Monday, November 29, 2010

باسی کڑھی

آجکل ذاتی مصروفیات کچھ ایسی ہیں کہ وقت  سب سے زیادہ اہم سوال بن گیا ہے۔ تو نئ پوسٹ کے بجائے ایک بہت پرانی پوسٹ معمولی تبدیلیوں کے ساتھ حاضر ہے۔ نہایت پرانے قارئین کے علاوہ کون اس سے آگاہ ہوگا۔ اس سے قدیم ہونے  کا اندازہ لگانے میں مدد ملے گی۔
آَئیے پڑھتے ہیں۔


ہمارے گھر سے ملحقہ پچھلا پلاٹ ایک نا مکمل اسٹرکچر کے ساتھ خدا معلوم کب سے خالی پڑا تھا۔ ایکدن گھر میں کچھ لوگوںجن میں, میں بھی شامل ہوں نے منصوبہ بنایا کہ گھر کی پچھلی دیوار میں ایک شگاف کر کے راستہ بنا لیا جائے اور اس خالی پلاٹ پر مرغیاں پال لی جائیں یا بکریاں۔ اس طرح سے ہمیں آرگینک انڈے اور دودھ مل جائیں گے اور ہمارے گھر میں صفائ کے مسائل بھی نہ کھڑے ہونگے۔
آپ لوگ تو واقف ہیں کہ آجکل مغربی دنیا میں لفظ آرگینک معاشی خوشحالی کی علامت ہے۔ جنہیں ہم دیسی انڈے کہتے ہیں انہیں وہ آرگینک پروڈکٹ کہتے ہیں۔مرغیاں خالی پلاٹ کی صفائ کرتی پھریں گی اور بکریاں یہاں وہاں کدکڑے لگائیں گی۔ اور خوشی خوشی تازہ دودھ دیں گی۔ روزانہ ملاوٹی دودھ کی قیمت میں اضافہ کا سن کر جو خون جلتا ہے وہ پھر چہرے پہ شادابی کا باعث بنے گا۔ اور اپنے غیر ملکی دوستوں پہ رعب بھی جمائیں گے کہ ہم تو آرگینک انڈے کھاتے ہیں اور دودھ پیتےہیں۔

غریب تیرے خواب۔ اس تجویز کا آنا تھا کہ برسوں سے خوابیدہ کارخانہء قدرت میں حرکت ہوئ اوردودن بعد کھٹپٹ کی آواز پہ
کھڑکی سے جو جھانکا تو کیا دیکھتے ہیں کہ خالی پلاٹ پر اگے ہوئے جنگل جھاڑ پر کلہاڑیاں چل رہی ہیں۔لیجئے ابھی دو دن پہلے ہی تو ہم نے کچھ منصوبے بنائے تھے۔ خیر آنا تیرا مبارک تشریف لانے والے۔ اگر معلوم ہوتا کہ آپ کے آنے کے لئے کچھ ایسے بے ضرر منصوبے پردہءخیال پہ ظہور پذیر ہونے چاہئیں تو برسوں پہلے سوچ لیتے یا بعد کے حالات نے ثابت کیا کہ برسوں نہ سوچتے۔ لیکن جناب قدرت نے اسی پر بس نہیں کی اور ہمیں مستقبل میں کسی بھی منصوبہ بنانے کے ارادے سے باز رکھنے کے لئے آئندہ چند مہینوں کا پروگرام بھی بنا لیا گیا۔اب چاہے ہم سے جیسی بھی قسم لے لیں ہم اس سارے پلان سے ناواقف تھے۔
ایکدن باورچی خانے میں حلوہ پکاتے ہوئے چمچہ ایک پلیٹ میں رکھا اور چند منٹوں کے لئے وہاں سے غائب ہو کر جو دوبارہ نمودار ہوئے تو عجب ماجرہ تھا، پورا چمچہ باریک چیونٹیّوں سے ڈھکا ہوا تھا۔ دیکھتے ہی ایک جھرجھری پورے بدن میں دوڑ گئ۔ فوراً ایک اینٹی انسیکٹ اسپرے کیا۔ اور اپنے تئیں سمجھا کہ نمرود کی فوج کا صفایا کر دیا۔ اسی دن شام کو دودھ کے ایک قطرے پہ پھر چینوٹیوں کے ایک لشکر کا حملہ ہوا۔ آئندہ ایک ہفتے میں ہم نے ایک کے بعد ایک کئ لشکر غارت کیے۔ مگر یہ تو لگ رہا تھا کہ اتنا ہی ابھریں گے جتنا کہ دبا دیں گے۔
ادھر پڑوس میں مکان کی تعمیر تیزی سے جاری تھی ادھر ہم اتنی ہی جاں فشانی سے چیونٹیّوں سے نبرد آزما مگر کچھ ہوتا نظر نہیں آرہا تھا۔اب روزمرہ کے انسیکٹ کلر پر سے اعتماد اٹھ چلا تھا۔ ادھر یہ بھی سمجھ میں نہ آتا تھا کہ یہ عذاب ہم پہ کہاں سے اور کس سلسلے میں نازل ہوا ہے۔
کچھ عرصے چیونٹیوں کی لاتعدا قطاروں کو صاف کرنے کے بعدہم نے یہ فیصلہ کیا کہ پورے گھر پر ایک ساتھ یلغار کی جائے تاکہ اس مصیبت سے نجات ہو۔ گھر کے چاروں طرف بنیاد کے ستھ ساتھ چونا ڈالا گیا اور لان میں چیونٹیاں مار دوا ڈالی گئ۔ کچھ دنوں کے لئے سکون ہوا مگر چاردن بعد وہی کہانی۔ یعنی ڈھاک کے تین پات۔
اب گھر کے باہر چونا ڈالنے کے بجائے چیونٹی مار دوا ڈالی گئ۔ پھر کچھ سکون ہوا۔ مگر کچھ دنوں بعد ہم پھر اپنی پرانی حالت پہ واپس آگئے۔ پھر مختلف ذرائع سے پتہ چلا کہ اینٹی انسیکٹ کا اتنا استعمال ہمارے خود کے لئے بہتر نہیں۔ جہاں ان سے مختلف قسم کی الرجیز ہونے کا اندیشہ ہوتا ہے جن میں سرفہرست دمہ ہے وہاں یہ نہ صرف کینسر کا باعث بھی ہو سکتے ہیں بلکہ بانجھپن بھی پیدا کرتے ہیں۔ یا خدا اب کیا کریں۔
ادھر پڑوسیوں کا مکان تکمیل کو پہنچ رہا تھا اور اب اس پر رنگ و روغن ہو رہا تھا۔ ایک دن دل میں اتنا گداز پیدا ہوا کہ خدا سے شکوہ کناں ہوئے۔ یا اللہ ہمارا اس پلاٹ پر ْتو دلوں کے حال بہتر جانتا ہے۔ قبضہ کرنے کا کوئ ارادہ نہ تھا وہ تو صرف ایک خیال تھا۔ اور اگر ہم اس پر عمل کر بھی لیتے تو یقین جان کہ جس دن ان کی آمد کے آثار ہوتے ہم وہ مرغیاں اور بکریاں کسی کی دعوت میں استعمال کر لیتےممکن ہے انہی کی دعوت کردیتے۔ اس مکالمہء صفائ کے بعد جب سوچنا شروع کی تو لگا کہ دماغ کے انجن نے کام کرنا شروع کیا۔ اب جو غور کیا تو اندازہ ہوا یہ چیونٹیاں پڑوسیوں کے گھر کی تھیں۔ انہوں نے جو جنگل صاف کیا تو یہ ہمارے گھر آدھمکیں۔
 سوال یہ تھا کہ ان سے جان کیسے چھڑائ جائے۔ یکدم خیال آیاآخر ہم انٹرنیٹ کیوں نہیں استعمال کرتے۔ دماغ کے جالے لگتا تھا کہ ایکدم صاف ہو گئے۔  دو دن نیٹ پرخوب سرچ ماری اور بالآخر ایک نتیجے پہ پہنچ گئے۔ اگلے دن بازار سے بورک ایسڈ لےکر آئے دیکھنے والوں نے کہا ۔ اور کیرم بورڈ وہ کہاں ہے۔ وہی کھیلنے کے لئے ہم نے ہمیشہ بورک ایسڈ استعمال کیاہے۔ ایسے تبصروں پر ہم نے غور نہیں کیا یہ لوگ ہمیشہ چیونٹی کاٹے پر روتے ہیں اور اس کا ذمہ دار بھی ہمیں سمجھتے ہیں۔
ہم نےاسی سنجیدگی سے چینی کاشیرہ تیار کیا اور اس میں بورک ایسڈ کو ملادیا۔ پھر اسے چھوٹی چھوٹی پلاسٹک کی پیالیوں میں نکالا اور چینٹیوں کے بل جو ہم اس سارے عمل سے پہلے نشان زدہ کر چکے تھے ان کے قریب لے جا کر رکھ دیا۔ اگلے دن ماسی نے ہمیں اطلاع دی کہ پیالیوں میں کچھ رکھا ہے اس میں چیونٹیاں آرہی ہیں۔ آنے دو ہم نے شان بے نیازی سے جواب دیااور ایک میگزین پڑھتے رہے۔ اطمینان قلب دنیا کی سب سے بڑی چیز ہےاسی سے اعتماد پیدا ہوتا ہے۔۔' انہیں وہاں سے ہلانا نہیں۔' ہم نے اسے نصیحت کی۔ گھر میں کھلبلی مچ گئ۔ لیجئے اب تو چیونٹیّوں کو انکے دروازے پر ہی غذا مل رہی ہے اب دیکھئیے گا کیسی یلغاریں ہوتی ہیں ۔ کسی نے کہا کہ اب یقیناً ہمیں دوسرا گھر دیکھ لینا چاہئے۔ وہ دن دور نہیں جب یہاں صرف چیونٹیوں کا راج ہو گا۔ اور ہاتھیوں کا آنا منع ہوگا۔ میں نے لقمہ دیا۔
آہستہ آہستہ چیونٹیوں کی قطاریں ہر شکر کی پیالی کے ساتھ بندھ گئیں۔ صبح سے شام تک چیونٹیاں آرہی ہیں چیونٹیاں جا رہی ہیں اور ہم ہیں کہ ٹی وی پہ کھانا پکانے کی ترکیبیں دیکھ رہے ہیں۔۔رسالوں کو چاٹ رہے ہیں اب ہمارے شوہر صاحب کی پریشانی شروع ہوئ۔ 'یہ کیا ہو رہا ہے اس دفعہ آپ نے اینٹی انسیکٹ بھی نہیں لیا اور نہ ہی چیونٹیوں کا کوئ اور علاج ہو رہا ہے'۔ خاموش میں نے انگلی سے اشارہ کیا۔ اگرچہ چیونٹیوں کے کان نہیں ہوتے مگر تجربات یعنی چیونٹیوں کےذاتِی تجربات سے یہ بات ثابت ہے کہ وہ ماحول میں اپنے خلاف ہونے والی ہر کارروائ سے آگاہ ہو جاتی ہیں خوش قسمتی سے قدرت نےعورتوں سمیت ہر جاندار کو اس حس سے نوازا ہے۔
اچھا جناب اب میرے شوہر صاحب سوچ رہے تھے کہ میں نے شاید کوئ روحانی عمل شروع کیا ہو اہے ۔ اور کچھ عرصہ لگے گا جب میں اپنی غلطی تسلیم کر لونگی کہ اس قسم کے مسائل حقیقت کی دنیا میں رہ کر ہی حل ہو سکتے ہیں۔ باقی لوگ شاید سوچتے تھے کہ میں نے اپنی کاہلی کے اوپر بڑی ذہانت سے پردہ ڈالا ہوا ہے۔ یوں ایکدن جب یہ موضوع جب دوبارہ زیر بحث آیا تو پھر توپوں کا رخ میری جانب ہوا۔
لوگ میری خاموشی اور سکون سے نالاں تھے۔ میں نے جب ان سے مزید پندرہ دن کی مہلت چاہی تو وہ ایکدم پھٹ پڑے۔ چیونٹیاں نہ ہوئیں طالبان ہوگئیں۔ اب میں ہر ایک چیونٹی سے درخواست کرنے سے رہی یہ لیجئے دوا اور خدا کے لئے غارت ہو جائیں۔ خیر اجلاس میں میں نے سب کو یقین دلایا کہ میں کوئ روحانی عمل نہیں کر رہی ہوں۔ میں بورک ایسڈ بذریعہ شیرہ چیونٹیوں کو دے رہی ہوں، بورک ایسڈ ان کا معدہ ہضم نہیں کرتا اور معدہ پھٹ جانے کے نتیجے میں وہ اس دار فانی سے کوچ کر جاتی ہیں۔ 'تو کیا اب ایک ایک چیونٹی کے مرنے کا انتظار کیا جائے گا اور اس بات کی کیا گارنٹی ہے کہ ان کے انڈوں سے چیونٹیاں پیدا نہیں ہونگیں۔ ' تابڑ توڑ سوالات۔
میری تیاری بھی مکمل تھی۔ بات یہ ہے کہ اس شیرہ کو چیونٹیوں نے اپنے بل میں بھی لے جا کر جمع کیا ہو گا اور اسے ان کی ملکہ بھی استعمال کرے گی جو ان کے بل میں انڈے پیدا کرنے کی ذمہ داری اٹھاتی ہے اب جب وہ ہی نہیں رہے گی تو نئ چیونٹیاں کہاں سے آئیں گی۔ پھر ہم نے بات میں وزن پیدا کرنے کے لئے ان کی توجہ چیونٹیوں کی قطاروں میں ہونے والی واضح کمی کی طرف دلائ۔ لوگوں نے اس فرق کو محسوس تونہیں کیا تھا لیکن ہمیں کچھ دنوں کی مہلت ضرور مل گئ۔ آج اس بات کو اس ایک سال ہوگئے۔ اب ہمارے گھر میں کبھی کبھار کوئ چیونٹی اس لئے نظر آجاتی ہے کہ بچوں کو بتایا جا سکے یہ ہوتی ہے چیونٹی جس کے کبھی کبھی پر نکل آتے ہیں۔ اس تمام محنت سے ہم نے یہ سیکھا کہ جس کا کام اسی کو ساجھے۔ اگر آپ برائ کرنے کی اہلیت نہیں رکھتے تو اسکا خیال دل میں پال لینا ہی مصیبت بن سکتا ہے۔

نوٹ: اس طریقےکو طالبان کے خلاف استعمال کرنے والے نتائج کے خود ذمہ دار ہونگے۔
ریفرنس؛
چیونٹیوں سے بچاءو


11 comments:

  1. اس باسی کڑھی کا ذائقہ عرصہ تک محسوس کریں گے ویسے پروردگار سے یہی دعا ہے کہ اس کی آزمائش سے باز ہی رکھے۔

    ReplyDelete
  2. بڑی تمثیلی قسم کی پوسٹ لگائی ہے۔ لیکن یہ آخر میں نوٹ نہیں لگانا تھا نا۔ یار لوگوں کو خود ہی پزل مکمل کرنے دیتیں۔ میں تو تمثیلات ملانے میں مصروف تھا کہ آپ نے نوٹ سے سسپنس ختم کردیا۔
    اور یہ جو آپ نے اپنے مرحوم لان کو حال ہی میں ترقی دے کر کھیت کا درجہ دیا ہے اس کی آپ کو خاصی صفائی ستھرائی کرنا پڑے گی۔ ورنہ طالبا۔۔۔ایکسکیوزمی۔۔چیونٹیاں اور ان کے ساتھ ساتھ اور بھی کئی قسم کی بلائیں جنم لے سکتی ہیں۔
    اور یہ دیا گیا لنک کام نہیں کررہا۔ خیر مجھے اس کی کونسی ضرورت ہے۔ یہاں چیونٹیاں ہیں نہ طالبان۔

    ReplyDelete
  3. آپکے مضمون سے لینڈ مافیائی تاثر ملتا ہے. لگتا ہے ایم کیو ایم سے آپ کا تعلق محض حمایت کا ہے اگر سرگرم کارکن ہوتیں تو دو چار بھائیوں کو بلا کر خالی پلات پر یونٹ آفس کا بورڈ لگواتیں ، باونڈری وال کھچوا کر انڈے، دودھ ، گوشت کے مزے لوٹتیں. جب تاک معاملا سیٹل ہوتا تب تک صحت میں اچھا خاصا اضافہ ہو چکا ہوتا.
    ارے بھائی طالبان کا اپنا بلڈ یورک ایسڈ خود اتنا زیادہ ہوتا ہے کہ بھائی لوگ گھبرائے رہتے ہیں. اور ہر موچی ، نان بائی، چائے والا اور بس ڈرئیور انھیں طالبان نظر آتا ہے.

    ReplyDelete
  4. ڈاکٹر جواد احمد خاں صاحب، ہم تو سمجھتے تھے کہ یورک ایسڈ صرف ہڈیوں کے جوڑ پہ اثر انداز ہو کر چال چلن میں خرابی اور کام کرنے کی صلاحیت کو متائثر کر سکتا ہے لیکن یہ نہی معلوم تھا کہ اس کی وجہ سے دیکھنے والوں کی نظر بھی متائثر ہو سکتی ہے۔ بڑھے ہوئے یورک ایسڈ کا کیا علاج کیا جاتا ہے تاکہ انسان اپنے عمومی کام بخوبی کر سکے اور دوسرے لوگ بھی نہ گھبرائیں۔

    ReplyDelete
  5. مذاق سے ھٹ کر میں یہ کہوں گا کہ یہ میری پرانی فنٹسی ہے . ایک آبادی ذرا ویرانے پر . سولر پنیل اور سورج کی حرارت سے بجلی کا حصول ساتھ پانی گرم کرنے اور کھانا پکانے کا انتظام ، گوبر سے گیس کا حصول ، بڑا سا کھیت جہاں ہر قسم کی دال ،چاول، سبزی ، ترکاری پیدا کی جا سکے . اپنا ایک پولٹری فارم اور بھینسوں کا باڑه اور بھیڑ بکریوں کی افزائش کے لئے جگہ. لیکن یہ سب کچھ ایک دیوانے کا خواب ہے. کیونکہ اس کے لئے مجھے لوگ اور سرمایہ چاہیے جو کہ شاید مل جائے لیکن ایک ایسی سوسایٹی بنانا جہاں لوگ اپنی ذمہ داری بانٹ سکیں تقریباً نہ ممکن سا ہے. اپنا حال تو یہ ہے کہ اگر گلی کا گٹر بند ہو جائے اور آس پاس کی زمین کو پروٹین سے سراب کرنے لگے تو یار لوگ اینٹیں رکھ کر راستہ بناتے ہیں. اور شلوار اونچی کر کے نماڒ کو ڄاتے ہیں. ایسے حالات میں تو اس قسم کی تجویز کا مذاق ہی بنایا جا سکتا ہے.

    ReplyDelete
  6. آپنے بجا ارشاد فرمایا یورک ایسڈ کا خود کی ہڈیوں کے جوڑوں یا گردوں سے تو تعلق تو ہوسکتا ہے کسی دوسرے فرد پر اس کا اثر بعید از حقیقت ہے. پر میں نے سوچا کہ تخیل کا ماحول ہے ، پروں کا ذکر ہے اور پروازوں کی مزے ہیں کیوں نہ ایک پرواز میں بھی کر لوں . کہنے میں کیا حرج ہے؟

    ReplyDelete
  7. عنیقہ آپا : بورک ایسڈ یعنی ایسڈ یعنی تیزاب ...... اووووووو ہوووووووووووو
    ویسے آپ کے ہر مسئلہ کا حل تیزابی کیوں ہوتا ہے؟
    بہرحال ایک طر ف ہوکر سکون سے کہاں بیٹھی ہیں آپ، دیکھیں جی جن چیونٹیوں کو آپ جگہ جگہ آپ پاوں تلے روندتی گزر جاتی ہیں اگر وہی ناک میں گھس گئے تو لگ پتا جائے گا.
    عثمان : یار کنیڈا زیادہ عرصے تک چیونٹیوں سےپاک صاف رہے ہے گا اس خوش فہمی میں مت رہنا کیوں کہ اس وقت چیونیٹیوں کے خلاف مہم چلانے والے اندھا دھند چینوٹی کش ادویات ہی استعمال کررہے ہیں جن سے مستقبل قریب میں سوائے انکے مزید بڑھنے اور پھیلنے کے اور کوئی امید نہیں.....

    ReplyDelete
  8. کاشف نصیر صاحب، بورک ایسڈ ایم بہت ککمزور تیزاب ہے۔ کیمیاء کی زبان میں تیزاب کے بہت سارے معنی ہیں۔ اور بہت سارے لیول۔ ایک تیزاب آپکے پیٹ میں بنتا ہے جو غذا کو گلا دہتا ہے ایک کمزور سا تیزاب آپکے خون میں موجود ہوتا ہے جو خون کی خصوصیات کو برقراررکھتا ہے اور کاربن اور آکسیجن کو جسم میں کنٹرول کرتا ہے۔ خود بورک ایسڈ نہ صرف کیڑے مار خصوصیات رکھتا ہے بلکہ یہ اینٹی سیپٹک کے طور پہ استعمال ہوتا ہے اور نیوکلیئر پاور پلانٹس میںایٹمی فشن کو کنٹرول کرتا ہے۔ یہی بورک ایسڈ کیرم بورڈ کے اوپر گوٹیوں کو پھسلانے میں بھی استعمال ہوتا ہے۔ اس طرح تیزاب کے مونی ان معنوں سے کہیں بڑھ جاتے ہیں جو آپ سمجھتے ہیں۔
    جی صرف چیونٹی ہی نہیں، شہد کی مکھی بھی ناک میں گھس جائے تو پتہ چل جاتا ہے۔ انسان کی اوقات ہی کیا ہے۔ بڑھتی ٹرین کے آگے کھڑا ہو تو وہ اسے روندتی ہوئ نکل جائے اصل چیز انسانی نظریات ہوتے ہیں۔ اگر ان کی بنیاد انسانی رویوں کی پرداخت ہے یہ اگر صحیح نہ ہو تو کچھ صحیح نہیں رہتا۔ لوگ ڈریکولا کو ہیرو بناتے ہیں، ہٹلر کے کنسنٹریشن کیمپس چلاتے ہیں، چنگیز خانی اور ہلاکو خانی فوج میں شامل ہو کر ملکوں کے ملک روند ڈآلتے ہیں، نادر خانی حملوں میں فخر سے شامل ہوتے ہیں۔ اور اپنے پیچھے سوائے ظلم اور بربریت کی داستانوں کے کچھ نہیں چھوڑتے۔ کیونکہ باقی رہنے والا نام اللہ کا ہے۔
    ڈاکٹر جواد احمد خان صاحب، ایک چیز علاتی ادب کہلاتا ہے۔ یہ اگرچہ علامتی ہوتا ہے مگر تمام علامتیں اپنی پورے معنی رکھتی ہیں اور اسی طرح ایکدوسرے سے جڑی ہوتی ہیں کہ جب انہیں حل کیا جائے تو کوئ نئ اور بڑی تصویر نکل آئے۔ تخیل کو پرواز دیں مگر اسے بھٹکنے کے لئے نہ چھوڑیں۔ اسکی پرواز میں سے معنی اور نئ تصویر اخذ کریں ورنہ یہ پراگندہ خیالی کہلائے گی۔
    میں ایک دفعہ تھر گئ تھی تو صحرا میں ایک صاحب نے بالکل ایسی ہی دنیا بنائ ہوئ تھی جسکا آپ نے نقشہ کھینچا ہے۔ میں انکا نام بھول گئ ہوں۔ وہ اپنی بیوی کے ہمراہ رہ رہے تھے اور بچے فرسٹ ورلڈ میں۔ اپنی کوششوں سے وہ صحرا میں سبزیاں اگانے میں کامیاب ہو گئے تھے۔

    ReplyDelete
  9. جب ميں چھوٹا لڑکا تھا آٹھ نو سال کا تو ديکھا کہ چيوٹيوں کی لمبی قطار لگی ہے ۔ اپنے گھر والوں کو اطلاع دی تو کہا گيا "ديکھو چيونٹياں کہاں سے آ رہی ہيں ۔ وہاں ايک مُٹھی آٹا ڈال دو"۔ ميں نے تعميل کی اور چيونٹيوں کا جائزہ لينے لگا ۔ کچھ ہی دير ميں سب چيونٹياں آٹا اپنے بِل ميں ليجا رہی تھيں ۔ بعد ميں دادا جان نے بتايا "چيونٹياں اپنے رزق کی تلاش ميں ہوتی ہيں ۔ انہيں گھر کے قريب ہی مل جائے تو تنگ نہيں کرتيں"۔ واقعی اس کے بعد گھر ميں کوئی چيونٹی نظر نہ آئی

    غلطی آپ کی اپنی تھی کہ حلوے سے لپٹا چمچہ آپ برسرِعام رکھ کر چلی گئيں حالانکہ حلوہ اور کھير پکاتے ہوئے کوئی اسے چھوڑ کر نہيں جاتا ۔ اگر چيونٹيوں کی بجائے لال بيگ [کاکروچ] اسے چاٹ کر چلا جاتا يا مکھی اپنا حصہ لے جاتی تو آپ کو کوئی پريشانی نہ ہوتی خواہ وہ دونوں کتنے ہی ضرر رساں ہيں ۔ بے ضرر معصوم چيوٹياں ديکھ کر آپ نے اُن کی نسل کُشی کا فيصلہ کر ليا صرف اسلئے کہ آپ کی طبيعت کو چيونٹيوں کی موجودگی ناگوار گزری تھی ۔ ايک ڈيرے ميں 5000 سے 10000 تک عام گھريلو چيونٹياں ہوتی ہيں جب کے پوری کالونی ميں لاکھوں چيونٹياں ہوتی ہيں ۔ اگر آپ نے تين بِلوں کے سامنے کٹورياں رکھی تھيں تو گويا 15000 سے 30000 چيونٹياں ہلاک ہو گئيں

    اب ذرا اس مثال کو ديکھئے ۔ ايک بستی ميں 15000 سے 30000 افراد رہتے ہيں جن ميں بچے جوان بوڑھے سب شامل ہيں ۔ ان سب کے گھروں ميں بستی سے باہر ايک بڑے حوض سے پينے کا پانی آتا ہے ۔ ايک شخص اُس بستی کے کچھ لوگوں کو اپنی بستی ميں پھرتے ديکھتا ہے اور غصہ ميں آ کر اُس بستی کے حوض ميں اتنا زہر ملا ديتا ہے کہ کوئی ايک گھونٹ بھی پيئے تو مر جائے ۔ دو دن ميں اُس بستی کے سب افراد ہلاک ہو جاتے ہيں

    آپ کو اس ساری واردات کا عِلم ہو تو آپ پانی کے حوض ميں زہر ملانے والے کو کيا کہيں گی ؟

    ReplyDelete
  10. میں نے علامتی ادب پڑھا ہے مگر میں اس خیال سے متفق نہیں ہوں کہ علامتی ادب کسی پزل کی طرح اشاروں کی مدد سے آپکو نتائج تک پہنچا دیتا ہے. اسی لئے بڑے بوڑھے کہتے کے علامتی ادب کو سمجھنے کی کوشش نہ کرو بلکہ تخیل کو آزاد چھوڑ دو احساسات اور نتائج اخذ کرنے کے لئے. لیکن میں اکثر ایک سوال کرتا ہوں کہ انسان کے لیے کیا ضروری ہے کہ وہ نتائج کی پروا کیے بغیر محض ذہنی عیاشی کے لئے فلسفے اور علامتی ادب کی بھول بھلیوں میں ٹامک ٹویاں مارتا پھرے. کوئی تو فائدہ ہونا چاہیے ....محض تخیل کو وسیع کر لینا اور دقیق موضوعات پر گھنٹوں بحث کی صلاحیت حاصل کرلینا بذات خود تو کوئی مستحسن عمل نہیں ہے .

    ReplyDelete
  11. افتخار اجمل صاحب، میں کاکروچز ، مچھر، مکھی اور دیمک کے لئے بھی مختلف ادویات اور طرقیے استعمال کرتی ہوں۔ زیادتی کسی بھی چیز کی اچھی نہیں ہوتی۔ چیونٹیاں اگردرختوں کے نیچے بل بنالیں تو انکی جڑیں کھوکھلی کر دیتی ہیں۔ چیونٹیوں کے کاٹے میں فارمک ایسڈ ہوتا ہے۔ اس سے بعض لوگوں کو شدید الرجی ہو جاتی ہے۔
    جب چیونٹیاں کروڑوں کی تعداد میں آپکے گھر پہ ہلہ بول دیں تو انہیں قابو میں رکھنا ضروری ہوتا ہے۔ آتا یا چینی انکے بل کے آگے رکھ دینے سے ایک بہت محدود تعداد کا ہی کنٹرول کیا جا سکتا ہے۔ یہ واقعہ جو میں آپکو بتا رہی ہوں یہ صرف حلوے کے ایک چمچ تک محدود نہیں تھا۔ بلکہ شیلف میں رکھی دوائیں اور واش روم کا شیلف بلکہ بستر تک پہ انکا قبضہ ہو چلا تھآ۔
    آپ نے حوض کی مثال دی جو اس وقت میل نہیں کھا رہی لیکن اس حوض سے بجائے بستی کو پانی ملنے کے بجائے کوئ اور گروہ اس پہ قبضہ کر لے تو بستی والے پانی حاصل کرنے کے لئے کیا کریں گے۔
    بورک ایسڈ استعمال کرنے کا فائدہ یہ ہے کہ اس سے آپکے ماحول کو کوئ نْقصان نہیں پہنچتا۔ کوئ بچہ اٹھا کر چکھ لے تو وہ محفوظ رہے گا۔ آپ اس فضا میں سانس لے سکتے ہیں اور دیگر سرگرمیاں جاری رکھ سکتے ہیں۔ سامان ہٹانے کی ضرورت نہیں، نہ ہی آپکو دربدر ہونے کی۔
    علامتی ادب ایک ایسے دور سے متعلق ہے جب انسانوں کے اظہار کی قوت کو پابند کیا جاتا رہا۔ لکھنے والا اپنے پیغام کو اس طرح لکھتا ہے کہ وہ ایک علامت میں محفوظ ہو کر اپنے قاری تک پہنچ جاتی ہے۔ ایک ایسا معاشرہ جہاں اظہار خیال کی آزادی ہو وہاں اسے استعمال کرنے کی کوئ ضروت نہیں۔ خودشاعری بھی تو ایک طرح کا علامتی ادب ہے۔ علامت میں بند کر دینے سس اس میں ہر زمانے کو سمو لینے کی طاقت پیدا ہو جاتی ہے اور ہر مزاج کو بھی۔

    ReplyDelete

آپ اپنے تبصرے انگریزی میں بھی لکھ سکتے ہیں۔
جس طرح بلاگر کا تبصرہ نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں، اسی طرح تبصرہ نگار کا بھی بلاگر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اس لئے اپنے خیال کا اظہار کریں تاکہ ہم تصویر کا دوسرا رخ بھی دیکھ سکیں۔
اطمینان رکھیں اگر آپکے تبصرے میں فحش الفاظ یعنی دیسی گالیاں استعمال نہیں کی گئ ہیں تو یہ تبصرہ ضرور شائع ہوگا۔ تبصرہ نہ آنے کی وجہ کوئ ٹیکنیکل خرابی ہوگی۔ وہی تبصرہ دوبارہ بھیجنے کی کوشش کریں۔
شکریہ