Monday, July 25, 2011

سیاح بلائیں

بنکاک میں ہم دو دن کے لئے تھے۔  یہاں میری دلچسپی جس چیز میں سب سے زیادہ تھی۔ وہ یہاں سے کچھ فاصلے پہ موجودتیرتا ہوا بازار تھا۔ جسے فلوٹنگ مارکیٹ کہتے ہیں۔ صبح ہمیں سات بجے ہوٹل سے نکلنا تھا۔  رات جب ہم سونے کی تیاری کر رہے تھے تو اچانک  کھانے کے بعد مشعل کو الٹی ہو گئ۔   وہ کچھ سست تھی لیکن باقی سب ٹھیک لگ رہا تھا۔ ڈھائ سال کا بچہ سفر سے تھک گیا ہوگا۔
صبح جب ہم گاڑی میں سوار ہونے لگے تو میں نے سوچا کہ  میں اور مشعل رک جاتے ہیں باقی لوگ چلے جائیں۔ لیکن سب کہنے لگے کہ اس میں کرنا کچھ نہیں ہے۔ گاری ایئر کنڈیشنڈ ہے وہ بالکل لیٹ کر جا سکتی ہے۔ اور وہاں بوٹ میں بیٹھے رہنا ہوگا۔ دو پہر تک واپس ہوٹل میں ہونگے۔ سو،  احتیاطاً او آر ایس، الٹی کی دوا اور گلوکوز  اپنے بیک پیک میں ڈالا اور چل دئیے۔
ہمیں وہاں پہنچنے میں دو گھنٹے لگے۔ گاڑی سے اتر کر ایک بوٹ میں بیٹھ گئے۔ یہ ایک نہر ہے جسکے دونوں اطراف گھر موجود ہیں۔ ان گھروں کے درمیان آمدو رفت کشتیوں سے ہوتی ہے۔ اسی پہ ذرا آگے بڑھیں تو کشتیوں میں لوگ دوکانیں سجائے نظر آتے ہیں۔  کسی زمانے میں یہاں واقعی اصلی مارکیٹ موجد تھی وقت کے ساتھ وہ ختم ہو گئ۔ کشتیوں میں یہ دوکانیں دراصل سیاحوں کی کشش کے لئے دوبارہ سجائ گئ ہیں۔ ان سے مقامی باشندوں کودلچسپی نہیں۔
بہر حال، ہم کشتیوں کی اس مارکیٹ سے گذر رہے تھے۔ گرمی خاصی بڑھ چلی تھی۔ ہم نے اپنی اپنی چھتریاں کھول رکھی تھیں۔ اس تیرتی ہوئ مارکیٹ سے گذرتے ہوئے کنارے پہ موجود ایک چھوٹے سے ریسٹورنٹ میں چائے پینے کا خیال آیا۔ اسی کے ساتھ ایک دوکان تھی جس میں بچوں کے کھلونے اور دیگر اشیاء موجود تھیں۔ میں مشعل کو وہ دکھانے لے گئ۔ چند ایک چیزیں لے کر میں اسکی ادائیگی کی لائن میں تھی کہ میرے ساتھ کھڑی مشعل زمین پہ بیٹھی اورایکدم بے ہوش ہو گئ۔  میں نے جلدی سے جھک کر اسے سیدھا کیا، سر کو جھکایا پھر جلدی سے بیگ سے گلوکوز نکال کر اسکے منہ میں ٹھونسا اور پانی کے قطرے ڈالنے لگی۔
ادھر سے مشعل کے بابا دوڑتے ہوئے آئے اور دوسری طرف ایک تھائ خاتون جلدی سے بھاگتی ہوئ آئ۔ اور کہنے لگی تمہیں ایمبولینس چاہئیے۔ وہ سامنے کھڑی ہے۔ ہم دونوں نے اسے اٹھایا اور ایمبولینس کی طرف دوڑ لگائ۔ یہ دراصل ایک کار تھی۔ ایسی دو کاریں اور یہاں موجود تھیں۔ ایمبولینس میں ڈالتے ہی ڈرائیور نے سائرن آن کیا اور ہم ہسپتال کی طرف روانہ ہوئے۔ ہسپتال پہنچنے میں ہمیں دس منٹ سے بھی کم وقت لگا۔ فوراً ہمیں ایمرجینسی میں لے جایا گیا۔ اس وقت تک مشعل تھوڑی بہتر حالت میں تھی۔ مگر چہرہ اترا ہوا تھا۔
یہ ایمرجینسی سیکشن ایسا تھا، جیسا کہ کراچی کے کسی بہترین پرائیویٹ ہسپتال کا ایمرجینسی یونٹ ہوتا ہے۔ ہر بیڈ کے ساتھ مشینیں اور آلات تھے۔ ماحول صاف ستھرا، نرسیں موجود۔ وہاں انہوں نے اسے ایک بیڈ پہ لٹایا، چیک کیا اور اسے او پی ڈی میں بچوں کے ڈاکٹر کے پاس بھیج دیا۔
یہ حصہ الگ تھا۔ ہم ایمرجینسی یونٹ سے باہر نکلے اور او پی ڈی کی طرف بڑھے۔ پیچھے سے ایک شخص دوڑتا ہوا آیا۔ اس نے اپنے ہاتھ میں لی ہوئ چھتری کھولی اور ہمارے سروں پہ سایہ کئے ہوئے او پی ڈی تک لے گیا۔ او پی ڈی کے حصے میں ایئر کنڈیشنڈ کی ٹھنڈک موجود تھی۔ نرسز گلابی یونیفارمز میں موجود تھیں۔ ریسیپشن کے حصے میں تین خواتین اور ایک مرد موجود تھے۔ تینوں خواتین نے اسمارٹ سا گلابی روائیتی تھائ لباس پہنا ہوا تھا۔ اس اسمارٹ لباس کے ساتھ انکے گلوں میں موتیوں کی ایک لڑی اور کانوں میں ہلکے آویزے تھے۔ اپنی روائیتی نرم تھآئ زبان میں انہوں نے ہمیں خوش آمدید کہا۔ مشعل کی فائل تیار کی۔ ڈاکٹر کا نام دیا۔ اور ہمیں ساتھ موجود ہسپتال کے گائڈ کے ساتھ ڈاکٹر کے پاس بھیج دیا۔ یہاں لوگ تمیز سے بینچ پہ بیٹھے اپنی باری کا انتظار کر رہے تھے۔
دو لوگوں کے بعد ہمیں اندر بلا لیا گیا۔ گلابی یونیفارم اور سفید گاءون میں دلکش مسکراہٹ والی ڈاکٹر نے چیک کیا تمام معلومات لیں اور ہمیں بتایا کہ یہ وائرل انفیکشن ہے۔ ہو سکتا ہے شام تک بخار اور دست بھی آجائیں پریشان ہونے کی ضرورت نہیں۔ کوئ اینٹی بائیوٹک نہیں دی جارہی ہے۔ دودھ بند کر دیں۔ نرم غذا کے ساتھ او آر ایس اور الٹی کی دوا دیتے رہیں۔ اگر بخار ہو جائے تو یہ دوا الگ سے ہے۔ اسی وقت شروع کرادیں۔
دوا ہسپتال کی فارمیسی سے ملی۔  دوا مفت تھی۔ یہ ایک پرائیویٹ ہسپتال نہیں بلکہ گورنمنٹ ہسپتال تھا۔ ہم ہسپتال سے نکلے تو گویا مسمرائِزڈ حالت میں تھے۔
تھائ لینڈ کی سب سے بڑی صنعت سیاحت ہے۔ کہا جاتا ہے کہ اس سیاحت کی فروغ میں یہاں پیشہ ور خواتین کی آسان  دستیابی اور شراب کی آزادی شامل ہے۔
لیکن اس واقعے سے ایک شخص اندازہ کر سکتا ہے کہ سیاحت صرف خواتین اور شراب کے سہارے نہیں چل سکتی۔  ایک خاندان جو بچوں کے ساتھ موجود ہو اسکے لئے پیشہ ورخواتین کی دستیابی کیا اہمیت رکھتی ہے۔ آپ نے پڑھا کہ ہسپتال میں ہمارے ساتھ کیسا وی آئ پی سلوک ہوا۔ اسکی وجہ یہ  تھی کہ ہم انکا ذریعہ ء روزگار تھے۔ ذریعہ ء روزگار کی عزت نہ کی جائے تو انسان خود عزت سے محروم ہو جاتا ہے۔
میں دوبارہ اگر تھائ لینڈ جانا چاہوں تو اب مجھے بالکل عار نہ ہوگا۔ وجہ سستی رہائیش، سستا کھانا، سستی اور آسان ٹرانسپورٹ، صحت کے کسی بھی ایمرجینسی مسئلے سے نبٹنے کے لئے ڈاکٹر اور ہسپتال فوراً موجود، عام لوگ معاون و مددگار۔ اور سب سے بڑھکر رات کو بارہ بجے میں اور میری ساتھی خاتون ایک کلومیٹر کا فاصلہ طے کرتے ہیں بغیر کسی خوف کے۔ راستہ بھول جانے سے کوئ اندیشے لا حق نہیں ہوئے۔ یہ احساس نہیں تھا کہ ابھی کوئ ہاتھ سے پرس چھین کر فرار ہو جائے گا۔ اسلحے کے زور پہ ہر چیز سے محروم ہو جائیں گے۔ اگر خاتون ہیں تو آتے جاتے لوگ دھکے یا ہاتھ ماریں گے، سیٹیاں بجائیں گے، زبان پھیریں گے یا آنکھ ماریں گے، ہجوم والی جگہوں پہ بم پھٹنے کا خیال نہیں۔ احساس تحفظ کے
بغیرسیاحت میں کوئ کشش نہیں پیدا ہو سکتی۔
اپنے ملک کو سیاحت کے لئے مناسب مقام بنانے کا مطلب یہ ہے کہ آپکے ملک میں وہ تمام چیزیں جو آپکوبے حد خوبصورت لگتی ہیں، جنکی تاریخی یا روائیتی اہمیت ہے، جن سے قدرت نے صرف آپکو نوازا ہے انہیں دوسرے ممالک کے باشندوں کے ساتھ شیئر کریں۔ اس شیئرنگ کے  نتیجے میں وہ آپکے ملک میں رہتے ہیں اپنی ضروریات پوری کرنے کے لئے خریداری کرتے ہیں، کھاتے پیتے ہیں اور جو چیزیں یہاں پسند آتی ہیں وہ یہاں سے خرید کر لے جاتے ہیں۔ ان تمام مراحل پہ وہ پیسے ادا کرتے ہیں۔ اس طرح یہ سیاح  ملک میں پیسہ لے کر آتے ہییں۔ سیاحت کے نتیجے میں مختلف روزگار بھی جنم لیتے ہیں۔ مثلاً سیاح اپنے ساتھ آپکے ملک کی کوئ نہ کوئ نشانی لےجانا چاہتے ہیں یا گھر والوں کے لئے تحفے لے جانا چاہتے ہیں۔ اس طرح سے ان چیزوں کی پیداوار بڑھانا پڑتی ہے۔
 اب اس ملک کی ذہانت  ہے کہ کسطرح اس سیاح سے یہ پیسے خرچ کرواتے ہیں اور کیسے اسے واپس جا کر اس ملک کے لئے مزید سیاح یعنی مزید کاروبار لانے پہ سوچنے پہ مجبور کرتے ہیں۔
خیر سیاحت کے نکتے سے عام سے سوالات ہیں جو آپ چاہیں تو صرف سوچتے رہیں یا چاہیں تو انکا اظہار کریں۔ پاکستان میں وہ کون سی جگہیں ہیں جنہیں آپ سیاحوں کے لئے پر کشش سمجھتے ہیں یا انہیں پر کشش بنایا جا سکتا ہے۔ وہ کون سی پروڈکٹس ہیں جو آپ  سمجھتے ہیں سیاح آپکے ملک سے خریدنا پسند کریں گے۔ 

3 comments:

  1. بھئی ایک تو آپ نے اپنی سیاحت کے احوال بتا بتا کر لوگوں کے خون ساڑ رکھے ہیں۔
    نہیں چاہیے یہ سیاحت ویاحت۔ سیاحت ہوگی.. باہر سے لوگ شوگ آئیں گے۔ جو لوگ شوگ آئیں گے ، تو ظاہر ہے غیر مومن ہوں گے۔ غیر مومن ہونگے تو نکے نکے کپڑے کچھے پہنیں گے۔ نکے کپڑے پہنے گے تو سارے پاکستان میں فاشی پھیل جائے گی!! فاشی پھیل جائے گی، پاک تہذیب غرق ہوجائے گی، گھریلوں زنانیاں ننگا ہو کر الٹا لٹک جائیں گی، اور اور اور....
    آگے ہی میرا اور وینا ملک نے کم انت مچائی ہے جو اب آپ سیاحت کی گولی کھلانے کے درپے ہیں ؟
    مجاہدین اسلام نے سیاحت المعروف فحاشی کو کیا خوب ڈکا لگایا ہے۔ وادی سوات اور شمالی علاقوں میں ہنیر ڈال کر سیاحتی ٹینٹوا ہی دبا دیا۔ نہ ہوگا بانس نہ بجے گی بانسری۔
    فحاشی بھی ختم! اور دنیا بھر سے دہشت زدہ بھیک.. ایکسکیوزمی..امداد الگ سے! مطلب ایک تیر سے دو شکار!
    ایسا ٹوٹکا نہ تھائی لینڈ والوں کے پاس ہے
    نہ کینیڈا والوں کے پاس!
    کیا سمجھیں!

    ReplyDelete
  2. پاکستان میں وہ کون سی جگہیں ہیں جنہیں آپ سیاحوں کے لئے پر کشش سمجھتے ہیں یا انہیں پر کشش بنایا جا سکتا ہے۔
    بن لادین کی موت گاہ
    وہ کون سی پروڈکٹس ہیں جو آپ سمجھتے ہیں سیاح آپکے ملک سے خریدنا پسند کریں گے۔
    دہشت گردی۔ اور یہ پراڈکٹ سیاحوں کو خریدنے کی ضرورت ہی نئیں۔ پاک لوگ تو فی سبیل اللہ ایکسپورٹ کررہے ہیں۔ لیکن بدلے میں سیاح لوگ خوش ہو کر اربوں ڈالر نذرانہ دے جاتے ہیں۔

    ReplyDelete
  3. مزے کی بات یہ کہ ایسی پوسٹس سے ہمارے "عالم دین" حضرات اور ان کے کمنٹس غائب ہیں۔ شاید وہ بحث برائے بحث کی پوسٹس پر ہی "نظر کرم" ڈالنا پسند فرماتے ہیں :)

    ReplyDelete

آپ اپنے تبصرے انگریزی میں بھی لکھ سکتے ہیں۔
جس طرح بلاگر کا تبصرہ نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں، اسی طرح تبصرہ نگار کا بھی بلاگر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اس لئے اپنے خیال کا اظہار کریں تاکہ ہم تصویر کا دوسرا رخ بھی دیکھ سکیں۔
اطمینان رکھیں اگر آپکے تبصرے میں فحش الفاظ یعنی دیسی گالیاں استعمال نہیں کی گئ ہیں تو یہ تبصرہ ضرور شائع ہوگا۔ تبصرہ نہ آنے کی وجہ کوئ ٹیکنیکل خرابی ہوگی۔ وہی تبصرہ دوبارہ بھیجنے کی کوشش کریں۔
شکریہ