میں پاکستان سے باہر چند پاکستانی خواتین کے ساتھ بیٹھی خوش گپیوں میں مصروف تھی کہ کسی نے ٹکڑا لگایا۔' یار پاکستانی لڑکیاں بہت میک اپ کرتی ہیں۔ معلوم ہے ان کے کمروں میں جا کر دیکھو تو ڈریسنگ ٹیبل پہ طرح طرح کا سامان بھرا پڑا ہوتا ہے اسکے باوجود پاکستانی اپنے آپ کو غریب کہتے ہیں۔' وہاں موجود ہر ذی روح نے اس کی تائید کی، سوائے میرے۔ کتنی پاکستانی لڑکیوں کے پاس اپنے ذاتی کمرے اور ان میں ڈریسنگ ٹیبل موجود ہوتا ہے چہ جائیکہ بھانت بھانت کا میک اپ کا سامان۔ ہم اس خطے سے تعلق رکھتے ہیں جہاں ایک کمرے میں پانچ چھے لوگ سوتے ہیں۔لوگوں کے پورے گھر ایک کمرے پہ مشتمل ہوتے ہیں۔ کراچی یونیورسٹی کی حد تک میں نے یہ دیکھا کہ نوے فی صد لڑکے اور لڑکیاں شام کو ٹیوشن پڑھاتے ہیں۔ جواب ملا لیکن یونیورسٹی کی نوے فیصد لڑکیاں لپ اسٹک لگاتی ہیں۔ اتنی ٹیوشن پڑھا کہ چھ مہینے میں سو روپے کی ایک لپ اسٹک لگا لینا نہ کوئ عیاشی ہےاور نہ وہ اس جملے کی حقدار ٹھیرتی ہیں۔یہ تو بس ایک شوق ہے۔ کوئ اور زندگی میں تبدیلی نہیں لا سکتے چلو لپ اسٹک لگا لی۔ یہاں میں یہ وضاحت کردوں کہ اپنی اسٹوڈنٹ لائف میں اور اب بھی، میں کبھی لپ اسٹک کی شوقین نہیں رہی لیکن کسی کےایسے بے ضرر شوق کو برا بھی نہیں کہتی۔ خیر تمام تر غربت کے ڈیٹا اور کاسمیٹکس کے استعمال کی شرح کی معاشیات کے ان سب نے یہ تسلیم نہیں کیا کہ وہ غلط کہہ رہے ہیں۔ اس لئیے کہ وہ سب پاکستانی معاشرے کے اعلی طبقات سے تعلق رکھتے تھے اور انہوں نے اپنی محدود دنیا کے علاوہ پاکستان کے بیشتر حصے کو نہ دیکھا تھا نہ محسوس کیا تھا۔
اب یہ ایک اور منظر ہے میں اپنے دوستوں کو اندرون سندھ اپنے قیام کے بارے میں بتا رہی تھی۔ 'یار سانگھڑ کے اطراف میں بڑی خوبصورت جھیلیں ہیں۔ اور بعض جو کنول کے پھولوں سے ڈھکی ہوئ ہیں بہت زبردست لگتی ہیں۔' میرے ایک دوست جن کا تعلق سندھ سے نہیں تھا ایکدم بول اٹھے۔ 'دیکھا پھر بھی سندھ والے شور مچاتے ہیں کہ ہمارے لئیے پانی نہیں ہے'۔ میں نے ان کی طرف حیرانی سے دیکھا ۔ ' مگر آپ نے دریائے سندھ کا ڈیلٹا شاید نہیں دیکھا ۔ ایکدم خشک ہے اور اسے صحرائے سندھ کہنا زیادہ مناسب ہے۔ اس میں تو خشک ریت کے ٹیلے جا بجا نظر آتےہیں۔' 'ارے نہیں ابھی مشرف نے اپنی تقریر میں کہا کہ سالانہ کتنا پانی ڈیلٹا سے گر کے ضائع ہوتا ہے۔' مشرف کا مخالف ہونے کے باوجود انہوں نے اس کا حوالہ دیا۔'ہاں میں نے بھی انکی یہ تقریر سنی اور مجھے حیرانی ہے کہ کون انہیں یہ ڈیٹا پیش کرتا ہے اگر وہ ہیلی کاپٹر سے ایک دفعہ ڈیلٹا کا چکر لگا لیں سب لگ پتہ جائے۔ اور جو ان جھیلوں کی میں آپ سے بات کر رہی ہوں ان میں سے بیشتر پانی کی کمی کی وجہ سے نمکین ہو گئ ہیں۔ میرے پاس ان نمکین جھیلوں کی کافی تصویریں موجود ہیں اور آپ کو ضرور دکھاءونگی'۔ مگر انہوں نے میری بات تسلیم نہیں کی وہ ہمیشہ کراچی جہاز سے آتے جاتے رہے اور انہوں نے کبھی دریا کے ڈیلٹا پہ سے گذر کر نہیں دیکھا تھا۔ بس ان کا خیال تھا کہ جو بات انہوں نے اپنے جیسے لوگوں سے سنی ہے وہی صحیح ہے۔
یہاں ایک اور خاتون کا تذکرہ جن سے میری ایک تقریب میں اتفاقاً ملاقات ہو گئ ۔ انہیں معروف انگریزی صحافی ارد شیر کاءوس جی بہت پسند ہیں۔ مجھے بھی ان کی بے باک تحریر پسند ہے۔ تو میں نے ان سے کہا۔'آپ کو معلوم ہے کاءوس جی نے ایک دلچسپ بات کہی اور یہ بات وہی کہہ سکتے تھے ۔ ٹی وی پہ ان کا انٹرویو آرہا تھا اور میزبان بضد تھے کہ وہ بتائیں اگر انہیں وزیر اعظم بنا دیا جائے تو وہ کیا کریں گے۔ انہوں نے جواب دیا۔ میں کیوں بنوں چودہ کروڑ جٹوں کا وزیر اعظم۔' ان خاتون نے اس بیان کو ماننے سے انکار کردیا۔ کیونکہ وہ ان چودہ کروڑ لوگوں میں شامل تھیں اور سمجھتی تھیں کہ وہ کاءوس جی کو پسند کرتی ہے اور وہ اس پسندیدگی کے بدلے میں انکے بارے میں ایسی بات نہیں کہہ سکتے۔ حالانکہ میں بھی ان چودہ کروڑ لوگوں میں شامل تھی مگر مجھے مزہ آیا۔ میں صرف یہ کہہ سکتی تھی کہ آپ کو اس پروگرام کی ریکارڈنگ کہیں سے مل جائے یا آپ خود انہیں میل کرسکتی ہوں تو ضرور ان سے پوچھ لیں۔ میں نے یہ پروگرام اپنے گھر والوں کے ساتھ دیکھا تھا۔ کہیں تو ان سب کی گواہی دلوادوں۔ مگر ادھر وہی بات۔ میں نہ مانوں۔
یہ تو چند چیدہ چیدہ واقعات تھے جو میری یاد داشت میں رہ گئے۔
لیکن ان جیسے واقعات کی یاد تب تازہ ہوئ جب میں نے کچھ حقیقی واقعات کے حوالے اپنی تحریروں میں دئیے اور لوگوں نے کچھ ایسے ہی تبصرے دئیَے ۔ مثلاً پٹھانوںکا خواتین کو ہراس کرنا۔ کہا گیا کیایہ حسن اتفاق ہے کہ آپ کو پٹھان ملتے ہیں۔ اے کاش آپ کو خدا عورت کی حیثیت سے کراچی میں پیدا کرے اور آپ کا گھر یا آفس یا تعلیمی ادارہ ان کی کسی بستی کے آس پاس ہو۔تو آپ کو پتہ چل جائے گا کہ خواتین ان سے اتنا کیوں بدکتی ہیں۔ ورنہ آپ کے لئیے مشکل ہےسمجھنا۔ گھبرائیے نہیں، خدا اپنی سنت کے حساب سے ایسا کریگا نہیں۔ اس لئیے میں بس ہنس دیتی ہوں۔
یہ ایک اور حیران صاحب ہیں انہیں حیرت ہے کہ ایسا بھی ہوسکتا ہے کہ خاندان میں اتنے لوگ بھی نہ ہو کہ خاندان کے مردوں میں سے دو گواہ نہ نکل سکیں۔ اب میں کیا کروں۔ قسم تو کھا نہیں سکتی کہ جو کچھ کہتی ہوں سچ کہتی ہوں۔اگر آپ سے بھی ڈرنے لگی تو پھر یہ بھی کوئ زندگی ہے۔۔اگر وہ کراچی میں رہائش پذیر ہیں تو مجھ سے رابطہ کریں۔ میں انہیں اس تجاہل عارفانہ سے نکالنا چاہوں گی اور کراچی میں واقع ایسے لا تعداد گھروں میں لیجا ءونگی جہاں گھروں میں آسٹیوپوریسس کی ماری خواتین یا ضعیف جوڑے اکیلے رہتے ہیں۔ اور سارا دن اپنے کمپیوٹر پہ بیٹھے اپنے ہزاروں میل پر موجودبچوں اور پوتا پوتیوں سے چیٹنگ کرتے رہتے ہیں۔ مگر وہ تبصرہ نگار ، خود بھی چونکہ دن رات کمپیوٹر پہ مصروف رہتے ہیں اس لئیے انہیں معلوم نہیں کہ ان کے ارد گرد کیا ہو رہا ہے۔کمپیوٹر اتنی ہی بری چیز ہے۔ اور یہ انٹر نیٹ ایج کا المیہ ہے۔ اس کا بھی کوئ حل نکالنا ہوگا۔
کیا ایسا ممکن نہیں کہ ہم اپنی لا علمی کو کھلے دل سے تسلیم کریں۔ ہر انسان ہر چیز تو نہیں جان سکتا۔ ہہر شخص بہترین مشاہداتی قوت نہیں رکھتا اور جو رکھتے ہیں وہ صحیح نتیجہ نہیں نکال پاتے۔ مگر محض یہ سوچنا کہ نہیں جناب، اگر ہم نے آپ کی بات تسلیم کر لی تو ہم آپ کے مقابلے میں کم علامہ ثابت ہو جائیں گے۔ ہم اپنے نظرئیے سے الگ ہوجائِں گے ہمارے وہ ساتھی جن کے ساتھ ہم نے نظریاتی طور پہ ساتھ جینے اور مرنے کی قسمیں کھائیں ہیں ہم ان سے بیوفائ کریں گے۔ یقین جانیں ایسا کچھ نہیں ہوگا کم از کم میرے ساتھ اب تک ایسا نہیں ہوا۔بلکہ آپ حقائق سے زیادہ قریب ہونگے۔اور بہت سارے ایسے لوگوں سے قریب ہونگے جن سے آپ کا نظریاتی اختلاف ہوگا اور پھر اختلاف کی نئ راہیں نکلیں گی۔ زندگی میں کچھ تو نیا ہونا چاہئیے۔
اب میں ایک ایسی پوسٹ لکھنے والی ہوں جس میں ، میں یہ بتاءونگی کہ مجھے کتنی سادہ سادہ باتیں پہلے نہیں معلوم تھی جومیرے ساتھیوں کی وجہ سے میرے علم میں آئیں۔ ان سب کا پیشگی شکریہ۔
اب یہ ایک اور منظر ہے میں اپنے دوستوں کو اندرون سندھ اپنے قیام کے بارے میں بتا رہی تھی۔ 'یار سانگھڑ کے اطراف میں بڑی خوبصورت جھیلیں ہیں۔ اور بعض جو کنول کے پھولوں سے ڈھکی ہوئ ہیں بہت زبردست لگتی ہیں۔' میرے ایک دوست جن کا تعلق سندھ سے نہیں تھا ایکدم بول اٹھے۔ 'دیکھا پھر بھی سندھ والے شور مچاتے ہیں کہ ہمارے لئیے پانی نہیں ہے'۔ میں نے ان کی طرف حیرانی سے دیکھا ۔ ' مگر آپ نے دریائے سندھ کا ڈیلٹا شاید نہیں دیکھا ۔ ایکدم خشک ہے اور اسے صحرائے سندھ کہنا زیادہ مناسب ہے۔ اس میں تو خشک ریت کے ٹیلے جا بجا نظر آتےہیں۔' 'ارے نہیں ابھی مشرف نے اپنی تقریر میں کہا کہ سالانہ کتنا پانی ڈیلٹا سے گر کے ضائع ہوتا ہے۔' مشرف کا مخالف ہونے کے باوجود انہوں نے اس کا حوالہ دیا۔'ہاں میں نے بھی انکی یہ تقریر سنی اور مجھے حیرانی ہے کہ کون انہیں یہ ڈیٹا پیش کرتا ہے اگر وہ ہیلی کاپٹر سے ایک دفعہ ڈیلٹا کا چکر لگا لیں سب لگ پتہ جائے۔ اور جو ان جھیلوں کی میں آپ سے بات کر رہی ہوں ان میں سے بیشتر پانی کی کمی کی وجہ سے نمکین ہو گئ ہیں۔ میرے پاس ان نمکین جھیلوں کی کافی تصویریں موجود ہیں اور آپ کو ضرور دکھاءونگی'۔ مگر انہوں نے میری بات تسلیم نہیں کی وہ ہمیشہ کراچی جہاز سے آتے جاتے رہے اور انہوں نے کبھی دریا کے ڈیلٹا پہ سے گذر کر نہیں دیکھا تھا۔ بس ان کا خیال تھا کہ جو بات انہوں نے اپنے جیسے لوگوں سے سنی ہے وہی صحیح ہے۔
یہاں ایک اور خاتون کا تذکرہ جن سے میری ایک تقریب میں اتفاقاً ملاقات ہو گئ ۔ انہیں معروف انگریزی صحافی ارد شیر کاءوس جی بہت پسند ہیں۔ مجھے بھی ان کی بے باک تحریر پسند ہے۔ تو میں نے ان سے کہا۔'آپ کو معلوم ہے کاءوس جی نے ایک دلچسپ بات کہی اور یہ بات وہی کہہ سکتے تھے ۔ ٹی وی پہ ان کا انٹرویو آرہا تھا اور میزبان بضد تھے کہ وہ بتائیں اگر انہیں وزیر اعظم بنا دیا جائے تو وہ کیا کریں گے۔ انہوں نے جواب دیا۔ میں کیوں بنوں چودہ کروڑ جٹوں کا وزیر اعظم۔' ان خاتون نے اس بیان کو ماننے سے انکار کردیا۔ کیونکہ وہ ان چودہ کروڑ لوگوں میں شامل تھیں اور سمجھتی تھیں کہ وہ کاءوس جی کو پسند کرتی ہے اور وہ اس پسندیدگی کے بدلے میں انکے بارے میں ایسی بات نہیں کہہ سکتے۔ حالانکہ میں بھی ان چودہ کروڑ لوگوں میں شامل تھی مگر مجھے مزہ آیا۔ میں صرف یہ کہہ سکتی تھی کہ آپ کو اس پروگرام کی ریکارڈنگ کہیں سے مل جائے یا آپ خود انہیں میل کرسکتی ہوں تو ضرور ان سے پوچھ لیں۔ میں نے یہ پروگرام اپنے گھر والوں کے ساتھ دیکھا تھا۔ کہیں تو ان سب کی گواہی دلوادوں۔ مگر ادھر وہی بات۔ میں نہ مانوں۔
یہ تو چند چیدہ چیدہ واقعات تھے جو میری یاد داشت میں رہ گئے۔
لیکن ان جیسے واقعات کی یاد تب تازہ ہوئ جب میں نے کچھ حقیقی واقعات کے حوالے اپنی تحریروں میں دئیے اور لوگوں نے کچھ ایسے ہی تبصرے دئیَے ۔ مثلاً پٹھانوںکا خواتین کو ہراس کرنا۔ کہا گیا کیایہ حسن اتفاق ہے کہ آپ کو پٹھان ملتے ہیں۔ اے کاش آپ کو خدا عورت کی حیثیت سے کراچی میں پیدا کرے اور آپ کا گھر یا آفس یا تعلیمی ادارہ ان کی کسی بستی کے آس پاس ہو۔تو آپ کو پتہ چل جائے گا کہ خواتین ان سے اتنا کیوں بدکتی ہیں۔ ورنہ آپ کے لئیے مشکل ہےسمجھنا۔ گھبرائیے نہیں، خدا اپنی سنت کے حساب سے ایسا کریگا نہیں۔ اس لئیے میں بس ہنس دیتی ہوں۔
یہ ایک اور حیران صاحب ہیں انہیں حیرت ہے کہ ایسا بھی ہوسکتا ہے کہ خاندان میں اتنے لوگ بھی نہ ہو کہ خاندان کے مردوں میں سے دو گواہ نہ نکل سکیں۔ اب میں کیا کروں۔ قسم تو کھا نہیں سکتی کہ جو کچھ کہتی ہوں سچ کہتی ہوں۔اگر آپ سے بھی ڈرنے لگی تو پھر یہ بھی کوئ زندگی ہے۔۔اگر وہ کراچی میں رہائش پذیر ہیں تو مجھ سے رابطہ کریں۔ میں انہیں اس تجاہل عارفانہ سے نکالنا چاہوں گی اور کراچی میں واقع ایسے لا تعداد گھروں میں لیجا ءونگی جہاں گھروں میں آسٹیوپوریسس کی ماری خواتین یا ضعیف جوڑے اکیلے رہتے ہیں۔ اور سارا دن اپنے کمپیوٹر پہ بیٹھے اپنے ہزاروں میل پر موجودبچوں اور پوتا پوتیوں سے چیٹنگ کرتے رہتے ہیں۔ مگر وہ تبصرہ نگار ، خود بھی چونکہ دن رات کمپیوٹر پہ مصروف رہتے ہیں اس لئیے انہیں معلوم نہیں کہ ان کے ارد گرد کیا ہو رہا ہے۔کمپیوٹر اتنی ہی بری چیز ہے۔ اور یہ انٹر نیٹ ایج کا المیہ ہے۔ اس کا بھی کوئ حل نکالنا ہوگا۔
کیا ایسا ممکن نہیں کہ ہم اپنی لا علمی کو کھلے دل سے تسلیم کریں۔ ہر انسان ہر چیز تو نہیں جان سکتا۔ ہہر شخص بہترین مشاہداتی قوت نہیں رکھتا اور جو رکھتے ہیں وہ صحیح نتیجہ نہیں نکال پاتے۔ مگر محض یہ سوچنا کہ نہیں جناب، اگر ہم نے آپ کی بات تسلیم کر لی تو ہم آپ کے مقابلے میں کم علامہ ثابت ہو جائیں گے۔ ہم اپنے نظرئیے سے الگ ہوجائِں گے ہمارے وہ ساتھی جن کے ساتھ ہم نے نظریاتی طور پہ ساتھ جینے اور مرنے کی قسمیں کھائیں ہیں ہم ان سے بیوفائ کریں گے۔ یقین جانیں ایسا کچھ نہیں ہوگا کم از کم میرے ساتھ اب تک ایسا نہیں ہوا۔بلکہ آپ حقائق سے زیادہ قریب ہونگے۔اور بہت سارے ایسے لوگوں سے قریب ہونگے جن سے آپ کا نظریاتی اختلاف ہوگا اور پھر اختلاف کی نئ راہیں نکلیں گی۔ زندگی میں کچھ تو نیا ہونا چاہئیے۔
اب میں ایک ایسی پوسٹ لکھنے والی ہوں جس میں ، میں یہ بتاءونگی کہ مجھے کتنی سادہ سادہ باتیں پہلے نہیں معلوم تھی جومیرے ساتھیوں کی وجہ سے میرے علم میں آئیں۔ ان سب کا پیشگی شکریہ۔
اگر آپ غور کریں تو یہ معاملہ کچھ دو طرفہ ہی ہوتا ہے۔ دونوں جانب سے افراد اپنی بات پر اڑے رہتے ہیں جس سے موضوع گفتگو کو نقصان پہنچتا ہے۔
ReplyDeleteدو باتیں پلو سے باندھ لیں
ایک: جھوٹ کے پاؤں نہیں ہوتے
دو: سچ ہمیشہ فاتح ہوتا ہے (بشرطیکہ اسے بیان کرنے کا سلیقہ آتا ہو)