میرا کمپیوٹر ہیک نہیں ہوا اور نہ ہی میں نے بلاگنگ ترک کی ہے۔ کیونکہ میں نے توبہ ابھی نہیں کی ہے۔ شاعر کہتا ہے کہ گو ہاتھ میں جنبش نہیں، آنکھوں میں تو دم ہے رہنے دے ابھی ساغر و مینا میرے آگے۔
بات یہ ہوئ کہ اپنا ساغر ومینا یعنی لیپ ٹاپ اٹھائے اٹھائے ہم پاکستان کی سرحدوں سے باہر نکل آئے۔ پاکستان میں آجکل سفر کی دو سمتیں رائج الفیشن ہیں۔ ایک پاکستان کی شمالی سمت اور دوسری دنیا کی مغربی سمت۔
اب چونکہ میں پاکستان کے شمال میں نہیں تو آپ اس سے بآسانی یہ نتیجہ اخذ کر سکتے ہیں کہ میں اس وقت دنیا کے مغرب میں ہوں۔ وہی مغرب جو ہماری بد دعاءووں، لعنتوں اور نفرتوں کے باوجود کسی اللہ لوکی ، کسی مجذوب کی طرح اپنی دھن میں مگن چلا جا رہا ہے۔ حالانکہ شاعر نے اس پہ بھی کچھ فرمایا ہوا ہے کہ اپنی دھن میں رہتا ہوں ، میں بھی تیرے جیسا ہوں۔ لیکن اس شعر سے صرف یہ پتہ چل پاتا ہے سب اپنی اپنی دھن میں ہیں۔
اس طرح نکل آنے کی بنیادی وجہ ایک پیغام کا وصول پانا اور اس پہ ہمارا تبادلہ ء خیال تھا۔ جو کم و بیش اس گانے کی طرح تھا۔
تو جناب، اس وقت ہم کینیڈا میں ہیں۔ اور کینیڈیئن ہائ کمشنر کو لکھے گئے اپنے خط کے مطابق یہاں کے معاشرے کی جڑیں کھنگال رہے ہیں۔ جن سے خوشحالی اور امن کی کونپلیں جنم لیتی ہیں۔ مجھے اپنے ملک میں اسکی قلمیں لگانی ہیں۔
باجی جی سفر نامہ کا انتظار ھے ۔ کھنڈالہ میں
ReplyDeleteکنیڈا ؟؟
ReplyDeleteبی بی جی مغرب تو یورپ تک محدود هے پاکستانیوں کا
عربی مراکش کو مغرب کهتے هیں
آپ تو جی دوجے پاسے چلیں گئیں هیں جی
دوجے پاسے
کینیڈا میں !
ReplyDeleteاور مجھے بتایا ہی نئیں۔
میں نئیں بولتا۔
عثمان
ReplyDelete:)
یہ تو سرپرائز ہے۔ آپ حیران ہونے کے بجائے ناراض ہو رہے ہیں۔ اور ابھی تو ہم آئے ہیں۔ زیادہ وقت نہیں گذرا۔ پھر جب تک پہنچ نہ جائیں اس وقت تک کیا کہنا۔ ابھی کینیڈیئن ائیر پورٹ پہ انہوں نے ایسا اعتراض کر دیا تھا کہ میں نے سوچا اب کہیں ایئر پورٹ سے واپس نہ جانا پڑے۔ خیر جناب گھس گئے، آپکے کینیدا میں۔ اب کہئیے، خوش آمدید۔
سونیا بد تمیز، ہمم تو آپ نے عبداللہ کے ابا کے کردار کے بجائے بدتمیز کی شریک حیات بننے کو ترجیح دے دی۔ اچھی تبدیلی ہے۔ تو ہمیں اب آپکے بارے میں پر امید ہونا چاہئیے۔
ReplyDeleteجی آیاں نوں!
ReplyDeleteداستان ائر پورٹ پر بھی ایک پوسٹ ہو جائے۔
باقی تفصیلات بنفس نفیس