Friday, August 6, 2010

سیلاب سے سیر تک

ملک میں سیلاب آیا ہوا ہے۔ ڈیڑھ ہزار سے زائد لوگ ہلاک ہو چکے ہیں۔  صرف خیبر پختونخواہ میں بیالیس لاکھ کے قریب  لوگ متائثر ہوئے ہیں۔ مال مویشی، فصل کا نقصان الگ۔
ادھر کراچی میں فسادات کے نتیجے میں اسی سے زائد افراد تین دن میں ہلاک ہو چکے ہیں۔ پولیس اور رینجرز کو فسادیوں کو دیکھتے ہی گولی مار دینے کا حکم لیکن یہ دیکھنا باقی ہے کہ یہ گولی کس پہ چلے گی۔ شاید ابھی تک ٹاس ہو رہا ہے۔ شہر میں کاروباری سرگرمیاں ماند۔ ظاہر سی بات ہے کہ اس قسم کی تمام سرگرمیاں کسی جگہ کے سیاسی استحکام سے جڑی ہوتی ہیں۔  حکومت کو اس سلسلے میں جو ٹھوس اقدامات کرنے چاہئیں وہ انہیں کرنے سے قاصر نظر آتی ہے۔ اس لئے اہم سوال یہ ہے کہ شہر کی معیشت کا پہیہ دوبارہ ہمواری سے چلنے کے قابل کیسے ہوگا۔
 ایک ایسی افراتفری کے عالم میں صدر صاحب، فرانس اور انگلینڈ کی سیرپہ روانہ ہو گئے۔ حالانکہ کچھ لوگوں نے سمجھانے کی کوشش بھی کی۔ پاکستان کی تاریخ کا بد ترین سیلاب آیا ہوا ہے آپکی با برکت ذات یہاں رہے گی تو دل کو ڈھارس رہے گی۔ مگر انہوں اسی رقت سے کہا کہ ۔ لیکن  داءود کامران میرا مطلب ہے ڈیوڈ کیمرون کا کیا کروں اس نے دشمن ملک میں بیٹھ کر کہا کہ پاکستان دہشت گردی برآمد کر رہا ہے۔ میری غیرت اسے گوارا نہیں کرتی۔ میں جاءونگا اوئے مجاوراں۔ پاکستان کھپے کھپے۔


پھر لوگوں نے سمجھایا کہ حضور وہاں جانے کے بجائے گھر پہ ہی رہئیے اور یہاں سے بیان جاری کر دیں کہ ہمیں تمہاری بک بک قطعاً پسند نہیں آئ۔ ہم تم پہ تھوکتے بھی نہیں۔ اس وقت آپکا جانا غیرت کے منافی ہے۔ مگر انہوں نے کہا کہ نہیں یہ پتر ہٹاں تے نئیں مل دے۔ میں انہیں انکے گھر میں ذلیل کر کے آءونگا، ورنہ ہم جشن آزادی کیسے منائیں گے۔  مذاق سمجھا ہوا ہے انہوں نے ہر بات کو۔ اگر پاکستان دہشت گردی بر آمد کر رہا ہے تو اسکے کمیشن میں میرا حصہ کہاں ہے۔


پہلا ذلیل کرنے والا بیان انہوں نے فرانس میں ایک بہترین ہوٹل سے نکلنے کے بعد دیا۔ اپنے اس بیان میں انہوں ے کہا کہ بین الاقوامی کمیونٹی طالبان سے جنگ ہار رہی ہے۔ 
چغل خوروں کا کہنا ہے کہ انکا فرانس میں ایک محل موجود ہے پھر بھی انہوں نے پاکستانیوں پہ اس ہوٹل کی رہائیش کا بوجھ ڈالا۔ یہ دو ٹکے کے چغل خور بھول جاتے ہیں کہ وہ اس وقت  پاکستان کی جگ ہنسائ کے آفیشل ٹور پہ ہے۔
انکی پارٹی کی ایک جیالی خاتون فوزیہ وہاب کا کہنا ہے کہ پاکستان کے ان گنت حکمرانوں میں صرف زرداری صاحب ایسے ہیں جو برطانیہ کے وزیر اعظم سے انکی ذاتی رہائیش گاہ پہ ملیں گے باقی سب تو آفس میں ملتے رہے۔ اس پہ کچھ دل جلوں نے کہا کہ سنجیدہ ٹورز تو آفس میں ہی ہوتے ہیں۔ البتہ جائداد وغیرہ کی ڈیل ذاتی رہائیش گاہ پہ ہوتی ہے۔ اس فارن پالیسی کے ٹور میں فارن منسٹر کے ساتھ میں نہ ہونے کی وجہ انہوں نے یہ بتائ کہ صدر زرداری کو کیا کسی فارن منسٹر کی ضرورت ہے۔ تب تو فارنمنسٹر کو ابھی ابھی برخواست کر کے انکی بچنے والی تنخواہ کو سیلاب زدگان کے فنڈ میں ڈالدینا چاہئیے۔
برطانیہ کے اخبار جو پہلے ڈیوڈ کیمرون کی مذمت میں لگے ہوئے تھے کہ اس نے ایسا بیان دیا ہی کیوں۔ اب اس بات پہ اپنی حیرانی کا واویلہ مچائے ہوئے ہیں کہ صدر زرداری اپنے ملک کے اتنے بد ترن حالات میں ڈیوڈ کیمرون کی رہائیش گاہ کا جائزہ لینے کیوں آئے ہیں؟ گورے تو ہیں ہی ہمیشہ کے ایسے ہی فساد کے بیج بونے والے۔
گوروں کو نہیں معلوم کہ یہ غیرت کا معاملہ ہے۔ انکے یہاں غیرت ہوتی جو نہیں ہے۔
یہاں وطن میں غیرت کے معنوں پہ نئ ریسرچ شروع ہو گئ ہے کہ امریکی ہیلی کاپٹر سوات میں پھنسے لوگوں کو ریسکیو کرنے سے لگے ہوئے ہیں۔ کیا امریکیوں سے اس طرح کی امداد لینا جائز ہے۔
گیلانی صاحب، انہیں صاحب لکھتے  ہوئے کچھ کچھ ہوتا ہے کہ انہیں دیکھ کر مسٹر بین خدا جانے کیوں یاد آتا ہے حالانکہ اس کمبخت کی اتنی پیاری مونچھیں بھی نہیں ہیں۔ خیر انہوں نے بھی میانوالی میں سیلاب زدگان کے لئے ایمرجینسی میں ایک اسکول میں قائم کئےجانےوالے ہسپتال میں جا کر ایک کامیاب فوٹو سیشن کرایا اور کہا کہ صدر کےملک میں موجود ہونے کی کوئ ضرورت تو نہیں میں ہوں ناں تصویری سیشنز کے لئے، میرا چہرہ زیادہ فوٹو جینک ہے۔ خطرہ یہ پیدا ہو چلا ہے کہ انکی عدم ضرورت کہیں بڑھ کر ہمیشہ کے لئے نہ ہو جائے۔
گیلانی صاح__________ب، اب کراچی بھی آئیں گے تاکہ یہاں کے حالات کے ساتھ ایک فوٹو سیشن ہو سکے۔  یہ تمام تصویریں بعد از وزارت عظمی سند رہیں گی اورانکی اگلی نسل کی بڑھکوں میں  نہ صرف کام آئیں گی بلکہ دوبارہ وزارت عظمی کے لئے انکی نسل میں سے لوگوں کو ترجیح دینے کا باعث بھی بنیں گی۔ کلاءون وزیر اعظم بنے رہنے کا نسلی تجربہ۔ لیکن انہوں نے ایک کام کی بات اور کہی کہ  اگر زرداری صاحب نہ جاتے اور ملک میں ہی رہتے تو بھی ایشوز کھڑے ہوتے رہتے، زرداری صاحب کی شخصیت ہے ہی ایسی۔
دل جلوں نے کہا کہ ڈیڑھ  ہزار سے اوپر لوگ تو سیلاب کی نظر ہو گئے کچھ نہ ہوا، وہ کہتے ہیں کہ ایک زرداری سب پہ بھاری۔ اگر وہ ہوتے تو آزما کر دیکھ لینے میں کیا حرج تھا۔

5 comments:

  1. آپ کی سیاسی تحریروں میں وہ نزاکت اور گہرائی نہیں ہے جو آپ کی غیر سیاسی تحریروں میں ہوتی ہے. مثلا اس تحریر کے انداز بیان میں اور "گگا....گالی" تحریر کے انداز بیان میں زمین اور آسمان کا فرق ہے.
    باقی رہ گئی پاکستانی سیاست...تو اس سےمجھے کوئی سروکار نہیں.
    لیکن کہیں یہی تو میرے بور ہونے کی وجہ تو نہیں؟
    آپ کی مزاح نگاری بھی اتنی اچھی نہیں ہے.
    دیکھا..
    میں بھی ایک چھوٹا موٹا بلاگی نقاد بن چکا ہوں. آخر بلاگر اعظم ہوں.
    :)

    ReplyDelete
  2. اپکے مضامین بہترین ہین-- کیون نہ گیسٹ کامیسٹ بن جایئں

    ReplyDelete
  3. عثمان کی باتوں پہ نہ جائیے گا جی۔۔۔۔ اچھا لکھا ہے آپنے۔۔۔
    اس موضوع پہ جتنا لکھیں کم ہے۔۔ پتا نہیں کیوں!
    اور عثمان تمہیں آہستہ آہستہ سمجھ آ جائے گی کہ پاکستانی سیاست پہ لکھنا تفریحِ طبع کیلئے کتنا ضروری ہوتا ہے۔۔۔ :)۔

    ReplyDelete
  4. جس قوم نے صرف ایک ہی نعرہ سیکھا ہو ’جئے بھٹو‘ اور ’زرداری سب پر بھاری‘۔ ایسی قوم کو تو قدرت ضرور نشان عبرت بناتی ہے۔

    ReplyDelete
  5. عنیقہ حکمرانوں کو کیا کہہ رہی ہیں یہاں تو عوام بھی کوئی کم نہیں ہیں کہ اپنے علاقے ڈوبے پڑے ہیں اور بھائی لوگ ہائے کراچی وائے کراچی کہہ کہہ کر مگر مچھ کے آنسو بہانے میں لگے ہیں !
    یہ سیلاب بھی لوگوں کے لیئےکمائی اور سیاست کا ذریعہ بن گیا ہے،
    http://www.bbc.co.uk/urdu/pakistan/2010/08/100806_flood_aid_politics.شٹمل
    پورا جنوبی پنجاب ڈوب گیا مگر ان وسطی پنجاب والوں کو کراچی کے رونے رونے سے فرصت نہیں،لوگ رو رہے ہیں کہ ان کے علاقے جان بوجھ کر ڈبوئے گئے ہیں اور ان مگر مچھ کے آنسو بہانے والوں کو وہاں کوئی سازشیں نظر نہیں آرہیں !
    http://www.dw-world.de/dw/article/0,,5874823,00.html?maca=urd-rss-urd-all-1497-rdf

    ReplyDelete

آپ اپنے تبصرے انگریزی میں بھی لکھ سکتے ہیں۔
جس طرح بلاگر کا تبصرہ نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں، اسی طرح تبصرہ نگار کا بھی بلاگر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اس لئے اپنے خیال کا اظہار کریں تاکہ ہم تصویر کا دوسرا رخ بھی دیکھ سکیں۔
اطمینان رکھیں اگر آپکے تبصرے میں فحش الفاظ یعنی دیسی گالیاں استعمال نہیں کی گئ ہیں تو یہ تبصرہ ضرور شائع ہوگا۔ تبصرہ نہ آنے کی وجہ کوئ ٹیکنیکل خرابی ہوگی۔ وہی تبصرہ دوبارہ بھیجنے کی کوشش کریں۔
شکریہ