ایک مختصر ہلکا پھکا سا جملہ بہت سے پریشان چہروں پر مسکراہٹ بکھیر سکتا ہے تو کیوں نہ پھر مسکراتے چہروں کا اضافہ کیا جائے اس دنیا میں جہاں سے آج یا کل بالآخر چلے جانا ہے ۔
یہ جملہ پڑھ کر مجھے اچانک فیض کی یہ نظم یاد آگئ۔ جسکا عنوان ہے 'مرے ہمدم، مرے دوست'۔
لیجئیے پڑھئیے۔
گر مجھے اسکا یقیں ہو مرے ہمدم، مرے دوست
گر مجھے اسکا یقیں ہو کہ ترے دل کی تھکن
تیری آنکھوں کی اداسی، ترے سینے کی جلن
میری دلجوئ، مرے پیار سے مٹ جائے گی
گر مرا حرف تسلی وہ دوا ہو جس سے
جی اٹھے پھر ترا اجڑا ہوا بے نور دماغ
تیری پیشانی سے دھل جائیں یہ تذلیل کے داغ
تیری بیمار جوانی کو شفا ہو جائے
گر مجھے اسکا یقیں ہو مرے ہمدم، مرے دوست
روز وشب، شام و سحر میں تجھے بہلاتا رہوں
میں تجھے گیت سناتا رہوں ہلکے، شیریں
آبشاروں کے، بہاروں کے، چمن زاروں کے گیت
آمد صبح کے، مہتاب کے، سیاروں کے گیت
تجھ سے میں حسن ومحبت کی حکایات کہوں
کیسے مغرور حسیناءوں کے برفاب سے جسم
گرم ہاتھوں کی حرارت میں پگھل جاتے ہیں
کیسے اک چہرے کے ٹہرے ہوئے مانوس نقوش
دیکھتے دیکھتے یک لخت بدل جاتے ہیں
کس طرح عارض محبوب کا شفاف بلور
یک بیک بادہء احمر سے دہک جاتا ہے
کیسے گلچیں کے لئے جھکتی ہے خود شاخ گلاب
کس طرح رات کا ایوان مہک جاتا ہے
یونہی گاتا رہوں، گاتا رہوں تیری خاطر
گیت بنتا رہوں، بیٹھا رہوں تیری خاطر
پر میرے گیت ترے دکھ کا مداوا تو نہیں
نغمہ جراح نہیں، مونس وغمخوار سہی
گیت نشتر تو نہیں، مرہم آزار سہی
تیرے آزار کا چارہ نہیں، نشتر کے سوا
اور یہ سفاک مسیحا مرے قبضے میں نہیں
اس جہاں کے کسی ذی روح کے قبضے میں نہیں
ہاں مگر تیرے سوا، تیرے سوا، تیرے سوا
دست صبا سے ایک انتخاب۔
بہت خوب کہا فیض صاحب نے ۔ان کی شاعری کی تہ میں وطن سے محبت کا جو جذبہ پنہاں ہے اس کے اظہار کا حق انہوں نے اپنی شاعری کے ذریعے ادا کر دیا ۔ بہت عرصے بعد یہ غزل دوبارہ پڑھی تو دل خوش ہوگیا
ReplyDeleteفیض صاحب کی کیا بات۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اور آپ کے انتخاب کے بھی کیا کہنے
ReplyDeleteفیض صاحب ایسے جیسے ہر لفظ اپنے پر بیتا کر لکھا کرتے تھے۔ کتنا درست کہا کہ "تیرے آزار کا چارہ نہیں نشتر کے سوا"۔ سبحان اللہ۔
ReplyDelete