اقبال کہتے ہیں کہ
وہی جواں ہے قبیلے کی آنکھ کا تارا
شباب جس کا ہو بے داغ، ضرب ہو کاری
لیکن فی زمانہ آنکھ کا تارا اسے کہا جاتا ہے جو آنکھوں کے آگے تارے روشن کر دے اور کاری ضرب سے مراد شاید ہاتھ کی وہ صفائ ہے جس سے آپ پر وہ کاری ضرب لگے کہ آپ یہ کہنے پر مجبور ہوں، رہا کھٹکا نہ چوری کا دعا دیتا ہوں رہزن کو۔
ایک تو ہمارا دل پہلے ہی دکھا ہوا تھا کہ ہمارا قیمتی ڈیجیٹل کیمرہ کراچی چڑیا گھر میں کسی نے انتہائ مہارت سے اڑالیا۔ لوگوں نے کہا کہ ایسی جگہوں پر ایسی چیزیں لیکر نہیں جاتے۔ حالانکہ ہم اپنی نیچرل فوٹوگرافی کے شوق میں اسے لے گئے تھے۔
پھر اس مور کی مہربانی کہ وہ سارے پر پھیلا کر ناچا بھی۔ بس اسکے بعد جب تالاب میں تیرتے ہنس کی کسی ادا پر ہمارا دل آیا تو کیمرہ ندارد۔ ہماری ساتھی خاتون نے کہا کہ چڑیا گھر کے شعبہ ء بازیافت سے معلوم کر لیں وہاں کسی نے پہنچا دیا ہوگا۔ میں انکو غیر یقینی انداز سے دیکھتی ہوں کیا یہاں پر کسی ایسے شعبے کا وجود ہوگا اور فرض کریں کہ کسی زمانے میں کسی خوش امید نے ایسا شعبہ قائم بھی کیا ہوتو یقیناً مہینوں ہاتھ پر ہاتھ دھرے رکھنے کے بعد انہوں نے اس نیک کام سے ہاتھ اٹھا لیا ہوگا۔ بھلاہاتھ آئ نعمت سے کوئ اس طرح بھی ہاتھ دھوتا ہے کیا۔پھر بھی انکا دل رکھنے کو معلوم کیا۔ اور ہمارا خیال صحیح نکلا۔ ایسا کوئ شعبہ وجود نہ رکھتا تھا۔ پتہ نہیں لوگ کیوں ہمارے اندازوں کو بغیر اپنےتجربے کے ماننے سے انکار کر دیتے ہیں بلکہ کہتے ہیں۔ اوہو تو آپ دلوں کے حال بھی جانتی ہیں۔
کچھ دن افسوس رہا اس میں کچھ ایسی یادگار تصویروں کا لوڈ موجود تھا جو ابھی اپ لوڈ بھی نہ کیا گیا تھا۔ بس دل ہی میں محفوظ رہ گئیں۔ اب گردن جھکا کر دیکھنے کا تکلف تو کر لیں مگر ہمارے دل کی تصویریں کوئ اور بھلا کیسے دیکھ سکتا ہے۔ پھر اپنے مسلمان ہونے کا شکر بجا لائے کہ خدا اس سے بہتر کوئ چیز دیگا، اور ہر کام میں اوپر والے کی کوئ مصلحت ہوتی ہے اس لئے وہ نیچے والوں کے کام پر مصلحتاً خاموشی اختیار کر لیتا ہے۔ اگر روز قیامت اپنے ساتھ ہونے والی یہ نا انصافی یاد رہی تو اس بد بخت کی نیکیوں کا کچھ حصہ اپنے پلڑے میں ڈال کر حساب چکتا کروالیں گے۔
ابھی دماغ میں سود زیاں اور حساب کتاب کی یہ کھچڑی مناسب طور پر دم سے بھی نہ لگی تھی کہ گھر میں اعلان ہوا کہ کچھ لوگوں کو دعوت پہ بمعہ ء اہل و عیال بلایا گیا ہے۔ وہ سب ملا کر بارہ لوگ تھے۔ جن میں ان دو خاندانوں کے سات بچے بھی شامل تھے۔ چار بچے بڑے تھے جن کی عمریں تیرہ سے اٹھارہ سال تھیں۔
دعوت اپنے اختتام پر پہنچی سب لوگ رخصت ہو گئے۔ اور اسکے بعد جب میں چیزوں کو جگہ ٹھکانے سے لگا رہی تھی تو مجھے احساس ہوا کہ کھانے کے کمرے میں جس جگہ میرا موبائل فون ہمیشہ اپنے چارجر کے ساتھَ پڑا رہتا تھا وہ وہاں نہیں ہے۔ یہ ایچ پی کا ایک خاصہ قیمتی فون تھا۔ اگر مجھے تحفے میں نہ ملا ہوتا تو میں اپنے آپ کو یہ عیاشی کبھی نہ کراتی۔ پہلا خیال تو یہ آیا کہ میں نے شاید بازار میں کہیں گرادیا ہے۔ نہیں، پھر یاد آیا کہ صبح میں نے اسے چارج کرنے کے لئے لگایا تھا اور ان لوگوں کے آنے سے آدھ گھنٹہ پہلے تک یہیں موجود تھا۔ اور اگر کہیں باہر گرایا تو چارجر کہاں ہے۔ یہ کام تو کسی بےحد ہوشیار اور معلوماتی شخص کا تھا کہ اسنے وہ فون چارجر کے ساتھ اٹھایا۔ تمام حقائق کو جوڑتی ہوں تو یقین آجاتا ہے کہ یہ ان تین لڑکوں میں سے ایک کا کام ہے جو دعوت کھانے آئے تھے۔ اور باقی چیزوں کو حل کرتی ہوں تو ایک اور چیز کا یقین ہو جاتا ہے کہ یہ سب سے بڑے بچے کا کام ہے جس کی عمر اٹھارہ سال تھی۔
گھر کے بزرگ حضرت نے فوراً انکی نانی کو فون کیا اور ماں سے بھی بات کی کیونکہ والد صاحب گھر پر موجود نہ تھے۔ انکا جواب یہ تھا کہ بڑے بچے کو تو ابھی ایک ہفتہ پیشتر نیا بلیک بیری خرید کر دیا گیا ہے وہ نہیں اٹھا سکتا۔ ویسے بھی وہ گھر بھر کا لاڈلا اور پسندیدہ بچہ ہے۔کیا ایسی پیاری شکل والا بچہ ایسا مکروہ کام کر سکتا ہے۔۔ دوسرے بچے کو فون سے کوئ دلچسپی نہیں ہے اور اس نے اپنا ذاتی فون بھی نہیں لیا ہے۔ باقی کے بچے بھی ایسی حرکت نہیں کرسکتے وہ سب بے حد تمیز دار بچے ہیں۔ یہ آپکی ماسی کا کام ہے یا آپ کہیں رکھ کر بھول گئی ہیں۔ جبکہ ماسی اس پورے عرصے کے دوران کچن میں میرے ساتھ مصروف رہی۔ بزرگ ان سے یہ کہتے ہیں کہ فون چلا گیا کوئ بات نہیں لیکن اگر آپ نے بروقت اپنے بچے کو نہیں پکڑا تو اسکی زندگی تباہ ہو جائے گی۔
گھر کا لاڈلا بچہ اٹھارہ سال کی عمر میں میٹرک کا امتحان دیتا ہے اور بغیر لائسنس کے گاڑی اعتماد سے چلاتا ہے۔ والدین کیوں سمجھتے ہیں کہ اسطرح بچوں کی زندگی کو آسانیوں سے بھر دینے کا مطلب یہ ہے کہ وہ اب مزید کی طلب نہیں کریں گے اور اس مزید کے لئیے غلط ذرائع استعمال نہیں کریں گے۔ہر شخص اپنے ہی تجربے سے سیکھنا چاہتا ہے۔اور بعض نہ تجربہ کرنا چاہتے ہیں اور نہ سیکھنا۔ زندگی جس طرح بغیر چھیڑ چھاڑ کے گذر رہی ہے اچھی ہے۔
میں اداس ہوں میرے پاس جدید ٹیکنالوجی کی دو چیزیں تھیں اور اب نہیں ہیں۔ میں حیران ہوں میرے گھرسےدعوت کھا کر جانے والے مجھے نقصان پہنچا کر گئے۔ اب اپنے لیپ ٹاپ کو دیکھتی ہوں یہ اس ٹیکنالوجی کے زمانے میں میرے موجود ہونے کی واحد نشانی ہے یہ ایسی نشانی ہے جس میں دوسری اور نشانیاں محفوظ ہیں۔ خدا نہ کرے اس پہ کوئ بد نظر ڈالے۔ورنہ میں بھوں بھوں رو پڑونگی اور بہانہ بھی نہیں کرونگی کہ مجھے نزلہ ہوگیا ہے۔ روئیں گے ہم ہزار بار کوئ ہمیں رلائے کیوں۔
وہی جواں ہے قبیلے کی آنکھ کا تارا
شباب جس کا ہو بے داغ، ضرب ہو کاری
لیکن فی زمانہ آنکھ کا تارا اسے کہا جاتا ہے جو آنکھوں کے آگے تارے روشن کر دے اور کاری ضرب سے مراد شاید ہاتھ کی وہ صفائ ہے جس سے آپ پر وہ کاری ضرب لگے کہ آپ یہ کہنے پر مجبور ہوں، رہا کھٹکا نہ چوری کا دعا دیتا ہوں رہزن کو۔
ایک تو ہمارا دل پہلے ہی دکھا ہوا تھا کہ ہمارا قیمتی ڈیجیٹل کیمرہ کراچی چڑیا گھر میں کسی نے انتہائ مہارت سے اڑالیا۔ لوگوں نے کہا کہ ایسی جگہوں پر ایسی چیزیں لیکر نہیں جاتے۔ حالانکہ ہم اپنی نیچرل فوٹوگرافی کے شوق میں اسے لے گئے تھے۔
پھر اس مور کی مہربانی کہ وہ سارے پر پھیلا کر ناچا بھی۔ بس اسکے بعد جب تالاب میں تیرتے ہنس کی کسی ادا پر ہمارا دل آیا تو کیمرہ ندارد۔ ہماری ساتھی خاتون نے کہا کہ چڑیا گھر کے شعبہ ء بازیافت سے معلوم کر لیں وہاں کسی نے پہنچا دیا ہوگا۔ میں انکو غیر یقینی انداز سے دیکھتی ہوں کیا یہاں پر کسی ایسے شعبے کا وجود ہوگا اور فرض کریں کہ کسی زمانے میں کسی خوش امید نے ایسا شعبہ قائم بھی کیا ہوتو یقیناً مہینوں ہاتھ پر ہاتھ دھرے رکھنے کے بعد انہوں نے اس نیک کام سے ہاتھ اٹھا لیا ہوگا۔ بھلاہاتھ آئ نعمت سے کوئ اس طرح بھی ہاتھ دھوتا ہے کیا۔پھر بھی انکا دل رکھنے کو معلوم کیا۔ اور ہمارا خیال صحیح نکلا۔ ایسا کوئ شعبہ وجود نہ رکھتا تھا۔ پتہ نہیں لوگ کیوں ہمارے اندازوں کو بغیر اپنےتجربے کے ماننے سے انکار کر دیتے ہیں بلکہ کہتے ہیں۔ اوہو تو آپ دلوں کے حال بھی جانتی ہیں۔
کچھ دن افسوس رہا اس میں کچھ ایسی یادگار تصویروں کا لوڈ موجود تھا جو ابھی اپ لوڈ بھی نہ کیا گیا تھا۔ بس دل ہی میں محفوظ رہ گئیں۔ اب گردن جھکا کر دیکھنے کا تکلف تو کر لیں مگر ہمارے دل کی تصویریں کوئ اور بھلا کیسے دیکھ سکتا ہے۔ پھر اپنے مسلمان ہونے کا شکر بجا لائے کہ خدا اس سے بہتر کوئ چیز دیگا، اور ہر کام میں اوپر والے کی کوئ مصلحت ہوتی ہے اس لئے وہ نیچے والوں کے کام پر مصلحتاً خاموشی اختیار کر لیتا ہے۔ اگر روز قیامت اپنے ساتھ ہونے والی یہ نا انصافی یاد رہی تو اس بد بخت کی نیکیوں کا کچھ حصہ اپنے پلڑے میں ڈال کر حساب چکتا کروالیں گے۔
ابھی دماغ میں سود زیاں اور حساب کتاب کی یہ کھچڑی مناسب طور پر دم سے بھی نہ لگی تھی کہ گھر میں اعلان ہوا کہ کچھ لوگوں کو دعوت پہ بمعہ ء اہل و عیال بلایا گیا ہے۔ وہ سب ملا کر بارہ لوگ تھے۔ جن میں ان دو خاندانوں کے سات بچے بھی شامل تھے۔ چار بچے بڑے تھے جن کی عمریں تیرہ سے اٹھارہ سال تھیں۔
دعوت اپنے اختتام پر پہنچی سب لوگ رخصت ہو گئے۔ اور اسکے بعد جب میں چیزوں کو جگہ ٹھکانے سے لگا رہی تھی تو مجھے احساس ہوا کہ کھانے کے کمرے میں جس جگہ میرا موبائل فون ہمیشہ اپنے چارجر کے ساتھَ پڑا رہتا تھا وہ وہاں نہیں ہے۔ یہ ایچ پی کا ایک خاصہ قیمتی فون تھا۔ اگر مجھے تحفے میں نہ ملا ہوتا تو میں اپنے آپ کو یہ عیاشی کبھی نہ کراتی۔ پہلا خیال تو یہ آیا کہ میں نے شاید بازار میں کہیں گرادیا ہے۔ نہیں، پھر یاد آیا کہ صبح میں نے اسے چارج کرنے کے لئے لگایا تھا اور ان لوگوں کے آنے سے آدھ گھنٹہ پہلے تک یہیں موجود تھا۔ اور اگر کہیں باہر گرایا تو چارجر کہاں ہے۔ یہ کام تو کسی بےحد ہوشیار اور معلوماتی شخص کا تھا کہ اسنے وہ فون چارجر کے ساتھ اٹھایا۔ تمام حقائق کو جوڑتی ہوں تو یقین آجاتا ہے کہ یہ ان تین لڑکوں میں سے ایک کا کام ہے جو دعوت کھانے آئے تھے۔ اور باقی چیزوں کو حل کرتی ہوں تو ایک اور چیز کا یقین ہو جاتا ہے کہ یہ سب سے بڑے بچے کا کام ہے جس کی عمر اٹھارہ سال تھی۔
گھر کے بزرگ حضرت نے فوراً انکی نانی کو فون کیا اور ماں سے بھی بات کی کیونکہ والد صاحب گھر پر موجود نہ تھے۔ انکا جواب یہ تھا کہ بڑے بچے کو تو ابھی ایک ہفتہ پیشتر نیا بلیک بیری خرید کر دیا گیا ہے وہ نہیں اٹھا سکتا۔ ویسے بھی وہ گھر بھر کا لاڈلا اور پسندیدہ بچہ ہے۔کیا ایسی پیاری شکل والا بچہ ایسا مکروہ کام کر سکتا ہے۔۔ دوسرے بچے کو فون سے کوئ دلچسپی نہیں ہے اور اس نے اپنا ذاتی فون بھی نہیں لیا ہے۔ باقی کے بچے بھی ایسی حرکت نہیں کرسکتے وہ سب بے حد تمیز دار بچے ہیں۔ یہ آپکی ماسی کا کام ہے یا آپ کہیں رکھ کر بھول گئی ہیں۔ جبکہ ماسی اس پورے عرصے کے دوران کچن میں میرے ساتھ مصروف رہی۔ بزرگ ان سے یہ کہتے ہیں کہ فون چلا گیا کوئ بات نہیں لیکن اگر آپ نے بروقت اپنے بچے کو نہیں پکڑا تو اسکی زندگی تباہ ہو جائے گی۔
گھر کا لاڈلا بچہ اٹھارہ سال کی عمر میں میٹرک کا امتحان دیتا ہے اور بغیر لائسنس کے گاڑی اعتماد سے چلاتا ہے۔ والدین کیوں سمجھتے ہیں کہ اسطرح بچوں کی زندگی کو آسانیوں سے بھر دینے کا مطلب یہ ہے کہ وہ اب مزید کی طلب نہیں کریں گے اور اس مزید کے لئیے غلط ذرائع استعمال نہیں کریں گے۔ہر شخص اپنے ہی تجربے سے سیکھنا چاہتا ہے۔اور بعض نہ تجربہ کرنا چاہتے ہیں اور نہ سیکھنا۔ زندگی جس طرح بغیر چھیڑ چھاڑ کے گذر رہی ہے اچھی ہے۔
میں اداس ہوں میرے پاس جدید ٹیکنالوجی کی دو چیزیں تھیں اور اب نہیں ہیں۔ میں حیران ہوں میرے گھرسےدعوت کھا کر جانے والے مجھے نقصان پہنچا کر گئے۔ اب اپنے لیپ ٹاپ کو دیکھتی ہوں یہ اس ٹیکنالوجی کے زمانے میں میرے موجود ہونے کی واحد نشانی ہے یہ ایسی نشانی ہے جس میں دوسری اور نشانیاں محفوظ ہیں۔ خدا نہ کرے اس پہ کوئ بد نظر ڈالے۔ورنہ میں بھوں بھوں رو پڑونگی اور بہانہ بھی نہیں کرونگی کہ مجھے نزلہ ہوگیا ہے۔ روئیں گے ہم ہزار بار کوئ ہمیں رلائے کیوں۔
انتہائی افسوس ہوا آپ کی اتنی قیمتی اور اۃم چیزوں کے چھن جانے کا، ہماری اخلاقیات اس قدر زوال پزیر ہیں کہ ہم خود اپنی اولاد کو اپنے ہاتھ سے جہنم کے گڑھے میں دھکیل رہے ہوتے ہیں اور ہمیں اس کا احساس تک نہیں ہوتا ،یہاں کے چند روزاآرام کے لیئے ابد ال آباد کاعزاب جھینے کو خود بھی تیار ہیں اور اولاد کو بھی ساتھ گھسیٹے لیئے جارہے ہیں،اللہ ہم سب کو ہدایت عطا فرمائے آمین
ReplyDeleteVery sad to listen on your loss. Inna Lillahi Wa inna Ilahi rajeon. Allah aapko unsay behtar technology ata fermaey aur iss nuqsaan per sabr ata fermaey.....
ReplyDeleteہم بھی اس بات کے قائل ہیں کہ بچوں سے باز پرس کرتے ہوئے ان سے کیمرے کی بابت معلوم کرنا ہی ان کی بھلائی ہے۔ سب سے اہم یہ ہے یہ ہم اپنی چیزوں کی حفاظت خود کریں اور خوب کریں کیونکہ چور کا کام ہی چوری کرنا ہے۔ لیکن ایک بات سچ ہے کہ چور کا گھر کبھی نہیں بھرتا۔ خدا آپ کو اس سے بہتر عطا فرمائے گا اور چور کسی دن چوری کرتے ہوئے پکڑا جائے گا۔
ReplyDeleteوہ یہاں پر کہتے ہیں نا جی
ReplyDeleteساری رج کھان دیاں مستیاں نے
پیسا اولاد سے بے فکر کر دیتا ہے
اگر ۱۸ سالہ بچے کو بلیک بیری لے کر دیا ہے تو سو فیصدی بچہ غلط صحبت میں پڑا وا
اور ماں باپ کو جب ہوش آئے گا پلوں کے نیچے سے پانی بہہ چکا ہو گا
جو کہ شائد ابھی سے کافی بہہ چکا ہے
اپ سب کا میرے افسوس میں شامل ہونے کا بہت شکریہ۔ کیمرہ کھونے میں کسی حد تک میری لاپرواہی شامل ہے لیکن اس دن چڑیا گھر میں رش کی وجہ سے میں اپنی بچی کی طرف سے اتنی فکر مند تھی کہ چیزون پر دھیان نہیں دے سکی۔ لیکن گھر کے اندر آئے ہوئے مہمانوں کے بارے میں کبھی خیال بھی نہ آسکتا تھا کہ ایسا ہو سکتا ہے۔ خیر آئندہ کے لئے اچھی نصیحت ہو گئ۔
ReplyDeleteمیرے لئے یہ کہنا تو بہت آسان ہے کہ صبر کریں اللہ اور دے گا۔۔۔ لیکن جی حق حلال کی کمائی کی چیز ایسے جائے تو بہت تکلیف ہوتی ہے۔۔۔میں اس تکلیف میں آپ کا برابر کا شریک ہوں کیونکہ کل تندور پر روٹی لینے گیا تو وہاں میرے بھی 50 فلس گم ہوگئے تھے۔۔۔ ساری رات نیند نہیں آئی۔۔۔
ReplyDelete:lol:
اوہوو ۔۔۔۔ بہت افسوسناک خبریں سنا دیں آپ نے۔ لیکن "مسلمان والا قانون" کم از کم یہاں اس حوالے سے تو لاگو ہوتا ہے کہ آئندہ کے لیے نصیحت حاصل مل گئی لیکن یہ سبق کافی مہنگا بھی ہے۔
ReplyDeleteاللہ آپ کو صبر عطا فرمائے۔
بہت افسوس ہوا عنیقہ جی۔
ReplyDeleteغم نہ کر زندگی پڑی ہے ابھی
Innocent until proven guilty
ReplyDeleteجانے والی چیز پر دکھ نہ کریں، باقی رہ جانے والی پر خدا کا شکر ادا کریں۔
ReplyDeleteاسی طرح اپنے ہونے کا ثبوت دیتی رہے۔
i want to post comment in urdu and i think if you started blog in urdu please add something like http://www.dufferistan.com where we can post comment in urdu
ReplyDeleteجانے والی چیز کا تو انشاٗاللہ ، اللہ تعالیٰ متبادل دے ہی دے گا۔
ReplyDeleteرونا تو اقدار کی پامالی کا ہی ہوتا ہے یہ تصور واقعی محال ہے کہ آپ کسی کو اپنے گھرے کھانے پر بلائیں اور نتیجہ یہ ہو۔ بات ساری تربیت کی ہی ہے اور قصور وار بچے نہیں وہ بڑے ہیں جو ان کی محبت میں اُن سے دشمنی کر رہے ہیں۔
اگر باز پرس کا خوف نہ ہو تو کل یہ بچے اس سے بھی کہیں آگے کی منازل میں نظر آئیں گے اور اس موقع پر والدین کا مشہورِ زمانہ ڈائیلاگ کہ پتہ نہیں میری تربیت میں کہاں کمی رہ گئی جبکہ وہاں تربیت سرے سے موجود ہی نہیں ہوتی۔
dear fellows, there is a bad news and a good news. The bad news you can see :) is i am having some problems with urdu language support and so am unable to type in urdu anymore. Now you have to wait for my urdu writings:(
ReplyDeleteThe good news the recovery of my phone from that boy. His parents worked hard and finally got it. I lost some addresses and sms but thanks God got it back, off course its very unusual.
I want to add more that my gusses are not so bad so people should be careful when they say 'oho, aap dilwN ke haal bhi jaanti hain.':)
Anyway, thank yopu very much for all supportive words.
یہ تو واقعی بہت اچھی خبر ہے۔ آپ کا فون آپ کو مل گیا، مبارک ہو۔
ReplyDeleteاردو سپورٹ کوئی اتنا بڑا اشو نہیں ہیں تھوڑی بہت کوشش کریں گی تو ٹھیک ہو جائے گا۔ اس لنک سے آپ کو ہیلپ بھی مل جائیے گی۔
http://www.urduweb.org/mehfil/showthread.php?t=281
یہاں سے آپ اردو ایڈیٹر بھی ڈاؤنلوڈ کرسکتی ہیں۔ جس میں آپ اردو سپورٹ کے بغیر بھی اردو لکھ سکتی ہیں لیکن چونکہ آپ کا بلاگ اردو میں ہے تو بہتر ہے کہ پہلے اردو سپورٹ کا بندوبست کرلیں ۔
http://www.urduweb.org/mehfil/downloads.php?do=file&id=4
Thank you very much Muhammad Ahmad for your guidance.
ReplyDeleteچلیں اچھا ہوا فون تو ملا۔ بچوں کی بابت بات یہی درست ہے کہ ہم والدین ہی ان کی شخصیت کی بنیادیں ٹیڑھی رکھتے ہیں بے جا لاڈ پیار سے لیکن ان ٹیڑھی بنیادوں پر کھڑی عمارتوں کو تمام معاشرہ کو بھگتنا پڑتا ہے۔
ReplyDeletealhumdulilahe rabilaalameen or bohat bohat mubarak baad ,
ReplyDeleteAllah us bachay ko naiki ki tofeeq ata fermaay aameen,
انتہائی افسوس ہوا آپ کی اتنی قیمتی اور اۃم چیزوں کے چھن جانے کا،
ReplyDeleteغم نہ کر زندگی پڑی ہے ابھی
اللہ آپ کو ، آپ کی گم شدہ اشیاءکے بدلے ان سے بہتر اسباب سے نوازے ۔ آئیندہ احتیاط کی جئیے گا، اور جو آپ کے پاس ہے اس پہ خدا کا شکر ادا کریں۔
ReplyDeleteافسوس ہوا یہ سن کر۔
ReplyDeleteخیر اسی میں اللہ کی بہتری ہو گی۔
ایسی جگہوں میں کیمرہ استعمال کرتے وقت کلائی پر سٹریپ لپیٹ لیا کریں تا کہ بھولنے کا احتمال ہی نہ رہے۔ اسطرح کی دعوت دیتے وقت گھر کی قیمتی اشیا بھی سنبھال لیا کریں مثلا فون، آرائشی نوادرات وغیرہ۔ ورنہ اکثر شادیوں میں اسطرح کے بہت کام ہوتے ہیں۔
لیپ ٹاپ کا ڈیٹا بیک اپ ضرور لیا کریں ہر چند دنوں کے بعد خصوصا ذاتی فاءلوں مثلا تصاویر یا تحاریر کا۔