اب ان تمام باتوں سے اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ 1870 میں مسلمانوں کی کیا حالت تھی۔ ملازمتوں میں وہ نہ ہونے کے برابر تھے۔ سرکاری ملازمتوں کے ہاتھ میں کئ طرح کا اختیار ہوتا ہے اس لئے یہ کمی انہیں مہنگی پڑ رہی تھی۔ شمالی ہندوستان کے مسلمانوں نے تجارت میں کبھی امتیاز حاصل نہیں کیا اور زمینیں قرضے کی وجہ سے انکے ہاتھ سے نکلی جا رہی تھیں۔
حالات اتنے خراب تھے کہ سر سید نے خود ہندوستان چھوڑ کر مصر کی سکونت اختیار کرنے کا ارادہ کیا۔ انہوں نے بعد میں اپنے ایک لیکچر میں کہا
میں اس وقت ہرگز نہیں سمجھتا تھا کہ قوم پھر پنپے گی اور عزت پائے گی۔ اور جو حال اس وقت قوم کا تھا، مجھ سے نہیں دیکھا جاتا تھا۔
لیکن بعد ازاں انہوں نے اپنا یہ ارادہ ترک کیا اور فیصلہ کیا کہ
نہایت نا مردی اور بے مروتی کی بات ہے کہ اپنی قوم کو اس تباہی کی حالت میں چھوڑ کر خود کسی گوشہ ء عافیت میں جا بیٹھوں۔ نہیں، اس مصیبت میں شریک رہنا چاہئیے اور جو مصیبت پڑے اسکے دور کرنے کی ہمت باندھنی قومی فرض ہے۔
اس وقت مسلمانوں کے تمام تر مسائل اقتصادی نہ تھے بلکہ زندگی کے ہر شعبے سے متعلق تھے۔ یہ اقتصادی اور ذہنی پستی ایک ہی ذریعے دور ہو سکتی تھی اور وہ یہ کہ مسلمان تعلیم حاصل کریں اور وہ تعلیم حاصل کریں جو انہیں حکمرانوں کی زبان اور مزاج سمجھنے میں آسانی دے۔ کیونکہ انگریز اپنی حکمرانی میں اپنا ذریعہ ء تعلیم نہیں تبدیل کرنے والے تھے۔ اس لئے مسلمانوں کے لئے یہ لازمی عنصر ہو چلا تھا کہ وہ انگریزی تعلیم میں دلچسپی لیں۔
علی گڑھ کی تحریک نے یہ سب ذمہ داری اٹھائ۔ ایک ایسے دور بیں مصلح کی حیثیت سے سر سید احمد خان آگے بڑھے جبکہ مسلمانوں کی اس حالت زار کے باوجود علماء کی اکثریت انگریزی تعلیم کو حرام قرار دے رہی تھی انہوں نے مسلمانوں کو اس چیز کے لئے تیار کیا کہ اپنی بقاء کے لئے یہ کام کرنا ہی پڑے گا۔
انہیں اس چیز کا ادراک اس قدر زیادہ تھا کہ تحریک پاکستان کے وجود میں آنے سے بھی کئ دہائیاں پہلے وہ، وہ پہلے شخص تھے جنہوں نےاس ہندوستان کا تصور کیا جو انگریزوں کے ہندوستان سے رخصت ہو جانے کے بعد ہو جاتا۔
وہ لکھتے ہیں کہ
فرض کریں کہ تمام انگریز انڈیا چھوڑ جاتے ہیں تو کون انڈیا کی حکمرانی کرے گا۔ ان موجودہ حالات میں کیا یہ ممکن ہے کہ دو قومیں مسلمان اور ہندو ایک ساتھ حکمرانی کر سکیں اور طاقت میں برابر کے شراکت دار ہوں۔ ایسا یقیناً نہیں ہوگا۔ یہ بالکل ضروری ہوگا کہ ان میں سے ایک دوسرے کو فتح کرے اور اسے ہٹا دے۔
یہ وہ نکتہ تھا جسے انکی وفات کے چالیس سال بعد قیام پاکستان کی تحریک کی بنیاد بنایا گیا۔ سر سید کی دور بیں بصارت نے اس منظر کو اس وقت دیکھا جب انگریزوں کے ملک سے جانے کے متعلق عام شخص سوچ بھی نہ سکتا تھا۔
اسی موضوع پہ پچھلی تحاریر یہاں دیکھئیے۔
اسی موضوع پہ پچھلی تحاریر یہاں دیکھئیے۔