انسان فطرتاً تغیر پسند ہے اسی فطرت کی وجہ سے جنت سے بے دخلی پسند کی اور زمین جیسی پست جگہ کو اپنے تخیل کی اڑان کے لئے مناسب پایا۔ اقبال نے اسی زمین سے خدا سے یہ مکالمہ کیا کہ
تیرے آزاد بندوں کی نہ یہ دنیا ، نہ وہ دنیا
یہاں مرنے کی پابندی، وہاں جینے کی پابندی
وائے افسوس اقبال کی اس آزاد روی کو زمانہ شناس لوگوں نے زنداں کا رخ دکھایا۔ اگر انسان کو اتنی ہی آزادی مل جائے کہ وہ کسی دل پسند موقع سے مستفید ہو لے تو وہ خوش قسمت کہلائے گا۔ سو میں ہوں۔
بقر عید سے محض چار دن پہلے مجھے اطلاع ملی کہ چاہوں تو عید کراچی سے باہر منا سکتی ہوں۔ کتنے باہر؟ یہی کوئ سات سو کلو میٹر۔ موسم کیسا ہوگا وہاں؟ بدلتے موسم کو ذہن میں رکھا۔ جواب ملا ایسا ہی جیسا کراچی کا ہے اور یہی نہیں کراچی جیسا سمندر بھی ملے گا۔ را عقلمند اشارہ کافی است۔ بھئ صاف کیوں نہی کہہ دیتے کہ آئیں چلیں اس دفعہ عید گوادر میں مناتے ہیں۔ ہم بھی یہ کہتے ہیں ثبات ایک تغیر کو ہے زمانے میں،اس دفعہ عید ذرا مختلف انداز میں۔
تو جناب، جمعہ کے مبارک دن ہم اپنے جمع جتھہ سامان کے ساتھ کوسٹل ہائ وے پہ رواں دواں تھے۔ شہر سے نکلے تو سڑک پہ اسکول کی بسوں کا رش تو تھا ہی لیکن سوزوکیاں بھی چلتی نظر آئیں جن میں جانور جا رہے تھے۔ یعنی بکرا منڈی رات بھر کھلی رہی جبھی صبح ساڑھے سات بجے لوگ خریداری کر کے لوٹ رہے ہیں۔ شہر کے مکینوں کا یہ فخر بے جا نہیں کہ یہ شہر کبھی نہیں سوتا۔
جانور اندر لوگ باہر |
اہل ہوس کے ہزار رستے ہوں مگر گودار جانے کا زمینی رستہ بس ایک ہی ہے اور وہ ہے کوسٹل ہائ وے۔ اس ہائ وے تک کراچی سے پہنچنے کے لئے آر سی ڈی ہائ وے سے ہو کر گذرنا پڑتا ہے۔ اور آر سی ڈی ہائ وے کا رستہ حب شہر سے نکلتا ہے۔ یوں کراچی، حب، وندر سےہوتے ہوئے جب اوتھل پہنچتے ہیں تو کوسٹل ہائ وے شروع ہوتی ہے۔ یہاں تک پہنچنے میں تقریباً پونے دو گھنٹے لگتے ہیں۔
حب شہر سے نکل کر جب سومیانی کے قریب تھے تو خانہ بدوشوں کی بستیاں نظر آئیں۔ جنکے پاس مٹی کے بڑے بڑے الٹے پیالےسے بنے ہوئے تھے۔ ان پیالوں میں لکڑی کو بند کر کے جلاتے ہیں تاکہ کوئلہ بنے۔ کوئلے کی اس تہوار میں بڑی مانگ ہوتی ہے کہ ہر گھر میں کچھ نہ کچھ بار بی کیو ہوتا ہے۔ میں نے انکی تصویریں بنائیں اس نصیحت کے ساتھ کہ خواتین کی نہ بنائیے گا۔ قبائلی اس پہ بڑا ناراض ہوتے ہیں۔ معلوم ہے، بھئ معلوم ہے۔ تو بھی پاکستان ہے میں بھی پاکستان ہوں۔
کوئلے کی تیاری |
رستے میں دو جگہ رکے۔ ایک ہنگول دریا کے مقام پہ مگر مچھ دیکھنے کے لئے جو وہاں نہیں ملے۔ نومبر میں جبکہ ٹھنڈ ابھی ساحلی پٹی پہ شروع نہیں ہوئ۔ مگر مچھ کا دوپہر تک وہاں موجود ہونا ویسے بھی مشکل ہی تھا۔
پہاڑ کی تہہ میں خراماں دریائے ہنگول |
آگے ہم ماکولا کے قریب پیٹ پوجا کے لئے رکے۔ سالن ہمارے پاس موجود تھا۔ پانی کی بوتلیں بھی حاضر تھیں بس روٹی چاہئیے تھی وہ گرما گرم مل گئ وہاں موجود ایک جھونپڑا ہوٹل سے۔ جنت کے عوض دانہ ء گندم برا سودا نہیں، میں نے زمین پہ پھیلی چٹائ پہ اپنے پاءوں پھیلاتے سوچا۔
شام کو چھ بجے ہم گوادر کی مضافاتی بستی سر بندر میں اپنا سامان گاڑی سے اتار رہے تھے۔ ابھی سامان اتار کر فارغ ہوئے کہ لوڈ شیڈنگ کے اوقات شروع ہو گئَے۔ اوپر پانی کی ٹینکی میں پانی نہیں، گھر مہینوں سے بند پڑا ہوا۔ ہمارے پاس اسکے علاوہ کوئ چارہ نہیں کہ صبر سے لائٹ آنے کا انتظار کریں۔ لائٹ اس علاقے میں پانچ سال پہلے ہی آئ ہے۔ اس چھوٹے سے قصبے میں ابھی لوگ اسکے اتنے عادی نہیں کہ اس کے یوں چلے جانے پہ خفا ہو کر کہیں کہ یوں نہ مل مجھ سے خفا ہو جیسے، ساتھ چل موج ہوا ہو جیسے۔
چھت کا رخ کیا۔ گھر سمندر کے بالکل کنارے ، کشتیاں دور تک سمندر کے پانی میں ٹہری ہوئیں۔ اگر اقبال ہوتے تو کہتے کہ اودے اودے، نیلے نیلے، پیلے پیلے، سرخ سرخ قمقمے قطار اندر قطار۔ یہ جلتے بجھتے قمقمے ان کشتیوں پہ سمندر میں شکار کے وقت مختلف اشاروں کی زبان کے طور پہ استعمال ہوتے ہیں لیکن اس وقت انہوں نے سمندر اور لوڈ شیڈنگ کی تاریکی میں ایک سماں باندھ دیا تھا۔ اوپر آسمان پہ آلودگی نہ ہونے کی وجہ سے ستارے جیسے ہنس رہے تھے۔ ٹمٹماتے، جھلملاتے، نزاکت سے کانپتے اترا رہے تھے۔ ایسی سحر انگیز اترتی رات صرف سُر بندر کے حصے میں ہی آ سکتی ہے۔
دو گھنٹے بعد لائٹ نے درشن کرائے۔ ہم نے یوں پرنام کیا کہ فوراً دوڑ کر پانی کی موٹر آن کی۔ سب نے مل کر جلدی جلدی صفائ شروع کی تاکہ رات کو سونے کا انتظام ہو سکے۔ پڑوسی نے بھی مدد کی۔ رات کا کھانا انکے یہاں سے آپہنچا۔ حالانکہ کہا بھی تھا کہ ہم کراچی سے دو وقت کا کھانا ساتھ لے کر چلے ہیں۔ لیکن بلوچ اپنی روایت سے مجبور۔
اگلے دن تفصیلی طور پہ صفائ کر کے تمام چیزیں اپنے مقامات پہ پہنچائیں۔ کھانے پینے کے چکر سے فارغ ہوئے۔ بکرے کا دیدار ہوا۔ جو کہ میزبان ہمارے لئے لے چکے تھے۔ یہاں قربانی کے لئے بکرے کا رواج ہے جبکہ کراچی میں گائے پہ زیادہ لوگوں کا دل آتا ہے۔ یہ تو پہاڑی بکرا ہے، میں نے اپنے ساتھی سے کہا۔ 'لوگ کہتے ہیں کہ پہاڑی بکرے کا گوشت سخت ہوتا ہے اور اس میں ہلکی سی بد بو ہوتی ہے'۔ اب اس وقت تو یہی ہے۔ یہ لوگ کہہ رہے ہیں کہ کم عمر ہے اسکا گوشت نرم ہوگا۔ 'چلیں یہی سہی۔ ہمیں تو قربانی کی رسم نبھانی ہے ، میں یونہی ایک خیال بتا رہی تھی'۔
مشعل کو پہلے ہی نادر بلوچ نے ڈرا دیا تھا کہ بکرا بڑا خطرناک ہے ٹکر مارتا ہے اس سے دور رہنا۔ مشعل نے بکرے کے تیور دیکھے تو بالکل اسکے قریب جانے سے انکار کر دیا۔ میں نے اسے سمجھانے کی کوشش بھی کہ بیٹا پہاڑی بکرا اس برج کی علامت ہے جس سے تم اور تمہاری اماں دونوں تعلق رکھتے ہیں۔
شام کو محلے کی خواتین آگئیں۔ انکی بیشتر تعداد کو اردو بالکل نہیں آتی۔ میری ترجمان نازنین تو اپنے شوہر کے پاس مسقط جا چلی گئ۔ لیکن دو ایسی لڑکیاں نکل آئیں جو ٹوٹی پھوٹی اردو بول سکتی تھیں۔ بس وہ دونوں بے چاری ترجمہ کرتی رہیں۔ بلوچی زبان پہ فارسی کا اثر ہے ویسے بھی اردو کی بہن زبان ہے۔ اس لئے کہیں نہ کہیں میں بھی بلوچی پکڑ ہی لیتی۔ اس سے وہ خواتین بڑی متائثر ہوئیں کہ تھوڑی بہت بلوچی مجھے آتی ہے۔
میں ان کے لئے کچھ تحائف لے کر گئ تھی جس سے وہ بڑی خوش ہوئیں۔ چلتے چلتے کہنے لگیں کہ تم عید پہ مہندی لگاتی۔ ہاں، میں نے گردن ہلائ۔ کیا مہندی یہاں ملتی ہے۔ جواب ملا مہندی یہاں ملتی، دس روپے کی ٹیوب ملتی۔ کل ہم لائے گی اور تمہیں اور مشعل کو لگائے گی۔
پتہ نہیں کیا چیز ہوگی اور یہ کیا لگائے گی۔ میں نے دل میں سوچا۔ اگلے دن دوپہر میں ہم گوادر شہر کی طرف چلے گئے۔ وہاں سنگھار پہاڑی کے ساحل کی طرف اترے اور سورج ڈوبنے کا نظارہ کیا۔ ایک خوبصورت اور پر سکون ساحل جو سورج ڈوبنے کے وقت ہر طرف سے جلنے لگا۔ ساحل سے اس آگ کی لپٹیں آسمان کے مرکز کی طرف پہنچے جا رہی تھیں۔ آگ اور پانی کا یہ ملن چاند ایک طرف کھڑا دیکھ رہا تھا۔ سورج اور چاند کا بیک وقت ایسا طلوع اور غروب بھی بس گوادر میں ہی نظر آ سکتا ہے۔ بعض لوگوں کو اپنی خوبیوں اور خوش قسمتی کا اندازہ نہیں ہوتا اور بعض جگہوں کو بھی۔
غروب آفتاب کے وقت طلوع مہتاب |
رات دس بجے جب کھانا کھا کر سُر بندر واپس پہنچے اور میں ابھی سوئ ہوئ مشعل کو سونے کے کپڑوں میں ڈال رہی تھی کہ وہ لوگ مہندی لے کر پہنچ گئیں۔
اوہ، مشعل تو سو گئ۔ اب مجھے ہی اپنے ہاتھوں میں ان سے نقش و نگار بنوانے پڑیں گے۔ وہ اتنے شوق سے آئیں ہیں کیسے منع کر دوں۔ گھر والے میرا المیہ جان کر مسکرا رہے تھے۔ میرا ہاتھ، ہاتھ میں لے کر اس نے مہندی کی کون جیسا کہ ہم کراچی میں کہتے ہیں جب چلانی شروع کی تو خاصہ اچھا ڈیزائین بنا ڈالا۔ یہ تم نے کہاں سے سیکھا؟ میں نے پوچھا۔ اسکول سے۔ اس نے سر جھکائے جھکائے بتایا۔ بڑا اچھا اسکول ہے۔ پڑھنا لکھنا چاہے سکھائے نہ سکھائے مہندی لگانا سکھا دی۔ ہنسنے لگیں۔ کیا میں عید کے کپڑے لائ ہوں اس نے پوچھا۔ ہاں، ہاں سب لائ ہوں اور چوڑیاں بھی؟ ہاں چوڑیاں بھی۔
مشعل کی مہندی رکھ کر وہ چلی گئیں۔
میں عید کی نماز والوں کے کپڑے استری کرنے لگی۔ اور مشعل کے کپڑوں تک اس قدر نیند آ رہی تھی کہ میں نے سوچا کہ صبح اٹھ کر کر لونگی۔
بستر پہ لیٹی تو مسلسل لوگوں کے کچھ زور سے پڑھنے کی آواز آرہی تھی۔ یہ ذکری ہیں۔ گوادر میں مسلمانوں کے دو فرقے پائے جاتے ہیں ایک نمازی اور دوسرے ذکری۔ نمازی نماز پڑھتے ہیں اور ذکری نماز نہیں پڑھتے صرف ذکر کرتے ہیں۔ جس جگہ وہ ذکر کرتے ہیں وہ ذکر خانہ کہلاتی ہے۔ جو کہ ہمارے گھر سے خاصی قریب تھی۔ اس لحاظ سے گوادر میں بڑی مذہبی رواداری پائ جاتی ہے۔
لیکن اپنی تاریخ کو سامنے رکھتے ہوئے امید کی جاتی ہے کہ یہ مذہبی ہم آہنگی بس کچھ اور سالوں کی بات ہے وجہ یہ کہ اس دفعہ میں نے وہاں ایک بہت بڑا بورڈ دیکھا جس پہ لکھا تھا تبلیغی اجتماع گاہ اور اس پہ ایک تیر کا نشان بنا ہوا تھا۔ یعنی مقام کی نشان دہی۔ کافی ساری کشتیوں پہ اس دفعہ میں نے جماعت اسلامی کے جھنڈے دیکھے۔ آج سے آٹھ سال پہلے جب میں گوادر گئ تو وہاں کوئ بڑا مدرسہ نہیں تھا لیکن اب وہاں ایک بہت بڑا دارالعلوم ہے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ کتنے وقت میں گودار کی دیواروں پہ ذکری کافر، نمازی کافر، سنی کافر اور شیعہ کافر جیسے نعرے وجود میں آتے ہیں ابھی تو وہاں، ہندءووں کے ایجنٹوں کے نام ، پاکستان مردہ باد اور پاکستان زندہ باد جیسے نعروں کی اکثریت ہے۔
بہر حال ذکری ساری رات ذکر کرنے کے بعد، فجر سے پہلے قربانی کے فریضے سے فارغ ہو جاتے ہیں۔
صبح لوگ قصبے کی عید گاہ میں نماز عید کے لئے جمع ہوئے۔ لائوڈ اسپیکر کا انتظام خاصہ خراب تھا۔ کچھ کو آواز پہنچی اور کچھ نمازیوں کو آواز نہیں پہنچی۔ نماز کی ادائیگی میں مسئلہ ہوا اور نماز کے اختتام پہ کچھ نمازیوں نے مطالبہ کیا کہ دوبارہ نماز پڑھائ جائے یعنی لوٹائ جائے۔ یوں نماز دوبارہ پڑھی گئ۔
یہاں ہمارے ساتھ کیا ہوا کہ آٹھ بجے ہم نے سوچا کہ مشعل ابھی سو رہی ہے اسکے کپڑے استری کر لئیے جائیں۔ لیکن یہ کیا؟ عین اسی وقت لائٹ چلی گئ۔ کوئ بات نہیں ایک دو گھنٹے میں اجائے گی۔ دل کو تسلی دی۔ مگر وہ نہ آئ۔ حتی کہ بارہ بجے دو پہربکرا قربان ہو گیا۔ میں نے احتیاطاً مشعل کے لئے دو زرق برق کپڑے رکھ لئیے تھے جو اس وقت کام آ گئے۔
بکرے کے حصے کیسے بنوانے ہیں آپکو؟ سوال آیا۔ کیسے حصے؟ میں نے دریافت کیا۔'یہاں کا طریقہ یہ ہے کہ سارے گوشت کے تین حصے کر دئیے جاتے ہیں ایک غریبوں اور ہمسایوں کا دوسرا رشتہ داروں کا اور تیسرا اپنے لئے'۔ مزید تفصیل حاصل ہوئ۔ اچھا کراچی میں تو قصائ بس گوشت بنانے کا کام کرتا ہے۔ خیر ہم وہی کریں گے جو یہاں رائج ہے۔ جب روم میں ہو تو وہی کرو جو رومی کرتے ہیں۔
سارے گوشت کو اچھی طرح ملا دیا گیا پھر اسکے برابر کے حصے لگے، اس میں سے غریبوں کا حصہ کر کے وہاں موجود لوگوں نے اسے بھیجنے کے لئےخود ہی حصے بنا کر بھیج بھی دئیے۔ چلیں جی اس ذمہ داری کی بھی چھٹی ہوئ۔ گوادر میں غربت زیادہ ہے۔ لیکن، اچھی بات یہ ہے کہ سمندر کے کنارے ہونے کی وجہ سے کوئ بھوکا نہیں مرتا کہ سمندر سب کو کھانا تو دیتا ہے۔ لیکن مچھلی کے علاوہ کھانے کی دیگر اشیاء عام انسان کی پہنچ سے باہر ہیں۔ دیگر جانوروں کا گوشت ایک عیاشی ہے۔ قربانی بہت کم لوگوں نے کی۔ اس لئے جانوروں کی وہ چہل پہل نہیں تھی جو کراچی میں نظر آتی ہے۔
بکرے کے سری پائے پھینک دئیے گئے اور اوجھڑی کو اسی وقت سامنے سمندر میں لے جا کر دھو کر صاف کر لیا گیا۔ رات کو جب میں نے رخسار سے پوچھا کہ آج کیا پکایا تو جواب ملا اوجھڑی۔ مجھے ایک جھٹکا لگا۔ کراچی میں اوجھڑی پھینک دی جاتی ہے۔ البتہ سری پائے بنوا کر رکھ لیتے ہیں۔ اوجھڑی کی وجہ سے شہر میں آلائیشیں پھیل جاتی ہیں۔ مگر یہاں سب نے پہلے دن اوجھڑی پکائ۔ کہنے لگی نادر بلوچ سے کہا تھا کہ آپکو اوجھڑی کا سالن دے دے۔ لیکن کہنے لگا کہ عنیقہ کہاں اوجھڑی کھائے گی۔
میں ہنسنے لگی۔ میں اوجھڑی کھاتی ہوں۔ اچھی طرح پکی ہو تو بڑے مزے کی ہوتی ہے لیکن عید والے دن، ذبح کئے ہوئے جانور میں اتنا کچھ ہوتا ہے کہ ہم لوگ اوجھڑی بالکل نہیں کھاتے۔ جب بھی کھاتے ہیں خرید کر پکاتے ہیں۔ بعد میں، میں نے اپنی اور انکی اس ادا پہ غور کیا تو خیال آیا اسکی وجہ شاید اسکی صفائ کی پیچیدگی ہے۔ سمندر ہمارے پاس ہے لیکن ایک تو بڑی دور ہے دوسرا پونے دو کروڑ آبادی کے لوگ اگر اسے عید پہ اوجھڑی دھونے کے لئے استعمال کریں تو سوچ لیں کیا ہوگا۔
اپنے حصے میں آنے والے گوشت پہ سے چربی اچھی طرح صاف کی۔ یوں اس گوشت میں مزید ڈیڑھ دو کلو کی کمی واقع ہو گئ۔ نادر سے ڈرتے ڈرتے بات کی کہ کہیں اسے برا نہ لگے کہ وہ اگر چاہے تو یہ چربی لے سکتا ہے ورنہ ہم اسے پھینک ہی دیں گے۔ چربی کا یہ ڈھیر وہ بخوشی لے گیا۔
سارا دن گھر محلے بچوں سے بھرا رہا یا خواتین وقفے وقفے آتی رہیں۔ بچوں کے لئے تو گھر کے لیونگ روم میں موجود چھ ضرب چار فٹ کا جھولا سب سے بڑی کشش تھا۔ ایک وقت میں آٹھ دس بچے اس پہ لدے مزے لے رہے ہوتے۔ خواتین کے لئے شاید صوفے میں بڑی کشش تھی۔ وہ ایک دن میں دو دو بار آتیں۔ شام تک بچوں کے اس ہنگامے کی وجہ سے تھکن ہو گئ۔ اگرچہ اس دن میں نے ایک بلوچی لفظ سیکھا۔ بورو، مطلب باہر جاءو۔
عید گاہ کی طرف لوگوں کی روانگی |
مشعل بچوں کے اس ہجوم میں کہیں غائب تھی۔ کبھی کبھی مجھے اسکی شکستہ بلوچی جملوں کی آوازیں آتیں۔ وہ زبان سیکھنے کے معاملے میں کافی تیز ہے۔ محض دو دن میں بلوچی لہجہ اور جملے سیکھ لئے تھے۔ جہاں الفاظ نہیں آتے وہاں لہجے سے کام چلاتی۔
آنے والی مہمان خواتین کے آگے جب میں نے دودھ سویاں رکھیں تو وہ اسے کھاتے ہوئے بادام کی ہوائیاں نکال کر ایک طرف رکھنے لگیں مجھے اندازہ ہوا کہ وہ اس بات سے واقف نہیں کہ بادام بھی کوئ چیز ہوتی ہے۔
لائیٹ اب تک لا پتہ تھی۔ معلوم یہ ہوا کہ پی ایم ٹی اڑ چکا ہے۔ واپڈا والوں سے بات ہوئ ہے وہ اس پہ کام کر رہے ہیں رات تک آئے گی۔ رات مطلب، گیارہ بجے آئ۔ کبھی آپ نے نوٹ کیا کہ صحیح وقت کے بجائے رات، صبح، دوپہر کہہ لیا جائے تو ذمہ داریوں کے تناءو سے کیسے نجات مل جاتی ہے۔
رات کے لئے میں نے پلاءو بنانے کے پروجیکٹ پہ کام شروع کیا۔ گوشت کا قورمہ تیار کر لیا اور چاول ابالنے کی باری آئ تو پتہ چلا کہ سلنڈر میں گیس ختم ہو گئ ہے۔ اسے کہتے ہیں غربت میں آٹا گیلا۔ عید کی چھٹی گیس کہاں سے ملے گی۔ یہ ایک الگ کہانی کہ پلاءو کس طرح اپنی منزل کو پہنچا۔ بہر حال ہم نے اسے کھایا بھی اور پڑوسیوں کو بھی دیا۔ اور ہاں نہ گوشت میں بُو تھی اور نہ ہی یہ سخت تھا۔ مزے سے گھنٹہ بھر میں گل گیا۔
بجلی رات کو شکر ہے کہ گیارہ بجے آگئ۔ یوں گوشت ریفریجریٹر میں گیا۔
رات کو بارہ بجے جب ہم بستر پہ ڈھیر ہوئے تو ذکری ورد کی آوازیں ایک بار پھر آ رہی تھیں۔ یہ شاید تین راتوں تک جاری رہے۔ میں نے سوچا۔ سارا دن کے ہنگامے میں پتہ ہی نہ چلا کہ ہم ایک تہوار پر اپنے شہر، گھر اور رشتے داروں سے دور ایک اجنبی جگہ پر ہیں۔ انسان اگر مختلف کاموں میں شدید مصروف ہو تو ایسے خیالات کیسے راستہ پائیں۔ خالی ذہن چاہے افراد کے ہوں یا قوم کے شیطان کا گھر ہی بنتے ہیں۔
گوادر کے متلعق مزید تحاریر پڑھنے کے لئے اس لنک پہ جائیں۔
تسلی سے بیٹھ کر بڑی خوب تحریر پوسٹ کی آپ نے۔۔۔ پڑھ کر مزا آیا، چاند والی تصویر بڑی کلاسی تھی۔۔۔ اور ایک کشتیوں والی۔۔۔ ذکری فرقے کا ذکر میں پہلی مرتبہ سنا، گوادر میں پہلے ہی بڑے پھڈے ہیں مذہب بھی مِکس ہو گیا تو کیا فرق پڑے گا؟
ReplyDeleteمگرمچھ سے اپوائنٹمنٹ لے کر جانا تھا، وہ بیچارہ کیا پتہ دفتر وغیرہ گیا ہو۔
غربت میں آٹا گیلا، اور خالی ذہن شیطان کا گھر۔۔۔ خوب فِٹ کئے۔۔۔ اتنی لمبی تحریر اگر اچھی نہ لکھی ہو تو پڑھی کہاں جاتی ہے۔۔۔
بلاگر کے نئے ڈائینمک ویوز کا تجربہ کرنا تھا، کافی دلچسپ چیز ہے۔۔۔ بلاگ کا لک اینڈ فیل بہت امپروو کر دیتی ہے۔۔۔
سیارہ صاحب (ابن سعید) سے استفسار کرنے پر معلوم ہوا ہے کہ سیارہ پر آپ کا لنک ٹھیک ہے۔ یہ آپ ہی کی طرف کوئی گڑبڑ ہے کہ تحاریر اپ ڈیٹ نہیں ہو پا رہیں۔ پچھلے کچھ عرصہ سے آپ کا بلاگ کھلنے میں بھی کچھ وقت لیتا ہے۔ اسے کسی ڈاکٹر کو دیکھائیں۔
ReplyDeleteکراچی کو بھی انسومنیا لاحق ہے۔ اس کےلئے بھی کسی معالج سے رجوع کریں۔ علاج کے لئے اسے بھی گوادر بھیج دیں۔
عثمان، ہمم علاج کے لئے کوششیں شروع کی ہیں۔ دیکھیں کیا ہوتا ہے۔
ReplyDeleteبہت اچھا لکھا ہے :)۔ کہنے کی ضرورت تو نہیں تھی مگر ستائش آپکا حق ہے۔۔۔
ReplyDelete