سر سید کو بجنور میں بطور صدر امین دو سال چار ماہ گذرے تھے کہ دس مئ اٹھارہ سو ستاون کو یکایک وہ خوں ریز لڑائ شروع ہوئ جسے انگریزوں نے بغاوت اور غدر کا نام دیا اور مسلمان مورخین نے جنگ آزادی کا۔ ہنگامے کی وجوہات ایسی تھیں کہ اس میں ہندو اور مسلمان دونوں انگریز حکومت کے خلاف اٹھ کھڑے ہوئے۔ مسلمانوں کی نفرت زیادہ شدید تھی۔ مقامی لوگ بے قابو ہو کر ان انگریز مردوں اور بچوں کو بھی موت کے گھاٹ اتارنے لگے جو انگریزی فوج کا حصہ نہ تھے اور جن کا جنگ سے تعلق نہ تھا۔ اس طرح کے تقریباً بیس گھرانے بجنور میں تھے۔ سر سید نے انکی حفاظت کی ٹھان لی۔ بجنور کے کلکٹر مسٹر شیکسپیئر کی متفکر بیگم سے سر سید نے کہا کہ
جب تک ہم زندہ ہیں آپکو گھبرانا نہیں چاہئیے۔ جب آپ دیکھیں کہ میری لاش کوٹھی کے باہر پڑی ہے اس وقت گھبرانے میں مضآئقہ نہیں۔
اس مصیبت میں انہوں نے کئ راتیں اپنے ساتھیوں کے ساتھ جاگ کر ، اور مسلح پہرہ دیتے ہوئے گذاریں۔ایک دن جب سب کا باغیوں کے ہاتھوں مارا جانے کا پورا یقین تھا۔ سر سید تنہا اس جماعت کے پاس گئے اور نواب محمود خان جو انکا سرغنہ تھا اس سے کی اور کہا کہ چند انگریزوں کے مارے جانے سے کیا ہاتھ آئے گا۔ بہتر ہے کہ انہیں صحیح و سالم یہاں سے جانے دو۔ اور تم ملک کے مالک بن جاءو۔
سر سید ان دنوں کا احوال لککھتے ہیں کہ
مجھ سے اگر کچھ اچھی خدمت یا وفاداری گورننٹ کی ہوئ تو وہ بالکل میں نے اپنے مذہب کی پیروی میں کی۔ میں نے جو کچھ کیا اپنے خدا اور رسول کی اطاعت کی۔
نواب محمود خان بجنور پہ قابض ہو گیا۔ لیکن اس سے پہلے انگریز خاندانوں کو بحفاظت نکالا جا چکا تھا۔ اس نے سر سید کو اپنے ساتھ ملانے کی کوشش کی لیکن انہوں نے انکار کر دیا جس پہ اس نے انہیں انکی سرکاری رہائیش گاہ سے نکال دیا۔ سر سید یہاں سے کسی طرح جان بچا کر نکلے اور میرٹھ پہنچے تو پاس چھ پیسے اور پہنے ہوئے پھٹ کرتے کے سوا کچھ نہ تھا۔ پانچ ماہ تک سر سید میرٹھ میں رہے اتنے میں دہلی سے خبریں آئیں کہ انگریزی فوج نے شہر پہ قبضہ کر لیا۔ مسلمانوں کو بے دریغ مارا جا رہا ہے۔ سر سید کے ماموں اور ماموں زاد بھائ مارے گئے۔ انکے انتہائ عزیز دوست امام بخش صہبائ گولی کا نشانہ بن گئے۔ خود سرسید کا گھر لوٹ لیا گیا۔
انکی بوڑھی والدہ نے گھر سے بھاگ کر اپنی ایک پرانی جاننے والی عورت زیبن کے گھر میں پناہ لی۔ جسکی دیکھ بھال وہ کیا کرتی تھیں۔ سر سید جب مہینوں بعد اپنی والدہ سے ملے تو انہیں دیکھتےہی والدہ نے کہا۔ تم کیوں یہاں چلے آئے یہاں تو لوگوں کو مارے ڈالتے ہیں۔ تم جاءو۔ ہم پہ جو گذرے گی گذر جائے گی۔ سر سید نے انہیں تسلی دی کہ وہ قلعے کے انگریزوں سے مل کر آرہے ہیں۔ اور انکے پاس حاکموں کی چٹھیاں ہیں۔ معلوم ہوا کہ دو دن سے پانی نہیں پیا۔ تو پانی کی تلاش میں نکلے۔ قلعے سے پانی لے کر دوبارہ وہاں پہنچے تو راستے میں زیبن ملی۔ وہ سڑک پہ بیٹھی ہوئ تھی۔ اور پاس مٹی کا آب خورہ اور صراحی تھی۔ وہ پانی کی تلاش میں نکلی تھی۔ ہاتھ سے اشارہ کر کے گھر کی طرف کہا کہ بیوی یعنی والدہ پیاسی ہیں۔ سر سید نے انہیں پانی پلایا اور پھردوڑے ہوئے گھر گئے۔ وہاں خالہ اور والدہ کو پانی دیا۔ گھر سے باہر سواری کا انتظام کرنے نکلے تو دیکھا کہ زیبن مری پڑی ہے۔ آخر سرکاری ڈاک لے جانے والی شکرم میں اپنی والدہ اور خالہ کو لے کر میرٹھ آئے۔
وہاں چند روز بیماری کے بعد انکی والدہ کا انتقال ہو گیا۔
No comments:
Post a Comment
آپ اپنے تبصرے انگریزی میں بھی لکھ سکتے ہیں۔
جس طرح بلاگر کا تبصرہ نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں، اسی طرح تبصرہ نگار کا بھی بلاگر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اس لئے اپنے خیال کا اظہار کریں تاکہ ہم تصویر کا دوسرا رخ بھی دیکھ سکیں۔
اطمینان رکھیں اگر آپکے تبصرے میں فحش الفاظ یعنی دیسی گالیاں استعمال نہیں کی گئ ہیں تو یہ تبصرہ ضرور شائع ہوگا۔ تبصرہ نہ آنے کی وجہ کوئ ٹیکنیکل خرابی ہوگی۔ وہی تبصرہ دوبارہ بھیجنے کی کوشش کریں۔
شکریہ