Showing posts with label اودھ. Show all posts
Showing posts with label اودھ. Show all posts

Wednesday, September 15, 2010

سر سید کا عہد-۲


اب ان تمام باتوں سے اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ 1870 میں مسلمانوں کی کیا حالت تھی۔ ملازمتوں میں وہ نہ ہونے کے برابر تھے۔ سرکاری ملازمتوں کے ہاتھ میں کئ طرح کا اختیار ہوتا ہے اس لئے یہ کمی انہیں مہنگی پڑ رہی تھی۔ شمالی ہندوستان کے مسلمانوں نے تجارت میں کبھی امتیاز حاصل نہیں کیا اور زمینیں قرضے کی وجہ سے انکے ہاتھ سے نکلی جا رہی تھیں۔
حالات اتنے خراب تھے کہ سر سید نے خود ہندوستان چھوڑ کر مصر کی سکونت اختیار کرنے کا ارادہ کیا۔ انہوں نے بعد میں اپنے ایک لیکچر میں کہا
میں اس وقت ہرگز نہیں سمجھتا تھا کہ قوم پھر پنپے گی اور عزت پائے گی۔ اور جو حال اس وقت قوم کا  تھا، مجھ سے نہیں دیکھا جاتا تھا۔
لیکن بعد ازاں انہوں نے اپنا یہ ارادہ ترک کیا اور فیصلہ کیا کہ
نہایت نا مردی اور بے مروتی کی بات ہے کہ اپنی قوم کو اس تباہی کی حالت میں چھوڑ کر خود کسی گوشہ ء عافیت میں جا بیٹھوں۔ نہیں، اس مصیبت میں شریک رہنا چاہئیے اور جو مصیبت پڑے اسکے دور کرنے کی ہمت باندھنی قومی فرض ہے۔

اس وقت مسلمانوں کے تمام تر مسائل اقتصادی نہ تھے بلکہ زندگی کے ہر شعبے سے متعلق تھے۔ یہ اقتصادی اور ذہنی پستی ایک ہی ذریعے دور ہو سکتی تھی اور وہ یہ کہ مسلمان تعلیم  حاصل کریں اور وہ تعلیم حاصل کریں جو انہیں حکمرانوں کی زبان اور مزاج سمجھنے میں آسانی دے۔ کیونکہ انگریز اپنی حکمرانی میں اپنا ذریعہ ء تعلیم نہیں تبدیل کرنے والے تھے۔  اس لئے مسلمانوں کے لئے یہ لازمی عنصر ہو چلا تھا کہ وہ انگریزی تعلیم میں دلچسپی لیں۔  
علی گڑھ کی تحریک نے یہ سب ذمہ داری اٹھائ۔ ایک ایسے دور بیں مصلح کی حیثیت سے سر سید احمد خان آگے بڑھے  جبکہ مسلمانوں کی اس حالت زار کے باوجود علماء  کی اکثریت انگریزی تعلیم کو حرام قرار دے رہی تھی انہوں نے مسلمانوں کو اس چیز کے لئے تیار کیا کہ اپنی بقاء کے لئے یہ کام کرنا ہی پڑے گا۔
انہیں اس چیز کا ادراک اس قدر زیادہ تھا کہ تحریک پاکستان کے وجود میں آنے سے بھی کئ دہائیاں پہلے وہ، وہ پہلے شخص تھے جنہوں نےاس ہندوستان کا تصور کیا جو انگریزوں کے ہندوستان سے رخصت ہو جانے کے بعد ہو جاتا۔
وہ لکھتے ہیں کہ
فرض کریں کہ تمام انگریز انڈیا چھوڑ جاتے ہیں تو کون انڈیا کی حکمرانی کرے گا۔ ان موجودہ حالات میں کیا یہ ممکن ہے کہ دو قومیں مسلمان اور ہندو ایک ساتھ حکمرانی کر سکیں اور طاقت میں برابر کے شراکت دار ہوں۔ ایسا یقیناً نہیں ہوگا۔ یہ بالکل ضروری ہوگا کہ ان میں سے ایک دوسرے کو فتح کرے اور اسے ہٹا دے۔
یہ وہ نکتہ تھا جسے انکی وفات کے چالیس سال بعد قیام پاکستان کی تحریک کی بنیاد بنایا گیا۔ سر سید کی دور بیں بصارت نے اس منظر کو اس وقت دیکھا جب انگریزوں کے ملک سے جانے کے متعلق عام شخص سوچ بھی نہ سکتا تھا۔

اسی موضوع پہ پچھلی تحاریر یہاں دیکھئیے۔ 

سر سید کا عہد-۱

سر سید پہ مزید بات  کرنے سے پہلے ہمیں اس زمانے کے حالات پہ ضرور ایک نظر ڈالنی چاہئیے۔ جب سر سید احمد خان نے بر صغیر کے مسلمانوں کے جمود کو توڑنے کی کوشش کی۔ کیونکہ ہر بڑی شخصیت پہ اپنے عہد کا عکس ہوتا ہے اور وہ اپنے عہد کے مسائل کو اسی عہد میں میسر علمی اور ذہنی وسائل سے دیکھتا اور انکے حل تلاش کرتا ہے۔ ایسا نہیں ہو سکتا کہ اٹھارہویں صدی کے ایک شخص پہ ہم حیران ہوں کہ اس نے کمپیوٹر کیوں نہیں بنایا۔ انسانی عقل نے بتدریج ترقی کی اور اسے ہی ارتقاء کہتے ہیں۔
جب مغل سلطنت اپنے انحطاط کا شکار تھی تو ایسٹ انڈیا کمپنی نے موقع سے فائدہ اٹھایا۔ بنگال میں  1757 میں پلاسی کی جنگ ہوئ اور میر جعفر کی  حکمرانی میں کمپنی کی  حکومت قائم ہوئ۔  ادھر پنجاب می، رنجیت سنگھ نے مسلمان حکمرانوں کو شکست دے کر انکا  تقریباً ہزار سال کا دور اقتدار ختم کیا اور ملتان سے لے کر پشاور تک اپنی حکومت قائم کی۔ اپنی حکومت کا صدر مقام اس نے لاہور کو منتخب کیا۔ 1839 میں اسکے انتقال کے بعد وہاں انگریزوں کو قدم جمانے کا موقع ملا۔ اٹھارہ سو پینتالیس میں یہ علاقہ بھی انگریزوں کے قبضے میں آ گیا۔سندھ 1843 میں اور اودھ 1856 میں کمپنی نے ملحق کئے۔ اسکے بعد بھی اگر کوئ علامتی اقتدار مسلمانوں کا باقی تھا تو اسے جنگ آزادی اٹھارہ سو ستاون کے ہنگامے نے مٹا دیا۔
اس سیاسی انقلاب کے ساتھ مسلمانوں کا اصل اقتصدای اور تمدنی انحطاط شروع ہوا۔
ڈاکٹر ویلیئم ہنٹر کی کتاب ' آور انڈین مسلمانز' میں اس وقت مسلمانوں کی حالت زار کی ایک تصویر موجود ہے۔ اس میں وہ لکھتے ہیں کہ
مسلمانوں کو حکومت سے بہت سی شکایات ہیں۔ ایک تو یہ کہ تمام اہم عہدوں کا دروازہ ان پہ بند کر دیا گیا ہے۔ طریقہ ء تعلیم ایسا ہے کہ ان میں انکی قوم کے لئے کوئ انتظام نہیں۔ قاضیوں کا نظام ختم کر کے جو انگریزی نظام عدلیہ آیا ہے اس سے ہزاروں خاندانوں کو جو فقہ اور اور اسلامی علوم کے پاسبان تھے بے کار اور محتاج کر دیا ہے۔ انکے اوقاف کی آمدنی، جو انکی تعلیم پہ خرچ ہونی چاہئیے تھی وہ غلط مصارف پہ خرچ ہو رہی ہے۔  وہ مسلمان جو پہلے جاگیروں کے مالک تھے وہ اب قرض کی دلدل میں ڈوبے ہوئے ہیں اور کوئ ہندو قرض خواہ ان پہ نالش کرتا ہے اور اور وہ رہی سہی جمع پونجی سے بھی جاتے ہیں۔
وہ لکھتا ہے کہ
مسلمانوں کی بد قسمتی کا صحیح نقشہ ان محکموں میں دیکھا جا سکتا ہے۔ جن میں ملازمتوں کی تقسیم پر لوگوں کی اتنی نظر نہیں ہوتی۔ 1869 میں ان محکموں کا یہ حال تھا کہ اسسٹنٹ انجینیئروں کے تین درجوں میں چودہ ہندو اور مسلمان صفر۔ امیدواروں میں چار ہندو، دو انگریز اور مسلمان صفر۔ سب انجینیئروں اور سپر وائزروں میں چوبیس ہندو اور ایک مسلمان۔ اوور سیئروں میں تریسٹھ ہندو اور دو مسلمان۔ اکائونٹس ڈیپارٹمنٹ میں پچاس ہندو اور مسلمان معدوم۔
سرکاری ملازمتوں کے علاوہ ہائ کورٹ کی فہرست بڑی عبرت آموز تھی۔ ایک زمانہ تھا کہ یہ پیشہ بالکل مسلمانوں کے ہاتھ میں تھا۔ اسکے بعد 1851 تک بھِ مسلمانوں کی حالت اچھی رہی اور مسلمان وکلاء کی تعداد ہندءووں اور انگریزوں کے مقابلے میں کم نہ تھی۔ لیکن اسکے بعد تبدیلی شروع ہوئ۔ نئ طرز کے آدمی آنا شروع ہوئے اور امتحانات کا طریقہ بدل دیا گیا۔ 1852 سے ۱868 تک جن ہندوستانیوں کو وکالت کے لائسنس ملے۔ ان میں 239 ہندو تھے اور ایک مسلمان۔
ڈاکٹر ہنٹر مزید لکھتے ہیں کہ
اگلے دن ایک بڑے سرکاری محکمے میں دیکھا گیا کہ سارے ڈیپارٹمنٹ میں ایک بھی اہلکار ایسا نہ تھا جو مسلمانی زبان سے واقف ہو اور حقیقتاً اب کلکتے میں شاید ہی کوئ سرکاری دفتر ایسا ہوگا، جس میں کسی مسلمان کو دربانی، چپڑاس یا دواتیں بھرنے اور قلم درست کرنے کی نوکری سے زیادہ کچھ ملنے کی امید ہو سکتی ہو۔' چنانچہ انہوں نے کلکتہ کے ایک اخبار کی شکایت نقل کی ہے کہ  تمام ملازمتیں اعلی ہوں یا ادنی آہستہ آہستہ مسلمانوں سے چھینی جا رہی ہیں اور دوسری قوموں بالخصوص ہندءووں کا بخشی جاتی ہیں۔ حکومت کا فرض ہے کہ رعیت کے تمام  طبقوں کو ایک نظر سے دیکھے۔ لیکن اب یہ عالم ہے کہ حکومت سرکاری گزٹ میں مسلمانوں کو سرکاری ملازمتوں سے علیحدہ رکھنے کا کھلم کھلا اعلان کرتی ہے۔
وہ لکھتے ہیں کہ ملک جب ہمارے قبضے میں آیا تو مسلمان سب قوموں میں بہتر تھے۔ نہ صرف وہ دوسروں سے زیادہ بہادر اور جسمانی طور پہ زیادہ توانا اور مضبوط تھے بلکہ سیاسی اور انتظامی قابلیت کا ملکہ بھی ان میں زیادہ تھآ۔ لیکن یہی مسلمان آج سرکاری ملازمتوں اور غیر سرکاری اسامیوں سے یکسر محروم ہیں۔


جاری ہے