Showing posts with label Hamid Mir. Show all posts
Showing posts with label Hamid Mir. Show all posts

Saturday, May 15, 2010

صیاد کا دام

خود اپنے دام میں صیاد آرہا ہے۔ بس یہ تھا فوری خیال جو میرے ذہن میں آیا۔ جب میں نے یہ ٹیپ کہ ہوئ فون کال سنی جو حامد میر اور طالبان کے کسی اعلی عہدیدار کے درمیان ہوئ۔ اس فون کال کا وقت خالد خواجہ کے قتل سے کچھ دن پہلے کا واقعہ بتایا جاتا ہے۔ آپ بھی مندرجہ ذیل لنک پہ جا کر اس سے مستفید ہو سکتے ہیں۔


  میں نے وارث میر کی کتاب 'حریت فکر' کے مجاہد پڑھی تو میرے وہم و گمان میں بھی نہ تھا کہ ان جیسا لبرل سوچ رکھنے والا شخص حامد میر جیسے کسی شخص کا باپ ہو سکتا ہے۔ یہ تو بھلا ہو انٹر نیٹ کا کہ یہ انکشاف وہیں سے ہوا۔

 وارث میر کی کتاب ' حریت فکر کے مجاہد' کا پیش لفظ پروفیسرکرّار حسین  نے لکھا۔ وہ لکھتے ہیں کہ

پروفیسر وارث میر نہ صرف حریّت فکر کے راہی تھے بلکہ حریّت فکر کے مبلغ بھی تھے۔ حریت فکر کے سلسلے میں انکے جو مضامین ہیں وہ اس ضرورت کے احساس کی نشاندہی کرتے ہیں کہ آج سب سے زیادہ ہماری قوم کو اپنی صحت شعور کے لئیے جس بات کی ضرورت ہے وہ اسلام اور اپنے ماضی کے متعلق رومانیت اور جذباتیت سے نکل کر خود تنقیدی کی نظر پیدا کرنا ہے تاکہ دھندلکوں میں ٹامک ٹوئیاں مارنے کی بجائے مستقبل کے لئے کوئ راستہ روشن ہو سکے۔ رومانیت اور جذباتیت ، جہل کی وہ خطرناک قسم ہے جس سے کہ ہر قسم کا ظلم پیدا ہو سکتا ہے۔ یہ درحقیقت خود کشی کا راستہ ہے۔

وہ خود ایک جگہ لکھتے ہیں کہ
فکری اور سیاسی لحاظ سے پاکستان کے بیمار معاشرے کو ترقی پسندی کی کسی باقاعدہ پارٹی لائن کے مطابق چلنے والی نہ سہی، جدیدیت کی تو یقیناً ضرورت ہے۔
 

اس کتاب کی اشاعت انیس سو نواسی میں ممکن ہوئ۔ لیکن اسکی اشاعت سے دو سال پہلے وارث میر محض اڑتالیس کی عمر میں دل کا دورہ پڑنے سے انتقال کر گئے کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ انہیں زہر دیا گیا تھا۔  اسکے فوراً بعد انکے بیٹے حامد میر کا صحافیانہ کیریئر شروع ہوتا ہے۔  لیکن انہیں بہت زیادہ شہرت غالباً اسامہ بن لادن سے ملاقات کے بعد حاصل ہوئ۔

ایک ترقی پسند باپ، جس نے اپنی تمام زندگی ہر قسم کی ملائیت کے خلاف جہاد میں گذاری، اس کے بیٹے نے جب اپنے لئے فکری نظر منتخب کی تو اسکا انتخاب طالبان جیسی رجعت پسند اور انتہا پسند قوتیں تھیں۔ اس فون کال سے وابستہ حقائق  سے قطع نظر میں حامد میر کو ان لوگوں میں سے سمجھتی ہوں جنہوں نے طالبان کو ہیرو بنانے کی مہم ، میڈیا کے ذریعے زور و شور سے لڑی۔ لال مسجد کو ایک سانحہ بنانے میں انکی کوششوں کو ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔ محض آئ ایس آئ ہی نہیں جیسے جیسے وہ ترقی کے زینے پہ بڑھتے گئے انکا نام سی آئ اے کے ایجنٹ کے طور پہ بھی ابھرا۔ سو یہ بھی ایک سوال ہے کہ ہمارا یہ صیاد، دام کا صیاد ہے یا صیاد کے دام ہے۔
اس ٹیپ کی ہوئ فون کال کوسن کریوں لگتا ہے کہ وہ خالد خواجہ کے قتل کو ایک اخلاقی جواز دے رہے ہیں۔  خالد خواجہ بذات خود  طالبانی جہاد سے متعلق ایک متنازعہ شخصیت،  تو اپنے منطقی انجام تک پہنچ گئ۔ باقی یہ کہ پردہ اٹھنے کی منتظر ہے نگاہ۔