Tuesday, February 1, 2011

فرنچ بیچ پہ پاکستانی

سمندر ہمیشہ یکساں حالت میں نہیں رہتا۔ کبھی اسکا پانی ساحل پہ دور تک پھیل جاتا ہے اور کبھی اس طرح سمٹتا ہے کہ اسکے اندر موجود چٹانیں اور ان پہ موجود سمندری مخلوقات ظاہرہو جاتی ہیں۔ یہ عمل دن میں دو بار ہوتا ہے اور اسے سمندر کا مد و جذر  کہتے ہیں۔
جب سمندر جذر کی حالت میں ہو یعنی پانی سمٹ کر پیچھے چلا جائے تو تحقیق دانوں کو بہت کچھ دیکھنے کو مل سکتا ہے۔  چٹانوں کے کونے کھدروں میں ٹہرا پانی ان میں پھنسی چھوٹی چھوٹی مچھلیاں اور سمندری گھونگھے اور سیپ، سمندری پودے۔
ایک ایسے ہی وقت ہمارا گروپ سمندر کی ان چٹانوں سے سمندری پودوں کو ادھیڑنے میں مصروف تھا تاکہ ان پہ تحقیق کر کے انسانوں کے لئے کار آمد مرکبات نکالے جا سکیں۔
کچھ لوگ کام میں اور کچھ آرام کی حالت میں تھے۔ جب ہمارا آرام کا وقت آیا تو ہم ساحل کے ساتھ ریت کے محل بنانے اور ایک دوسرے کے ساتھ چھیڑ خانیوں میں مصروف ہو گئے۔ کسی نے  ساحل کے ایک طرف انگلی اٹھا کر کہا وہ اس طرف فرنچ بیچ ہے۔ وہاں عام لوگوں کا جانا منع ہے۔ وہاں بڑی اچھی ہٹس ہیں اور بڑا اچھا ویو۔ میں نے اس طرف دیکھا اور پھر اپنے کام میں مصروف ہو گئ۔
عام آدمی کو اپنے کام سے کام رکھنا چاہئیے اسی میں اسکی بقاء ہے۔
جب دنیا میں بہت اچھے سمندری ویوز دیکھ چکے جن میں گوادر کا سحر انگیز سمندری ویو بھی شامل ہے تو ابھی گذشتہ دنوں پیغام ملا کہ آپ چاہیں تو فرنچ بیچ پہ ایک پورا دن بلکہ رات بھی گذار سکتی ہیں۔
رات کی تجویز کو تو بچوں کی زیادہ تعداد کی وجہ سے نظر انداز کر دیا۔ البتہ دن گذارنے کے لئے وہاں روانہ ہوئے۔ فرنچ بیچ ساحل کے اس حصے کا نام ہے جو اس قطار میں شامل ہے جہاں ہاکس بے اور پیرا ڈائز پوائینٹ  موجود ہیں۔
یہاں ایک گاءوں ہے جس کی زمین پہ یہ ہٹس شہر کی اشرافیہ سے تعلق رکھتی ہیں۔ خوبصورت ہٹس کے ساتھ بہت سارے پام، ناریل، اور کھجور کے درخت موجود ہیں۔ ساحل کی خوبی یہ ہے کہ سمندر کی ریت اور چٹانیں  ساتھ ساتھ موجود ہیں۔ کراچی کے سی ویو پہ صرف ریت ہے۔ پھر یہ کہ وہ کافی عوامی جگہ ہے۔ جبکہ یہاں بغیر کسی مداخلت کے خاندان کے ساتھ دن گذارنے کی سہولت موجود تھی۔
یہاں کے ساحل کی ایک خوبی اور بھی ہے، کراچی کے باقی ساحلوں سے غروب آفتاب کا نظارہ کیا جا سکتا ہے طلوع آفتاب کا نہیں۔ جبکہ اس ساحل سے طلوع آفتاب کا منظر دکھائ دیتا ہے غروب کا نہیں۔
:)
شاید اسی لئے اشرافیہ کے لئے مخصوص کیا گیا ہے۔ تمام دن، ادھر ادھر گھومتے کچھ تصاویر اکٹھی کیں۔ آپ کے لئے بھی حاضر ہیں۔

بچوں کا جمع کیا ہوا ہرمٹ کریبز کا خزانہ



ساحل کی گیلی ریت فنکاری کے نمونے دکھانے کے لئے اچھی جگہ اور بچوں کے لئے ایک قدرتی سلیٹ
خوبصورت ناریل کے درخت

ائے محتسب نہ پھینک ارے محتسب نہ پھینک، ظالم، شراب ہے ارے ظالم شراب ہے 

ہاتھ دھو لیں کھانے کا وقت ہوا چاہتا ہے

 توانائ بچائیے، کباب اور شیر مال ایک ساتھ گرم کریں






ایک سالگرہ بھی منائ گئ
 کتوں نے بھی موقع سے فائدہ اٹھایا اور تصویری سیشن میں ادائیں دکھائیں۔ یوں معلوم ہوا کہ کتے میں بھی عصری آگہی موجود ہے۔








8 comments:

  1. بہت خوب، بہت اچھی معلومات سےآگاہ کیاہے۔تصاویرواقعی لاجواب ہیں۔

    ReplyDelete
  2. پنک شرٹ میں تو سپرگرل ہیں۔ باقی بچے کون ہیں؟
    سمندر کی کوئی واضح تصویر کہاں ہے؟
    کیک کس کی سالگرہ کا تھا؟
    کتنویں سالگرہ تھی؟
    اونٹ کی سیر کیوں نہیں کی گئی؟
    آوارہ ڈوگی کسی کو کاٹتے نہیں ؟
    ایک ڈوگی قید میں کیوں ہے؟
    ساحل پر صفائی کیوں نہیں؟
    شراب کس نے پی؟
    کیپشن میں نان کو روٹی کیوں لکھا گیا ہے؟
    نان کباب کے اوپر کیوں موجود ہیں۔ جبکہ اصولی طور پر کباب نان کے اوپر ہونے چاہییں؟
    کیا تصویر لگانے سے پہلے اونٹ اور اونٹ والے سے اجازت طلب کی گئی؟
    کیا یہی اجازت ڈوگیوں سے بھی لی گئی؟
    اس جگہ کا نام فرینچ بیچ کیوں ہے؟

    ان تمام سوالات کے مفصل جوابات حاصل کرکے فوراً سے پیشتر ایک مراسلہ کینیڈا ارسال کیا جائے تاکہ صورتحال کا جائزہ لے کر کسی نتیجے پر پہنچا جاسکے۔

    ReplyDelete
  3. ٹایڈ پول میں سمندری حیات کا مشاہدہ ایک بڑا دلچسپ کام ہے۔ بچوں کو ہرمٹ کریب، فوانا، گھونگے، ارچن اور خصوصا ستارہ مچھلیاں چننے میں‌بڑا مزا آتا ہے۔ جنوبی کیلیفورنیا کے ٹائد پول تو بہت مشہور ہیں، وکیپیڈیا پر ٹایڈ پول کی جو تصویر موجود ہے وہ بھی کیلیفورنیا کے سانٹا کروز ساحل کی ہی ہے۔سال کے سب سے نچلے مدوجزر والے دن تو اتنے لوگ جمع ہوتے ہیں کہ میلےکا سماں ہوتا ہے۔

    جگر مرادآبادی کے شعر کی تصیح کرتے چلیں کہ مصرعہ 'نہ پھینک ظالم انہیں، شراب ہے یہ شراب ہے یہ' کی اصل ہے

    محتسب نہ پھینک ارے محتسب نہ پھینک
    ظالم شراب ہے ارے ظالم شراب ہے

    ReplyDelete
  4. عدنان مسعود صاحب، تصحیح کا شکریہ۔ میں نے بہت یاد کرنے کی کوشش کی مگر یاد نہ آیا۔ سوچا لکھ دیتے ہیں۔ یا تو کوئ تصحیح کر دے گا یا پھر جب ہمیں پتہ چلے گا صحیح کر دیں گے۔ انٹر نیٹ تحاریر کی یہ آسانی تو ہے۔ ایک دفعہ پھر شکریہ۔
    یہاں کراچی میں زیر سمندر حیات شاید اتنی زیادہ نہیں۔ اسٹار فش آج تک نہیں ملی۔ کورلز بہت کم ہیں۔ ادھر تھائ لینڈ میں پی پی آئ لینڈ کی طرف مرجان یعنی کورلز بہت ساحل پہ آ کر جمع ہوتے ہیں۔ گوادر میں مضافاتی ساحل پہ سیپیوں کا بڑا ذخیرہ تھا۔ اب وہاں ترقیاتی کاموں کے سبب وہ بالکل ختم ہو کر رہ گیا ہے البتہ وہاں سے مجھے بہت سارے فوسلز ملے جو خاصے دلچسپ ہیں اور میرے پاس محفوظ ہیں۔
    عثمان،
    سمندر کی کوئ واضح تصویر، اتنی تصاویر مشکل سے آئ ہیں۔ نیٹ پہ بھی پہلے سے موجود ہیں اس لئے نہیں ڈالیں۔ باقی بچے بھی گھر کے بچے ہیں۔
    جنکی سالگرہ تھی وہ راضی نہیں راز کھولنے پہ۔ اونٹ کی سہیر کی ، مگر بچوں نے۔ مشعل کو اونٹ سے بدبو آ رہی تھی اس لئے نہیں بیٹھیں۔ میرا خیال ہے کہ بپانہ تھا۔ ایک اور بچے کو زبردستی بٹھایا گیا انہوں نے خوب رونا دھونا کیا۔ تصویریں محفوظ کر لی گئیں۔ بڑے ہو کر بلیک میل کرنے میں کام آئیں گی۔
    ڈوگی قید میں کیوں ہے؟ یہ تصویر کا ایک رضخ ہے دوسرا رخ یہ ہے کہ تصویر بنانے والا قید میں کیوں ہے۔
    :)
    یہ ہمارے سب سے صاف ساحلوں میں سے ایک تھا۔ ہمارے یہاں بے حد صاف ساحل، بلوچستان کے وہ کنوارے ساحل ہیں جہاں ابھی انسان نہیں پہنچے اور جو ہم صرف جہاز شے دیکھ پاتے ہیں۔
    شراب،،، خالی بوتل چاہے شیلف پہ لگی ہو یا ساحل پہ پڑی ہو کبھی یہ راز نہیں کھولتی کے مےخوار کون تھا۔
    یہ نہ نان ہے نہ روٹی، کراچی میں اسے شیر مال کہتے ہیں۔ پہلے تصویر کے کیپشن میں یہی لکھا تھآا۔ مگر ایک دفعہ غائب ہونے پہ دوبارہ پیسٹ کی تو یہی لکھ دیا، بے دھیانی میں۔
    نان کباب کے اوپر کیوں ہیں؟ اس پہ تحقیق کی جا سکتی ہے۔ قیاس کہتا ہے کہ کباب سیخوں میں آگ کا لطف اٹھا رہے تھے کہ شیر مالوں نے کہا کہ ہمارے ساتھ بھی شیئر کرو۔ چونکہ کباب ابھی صحیح سے سوختہ نہ ہوئے تھے اس لئی انہیں اوپر جگہ ملی۔ یہ مجھ نا چیز کا نظریہ ہے۔ آپ قیاس کے گھوڑے ادھر ادھر دوڑا سکتے ہیں۔
    اجازت، تصویر بنانے کے بعد ہمیں احساس ہوا کہ یہ انتہائ غیر اخلاقی کام تھا کہ اجازت نہ لی۔ اس پہ ہماری روشن خیالی کی دھجیاں اڑائ جا سکتی ہیں۔ یہ ثابت کیا جا سکتا ہے کہ ہم انسانی حقوق کے علمبردار ہونے کے باوجود انسان کو اس بات کا حق دار نہیں سمجھتے کہ ان سے تصویر کے لئے اجازت لیں۔ ہمیں یہ بھی یاد نہ رہا کہ باہر جب کسی نے ہماری یا ہماری بچی کی تصویر لینی چاہی ہمیشہ اجازت لی۔
    بات یہ ہے کہ یہاں اگر کیمرہ ہاتھ میں ہو تو اس قسم کے لوگوں کو اس بات سے بڑی خوشی ہوتی ہے کہ انکی تصویر لی جائے۔ بعض اوقات وہ فرمائیش بھی کرتے ہیں۔ اگر انکی ایک تصویر لے لی جائے تو بڑا خوش ہو جاتے ہیں چاہے وہ اس کا پرنٹ دیکھ بھی نہ پائیں۔
    اس کا نام فرنچ بیچ کیوں ہے؟ یہ میں اور آپ مل کر سوچتے ہیں۔ اور پھر نتیجہ نکالتے ہیں۔
    :)

    ReplyDelete
  5. دیے گئے بیانات،شواہد اور تصاویر کی روشنی میں فاضل مجلس مشاورت مندرجہ ذیل نتائج پر پہنچی ہے۔
    شیر مال نامی شے چونکہ نان ہے نہ روٹی۔۔اس لئے اشیا باربی کیو کے ضمن میں اسے امیونٹی (اِستِثنا)حاصل ہے۔ یہ کبابوں کے اوپر آئے یا نیچے ..سیخوں پر بہرحال کبابوں ہی کو چڑھنا ہے۔
    مجلس مشاورت اس نتیجہ پر پہنچنے سے قاصر ہے کہ آیا کباب گائے کے ہیں یا بکرے کے۔ لیکن ہیں بہرحال یہ مزے کے۔
    ایک سیانے رکن مجلس کا اصرار ہے کہ جن کی سالگرہ ہے ان کی عمر چالیس سے اوپر ہے۔ سالگرہ منانے والے کی مانند فاضل رکن نے بھی اپنا نام صیغہ راز میں رکھنے کی درخواست کی ہے۔
    یہ بات تاحال وضاحت طلب ہے کہ بلیک میل کسے کیا جائے گا؟ اونٹ کو یا بچے کو؟ .. یا پھر اونٹ کے بچے کو؟
    ڈوگی موصوف کی قید ایک سنگین مسئلہ ہے۔ صورتحال پہ قابو پانے کے لئے حقوق ڈوگیاں کی نمائیندہ خصی محترمہ پامیلا اینڈرسن سے تعاون کی درخواست کی گئی ہے۔
    مجلس مشاورت اس نتیجہ پر پہنچی ہے کہ ایسا ساحل جہاں ڈوگی کثیر تعداد میں ہوں سب سے صاف ساحل کہلاتا ہے۔ جبکہ ایسا ساحل جہاں صرف ڈوگی پائے جاتے ہیں بے حد صاف ساحل کہلاتا ہے۔
    شراب کے تذکرے پر کچھ معزز ارکان مضطرب ہیں۔ ان کا اصرار ہے کہ اس مسئلے پر مٹی پاؤ یا کم از کم ریت پاؤ۔
    فرنچ بیچ کے قضیے کے حل کے لئے فرانسیسی قونصل خانےکو مراسلہ روانہ کردیا گیا ہے۔

    ReplyDelete
  6. عثمان،
    :)
    کباب نہ گائے کے ہیں نہ بکرے کے۔ دونوں ہی کمیاب ہوتے جا رہے ہیں۔ یہ مرغی کے ہیں۔ مجلس مشاورت کو شاید شواہد پوری طرح نہیں دئیے گئے تھے۔
    فاضل رکن نے شاید کیک کے اوپر کچھ گلابی چیریز یا لال جیلی کے موجود نہ ہونے سے یہ اندازہ لگایا ہے۔ کیک تو تحفے میں آیا تھا۔ اس لئے لانے والے نے اپنی مرضی استعمال کی۔ یہ معاملہ ابھی بھی صیغہ ء راز میں ہے۔
    نمائیندہ ء خصی پہ مجھے مچھر مارنے کی وہ ترکیب یاد آگئ جس جس میں دوا مچھر کو کھلانی پڑتی ہے۔ ترکیب کا اندازہ اب آپ لگاتے رہیں۔
    فرانسیسی سفارتخانے کو مراسلہ روانہ کرنے سے پہلے آپ نے کوئ کمیٹی تشکیل دی تھی یا نہیں تاکہ مراسلے کی صحت سے کما حقہ ہم مطلع رہیں۔ اس ضمن میں البتہ آپکی کوششوں کے ہم شکر گذار رہیں گے۔

    ReplyDelete
  7. عنیقہ سالگرہ نبہت بہت مبارک ہو ۔۔۔۔۔ تصاویر بہت اچھی لگیں ۔ اس لیے بھی کہ یہ اپنے پاکستان کی ہیں ۔۔ جہاں اپنا ہی مزا ہوتا ہے ۔۔۔ میں کچھ سال پہلے ساحل سمندر پر گئی تھی ۔۔۔ خیر دیکھنے سے تو لگتا نہیں یہ کراچی ہے ۔۔ وہ بھی رات کے وقت ۔۔۔لیکن جب گندگی دیکھو تو یقین کرنا پڑتا ہے کہ کراچی ہے ۔۔۔ںوٹ) مجھے اپنی پوسٹ پر عنیقہ اور عثمان کا حوالہ دینا پرا ، اگر برا لگا ہو تو معذرت

    ReplyDelete
  8. تانیہ رحمان، شکریہ آپکا، یہ آپ نے اپنی کس پوسٹ کا تذکرہ کیا ہے۔ مجھے یاد نہیں آ سکا۔ اس لئے یہ بھی سمجھ نہیں آیا کہ ناراض کہاں ہونا تھا۔
    :)

    ReplyDelete

آپ اپنے تبصرے انگریزی میں بھی لکھ سکتے ہیں۔
جس طرح بلاگر کا تبصرہ نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں، اسی طرح تبصرہ نگار کا بھی بلاگر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اس لئے اپنے خیال کا اظہار کریں تاکہ ہم تصویر کا دوسرا رخ بھی دیکھ سکیں۔
اطمینان رکھیں اگر آپکے تبصرے میں فحش الفاظ یعنی دیسی گالیاں استعمال نہیں کی گئ ہیں تو یہ تبصرہ ضرور شائع ہوگا۔ تبصرہ نہ آنے کی وجہ کوئ ٹیکنیکل خرابی ہوگی۔ وہی تبصرہ دوبارہ بھیجنے کی کوشش کریں۔
شکریہ