعلی معیار کی جامعہ بھی۔ یہاں بڑی واضح ہدایات ہیں، خصوصا خواتین کو کہ وہ شام کے بعد اکیلی نہ نکلیں اور اگر مجبوری ہے تو سیکورٹی کو بلوا کر انکے ساتھ جائیں:
http://facilities.anu.edu.au/unisafe/index.php?pid=18
پاکستان اتنا بھی بھی برا نہیں، خصوصا جب دوسری جگہوں کے حالات پتہ ہوں تو۔
عثمان، اچھا پہلے بتادوں تاکہ لنک بھی نہ کھولیں آپ۔ ایسی کچی گولیاں نہیں کھیلی ہیں۔
ReplyDeleteاور یہ افریقی ممالک تو سنا تھا لیکن عرب ممالک کہاں سے آگئے۔
جیسا کہ راشد کامران صاحب نے کہا کہ غربت اور جہالت اسکی بنیادی وجوہات ہیں۔ تو یہ عفریت ان ممالک کو زیادہ متائثر کر رہی ہے جہاں یہ دونوں چیزیں با افراط ہیں۔
انتہا پسندی تو ہندوستان میں بھی آزادی کے بعد خوب پھلی پھولی اور غربت کی شرح وہاں کی کوئ ڈھکی چھپی نہیں۔
کاشف نصیر صاحب،لیکن ایک بات تو آپ تسلیم کریں کہ جماعت کی ابتدائ پالیسی اور پچھلے شاید چالیس سال کی پالیسی میں زمین آسمان کا فرق ہے۔ جماعت اگر سیاسی بنیادوں پہ قائم ہوتی تو انیس سو اکتالیس میں قائم ہونے والی اس جماعت کا تحریک پاکستان میں کوئ سیاسی کردار ہوتا۔
بنگالہ دیش میں انتہا پسندی بڑھ رہی ہے اسکا تذکرہ اس فائل میں بھی ہے جسے عثمان، اکانوے صفحے کا ہونے کی وجہ سے پڑھنے کو تیار نہیں۔ اسکے علاوہ انکے طرز عمل میں تبدیلی بھی اس وجہ سے نظر آتی ہے۔ بنگلہ دیش بننے سے پہلے میرے عزیز وہاں ملازمت کی غرض سے کافی عرصے رہے۔ اسکے علاوہ میرے دوستوں میں بھی بنگالی موجود ہیں۔ جو اس وقت بنگلہ دیش میں رہتے ہیں۔ اس لئے میں چیزوں سے اتنی لا علم نہیں۔
یہ آپ نے صحیح کہا کہ وہ معاشی سطح پہ ہم سے بہتر ہو گئے ہیں۔ آج سے شاید دس بارہ سال پہلے انکی کرنسی پاکستانی کرنسی سے کم مالیت کی تھی آج ہم سے بہتر ہے۔ اسکی دیگر بہت ساری وجوہات میں انکی ایکسپورٹ کی شرح بہتر ہونا بھی ہے۔ بالخصوص بنگالی پروڈکٹس کی لاگت پاکیستانی سے کم آتی ہے۔ مگر معیشت کا معاشرتی رویوں سے ایسا کوئ خاص تعلق ہے کیا۔ کیا خوش الحال لوگ مجرمانہ سرگرمیوں میں ملوث نہیں ہوتے، یا برائ کی طرف انکی دلچسپی کم ہوجاتی ہے؟
نومان، اسکا ایک انڈیکیٹر کراچی میں موجود بنگالی تارکین وطن کا اب آسانی سے کام کے لئے نہ ملنا بھی ہے۔ پہلے کراچی میں بنگالی گھریلو ملازمین بڑی تعداد میں ملتے تھے۔ اب صورت حال مختلف ہے۔ اب اگر ملتے بھی ہیں تو انکی ڈیمانڈ مقامی لوگوں کے مقابلے میں زیادہ ہوتی ہے۔ کچھ بنگالی لوگ واپس بنگلہ دیش گئے اور پھر نہیں آئے۔ ایک وجہ یہ بھی ہو سکتی ہے کہ پاکستان کے معاشی حالات پہلے سے خاصے ابتر ہو گئے ہیں۔ تو بظاہر یوں لگتا ہے کہ معاشی طور پہ وہ بہتر ہو رہے ہیں۔
زین صاحب، اب تک کی میری معلومات کے مطابق مغربی پاکستان سے بھٹو کی پارٹی جیتی تھی۔ انکے انتخابی نعرے روٹی ، کپڑا اور مکان نے مغربی پاکستانیوں کو مسحور کر دیا تھا۔ آپ شاید جلدی میں ولی خان لکھ گئے ہیں۔ یہ البتہ صحیح ہے کہ اس میں بھٹو اور فوج دونوں کا اپنا اپنا کردار رہا۔ بھٹو صاحب کی بھی اپنی ضد تھی کہ حاکم اعلی وہی بنیں گے۔
فیصل اگر بنگلہ دیش کے حوالے سے آپ کہہ رہے ہیں تو صحیح خبر جو نظر سے گذری وہ نوے فی صد خواتین کی ہے۔ لیکن اگر معمولی ہرایسمنٹ کو دیکھیں تو یہی شرح پاکستانی خواتین کی بھی ہوگی۔ تقریباً وہ تمام خواتین جو اپنے گھروں سے باہر نکلتی ہیں وہ کسی نہ کسی مرحلے پہ کم یا زیادہ اس ہراسمنٹ کا شکار ہوتی ہیں۔
اب اس میں ہماری وہ خواتین شامل نہیں ہیں جو اپنے گھروں سے باہر نہیں نکلتیں۔
ترقی یافتہ ممالک میں خواتین کو راہ چلتے ان سنگین حالات کا سامنا نہیں کرنا پڑتا جن سے پاکستان میں خواتین گذرتی ہیں۔ یہ نالگ بات کہ وہ حالات کو مکل طور پہ محفوظ بنانے کے لئے ایسے نوٹس جاری کریں ہمارے یہاں پہلے سے حفاظتی نوٹسز کا تصور نہیں ہے۔ ابھی حال ہی میں کراچی کے سب سے بڑے گورنمنٹ ہسپتال میں ایک نرس کے ساتھ جنسی زیادتی کے بعد اسے مارنے کی کوشش۔ کل ہی ایک چار سالہ بچی کو جنسی زیادتی کے بعد قتل کر دیا گیا اور اس سے تین دن پہلے بھی ایسا ہی واقعہ پیش آیا۔
لیکن بہر حال حالات اس نہج کے نہیں کہ چند مہینوں میں بائیس لڑکیاں خوف کی وجہ سے خود کشی کر لیں۔ کیا کینبرا میں لڑکیاں اس طرح خود کشی کرتی ہیں۔
اس حقیقت سے کوئی انکار کر ہی نہیں سکتا کے جماعت اسلامی کا بڑا ہی سنگین کردار رہا ھے بنگلھ دیش کی تکمیل کے وقت، الشمس البدر کے نام سے باقاعدہ ایک فورس بنائی تھی جماعت نے جس نے پاک فوج کے ساتھ ملکر برابر کی درندگی کی تھی بنگالیوں کے ساتھ، یھ تاثر بلکل غلط ھے کے بنگالی غدار تھے انھیں مجبور کیا گیا اس حد تک جانے پر، سب جانتے ہیں کے جماعت اسلامی پاک فوج کی رکھیل ھے سیاسی طوائف ھے اس وقت بھی تھی اور آج بھی ھے، ٣٠٠ نشستوں میں سے ایک سو سڑسٹھ سیٹیں مجیب نے جیتی تھیں پاکستان کے اصل غدار تو وہ سب لوگ تھے جنھوں نے اسکی اس برتری کو تسلیم نہیں کیا اسے پانچ سال کا اقتدار دینا منظور نھ ھوا اور آدھا پاکستان گنوانا منظور ھوگیا، کبھی کسی نے سوچا ھے کے جب مسلمانوں کی ایک جماعت مسلم لیگ موجود تھی تو جماعت اسلامی کے انیس سو چالیس میں بنانے کی ضرورت ہی کیوں پیش آئی؟ جماعت اسلامی تو بنی ہی اسلیئے تھی کے پاکستان نھ بن پائے تاریخ گواہ ھے کے جماعت نے پاکستان بنانے کی مخالفت کی تھی، قاعداعظم کو کافر اعظم کہنے والے لوگ یھ ہی تھے۔ یھ منافقوں کا ٹولھ ھے جس نے ہمیشھ فوجی حکومت کو سپورٹ بھی کی ھے اور قوم کو بیوقوف بنانے کے لیئے جمہوریت کا نعرہ بھی لگاتے رہے ہیں، ضیا الحق آمر تھا اسکی مجلس شوری میں کون لوگ تھے؟ جماعت اسلامی تھی، مشرف کو ایک طرف آمر کہھ کر قوم کو بہکاتے رہے اور بیک ڈور سے اسے سپورٹ کرتے رہے، مشرف کو وردی میں کس نے منتخب کروایا ؟ ایل ایف او پر مشرف کا ساتھ کس نے دیا ؟ پی سی او کی حمایت کس نے کی ؟ یھ سب جماعت اسلامی کے کارنامے ہیں ان سے برا منافق پاکستان کی تاریخ میں نھ کوئی آیا ھے اور نھ ہی آسکتا ھے، یھ سب مذہب فروش ہیں۔
ReplyDeleteکے سانحے میں افواج پاکستان کا ساتھ دیکر جماعت اسلامی نے جو فاش غلطی کی تھی اسکا ازالہ شاید کبھی ممکن نہ ہو۔ بنگالیوں مسلمانوں پر جو ظلم ہوا اس میں افواج پاکستان کے ساتھ جماعت نواز البدر اور الشمس کا بھی کچھ نہ کچھ کردار تو ضرور تھا۔ شاید آج چالیس سال بعد عوامی لیگ اس ہی غلطی کا بدلہ عوامی بار پھر لے رہی ہے۔ لیکن میرے خیال سے یہ بدلہ 1971 میں ہی چکایا جاچکا تھا۔ جب 16 دسمبر کے بعد مختی باہنی نے بدلے کی آگ میں ہر اس شخص کو خون میں نہلا دیا تھا جس کے بارے میں انہیں شک بھی ہوتا کہ وہ پاکستان کا ہمدرد ہے۔
ReplyDeleteعنیقہ صاحبہ بات یہ ہے کہ جماعت اسلامی اول روز سے ایک سیاسی جماعت تھی،ا لبتہ 1957 میں اس جماعت نے انتخابی سیاست میں بھی آنے کا فیصلہ کیا۔ اس فیصلے پر سب سے بڑی مخالفت خود جماعت میں ہوئی اور درحقیقت اس فیصلے کا سب سے بڑا نقصان بھی خود جماعت کو ہوا۔ امین احسن اصلاحی اور ڈاکڑ اسرار احمد جیسے جید لوگ جماعت سے الگ ہوگئے اور جماعت سیاسی اکھاڑے میں بد سے بد ہوتی چلی گئی۔ لیکن اسکے باوجود اس حقیقت سے کوئی انکار نہیں کرسکتا کہ آج بھی جماعت اسلامی ملک کی سب سے منظم و متحرک، شخصی اور خاندانی تسلک سے آزاد، لسانی شناخت اور تعصب سے پاک، فرقہ واریے اور مسلک کے بکھیڑوں سے صاف اور کرپشن کے الزامات سے مکمل طور پر مبرا جماعت ہے۔ جب 2002 میں سرحد میں ایم ایم اے کی حکومت بنی تو جے یو آئی پر کرپشن کے سنگین الزامات لگے لیکن جماعتی وزراء پر کوئی انگلی بھی نہ اٹھا سکا۔
جماعت کی پالیسیوں اور سید مدودی کے بعض نطریات سے البتہ مجھے بھی اختلاف ہے اور ایسا اختلاف رکھنا میرا حق ہے۔
سید مدودی کا معاملا الگ ہے، جب میں 17 اور 18 سال کا تھا تو میں نے انکی کتابیں پڑھنا شروع کیں، میری طبیعت میں ٹھراو اور برداشت کے کئی مدارج ان ہی کی تحریروں سے پیدا ہوئے۔ کیا لوگ نہیں جانتے کہ منصورہ میں سید مدودی کھڑے ہوتے تو جماعت کے جونئیر ترین لوگ ان سے اس طرح سوال کرتے جیسے جراح کر رہے ہوں، یہ انداز اور ایسی مجالس اس ملک میں صرف سید مدودی کے یہاں کے نظر آتی تھی۔ سید مدودی کی بعض تحریروں سے مجھے بھی اختلاف ہے، ممکن ہے انکے فہم دین میں بھی کچھ نقص ہو، لیکن ان کی تحریر اور دعوت میں براہ راست یا بلواسطہ شدت پسندی کا کوئی ایک بھی عنصر نہیں۔
تقریباً تین صدیوں تک تحقیق واجتہاد اورحریت فکرونظر اور آزادانہ طلب حق کی وہ اسپرٹ مسلمانوں میں پوری شان کے ساتھ باقی رہی جس کو نبی صلی اللہ علیہ وسلم اپنے متبعین میں پیداکرگئے تھے۔ اس کے بعد امراء وحکام اورعلماء ومشائخ کے استبداد نے اس روح کو کھانا شروع کردیا۔ سونچنے والے دماغوں سے سوچنے کا حق اور دیکھنے والی آنکھوں سے دیکھنے کا حق اور بولنے والی زبانوں سے بولنے کا حق سلب کرلیاگیا۔ درباروں سے لے کر مدرسوں اور خانقاہوں تک ہرجگہ مسلمانوں کو غلامی کی باقاعدہ تربیت دی جانے لگی‘ دل اوردماغ‘ روح اور جسم کی غلامی ان پر پوری طرح مسلط ہوگئی۔ درباروالوں نے اپنے سامنے رکوع اور سجدے کراکے غلامانہ ذہنیت پیدا کی‘ مدرسے والوں نے خدا پرستی کے ساتھ اکابر پرستی کا زہر دماغوں میں اتارا۔ خانقاہ والوں نے بیعت“ کے مسنون طریقے کو مسخ کرکے مقدس غلامی کا وہ طوق مسلمانوں کی گردنوں میں ڈالا جس سے زیادہ سخت اوربھاری طوق انسان نے انسان کے لئے کبھی ایجاد نہ کیاہوگا۔ جب غیراللہ کے سامنے زمین تک سر جھکنے لگیں‘ جب غیر اللہ کے آگے نماز کی طرح ہاتھ باندھے جانے لگیں‘ جب انسان کے سامنے نظر اٹھاکر دیکھنا سوء ادبی ہوجائے جب انسان کے ہاتھ اور پاﺅں چومے جانے لگیں‘ جب انسان انسان کا خداوند اور ان داتا بن جائے ‘ جب انسان بذات خود امرونہی کا مختار اور کتاب اللہ وسنت رسول اللہ کی سند سے بے نیاز قرار دیاجائے‘ جب انسان خطا سے پاک اور نقص سے بری اورعیب سے منزہ سمجھ لیاجائے‘ جب انسان کا حکم اور اس کی رائے اعتقاداً نہ سہی عملا اسی طرح واجب الاطاعت قرار دے لی جائے جس طرح خدا کا حکم واجب الاطاعت ہے تو پھر سمجھ لیجئے کہ اس دعوت سے منہ موڑلئے گئے جو اَلَّا نَعْبُدَ اِلَّا اللہَ (آل عمران64( کے الفاظ میں دی گئی تھی۔ اس کے بعد کوئی علمی‘ اخلاقی‘ روحانی ترقی ممکن ہی نہیں‘ پستی اور زوال اس کا لازمی نتیجہ ہے۔
ReplyDeleteترجمان القرآن رمضان سنہ 55 دسمبر 36ء
ایسی بے شمار تحریریں ہیں جن آپ کو سوچنے اور غور کرنے پر مجبور کردیتی ہے۔ خود مودودی کا مطالعہ کریں اور پھر فیصلہ کریں http://www.maududi.info/
اس صدی میں ہونے والی باقی ساری سازشیں ایک طرف لیکن سب سے بڑی سازش پاکستان کی نظریاتی سرحدوں کی محافظ، اس قوم کی بیٹیوں کی عصمت کی رکھوالی اور قوم کے بیٹوں کے اخلاق کی پہریدار جماعت اسلامی کے خلاف ہوئی ہے۔
ReplyDeleteجماعت کی خدمات پر ایک احتمالی نظر ڈالتے ہیں۔ جماعت نے پاکستان کی کافر تاریخ کو مشرف بہ اسلام کیا، پھر سکولوں کے استادوں کو سکھایا کہ یہ تاریخ پڑھائی کیسے جاتی ہے۔ جماعت نے ہمارے پہلے سے ہی مسلمان آئین کو اور مسلمان کیا پھر ججوں کو سکھایا کہ اس آئین کی تشریح کیسے کی جانی چاہیے۔ جماعت اسلامی نے کمیونزم کو شکست دی، سویت یونین کے حصے بخرے کیے، کتنی ہی وسط ایشیائی ریاستوں کو آزاد کرایا، افغانستان کو تو اتنی دفعہ آزاد کرایا کہ خود افغانی پناہ مانگ اٹھے۔ کشمیر کو بھی تقریباً آزاد کروا ہی لیا تھا لیکن کشمیری نہیں مان کے دیے۔
اور ان ساری خدمات کے بعد جماعت کو کیا ملا؟ (غیر پارلیمانی لفظ ہے لیکن کہنا پڑے گا) ٹھینگا۔
کسی نے سہی کہا ھے سچ ہمیشہ کڑوا ھوتا ھے
ReplyDeleteمحترم محمدوقار اعظم صاحب
تُسی وڈے شرارتی ہو۔۔۔
وقار اعظم صاحب آپکے تبصرے کا پلاٹ بی بی سی اردو کے مشہور بلاگر کا چرایا ہوا ہے۔ جہاں تک مجھے یاد آتا ہے اکثر اسکرپٹ بھی وہی ہے۔
ReplyDeleteافتخار اجمل بھوپال
ReplyDeleteمحترمہ ۔ ميں جماعت اسلامی ميں کبھی نہيں رہا مگر مودودی کی کئی کتابيں پڑھی ہيں ۔ يہ بے جا نہ ہو گا اگر ميں کہوں کہ آدھی صدی قبل دين اسلام کو درست طريقہ ميں سمجھنے کا آغاز ميں نے انہی کی کتابوں سے کيا کيونکہ اُس زمانہ ميں اُردو ميں عام فہم اسلامی کتب دستياب نہ تھيں ۔ تفہيم القرآن تو ساری دنيا ميں مستند مانی جاتی ہے ۔
جنا ب اجمل صا حب آپ کارکن نہیں تو ہمدرد ضرور ھے جماعت کے ،،
آخر اس جماعت کی وجہ سے تو آج اسلام زندہ ہے۔ ابھی تو دہلی کے لال قلعہ پر اور وائٹ ہاؤس پر اسلام کا جھنڈا لگانا ہے اور اسی وجہ سے تو اسے فوجی حکمران پسند ہيں۔ جبکہ مودودی حضرت تو تمام علوم و فنون ميں مہارت رکھتے تھے۔ يہ ہماری کم علمی ہے کہ ہميں معلوم ہی نہيں کہ ان حضرت نے يہ علم و فن کس سے حاصل کيا۔اس ليے ان حضرت کے پيروکار يہ کہتے ہيں کہ جماعت اسلامی ميں اسلام ہے اسلام ميں جماعت اسلامی نہيں۔
”تقریباً تین صدیوں تک تحقیق واجتہاد اورحریت فکرونظر اور آزادانہ طلب حق کی وہ اسپرٹ مسلمانوں میں پوری شان کے ساتھ باقی رہي”
ReplyDeleteخورشیدآزاد، اوپر کی تحرير ميں کيا خاص بات ہے سوائے؛
stating the obvious
کے؟ ليکن ديکھنا يہ بھی ہے کہ جماعت اسلامی نے ہمارے تعليمی اداروں کا بيڑہ غرق اور ڈکٹيٹروں کی پشت پنائی کرکے ”تحقیق واجتہاد اورحریت فکرونظر اور آزادانہ طلب حق کی اسپرٹ” کی کونسی خدمت کي؟ انسان اپنے عمل سے جانا جاتا ہے ناکہ قول سے- آپکی سمجھ و فہم کے بارے ميں جو خوش فہمی ہے اسے قائم رہنے ديں-
This comment has been removed by a blog administrator.
ReplyDeleteپچھلا تبصرا میرا نہیں لیکن یہ میرے نام سے شائع ہوا ہے۔ جس شخص نے بھی یہ تبصرا کیا اسے چاہئے تھا کہ اپنا نام استعمال کرے۔
ReplyDelete" خود مودودی کا مطالعہ کریں اور پھر فیصلہ کریں"
ReplyDeleteخورشیدآزاد, نيچے دی گئی تحريروں کے بارے کيا خيال ہے؟
1۔
Neither the executive, nor the legislature, nor the judiciary can issue orders or enact laws or give judgements contrary to the sunnah.
سارے سياسی مولوی عوام ميں پزيرائی کے ليئے ايسے ہی آغاز کرتے ہيں- انکا مطلب کيا ہے آگے پڑھيئے۔
Politics and administration are no concern of the women. Mingling of men and women and co-education are evils. Islamic Constitution has four sources: the Quran, sunnah. Conventions of the four righteous caliphs, and the rulings of the great jurists. Party system is not allowed. The head of state must be a Muslim. Only Muslim can be full citizens. No women can be elected to the assembly. [Islamic Law and Constitution; First Principle of Islamic State].
2۔
“No doubt the Islamic State is a totalitarian state”. [Political Theory of Islam]
يعنی جمہوريت کی کوئی گنجائش نہيں، بس اقتدار جماعت اسلامی کے حوالے کر ديا جائے اور بس۔ طالبان کی حمائيت سمجھ ميں آتی ہے۔
3۔
It is prohibited in Islam to be a member of assemblies and parliaments, which are to be member of assemblies and parliaments, which are based on the democratic principle of the modern age. It is also prohibited to vote in elections to such bodies [Rasail-o-Masail, Vol.1].
مزے کی بات ہے مودودی صاحب اور جماعت اسلامی کا اپنا عمل ان اقوال زريں سے متصادم رہا ہے- منافقت اور کسے کہتے ہيں؟ مودودی صاحب بنيادی طور سے سياسی ذہن رکھنے والی شخصيت تھے جس نے اپنے مفادات کے ليئے مذہب کا لبادہ اوڑھ ليا يہ جانتے ہوئے کہ پاکستان کے مسلمان سادہ لوگ ہيں جنہيں مذہب کے نام پہ الو بنانا سب سے آسان کام ہے-
السلام علیکم ورحمۃ وبرکاتہ،
ReplyDeleteبہن عنیقہ۔ یہاں پرمیں بھی تبصرہ کیاتھاوہ کہاں گیا۔۔
والسلام
جاویداقبال
This comment has been removed by a blog administrator.
ReplyDelete(: ہی ہی مذاق
ReplyDeleteگمنام، اگر آپ نے یہ مذاق کیا تھا تو واضح ہونا چاہئیے کہ آپکا یہ مذاق مجھے نہیں پسند آیا۔ اور اگر آپ نے یہ کاشف نصیر کے ساتھ کیا ہے تو یقیناً انہیں بھی پسند نہیں آیا ہوگا۔ اپنی حس مزح بہتر کریں اور اپنی صلاحیتوں اور وقت کو ایسے بے کار کے کاموں پہ اور ہم جیسے ادھر ادھر کے لوگوں پہ ضائع نہ کریں۔ ہمارے یہاں بد ترین لوگوں کی کمی نہیں انکی اینٹ سے اینٹ بجائیں تو جانیں۔ تبصرہ نگاروں کو پریشان کرنا، چہ معنی دارد۔
ReplyDeleteوہی تبصرہ اگر آپ اپنے نام سے کرتے تو میں نہ ہٹاتی۔
ReplyDeleteaniqa, I don't care that much. you can delete if you wnat. I have other things to do in life too.
ReplyDeleteبے نام صاھب اب آپ کے ساتھ کیا بحث کی جائے جبکہ مجھے معلوم ہی نہیں آپ ہیں کون؟
ReplyDeleteاور ہاں میرا ہرگز یہ مطلب نہیں ہے کہ مودودی کا لکھا قرآن کے برابر ہے جس میں کوئی غلطی نہیں ہوسکتی یا جس سے آپ اختلاف نہیں کرسکتے۔
ReplyDeleteمندرجہ ذیل کی تحریر پڑھتے ہوئے شدید حیرت کے ساتھ افسوس بھی ہوتا ہے کہ ہم نے اپنے محسنوں کے ساتھ ظلم کی روایت قائم رکھی۔
ایسی حالت میں دراصل مقابلہ اسلام اور مغربی تہذیب کا نہیں ہے بلکہ مسلمانوں کی افسردہ، جامد اور پس ماندہ تہذیب کا مقابلہ ایک ایسی تہذیب سے ہو جس میں زندگی ہے، حرکت ہے، روشنی علم ہے، گرمی عمل ہے۔ ایسے نا مساوی مقابلے کا جو نتیجہ ہو سکتا ہے وہی ظاہر ہو رہا ہے۔ مسلمان پسپا ہو رہے ہیں، ان کی تہذیب شکست کھا رہی ہے۔ وہ آہستہ آہستہ مغربی تہذیب میں جذب ہوتے چلے جا رہے ہیں۔ ان کے دلوں اور دماغوں پر مغربیت مسلط ہو رہی ہے۔ ان کے ذہن مغربی سانچوں میں ڈھل رہے ہیں، ان کی فکری و نظری قوتیں مغربی اصولوں کے مطابق تربیت پا رہی ہیں۔ ان کے تصورات، ان کے اخلاق، ان کی معیشت، ان کی معاشرت، ان کی سیاست، ہر چیز مغربی رنگ میں رنگی جا رہی ہے۔ ان کی نئی نسلیں اس تخیل کے ساتھ اٹھ رہی ہیں کہ زندگی کا حقیقی قانون وہی ہے جو مغرب سے ان کو مل رہا ہے۔ یہ شکست دراصل مسلمانوں کی شکست ہے مگر بد قسمتی سے اس کو اسلام کی شکست سمجھا جاتا ہے۔
درحقیقت یہ علماء کا کام تھا کہ جب اس انقلاب کی ابتدا ہو رہی تھی اس وقت وہ بیدار ہوتے، آنے والی تہذیب کے اصول و مبادی کو سمجھتے، مغربی ممالک کا سفر کر کے ان علوم کا مطالعہ کرتے جن کی بنیاد پر یہ تہذیب اٹھی ہے۔ اجتہاد کی قوت سے کام لے کر ان کارآمد علمی اکتشافات اور عملی طریقوں کو اخذ کر لیتے جن کے بل پر مغربی قوموں نے ترقی کی ہے اور ان نئے کل پرزوں کو اصول اسلام کے تحت مسلمانوں کے تعلیمی نظام اور ان کی تمدنی زندگی کی مشین میں اس طرح نصب کر دیتے کہ صدیوں کے جمود سے جو نقصان پہنچا تھا اس کی تلافی ہو جاتی اور اسلام کی گاڑی پھر سے زمانہ کی رفتار کے ساتھ چلنے لگتی۔ مگر افسوس کہ علماء (الا ماشاء اللہ) خود اسلام کی حقیقی روح سے خالی ہو چکے تھے۔ ان میں اجتہاد کی قوت نہ تھی، ان میں تفقہ نہ تھا، ان میں حکمت نہ تھی، ان میں عمل کی طاقت نہ تھی، ان میں یہ صلاحیت ہی نہ تھی کہ خدا کی کتاب اور رسول خدا کی علمی و عملی ہدایت سے اسلام کے دائمی اور لچکدار اصول اخذ کرتے اور زمانہ کے متغیر حالات میں ان سے کام لیتے.