Saturday, June 6, 2009

جو ڈر گیا

ٹرین کے ایک ڈبے میں صرف دو افراد تھے۔ رات اندھیری اور ایک سرنگ بھی قریب آ رہی تھی۔ ایک نے دوسرے سے پوچھا کیا تم بھوتوں پہ یقین رکھتے ہو۔ اگلے نے سر اٹھا کر اس کی طرف دیکھا اور قطعیت سے کہا۔'نہیں'۔ اگلے ہی لمحہ پہلا شخص دھواں بن کر تحلیل ہو گیا۔

لو جی، اب کیا اتنی پرانی کہانیاں نکال کر سنانے لگیں۔ او جی کچھ نیا لاءو۔ ہن یہ چالبازیاں نئیں چلیں گی۔ ٹہرئیے، یہ تو میں چیک کر رہی تھی آپ کو ڈر لگتا ہے یا نہیں۔ میں نے تو آپ کو ڈرانے کی کوشش کی تھی۔ کیا کہاطالبان کے علاوہ کسی سے ڈر نہیں لگتا۔

اچھا چھوڑیں، آپ لوگوں نے کالے جادو کے متعلق تو سنا ہوگا۔ بچپن میں میرا خیال تھا کہ کالا جادو کالے لوگ کرتے ہونگے۔ جہاں بڑے ہو کر اور بہت سی باتیں غلط ثابت ہوئیں۔ وہاں اس بات کی حقیقت میں بھی کوئ سچائ نہ تھی۔ اس جادو کے لئے دل کا کالا ہونا ضروری ہوتا ہے۔ خیر اب ہمیں کیا پتہ چلے کے کسی کے دل کا کیا رنگ ہے۔ لیکن ہماری پڑوسن کہتیں تھیں ایک کالا جادو بڑا خطرناک ہوتا ہے۔ مٹی کی چھوٹی سی ہنڈیا میں کچھ تعویذ رکھ کر اور پڑھ کر پھونک دیتے ہیں اور اسے روانہ کردیتے ہیں۔ 'کس سے بس یا ٹرین سے'۔ 'یہ لڑکی بڑی دخل اندازی کرتی ہے۔ چپکے بیٹھی رہو'۔ وہ ایکدم گھرک دیتیں۔'ہاں تو ہوا میں اڑتی ہوئ جاتی ہے اور ٹھیک اسی جگہ پہنچتی ہے جہاں بھیجا جائے۔ اور جب وہاں پہنچ جائے تو جس کے نام پہ بھیجتے ہیں اس کی جان جا کر رہتی ہے۔ اور اگر کسی وجہ سے عمل الٹا ہوجائے اور ہنڈیا واپس آجائے تو عمل کرنے والے کی زندگی نہیں رہتی تھی'۔ اب میں چشم تصور سے دیکھتی کہ فضا میں ایک ہنڈیا چلی جا رہی ہے۔ لیکن ہم نے حقیقت میں کبھی نہیں دیکھی۔ پڑوسن کہتی تھیں انہوں نے تو جاتی ہوئ دیکھی۔

اب کیا سچ ہے اور کیا افسانہ۔ آپ کہیں گے یہ کیا کسی عامل کا تعارف کرانے والی ہیں جو ادھر ادھر کی باتیں کئے جارہی ہیں۔بات یہ ہے کہ میں تو خیال کے اس دھاگے کو وزیرستان لے جا رہی ہوں۔ چلیں گے اب آپ کا چہرہ کھل اٹھا۔ اڈرینالن ہائپ؟ اب ہونگیں کچھ جنگ وجدل کی باتیں۔ جی نہیں جناب یہاں تو جنگ کی گھاتیں ہیں۔ چلیں جناب اسی میں تو کراماتیں ہیں۔

تو یہ کرامت امریکن ٹیکنالوجی کے طفیل آئ ہے۔ امریکیوں نے، خدا کی مار ہو ان پہ، ایک ایسا مائکرو چپ بنایا ہے جس کا سائز معمولی سی کنکری کے برابر ہوتا ہے۔ یہ کنکری ڈرون طیارے کے لئے نشانے کا کام انجام دیتی ہے۔ اور ڈرون میزائل کسی طالبان کے اڈے پہ نہیں دراصل اس کنکری پہ حملہ کرتا ہے۔ امریکن اس کنکری کو جسے مقامی زبان یعنی پشتو میں 'پتھرئ' کہتے ہیں۔ اپنے کسی ایجنٹ کے ذریعے اپنے نشانے تک پہنچا دیتے ہیں۔بلوچستان کے کسی ائر بیس پہ موجود یہ بغیر پائلٹ کے جہاز دراصل اس لیور سے چلتے ہیں جو امریکہ میں لاس ویگاس کے جنوب سے پینتیس میل کے فاصلے پہ موجود ایک آپریٹر گھماتا ہے۔ اور ڈرون میزائل چل پڑتا ہے جہاں اسکے لئے سگنل موجود ہوتا ہے یعنی اس پتھرئ کی طرف۔ پتھرئ کی وجہ سے ڈرون حملے اب پہلے سے بہتر ہو گئے ہیں۔آمریکیوں کے لئے ڈرون حملے خاصے مددگار ثابت ہوئے ہیں۔ اور اب ان کا نشانہ بھی خاصہ بہتر ہو گیا ہے۔ اس سال جنوری کے آغاز میں ایک کینیا کا رہنے والا عسکریت پسند مارا گیا جس کے پچھلے سال میریٹ ہوٹل کے دھماکوں میں ملوث ہونے کے شواہد ملے تھے۔

پچھلے اٹھارہ مہینوں میں امریکہ پچاس سے زائد حملے کر چکا ہے جن میں امریکی دعوی کے مطابق القاعدہ کی اعلی قیادت کے بیس میں سے نو افراد مارے گئے ہیں۔ اس کےعلاوہ اخباری اطلاعات کے مطابق ۲۰۰۶ سے اب تک تقریباً سات سو لوگ مارے گئے ہیں جن میں سے زیادہ تر بےگناہ ہیں۔
'شہر میں آجکل اسی کا چرچا ہے۔ ہر ایک خوفزدہ ہے کہیں اس کے گھر کے پاس پتھرئ نہ ہو کیونکہ پھر چند گھنٹوں یا دنوں میں ڈرون حملہ یقینی ہے۔'

مقامی لوگوں اور طالبان کے مطابق امریکن سی آئ اے قبائلیوں کو اس پتھرئ کو القاعدہ یا طالبان کے ٹھکانوں تک پہنچانے کے پیسے دے رہی ہے۔پچھلے دنوں طالبان نے ایک ویڈیو جاری کی جس میں انیس سالہ حبیب الرحن نے کانپتی ہوئ آواز میں اقرار کیا کہ وہ سگریٹ کی پنی میں پتھرئ لپیٹ کر لے جا رہا تھا۔' انہوں نے وعدہ کیا تھا کے ڈرون کے کامیاب حملے کی صورت میں وہ مجھے ہزاروں پاءونڈز دیں گے اور پکڑے جانی کی صورت میں تحفط بھی۔' لیکن طالبان اپنے وعدے کے زیادہ پکے نکلے اور حبیب الرحمن کو ویڈیو کے آخیر میں سر اڑا کرجنت الفردوس پہنچا دیا۔

جنوبی وزیرستان کے مرکزی علاقے وانا میں باہر سے آئے ہوئے عسکریت پسند بازاروں اور دوکانوں میں جانے سے احتراز کرتے ہیں جبکہ مقامی افراد جو پہلے ان کے ساتھ گھلے ملے رہتے تھے اب ان سے دور رہنے لگے ہیں۔ مرنا تو ہر ایک کو ہے لیکن چیتھڑوں کی صورت مرنے میں دفن ہوتے وقت کافر اور غیر کافر کی تمیز نہیں رہتی۔ شاید اس لئے طالبان کو ڈرون حملے پسند نہیں ہیں۔ رہے عام افراد تو وہ انسانوں کی گنتی میں کہاں ہیں۔

عسکریت پسند اب اس سلسلے میں خاصے محتاط ہیں ان کا خیال ہے کہ پتھرئی افغانستان سے لائ جاتی ہے اور اس لئے بلاوجہ افغانستان جانے والے سے پوچھ گچھ ہوتی ہے۔

کہاں گئے ہمارے عامل جو ہنڈیا میں بند کرکے موت بھیجا کرتے تھے۔ طالبان ان سے کیوں نہیں فائدہ اٹھاتے۔اس کے لئے تو انہیں کوئ ایجنٹ بھی نہیں چاہئیے ہوگا۔ اور مٹی کی ہنڈیا تو پتھرئ کے مقابلے میں خاصی سستی پڑے گی۔ اس طریقے میں بےگناہ لوگوں کے مرنے کا احتمال بھی نہیں۔

ریفرنس؛


پتھرئ ایک مائکرو چپ

http://www.guardian.co.uk/world/2009/may/31/cia-drones-tribesmen-taliban-pakistan

No comments:

Post a Comment

آپ اپنے تبصرے انگریزی میں بھی لکھ سکتے ہیں۔
جس طرح بلاگر کا تبصرہ نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں، اسی طرح تبصرہ نگار کا بھی بلاگر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اس لئے اپنے خیال کا اظہار کریں تاکہ ہم تصویر کا دوسرا رخ بھی دیکھ سکیں۔
اطمینان رکھیں اگر آپکے تبصرے میں فحش الفاظ یعنی دیسی گالیاں استعمال نہیں کی گئ ہیں تو یہ تبصرہ ضرور شائع ہوگا۔ تبصرہ نہ آنے کی وجہ کوئ ٹیکنیکل خرابی ہوگی۔ وہی تبصرہ دوبارہ بھیجنے کی کوشش کریں۔
شکریہ