Monday, February 28, 2011

ہرجائ کا لوٹا

آج میں مشعل کو اسکول سے لینے کے لئے جب گھر سے نکلی تو روڈ کی حالت دیکھ کر سمجھ نہیں آیا کہ اتنی افراتفری کیوں ہے۔ جہاں صرف ایک منی بس چلتی ہے وہاں خالی منی بسز کی قطار لگی ہوئ ہے۔ ٹریفک بری طرح جام۔ خیر مجھے زیادہ دور نہیں جانا تھا، اس لئے بچت ہو گئ۔ واپسی میں  بھی صورت حال کچھ زیادہ مختلف نہیں تھی۔ گھر پہنچ کر پتہ چلا کہ پٹرول پمپس بند کر دئیے گئے ہیں۔ لوگ شدید احتجاج کی حالت میں ہیں کچھ علاقوں میں فائرنگ بھی ہوئ ہے۔
 چند گھنٹوں بعد اطلاع ملی کہ حکومت کی طرف سے 'دباءو' کے بعد پمپس دوبارہ کھل گئے ہیں۔ ٹریفک جام ختم ہوا۔ لیکن ابھی تک خبر گردش میں ہے کہ پیٹرول مصنوعات کی قیمتوں میں آج کسی بھی وقت تقریباً نو فی صد اضافے کا اعلان کر دیا جائے گا۔ اور پیٹرول پمپس نے یہ حرکت زیادہ سے زیادہ منافع کمانے کے لئے کی تھی۔
 پیٹرولیئم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافہ اس لئے دل دہلا دیتا ہے کہ اسکے بعد زندگی میں استعمال ہونے والی ہر چیز کی قیمت بڑھ جاتی ہے۔ یعنی اندازاً کم از کم نو فیصد کا اضافہ صرف کار چلانے میں ہی نہیں بلکہ کاروبار حیات چلانے میں بھی۔
مہنگائ کا یہ طوفان کس طرف جا رہا ہے؟ کیا ہم اپنے سیاسی نظام سے یہ توقع رکھ سکتے ہیں کہ وہ اس طوفان کے آگے بند باندھ سکے۔ ایسا لگتا تو نہیں۔
 ابھی تو ایکد وسرے کے آگے بند باندھ رہے ہیں۔ نواز شریف جو اصولوں کی سیاست کرنے میں خاصی 'شہرت' رکھتے ہیں۔ انہوں نے مڈ ٹرم الیکشن کے لئے راہ ہموار کرنی شروع کر دی ہیں۔ اسکے لئے انہیں کچھ اصولوں کی قربانی دینی پڑی۔ اور لوٹا کریسی کی تہمت اٹھانی پڑی۔ لیکن اس طرح تو ہوتا ہے اس طرح کے کاموں میں۔ پیپلز پارٹی ہمیشہ  اپنے شہیدوں کی فہرست گنواتی ہے لیکن اسکے مقابلے میں اصولوں کی قربانی زیادہ بڑی قربانی ہے، شرافت کی شہادت زیادہ بڑی شہادت ہے۔ امید ہے پیپلز پارٹی اس وار کو سہہ نہیں پائے گی۔
 جمہوریت کا کیا ہوگا؟ یہ کہاں جائے گی، کس کو منہ دکھائے گی۔ اس کو چھوڑیں ابھی اس شعر کا مزہ لیں۔
وہ کہیں بھی گیا ، لوٹا تو میرے پاس آیا
بس یہی بات ہے اچھی میرے ہرجائ کی
ہرجائ کے پاس لوٹا ہو تو دل کو تسلی رہتی ہے۔ آخر میں کچھ تو ملے گا۔ لیکن ہرجائ کون ہے اور لوٹا کس کا ہے؟
جہاں تجزیہ نگار کہتے ہیں کہ عوام ملک کی دونوں بڑی پارٹیز سے مایوس ہو چکے ہیں وہاں در پردہ قوتوں نے نئ قیادت کے لئے نام سوچنا شروع کر دئیے ہیں۔
مخدوم شاہ محمود قریشی سابق وزیر خارجہ ایجنسیز کے متوقع امیدوار کہے جا رہے ہیں اور عمران خان ملک کے سب سے بڑے میڈیا گروپ جیو کے امیدوار۔ شاہ صاحب تو جا کر شہید بے نظیر بھٹو کے مزار پہ حاضری دے کر روحانی آشیر باد بھی لے آئے۔ عمران خان، کامران خان کے ساتھ مل بیٹھے۔ 
ایجنسیز اور میڈیا میں سے جیت کس کی ہوگی؟
یہ سوال عوام سے نہیں ہے۔ عوام تقدیر کی پابند ہے۔ میں یہ سوچتی ہوں کہ کل جب پیٹرول اسی روپے اور ڈیزل چھیاسی روپے ہوگا تو میں کیا ترک کر کے اپنے مالی خسارے پہ قابو پاءونگی۔

6 comments:

  1. آگے آگے دیکھئے ہوتا ہے کیا، ابھی تو اور بہت کچھ بھکتنا ہے عوام کو، اور یہ کہ کسی بڑی متوقع تبدیلی کے خواب میں مت رہیں، یہاں کچھ بھی نہیں بدلنے والا

    ReplyDelete
  2. Gham karne ki zaroorat nahi
    altaf bhai hai na

    ReplyDelete
  3. فی الحال حزبِ مخالف حکومرانوں کو موردِ الزام ٹھہراتی ہے ۔ حکمران اپنی کرتوتوں کا ذمہ دار حزبِ اختلاف کو ٹھہراتے ہيں اور کراچی والے پنجاب کو ہر غلط کاری کا ذمہ دار کہتے ہيں ۔ جب ان کاروائيوں سے عوام کو فرصت ملے گی تو شايد بہتری کی کوئی صورت بنے ۔ جب تک عوام کہلانے والے آپا دھاپی چھوڑ کر اجتماعی بہتری کيلئے مُخلص کوشش نہيں کريں گے حالات بد سے بدتر ہوتے چلے جائيں گے ۔

    ReplyDelete
  4. Jamhooriat behtreen intiqam hai...

    ReplyDelete
  5. عوام کے سارے مسائل کا حل ججوں کی بحالی میں ھے، ججوں کو اگر بحال کر دیا جائے تو پاکستان میں دودھہ اور شہد کی نہریں بہنے لگیں گی۔ آج سے چکھہ عرصہ پہلے تک کچھہ مداری یہ راگ الاپا کرتے تھے، جج تو بحال ھوگئے مگر دودھہ اور شہد کی نہریں نظر کہاں ہیں ؟

    ReplyDelete
  6. i am reading your blog now and enjoying your views about Imran khan. But now where ever i see every one is flooded with tsunami.

    ReplyDelete

آپ اپنے تبصرے انگریزی میں بھی لکھ سکتے ہیں۔
جس طرح بلاگر کا تبصرہ نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں، اسی طرح تبصرہ نگار کا بھی بلاگر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اس لئے اپنے خیال کا اظہار کریں تاکہ ہم تصویر کا دوسرا رخ بھی دیکھ سکیں۔
اطمینان رکھیں اگر آپکے تبصرے میں فحش الفاظ یعنی دیسی گالیاں استعمال نہیں کی گئ ہیں تو یہ تبصرہ ضرور شائع ہوگا۔ تبصرہ نہ آنے کی وجہ کوئ ٹیکنیکل خرابی ہوگی۔ وہی تبصرہ دوبارہ بھیجنے کی کوشش کریں۔
شکریہ