Thursday, January 13, 2011

ایک کتاب اور کچھ اقتباسات-۵

 گذشتہ سے پیوستہ؛

لندن  پہنچنے پر اول اول مجھے یقین نہیں آیا کہ ہم دنیا کے عظیم ترین دارالحکومت میں ہیں۔ مجھے باور کرا دیا گیا تھا کہ لندن ایک بڑا اور عالی شان شہر ہے مگر
'اے بسا  آرزو کہ خاک شدہ'
یہاں کالے کلوٹے مکانوں اور دود کش چمنیوں کے سوا کچھ  کچھ نہیں پایا۔
چیرنگ کراس اسٹیشن پر پہنچے۔ کسٹم کے افسروں نے اسباب کی جانچ کی۔ حقہ کے تمباکو پر قیمت کا سولہ گنا محصول لگایا۔ تمباکو تقریباً اکیس پونڈ تھا جس کی قیمت ہندوستان میں چار شلنگ کے قریب ہوتی  مگر قیمت کا سولہ گنا محصول دینا پڑا۔ چاندی کی جو چیزیں ہمارے پاس تھیں انکی قیمت کا ایک تہائ محصول لیا گیا۔

پہلی منزل میں چند گھنٹے ٹہرنے کے بعد تیسری منزل پر کمرے مل گئے۔ جہاں جھولے کے ذریعے پہنچائے گئے۔ ہمیں اس ایجاد کا پہلے سے کوئ تجربہ نہ تھا۔ ایک چھوٹی سی کوٹھڑی میں، جو خود بخود چلنے لگی اور خدا جانے کہاں لئے جا رہی تھی بیٹھ کر اوپر جانے سے جو حیرت ہوئ اسکا اندازہ قارئین شاید کر سکیں۔ ہم میں سے ایک صاحب پر، یہ دیکھ کر کہ ایک متحرک کمرے میں بند ہیں جس میں نکلنے کی بظاہر کوئ امید نہیں اور بے بسی کی حالت  میں بند ہیں، خوف طاری ہو گیا۔ 
جھولے کے رکنے اور اس سے جلدی نجات  پانے پر دماغ کو کچھ سکون ہوا۔ اوپر پہنچ کر دیکھا کہ بالائ منزل کے آدمی نہ خود نیچے جاتے ہیں نہ نچلی منزل منزل کے آدمیوں کو اوپر بلاتے ہیں، مگر ایک نلکی کے ذریعہ آپس میں بات چیت کرتے ہیں۔ یہ دوسری چیز تھی جس نے ہمیں اچنبھے میں ڈال دیا۔ ان سب چیزوں سے واقف قارئین اس بات پر کہ میں نے ان کا ذکر خاص طور سے کیوں کیا، اتنا ہی تعجب کریں گے جتنا مجھے ان چیزوں کو پہلی مرتبہ دیکھ کر ہوا تھا لیکن انہیں یہ بات ملحوظ رہے کہ میں مشرق کے ایک ایسے باشندے کے تائثرات بیان کر رہا ہوں جو تمام عمر مغرب کے تمدن اور ایجادات سے نا آشنا رہا اور انہیں پہلی بار دیکھے۔
یوروپ میں صنف نازک کی خدمات سے جس طرح فائدہ اٹھایا جاتا ہے اس کا مجھ پر بہت اثر ہوا۔ مثلاً مجھے یہ دیکھ کر بہت تعجب ہو اکہ چیرنگ کراس ہوٹل میں دفتری اوردوسرے تمام کام مکمل طور پر مستورات کے ہاتھ میں ہیں۔ میرے ملک میں اگرچہ اعلی طبقے کی خواتین کو باستثنائے خاص لکھنا پڑھنا سکھایا جاتا ہے مگر انہیں تعلیم اس اس غرض سے قطعی نہیں دلائ جاتی کہ وہ کسی دفتر میں کام کریں یا کسی اور حیثیت میں ملازمت کریں جہاں انہیں مردوں سے خلط ملط ہونے کا موقع پیش آئے یا عوام کے سامنے چہرہ کھولنا پڑے۔ انکو صرف مذہب یا عربی، فارسی ادب کی تعلیم دی جاتی ہے۔ اگرچہ یہ تعلیم عام زندگی کے لئے بہت کم مفید ہے تاہم مشرقی خواتین کی تنہائ کی گھریلو زندگی میں انکے  لئے مسرت اور سکون کا خاصہ سامان مہیا کر دیتی ہے۔ پردے کے متعلق انگریزی اور مشرقی خیالات ایکدوسرے سے بالکل مختلف اور متضاد ہیں۔ مسلمان خاوند اپنی بیوی کو کسی مجمع میں شرکت کی اجازت کبھی نہیں دے گا۔ مسلمان خاتون اگر کبھی اپنے خاوند یا قریبی رشتے دار کے علاوہ کسی غیر مرد کے سامنے  چہرہ کھول کر آجائے تو وہ رشتے دار مردوں ، عورتوں دونوں کی نظر میں ذلیل و خوار ہو جائے گی۔ کوئ بھی لالچ اسے غیر مرد کے سامنے آنے پر آمادہ نہیں کر سکتی، نہ ہی خاوند یہ گوارا کرے گا کہ اسکی بیوی اسکی زندگی میں روزی کمائے۔
جہالت اور بے علمی کے جس گھڑے میں ہندوستانی خواتین کی اکثریت گری ہوئ ہے اسے لکھے بغیر آگے نہیں بڑھنا چاہتا۔ رواج کے مطابق انکی بڑی تعداد تعلیم سے قطعی محروم ہے۔
نیچے طبقے کے لوگوں کی ذہانت اور عام معلومات پر بڑا تعجب ہوا۔ ہندوستان میں اسکے بالکل بر عکس ہے۔ یہاں کوچوان اور ٹیکسی چلانے والے اپنی نشست پر بیٹھے اخبار پڑھتے ملیں گے۔ عام واقعات اور معاملات پر اپنی رائے بھی بتائیں گے۔ یہ بات اور ہے کہ انکی رائے کسی قابل بھی ہوتی ہے یا نہیں۔ آپ اس ملک کے بارے میں کیا رائے قائم کریں گے جہاں گھریلو خادمائیں جنگ فرانس پہ گفتگو کر سکتی ہوں اور جغرافئیے کی کافی معلومات رکھتی ہوں۔

شب باشی کے کمرے میں ایک جلد انجیل کی رکھی تھی۔ سونے کے کمروں کا بند و بست اور انتظام کرنے والی خاتون نے میرے ایک ساتھی کو انجیل پڑھتے دیکھا اور یہ جان کر کہ ہم مسلمان  ہیں انکی طبیعت کے مذہبی میلان پر بہت شکر گذاری کا اظہار کیا، حالانکہ یہ حضرت استعجابًا ورق گردانی کر رہے تھے۔
 

4 comments:

  1. کافی عرصہ پہلے ایک اخبار میں حمید نظامی کی ڈائری کے عنوان سے کچھ اقتباس پڑھنے کا اتفاق ہوا تھا۔ موصوف نے غالبا لیاقت علی خان کے ساتھ اپنے پہلے دورہ امریکہ کا تذکرہ کیا تھا۔ موصوف لکھتے ہیں: امریکی روٹی کے دو ٹکڑوں میں کچھ سلاد، چٹنی اور جو کچھ ملے۔۔ رکھ کر چلتے پھرتے نوش کرتے ہیں۔ شائد اسے برگر کہتے ہیں۔ آگے چل کر لکھتے ہیں: اکثر امریکیوں نے ایک بے ڈھنگی ساخت کا جوتا ہر وقت پہن رکھا ہوتا ہے۔ شائد وہ اسے جوگر یا جاگر کہہ رہے تھے۔
    لباس ، تہذیب ایجادات اور دوسری کئی باتوں کے بارے میں انھوں نے اسی طرح حیرت کا اظہار کیا۔ الفاظ ٹھیک طرح سے یاد نہیں۔۔ لیکن بیان دلچسپ تھا۔

    بہرحال حافظ حامد احسن جن کے اقتباس آپ نے شائع کیے ہوئے اس میں محض حیرت ہی نہیں عبرت بھی ہے۔ کچھ جگہوں پر ٹیکنالوجی تو کسی حد تک ترقی یافتہ دنیا سے درآمد کرلی گئی ہے۔ باقی قصہ جوں کا توں ہے۔ لیکن مجھے سب سے ذیادہ حیرت تو حافظ صاحب پر ہے کہ باوجود یہ کہ وہ ایک ایسی جگہ سے تشریف لا رہے تھے جو غلامی میں جی رہ تھا۔۔ وہ کیسے نفرت اور تعصبات سے بالاتر ہوکر برطانیہ کی تحسین کررہے ہیں؟ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ ان کا آئیدیل ڈپٹی نذیر احمد کی اصغری ہوتی۔ لیکن کہاں وہ مغربی خواتین سے مرعوب ہو بیٹھے۔

    ReplyDelete
  2. افسوس اس بات کا ہے کہ کسٹم اس دور میں بھی لوگوں کی زندگی اجیرن اور سفر بد مزہ کرتا تھا۔

    ReplyDelete
  3. ہاہاہاہاہا
    بہت خوب کسٹم اور اگر اس پر پاکستانی کسٹم ہو تو سونے پر سہاگہ۔
    انہیں تو خوش ہونا چاہئے تھا کہ تمباکو پر صرف کسٹم ڈیوٹی ہی لگی۔
    اگر پاکستانی کسٹم ہوتا تو تمباکو غائب اور ڈیوٹی الگ سے۔

    ReplyDelete
  4. عثمان یار اگر تمہاری آپا مزہ کرکرا کرنے والی بات نہ لکھے تو تم کسر پوری کر دیتے ہو۔ میں اتنے دنوں سے بڑے شوق سے یہ اقتباسات پڑھ رہا تھا۔
    خیر میں تمہیں یقین دلاتا ہوں کہ تم اپنی باری اصغری کی ہی کوئی بہن کزن لانا پسند کرو گے۔

    ReplyDelete

آپ اپنے تبصرے انگریزی میں بھی لکھ سکتے ہیں۔
جس طرح بلاگر کا تبصرہ نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں، اسی طرح تبصرہ نگار کا بھی بلاگر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اس لئے اپنے خیال کا اظہار کریں تاکہ ہم تصویر کا دوسرا رخ بھی دیکھ سکیں۔
اطمینان رکھیں اگر آپکے تبصرے میں فحش الفاظ یعنی دیسی گالیاں استعمال نہیں کی گئ ہیں تو یہ تبصرہ ضرور شائع ہوگا۔ تبصرہ نہ آنے کی وجہ کوئ ٹیکنیکل خرابی ہوگی۔ وہی تبصرہ دوبارہ بھیجنے کی کوشش کریں۔
شکریہ