میں انکے پاس خالصتاً کاروباری سلسلے میں موجود تھی۔ لیکن جیسا کہ ہماری روایات ہیں ملنے والے سےپہلے ادھر ادھر کی ایک آدھ بات کر لی جاتی ہے۔ ہمارے درمیان بچوں کی بات آ گئ۔ انکے چار بچے تھے سب سے بڑی پندرہ سال ی بچی اور سب سے چھوٹی سات آٹھ سال کی۔ اپنے اکلوتے بارہ سالہ بچے کے متعلق انہوں نے بتایا کہ وہ قرآن حفظ کر رہا ہے۔ تیسری جماعت تک اسکول میں پڑھا لیکن چونکہ ہم نے اسکی پیدائیش پہ یہ ارادہ کیا تھا کہ اسے قرآن حفظ کرائیں گے اس لئے وہاں سے نکال کر اسے مدرسے میں ڈال دیا۔
حلئیے سے ایک فیشن ایبل خاتون، جنکی بھنوئیں بنی ہوئیں، بال کندھے تک ترشے ہوئے اور رنگے ہوئے، ہونٹوں پہ ہلکی سی لپ اسٹک کی تہہ جمی ہوئ، جدید تراش خراش کے کپڑے پہنے ہوئے، کیا اس خاتون سے کوئ توقع کر سکتا ہے کہ اپنے اکلوتے بیٹے کو ایک جدید اسکول سے نکال کر ایک مدرسے میں ڈال دے گی؟
وہ اکیلی نہیں، میں انگلش ڈپارٹمنٹ میں انگریزی پڑھانے والی ایک خاتون سے ملی جنہوں نے انگریزی لسانیات میں ماسٹرز کیا ہوا تھا۔ انکی بچی ایک انگلش میڈیئم اسکول میں پڑھ رہی تھی ایک ذہین بچی، انکی اکلوتی اولاد۔ اس عرصے میں وہ جماعت اسلامی سے متائثر ہو گئیں۔ خود حجاب لینا شروع کیا اپنی بچی کا اسکول چھڑایا۔ یونیورسٹی سے کئ سال کی چھٹی لی، گھر پہ ایک مولوی صاحب کی خدمات لی گئیں اور بچی کو حفظ کرانے سے لگا دیا۔ اب تیرہ سال کی عمر میں انکی بچی فافظہ قرآن ہے۔ جہاں سے کہیں فر فر سنا دے گی لیکن اسکے معانی کیا ہیں اس سے آگاہ نہیں۔
حفظ کرانے کا فیشن اسّی کی دہائ میں متعارف ہوا۔ اس سے پہلے بہت کم بچے حفظ کرتے تھے۔ حفظ کرانے والے مدرسے اسّی کی دہائ میں مشرومز کی طرح سے ایک دم اگ آئے۔کسی بھی روڈ سے گذر جائیں ایک نہ ایک ایسا مدرسہ ضرور نظر آجائے گا۔ مجھے یقین ہے ساری دنیا میں پاکستان اس معاملے میں اول نمبر پہ ہوگا جہاں بچوں کی ایک کثیر تعداد اس وقت قرآن حفظ کر رہی ہے اور سب سے زیادہ مدرسے اس ضمن میں موجود ہیں۔
لوگ کیوں اتنا زیادہ حفظ قرآن کی طرف راغب ہوئے؟ اسکا جواب بڑھتی ہوئ انتہا پسندی میں ہے۔
اس سے پہلے مدرسے بہت کم ہوتے تھے اور اکثر بچے خاندان کے کسی بزرگ سے ہی قرآن ناظرہ پڑھا کرتے تھے یا پھر محلے کی کوئ فارغ ضعیف خاتون یہ کام انجام دیتی تھیں یوں عمر کے اس حصے میں انہیں یہ سرگرمی حاصل رہتی۔
یہ ہمارے مرد حق، جنرل ضیاءالحق کا دور تھا۔ ان مدرسوں کے قیام کے لئے فنڈ کہاں سے آئے ہونگے۔ اسکا اندازہ لگانا مشکل نہیں۔ یہ یقیناً ہمارے سعودی کرم فرماءوں کی ہم جیسی گنہاگار قوم پہ نظر عنایت ہوگی کہ حافظ بچوں کی وجہ سے ہی ہم بخشے جائیں۔ کیونکہ زیادہ تر ان مدرسوں کا فقہ سعودی فقہ سے متائثر تھا۔ مثلاً اقراء حفظ مراکز میں بچوں کی ماءوں سے بات کرنے سے گریز کیا جاتا ہے اور اصرار ہوتا ہے کہ کسی مرد کو بھیجیں۔
میں نے خود بھی سعودی فنڈ سے چلنے والے ایک مدرسےسے ناظرہ قرآن کی تعلیم لی۔ اور اب مجھے حیرت ہوتی ہے کہ کیسے ہمارے مدرسے کے منتظمین نے اچانک یہ فیصلہ صادر کیا کہ یا تو اسکول کی تعلیم حاصل کرو یا پھر اس مدرسے میں ناظرہ قرآن پڑھو۔
میں نے ان خاتون سے پوچھا کہ قرآن حفظ کرنے کے بعد آپ نےاپنےبچے کی باقی زندگی کے لئے کیا سوچا ہے۔ جواب ملا ہم نے تو ہمیشہ خدا پہ توکل کیا ہے۔ وہی کوئ راستہ نکالے گا۔
وہ اکیلی نہیں، میں انگلش ڈپارٹمنٹ میں انگریزی پڑھانے والی ایک خاتون سے ملی جنہوں نے انگریزی لسانیات میں ماسٹرز کیا ہوا تھا۔ انکی بچی ایک انگلش میڈیئم اسکول میں پڑھ رہی تھی ایک ذہین بچی، انکی اکلوتی اولاد۔ اس عرصے میں وہ جماعت اسلامی سے متائثر ہو گئیں۔ خود حجاب لینا شروع کیا اپنی بچی کا اسکول چھڑایا۔ یونیورسٹی سے کئ سال کی چھٹی لی، گھر پہ ایک مولوی صاحب کی خدمات لی گئیں اور بچی کو حفظ کرانے سے لگا دیا۔ اب تیرہ سال کی عمر میں انکی بچی فافظہ قرآن ہے۔ جہاں سے کہیں فر فر سنا دے گی لیکن اسکے معانی کیا ہیں اس سے آگاہ نہیں۔
حفظ کرانے کا فیشن اسّی کی دہائ میں متعارف ہوا۔ اس سے پہلے بہت کم بچے حفظ کرتے تھے۔ حفظ کرانے والے مدرسے اسّی کی دہائ میں مشرومز کی طرح سے ایک دم اگ آئے۔کسی بھی روڈ سے گذر جائیں ایک نہ ایک ایسا مدرسہ ضرور نظر آجائے گا۔ مجھے یقین ہے ساری دنیا میں پاکستان اس معاملے میں اول نمبر پہ ہوگا جہاں بچوں کی ایک کثیر تعداد اس وقت قرآن حفظ کر رہی ہے اور سب سے زیادہ مدرسے اس ضمن میں موجود ہیں۔
لوگ کیوں اتنا زیادہ حفظ قرآن کی طرف راغب ہوئے؟ اسکا جواب بڑھتی ہوئ انتہا پسندی میں ہے۔
اس سے پہلے مدرسے بہت کم ہوتے تھے اور اکثر بچے خاندان کے کسی بزرگ سے ہی قرآن ناظرہ پڑھا کرتے تھے یا پھر محلے کی کوئ فارغ ضعیف خاتون یہ کام انجام دیتی تھیں یوں عمر کے اس حصے میں انہیں یہ سرگرمی حاصل رہتی۔
یہ ہمارے مرد حق، جنرل ضیاءالحق کا دور تھا۔ ان مدرسوں کے قیام کے لئے فنڈ کہاں سے آئے ہونگے۔ اسکا اندازہ لگانا مشکل نہیں۔ یہ یقیناً ہمارے سعودی کرم فرماءوں کی ہم جیسی گنہاگار قوم پہ نظر عنایت ہوگی کہ حافظ بچوں کی وجہ سے ہی ہم بخشے جائیں۔ کیونکہ زیادہ تر ان مدرسوں کا فقہ سعودی فقہ سے متائثر تھا۔ مثلاً اقراء حفظ مراکز میں بچوں کی ماءوں سے بات کرنے سے گریز کیا جاتا ہے اور اصرار ہوتا ہے کہ کسی مرد کو بھیجیں۔
میں نے خود بھی سعودی فنڈ سے چلنے والے ایک مدرسےسے ناظرہ قرآن کی تعلیم لی۔ اور اب مجھے حیرت ہوتی ہے کہ کیسے ہمارے مدرسے کے منتظمین نے اچانک یہ فیصلہ صادر کیا کہ یا تو اسکول کی تعلیم حاصل کرو یا پھر اس مدرسے میں ناظرہ قرآن پڑھو۔
میں نے ان خاتون سے پوچھا کہ قرآن حفظ کرنے کے بعد آپ نےاپنےبچے کی باقی زندگی کے لئے کیا سوچا ہے۔ جواب ملا ہم نے تو ہمیشہ خدا پہ توکل کیا ہے۔ وہی کوئ راستہ نکالے گا۔
ہمم، میں نے مسکراتے ہوئے کہا کہ یہ جو کاروباری معاہدہ ہم کرنے جا رہے ہیں اس کے لئے بھی تو آپ نے کوئ منصوبہ بندی کی ہے ناں ۔ بغیر منصوبہ بندی کے تو کوئ اتنا بڑا قدم نہیں اٹھاتا۔ اسے تو آپ نے خدا توکل پہ نہیں چھوڑا۔ پھر اپنے بچے کو کیسے آپ نے اس طرح چھوڑ دیا؟
ایک کمزور آواز میں جواب آیا ، ہو سکتا ہے کل وہ کوئ بڑا عالم دین بن جائے۔
میں نے آواز کی اس کمزوری کو جان کر ان سے پوچھا نہیں کہ مودودی صاحب کے بارے میں کیا خیال ہے وہ حافظ قرآن نہیں تھے لیکن عالم دین کی صف میں کھڑے ہیں۔ ایک بڑی تعداد میں عالم دین ہیں جو حافظ قرآن نہیں۔ عالم دین بننے کے لئے دین کی سمجھ ہونا ضروری ہے جس کتاب کی طرف رجوع کرتے ہیں اس زبان کا سمجھ میں آنا ضروری ہے اس لئے جو بات ہماری سمجھ میں آتی ہے وہ یہ ہے کہ بجائے اسے حفظ کرنے میں وقت لگانے کے عربی زبان سیکھنے میں وقت لگایا جائے تو بات ہے سمجھ کی۔
کیا بچوں کو قرآن حفظ کرانے سے دین کی کوئ خدمت ہوتی ہے؟
ہم ٹیکنالوجی کے اس دور میں ہیں کہ قرآن با ترجمہ کمپیوٹر پہ اس طرح موجود ہے آپ جب چاہیں کسی حوالے سے کوئ آیت نکال لیں۔ قرآن پہلے سے زیادہ محفوظ ہے۔
میں نے آواز کی اس کمزوری کو جان کر ان سے پوچھا نہیں کہ مودودی صاحب کے بارے میں کیا خیال ہے وہ حافظ قرآن نہیں تھے لیکن عالم دین کی صف میں کھڑے ہیں۔ ایک بڑی تعداد میں عالم دین ہیں جو حافظ قرآن نہیں۔ عالم دین بننے کے لئے دین کی سمجھ ہونا ضروری ہے جس کتاب کی طرف رجوع کرتے ہیں اس زبان کا سمجھ میں آنا ضروری ہے اس لئے جو بات ہماری سمجھ میں آتی ہے وہ یہ ہے کہ بجائے اسے حفظ کرنے میں وقت لگانے کے عربی زبان سیکھنے میں وقت لگایا جائے تو بات ہے سمجھ کی۔
کیا بچوں کو قرآن حفظ کرانے سے دین کی کوئ خدمت ہوتی ہے؟
ہم ٹیکنالوجی کے اس دور میں ہیں کہ قرآن با ترجمہ کمپیوٹر پہ اس طرح موجود ہے آپ جب چاہیں کسی حوالے سے کوئ آیت نکال لیں۔ قرآن پہلے سے زیادہ محفوظ ہے۔
کیا واقعی قرآن حفظ کرنے والے بچے کے چالیس یا ستر رشتے دار بخشے جائیں گے یا اسکے والدین کو روز قیامت عام معافی مل جائے گی؟
اگر یہ سچ ہوتا تو قرآن یہ کیوں کہتا کہ ہر شخص اپنے اعمال کا خود ذمہ دار ہے۔
یا اس لئے کہ حافظ قرآن کو معاشرے میں خاص احترام حاصل ہوتا ہے۔ اس لئے کہ شاعر بھی یہ کہتا نظر آتا ہے کہ
اگر یہ سچ ہوتا تو قرآن یہ کیوں کہتا کہ ہر شخص اپنے اعمال کا خود ذمہ دار ہے۔
یا اس لئے کہ حافظ قرآن کو معاشرے میں خاص احترام حاصل ہوتا ہے۔ اس لئے کہ شاعر بھی یہ کہتا نظر آتا ہے کہ
اے خال رخ یار تجھے ٹھیک بناتا
جا چھوڑ دیا حافظ قرآں سمجھ کے
لیکن شاعر تو جناب شاعر ہوتا ہے اسکی بات کا کیا بھروسہ۔
اب ایک نیا سوال پیدا ہوتا ہے کہ آخر ایسے ادارے کیوں نہیں اتنی بڑی تعداد میں بن جاتے جہاں عربی زبان سکھائ جائے تاکہ اپنی مذہبی کتاب تک ہر مسلمان کی پہنچ آسان ہو جائے اور خدا کی کتاب کو وہ بغیر کسی ذریعے کے سمجھ پائے۔ ایسے ہی جیسے دنیا کی کسی اور عوامی کتاب کو ہم سجھتے ہیں۔ قرآن حفظ کرنے میں کم از کم پانچ سال لگتے ہیں ، عام طور پہ تین چار سال کے بچے کو مدرسے کے حوالے کیا جاتا ہے۔ اگر اس جذبے سے دن رات عربی زبان سیکھائ جائے تو اس میں بے پایاں مہارت پیدا ہو جائے۔
لیکن شاعر تو جناب شاعر ہوتا ہے اسکی بات کا کیا بھروسہ۔
اب ایک نیا سوال پیدا ہوتا ہے کہ آخر ایسے ادارے کیوں نہیں اتنی بڑی تعداد میں بن جاتے جہاں عربی زبان سکھائ جائے تاکہ اپنی مذہبی کتاب تک ہر مسلمان کی پہنچ آسان ہو جائے اور خدا کی کتاب کو وہ بغیر کسی ذریعے کے سمجھ پائے۔ ایسے ہی جیسے دنیا کی کسی اور عوامی کتاب کو ہم سجھتے ہیں۔ قرآن حفظ کرنے میں کم از کم پانچ سال لگتے ہیں ، عام طور پہ تین چار سال کے بچے کو مدرسے کے حوالے کیا جاتا ہے۔ اگر اس جذبے سے دن رات عربی زبان سیکھائ جائے تو اس میں بے پایاں مہارت پیدا ہو جائے۔
اسکے جواب کے لئے کسی ذہنی تگ و دو کی ضروت نہیں۔ ہمیں ایک بہتر مسلمان دیکھنے کے خواہشمند خدا اور اور ہمارے درمیان ڈائریکٹ ڈائلنگ پسند نہیں کرتے ورنہ انکا وجود بے مصرف ہو جائے انکی بڑائ جھوٹی قرار پائے اور انکے روزگار کو بھاری زک پہنچے۔