Sunday, February 27, 2011

ساحل کے ساتھ-۴

 گذشتہ سے پیوستہ

رات کو تین بجے میکینک صاحب کے پہنچنے پہ یہ تناءو کم ہوا کہ گاڑی کا کیا ہوگا۔ اگلے دن ناشتے کے بعد وہ دونوں تو گاڑی کے ساتھ مصروف ہو گئے دوپہر تک یہ اعلان ہوا کہ گاڑی کی شافٹ ٹوٹ گئ ہے۔ اب یا تو ویلڈ ہو گی یا نئ لگے گی۔ نئ گوادر میں نہیں مل سکتی۔ ویلڈ ہونے کے امکان بھی نہ ہونے کے برابر ہیں اتنی سہولت وہاں حاصل نہیں کہ شافٹ کو صحیح پیمائش کے ساتھ جوڑا جا سکے۔  لیکن بہر حال وہ جا رہے ہیں کسی کی بائیک پہ مزید معلومات لینے کے لئے۔
میں نے اس دوران گھریلو امور انجام دئیے۔ ناشتے کی تیاری، کچن اور گھر کی صفائ، دوپہر کے کھانے کی تیاری، مشعل کی پڑھائ، پھر دوپہر کا کھانا، دوبارہ کچن کی صفائ۔ کمپیوٹر پہ تصاویر لوڈ کیں، کیمرے کی بیٹری چارج پہ لگائ۔ اسکے بعد جب مشعل کے اور خود کے صاف ہونے کی باری آئ تو سوچا کہ ساحل کا چکر لگا کر ذرا اور اچھی طرح گندے  ہو جائیں۔ سو ہم دونوں ماں بیٹی نے سر پہ دھوپ سے بچنے کے لئے ٹوپا لگایا، ساحل پہ پھرنے کے لئے مناسب چپل پہنیں کہ ہمارا ارادہ کچھ ہائیکنگ کرنے کا بھی تھا۔ میں نے ایک بیگ میں کیمرہ، پینے کے پانی کی بوتل، کچھ بسکٹ،بینڈ ایڈ اور وائپیس لیئے اسے کندھے پہ لٹکایا اور ہم دونوں باہر نکل گئے۔
گھر کے ساتھ ایک پہاڑ ہے ۔ جسکے قدموں میں ساحل کی موجیں آکر کھیلتی ہیں، سر پٹختی ہیں اور پتھروں سے ٹکرا کر اپنے موتی توڑتی ہیں پہاڑ سے چھوٹی بڑی چٹانیں ٹوٹ کر پانی میں ایستادہ ہیں  انکے پاس لا تعداد گول گول ہر شکل اور ساخت کے پتھر موجود ہیں۔ پہاڑ کے ساتھ  جیٹی بننے کی وجہ سے ان پتھروں کا  ایک بڑا ذخیرہ اسکے نیچے دب گیا۔ شور مچاتی لہروں کے ان پتھروں  سے ٹکراءو اور شرارت کے درمیان ترقی کی دیوار آ گئ۔   ایک خوبصورت منظر  تمام ہوا اور ایک نئ امید کھڑی ہو گئ۔ کیا یہ دی جانے والی قیمت اپنی صحیح قدر حاصل کر پائے گی؟
سو ہم بھی خاک سے پوچھنا چاہتے ہیں کہ تونے وہ گنج ہائے گراں ما کیا کئے۔ لیکن اندازہ کہتا ہے کہ کیا کیئے ہونگے۔ خاک میں مل کر نئ خاک تشکیل دی ہوگی۔ اور کیا۔
 مجھے بتایا گیا کہ جہاں سے جیٹی کے روڈ کی حد ختم ہو رہی ہے وہاں یہ اب بھی موجود ہے۔ زیر تعمیر روڈ سطح ساحل سے  خاصہ اونچا ہے۔ بڑے بڑے پتھروں کو  ٹرالر سے لا کر پہاڑ کے ساتھ بچھایا گیا ہے اور اس پہ مٹی کی تہہ جمائ گئ۔ ابھی یہ اس مرحلے سے گذر رہا ہے۔ نچلے حصے کو لو ٹائڈ کے وقت مقامی لوگ  بیت الخلاء کے طور پہ استعمال کرتے ہیں۔ ہائ ٹائڈ میں غلاظت سمندر میں چلی جاتی ہے۔ سمندر کا مد و جذر چاند سے ربط کوہی نہیں تلاش کرتا بلکہ اپنے ساحل کواجلا رکھنے کی کوشش بھی کرتا ہے۔
ہم دونوں اس روڈ پہ چلتے چلے گئے۔ مشعل کو یہ روڈ اچھا لگا کہ اس پہ وافر مقدار میں اڑانے کے لئے مٹی موجود تھی۔ پہاڑ کی نا ہموار اور مشکل سطحوں پہ کہیں کہیں نظر آنے والی نباتاتی حیات کی کھوج میں انکو سر کرلینے والی ضدی اور ہٹیل بکریاں جگالی کر رہی تھیں۔ شاید اسی لئے بکری ایک آسمانی برج کا علامتی نشان ہے۔ 


راستے میں ایک نیا تعمیر شدہ مزار نظر آیا۔ یہ میں نے پہلے یہاں نہیں دیکھا تھا روڈ کی تعمیر کے ساتھ مستقبل پہ نظر رکھنے والوں نے اسکے پھلنے پھولنے کے امکان بھی دیکھے ہونگے ۔ ایسے مزار بیک وقت مستقبل کے خوف اور  بہتر امید کا  ایک نشان ہوتے ہیں۔ ہم سے آگے دو بلوچی خواتین جا رہی تھیں جو اس مزار کی عمارت میں داخل ہو گئیں۔ یہ کاروبار، کبھی ماندہ نہیں جاتا۔ جب بادشاہ انصاف سے آگاہ نہ ہو تو نہ معلوم فقیر کی تربت پہ عوام کا رش رہنا کوئ قابل حیرانی بات نہیں۔ تقریباً چار پانچ سو گز چلنے کے بعد روڈ سمندر کے اندر مڑ گیا اور ہم پہاڑ کی طرف اتر گئے۔



پتھروں کا زیادہ بڑا ذخیرہ تو زیر تعمیر روڈ میں دب چکا ہے۔ مگر اب بھی کچھ یہاں باقی ہے۔ ان پتھروں میں سے وہ پتھر زیادہ دلچسپ ہیں جن پہ رکاذ موجود ہیں۔ ایسے بہت سے رکاذی پتھر میں نے یہاں اس وقت جمع کئیے جب مشعل دنیا میں نہیں آئ تھی۔ یہ اب بھی میرے خزانے میں شامل ہیں۔
یہ رکاز زیادہ تر سیپیوں کے ہیں۔ یہاں پہاڑ زیادہ تر مٹی کے ہیں۔ اس پہاڑ کے اوپری حصے سے مٹی کے جو ٹکڑے گرتے ہیں وہ سمندر کے پانی سے پہلے نرم ہوجاتے ہیں۔ ان پہ اگر کوئ سمندری سیپی چپکی رہ جائے تو وقت کے ساتھ سیپی کے باقیات جھڑ جاتے ہیں اور اسکے نشان باقی رہ جاتے ہیں۔



دنیا کی تاریخ میں ان رکاذات کا بڑا حصہ ہے۔ اس وقت دنیا کے سب سے بڑے نا پید ہو جانے والے جانور ڈائینا سور بھی اپنے رکاذات کی مدد سے دریافت کئے گئے ہیں۔ ان سے جہاں ہمیں یہ اندازہوتا ہے کہ دنیا میں حیات اندازاً کتنی پرانی ہے اور اس حیات میں سے کتنے ایسے ہیں جو اب نہیں یا کتنے ایسے ہیں جو اب بالکل بدل گئے ہیں ارتقاء کی وجہ سے۔ وہیں یہی رکاذ، کہیں زمین کی تہوں میں تیل کی دولت بھر دیتے ہیں، پتھروں میں ہیرے کی شکل اختیار کر لیتے ہیں۔ لاکھوں سال پرانی خاک یا زمین کی تہوں میں سے اسے ڈھونڈھ نکالنا  ایک علم بھی ہے اور انسان کے شوق پیہم کا ثبوت بھی۔
مجھے معلوم تھا مشعل کو یہ جگہ پسند آئے گی۔ ایسا ہی ہوا۔ کم از کم مشعل کو یہ پتہ چل گیا کہ رکاذ یا فوسلز کیا ہوتے ہیں۔ ہم دونوں نے مل کر سیپیاں اور رکاذی پتھر جمع کئیے۔ ان میں سے کچھ لوگوں کو تحفے میں دینے کے لئے۔ ایک خوبصورت چھوٹا سا رکاذی پتھر مشعل کی اسکول ٹیچر کے لئے۔ اپنے سی شلیز کے ذخیرے میں سے مشعل نے کسی کو کچھ بھی دینے سے صاف انکار کر دیا۔  'اس وقت میں اچھی بچی نہیں ہوں، میں کچھ شیئر نہیں کر سکتی'۔
جس طرح ایک انسان ہمہ وقت ہر ایک کے لئے اچھا نہیں ہو سکتا اسی طرح ایک انسان ہر وقت  اچھا بھی نہیں ہو سکتا۔ البتہ اسے تیار رہنا چاہئیے کہ وہ یہ جملہ سنے گا کہ وہ اچھا نہیں ہے۔ مشعل نے اسکی تیاری کر لی۔ بچے ظالمانہ حد تک صاف گو کیوں ہوتے ہیں؟
یہیں سے مجھے ایک دلچسپ چیز، مرجان کا ایک ٹوٹا ہوا ٹکڑا ملا۔ پاکستان کے ساحلوں میں بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہاں سمندر میں مرجان کی چٹانیں نہیں ہیں۔ لیکن پتھروں کے اس ڈھیر میں، میں نے اسے پا لیا۔ ہمم ، تو ایسا نہیں ہے کہ بالکل نہیں ہے۔ موجود ہیں لیکن یہ کہ مرجان، سمندر کے پانی کی حرارت اور آلودگی سے بہت متائثر ہوتے یں۔





یہ جگہ مراقبے کے لئے بھی بڑی اچھی ہے۔ سمندر کی آواز کو بعض اوقات مراقبے کی مشقوں میں استعمال کیا جاتا ہے  توجہ کے ارتکاز کے لئے۔ سمندر میں ایک وسعت اور اسرار ہوتا ہے اور اسکی آوازمیں ایک ردھم،  ولولہ اور امید۔ اسکی لہروں میں وہ طاقت ہوتی ہے کہ سخت چٹانوں کو ریزہ کر دیتی ہیں۔ لیکن اس میں وہ طلسم بھی ہوتا ہے جو اسی ریزے کو بیش قیمت موتی میں  تبدیل کر ڈالتا ہے۔



ہمارے علاوہ یہاں کوئ اور نہ تھا۔  ایک بھرپور وقت گذار کر ہم لوٹے۔ کچے روڈ پہ ٹرکس پتھر اور مٹی لے کررواں۔ اکّا دکّا لوگ نئے بننے والے بند کے کنارے پہ کھڑے منظر میں مگن۔ اجنبی ہونے کے ناطے  ایک اشتیاق بھرے تجسس سے دیکھتے ہیں اور بس۔ ہم پلٹے اور آبادی کے قریب پہنچ کر روڈ کے ڈھلان سے اترنے لگے۔ ایک پر سکون مچھیروں کی آبادی ہمارے سامنے پھیلی ہوئ تھی جس کے کنارے وہ گھر تھا جہاں اس وقت ہماری رہائیش تھی۔ میری نظریں اس تمام منظر سے گذرتی ہوئیں اس گھر کی پچھلی دیواروں پہ رک گئیں۔ اس پہ کوئلے سے بڑے بڑے حروف میں پنجابیوں کے متعلق گالی نما تضحیک آمیز جملہ لکھا ہوا تھا۔ یہ میں نے پہلے یہاں کبھی لکھا ہوا نہیں دیکھا تھا۔ کبھی گوادر کی کسی دیوار پہ نہیں۔ اس پہ کسی پنجابی قاری کو سیخ پا ہونے کی ضرورت نہیں ۔ بلوچستان اور سندھ کے اندرونی علاقوں میں ہر غیر مقامی کو پنجابی سمجھا جاتا ہے۔ ورنہ اس مکان کے مکین اور نہ مالک کوئ بھی پنجابی نہیں۔
 اس دیوار پہ یہ لکھا دیکھ کر شاید تھوڑی سی دیر کو میرے اندر تشویش کی ایک لہر اٹھی۔ لیکن پچھلے دو دنوں کی یادداشت نے اسے فوراً دھودیا۔
میں اسے اپنے کمیرے میں محفوظ کرنا چاہتی تھی مگر معلوم ہوا کہ بیٹری بے جان ہے اسے چارجنگ کی ضرورت ے۔ بیٹری عمر رسیدگی کے مراحل طے کر رہی ہے۔ اوربہت کم مدت کے لئے چارج ہوتی ہے۔ اسے تو ، ایک دفعہ پھر چارج کر لونگی اس کا طریقہ مجھے آتا ہے۔ لیکن قوموں کو کس طرح چارج کیا جاتا ہے، یہ جاننا ابھی باقی ہے۔ اس دیواری نوشتہ پہ بی ایس او اور بی ایل اے بھی لکھا تھا۔
یہ بی ایس او اور بی ایل اے کیا ہیں؟

جاری ہے 

4 comments:

  1. میں جہاں رہتا ہوں وہ دنیا کے چند منصفانہ اور خوشحال ترین معاشروں میں سے ایک ہے۔ لیکن چونکہ یہ اسی دنیا کا حصہ ہے جنت کا کوئی ٹکڑا نہیں تو پس یہاں گروہوں کے درمیان کچھ نہ کچھ کسی نہ کسی سطح پر کوئی نہ کوئی اختلافات ، شکایات رہتی ہیں اور رہیں گی .. جیسے اقلیتوں کو اکثریت سے شکایات وغیرہ باوجود اس کے کہ یہاں اکثریت کا اقلیتوں سے حسن سلوک مثالی ہے مختلف طبقات کو ملنے والے حقوق بڑی حد تک یکساں ہیں ۔ لیکن یہ سب مجھے اسی وقت سمجھ آیا جب میں خود اکثریت سے اقلیت کا رکن بنا۔ تو بس یہ بات میرے لئے قابل فہم ہے کہ لوگوں کے مابین یہ تناؤ وہاں اپنے عروج پر ہوگا جہاں معاشرہ انتہائی غیر منصفانہ ہو جہاں مختلف طبقات کو ملنے والے حقوق یکساں نہ ہوں۔ وہاں لوگوں ، گروہوں اور مختلف طبقات کو ایک دوسرے سے شکایات یقیناً جینوئن ہونگی۔ پھر ستم ظریفی یہ کہ ان شکایات کو بجائے یہ کہ ایک تلخ حقیقت تسلیم کرتے ہوئے اس کی وجوہات کا سدباب کیا جائے .. اسے کارپٹ کے نیچے چھپانے کی کوشش کی جاتی ہے۔ ایسا کرنے سے شکایات ناسور کی شکل اختیار کریں گی اور پھر وہی کچھ نظر آئے گا جو ہمیں پاکستان کی تاریخ میں دیکھائی دیتا ہے۔

    فی الوقت تو مجھے سب سے ذیادہ ہمدردی سپر گرل سے ہے جنہیں تفریحی دورے پر بھی پڑھائی کرنا پڑ رہی ہے۔

    ReplyDelete
  2. انتہائی دلچسپ تحریر،
    بغیر رکے پڑھتے ہی چلے گئے کچھ جملوں نے تو اب تک اپنے سحر میں گرفتار کیا ہوا ہے!!!!!!

    ایسے مزار بیک وقت مستقبل کے خوف اور بہتر امید کا ایک نشان ہوتے ہیں۔ ہم سے آگے دو بلوچی خواتین جا رہی تھیں جو اس مزار کی عمارت میں داخل ہو گئیں۔ یہ کاروبار، کبھی ماندہ نہیں جاتا۔ جب بادشاہ انصاف سے آگاہ نہ ہو تو نہ معلوم فقیر کی تربت پہ عوام کا رش رہنا کوئ قابل حیرانی بات نہیں۔

    سمندر میں ایک وسعت اور اسرار ہوتا ہے اور اسکی آوازمیں ایک ردھم، ولولہ اور امید۔ اسکی لہروں میں وہ طاقت ہوتی ہے کہ سخت چٹانوں کو ریزہ کر دیتی ہیں۔ لیکن اس میں وہ طلسم بھی ہوتا ہے جو اسی ریزے کو بیش قیمت موتی میں تبدیل کر ڈالتا ہے۔

    سمندر اپنا یہ اثر اپنے کنارے رہنے والوں پر بھی بدرجہ اتم ڈالتا ہے،ٹھیک کہانا میں نے؟؟؟؟؟؟
    :)

    بچے ظالمانہ حد تک صاف گو کیوں ہوتے ہیں؟
    اس لیئے کہ وہ بچے ہوتے ہیں ہرطرح کی منافقت سے پاک!
    مشعل کو میرا ڈھیر سارا پیار دیجیئے گا اس کی صاف گوئی پر،
    :)
    عبداللہ

    ReplyDelete
  3. قوموں کو چارج کرنے کے لیئے بڑی بیٹریوں کی ضرورت ہوتی ہے،بہترین تعلیمی اداروں کی شکل میں، مثبت میڈیا کی شکل میں،

    بی ایل اے تو بلوچ لبریشن آرمی کا مخفف ہے
    بی ایس او کا پتہ نہیں،
    عبداللہ

    ReplyDelete
  4. عثمان،
    جی ہاں کوئ تسلیم کرنے کو تیار نہیں ہوتا اور معاملات کو ساٹھ کی دہائ میں بننے والی جذباتی فلموں کے ڈائیلاگز سے طے کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ مثلاً بیرونی قوتیں بھائ کو بھائ کے خلاف لڑانے کی سازش کر رہی ہیں۔
    سپر گرل کو معلوم ہونا چاہئیے کہ سپر گرل بننا آسان نہیں۔
    ویسے جو بچے بچپن سے محنت کے عادی ہوتے ہیں۔ وہ بڑے ہو کر فائدے میں رہتے ہیں۔
    عببداللہ، آپ نے بہت اچھی بات کی۔ بیٹری والی۔

    ReplyDelete

آپ اپنے تبصرے انگریزی میں بھی لکھ سکتے ہیں۔
جس طرح بلاگر کا تبصرہ نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں، اسی طرح تبصرہ نگار کا بھی بلاگر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اس لئے اپنے خیال کا اظہار کریں تاکہ ہم تصویر کا دوسرا رخ بھی دیکھ سکیں۔
اطمینان رکھیں اگر آپکے تبصرے میں فحش الفاظ یعنی دیسی گالیاں استعمال نہیں کی گئ ہیں تو یہ تبصرہ ضرور شائع ہوگا۔ تبصرہ نہ آنے کی وجہ کوئ ٹیکنیکل خرابی ہوگی۔ وہی تبصرہ دوبارہ بھیجنے کی کوشش کریں۔
شکریہ