Tuesday, June 16, 2009

ن م راشد کی نظم اندھا کباڑی

ن میم راشد یا راجہ نذر محمد راشد نے اردو نثری نظم کا مزاج تبدیل کر کے اسے عالمی ادب میں روشناس کرادیا۔ ن میم راشد اور فیض ہم عصر شاعر ہیں۔ ناقدین کی نظر میں راشد کا مقام فیض سے بڑھ کر ہے۔ لیکن شہرت کی دیوی فیض پر مہربان ہوئ۔ راشد کی بے شمار نظمیں دل میں کھب جاتی ہیں۔ ان میں سے ایک یہاں حاضر ہے۔ اسے ضیا محی الدین نے کمال کاتحت اللفظ میں پڑھا ہے۔ ویسے راز کی بات ہے اتنا برا میں بھی نہیں پڑھتی بس کچھ یہ ہے کہ سب کہیں گے۔ 'ارے ضیا محی الدین کی نقل اتاری ہے'۔

اندھا کباڑی


شہر کے گوشوں میں ہیں بکھرے ہوئے
پا شکستہ سر بریدہ خواب
جن سے شہر والے بےخبر
گھومتا ہوں شہر کے گوشوں میں روزوشب
کہ ان کو جمع کر لوں
دل کی بھٹی میں تپاءوں
جس سے چھٹ جائے پرانا میل
ان کےدست و پا پھر سے ابھر آئیں
چمک اٹھیں لب ورخسار و گردن
جیسے نو آرستہ دولھوں کے دل کی حسرتیں
پھر سے ان خوابوں کو سمت رہ ملے

'خواب لے لو خواب'۔
صبح ہوتے چوک پہ جا کر لگاتا ہوں صدا۔
خواب اصلی ہیں کہ نقلی؟'۔
یوں پرکھتے ہیں کہ جیسے ان سے بڑھ کر
خوابداں کوئ نہ ہو
خواب گر میں بھی نہیں
صورت گر ثانی ہوں بس۔۔
ہاں مگر میری معیشت کا سہارا خواب ہیں

شام ہوجاتی ہے
میں پھر سے لگاتا ہوں صدا۔۔۔
'مفت لے لو مفت، یہ سونے کے خواب'۔۔۔۔۔۔۔
'مفت سن کر اور ڈر جاتے ہیں لوگ
اور چپکے سے سرک جاتے ہیں لوگ۔۔
'دیکھنا یہ مفت کہتا ہے
کوئ دھوکا نہ ہو؟
ایسا کوئ شعبدہ پنہاں نہ ہو؟
گھر پہنچ کر ٹوٹ جائیں
یا پگھل جائیں یہ خواب؟
بھک سے اڑ جائیں کہیں
یا ہم پہ کوئ سحر کر ڈالیں یہ خواب۔۔
جی نہیں کس کام کے؟
ایسے کباڑی کہ یہ خواب
ایسے نابینا کباڑی کے یہ خواب'؟
رات ہو جاتی ہے
خوابوں کے پلندے سر پہ رکھ کر
منہ بسورے لوٹتا ہوں رات بھر پھر بڑ بڑاتا ہوں
'یہ لے لو خواب'۔۔۔
اور لے لو مجھ سے ان کے دام بھی
خواب لے لو، خواب۔۔۔۔
میرے خواب۔۔۔
خواب۔۔۔۔۔میرے خواب۔۔۔۔۔۔۔
خواا، اب۔۔۔۔۔۔۔۔
ان کے داااام بھی ی ی ی۔'۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


ریفرنس؛

ن میم راشد ایک تعارف

ن میم راشد کی کچھ اور نظمیں

ن میم راشد ایک تعارف ۲

2 comments:

  1. بہت عمدہ نظم ہے
    فیض اور راشد کے بارے میں آپ نے بالکل درست لکھا ۔۔۔۔
    جالب کا ایک شعر دیکھئے۔۔۔
    پہلے بھی فیض صدر کا ادنی مشیر تھا
    پہنچی وہیں پہ خاک جہاں کا خمیر تھا
    منیر نیازی کہا کرتے تھے کہ کچھ شاعر اپنی پی آر کے بل پر بڑے شاعر ہیں۔۔۔
    عقلمند کو اشارہ کافی ہوتا ہے۔۔۔۔

    ReplyDelete
  2. میرے ذاتی خیال میں اس میں ان کی اولادوں کا بھی خاصہ حصہ ہے۔ انہوں نے اپنے والد کا کما حقہ حق ادا کیا اور حق خدمت بھی رج کے وصول کیا۔ صحیح تو کہتے ہیں با ادب با نصیب۔

    ReplyDelete

آپ اپنے تبصرے انگریزی میں بھی لکھ سکتے ہیں۔
جس طرح بلاگر کا تبصرہ نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں، اسی طرح تبصرہ نگار کا بھی بلاگر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اس لئے اپنے خیال کا اظہار کریں تاکہ ہم تصویر کا دوسرا رخ بھی دیکھ سکیں۔
اطمینان رکھیں اگر آپکے تبصرے میں فحش الفاظ یعنی دیسی گالیاں استعمال نہیں کی گئ ہیں تو یہ تبصرہ ضرور شائع ہوگا۔ تبصرہ نہ آنے کی وجہ کوئ ٹیکنیکل خرابی ہوگی۔ وہی تبصرہ دوبارہ بھیجنے کی کوشش کریں۔
شکریہ