Monday, October 11, 2010

فرزند زمین

تین دن پہلے رات کے وقت لیاری ایکسپریس وے سے نیچے اترے اور کراچی پورٹ ٹرسٹ  سے آگے جا کر جو ایک سڑک پہ مڑے تو ایک قطار میں کئ ٹرالرز ایک لمبی لائن میں  کھڑے ہوئے تھے۔ یہ نیٹو کے سپلائ ٹرکس ہیں جنہیں شاید یہاں روک دیا گیا ہے۔ ایک ساتھی نے کہا۔ پاکستان نے نیٹو افواج کی سپلائ لائن بند کر دی ہے۔ اور ہم لوگ حساب لگانے لگے کہ اس وقت کتنے اسطرح کے ٹرالرز کراچی سے پاکستان کی شمالی سرحد تک یا تو سفر میں ہونگے یا اسی طرح کھڑے ہونگے شاید ہزاروں میں۔ یہ قدم پاکستان نے اس وقت اٹھایا ، جب پچھلے ہفتے افغان سرحد کے اس طرف سے پاکستانی سرحد پہ میزائل مارے گئے اور اسکے نتیجے میں تین پاکستانی فوجی مارے گئے۔
سپلائ لائن کے بند ہونے سے ٹرالرز درہ خیبر کے پاس اور بعد میں کوئٹہ میں بھی اکٹھے ہوئے جا رہے تھے۔  کچھ ٹرالرز کو مقامی افراد نے تباہ کر دیا یا جلا دیا۔



یہ کوئ پہلی دفعہ نہیں ہے۔ اس سے پہلے بھی یہ ٹرکس لوٹے جاتے رہے ہیں اور انکا سامان مقامی مارکیٹوں میں فروخت کیا جاتا رہا ہے۔ کچھ عرصے پہلے تک اگرچہ جلانے والوں کا تعلق  طالبان سے بتایا جاتا تھا۔ لیکن  ایک نجی محفل میں ان اطلاعات کی باز گشت بھی سنائ دی کہ آجکل قبائلی سرداروں کے بڑے مزے آئے ہوئے ہیں اور لوٹ مار کے اس عمل میں  فلاں فلاں سردار کی چاندی ہوگئ ۔ یہ سردار خیبر پختونخواہ اور بلوچستان سے تعلق رکھتے ہیں۔ طالبان کے نقش قدم پہ وہ بھی روانہ ہوئے اور اس سے پہلے کے طالبان انہیں ہتھیائیں وہ کیوں نہ دام کھرے کریں۔ میں نے سوچا کیا مجھے حیران ہونا چاہئیے؟  یا کہنا چاہئیے کہ جیسے کو تیسا؟ کسی طرح تو خبیث امریکیوں کو نقصان پہنچے اب فرزند زمین یہی طریقہ جانتے ہیں تو یہی سہی۔
 یہ سامان اشیائے خور دو نوش سے لیکر جدید ہتھیاروں تک ہر چیز پہ مشتمل ہے۔  اور سرحدی علاقوں سے لے کر یہ اشیاء کراچی میں بھی دستیاب ہیں۔ چلیں اس بہانے ہمارے لوگوں کو امریکہ کی جدید ترین ٹیکنالوجی اور عیاشی کا سامان ہاتھ آتا ہے۔ برائ کیا ہے۔
لوٹی ہوئ اشیاء کی فروخت کی ایک مارکیٹ

 میں ایک غیر ملکی رپورٹ سے گذر رہی تھی  جس میں یہ اطلاعات موجود تھیں کہ کسطرح نیٹو کے یہ ٹرکس لوٹ مار کا نشانہ بن رہے ہیں۔ اور انکے سامان سے پاکستانی کس طرح مستفید ہو رہے ہیں۔ اس پہ ہونے والے تبصرے دلچسپ تھے۔ یہ تبصرے جن میں امریکی تبصرہ نگار بھی شامل تھے۔ انکا غضب کا نشانہ پاکستانی عوام اور امریکی حکام دونوں تھے۔ جہاں ایک طرف پاکستانی چور اچکے، بد دیانت ، لوٹ مار کرنے والی  قوم ٹہری وہاں امریکی حکومت بے وقوف ٹہری جو اپنے عوام کی فلاح پہ پیسے خرچ کرنے کے بجائے چوروں کو اپنا اتحادی بنائے ہوئے جنگ کئے جا رہی ہے۔ بقول کئ مبصروں کے اگر جنگ پہ خرچ کئے جانے والے یہ پیسے ملک میں خرچ کئے جائیں تو امریکی عوام اس وقت جس معاشی بحران کا شکار ہیں۔ اس سے بچا جا سکتا ہے۔
اگر ان تبصروں میں سے شناخت اور خبر کا پس منظر ہٹا دیا جائے تو کم و بیش یہی الزامات پاکستانی بھی اپنے امریکی حلیفوں پہ لگاتے ہیں اور کچھ ان سے ملتی جلتی وجوہات کی بناء پہ اپنی حکومت سے عاجز ہیں۔
پاکستان میں ایک حلقے نے حکومت کے اس قدم کو جمہوری حکومت کی طاقت کی فتح قرار دیا۔ ایک اور حلقے نے اسے سپہ سالار پرویز کیانی کے حوصلے سے جوڑا۔ ہر نظر اپنی اپنی روشنی تک جا رہی ہے۔ بہر حال اس تحریر کے پڑھنے تک طورخم کے بارڈر سے یہ پابندی اٹھا لی گئ ہو گی۔
  سرداروں سے متعلق ایک دلچسپ خبر اور ہے۔ معروف بلوچی سردار اکبر بگتی کے بیٹے نے مشرف کو قتل کرنے والے کو ایک ارب روپے کی زمین یعنی ہزار ایکڑ کینال زمین  دینے کا اعلان کیا ہے۔ غالب اور نیک  اندازہ ہے کہ یہ زمین انکی اس وراثت میں سے ہی دی جائے گی جو نسل ہا نسل سے انکی ملکیت ہے۔
چلیں بلوچی عوام سے تو مشرف ہی بھلے، مارے گئے تو اسی بہانے کسی کو سردار کی زمین میں سے ہزار ایکڑ ملیں گے۔ عوام کا کیا ہے وہ  تو دکھاوے کا زخم ہیں جس کے بہانے ہمدردی حاصل کی جاتی رہے اور جسے بوقت ضرورت اپنے اغراض کے لئے سہلا سہلا کر اور مکروہ بنایا  جاتا رہے۔ مشرف کے اس طرح مرنے کے بعد یہ کہنا کتنا قابل فخر ہوگا کہ ایک قابل فخر سردار باپ کے بیٹے نے اپنے باپ کے نام نہاد قاتل سے بدلہ لینے میں پرکھوں کی ہزار ایکڑ زمین کی بھی پرواہ نہیں کی۔
لیکن جن مظلوموں کے خون سے انکے محترم والد کے  اور خود انکے ہاتھ رنگے ہوئے ہیں۔ ان کا بدلہ لینے کے لئے عوام کس زمین کا دان دیں۔

7 comments:

  1. آموں کے آم اور گٹھلیوں کے دام
    میکاولی اور چانکیہ کو ہمارے اہلِ سیاست مات دے رہے ہیں۔ اس وقت اگر نیٹو کے پاس متبادل (حکومت و راستہ ) موجود ہوتا تو حکومت، خوانین اور طالبان خود یہ ساری رسد طورخم تک پہنچا کر آتے لیکن اندھے کے ہاتھ بٹیر لگ گئی ہے۔ دفتر خارجہ سے لیکر حزب التحریر تک سب نمبر بنارہے ہیں اور چور مال بنا رہے ہیں۔ صحیح ہورہا ہے یا غلط اس کی بات تو تب کی جائے جب مجھ سے پوچھ کر معاہدہ کیا جاتا یا مجھے ساجھی بناتے پھر چاہے طالبان کو ماریں یا میرے بھائی کو بات تو طے ہوتی۔

    ReplyDelete
  2. طلال بگٹی صاحب نے خالی خولی زمین ہی دینی ہے یا اس پر رہنے والے غریب بلوچ بھی انعام یافتہ خوشنصیب کی ذاتی ملکیت ہو جائیں گے؟

    ان نوابوں نے تو معلوم نہیں کتنا عرصہ اپنے محکوموں کا خون چوسا ہے۔

    ReplyDelete
  3. جیتی رہیں۔ اور رہے عوام تو وہ اپنی جان کا نذرانہ ہی پیش کرتے رہیں اپنے "محبوب" رہمناؤں کو تو بہت ہے۔ ویسے بھی بھیڑ بکریوں کی جان کا تاوان یا بدلہ نہیں مانگا جاتا بلکہ دعا کی جاتی ہے کہ "باورچی" کہیں کھانے کا مزا نہ خراب کردے۔

    ReplyDelete
  4. بہت خوب عنیفہ صاحبہ،واقعی یہ خبریں توچلتی رہتیں ہیں کیونکہ ہم لوگ بہت زیادہ بےحس ہوگئےہیں کوئی مرجائےکہیں دھماکہ ہوجائےہم پراب وقتی طورپربھی کوئی اثرنہیں ہوتاہرکوئي اپنی اپنی ڈگڈگی بجارہاہےہرکوئی اپنےحال میں مست ہے۔لیکن اس کوچاہیےحکومت کی بہادری کہیں یاکچھ بھی لیکن ہمارےسفیرجوکہ امریکہ میں ہیں کھاتےہماراہےلیکن دم امریکہ کابھرتےہیں انکابیان اس کےساتھ ہی تھاکہ یہ پابندی عارضی ہےماشاء اللہ کیاعلم پایاحقانی صاحب نے۔ایسےبندوں کوتوسفیرکہنابھی پاکستان کی بےعزتی ہےاوررہی بات بگٹی کےبیٹےکی۔ وہ کیاکہتےہیں کہ بلی کمھمبانوچےوالی مثال ہے۔باقی اللہ تعالی میرےملک کوان غداروں سےنجات دے۔ آمین ثم آمین
    خیراندیش

    ReplyDelete
  5. بلوچوں کی زمین کم از کم کوئی پنجابی تو نہیں لے گا۔۔۔ مفت میں بھی دیں تب بھی نہیں لے گا۔۔۔ بھئی شناختی کارڈ دیکھ کر پنجابیوں کو قتل کیا جا رہا ہے۔۔۔ کون پاگل ایسے انتہا پسندوں میں جا کے پھنسنا پسند کرے گا؟

    ReplyDelete
  6. ابھی کی خبر نہیں مگر جب ہم کسٹم کی پریکٹس کرتے تھے تو بہت عجیب و غریب خبریں ملتی تھے امریکی جو سامان یہاں سے لے کر جاتے ہیں یا لاتے ہیں وہ کسٹم کے احکام چیک نہیں کرسکتے ہیں بیشتر جن کنٹینروں کو راشن بتایا جاتا اُس میں سامان حرب ہوتا۔۔۔ اگر پاکستان اُس سامان پر ٹیکس لگائے تو ملنی والی رقم امریکی امداد سے بہت زیادہ ہو گی مگر یہاں تو ایس آر او جاری کر کے اُسے ٹیکس سے معافی حاصل ہے۔۔۔۔ ہاں ٹرک والے بہت خوش ہیں ۔ ایک چکر پر دو سے تین لاکھ کی بچت ہے ۔

    ReplyDelete
  7. نعیم اکرم ملک صاحب، اس کا مطلب صاحبزادے کے کہنے پہ کوئ پنجابی مشرف کو قتل کرنے نہیں جا رہا ہے۔
    :)
    ایسا کیوں ہے کہ یا تو ہم خدا پہ چھوڑ دیتے ہیں یا ہم دوسری انتہا پہ جا کر قتل کر دیتے ہیں۔ کوئ درمیان کی راہ کیوں نہیں نکل پاتی۔

    ReplyDelete

آپ اپنے تبصرے انگریزی میں بھی لکھ سکتے ہیں۔
جس طرح بلاگر کا تبصرہ نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں، اسی طرح تبصرہ نگار کا بھی بلاگر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اس لئے اپنے خیال کا اظہار کریں تاکہ ہم تصویر کا دوسرا رخ بھی دیکھ سکیں۔
اطمینان رکھیں اگر آپکے تبصرے میں فحش الفاظ یعنی دیسی گالیاں استعمال نہیں کی گئ ہیں تو یہ تبصرہ ضرور شائع ہوگا۔ تبصرہ نہ آنے کی وجہ کوئ ٹیکنیکل خرابی ہوگی۔ وہی تبصرہ دوبارہ بھیجنے کی کوشش کریں۔
شکریہ