شاعر نے صحیح کہا تھا کہ مجھ سے پہلی سی محبت میرے محبوب نہ مانگ۔
تصور کریں، چند سال پہلے جو شخص آپکی محبت میں مبتلا ہونے کے دعوے کرتا ہو وہ ایک دن یہ بہانہ بنا کر آپکی زندگی سے چھلاوے کی طرح غائب ہو جائے کہ میں اپنے والدین سے بغاوت نہیں کر سکتا، اماں بیلن سے پٹائ لگادیں گی ابا اٹھک بیٹھک کرنے سے لگا دیں گے۔ پھوپھی کی بیٹی کے نندوئ کو ہماری شادی پہ شدید اعتراض ہوگا۔ محلے کا کتا آپکو دیکھ کر عجیب طرح سے بھونکتا ہے۔ آپ مدنی برقعہ پہن کر چل نہیں پائیں گی جبکہ والد صاحب کو اس برقعے میں کیٹ واک کرتی بہو چاہئیے۔ آپکی نشیلی آنکھیں پہلے عشق کی یاد دلاتی ہیں، ہم کہاں تک اسے یاد کرتے جائیں۔ چڑیل یا لنگور منگیتر کو یہ آئیڈیا زہر لگتا ہے۔
پھر ایک عرصے کے بعد جب اور بھی دکھ ہیں زمانے میں محبت کے سوا کہہ کر اپنے کام دھندوں میں لگ جاتے ہیں، وہ اچانک فیس بک پہ نمودار ہوتا ہے اور یہ جاننا چاہتا ہے کہ آپ وہی ہیں ناں جن سے کبھی دل کا رشتہ استوار ہوا تھا۔ اور جب آپ اسکا جواب اثبات میں دیتے ہیں تو وہ اگلا پیغام اس طرح کا دیتا ہے میں آجکل فلاں ملٹی نیشنل کمپنی میں سالانہ لاکھوں روپے کما رہا ہوں۔ ایک خوبصورت اور محبت کرنے والی بیوی ہے اور دو انتہائ پیارے بیٹے۔ بس یہ سب اللہ کا فضل و کرم ہے۔
اگر آپ ایک مرد ہیں تو ایسا شاذ ہی ہوگا کہ آپ پہ ایک زمانے میں واری کوئ خاتون آپکو فیس بک پہ ڈھونڈھ نکالے محض یہ بتانے کے لئے کہ اسکا شوہر ایک مالدار شخص ہے حسین بچے ہیں جو اعلی اسکولوں میں پڑھتے ہیں اور پروردگار کے کرم سے اسے دنیا کی ہر آسائیش میسر ہے۔ لیکن پھر بھی ایسا ہو تو آپ کیا کریں گے؟
کیا عشق کے عین، شین اور لام قسم کی تحاریر پہ دو حرف بھیج کر پروردگار کا شکر ادا کریں گے کہ بر وقت شادی کر کے آجکے دن اپنی ساکھ بچا لی۔ اپنے جیون ساتھی پہ ایک پیار بھری نظر ڈالیں گے جس سے وہ بےساختہ پوچھ بیٹھے گا کہ بدلے بدلے میرے سرکار نظر آتے ہیں اور آپ زیر لب گنگنائیں گے یہ اسکی دین ہے جسے پروردگار دے۔
کوئ شخص اگر نوجوانی میں مر جائے تو یاد کرنے والوں کے دل میں ہمیشہ جوان رہتا ہے مگر خدا ایسا دشمن کے ساتھ بھی نہ کرے کہ محبت یوں ڈراءونا بھوت بن کر سامنے آکھڑی ہو۔ اور آپ دل ہی دل میں خدا کا شکر ادا کریں کہ چلو اچھا ہوا بارہ آنے کا گلاس یعنی ایک دل ہی ٹوٹا، مستقبل بچا رہا۔ دل کے متعلق تو غالب نے پہلے ہی تاکید کر رکھی ہے اور لے آئیں گے بازار سے اگر ٹوٹ گیا۔ اور جہاں میں کون ایسا ہے جو غالب کا طرفدار نہیں۔
ویسے اکثر یہ سوال بھی ذہن میں آتے ہیں کہ یہ اللہ کا فضل و کرم مطلقاً کیا چیز ہوتی ہے؟ کیا ایسی چیز جو ایک شخص کے لئے ستم کا باعث بن جائے دوسرے کے لئے فضل اور کرم کہلائ جا سکتی ہے؟ کیا اللہ کا فضل وکرم کوئ آفاقی چیز نہیں؟ کیا دوسری محبت آجانے کے بعد پہلی محبت حرف غلط کی طرح مٹ جاتی ہے؟ چلیں اچھا اگر مٹ بھی جاتی ہو تو کیا پہلی محبت پہ اپنی موجودہ خوشحالی اور خوشی و انبساط کو ظاہر کرنا ضروری ہوتا ہے؟
کتا کچھ لوگوں کو دیکھ کر عجیب طریقے سے کیوں بھونکتا ہے؟
پھوپھی کی بیٹی کا نندوئ ایسے مواقع پہ اتنا مددگار کیوں ہوتا ہے؟
بچپن کا / کی منگیتر اتنی اچانک کہاں سے وارد ہوجاتا / ہو جاتی ہے؟
جو والدین کے خلاف بغاوت نہیں کر سکتے وہ حکومت کے خلاف بغاوت کرنے پہ کیوں آمادہ رہتے ہیں؟
برقعے میں کیٹ واک سکھانے کے ادارے کیوں نہیں ہیں؟
شراب کو حرام کہنے والے نشیلی آنکھوں پہ کیوں فدا رہتے ہیں؟
پہلی اور دوسری محبت کا فیصلہ کیا تاریخ دیکھ کر ہوتا ہے؟
واللہ، بس اسی لئے مجھے فلسفہ ء محبت کی گہرائیوں میں جانے سے گریز رہا۔
اب یہ نہ سمجھئیے گا کہ
بلاگنگ کر رہا ہوں، کبھی فیس بک پہ جا رہا ہوں
کسی بے وفا کی خاطر سوشل میڈیا آزما رہا ہوں
مجھے تو صرف یہ کہنا ہے اللہ تیرا شکر ہے۔
یہ غالب کے ایک شعر سے اچھا فلسفہ نکالا ہے آپ نے۔ مجھے اندازہ نہیں تھا کہ ایک اسٹیٹس اپ ڈیٹ سے یہ تحریر نکل آئے گی :)
ReplyDeleteکوئی خاتون صاحبہ اگر مجھے یہ پیغام ارسال کریں تو میں تو یہی کہوں گا کہ جی اللہ کا بڑا فضل ہے جو یہ چکر ابھی ختم نہیں ہوا۔
ReplyDeleteعثمان، اسکے بعد کہیں گے کہ اللہ کا بڑا شکر ہے جی اس سے بڑی دعا کی تھی کہ آپ جہاں رہیں خوش رہیں، سکھی رہیں۔ آپکو تو معلوم ہے کہ میں آپکو دکھی نہیں دیکھ سکتا یا یہ کہ جی بس اللہ کا شکر ہے میں بھی مائیکرو سوفٹ میں چیف ایگزیکیٹو ہونے والا ہوں۔ ایک خوبصورت لڑکی نے شادی کا وعدہ کیا ہے نجومی کا کہنا ہے کہ اس سے چار پیارے پیارے بچے ہونگے جو دنیا میں والدین کا نام روشن کریں گے۔
ReplyDelete