Showing posts with label جامعہ کراچی، ایچ ای سی پاکستان،. Show all posts
Showing posts with label جامعہ کراچی، ایچ ای سی پاکستان،. Show all posts

Tuesday, August 25, 2009

کون سی تعلیم


اب وقت ملا کہ کچھ تعلیم پر بھی لکھا جائے۔ سب نے اپنے طالب علمی کے زمانے کو یاد کیا۔ فی الحال میں ان خوش نصیبوں میں سے ہوں جنہیں اب سے تین سال پہلے تک بہت مختصر عرصے کے لئے تدریس سے بھی وابستہ رہنے کا موقعہ ملا وہ بھی پاکستان کی سب سے بڑی جامعہ اور ایک اور پبلک یونیورسٹی میں۔ تو میرے پاس پڑھانے کا بھی تجربہ ہے اور اپنے طالب علموں سے آگاہ ہونے کا ایک ذریعہ بھی۔
اس سے پہلے یہ بتادوں کہ طالب علمی کے زمانے میں اسکولوں کی عمارت سے قطع نظر اور ہمارے ٹوٹے پھوٹے نظام کے باوجود کچھ انتہائ اچھے استاد ملے خاص طور پر اسکول کی سطح پر اور پھر یونیورسٹی میں کہ انکی بدولت دماغ کی گرہیں کھل گئیں۔ میری اردو کی اچھائ ساری کی ساری چھٹی سے میٹرک تک ملنے والی اردو کی ٹیچرز پہ جاتی ہے۔ اسلامیات کے استاد نے گیارہ سال کی عمر میں قرآن ہاتھ میں لیکر مختلف آیتوں اورانکے حوالے اور انکے پس منظر دیکھنے کی عادت ڈالی۔ اور سائنس کے ٹیچر نے جستجو کے جذبے کو ہوا دی۔ جبکہ مطالعہ ء پاکستان کی استاد نے تاریخ سے دلچسپی پیدا کرائ۔ کچھ معاشی اور معاشرتی مسائل کی بناء پر کوچنگ سینٹر اور ٹیوشن پڑھنے کی لعنت سے محفوظ رہے اور اس طرح خود سے تلاش کرنے اور کورس کی کتابوں کے علاوہ کتابں پڑھنے کو ملیں۔ اس نے یقین پیدا کیا اپنے آپ پر۔ جہاں استاد اچھے ملے وہاں قدرت نے بھی کچھ خوبیوں سے نوازا تھا ، جنکو میرے اسکول ٹیچرز نے خاصہ ابھارا۔ یہ میری پی ایچ ڈی کے دوران کا قصہ ہے جب میں نے انسانوں کے مکروہ چہرے زیادہ دیکھے۔ لیکن خیر اندھیرا دیکھنا بھی ضروری ہوتا ہے کہ اسکے بغیر روشنی کا احساس صحیح سے نہیں ہوتا۔ اسکا ایک فائدہ یہ ہوا کہ لوگوں سے اور ارد گرد کے ماحول سے توقعات رکھنا چھوڑ دیں۔ جو کچھ ہے وہی ہے۔ اور جو خود کر سکتے ہیں وہی ہوگا۔
بہ حیثیت استاد میرے تجربات بہت دلچسپ رہے۔ کیونکہ شومی ء قسمت مجھے پی ایچ ڈی کرنے کا موقع مل گیا تھا اور وہ بھی ملک کے بہترین ادارے سے تو اب لوگ اس چیز سے خائف ہوتے تھے خاص طور پر وہ لوگ جو اپنی اہلیتوں کو جانتے تھے اور علم سے مقابلے کرنے کی بجائے اپنے بےکار انسانی خواص کا مظاہرہ کرنے لگے۔ نجانے کیوں ہمارے معاشرے میں ذہنی مریض اتنے زیادہ کیوں ہیں۔
اپنے سیکشن کے چودہ ٹیچرز میں سے صرف چار کے متعلق میں کہہ سکتی ہوں کہ وہ انسانوں کی طرح سوچ سکتے تھے جبکہ تین کے متعلق مجھے یقین تھا کہ وہ شیزوفرینیا کے مریض ہیں وہ بھی مکمل طور پر اور ان تین میں سے دو کے ساتھ مجھے تین سمسٹر گذارنے پڑے۔ کوئ اور جونیئر ٹیچر انکے ساتھ جانے کو تیار نہ تھا اور میں کسی بھی سیاسی پارٹی کے ساتھ شامل نہ ہونا چاہتی تھی جو سپورٹ دے۔ خیر یہ ایک الگ دلچسپ کہانی ہے۔
سلیبس کی تیاری کے وقت ہمارے سینیئر ٹیچر جو دس پندرہ سالوں سے ٹیچنگ سے وابستہ تھے۔

جس قسم کی تجاویز دیتے تھے۔ انکو سن کر عقل حیران ہوتی تھی۔ مثلاً فرسٹ ایئر آنرز کا سلیبس
ان میں سے کوئ تیار کر کے لایا۔ اسکا معیار اتنا کم تھا کہ مجھے میٹنگ میں کہنا پڑا کہ اس سے بہتر سلیبس توانٹر میں کالج کی سطح پر پڑھایا جاتا ہے۔ انکی بات سنیں۔ کیونکہ کالجز میں کچھ نہیں پڑھایا جاتا اس لئےکورس کو آسان رکھنا چاہئیے۔ تاکہ آنیوالے اسٹوڈنٹس کو پریشانی نہ ہو۔

میں اور میری ایک اور جونئیر ساتھی نے کہا کہ یہ ہماری ذمہ داری نہیں ہے کہ اسٹوڈنٹس کو کالج میں کسطرح پڑھایا جا رہا ہے۔ ہمیں یونیورسٹی کو دیکھنا چاہئیے۔ یونیورسٹی کی سطح پر کورسز کو دیگر بین الاقوامی یونیورسٹیوں کے معیار کا ہونا چاہئیے ۔ اسٹوڈنٹس کے اوپر دباءو پڑنا چاہئیے کہ وہ پڑھیں۔ یونیورسٹیاں اسٹوڈنٹس کو آسانیاں دینے کے لئے نہیں ہوتی ہیں۔ بلکہ ان میں محنت کی عادت کو ترقی دیکر انہیں کندن بناتی ہیں۔خیر اس بات پر کافی گرم بحث ہوئ۔ کیونکہ سلیبس کو جدیدکرنے کا مطلب یہ تھا کہ انہیں اپنے پرانے نوٹس صحیح کرنے پڑیں اور خود بھی کچھ نئے سرے سے پڑھنا پڑے۔ جبکہ یہ بھی ہماری یونیورسٹیز کا خاصہ ہے کہ استاد کو لآئبریری جانے سے مبرا سمجھ لیا جاتا ہے۔ وہ تو استاد ہیں انہیں سب آتا ہے۔ فی زمانہ استادکی یہ تعریف بھی بدل چکی ہے۔استاد کو بھی علم کی دوڑ میں شامل رہنا پڑتا ہے ہر لمحے، ہر لحظہ۔
کوچنگ سینٹرز اور ٹیوشنز سے فیضیاب ہونے کی وجہ سے اسٹوڈنٹس خود سے کچھ نہیں کرنا چاہتے۔ میں نے دیکھا کہ ہر اسٹوڈنٹ صرف لیکچر تک محدود رہنا چاہتا ہے۔ ریفرنس کی کتابوں کو کھولنے والے اور لیکچر کے مواد پر مشتمل پرابلمز کو حل کرنے میں دلچسپی لینے والے ایک سو بیس کی کلاس میں سے چار پانچ سے زیادہ نہ تھے۔ کسی بھی مضمون کو پڑھکر اسے اپلائ کرنے کی صلاحیت نہ پیدا ہو تو اسکا پڑھنا نہ پڑھنا برابر ہے خاص طور پر سائنس نظریات کو یاد کرنے کا نام نہیں۔ لیکن اب اسٹوڈنٹس اتنے سہل پسند ہو گئے ہیں کہ اگر انہیں کلاس میں مثال کے لئے دو جمع دو چار سکھایا ہے اور امتحان میں تین جمع تین دے دیا جائے تو یہ سوال آءوٹ آف کورس قرار دیا جاتا ہے۔
اسٹوڈنٹس کا دماغ دیگر سرگرمیوں میں اتنا مصروف رہتا ہے کہ بلیک بورڈ سے صحیح مساوات اتارنے میں دشواری ہوتی ہے۔ خود میں نے تو یہ طریقہ بھی رکھا کہ پریکٹیکل کلاسز میں جہاں میرا اندازہ کہتا تھا کہ اس مساوات میں ذرا پیچیدگی ہے اور ان آرام پسندوں میں سے چند ایک کے علاوہ کوئ صحیح اتارنے کے قابل نہ ہو گا۔ اسکے لئے میں چاکلیٹ کا تحفہ بھی رکھتی تھی۔ جی، یہ ہیں ہمارے یونیورسٹی لیول کے طالب علم۔
لڑکے یونیورسٹی میں آکر سیاست کو رعب جمانے کا ذریعہ بنا لیتے ہیں۔ کیونکہ انہیں پتہ ہوتا ہے کہ نوکری تو بعد میں اماں ابا سفارش سے دلا ہی دیں گے یا پھر اس نظام کو برا بھلا کہہ کر کہہ دیں گے کہ یہاں رکھا کیا ہے۔انہیں تو یہاں سے کاغذ کا ایک ٹکڑا لیکر نکلنا ہے۔ نظام بھی چونکہ آسان طلب لوگوں پر مشتمل ہے اس لئے ایک سو بیس کی کلاس میں جہاں میں سمجھتی ہوں کہ صرف بیس اسٹوڈنٹس بھی بمشکل کامیاب ہونگے۔ وہاں ساٹھ ستر لوگوں کو اضافی نمبر دیکر پاس کرنا پڑتا ہے، ڈپارٹمنٹ کے ہیڈ کی ہدایت پر۔
ادھر اساتذہ میں ذاتیات کو اہمیت دینے کا یہ عالم کہ ہمارے سینئیر ٹیچر ہم سے نمبروں کی شیٹ منگاتے ہیں اور جس اسٹوڈنٹ کو ہم نے سب سے زیادہ نمبر دئے ہوتے تھے اسکو کہیں ساتویں آٹھویں نمبر پر پہنچا دیتے میرے چھ اسٹوڈنٹس کے ساتھ انہوں نے ایسا کیا۔ محض ان اسٹوڈنٹس سے اپنی ذاتی پرخاش نکالنے کے لئے۔ اور مجھے میری حیثیت جتانے کے لئے جبکہ میں ان نمبروں کو ڈسپلے بورڈ پر لگا بھی چکی تھی۔ ایسا کرتے ہوئے انہیں ذرا بھی احساس ندامت نہ ہوتا کہ وہ بہ ہر حال مجھ سے اور ان بچوں سے بڑے ہیں۔ اور اس طرح وہ کس قسم کی مثال قائم کر رہے ہیں۔
تو جناب نطام کی خرابی میں ہر ایک کا حصہ ہے۔ اور جب تک معاشرے کی سوچ تبدیل نہ ہو فرد واحد کے لئے کچھ کرنا ممکن نہیں۔
میرے ایک بلاگر ساتھی نے اس بات پر مجھے ایچ ای سی کی ڈائریکٹرشپ عنایت فرمائ ہے کہ میں یہ کہتی ہوں کہ یونیورسٹی کی تعلیم ایک عیاشی ہے اور یہ صرف ان لوگوں کے لئے ہوتی ہے جو اسکا رجحان رکھتے ہیں۔ انکا خیال ہے کہ اس طرح طبقاتی فرق پیدا کیا جائےگا۔ جناب تمام ترقی یافتہ ممالک میں ایسا ہی ہوتا ہے وہاں ہمارے یہاں سے زیادہ طبقاتی فرق نہیں ہے۔ حتی کہ بعض ممالک میں اسکول کی سطح پر ان اسٹوڈنٹس کو مارک کر لیا جاتا ہے جو یونیورسٹی تک پہنچنے کی صلاحیت رکھتے ہوں۔
ہماری پبلک یونیورسٹیاں عوام کے پیسے سے اور انکے دئیے گئے ٹیکس سے چلتی ہیں۔ یہاں سے ایسے لوگوں کو سامنے آنا چاہئیے جو ملکی سطح پر اپنی ذات سے کچھ فائدہ پہنچا سکیں۔ نہ کہ یہ سیاست کا گڑھ بن جائیں۔ ویسے بھی یونورسٹیاں بنیادی طور پر تحقیقی ادارے ہوتی ہیں اور کسی قوم کے مستقبل کی ترجیحات کے لئے کام کرتی ہیں۔ اگر وہاں تحقیق نہیں ہو رہی ہے تو ان اداروں کو یونیورسٹی نہیں کہنا چاہئیے۔ اس لئیے ہماری یونیورسٹیاں دنیا میں کسی رینک میں شامل نہیں ہیں۔ ذہین مگر غریب اسٹوڈنٹس کے لئے وظائف کا اجراء ہوتا ہے۔ تاکہ انہیں یہ شکایت نہ ہو کہ انکے ساتھ پیسوں کی وجہ سے امتیاز کیا گیا ہے۔
وہ لوگ جو یونورسٹی تعلیم حاصل کرنے کا رجحان نہیں رکھتے۔ انکو اپنے رجحان کو دیکھتے ہوئے تعلیم حاصل کرنی چاہئیے۔ لوگوں میں روزگار کے حصول میں آسانیاں پیدا کرنے کے لئے ووکیشنل انسٹی ٹیوٹ کا جال بچھانا چاہئیے۔ تاکہ وہ بھی کسی قسم کے احساس کمتری کا شکار نہ ہوں۔
مکینک، ٹیکنیشنز، شیف، پلمبر ، درزی اور اسطرح کے دیگر پیشے، یہ بھی علم کی ہی شاخیں ہیں۔

ان علوم کے لئے بھی ادارے ہونے چاہئیں۔ان میں مہارت حاصل کر کے اس علم کے ذریعے بھی پیسہ کمایا جا سکتا ہے۔
محض یونیورسٹی کی تعلیم کو تعلیم سمجھنا بھی بہت بڑی لا علمی یا بچپنا ہے۔ قدرت نے مختلف لوگوں کو مختلف صلاحیتوں سے نوازا ہے۔ جس شخص کو حساب کی تھیورمز سمجھنے سے دلچسپی نہیں یا وہ انٹرنیشنل افئیرز نہیں جاننا چاہتا۔ وہ ایک ناکارہ انسان تو نہیں۔ انکی دیگر صلاحیتوں کی قدر کر کے ہی انہیں کارآمد شہری بنایا جا سکتا ہے۔ کیونکہ کسی بھی قسم کی تعلیم کا بنیادی مقصد یہی ہوتا ہے۔ زیادہ شعور اور زیادہ دیکھنے کی صلاحیت، اس میڈیم یا راستے سے جو آپکو دلچسپ لگتا ہو۔ یہ آپکی ذہانت اور خوش قسمتی ہے کہ آپ اسے اپنے ذریعہ ء روزگار میں تبدیل کر لیں۔

ریفرنس؛

میرے ایک بلاگر ساتھی