Showing posts with label میتھیو ہوپ کنس. Show all posts
Showing posts with label میتھیو ہوپ کنس. Show all posts

Friday, June 12, 2009

آوارگی کا عذاب

یورپ میں ۱۴۸۴ سے ۱۷۵۰ کے درمیان کم از کم ایک لاکھ عورتوں اور دیگر ذرائع کے دعوے سے دو لاکھ عورتوں کو موت کے گھاٹ اتار دیا گیا۔ ان عورتوں کو مارنے سے پہلے چڑیل ثابت کیا جاتا تھا۔ ان عورتوں کی کثیر تعداد بوڑھی اور غریب عورتیں ہوتی تھیں۔ چڑیلوں کی کچھ نشانیاں مقرر کر لی گئ تھیں جیسے چہرے پہ تل یا مسہ یا کسی اور قسم کا نشان حتی کہ کیڑے کے کاٹے کا نشان بھی اس میں شمار تھا۔ اس کے ساتھ اگر ان کے پاس بلی موجود ہو توپھر کیا کہنا۔ اس سلسلے میں ایک شخص جس کا ذکر خاصہ کیا جاتا ہے اس کا نام میتھیو ہوپ کنس تھا ، پیشے کے حساب سے ایک ناکام وکیل۔چڑیلوں کو مارنے میں بہت کامیاب رہا اور ایک ایکدن میں انیس چڑیلوں کی حیات کا چراغ گل کیا۔ اسے وہاں کے مذہبی حلقوں کی حمایت حاصل تھی اور اس کے بدلے میں اسے مختلف ریاستی حاکموں کی طرف سے کثیر رقم ملی۔ تاریخ میں اس کا نام'چڑیل کھوجی جنرل' کے طور پہ مشہور ہے۔ یورپ میں مظالم کا یہ سلسلہ اس وقت بتدریج ختم ہوا جب لوگوں کے اندر علم کی روشنی پھیلی اور انہوں نے توجیہی علم کی طرف توجہ کی یعنی علم کی بنیاد الفاظ کیوں اور کیسے بنے۔

آج مجھے یہ کہانی اس مضمون کو پڑھ کر یاد آئ۔ جو میں نے اردو سیارہ پہ دیکھا۔صاحب مضمون نے اپنی بات میں وزن پیدا کرنے کے لئیے پہلے مذہبی جذبات کو استعمال کیا ہے اور اسکے بعد انہوں نے مضمون کے اخیر میں این جی اوز سے وابستہ خواتین کونہ صرف آوارہ مزاج بلکہ ان کوملک کی موجودہ صورت حال کا ذمہ دار قرار دیا ہے۔ میرا کسی این جی او سے چاہے وہ مردانہ ہو یا زنانہ کوئ تعلق نہیں۔ لیکن میں صاحب تحریر سے اس بات کی وضاحت ضرور چاہوں گی کہ جب خدا نے اس ملک کو مردوں کو ان کی آوارگی پہ کوئ سزا نہیں دی تو میں اپنے اسی خدا سے اس چیز کی توقع نہیں رکھتی کہ وہ اتنی نا انصافی کریگا کہ این جی اوز کی چند درجن خواتین کی وجہ سے اس ملک کو اس حشر تک پہنچا دے۔

خدا اتناجانبدار نہیں ہو سکتا کہ ملک کی دیگر عورتوں اوربچوں کے ساتھ چاہے جس طرح کا بھی سلوک روا رکھا جائے مگر اگر کسی کی آواز پہ وہ لبیک کہے تو وہ صرف جامعہ حفصہ کی خواتین اور بچے ہوں۔ اگر وہ حفصہ کی خواتین اور بچوں کا خدا ہے تو وہ اس دھرتی اور اس کرہء ارض پہ بسنے والے ہر شخص کا خدا ہے۔

مقام حیرت ہے کہ چند عورتیں اپنی آوارگی سے ملک کو اس حشر تک پہنچا سکتی ہیں۔ وہ ملک جہاں کہ حکمرانوں کی اکثریت بنیادی اخلاق کی کجی کا شکار رہی ہو۔ اور جو معاشرہ مردوں کا معاشرہ کہلاتا ہو۔ جہاں کے قوانین مردوں کی اکثریت اپنے مفادات دیکھ کر بناتی ہو۔ جس ملک کا یہ عالم ہو کہ الیکشن کے وقت اس ملک کی تمام بڑی جماعتیں جن میں مسلم لیگ، تمام مذہبی پارٹیاں، جناب عمران خان کی تحریک انصاف اور کچھ اور جماعتیں جن کے نام میرے ذہن سے محو پورہے ہیں ملکر ایک معاہدے پہ دستخط فرماتے ہیں کہ ہمارے ان حلقوں سے کوئ خاتون ووٹ نہیں ڈالے گی۔ جی جناب جہاں خواتین کو اس قدر اختیارات حاصل ہوں وہاں خدا کا عذاب عورتوں کی وجہ سے نہیں آئے گا تو کہاں آئے گا۔

لال مسجد آپریشن سے پہلے اسلام آباد میں ایک خاتون کو فحاشی کا اڈا چلانے کے جرم میں لال مسجد کے خدائ فوجدار ا پکڑ کر لے گئے اور کچھ دنوں تک اسے اپنی تحویل میں بھی رکھا۔ جب تک ان سے یہ وعدہ نہ لے لیا کہ تم یہ دھندہ نہیں کروگی انہیں نہیں چھوڑا گیا۔ انہوں نے بھی اپنی جان چھڑانے کے لئیے یہ وعدہ کر لیا ہو گا۔ درپردہ تو انہیں معلوم ہو گا کہ ہوتا کیا ہے۔

اب اگر آپ میں سے کوئ صاحب یا صاحبہ ہمت رکھتے ہوں تو ڈیٹا جمع کریں ۔ فحاشی کے ان اڈوں پہ، عورتوں کے ان بازاروں میں روزانہ کتنے شادی شدہ اور غیر شادی شدہ مرد جاتے ہیں انکی عمر کیا ہوتی ہے اور وہ کن خاندانوں سے تعلق رکھتے ہیں۔ سارے حساب کتاب کے بعد انہیں پتہ چلے گا کہ پاکستانی مردوں کی کل آبادی کا خاصہ بڑا حصہ ان سے مستفید ہوتا ہے اور انہی شماریات سے اندازہ ہو گا کہ پاکستان کی عورتوں کی کل آبادی کا ایک بہت چھوٹا سا حصہ اس پیشے سے باوجوہ وابستہ ہے جبکہ پاکستانی مرد محض عیاشی کے لئیے ان جگہوں کا رخ کرتے ہیں۔ یا ان خواتین کو اپنے پاس بلاتےہیں۔ معاشیات کا ایک بالکل بنیادی اور سادہ سا اصول ہے اور وہ یہ کہ جب تک ڈیمانڈ ہے سپلائ رہے گی۔ اگر اپ اس سارے خطے کی خواتین کو بالکل پاکباز بنا دیں تب بھی یہ مرد باہر سے اپنی ضرورت پوری کرنے کے لئیے کسی اور کو لے آئیں گے۔

دلچسپ بات یہ ہے کہ صوبہء سرحد جہاں سے آج مذہب کے احیاء کی تحریکیں پیش کی جا رہی ہیں یہاں پاکستان میں سب سے زیادہ ہم جنس پرستی عام تھی اور ہے۔ یہ چیز وہاں اسٹیٹس سمبل یعنی خوشحالی کی علامت سمجھی جاتی ہے ۔ معاشی طور پہ مستحکم مرد کے پاس کچھ نو عمر لڑکے ضرور ہوتے ہیں۔ آج تک اس صوبے کے اندر رائج اس عادت قبیح کا آپ کبھی کسی مذہبی جماعت سے تذکرہ بھی نہیں سنیں گے۔ حالانکہ یہ وہ چیز ہے جس پہ خدا نے ایک قوم پہ اپنا عذاب نازل کیا۔مگر ایک صوبے میں یہ برائ عام ہونے کے باوجود وہاں کوئ عذاب نہ آیا۔عذاب آیا تو ان عورتوں کی وجہ سے۔

تو آج تک کبھی ان مردوں کے خلاف کوئ موءثر کارروائ نہ ہو سکی۔ در حقیقت پوچھا جائے کہ آوارگی کی کیا تعریف ہے تو اس کی کوئ ڈھنگ کی تعریف بھی نہ پیش کی جاسکے گی۔ سوائے خواتین کے اوپر تنقید کرنے کے۔ اس لئیے نہیں کہ کوئ تعریف ہے نہیں بلکہ اس لئیے کہ پھر اس نظام کو اس کرپٹ نظام کو کون بچائے گا۔ مرد ایکدوسرے کے مفادات کا تحفظ کرتے ہیں۔ آخر انہیں ہی اس نظام کو چلانا ہے۔

یہ ایک تبصرہ نگارہیں ایک بلاک پہ فرماتے ہیں کہ یہ رافضی عورتوں کی کوکھ ہی ایسی ہے۔ میر جعفر اور میر صادق کو ہی جنم دیں گی۔ اس مرد محترم کو یہ نہیں معلوم کہ زمین کیسی بھی ہو پھل میں خصوصیات بیج کی آتی ہیں۔ اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ عوتوں کے معاملے میں ہم دن بہ دن کہاں جارہے ہیں۔

لال مسجد والوں نے اپنے وجود کو جب سہارا دینا چاہا تو انہوں نے بھی چند عورتوں کو پکڑ لیا۔ نام نہاد مذہبی تنظیمیں جب اپنی اجارہ داری کو طاہر کرنا چاہتی ہیں تو خواتین کو ہی ہر برائ کی جڑ بنا دیا جاتا ہے یا انکی حیثیت انسان سے بھی کمتر ثابت کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ اقبال ایک جگہ کہتے ہیں کہ
ہند کے شاعروصورتگر و افسانہ نویس
آہ بیچاروں کے اعصاب پہ عورت ہے سوار

اگر اس دور میں زندہ ہوتے تو ضرور ہمارے مذہبی حلقوں کو بھی اس فہرست میں شامل کرتے۔ جس جنونیت کے ساتَھ اب وہ اس راستے پہ گامزن ہیں۔ اس سے لگتا ہے کہ کوئ دن جاتا ہے کہ یہاں پر بھی کوئ میتھیو ہوپ کنس برآمد ہوجائیں گے۔

مغربی معاشرے میں لا دینیت کی تحریک نے ایکدم سے جڑ نہیں پکڑ لی تھی بلکہ ان جیسے عوامل نے لوگوں کے دلوں میں وہاں مذہب کے لئیے نفرت پیدا کی۔ وہاں پہ بھی ایک وقت میں یہی عالم تھا کہ عورتوں کو حقیر، اور ہر برائ کی جڑ سمجھا جاتا تھا۔ ماشاللہ سے ہم بھی انکے نقش قدم پہ جا رہے ہیں۔ افسوس تو یہ ہے کہ ہم ہر اس چیز کو اپنا لیتے ہیں جسے برتنے کے بعد وہ بےکار کہہ کر پھینک دیتے ہیں۔

ایک حدیث جس کا میں ان تمام اصحاب کو حوالہ دینا چاہونگی وہ یہ ہے کہ
جس نے ایک انسان کی زندگی بچائ اس نے ساری انسانیت کو بچا لیا اور جس نے ایک بے گناہ انسان کو قتل کیا تو گویا اس نے ساری انسانیت کو قتل کیا۔
اگر ان آوارہ مزاج عورتوں میں کوئ ایک کسی ایک انسانی جان کو بچا لیتی ہے تو اس نے سارے انسانوں کو بچا لیا۔ اور اگر آپ مذہب کو استعمال کرتے ہوئے کسی ایک بے گناہ کی جان لیتے ہیں تو آپ نے سارے انسانوں کو قتل کردیا۔
آپ نے اپنے معاشرے کے اندر اتنی ناہمواریاں کیسے پنپنے دی ہیں کہ ان عورتوں کو آپ کے درمیان جمنے کا موقع ملا۔ کبھی اس بات پہ بھی غور فرمائیں گے۔ یا ہر وقت خدا کی پھٹکار سے ہی نوازتے رہیں گے۔

میں سمجھتی ہوں ایسے تمام اصحاب کی سختی سے مذمت کرنی چاہئیے۔ آپ کسی کے طرز عمل پہ انگلی اٹھانے سے پہلے اپنے اعمال کو چھان پھٹک کر دیکھ لیں۔ تاریخ کا خوب مطالعہ کریں۔ ذہن اور نظرکی تنگی جہاں لے جاتی ہے۔ ہم سب الحمد للہ وہیں جا رہے ہیں۔

ریفرنس؛

متعلقہ مراسلہ، منیر اے طاہر کے بلاگ پہ موجود ہے

یورپ میں چڑیلیں ۱

یورپ میں چڑیلیں ۲

یورپ میں چڑیلیں ۳