Wednesday, April 4, 2012

تقدس سے باہر-۵

 گذشتہ سے پیوستہ

مکہ کو جو عزت حاصل تھی  وہ کعبے کی وجہ سے تھی۔ اور فوٹون سمجھتا ہے کہ  آج بھی انکی عزت اور تقدس کی وجہ وہی ہے۔ ورنہ اس میں غلط کیا ہے کہ

پڑھتا ہوں تو کہتی ہے یہ خالق کی کتاب
ہے مثل ِ یہودی یہ سعودی بھی عذاب
اس قوم کے بارے میں قمر کیا لکھئے
کعبے کی کمائ سے جو پیتی ہو شراب

 قریش کا خاندان اسکی وجہ سے عرب پہ حکومت کرتا تھا۔ اور ہمسائیگان خدا، بلکہ آل اللہ یعنی خاندان الہی کہلاتے تھے۔انکی عزت کی وجہ یہ تھی کہ وہ کعبہ کے مجاور اور کلیہ بردار تھے۔  اس تعلق سے قریش کا کاروبار پھیلتا گیا۔ یہاں تک کے متعدد محکمے اور بڑے بڑے مناصب قائم کئے گئے۔ اسی وجہ سے خاندان بنو امیہ اور بنو ہاشم  ایکدوسرے کے حریف تھے اور اسلام آنے کے بعد بھی مختلف مواقع پہ ان دونوں قبائل کے اس جدی پشتی رجحان کی وجہ سے فساد ہوئے۔
اس پس منظر میں قریش نے دین اسلام کی مخالفت کی اسکی وجوہات کچھ اس طرح سامنے آتی ہیں۔
اسلام انکے آبائ دین کے خلاف تھا۔ تند خو قوموں کا مزاج ہوتا ہے کہ انکی مخالفت زبانی مخالفت نہیں ہوتی۔ اس لئے انہوں نے ہر طرح کا ظلم روا رکھا۔
اس تسلسل میں آگے دیکھیں تو دوسرا سبب یہ تھا کہ مختلف خداءووں اور کعبے پہ ان کے حق ملکیت کا ایک طلسم قائم تھا جس سے قریش کی عظمت، اقتدار اور عالمگیر اثر کا قائم تھا۔ اسلام کے ساتھ اسکے ختم ہونے کا اندیشہ تھا۔  اس لئے جس کو زیادہ نقصان پہنچنے کا اندیشہ تھا اس  نے زیادہ مخالفت کی۔ یہ تو ہم آجکی سیاست میں بھی دیکھتے ہیں۔
ابو لہب رءوسائے قریش میں شامل تھا۔ اسکے علاوہ بھی  اسلام کےنمایاں  دشمنوں میں رءوسائے قریش نمایاں  نظر آتے ہیں۔ان کا خیال تھا کہ نبوت کا منصب اگر کسی کو ملنا ہی ٹہرا تو اسکے حقدار مکہ یا طائف کا کوئ رئیس ہونا چاہئیے تھا۔
اسکے علاوہ ریاست کے منتظم کے ساتھ دولت اور اولاد کا ہونا ضروری ہے۔ یہ خیال کیا جاتا رہا کہ جس شخص کے اولاد نہ ہو اسے آخرت میں برکت نہیں مل سکتی۔  اولاد سے مرد کسی شخص کے لڑکے۔ اس لحاظ سے رسول اللہ دونوں اوصاف سے خالی تھے۔ تو یہ کیسے ممکن تھا کہ وہ منتظم بن جائیں۔
ایک اور وجہ جو بیان کی جاتی ہے وہ قریش کی عیسائیوں سے بڑی نفرت تھی۔ اسکی وجہ یہ تھی کہ حبش کا جو بادشاہ کعبے کو ڈھانے آیا تھا وہ عیسائ تھا۔  ادھر اسلام اور نصرانیت میں کافی چیزیں مشترک ہیں اس لئے قریش کو خیال ہوا کہ محمد یہاں عیسائیت قائم کرنا چاہتے ہیں۔
ایک اور سبب خاندانی رقابت تھا۔ عتبہ بن ابی معیط جو آپکا سب سے بڑا دشمن تھا اور جس نے نماز کی حالت میں آپ پہ اونٹ کی اوجھڑی لا کر ڈالی تھی، اموی تھا۔ رسول اللہ کا تعلق بنو ہاشم سے تھا۔ ابو جہل کی ایک تقریر سے اس دشمنی کا پتہ چلتا ہے ایک دفعہ اخنسا بن شریق نے ابو جہل سے رسول اللہ کے بارے میں رائے پوچھی تو اس نے کہا
ہم اور آل بنو ہاشم ہمیشہ حریف رہے۔ انہوں نے مہمانداریاں کیں تو ہم نے بھی کیں، انہوں نے خون بہا دئیے تو ہم نے بھی دئیے۔ انہوں نے فیاضیاں کیں تو ہم نے  ان سے بڑھ کر کیں۔ یہاں تک جب ہم نے انکے کاندھے سے کاندھا ملا دیا تو اب بنو ہاشم پیغمبری کے دعویدار ہیں۔ خدا کی قسم ہم اس پیغمبر پہ ہرگز ایمان نہیں لا سکتے۔
سب سے بڑا سبب یہ بھی تھا کہ رسول اللہ بت پرستی کی برائیوں کے ساتھ انکی کرپشن سے بھی پردہ اٹھاتے جاتے جو انہیں اپنی شہنشاہی کی توہین لگتا۔ مثلاً ابو لہب نے حرم کعبہ کی ملکیت میں سونے کا ایک ہرن تھا اسے نکال کر بیچ ڈالا تھا۔ رءوسائے عرب کی اکثریت جھوٹ بولتی تھی اور یہ دیگر بد اخلاقیوں کا بھی اسی شدت سے شکار تھے۔
کرپشن اور معاشرتی نا انصافی نے معاشرے میں شدید مایوسی پھیلائ ہوئ تھی اور نچلا طبقہ بڑی تعداد میں موجود ہوتے ہوئے بھی موجود  نہیں تھا۔
ایک سوال یہ بھی اٹحتا ہے کہ آخر قریش نے ابتداء ہی میں رسول اللہ کو ختم کر کے ان سے نجات کیوں نہیں پالی۔ اسکی وجہ یہ تھی کہ قریش مسلسل جنگوں میں تباہ ہو چکے تھے۔ کیونکہ کوئ بھی لڑائ کسی ایک گروہ تک محدود نہ رہتی نہ ایک نسل تک۔  جب تک اس کا بدلہ نہ لیا جاتا  انتقام کی آگ بجھ نہ پاتی۔ رسول اللہ کے ساتھ ایسا کرنے کی صورت میں پھر ایسی جنگ چھڑ جاتی۔
معاشرہ ویسے ہی غرباء کے لئے سخت تھا۔ رسول اللہ کے اعلان نبوت کے جواب میں ان غرباء اور کمزوروں کی بڑی تعداد نے انکی طرف رخ کیا۔ قریش نے ان پہ سخت مظالم کی انتہا کر دی۔  عالم یہ تھا کہ ابو جہل نے اپنی کنیزحضرت بسینہ کو اتنا مارا کہ انکی آنکھیں جاتی رہیں۔ اسی طرح کے مظالم دیگر غلاموں اور کنیزوں پہ توڑے گئے۔ لیکن پھر بھی انہوں نے رسول اللہ کا ساتھ نہ چھوڑا۔
فوٹون سوچتا ہے کوئ اپنی آخری امید کا جسے اس پہ یقین ہو، اعتماد ہو کبھی ساتھ نہیں چھوڑتا۔
ان سب حالات کے مطالعے کے بعد فوٹون یہ دیکھتا ہے کہ مجموعی طور پہ عرب کے حالات اس نہج کے تھے ک ان میں کسی مصلح کا اٹھنا ضروری ہو گیا تھا۔ اور اس موقع پہ رسول اللہ نے بڑی حکمت سے اس قوم کو نئ سمت دی۔

جاری ہے
نوٹ؛ اس تحریر کی تیاری میں جس کتاب سے مدد لی گئ ہے وہ مولانا شبلی نعمانی کی  سیرت النبی ہے۔ اسکے پبلشر ہیں الفیصل ناشران و تاجران کتب۔

شبلی نعمانی کی سیرت النبی یہاں سے ڈاءونلوڈ کیجئیے۔
  

2 comments:

  1. ان پانچ اقساط میں ماسوائے لفظ فوٹان کے اب تک کوئی نئی بات سامنے نہیں آئی۔
    کوئی بات نہیں ، دہرائی کرتے رہنا اچھی بات ہوتی ہے۔ تاہم عنوان غیر ضروری سا معلوم ہوتا ہے۔ نیا نام سفرنامہ فوٹان تجویز کیا جاتا ہے۔

    ReplyDelete
  2. اگر لکھنے کے بعد پروف ریڈنگ بھی کر لیا کریں تو تحریر کی خوبصورتی بڑھ جائے گی۔
    آئے، جائے، لکھنے کے لیے آ ئ ے استعمال کریں۔ ء کسی ھرف کے ساتھ نہیں جڑتا اور لفظ کے آخر میں ہی ڈالا جاتا ہے۔

    ReplyDelete

آپ اپنے تبصرے انگریزی میں بھی لکھ سکتے ہیں۔
جس طرح بلاگر کا تبصرہ نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں، اسی طرح تبصرہ نگار کا بھی بلاگر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اس لئے اپنے خیال کا اظہار کریں تاکہ ہم تصویر کا دوسرا رخ بھی دیکھ سکیں۔
اطمینان رکھیں اگر آپکے تبصرے میں فحش الفاظ یعنی دیسی گالیاں استعمال نہیں کی گئ ہیں تو یہ تبصرہ ضرور شائع ہوگا۔ تبصرہ نہ آنے کی وجہ کوئ ٹیکنیکل خرابی ہوگی۔ وہی تبصرہ دوبارہ بھیجنے کی کوشش کریں۔
شکریہ