میں نے اپنی دوست کے فیس بک اسٹیٹس پہ لکھا دیکھا۔
لوگ سمجھتے ہیں کہ انکا تجزیہ ہر طرح سے درست ہے۔ حالانکہ وہ اسے اپنے عدسے سے دیکھ رہے ہوتے ہیں اور پھر وہ اپنے اس تجزئیے کو دوسروں پہ نافذ کر دیتے ہیں'۔
لوگ سمجھتے ہیں کہ انکا تجزیہ ہر طرح سے درست ہے۔ حالانکہ وہ اسے اپنے عدسے سے دیکھ رہے ہوتے ہیں اور پھر وہ اپنے اس تجزئیے کو دوسروں پہ نافذ کر دیتے ہیں'۔
یہ جملہ میں نے یا آپ نے پہلی دفعہ نہیں پڑھا ہوگا۔ بلکہ اگر آپ بلاگنگ کرتے ہیں تو ہر روز نہیں تو ہر دوسرے روز اس قسم کی بات ضرور نظر سے گذرے گی۔ اور اگر آپ ٹی وی کے سارے چینل ایک دن میں دیکھ لینے کی سعادت حاصل کرتے ہیں تو روزانہ ہی دیکھنے اور سننے کو ملتا ہوگا۔
ٹیکنالوجی کی ترقی سے اب لوگوں کا مجازی طور پہ ملنا زیادہ آسان ہو گیا ہے۔ مجھے نہیں معلوم کہ ڈفر کی دیکھنے میں کیا شکل ہے، جعفر کی بات کاٹی جائے تو انکے چہرے پہ کیا تائثر آتا ہے، عبداللہ ایک بیس پچیس سال کا معاشی طور پہ خوشحال شخص ہے یا محنت کر کے اپنی اور اپنے گھر والوں کی سپورٹ کرنے والا شخص۔
اور اگر آپ اپنے اطراف میں نظر ڈالیں تو ہر طرف لوگ باتوں میں مصروف ہیں مگر ان لوگوں سے جن سے وہ طبعی طور پہ واقف نہیں یہ مجازی سائے ہیں جنہیں ہم جانتے ہیں مگر جنہیں ہم نہیں جانتے۔ گفتگو بہت زیادہ ہو گئ ہے مگر جان پہچان کا عمل کم۔ ہر طرح کے لوگ، ہر سطح کے لوگ ایکدوسرے سے بات کر رہے ہیں۔
اب پہلے کی طرح ایسا نہیں ہے کہ میں مخاطب کا انتخاب کر کے اس سے بات کروں۔ اس صورت میں مجھے اندازہ ہوتا ہے کہ مجھے کیا کہنا چاہئیے اور جوباً مجھے کیا سننے کو ملے گا اور نتیجتاً میں اپنی پڑوس کی خاتون سے صرف سبزی دال اور بڑھتی ہوئ مہنگائ پہ بات کرتی ہوں آریاءووں کے برصغیر کے اوپر اثرات کی بات نہیں کرتی۔
سبزی اور گوشت کی بڑھتی ہوئ قیمتوں سے ہم دونوں ایک ہی طرح نالاں ہیں اور ایک ہی جیسے پریشان۔ اور اس طرح ہمارے مستحکم تعلقات برسوں سے ایک جیسے چلے آرہے ہیں۔ میں انہیں آریاءووں کے تذکرے سے خراب نہیں کرنا چاہونگی۔
لیکن اب اگر میں ان سے اقبال کی شخصیت پہ بات شروع کروں، اکبر بادشاہ کی پالیسیوں کا دفاع پیش کروں، یونیورسٹی میں طالب علموں کے مسائل تو وہ ایکدم ہکا بکا ہو کر یہی سوچیں گی کہ میں انہیں مرعوب کرنا چاہ رہی ہوں۔ مگر ، میں سمجھتی ہوں اور ہمیشہ یہ باتیں اپنے ایک اور حلقے میں کرتی ہوں۔ جہاں ہم سب لڑجھگڑ کر ایکدوسرے کے نظریات کی دھجیاں اڑا کر، اپنے دل کو ہر کلفت سے خالی کر کے بالآخر آرام سے چائے شربت پیتے ہیں۔
ان محدود حلقوں میں یہ سوال نہیں اٹھ کھڑا ہوتا کہ کوئ اپنا مءوقف دوسرے پہ نافذ کر رہا ہے۔ یا وہ سمجھتے ہیں کہ بس انہی کی بات صحیح ہے۔ بلکہ ہم سمجھتے ہیں کہ اپنے مشاہدے، اپنے علم اور اپنے شخصی رجحان کی وجہ سے وہ یہی نظریہ رکھتے ہیں۔ ہم ایکدوسرے کے لئے نرمی رکھتے ہیں، ہم ایکدوسرے کو کھونا نہیں چاہتے۔ یہ سب چیزیں اسی جگہ اٹھ کھڑی ہوتی ہیں جہاں تعلقات بالکل مجازی نوعیت کے ہوتے ہیں۔ ہم چیزوں کی تفصیلات کو نہیں دیکھتے، مخاطب کی شخصیت سے کلی طور پہ واقف نہیں ہوتے اور نہ اسے اپنے سے الگ تصور کرتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ اگلا شخص تو بالکل ہماری ہی سطح کا ہے پھر بھی اپنی افلاطونیت کیوں بھگار رہا ہے۔ یا اگلا شخص تو ہماری ہی سطح کا ہے پھر بھی ہماری بات کیوں نہیں تسلیم کرتا۔
میں اپنی دوست کو اسکے اس اسٹیٹس پہ لکھتی ہوں کہ
یہ جملہ آجکل کتنی دفعہ دہرایا جاتا ہے۔ میں دیکھتی ہوں کہ یہ جملہ ایک علم رکھنےوالاشخص بھی کہتا ہے اور ایک لا علم شخص بھی،
یہ جملہ ایک تجربہ رکھنے والا شخص بھی کہتا ہے اور نا تجربہ کار بھی،
یہ جملہ ایک گہرامشاہدہ رکھنے والا شخص بھی کہتا ہے اور سرسری مشاہدہ رکھنے والا شخص بھی کہتا ہے،
یہ جملہ وہ شخص بھی کہتا ہے جس نے دنیا دیکھی ہے اور وہ بھی کہتا ہے جس نے اپنے آپکو بھی صحیح سے نہیں دیکھا ہوتا۔
آخر ایسا کیوں ہے؟