Tuesday, November 1, 2011

بیٹی یا بیٹا؟

آپکو بیٹی چاہئیے یا بیٹا؟


تمام حیاتیات اپنے آپکو آگے بڑھانے کے لئے مختلف طریقے اختیار کرتی ہیں۔ جو حیات پسماندہ ہے وہ غیر جنسی طریقے سے اپنی نسل کو بڑھاتی ہے. ان میں عام طور پہ نر اور مادہ کی تخصیص نہیں ہوتی۔ جبکہ اعلی حیاتیات جنسی طریقے سے بڑھاتی ہے اور وہ نر اور مادہ صنفیں رکھتی ہے۔ سائینس کے نزدیک نر اور مادہ کا امتیاز بس اسی لئے ہے۔ کیونکہ جنسی طریقے سے زیادہ مضبوط نسل سامنے آتی ہے۔
انسان کا شمار سائینسی لحاظ سے تو ہوتا ہی اعلی حیات میں ہے بلکہ تمام مذہبی و ادبی ذرائع میں بھی انسان کو فوقیت دی جاتی ہے۔ لیکن جب ہم انسانی سطح پہ آتے ہیں تو یہاں انسان نے اپنے علیحدہ معیارات بنا رکھے ہیں۔ سب سے پہلا فرق تو جنس کی بنیاد پہ آتا ہے۔
ایک جنس دوسری جنس کے ساتھ کیا برتاءو رکھتی ہے اس کی بنیاد پہ ایک معاشرے کے اندر بہت سارے رسوم و رواج اور رجحانات جنم لیتے ہیں۔
مثلا ہمارے پڑوسی ملک بھارت میں شادیوں پہ لڑکیوں کو دئیے جانے والے جہیزاور دوسری طرف معاشرتی سطح پہ  لڑکیوں کو ہی نہیں انکے والدین کو بھی مختلف رسوم و رواج کے ذریعے  کمتر ہونے کا احساس دلانا ان چیزوں نے مل کر وہ بھیانک شکل اختیار کی کہ لوگوں کو عافیت اس میں نظر آئ کہ ایک لڑکی کو پیدائیش کے فوراً بعد مار دیا جائے۔ جب الٹرا ساءونڈ کی ٹیکنیک  کی مدد سے بچے کی جنس متعین کرنے میں مدد ملنے لگی تو ان بھارتیوں نے اس پہ اظہار گرمجوشی اس طرح  کیا کہ اب پیدائیش کے بعد نہیں بلکہ پیدائیش سے پہلے ہی لڑکیوں سے فراغت پا لی جاتی ہے۔


قدرت بڑی منتقم مزاج ہے۔ اور اسکا انتقام بڑا سخت ہوتا ہے۔ آج دو ہزار گیارہ میں بھارت میں ایسے علاقے موجود ہیں جہاں لڑکیوں کی کمی کی وجہ سے  لڑکوں کی شادیاں نہیں ہو پارہی ہیں۔ اسکا ایک حل تو یہ نکالا گیا کہ دوسرے علاقوں سے لڑکیاں خرید کر لے آتے ہیں۔ 
اسکے اپنے معاشرتی مسائل ہوتے ہیں کس طرح یہ انجان بولی اور ثقافت رکھنے والی لڑکیاں ایک اجنبی ماحول اور شوہر کے ساتھ گذارا کرتی ہیں۔ اسکا دوسرا بھیانک حل جو اب سامنے آیا ہے اس میں ایک لڑکی کسی ایک بھائ سے شادی کرتی ہے لیکن  در حقیقت اسے تمام بھائیوں کی بیوی بننا پڑتا ہے۔ یہ ایک حقیقت آجکے بھارت کے کچھ حصوں میں ایک کھلا راز ہے جسے سب جانتے ہیں مگر کوئ نہیں جانتا۔ پانڈءووں کی کہانی کو جنم دینے والی اس زمین پہ مشترکہ بیوی کے تصور کی  آبیاری ہونا کیا مشکل ہے۔
اس مثال سے پتہ چلتا ہے کہ کسطرح ترجیحات ایک معاشرے کے رسوم و رواج بلکہ اسکی روح تک کو متائثر کرتی ہیں۔
لوگوں نے بڑی چھان پھٹک کی، اندازے لگائے کہ کیا کوئ طریقہ ایسا ہے جس سے پتہ چل جائے کہ بیٹا کیسے پیدا ہو۔ میری ایک دوست کی والدہ کا کہنا تھا کہ مرد اگر زیادہ عمر میں شادی کریں تو انکے یہاں بیٹیاں زیادہ ہوتی ہیں۔ کچھ کا خیال ہے کہ وہ خواتین جنکی کمر کولہوں کے مقابلے میں زیادہ پتلی ہوتی ہے انکے یہاں بیٹیاں زیادہ ہوتی ہیں، کچھ اسکا تعلق وراثت سے جوڑتے ہیں۔ جس خاندان میں لڑکے زیادہ ہوں وہاں لڑکے زیادہ پیدا ہوتے ہیں۔ مگر آپ اور میں ان سب کے غلط ہونے کی ایک نہیں کئ مثالیں سامنے لے آئیں گے۔
لیکن پھر بھی خیال آتا ہے کہ آخر کوئ تو ایسی بات ضرور ہوگی جسکی بناء پہ انسانی جسم میں موجود ایک زندگی اپنی جنس کا تعین کرتی ہوگی۔ بالکل ایسے ہی جیسے  جسم کے باقی افعال کے لئے خدا نے ایک راستہ متعین کیا ہے اسکے لئے بھی ہوگا تو۔
یہ خواہش کوئ غیر فطری نہیں کہ جہاں اللہ نے بیٹیاں دی ہیں وہاں بیٹا بھی ہو۔ لیکن صرف اسی کو زندگی کا مقصد بنا لینا درست نہیں۔ اب اس سوچ کو آگے بڑھاتے ہوئے غور کرتی ہوں کہ ایسے کون سے جوڑے ہیں جنکے یہاں بیٹے زیادہ ہیں اور ایسے کون سے جوڑے ہیں جنکے یہاں بیٹیاں زیادہ ہیں۔ سوچنے لگی کہ وہ مرد جو اسٹریس کا شکار ہوتے ہیں انکے یہاں بیٹیاں زیادہ ہوتی ہیں۔
میں نے مرد کو کیوں پکڑا؟ 
اس لئے کہ سائینس مطابق،  بچے کی جنس کا تعین کرنے میں مرد کے کروموسومز فیصلہ کن کردار ادا کرتے ہیں۔
ابھی اس سوچ کے لئے مثالیں اکٹھی ہی کر رہی تھی کہ  تین دن بعد ایک مضمون پڑھنے کو ملا۔ جس میں کچھ تحقیق دانوں نے یہ نتائج پیش کئے کہ وہ عورتیں جو اسٹریس کا شکار زیادہ ہوتی ہیں انکے یہاں بیٹیاں ہوتی ہیں۔ یہ انہوں نے اپنی شماریات کا اندازہ بتایا ہے۔ اس مضمون میں یہ نہیں بتایا گیا کہ آیا انکے شوہروں کے روئیے کو بھی اس میں شامل رکھا گیا تھا یا نہیں۔
خیر جناب، اب یہ مت سمجھ لیجئے گا کہ بس ہر وقت مست رہنے سے لوگوں کی ایک بڑی تعداد کا یہ مسئلہ حل ہوجائے گا۔ یہ کارخانہ ء حیاتیات عورت اور مرد دونوں کو مل کر چلانا ہے۔ اس لئے دونوں کی تعداد کا توازن میں ہونا ضروری ہے۔
ہو سکتا ہے کہ سائینس داں کوشش میں ہوں کہ اس بہانے خواتین حالت حمل میں تناءو کا شکار نہ ہونے کی کوشش کریں۔ اگر آپکے شوہر بیٹے کی شدید خواہش میں آپکو زچ کر کے رکھے ہوئے ہیں تو انہیں یہ تحریر پڑھا دیجئیے۔ ممکن ہے کم از کم بچے کے آنے تک آپ سکون سے رہ پائیں۔

6 comments:

  1. او جی پیر صیب کا تو ذکر ہی نئیں کیا جو تعویز لکھ کر دیتے ہیں۔ "بیٹا نہ بیٹی "والا۔

    اور آپ کا یہ کلام ناز سیارہ پر نازل کیوں نہیں ہوا؟

    ReplyDelete
  2. عثمان، سیارہ کا معلوم نہیں ہو سکتا ہے انہوں نے نکال باہر کیا ہو۔
    پیر صاحب کے وظیفوں پہ تو ایک اور تحریر بن سکتی ہے۔ سوچتی ہوں پہلے چند وظائف اکٹھا کر لوں۔ پھر ڈالتی ہوں۔

    ReplyDelete
  3. آپ کے بلاگ کی فیڈ سیارہ کی فہرست میں موجود ہے۔ یہ کوئی اور وقتی خرابی ہوگی۔ آپ کو باہر نکال دیا تو مخلوقات سیارہ کے پاس لکھنے کو موضوع نہیں رہ جائے گا۔
    :)

    ReplyDelete
  4. اچھا موضوع ہے اور اس پر اس سے پہلے بھی بہت کچھ لکھا جاچکا ہے، ہمارے معاشرے کا ایک المیہ بیٹی ہو یا بیٹا اگر صحت مند ہے تو اللہ کی تعمت بھی ہے اور رحمت بھی۔ ،

    ReplyDelete
  5. عید کے پرمسرت موقع پر کوئی بکرا پوسٹ ریلیز ہونے کا امکان ؟

    ReplyDelete
  6. عثمان، پوسٹ کئے ہوئے بکروں پہ ایک پوسٹ ملے گی۔ لیکن آرام سے پہلے ہم سفر کی تھکن اتار لیں۔ اس دفعہ بکروں کے ساتھ پل صراط پہ بھی سفر کرکے آرہے ہیں۔

    ReplyDelete

آپ اپنے تبصرے انگریزی میں بھی لکھ سکتے ہیں۔
جس طرح بلاگر کا تبصرہ نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں، اسی طرح تبصرہ نگار کا بھی بلاگر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اس لئے اپنے خیال کا اظہار کریں تاکہ ہم تصویر کا دوسرا رخ بھی دیکھ سکیں۔
اطمینان رکھیں اگر آپکے تبصرے میں فحش الفاظ یعنی دیسی گالیاں استعمال نہیں کی گئ ہیں تو یہ تبصرہ ضرور شائع ہوگا۔ تبصرہ نہ آنے کی وجہ کوئ ٹیکنیکل خرابی ہوگی۔ وہی تبصرہ دوبارہ بھیجنے کی کوشش کریں۔
شکریہ