Thursday, February 2, 2012

تقدس سے باہر-۲

گذشتہ سے پیوستہ

اس مقام پہ یہ ضروری لگتا ہے کہ ہم اپنے بنیادی کردار کا کوئ نام رکھ لیں۔ فوٹون کیسا ہے؟ فوٹون دراصل روشنی کے وہ یونٹس ہوتے ہیں جن میں وہ سفر کرتی ہے۔  روحانیت کہتی ہے کہ یہ کائینات روشنی سے بنی ہوئ ہے حتی کہ خدا بھی ایک نور ہے۔
سائینس کہتی ہے کہ انسان ان ستاروں سے بنا ہوا ہے جو اربوں سال پہلے ختم ہو چکے ہیں۔ تو یہ روشنی میں بھی ہوں اور آپ بھی۔
فوٹون، عرب کے اس تعارف کے بعد آگے بڑھتا ہے اور یہ دیکھنا چاہتا ہے کہ رسول اللہ کی بعثت کے وقت عرب میں رائج مذاہب کون سے تھے اور کیا اسلام ان سب سے الگ کوئ اجنبی دین تھا جو آیا اور چھا گیا۔
عرب میں اس وقت مختلف طرح کے مذہاب رائج تھے۔ بعض قوانین فطرت کو سب کچھ سمجھتے تھےبعض خدا کے قائل تھےلیکن قیامت اور جزا و سزا کے انکار کرنے والے، بعض جزا و سزا کے بھی قائل تھے لیکن نبوت سے انکاری۔ قرآن کے الفاظ میں یہ کیسا رسول ہے کہ کھاتا پیتا ہےاور بازار میں چلتا پھرتا ہے۔ انکا خیال تھا کہ اگر کوئ نبی ہو سکتا ہے تو اسے فرشتہ ہونا چاہئیے تمام حاجات انسانی سے مبرّا۔ فوٹون سمجھتا ہے کہ چونکہ انسان نبی کو ایک خدائ نمائندہ سمجھتا ہے اس لئے وہ اسے انسان اور خدا کے مابین کوئ مخلوق ماننا چاہتا ہے۔
اس طرح سے مختلف قبائل تھے جو مختلف ستاروں اور سیاروں کی پرستش کیا کرتے تھے۔مشہور بتوں کے نام تھے۔ لات، عزّی، منات،ودّ، سواع، یغوث، یعوق۔ سب سے بڑا بت 'ہبل' تھا۔ جو کعبے کی چھت پہ نصب تھا۔ قریش لڑائیوں میں اسکی جے پکارتے تھے۔ جیسے آجکل مسلمان لڑائیوں میں اللہ اکبر یا شیعہ یا علی کہتے ہیں۔ فوٹون کو اس نام پہ ہبل ٹیلی اسکوپ یاد آجاتی ہے۔ لیکن وہ اپنے اس خیال کو جھٹک دیتا ہے۔ جدید دنیا کے یہ آلات خدا نہیں ہیں اگرچہ ہبل ٹیلی اسکوپ کائینات کے عظیم راز کھولتی ہے لیکن وہ انسان کی بس ایک مددگار ہے۔ اسکا خدا نہیں۔ انسان اسکے مشاہدے سے اپنے نتائج اخذ کرتا ہے اور یہ مشین اس میں دخل اندازی نہیں کرتی۔ دیکھا جائے تو ہبل کا بت اس سے بھی کم تر تھا۔ مگر انسانی یقین نے اسے خدا بنا رکھا تھا۔
عرب میں اس بت پرستی کا بانی ایک شخص عمرو بن لحئ کو بتایا جاتا ہے۔ وہ حرم کا متولی تھا۔ اس سے پہلے جرہم حرم کے متولی تھے۔ عمرو نے ان سے لڑ کر انہیں نکال باہر کیا۔
خانہ کعبہ کی عرب سیاست اور معاشرے میں بڑی اہمیت تھی۔ جن قبائل کو اسکے انتظام کے لئے مناسب حاصل تھے دراصل اسکی حکومت ہوتی تھی۔ حج کے لئے آنے والے زائرین کی آمد سے علاقے کے لوگوں کو آ٘مدنی ہوتی تھی۔ آج بھی حج کے لئے آنے والے زائرین سعودی عرب کی آمدنی کا بڑا ذریعہ ہیں۔ اگرچہ بیسویں صدی کے وسط میں تیل کی دریافت نے انکی دولت میں بے پناہ اضافہ کیا ہے۔ اس وقت اسکے لئے بھی قوانین بنائے ہوئے تھے مثلاً بیرون حرم سے شہر آنے والے اپنا کھانا نہیں لا سکتے تھے۔ کہ اسکا کھانا مذہب کی رو سے درست نہ ہوتا۔ کپڑوں کے لئے یہ کہ  حمس سے کپڑوں کے علاوہ اگر کپڑے نہ ہوں تو طواف برہنہ کرنا پڑتا۔
بہر حال عمرو ایک دفعہ شام گیا وہاں لوگوں کو بتوں کی پوجا ہوتے دیکھی۔ حیران ہوا اور دریافت کیا کہ یہ ماجرا کیا ہے۔ لوگوں نے کہا یہ حاجت روا ہیں، لڑائیوں میں فتح دلاتے ہیں، قحط پڑتا ہے تو پانی برساتے ہیں۔ عمرو حرم کا متولی تھا اور فوٹون کو لگتا ہے کہ خاصہ ذہین بھی اسنے وہاں سے چند بت لئے اور اور کعبے کے آس پاس قائم کئے۔ شاید وہ سمجھتا تھا کہ اس سے کعبے کی اہمیت اور بڑھے گی اور چونکہ وہ کعبے کا متولی ہے اس لئے اسے زیادہ فائدہ ہوگا۔
کعبہ ایک بڑی عبادت گاہ ہونے کی وجہ سے اہمیت رکھتا تھا۔ اسکی اہمیت حضرت ابراہیم سے منسوب ہونے کی وجہ سے بھی تھی۔ وہاں سارے عرب سے قبائل آیا کرتے تھے۔ یہ قبائل جب یہاں حج کو آتے تو واپس جاتے ہوئے حرم کے پتھر اٹھا لیتے۔ ان پتھروں کو با برکت سمجھتے ہوئے ان پہ کعبے میں موجود بتوں کی شکل تراشتے اور انکی عبادت کرتے۔ اس طرح سے بت پرستی یہاں سے نکل کر سارے عرب میں پھیل گئ۔
کیا اللہ اسلام کا متعارف کرایا ہوا معبود  ہے؟
اگرچہ کہ عرب بت پرست تھے۔ لیکن انکے دل سے یہ خیال کبھی نہیں گیا کہ برتر اور عظیم قوت ان سب سے الگ ہے اور وہ ایک ہے۔ تمام مشرک قومیں ایک برتر قوت کا تصور رکھتی ہیں۔ ہندو بھی جسے بھگوان کہتے ہیں وہ کائینات کی سب سے عظیم قوت ہے۔ اس خالق کو وہ اللہ کہتے تھے۔ قرآن انکی اس کیفیت کو اس طرح بیان کرتا ہے
پھر جب یہ کشتی میں سوار ہوتے ہیں تو اللہ ہی کو خلوص کے ساتھ پکارتے ہیں پھر جب خدا انکو نجات دے کر خشکی کی طرف پہنچا دیتا ہے تو تو شرک کرنے لگتے ہیں [ عنکبوت، ۴]۔
مئورخین کہتے ہیں کہ اللہ جو صفا کے کتبوں میں ہلّہ لکھا ہوا ہے۔ نباتی وہ دیگر باشندگان عرب شمالی کے نام کا ایک جز تھا مثلاً زید اللہی۔۔۔۔۔۔۔۔ نباتی کتبات میں اللہ کا نام ایک علیحدہ معبود کے طور پہ نہیں ملتا۔ لیکن صفا کے کتبات میں ملتا ہے۔ متاخریرین مشرکین مکہ میں اللہ کا نام عام ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔اللہ کانام جو پہلے مختلف معبودوں کے لئے استعمال ہوتا تھا رفتہ رفتہ بعد کے زمانے میں صرف ایک عظیم معبود  کے لئے بطور علم کے مخصوص ہو گیا۔
فوٹون نے سوچا، ارے یہ کیا اللہ نام کا معبود تو پہلے سے موجود تھا۔
نصرانیت یعنی عیسائیت، یہودیّت اور مجوسیت یہ تینوں مذاہب بھی عرب میں ایک خاصی مدت سے موجود تھے۔ عیسائیت اتنی ترقی کر چکی تھی کہ مکہ میں ایسے لوگ موجود تھے جو عبرانی زبان میں انجیل پڑھ سکتے تھے، مثلاً ورقہ بن نوفل جنہوں نے پہلی وحی کے بعدرسول اللہ کی نبوت کی تصدیق کی۔ متعدد ایسے لوگ تھے جنہوں نے ملک شام جا کر اسکی تعلیم پائ تھی۔ یہودیوں کے متعدد قبائل تھے  حتی کہ یہود نے مدینہ پہ قابو پا لیا تھا۔ تورات کی تعلیم کے لئے متعدد درسگاہیں قائم تھیں  جن کو بیت المدارس کہتے تھے۔ قلعہ خیبر کی تمام آبادی یہودی تھی۔
اہل کتاب کی روائیتیں مکہ میں رواج پا چکی تھیں۔ اس لئے قرآن کے وہ واقعات جن میں بنی اسرائیل کا تذکرہ ہوتا کفار انکے متعلق کہتے کہ کوئ یہودی محمد کو یہ سب سکھاتا ہے۔
ان سب کے علاوہ دین ابرہیمی بھی موجود تھا یعنی وہ دین جوتوحید خالص پہ مبنی تھا۔ ایسے صاحب عقل لوگ موجود تھے جو بت پرستی کو ایک برائ سمجھتے تھے اور حق کی تلاش میں تھے۔
ابن اسحق نے لکھا ہے کہ ایک دفعہ کسی بت کے سالانہ میلتے میں ورقہ بن نوفل، عبداللہ بن حجش، عثمان بن ایحویرث اور زید بن عمرو شریک تھے دفعتاً ان لوگوں کے دل میں خیال آیا کہ یہ کیا بیہودہ پن ہےکہ ہم ایک پتھر کے سامنے سر جھکاتے ہیں۔ جو نہ سنتا ہے نہ دیکھتا ہے نہ کسی کا نقصان کر سکتا ہے نہ فائدہ پہنچا سکتا ہے۔  اگرچہ اس مرحلے پہ فوٹون ایک لا دین ہونے کے ناطے یہ  سوچتا ہے کہ ایک ان دیکھا واحد خدا بھی تو یہ سب نہیں کرتا پھر وہ لوگ کس خدا کو تلاش کرنا چاہتے تھے؟
یہ چاروں قریش کے خاندان سے تھے۔ ورقہحضرت خدیجہ کے پھوپھی زاد بھائ، زید حضرت عمر کے چچا، عبداللہ حضرت حمزہ کے بھانجے، عثمان عبدالعزی کے پڑ پوتے تھے۔
زید بنعمرو دین ابراہیمی کی تلاش میں شام گئے وہاں یہودیوں اور عیسائ پادریوں سے ملے مگر تسلی نہیں ہوئ۔ دل میں کہا کہ میں دین ابراہیم کا مذہب قبول کرتا ہوں۔
صحیح بخاری میں ہے کہ رسول اللہ نے نبوت سے پہلے حضرت زید کو دیکھا تھا۔ اور ان سے دوستی بھی تھی۔ یہ وہ صاحب تھے کہ جب کوئ اپنی بیٹی کو زندہ دفن کرنے کا ارادہ کرتا تو اس سے بچی کو مانگ لیتے اور خود اسکی پرورش کرتے۔
انکے علاوہ باقی تینوں لوگ عیسائ ہو گئے۔
بعثت رسول کے قریب امیہ بن ابی الصلت نامی طائف کا ایک مشہور رئیس اور شاعر تھا۔ وہ بھی بت پرستی کا شدید مخالف تھا۔ کتابوں میں مذکور ہے کہ امیہ نے آسمانی کتابیں پڑھی ہوئ تھیں اور دین ابراہیمی  اختیار کر لیا تھا۔
امیہ کا دیوان اب بھی موجود ہے۔ وہ غزوہ ء بدر تک زندہ رہا۔ عتبہ جو رئیس مکہ اور امیر معاویہ کا نانا تھا  جب مسلمانوں کے خلاف جنگ میںمارا گیا تو امیہ نے ایک پر درد مرثیہ لکھا۔ کہا جاتا ہے کہ اسی وجہ سے امیہ نے اسلام قبول نہیں کیا۔
رسول اللہ کو امیہ کی شاعری پسند تھی اور اسے سنتے ہوئے انہوں نے کہا کہ، 'امیہ مسلمان ہوتے ہوتے رہ گیا'۔ یہ شاید امیہ کی شاعری میں موجودان نظریات کی وجہ سے تھا جس کی جھلک اسلام کے بنیادی نظریات میں نظر آتی ہے۔ فوٹون نے خیال کیا۔ رسول اللہ پہ تنقید کرنے والے ایک طبقے کا خیال ہے کہ محمد نے اپنے بنیادی نظریات ایسے ہی مقامات سے لئے۔
دین ابراہیمی کو ہی دین حنیفی بھی کہا جاتا ہے۔ کیوں کہا جاتا ہے اسکے بارے میں قطعیت سے نہیں کہا جا سکتا۔  ایک رائے یہ ہے کہ حنیف، حنف سے نکلا ہے جس کا مطلب ہے انحراف۔ مفسرین کے نزدیک چونکہ بت پرستی سے انحراف ہے اس لئے حنیفی کہلایا۔ ایک اور رائے میں عبرانی اور سریانی زبان میں حنیف کے معنی منافق یا کافر کے ہیں۔  ممکن ہے کہ یہ لقب بت پرستوں نے دیا ہو اور توحید پرستوں نے فخریہ قبول کیا۔
ان کے علاوہ چند لوگ اور تھے جو اس وقت بت پرستی سے منکر ہو چکے تھے۔ اس بناء پہ اہل یوروپ کا کہنا ہے کہ توحید خالص کا تصور اسلام سے پہلے عرب میں موجود تھا۔ شبلی صاحب ایک حیرانی میں پوچھتے ہیں کہ پھر اسلام کے ظہور پہ اتنا ہنگامہ کیوں ہوا؟
فوٹون اس مرحلے پہ سمجھتا ہے کہ توحید خالص کے لئے تحریک چلانے والی سوچ بعثت نبوی سے پہلے پیدا ہو چکی تھی سوال یہ تھا کہ پہلا پتھر کون مارے؟ لیکن فوٹون کے لئیے اہم بات یہ ہے کہ آخر اس تصور کے حق میں تحریک چلانے کی ایسی کیا ضرورت آ پڑی تھی؟ 


نوٹ؛ اس تحریر کی تیاری میں جن کتب سے مدد لی گئ ہے وہ یہ ہیں۔ مولانا شبلی نعمانی کی کتاب سیرت النبی، اسکے پبلشر ہیں الفیصل ناشران و تاجران کتب اور مولانا صفی الرحمن مبارکپوری کی الرحیق المختوم جسکے پبلشر ہیں المکتبہ السلفیہ لاہور۔

10 comments:

  1. The font is terrible, couldnt manage to read it till the end. please change the font

    ReplyDelete
  2. گمنام ، مجھے احساس ہے کہ یہ فونٹ پڑھنا مشکل کام ہے لیکن اس وقت اس میں بہتری کی صورت نہیں بن رہی۔ کام جاری ہے۔ دیکھیں کیا ہوتا ہے۔

    ReplyDelete
  3. Aneeqa, the css of your theme does not seem to have a proper font so the viewer will see the page in browser's default font. Edit the css file to include the following:

    body {
    font-family:"Jameel Noori Nastaleeq,Urdu Naskh Asiatype";
    }

    This will change the font, not the font size. You can add more fonts separated by comma.

    ReplyDelete
  4. چلیں فونٹ تو واپس آیا۔
    ورنہ تو خدا خدا کر کے موقع آیا تھا بہتر تھیم لگانے کا۔ اب آثار نظر نہیں آتے۔

    ReplyDelete
  5. :) :) :)
    کل دو گھنٹے بیٹھ کر کمپیوٹر پہ سے کچرا صاف کیا ہے۔ بہت ساری فائلیں ڈیلیٹ ہونے کے بعد یہ خود ہی صحیح ہو گیا۔ مزید صفائ کرنے کے بعد دیکھیں گے کہ کیا کچھ گنجائش بنتی ہے۔ لیکن وقت بھی ملنا چاہئیے۔
    سب سے اہم بات تو یہ ہے کہ ایک قاری کو بلاگ پڑھنے میں آسانی ہونی چاہئیے۔
    :)

    ReplyDelete
  6. جی وہ تھیم قاری کی سہولت اور نقطہ نظر کے مطابق ہی ترتیب دی گئی ہے۔ جیسے کتاب کے سفید صفحے پہ مناسب لکھائی سے لکھی ایک سنجیدہ تحریر اور بس۔
    ورنہ قاری کو صفحہ کی بجائے ایک طویل رول دیجیے جس کے گرد مختلف اقسام کے پھندنے لٹک رہے ہوں۔ اور سفید اور سرمئی رنگت میں تنگ لائنوں پہ مشتمل تحریر پڑھنے کو دیجیے۔ اب قاری ایسے میں انااللہ نہ پڑھے تو کیا پڑھے۔

    لگتا ہے کہ دھمکی دینا پڑے گی۔ کہ اس بلاگ پہ یا تو تھیم رہے گی یا شاگرد صاحب۔

    اور وہ آپ کے "وہ"... جنہیں آپ نے اپنی زندگی کے پچاس فیصد حصص تفویض کر رکھے ہیں۔ وہ آپ کے بلاگ کے ایک فیصد حصص کیوں نہیں رکھ لیتے... کہ تصنیف کی تعریف نہ سہی ... تیکنیک میں ہی مدد مل جائے۔ یا پھر کہیں ایسا تو نہیں کہ ...
    گھر کی بیوی مرغی برابر ؟
    :):)

    ReplyDelete
    Replies
    1. خوشگوار ازدواجی زندگی کے رازوں میں سے ایک راز یہ ہے کہ کبھی 'ان' سے تیکنیکی مدد نہ لیں نہ انہیں دیں۔
      مجھے تھیم بدلنے پہ کوئ اعتراض نہیں۔ لیکن یہ میں نہیں چاہتی کہ پھر ایک ایسا سلسلہء روزو شب بنے کہ میں کمپیوٹر کے آگے ہاتھ جوڑے بیٹھی ہوں۔
      آپ نے جو صورت حال بلاگ کی کھینچی ہے اسکے بارے میں بس اتنا کہہ سکتی ہوں کہ لوگ آخر انار کھانے کے لئے بھی اتنا تردد کرتے ہی ہیں۔ انار کے لے آءوٹ سے ہزار ہا شکایات کے باوجود کسی نے اسے کھانا ترک نہیں کیا۔
      :)

      Delete
  7. mashaAllah chawlian marny men aap ka koi sani nahen hy...
    make it private. Koi bacha na parh lay

    ReplyDelete
    Replies
    1. گمنام، یہ سب چولیں تو مولانا شبلی نعمانی اور مولانا صفی الرحمن دونوں مل کر مار رہے ہیں۔ میں تو انہیں اختصار سے یہاں لکھ رہی ہوں۔
      میں اسے پرائیویٹ بنا بھی لوں تو ان دونوں کی کتابوں کا کیا ہوگا جو ساری دنیا میں پھیل چکی ہیں۔ آپکا مسئلہ تو انتہائ گھمبیر ہے۔

      Delete
  8. ہبل دوربین ایک سائنسدان ایڈون ہبل کے نام پر ہے، برسبیل تذکرہ لکھ دیا :)

    ReplyDelete

آپ اپنے تبصرے انگریزی میں بھی لکھ سکتے ہیں۔
جس طرح بلاگر کا تبصرہ نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں، اسی طرح تبصرہ نگار کا بھی بلاگر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اس لئے اپنے خیال کا اظہار کریں تاکہ ہم تصویر کا دوسرا رخ بھی دیکھ سکیں۔
اطمینان رکھیں اگر آپکے تبصرے میں فحش الفاظ یعنی دیسی گالیاں استعمال نہیں کی گئ ہیں تو یہ تبصرہ ضرور شائع ہوگا۔ تبصرہ نہ آنے کی وجہ کوئ ٹیکنیکل خرابی ہوگی۔ وہی تبصرہ دوبارہ بھیجنے کی کوشش کریں۔
شکریہ