Saturday, November 19, 2011

مہمان کچھوے

 کیا آپ کراچی کی ایک اہم خوبی سے واقف ہیں جو آپ نہیں جانتے مگر کچھوے جانتے ہیں؟
دنیا کے بڑے شہروں میں کراچی کو ایک امتیازی حیثیت یہ بھی حاصل ہے کہ اسکے ساحل کو سبز سمندری کچھوے انڈے دینے کے لئے پسند کرتے ہیں۔
یہ کچھوے تیزی سے ختم ہوتی ہوئ حیاتیاتی نسل میں شامل ہیں۔ عالمی تحفظ حاصل ہونے کے بعد انہیں بچانے کی کوششیں کی جارہی ہیں۔ اور وہ ساحل جہاں یہ انڈے دیتے ہیں وہاں انکے انڈوں اور نکلنے والے بچوں کو بچانے کا معقول انتظام کیا جاتا ہے۔
کراچی کے سینڈز پٹ کے ساحل پہ ایک ایسی ہی حفاظتی حیات گاہ موجود ہے۔
یہاں مجھے چھ سال پہلےدسمبر کی ایک سردرات جانے کا اتفاق ہوا۔ ساحل پہ رات کو دو بجے ہم یہ دیکھنے کے لئے موجود تھے کہ انڈوں سے کچھووں کے بچے کیسے نکلتے ہی سمندر کی طرف دوڑ لگاتے ہیں اور کیسے مادہ کچھوا انڈے دیتی ہے۔ تین بچوں کو مٹی کے ایک گڑھے سے سمندر کی طرف جاتےدوڑ لگاتے دیکھا۔ یہ اتنے چھوٹے ہوتے ہیں کہ بآسانی آپکی ہتھیلی پہ سماجائیں۔
ایک کچھوا انڈے دینے کی تکلیف میں مبتلا ایک ریت کا گڑھا بنائے اسکے سرے پہ بیٹھا تھا۔ ان مناظر کو دیکھنے کے بعد دسمبر کی سمندری سرد ہواءووں کی چھیڑ چھاڑ ذرا بری نہ لگ رہی تھی۔
جی ہاں، یہ کچھوے اتنی ہی بڑی تعداد میں یہاں کا رخ کرتے ہیں کہ نومبر اور ددسمبر کی راتوں میں آپ بھی وہاں جانے کا منصوبہ بنا سکتے ہیں۔ ان مہینوں میں یہ یہاں آتے ہیں انڈے دینے اور پھر چند دن بعد ساحل انکے بچوں سے بھرا ہوتا ہے کہ ہر مادہ تقریباً سو انڈے دیتی ہے۔  امید ہے کہ آپکو کوئ نہ کوئ کچھوے کی سرگرمی دیکھنے کو مل جائے گی۔ جیسا کہ ہمیں کل ایک بار پھر حاصل ہوئ۔
کل شام کو خبر ملی کہ ایک اسکول کے بچے رات کو وہاں پہنچ رہے ہیں اور ہم اور مشعل چاہیں تو قسرت کی اس فیاضہ سے مستفید ہوسکتے ہیں۔ آتا ہو تو ہاتھ سے جانے نہ دیجیئو۔ ہم نے فوراً ہاں کہا۔
ہم اور مقامی اسکول کے یہ بچے تقریباً سوا آٹھ بجے تک سینڈز پٹ کی ایک ہٹ میں اکٹھا ہوئے۔ بچوں کو انکی ٹیچرز نے پہلے بٹھا کر کھانا کھلایا۔ ہم مشعل کو پہلے ہی کھلا چکے تھے۔ پھر نگراں وائلڈ لائف کے آفیسر نے بچوں کو مصروف رکھنے کے لئے سوالوں جواب کئے۔ بچوں کی عمر یہی کوئ آٹھ نو سال کے درمیان تھی۔ اس دوران انکا آدمی ساحل پہ یہ پتہ لگا آیا کہ کوئ کچھوا کہاں موجود ہے۔ سمندر جب ہائ ٹائڈ پہ ہو تو کچھووں کو ساحل تک پہنچنے میں آسانی ہوتی ہے۔ اس لئے توقع ہوتی ہے کہ ہائ ٹائڈ کے وقت وہ ضرور ساحل کا رخ کریں گے۔

لکھنے کے شوقین ہر جگہ قلم کاغذ پکڑ لیتے,

پاکستان کے سمندر میں دو طرح کے سمندری کچھوے پائے جاتے ہیں ایک اولیو ریڈلی کچھوے اور دوسرے سمندر سبز کچھوے۔  اولیو ریڈلی کچھوے چھوٹے ہوتے ہیں، یعنی محض چالیس کلو گرام کے۔ انکا رنگ اولیو یعنی  گہرے زیتون کے رنگ کا ہوتا ہے ان پہ دھاریاں ہوتی ہیں اور انکی موجودگی کو ریڈلی نامی سائینسداں نے معلوم کیا۔
سبز کچھوے بڑے ہوتے ہیں اوسط وزن تقریباً ایک سو پچاس کلوگرام کے لگ بھگ ہوتا ہے۔ انکا رنگ سرمئ ہوتا ہے۔ پھر یہ سبز کچھوے کیوں کہلاتے ہیں؟
اس لئے کہ انکے جسم میں پائ جانے والی چربی خوبصورت سبز رنگ کی ہوتی ہے۔ اسکا یہ رنگ خیال کیا جاتا ہے کہ سمندری پودے کھانے کی وجہ سے ہوتا ہے۔ سبز کچھوا سمندری پودے اور کائ وغیرہ کھاتا ہے۔
یہ سمندری کچھوے زمینی کچھووں سے مختلف ہوتے ہیں کہ انکے ہاتھ پاءووں کی جگہ تیرنے میں مدد دینے کے لئے چپو سے ہوتے ہیں انہیں فلپرز کہتے ہیں۔ زمینی کچھووں کی طرح سندری کچھوے نہ اپنا سر اپنے خول کے اندر کر سکتے ہیں نہ فلپرز اور نہ دم۔ اس لئے انہیں شارک اور ڈولفنز بڑے آرام سے شکار کر سکتی ہیں۔ یہ سمندری جال میں پھنس کر ہلاک ہو سکتے ہیں یا ٹرالرز اور بوٹس کے نیچے کا بلیڈ انہیں ختم کر سکتا ہے۔
کچھووں کا خول انکی پسلیوں سے بنا ہوتا ہے اور کارٹونز فلموں کی طرح کچھوے اپنا خول چھوڑ کر کہیں نہیں جا سکتے۔ یہ اچھا تیر سکتے ہیں لیکن ساحل کی ریت پہ انہیں چلنے کے لئے بڑی محنت کرنا پڑتی ہے اور ہر دو تین گز کے فاصلے پہ رک کرسکون کی سانس لینی پڑتی ہیں۔
سمندر میں بھی سانس لینے کے لئے ان کچھووں کو سمندر کی سطح پہ آنا پڑتا ہے۔ گوادر میں سمندر کی سطح پہ آنے والے کچھووں کو میں نے دیکھا کہ وہ کیسے سطح پہ ڈول رہے ہوتے ہیں۔
چونکہ مادہ کچھوا ہی انڈے دیتے ہیں اس لئے مادہ کچھوا ہی ساحل پہ آتی ہے۔ نر کچھوا کبھی ساحل نہیں دیکھ پاتا اس لحاظ سے مادہ کچھوے کا علم نر کچھوے کے مقابلے میں کہیں زیادہ ہوتا ہے۔ لیکن انکے یہاں معلومات عامہ کے امتحانات ہی نہیں ہوتے ہی نہیں ہوتے اس لئے مادہ کچھوا اسکا فائدہ نہیں اٹھا پاتی۔
کہتے ہیں کہ مادہ کچھوہ جس جگہ انڈے دے ، دوبارہ انڈے دینے کے لئے اسی ساحل کا رخ کرتی ہے۔ جب یہ ان ساحلوں پہ پہنچتی ہیں تو وائلڈ لائف کے لوگ انکے فلپرز پہ ایک ٹیگ پیوست کر دیتے ہیں۔ یہ ٹیگ نہ صرف انکی پہچان کے لئے کار آمد ہوتا ہے بلکہ اس کی وجہ سے سمندر میں انکی موجودگی بھی معلوم کی جا سکتی ہے۔
یہ کچھوے آخر کیوں اتنی تیزی سے ختم ہو رہے ہیں۔ اسکی وجہ انسان اور اسکی سرگرمیاں ہیں۔ اول تو بعض ممالک میں کچھووں کے بچوں کا سوپ بہت پسند کیا جاتا ہے۔ اور یہ ایک قیمتی خوراک ہوتی ہے۔ کود کچھووں کے گوشت کی بڑی مانگ ہے۔ ہمارے ساحل پہ انہیں پکڑنے کی ممانعت ہے لیکن اطلاع ہے کہ ساحل سے چند میل کے فاصلے پہ ٹرالر انہیں پکڑتے ہیں اور ٹرالر کے اندر ہی انکا گوشت علیحدہ کر کے کیماڑی پہنچا دیا جاتا ہے جہاں پر پھر انہیں کوئ نہیں پوچھتا۔
دوسرا یہ کہ ساحل پہ موجود کتے بلیاں یا تو انکے انڈوں کو کھالیتے ہیں یا پھر نکلنے والے بچوں کا شکار کرتے ہیں۔  ساحل پہ موجود کچرے میں پھنس کر بھی بعض اوقات یہ بچے زندگی سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں۔ ادھر سمندر میں پہنچ جانے والے بچے بھی ایک خاص عمر تک پہنچ کر اپنے شکاریوں سے محفوظ رہ پاتے ہیں۔ یوں ہزار بچوں میں سے ایک ہی بچ پاتا ہے جو بلوغت تک پہنچے۔
کچھوے کی آمد کی اطلاع کے ساتھ ہی بچوں نے لائن بنائ۔ انکی ٹیچرز ان پہ عقابی نظریں رکھے ہوئے تھیں کہ رات کی تاریکی میں کوئ بچہ ادھر ادھر نہ ہو جائے۔ کچھوے روشنی اور شور  سے بھاگتے ہیں۔ اس لئے اتنے بچوں کی موجودگی کے باوجود کامیاب خاموشی برقرار رہی۔


تھوڑا سا فاصلہ طے کر کے ہم وہاں پہنچے۔ سمندر سے اس جگہ تک کچھوے کے رگڑ کر آنے والے نشانات کا راستہ موجود تھا۔  کچھوا اپنا گڑھا بنانے میں مصروف تھا۔ ویڈیو اور کیمرے کی لائیٹس سے گھبرا گیا۔ ادھر وائلڈ لائف والوں نے اسے پکڑ لیا کہ اسے ٹیگ کر لیا جائے۔
بچوں کی چیخیں نکل گئیں۔ مشعل  تیزی سے مشاق فوٹوگرافر کی طرح تصاویر لینے میں مصروف ہو گئ۔ ادھر اسکول کی ٹیچرز انتہائ تشویشناک حالت میں بچوں کو کچھوے سے دور رکھنے کی کوشش میں مصروف تھیں۔ جبکہ کچھوا ایک بے ضرر اور شرمیلا جانور ہے۔



وائلڈ لائف کے عملے نے کچھوے کو قابو کر کے چیک کیا کہ وہ ٹیگ ہوا ہے یا نہیں۔ ٹیگ نہ پاکر انہوں نے اسکے فلپر میں ایک دھاتی ٹیگ پیوست کیا ، اسکی لمبائ نوٹ کی، اکتالیس اعشاریہ تین پانچ۔ پھر اسے آزاد چھوڑ دیا۔
ٹیگ کرنے کے لئے ہشیار


   اس ہنگامے سے گھبرا کر خلوت پسند کچھوے نے انڈے دینے کا ارادہ ترک کیا اور سمندر کی راہ لی۔ جب وہ اپنے کھودے ہوئے گڑھے سے باہر کی طرف چلا تو بچوں اور انکی ٹیچرز نے جلدی سے دور تک اسکے لئے راستہ صاف کر دیا۔ اور لائن بنا کر خود بھی واپسی کے سفر پہ روانہ ہو گئے کہ اس وقت رات کے گیارہ بج رہے تھے۔ ہم اسکے پیچھے پیچھے چل پڑے۔ کچھوے نے بیچ میں دو مرتبہ رک لگا کہ اپنے فیصلے پہ نظر ثانی کرنے کاسوچا لیکن چونکہ دستاویزی فلم بنانے والا عملہ اسکے ساتھ ساتھ تھا اس لئے یہ  سوچ بھی عملی جامہ نہ پہن سکی۔ پھر وہ آگے بڑھ کر سمندر کی تاریکی میں گم ہو گیا اور ہم روشنیاں بُجھا کر شہر کی تاریکی میں۔
توقع ہے کہ وہ پھر لوٹ کر آئے گا۔ لیکن اپنے ان معصوم اور شرمیلے مہمانوں کے لئے ہمیں اپنے ساحل صاف رکھنے ہونگے۔ اور ان لوگوں پہ کڑی نظر رکھنی ہوگی جو اپنے تھوڑے سے فائدے کے لئے  ان نایاب جانوروں کی نسل کے لئے خطرہ بن رہے ہیں۔

کبھی الوداع نہ کہنا

6 comments:

  1. المناک داستان ہے۔ ہر دو تین سطور کے بعد آنسو چھلک پڑے کہ کیسے ، وائلڈ لائف کے عملے ، دستاویزی فلم بنانے والے عملے ، درجنوں بچوں ، سپر گرل اور سپر ماما ... سب نے مل کر لیبر روم میں موجود بیچاری کچھوی کو ڈرا کر بھگادیا۔
    میں تو سمجھتا تھا کچھوے خاصے چھوٹے ہوں گے۔ یہ تو کافی بڑا ہے۔ اس کے انڈے بھی بڑے ہونگے۔ آملیٹ بن سکتا ہے ؟

    ReplyDelete
  2. ہیلو انیقہ

    بہت اچھی تحریر ہے۔
    کیا آپ کا بلاگ اب اردو سیارہ پر نہیں ہے؟ کافی عرصہ سے آپ کی پوسٹ نہیں دیکھی تو انٹرنیٹ سے تلاش کر کے یہاں پہونچا۔

    آصف

    ReplyDelete
  3. عثمان، رونا تو ہمیں بھی بہت آیا اور ہم نے بعد میں ان لوگوں سے کہا بھی کہ یار چھوڑ دیتے تو اسکا واپس آنے کا رادہ بن رہا تھا۔ جواب ملا کہ پھر کئ راتیں خرچ کرنی پڑتیں ایک کچھوے کی واپسی کا منظر لینے کے لئے۔
    سپر گرل نے اگلے دن کام کرنے والی ماسی کو اطلاع دی کہ رات ہم بیچ پہ گئے رھے وہاں ایک ٹرٹل کو آنا تھا انڈے دینے کے لئے۔ ہمارا خیال تھا کہ وہ ہمارا پیٹ اینیمل بن جائے گا لیکن وہ تو انڈے دئیے بغیر سمندر میں واپس چلا گیا۔
    جی ہاں انڈہ خاصہ بڑا ہوتا ہے۔ ایک آملیٹ مءرا خیال ہے پانچ افراد کے لئے تو کافی ہوگا۔ تو پھر کوشش کروں آپکے لئے ایک چرانے کی۔
    آسف صاحب، آپکا شکریہ کہ آپ اس بلاگ کو ڈھونڈھ کر یہاں تک پہنچے۔ آجکل یہ بلاگ اپنے طور پہ جینے کے مزے لے رہا ہے اور اب اسے سبسکرائب کرنا پڑے گا۔

    ReplyDelete
  4. نیکی اور پوچھ پوچھ۔
    آملیٹ بنا کر بوتل میں ڈال کر سمندر کی نظر کردیں۔ اگر کچھوے نے راستے میں حق ملکیت کا دعویٰ نہ کیا تو مجھے تک تو پہنچ ہی جائے گا کبھی نہ کبھی۔

    ReplyDelete
  5. عثمان

    :):)
    پھر کسی سمندری ساحل پہ آپکو ڈیرہ ڈالنا پڑے گا۔ آپکے شہر میں جھیل کے سوا رکھا کیا ہے۔ میں روانہ کرتی ہوں۔

    ReplyDelete
  6. میرا خیال ہے آپ پہلی خاتون اردو بلاگر ہیں جو مشہور موضوعات پر لکھنے کی بجائے عام و خاص موضوع کا انتخاب کرتی ہیں ـ کبھی کبھار اپنی مادری زبان اُردو کو زندہ رکھنے کیلئے انٹرنیٹ پر تھوڑی سی اُردو گیری بھی کرلیتا ہوں ـ اور مجھے ایسا لگتا ہے اُردو سیارہ کسی خاص مذہب، مسلک اور ملک سے وابسطہ ہے، اس پورٹل کا نامِ نامی اُردو سیارہ ضرور ہے مگر اسکے منتظمین اور ممبران کی سوچ اور مذہب ایک جیسی ہے اور یہ عام اظہارِ خیال کا سیارہ بالکل نہیں ـ

    ReplyDelete

آپ اپنے تبصرے انگریزی میں بھی لکھ سکتے ہیں۔
جس طرح بلاگر کا تبصرہ نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں، اسی طرح تبصرہ نگار کا بھی بلاگر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اس لئے اپنے خیال کا اظہار کریں تاکہ ہم تصویر کا دوسرا رخ بھی دیکھ سکیں۔
اطمینان رکھیں اگر آپکے تبصرے میں فحش الفاظ یعنی دیسی گالیاں استعمال نہیں کی گئ ہیں تو یہ تبصرہ ضرور شائع ہوگا۔ تبصرہ نہ آنے کی وجہ کوئ ٹیکنیکل خرابی ہوگی۔ وہی تبصرہ دوبارہ بھیجنے کی کوشش کریں۔
شکریہ