اگرچہ سازش کو میں ہمیشہ کچھ ایسے اقوال و افعال کا مجموعہ سمجھتی رہی ہوں جسے انتہائ تفکر اور سوچ بچار کے بعد ترتیب دیا جاتا ہے۔ لیکن بہر حال کچھ لوگ اسکے ساتھ سوچی سمجھی کا لاحقہ استعمال کر نا چاہتے ہیں۔ ہمیں کیا اعتراض ہو سکتا ہے جم جم کریں، ویسے بھی ہمارے ماحول کی تربیت نے ایک چیز ہم میں پیدا کرنے کی کوشش کی اور وہ یہ کہ چلو تم ادھر کو ہوا ہو جدھر کی۔ اس میں آسانی یہ ہوتی ہے کہ خود کچھ نہیں کرنا پڑتا۔ جو کچھ کرتی ہے ہوا کرتی ہے۔ اب اگر کچھ غلط بھی ہو جائے تو قصور ہوا کا ہی ہو سکتا ہے ہمارا نہیں۔ اور اگر موسم حبس کا ہو اور ہوا کا دور دور تک نشان نہ ہو تو ہمارے اس طرح بے دست وپا ہونے میں یقینا کسی کی سازش اور وہ بھی سوچی سمجھی سازش ہی شامل ہوسکتی ہے۔
اگرچہ کہ یہ نہیں معلوم کہ سوچی سمجھی سازش کی علامات کیا ہوتی ہیں اور اسے کیسے پکڑا جاتا ہے لیکن ہم اپنی فطری ذہانت سے اسکا پتہ چلا لیتے ہیں۔ قدرت نے ہمیں ایسے جواہر سے بغیر کسی جانبداری کےمالا مال کیا ہے اورایسے دیدہ وروں کے لئیے ہماری زمیں بہت زرخیز ہے۔ خدا جانے علامہ نے یہ شعر کس ترنگ میں کہا کہ
ہزاروں سال نرگس اپنی بے نوری پہ روتی ہے
بڑی مشکل سے ہوتا ہے چمن میں دیدہ ور پیدا
ہمارے یہاں بہت کم لوگ ہی ایسے ہیں جنہیں قدرت نے دیدہ ور پیدا نہیں کیا۔ اور خیال ہے کہ ایسا صرف نرگس کے ساتھ ہی ہوا ہوگا۔ ہزاروں سال سے لگتا ہے کہ نرگس کوئ انسان نہیں جناتی مخلوق ہے۔ معلوم نہیں کہ حضرت علامہ کو جنات پہ کوئ دسترس حاصل تھی یا نہیں۔ یا کسی سوچی سمجھی سازش کے نتیجے میں انکی زندگی کا یہ باب اوجھل کر دیا گیا ہے۔
آخیر میں مجھے ایک خیال آتا ہے کہ جہاں ہم حالات حاضرہ کی الجھی لٹوں میں سے اتنے تواتر سے سازشی جوءوں کو نکالتے رہتے ہیں وہاں تاریخ کی سر کی کھجلی کو بھی کم کرنے کا بندو بست کیوں نہیں کرتے۔ مثلا میں سوچ رہی تھی کہ اس میں تو کوئ سوچی سمجھی سازش شامل نہیں کہ پاکستان کا قیام قائد اعظم جیسے بے عمل سیکولر مسلمان کے ہاتھوں عمل میں آیا۔ آخر یہ کس کی سازش تھی۔
قائد اعظم کی یہ یادگار تصویر کسی سوچی سمجھی سازش کا حصہ تو نہیں۔
حلفنامہ
میں یہ حلف دیتی ہوں کہ میری یہ تحریر بغیر سوچی سمجھی سازش کا حصہ ہے۔ اور کسی دیدہ ور کی دیدہ وری کے بغیر شائع کی جا رہی ہے۔
لیجئے۔ آپنے سازشوں کے انبار میں ایک اور کھجلی کا اضافہ کر دیا!
ReplyDeleteقائد اعظم کا سیکولر مسلمان ہونا اور پھر پورے ہندوستان کے مسلمانوں کیلئے ایک الگ وطن کے حصول کو ممکن بنانا، یہ دو ایسی متضاد باتیں ہیں جسپر علما کرام نے کبھی اتفاق نہیں کیا۔ یہی علما ہی ہیں جو آج اسمبلیوں میں بیٹھے ہیں جو کہتے تھے کہ ہم پاکستان کی ’’پ‘‘ نہیں بننے دیں گے۔
قائد اعظم کا پاکستان ہندو، انگریز، اور نہ جانے کس کس قوم کی انتھک سازشوں کے باوجود ابھی تک قائم و دائم ہے، بیشک لولا لنگڑا ہی سہی۔ میری دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ مملکت پاکستان کو قائد اعظم کا پاکستان بننے کی توفیق دے۔ کسی خاص پارٹی کا نہیں!
عنیقہ بہنا، قائد نے یہ ملک تو بنا دیا لیکن ہم نے "ان" کی درگت بنانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ ایک بلاگ لکھا تھا وسعت اللہ خان نے غالبا اس برس جس میں کہا گیا تھا کہ قائداعظم کو ہم مولانا جرنل کامریڈ محمد علی جناح وغیرہ وغیرہ بنانا چاہتے ہیں۔ اب دیکھئے آپ نے انہیں سیکولر کہہ دیا اور ساتھ ہی بے عمل بھی۔ عمل تو کہتے ہیں نا جو کردکھائے۔ تو جو قائد نے کر دکھایا وہ تو اور کسی سے ہو ہی نہ سکا سو وہ مسلمان تو باعمل تھے۔ گفتار کے پکے بھی تھی۔ شخصی کمزوریوں سے پاک نہ تھے لیکن بہرحال ان ایسوں سے لاکھ درجہ بہتر تھے جو ان پر بہتان لگایا کرتے ہیں یا تھے۔ کبھی یہ بھی سوچا جانا چاہئے کہ آج سے ستر برس پہلے کا ہندوستانی مسلمان ہماری نسبت بہت زیادہ قدامت پسند اور دقیانوسی اور جذباتی تھا۔ آخر اس انگریز نما انسان میں ایسی کیا بات تھی کہ ایک دہقان بھی عطااللہ شاہ بخاری یا جمعیت علمائے اسلام ہند یا ابوالاعلٰی مودودی وغیرہا کو چھوڑ کر اس شخص کا دیوانہ تھا اور اس کی بات پر اعتبار کرتا تھا؟ شائد اس میں ہمیں "جدت یا قدامت پسند" ایسے گھسے پٹے سوال کا جواب مل جائے۔
ReplyDeleteاےقائد ہم بہت شرمندہ ہیں
ReplyDeleteاصلی جسے سُچا بھی کہا جاتا ہے گلاب ۔ موتیا اور نرگس کے پھولوں کو میں پسند کرتا ہوں اور یہ تینوں میں جہاں بھی پاکستان میں رہا میرے ساتھ رہے ۔ اب لاہور میں لانے کی تدبیر کر رہا ہوں لیکن سوچی سمجھی نہیں ۔ اور ہاں اس شعر کا مطلب مجھے کبھی سمجھ نہيں آیا ۔ ہوا جو دو جماعت پاس ۔
ReplyDeleteہزاروں سال نرگس اپنی بے نوری پہ روتی ہے
بڑی مشکل سے ہوتا ہے چمن میں دیدہ ور پیدا
ایک محاوہ آپ نے استعمال کیا ہے " جم جم کریں "۔ یہ " جم جم " کیا ہوتا ہے اور کس زبان کا مطلب ہے ؟ ایک تو جمنا ہوتا ہے بھارت میں دریا ۔ ایک جمنا ہوتا ہے پانی یا دودھ کا جم کر برف یا ملائی کی برف بن جانا ۔ ایک جمنا ہوتا ہے پیدا ہونا جیسے "جَمنا امِیراں دا ۔ کِتے صَوفیاں تے کِتے غَلِیچَیاں تے ۔ غریباں دا کی جَمنا ۔ سردی پَئی تے جَم کے مرے ۔ گرمی پَئی تے پِگھل کے مَرے"
آپ کو ضرور کسی باکمال سازشی ہی نے بتایا ہو گا کہ قائد اعظم بے عمل یا سیکولر تھے ۔ قائد اعظم نہ تو بے عمل تھے اور نہ سیکولر ۔ ان کی صرف ایک تقریر کی غلط تشریح کر کے انہیں سيکولر کرنے کی آج کے روشن خیالوں نے بہت کوشش کی ہے مگر کامیاب نہیں ہو سکے
آپ کو یہ بھی معلوم ہونا چاہیئے کہ انسان یا مسلمان ہو گا یا نہیں ہو گا ۔ ایسا نہیں ہو سکتا کہ مسلمان بھی ہو اور سیکولر بھی
آپ نے مار دیا شیشے كے گھر میں پتھر۔۔ اب چنیے كانچ كے ٹكڑے۔
ReplyDeleteکیا لوگوں کے جذبات بھڑکانے کے علاوہ بھی اس پوسٹ کی کوئی غرض و غایت ہے ؟
ReplyDeleteیوں ہی معلومات کے لئے پوچھ رہا ہوں۔
کیا لوگوں کے جذبات بھڑ کانے کا ٹھیکہ کچھ خاص لوگوں نے ہی لے رکھا ہے؟
ReplyDeleteیوں ہی معلومات کے لیئے پوچھ رہا ہوں :cool:
جم جم کا مطلب ہے سدا، ہمیشہ، لگاتار،خدا مبارک کرے، خداایسا ہی کرے،خدا کرے روز ایسا ہوتا رہے،
یہ معنی اردو فیروزالغات کے مطابق ہیں مفاد عامہ کے لیئے تحریر کررہاہوں :smile:
عنیقہ تصویر زبردست ہے مگر اس تصویر کو دیکھ کر مجھے کسی کی یاد آگئی ہے :smile:
عارف کریم، جب کھجلی کی عادت ہو جائے تو کچھ نہیں ہوتا انسان بس کھجا کر چھوڑ دیتا ہے۔ یا کھجاتا رہتا ہے۔ بعض لوگوں کو کھجانے میں مزہ آنے لگتا ہے ایک کھجلی صحیح ہوتی ہے دوسری نکال لیتے ہیں۔ تو پریشانی کی کوئ بات نہیں۔
ReplyDeleteخرم صاحب۔ لوگ پہلے اس چکر سے تو باہر نکلیں کہ یہ ملک کس لئیے بنا تھا۔ اب تو فیصلہ زور بازو پہ ہو رہا ہے۔ اور لوگ ماضی کو تاریخ کہتے ہیں ہم اپنی تاریخ خود بنائیں گے۔
اجمل صاحب، میں سوچ رہی تھی کہ اس وقت تو میرے پاس چار چھوٹی چھوٹی سی کتابیں ہیں اور کوئ لغت نہیں کہ آپکو اسکا حوالہ دیدوں وہ تو بھلا ہو کہ عبداللہ نے بالکل سحیح سے اسکے مطلب نکال لئیے۔ میں نے تو اپنی روانی میں استعمال کیا تھا۔
اب آئیے اصل موضوع کی طرف۔ جو آج مجھے اپنے ایک ساتھی بلاگر کی تحریر پڑھ کر ہوا انکا حوالہ بھی میں نے نیچے دیا ہے۔ انکی تعریف کے حساب سے باعمل مسلمان وہ ہوا جو داڑھی رکھتا ہے۔ تو اس تعریف کے لحاظ تو قائد اعظم قطعاً باعمل نہیں تھے۔ کم ازکم میں نے اج تک انکی کوئ داڑھی والی تصویر نہیں دیکھی۔ اپنی مرضی سے جس خاتون سے شادی کی۔ وہ مزہباً1 پارسی تھیں اور شادی کے وقت انہوں نے شیعہ اثناء عشری کا مذہب اختیار کر لیا تھا۔ وہ خود شاید سنی نہیں تھے۔ اپنے رکھ رکھاءو میں انگریزی تہذیب سے بہت متاثر تھے۔ انکی ایک اکلوتی بیٹی تھی۔ جس نے ایک پارسی سے شادی کر لی تھی لیکن اسے انہوں نے قتل تک نہ کیا۔ کھانے پینے میں عام مسلمانوں کی طرح کوئ احتیاط نہ کرتے تھے۔ حتی کہ خواتین سے ہاتھ بھی ملا لیا کرتے تھے۔ ان سے کوئ ایسی روایت وابستہ نہیں کہ وہ پنج وقتہ نمازی تھے یا تہجد گذار۔تو آجکل با عمل مسلمانوں کی جو نشانیاں بتائ جاتی ہیں اس میں سے تو وہ کسی پہ بھی پورے نہ اترتے تھے۔ اب مزید یہ تصویر جس میں کتوں سے انکی محبت صاف نظر آ رہی ہے تو ثابت ہوا کہ وہ روائتی با عمل مسلمان نہ تھے۔ تو پھر ہمارے وہ پاکستانی بھائ جو اپنے من پسند مذہب کی ترویج اس قائد اعظم کے پاکستان میں کرتے رہتے ہیں۔ انہیں یہ چیز سازش نہیں لگتی کہ اسلامی مملکت پاکستان کا بانی ایک ایسا شخص ہو۔
راشد کامران صاحب، دو دن سے ایچ بی او پر فلم دیکھ رہی ہوں، دی گلاس ہاءوس۔ پھر با عمل مسلمانوں کی تعریف دیکھی۔ آخر تو یہی کرنا تھا۔ سب شیشے کے گھر ختم ہوں تو سارے شاید انسان بن جائیں۔
محمد احمد، یہ بتائیں کہ لوگوں کے جذبات کب بھڑکے ہوئے نہیں ہوتے اورلوگ تو ایسے بھڑکیلے ہیں کہ انہیں بھڑکنے سے زیادہ کسی چیز میں مزہ ہی نہیں آتا۔ ویسے برسبیل تذکرہ اس نکتے کی طرف اشارہ کریں گے جو کسی غلظی کی بناء پہ لوگوں کے جذبات بھڑکا سکتا ہو۔
شکریہ عبداللہ، معنی بتانے کا۔ مجھے بھی یہ تصویر دیکھ کر کسی کی یاد آگئ تھی۔ ویسے آپ آجکل کون سا ٹوتھ پیسٹ استعمال کر رہے ہیں۔ اتنی ساری مسکراہٹیں۔
عنیقہ صاحبہ،
ReplyDeleteمیں صرف اس پوسٹ کا مقصد جاننا چاہ رہا تھا اور کچھ نہیں!کیونکہ شاید کچھ طنز اور کچھ مزاح میں آپ کی تحریر کا مرکزی خیال کہیں آگے پیچھے ہوگیا یا مجھ ایسے کج فہم کی سمجھ سے بالا تر رہا۔ یا پھر یہ پوسٹ صرف مذہبی عقیدت مندوں میرا مطلب ہے شدت پسندوں کے لئے تھی اور ایک عام قاری کو اس سے لا تعلق رہنا چاہیے۔
میں نے قائداعظم کی بات کی اور آپ نے جواب میں محمد علی کا قصہ بیان کر دیا اور وہ بھی سطحی ۔
ReplyDeleteشادی محمد علی نے اس لئے کی تھی کہ محمد علی کی اپنی بیوی کی وفات کے بات یہ نوجوان لڑکی ان کے پیچھے پڑی تھی ۔ شادی کے بعد مذہبی اختلاف کی وجہ سے کافی ناچاقی رہی جو اس وقت عروج پر پہنچی جن محمد علی کو پتہ چلا کہ ماں کی مدد سے اس کی بیٹی ایک پاسی سے وعدہ وعید کر چکی ہے ۔ صرف ادھر ادھر کی کہنے کی بجائے ان لوگوں کی لکھی کتابیں پڑھیئے جو قائد اڎظم کے بہت قریب رہے
بات سیدھی سی ہے ہم نے اپنا نقطہ نظر بیان کر دیا اور آپ نے اپنا۔ اب فیصلہ قارئین پر چھوڑتے ہیں۔ نہ ہماری نیت بری تھی اور نہ آپ کی نیت بری ہے۔
ReplyDeleteایک بات ہے وہ تحریر اپنا اثر کھو دیتی ہے جس میں ذاتی تنقید شامل ہو۔ آپ یہ بات ہماری ذات کو بیچ میں لائے بغیر بھی کہ سکتی تھیں۔ ہمارا ریکارڈ ہے کہ آج تک اپنے بلاگ پر سوائے حکمرانوں کے کسی پر ذاتی تنقید کے نشتر نہیں چلائے کیونکہ ذاتی تنقید کو برا سمجھتے ہیں۔
پاکستان میں شرح خواندگی چالیس فی صد ہے سرکاری ذرائع کے مطابق۔ اس میں وہ لوگ بھی شامل ہیں جو اپنے دستخط کر سکتے ہیں۔ یونیسکو کے مطابق اس شخص کو خواندہ کہنا چاہئیے جو اخبار پڑھ سکتا ہو اور معمولی سا لکھ سکتا ہو۔ تو پاکستان کے پس منظر میں ایک ایسا شخص جو اتنا لکھ پڑھ سکتا ہو کہ جدید ٹیکنالوجی کی چیزوں تک رسائ رکھتا ہو اور انہیں برتنا جانتا ہو۔ وہ ایک عام قاری نہیں ہو سکتا۔
ReplyDeleteمحمد احمد صاحب، اس تحریر کا مقصد اتنا ہی سادہ ہے جتنا سمجھ میں آرہا ہے۔ کیونکہ اس وقت اردو بلاگرز نے اپنی مشترکہ کوششوں سے ایسا کوئ ضابطہ نہیں بنایا ہے جسکی رو سے ایک پوسٹ کو لکھنے کا طریقہ متعین کر دیا جائے اس وقت تک مولانا مودودی کی زبان میں، میں ایسا ہی لکھونگی جیسا مجھے آتا ہے۔ میری انسپیریشن پوسٹ لکھنے کے معاملے میں ارد شیر کاواس جی سے ہے۔اور لکھنے کے معاملے میں ، میں اپنی مرضی کے تجربات کرنا چاہونگی نہ کہ دوسروں کی مرضی کے۔
یہاں میں یہ واضح کردوں کہ کہ اگراردو بلاگرز ایسو سی ایشن ایسا کوئ ضابطہ بنانے اور اس پہ عمل درآمد کروانے پہ کامیاب ہو جائے تو میں کچھ اور کرنے لگوں گی۔ تقریب کچھ تو بہر ملاقات چاہئیے۔
:)
ایک سادہ سی بات ہے کہ جب حکومت پاکستان اور انکے عوام قائد اعظم کو انکی شخصی مذہبی آزادی اس حد تک دینے کو تیار ہیں کہ انکی خدمات کے عیوض انکے نام کے ساتھ رحمۃ اللہ علیہ لکھا جاتا ہے تو باقی لوگ کیوں ایک دوسرے کی جان، عزت اور آبرو کے درپے رہتے ہیں۔ صرف مذہب کو ایشو بنا کر۔ آپ اسے کیا کہیں گے دوغلہ پن، یا مسائل سے منہ چرانے کی کوشش، یا مذہب کو اپنے احساس کمتری کو دور کرنے کا ذریعہ بنانے کی کوشش، کیا ہے یہ رویہ۔
اجمل صاحب، آپکی یہ باتیں تاریخی طور پہ صحیح نہیں ہیں۔ یہاں مضامین کی ایک لائن ہے جو اس سلسلے میں قائد اعظم کے مختلف خطوط کو سامنے رکھکر لکھے گئے ہیں جنکی تفصیلات دوران سفر میرے پاس نہیں ہیں۔ یہاں یہ بات قابل ذکر ہوگی کہ قائد اعظم کی اپنی بیوی سے علیحدگی بیٹی کی شادی سے پہلے ہو گئ تھی۔ لیکن خیر اس وقت ہمارا اصل موضوع یہ نہیں بلکہ انکی زندگی گذارنے کا ایک تجزیہ تھا۔ جس میں سے بیشتر چیزوں کے جواب آپ نے نہیں دئیے۔
میرا پاکستان صاحب، آپکے قارئین اور چاہنے والے مجھ سے کہیں زیادہ ہیں اس لئیے آپکو بالکل پریشان نہیں ہونا چاہئیے۔ جہاں تک اس بات کا تعلق ہے کہ یہ ذاتی تنقید ہے تو ذاتی تنقید تو یہ ہوتی کہ میں یہ لکھتی کہ آپ کی شخصیت میں یہ کمزوریاں ہین، آپکے نقش ونگار ایسے ہیں، آپ اس طرح زندگی گذارتے ہیں۔ اگر کوئ بھی شخص اپنے ذاتی خیالات کو ایک عوامی جگہ پہ بیان کریگا تو وہ ذاتی نہیں رہیں گے۔ کسی نے خوب کہا ہے کہ اگر تم ہوا کو اپنے راز بتاءوگے تو پھر یہ نہ کہنا کہ اس نے درختوں سے یہ بات کہدی۔
آپ نے ایک نکتہ ء نظر رکھنے والے لوگوں کی ترجمانی کی ہے اور بہ حیثیت آپکے قاری کہ میں اپنا یہ حق محفوظ رکھتی ہوں کہ آپکے بلاگ پہ یا اپنے بلاگ پہ اسکا رد عمل ظاہر کروں۔ یہ سمجھ لیجئیے کہ انسان اپنے ارتقاء کے راستے میں ایک ایسے لمحے پہ تھا جب وہ کچھ نہیں جانتا تھا اور آہستہ آہستہ دوسرے کے خیالات سے مستفید ہوتے ہوئے وہ علم کے اس مرتبے پہ ہیں جس پہ ہم آج اسے دیکھتے ہیں۔ علم کی دنیا کا اسی فیصد علم اسی طرح جمع کیا گیا ہے دوسروں کے خیالات کی جانچ کرتے ہوئے۔ اسے ذاتی تنقید نہیں کہا جاتا۔ کل اگر اپکی تحریر پڑھ کر ایک نوجوان داڑھی رکھ لیگا اور کہے گا کہ میں نے اصل اسلام پہ عمل شروع کر دیا ہے تو اس وقت تو آپکو بڑی خوشی ہوگی۔ لیکن سوال یہ ہے کہ اس وقت آپ اسکے اس روئیے کو کیا کہیں گے۔ ذاتی تقلید۔
ایک معیاری طریقہ یہ ہے کہ آپ اپنی بات جس چیز کی بابت کہہ رہے ہیں اسکا حوالہ دیں۔ مجھ سے پہلے بھی اردو بلاگنگ کی دنیا میں یہ ہوتا رہا ہے، ہو رہا ہے اسپہ آپکی شکایت مجھے سمجھ نہیں آئ۔
اگر کوئ بہت اچھا لکھتا ہے میں اسکی تعریف کرتی ہوں، اگر میں سوچتی ہوں کہ اس میں یہ کرکے اسے بہتر کیا جا سکتا ہے تو اپنے تئیں مشورہ دے دیتی ہوں، اگر اس سے میرااختلاف ہو تو اسے بھی ظاہر کر دیتی ہوں۔ البتہ میں بناءوٹی تعریف نہیں کر سکتی اور نہ اپنے لئیے چاہتی ہوں۔ اور اب تک آپکو یہ اندازہ تو ہو گیا ہوگا کہ میں کس طبقہ ء فکر سے تعلق رکھتی ہوں۔ویسے اس پہ بھی میں بہت جلد ایک پوسٹ لکھنے کا ارادہ رکھتی ہوں۔
داڑھی، باعمل مسلمانوں اور اسلام بلکہ مسلمانوں کو بدنام اور اسلام سے متعلق پورے طرزِ زندگی کو ( خواہ وہ اسلامی لباس ہو ، پردہ و حجاب ہو، داڑھی ہو، سنتِ نبوی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا معاملہ ہو۔ الغرض اسلام سے متعلق کوئی بھی مسئلہ ہو یا اسلام کی تقلید کرنے والوں کا ذکر ہو) ایک خاص طبقہ انتہائی مہارت و عیاری اور باقاعدہ سانٹیفک طریقے سے ۔ اسلام سے اپنا بغض نکالنا شروع کردیتا ہے اور کوئی موقع ایسا نہیں جانے دیتا جس سے مسلمانوں کا دل نہ دُکھے۔اور عام آدمی شعوری یا لاشعوری طور پہ اسلام سے برگشتہ نہ ہو۔ پاکستان میں پچھلے کچھ سالوں سے اس گندے اور گھناؤنے کھیل میں بہت شدت آئی ہے۔یہ مخصوص طبقہ اپنے عقل میں اسلام اور مسلمانوں کو دیوار سے لگانے کی کوشش کر رہا ہے۔
ReplyDeleteسالوں پہلے جب بش سنئیر اور بش جونئیرنے عراق پہ شرمناک چڑھائی کے لئیے ساری دنیا کو جھوٹ کاوہ پروپگنڈا کیا تھا۔ خاصکر یوروپ امریکہ میں عراق کے حق میں بات کرنے پہ عام آدمی مرنے مارے پہ تُل جاتے تھے۔ دنیا کو یوں باور کرایا گیا کہ ساری دنیا کی تباہی ہونے والی ہےاور اس اجتماعی تباہی کے سارے جملہ ھتیار صدام حسین نے عراق میں اکھٹے کر رکھے ہیں۔ ہم نے تب بھی کہا تھا اور آج بھی وہی الفاظ دہراتے ہیں۔ امریکن ایجنسیاں اور حکومت اپنے شرمناک مقاصد حاصل کرنے کے لئیے سایوں کو وجود عطا کرتے ہیں۔ اور انہوں نے ہمارے ممالک میں اور آجکل خاص کر پاکستان میں مذکورہ طبقے میں ایسے لوگوں کو خرید رکھا ہے۔ جو مسلمانوں کو دن رات یہ باور کرانے میں مصروف ہیں کہ خدا نخواستہ اسلام اور مسلمانوں کا وجود محض ایک سایے سے بڑھ کر نہیں۔ اور اس سارے کھیل میں امریکہ ، بھارت، اسرائیل اور ان کے خرید کردہ اسلامی ہونے کا تاثر دینے والے پاکستانی ایجینٹس تو شامل ہیں ہی بلکہ پاکستان کا ایک سنجیدہ طبقہ، زرادری حکومت اور اس میں شامل کچھ وزراء کو بھی شک کی نظر سے دیکھنے لگا ہے اور ان کو بھی اس گندے کھیل میں شامل سمجھتا ہے جس کی جڑیں ننگ ملت مشرف نے رکھیں تھیں ۔ کہ پاکستان میں لوگ اسلام سے الرجک ہو جائیں، اس پروپگنڈے کے لئیے کچھ اس سائیٹفک طریقے سے کام کیا جارہا ہے کہ یوں لگتا ہے جیسے مسلمان وحشی اور درندے ہوں اور افضل لوگ صرف وہ ہیں جو طاغونی طاقتوں کی تقلید میں مادر پدر آزاد ہیں۔ اچھے خاصی سوجھ بوجھ رکھنے والے لوگ اس پروپگنڈہ کا شکار نظر آتے ہیں جبکہ عام آدمی تو کسی کھاتے میں ہی نہیں۔ اور اس پروپگنڈہ مہم کو چلانے کا کام یہ لوگ سطحی طور پہ نہیں لیتے، بلکہ اس کام کے لئیے باقاعدہ ساینٹیفک تیاری کی جاتی ہے۔ جس میں فلموں، ڈراموں، قصوں کہانیوں، فرضی ذاتی واقعات، افواہوں، کالموں۔ وقفے وقفے سے شعیہ، سنی، وہابی وغیرہ مسالک کو باہم گھتم گھتا کروا کر، پھر فرقہ وارانہ وارداتوں میں ملوث قاتلوں، غنڈوں اور جرائم پیشہ لوگوں کو جن کا اسلام یا اسلامی اخلاق سے دور کا بھی واسطہ نہیں ہوتا۔ ان کو کھلی چھوٹ دیکر تانکہ وہ مذھب کے نام پہ مذید قتل و غارت کریں اور عام آدمی مجموعی طور پہ دین سے دور ہو ۔ اسلام کے نام پہ کم عقل اور جاہل لوگوں کے ہاتھوں خواتین کی بے حرمتی کے واقعات کو بڑھا چڑھا کر میڈیا میں بار بار پیش کر کے۔ نبیِ کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم یا قرآنِ کریم کے مبینہ شاتموں کو بپھرے ہوئے ھجوم کے ھاتوں مارے جانے پہ بے گناہ ثابت کر کے ہر صورت مسلمانوں کا میڈیا ٹرائل ۔۔ اور اسطرح کے بہت سے بے شمار حربے ایسے ہیں جن سے عام مسلمانوں کو دین سے دور کرنے کی کوشش کی شعوری کوشش کی جارہی ہے۔
بی بی! مذکورہ بالا الفاظ افضل صاحب کے بلاگ میرا پاکستان پہ لکھے تھے تھوڑی سی قطع برید کے ساتھ یہاں بھی لکھ دئیے ہیں۔ نیز جہاں تک میری رائے ہیں یا تو آپ ایسے لوگوں کی پروپگنڈہ مشین سے بری طرح متاثر نظر آتی ہیں۔ جس طرح ماضی میں کچھ نام نہاد ترقی پسند دانشور سابقہ سویت یونین سے نظریاتی طور پہ متاثر تھے ۔ اور سویت یونین اور اشتراکیت کے خاتمے کے ساتھ ہی انہوں نے اپنا نیا خدا امریکہ کو تسلیم کر لیا۔ جس ضمن میں بہت سے نام گنوائے جاسکتے ہیں۔ اگر آپ کہیں کہ یہ بات درست نہیں تو پھر یہ کہنا پڑتا ہے کہ آپ بجائے خود اس پروپگنڈہ مشین کا حصہ ہیں۔ کیونکہ آپ ایک سے زائد مرتبہ اسلامی نسبت یا شناختوں کو بطور ِ خاص نشانہ بنانے کی دیدہ و دانستہ کوشش کر چکی ہیں۔
ReplyDeleteسازش ہو یا نہ ہو ۔ سوچی سمجھی ہو یا کسی اچانک پروگرام کے تحت پاکستان کو ایک سو اسی درجے پہ گھمانے کے لئیے طاغونی طاقتوں کے پاس پاکستان جیسے ممالک کو اپنی اوقات اور حدود میں رکھنے کے لئیے۔ایک سو ایک فوری طریقے کے تحت پاکستان پہ خصوصی مندوب مقرر کر دئیے جائیں، لیکن ایک بات واضح ہے کہ آپ کا ہر معاملے میں مسلمانوں کو رگیدنا لائقِ تحسین نہیں کہ جس پہ آپ کو کوئی داد دی جاسکے۔خاصکر ایسے حالات میں جب مسلمانوں کو ہر ممکن طریقے سے ستایا جارہا ہو۔
آپ پاکستان میں جاری دہشت گردی کی مذمت کریں ہمارے سمیت بہت سے لوگ آپ کی حمایت کریں گے۔ مگر اسکے ساتھ ساتھ پاکستان میں جاری موجودہ دہشت گردی کی ننگ ملت بلکہ غدارِ وطن مشرف اور ازاں بعد موجودہ حکومت کی خصوصی طور پہ کی گئیں نااہلیوں کے بارے پہ روشنی ڈالتے ہوئے آپکی حق گوئی و بیباکی جس کا آپ نے فخریئہ اظہار کیا ہے ۔ اسے چپ نہیں لگنی چاہئیے ۔ اگر آپ متواتر ایک ہی بات کو زیر بحث کرتے ہوئے اس یکطرفہ طور پہ نام نہاد دہشت گردی کی آڑ میں صرف مسلمانوں کو رگیدتی رہیں ۔ تو ہم سمجھیں گے کہ آپ کی حق گوئی اور بے باکی صرف آپکے مخصوص مقاصد کے تحت ہے آپ کا بات بے بات یہ ثابت کرنا کہ اسلامی عادات و اطوار والے لوگ صحیح نہیں ہوتے۔ یہ ایک غلط فعل ہے۔
ویسے آپس کی بات ہے ۔ ایسا کرنے میں آپ کے کوئی ظاہری یا پوشیدہ کوئی خاص مقاصد ہیں تو آپ اعلانیہ بیان فرمائیں کہ کچھ ہم بھی تیاری شیاری کر کے جواب آں غزل جاری کرسکا کریں۔
جاوید صاحب، جب لوگ کہتے ہیں کہ دراصل اسلامی یونیورسٹی میں دہشت گردی کا کام طالبان نہیں کر سکتے تو اس وقت آپ ان سے کیوں نہیں پوچھتے کہ آپکے کوئ ظاہری اور پوشیدہ مقاصد ہیں تو انہیں بیان کریں۔ جب لوگ تواتر سے انہی طالبان کی حمایت میں لکھ لکھ کر ڈھیر لگا دیتے ہیں تب بھی آپ ان سے دریافت نہیں کرتے۔ جب وہ تواتر سے اپنے یہ عظیم خیالات بیان کرتے ہیں تب بھی وہ خود اپنی ساری داستان کو واہی تباہی قرار نہیں دیتے۔ صرف وہ نہیں بلکہ باقی لوگ جو ان جیسا نظریہ رکھتے ہیں وہ اپنی ان باتوں کو نہ صرف واہی تباہی قرار نہیں دیتے بلکہ آپ بھی ان سے کوئ ظاہری اور پوشیدہ مقصد جاننے کی کوشش نہیں کرتے۔ ان سب لوگوں کی کوئ ایسی چھیڑیں بھی نہیں رکھی جاتیں اور انکے تمام تبصروں کو جو وہ دوسروں کے متعلق کرتے ہیں انہیں ذاتی تنقید نہیں کہا جاتا۔ کیا میں پوچھ سکتی ہوں باقی ہر شخص کا یہ طرز عمل کیوں ہے۔
ReplyDeleteہم نام بھی لیتے ہیں تو ہو جاتے ہیں بدنام۔ وہ قتل بھی کرتے ہیں تو چرچا نہیں ہوتا۔ ویری گڈ۔
اچھا تو آپکی خواہش یہ ہے کہ جب لوگ اپنے تئیں اسلام کی غلط ترین شکل کو صحیح ترین کہہ کر پیش کر رہے ہوں تو ایمانیت کا تقاضہ یہ ہے کہ اس پہ کچھ نہ بولا جائے۔ جب لوگ حقائق کا سامنا کرنے کے بجائے ریت میں منہ ڈالکر بیٹھے ہوں تو اس شخص کو برا بھلا کہنا شروع کر دیں جو ریت میں منہ ڈالنے کو تیار نہ ہو۔ اور جب اکثریت کسی غلط ترین چیز کہ حق میں نعرے لگا رہی ہو تو اقلیت کو یا تو خاموش ہوجانا چاہئیے یا وہی کہنا چاہئیے جو اکثریت کہہ رہی ہے۔ اسلام یہ بات کہے یا نہ کہے لیکن بہر حال اسکی چاہت کا دعوی رکھنے والے تو یہی کہہ رہے ہیں اور وہ زیادہ اہم ہیں۔
مجھے بھی اپنی زندگی میں ان سب چیزوں کی وجہ سے بڑا نقصان پہنچا ہے جس میں مسلمانوں کو تنگ کرنے کے حربے آزمائے جاتے ہیں لیکن اتنے ہی تواتر سے مجھے ان مسلمانوں سے بھی نقصان پہنچا ہے جو مذہبی لحاظ سے میرے بھائ ہیں اورجنہوں نے مجھ پہ زندگی کے دروازے بند کرنے کی کوشش سے بھی گریز نہیں کیا۔ انہی مسلمان بھائیوں نے دوسروں کو زندگی جیسی نعمت بخوشی محروم کیا ور اس پہ انہیں فخر ہے کہ یہ انہوں نے مذہب کے نام پہ کیا۔ کون کر رہا ہے مسلمانوں کا نام بدنام ، کون پہنچا رہا ہے مذہب کو نقصان اس بات پہ آپ سب کو ضرور غور کرنا چاہئیے۔ اسکے باوجود کچھ لوگ اتنا زیادہ انکی محبت میں گرفتار ہیں کہ یہ تسلیم نہیں کرتے کہ وہ یہ وحشی پن کر رہے ہیں۔ نہ صرف یہ بلکہ دن بدن مسلمانوں کی اتنی اقسام سامنے آرہی ہیں کہ میں ذاتی طور پہ حیران ہوتی ہوں کہ اسلام کے یہ علمبردار اسکا کیا حشر کر رہے ہیں۔
میں اس طرز عمل کے خلاف اپنے طور پہ ضرور جنگ کرنا چاہونگی۔ وہ لوگ جو مختلف نظریات رکھتے ہیں اور انہیں ظاہر بھی کرتے ہیں انہیں اصولی طور پہ انکے متعلق سننے کے لئیے بھی تیار رہنا چاہئیے۔ کم از کم میں اس چیز کے لئیے تیار ہوں۔ جس موضوع پہ میں کچھ سننا نہیں چاہتی اسپہ مجھے لکھنا بھی نہیں چاہئیے۔
جس طرح باقی لوگوں کو آزادی ہے کہ وہ میرے بلاگ پہ جو چاہیں تبصرہ کریں اور میری تحریروں کے متعلق اپنے بلاگ پہ جو دل چاہیں لکھیں بالکل یہی آزادی مجھَے نہیں حاصل ہونی چاہئیے۔ اگر کوئ چاہتا ہے کہ اسکی تحریر کو تنقید کا نشانہ نہ بنایا جائے تو اسے اپنی تحریر پہ لکھ دینا چاہئیے، نیز اگر کسی کو تبصرے پسند نہیں آتے تو وہ اس کا بھی اعلان کردے ۔ یہ زیادہ مثبت اور پختہ انداز ہوگا۔
باقی میرے ظاہری مقاصد تو وہ آپکو نظر آنے چاہئیں اور پوشیدہ بتانے کی تو میں پابند نہیں۔ آپ ویسے بھی تیاری کر کے جواب دے لیا کریں۔ اس میں کچھ مضائقہ نہیں۔
اور ہاں آپ اس بات پہ دراصل روشنی ضرور ڈالیں اور باقی سب بھی ادھر ادھر کی باتوں کو ڈالنے کے بجائے اس تحریر کے آخری حصے پہ تبصرہ کریں تو زیادہ بہتر بات نہ ہوگی۔ موضوع بحث، میرے سیاسی نظریات یا میں نہیں ہوں۔ میں نے اس تحریر میں موضوع بحث قائد اعظم کا طرز حیات اور قوم کا ان سے جو محبت کا رشتہ ہے اسے رکھا ہے۔
ReplyDeleteمیں تو جی بہت مشکور ہوں آپ کا
ReplyDeleteبہت دن سے بھیجا فرائی نہیں ہوا تھا
:D
میرے خیال سے ایسی چھیڑ چھاڑ سے اجتناب کرنا چاہیے، لیکن اگلے کی اپنی مرضی جی۔۔۔
ReplyDeleteاقبال بڑا اپدیشک ہے من باتوں سے موہ لیتا ہے گفتار کا یہ غازی تو بنا کردار کا غازی بن نہ سکا!
ReplyDeleteانیقہ علامہ کے اس شعر میں آپکو بہت سے چہرے نظر آئیں گے،پہچان پر ہے ناز تو پہچان جائیے:)
جی جی ایسی چیڑ چھاڑ اور اکھاڑ پچھاڑ بس چند خاص لوگوں کا حق ہے باقی ہم جیسوں کو صرف اسے برداشت کرنا سیکھنا چاہیئے خاموشی کے ساتھ کیا خیال ہے :)
ReplyDeleteویسے میری ذاتی رائے آپکے (انیقہ) کے بارے میں یہ ہے کہ کہاں تھیں اتنے عرصے سے آپ! لیکن جب بھی آئیں کیا خوب آئیں
ی!
ReplyDeleteمیں آپ میں ایک اچھے محقق کو دیکھ رہا ہوں۔ ضرورت صرف اس مر کی ہے کہ آپ اپنی توانائی کو خوب استعمال کریں اور مثبت کریں۔
آپ اپنے طورپہ جستجو کریں۔ آپ پہ سب در وا ہوتے جائیں گیں۔ ایک وقت آئے گا کہ آپ وہی بات کہہ رہی ہونگی جو ہم باوجود کوشش کے شاید آپ سے درست انداز میں نہ کہہ سکے ہوں۔ آپ پاکستان اور مسلمانوں کو دیوار کے ساتھ لگانے والی طاقتوں کے خلاف اور مسلمانوں کے حق میں اچھی نقاد ثابت ہونگی۔
مسئلہ اصل میں "سیکولر فلسفہ" اور "سیکولر پالیسی" کے درمیان فرق نہ کرنا ہے۔ سیکولر ازم کی جو تعریف آپ بیان کرتی ہیں وہ تو سیدھا سادا بے ضرر طریق حکومت سامنے لاتا ہے۔ وہ اصل میں کن بنیادوں پر کھڑا ہے، تاریخ میں اس کی جڑیں کوئی نہیں تلاش کرتا۔ بہرحال آپ قائد اعظم کو سیکولر کہیں، بالکل کہیں کیونکہ آپ نے جو سیکولر ازم کی تعریف بیان کی ہے، اس کے مطابق قائد کو سیکولر ہونا چاہیے لیکن میں قائد کے ان بیانات کا کیا کروں جو وہ کئی مواقع پر اسلام کے حوالے سے دے چکے ہیں۔ آپ تو درج ذیل ربط پر حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے لائے ہوئے نظام کو بھی سیکولر قرار دے چکی ہیں تو قائد اعظم کیا حیثیت رکھتے ہیں؟
ReplyDeletehttp://www.abushamil.com/islamic-secular-civilizations/#comment-1499
کتے پالنا، داڑھی نہ رکھنا، انگریزی لباس پہننا، غیر مسلم سے شادی کرنا اور اس جیسے دیگر اعمال سے یہ ثابت کرنا کہ قائد سیکولر تھے، بچکانہ دلائل لگتے ہیں۔ قائد کو اگر ایک سیکولر ریاست ہی بنانا تھی تو شاید بھارت اس کے لیے بہتر جگہ تھی، نہ کہ اتنا جھگڑا مول لے کر ایک الگ ملک بنانا۔ میری کوشش ہوگی کہ قائد کے "ایک اقتباس" کے مقابلے میں چند تقاریر سے اقتباسات پیش کروں تاکہ ان کا نظریہ کھل کر واضح ہو کر سامنے آئے۔
ابو شامل آپ بھی موضوع سے ہٹ رہے ہیں۔ میرا مقصد اس وقت پاکستان کے تخلیقی اسباب پہ بات کرنا نہیں ہے۔ آپ گور کریں کہ میں یہ بات کہنا چاہتی ہوں کہ آخر قائد اعظم کے سلسلے مین خدائ قانون کیوں الگ ہو گیا اور کیوں انکے سلسلے میں یہ باتیں بچکانہ کہی جارہی ہیں جبکہ یہی باتیں کوئ اور کرتا ہے تو اسے کافر کے برابر لا کر کھڑا کر دیا جاتا ہے اور اس پہ اسباب زندگی بند کر دئیے جاتے ہیں۔
ReplyDeleteاور اگر آپ ان سب باتوں کو کسی شخص کے سیکولر ہونے سے متعلق نہیں سمجھتے تو پھر کیا جھگڑا ہے باقی لوگوں کو بھی جو دل چاہے کرنے دیں۔ انہیں بے عمل مسلمان کی چھاپ نہ دیں۔
پھر اگر ان سب چیزوں پہ کسی کو اعتراض نہیں تو اتنے شدو مد سے اسلامی نفاذ شریعت کی باتیں بھی نہیں ہونی چاہئیں۔ آخر یہ سب بکھیڑا کس لئیے ہے۔ اور اگر یہ کہا جائے کہ وہ اپنی زندگی میں تو جس طرح دل چاہے رہتے تھے لیکن عوام کے لئے انہیں دوسرا طرز زندگی پسند تھا۔ معاف کیجئیے گا یہ تو منافقت کہلاتی ہے کیا آپ ان جیسے اکھڑ اور اصول اور ضابطے کے پابند شخص سے اس بات کی توقع رکھتے ہیں
یہاں میں اجمل صاحب کی ایک بات کی تصحیح کرنا چاہونگی کہ قائد اعظم کی شادی تقریباً چار سال رہی اور اسکے بعد علیحدگی کی وجہ انکی بے انتہا پیشہ ورانہ اور سیاسی مصروفیات تھیں۔ یقینی طور پر انکی بیٹی کی عمر اس وقت دو تین سال سے زیادہ نہ ہوگی۔ اسلئیے انکی شادی کا مسئلہ تو نہیں کھڑا ہو سکتا۔ خود قائد اعظم کو اس شادی کے ختم ہونے کا بڑا قلق تھا۔ انکے ڈرائیور شاید انکا نام تھا بشیر مرزا انہوں نے اپن یہ یاد داشتیں لکھی ہیں وہاں پر بھی آپ کو اسکے حوالے ملیں گے اور دوسرے بہت سے حوالے ہیں آپ کوشش کریں تو مل جائیں گے۔ یہ باتیں ان لوگوں کے لئیے ہیں جو ان چیزوں کو پہلے نہیں پڑھ چکے اور سوچتے ہونگے کہ میں نے یونہی لکھ دیا ہے۔ ان باتوں سے اگر کسی کو اختلاف ہو تو وہ اسکی تصحیح کر سکتا ہے۔
جاوید صاحب، میرا نظریہ کسی بھیی فلسفے کےشدت پسندوں کے ساتھ نہیں جا سکتا۔ہم جیو اور جینے دو کی پالیسی پہ یقین رکھتے ہیں۔
جعفر۔ ہوں اسکا مجھے احساس ہے کہ میرے چولہے پہ آپکا بھیجا فرائ ہو جاتا ہے لیکن جس طرح ہر چولہے سے آپکی فریکوئینسی نہیں مل پاتی ویسے ہی ہر پوسٹ آپکے لئیے نہیں ہوتی ناں۔
نظریہ کسی بھیی فلسفے کےشدت پسندوں کے ساتھ نہیں جا سکتا۔
ReplyDeleteسبحان اللہ۔
بی بی! واللہ بعض اوقات آپ کی ہر اگلی بات پچھلی سے نرالی ہوتی ہے۔ آپ کو کس نے کہا ہے کہ آپ شدت پسندوں کے ساتھ جائیں۔ ؟ ہم نے صرف اتنی عرض کی تھی ، کہ آپ اپنی "فخریہ"حق گوئی و بے باکی کو صاف برتنے کے لئیے بھی استعمال کیا کریں۔ اور جب آپ منصف مزاجی سے کام لیں گی۔ تو انشاؑاللہ آپ پہ بہت سے در خود بہ خود ہی وا ہوتے چلے جائیں گے۔ اور آپ انصاف کے ہاتھوں مجبور ہو کر۔ اصل حقائق (جو مسلمانوں کی حمائیت میں ہونگے) وہ لکھنے پہ مجبور ہوجائیں گی۔
ہمیں دیکھنا صرف یہ ہے کہ آپ اپنی بیباکی و حق گویائی کو انصاف کی سانچ پہ تولتی ہیں؟۔
نیز آپ کا یہ فرمان کہ "ہم جیو اور جینے دو کی پالیسی پہ یقین رکھتے ہیں۔" تو اسے مدِ نظر رکھتے ہوئے کیا یہ حق "جینے دو" صرف کسی ایک طرف کو ہی ناگزیر طور پہ ملنا چاہئیے یا اس میں پاکستان کی کروڑوں کی تعداد میں اسلام پہ نہ صرف یقین رکھنے والے بلکہ اسلام سے شدید محبت کرنے والوں کو بھی انکی مرضی کی زندگی گزارنے کا حق "جیو " شامل ہے؟ جو پاکستان میں تمام تنازعات کا نقطہِ آغاذ ہے۔
"پاکستان کی کروڑوں کی تعداد میں اسلام پہ نہ صرف یقین رکھنے والے بلکہ اسلام سے شدید محبت کرنے والوں کو بھی انکی مرضی کی زندگی گزارنے کا حق "جیو " شامل ہے؟"
ReplyDeleteجاوید صاحب۔۔ پاکستان کے کروڑوں مسلمان دراصل یہی چاہتے ہیں کہ انہیں ان کی مرضی کے حساب سے زندگی گزارنے دو۔۔ انہیں داڑھی کے سائز، شلوار کے پائنچوں، قمیض کے کالر کی بابت سختی کرنے والوں اور دوسری طرف برقعے کھینچنے والوں، داڑھی رکھنے پر شکایت کرنے والوں سے شدید چڑ ہے۔ ی ایک بات پر شاید سب اتفاق کریں کہ قائد اعظم کے ذہن میں پاکستان کے لیے اسلامی جہموریہ پاکستان کا ماڈل تھا اور اگر آج وہ زندہ ہوتے تو امارات اسلامی افغانستان کا نظام پاکستان میں نافذ کرنے کے حق میں نہ ہوتے۔
aaj jab pakistna itnay buray haal main hy, or countless masayel main ghira hy aap ko garay murday nahi ukharnay yaad a gaye hyn k aya quaid e aza ba amal muslim thay ya nahi main kahoon ga k un k maamla ab ALLAH k paas hy.
ReplyDeleteaap ki yeh post bohat be tukki hy, is post ka koi maksad nahi siwaye naya jhagra uthanay k.
baraye mehrabani aap doosray masayel k baray main likhiye
اسلام علیکم
ReplyDeleteپاکستان بنانا یا تحریکِ آزادی کی جدوجہد سب کو صرف اور صرف قاءید اعظم کے ساتھ منسوب کر دینا سراسر زیادتی ہے ،،، قاید اعظم کے پیدا ہونے سے پہلے ہی تحاریک چل رہی تھیں اور وہ تحاریک چلانے والے سیکیولر مسلمان نہیں بلکہ اپنے وقت کے بڑے بڑے جید علما اسلام تھے جنہوں نے ان تحاریک کو چلایا ،،، اگر آپ جہادِ شاملی یا 1857 کی جنگ آزادی کے بارے میں پڑھیں تو آپکو قیادت کرنے والے زیادہ تر علماء ہی نظر آءیں گے مثال کے طور پر مولانا رحمت اللہ کیرانویؒ جنکی مشہور کتاب اظہار الحق ہے جسکو پڑھ کر احمد دیدات نے عیساءیوں سے مناظرے شروع کیے تھے اور مفتی تقی عثمانی صاحب نے اس پر شرح بھی لکھی ہے باءیبل سے قرآن تک کے نام سے ،،، بہرحال انہوں نے بھی باقاءیدہ جہاد میں حصہ لیا تھا ،، یہ صرف ایک نام ہے اگر آپ تھوڑی سی تحقیق کریں تو آپکو علما کے ناموں کی لسٹ ملے گی ،،، اسکے علاوہ مولانا محمود الحسنؒ نے تحریک شروع کی تحریک ریشمی رمال کے نام سے یہ بھی تحریکِ آزادی کی ہی تحریک تھی ،،، اور اسکو شروع کرنے والا بھی کوی سیکیولر مسلمان نہیں تھا ،،، اسکے علاوہ مسلم لیگ بھی قاید اعظم نے نہیں بنای تھی بلکہ پہلے سے بنی ہوی تھی ،،،، اسکا مطلب ہے وہ لوگ بھی تحریک شروع کر رکھے ہوے تھے ،،۔۔۔۔ اسکے علاوہ قاید اعظم کا ساتھ دینے والوں مے بھی بڑے بڑے علما شامل تھے ،،، مثال کے طور پر مولانا شبیر احمد عثمانیؒ جنہوں نے پاکستان پر سب سے پہلے جھنڈرا لہرایا ،،، اور مولانا ظفر علی خاں (شاید یہ ہی تھے ) جنہوں نے بنگلہ دیش پر سب سے پہلے پاکستان کا جھنڈا لہرایا ،،، اسکے علاوہ مفتی شفیع عثمانیؒ بھی شامل تھے ۔۔۔۔ اسکے علاوہ مولانا اشرف علی تھانویؒ اکثر خط لکھ کر قاید اعظم کو گاءیڈ لاینز دیتے رہتے تھے ،،، اسکی تفصیل آپ مولانا اشرف علی تھانویؒ اور تحریک آزادی کتاب میں بھی دیکھ سکتے ہیں ،،، یہ کتاب میں نے سکین کر لی ہے انشااللہ جلد انٹرنیٹ پر بھی لگ جاے گی ،،، ، دوسری بات یہ ہے کہ قاید اعظم کے بارے میں کوی فتویٰ صادر کرنے سے پہلے انکی زندگی کا مطالعہ ضروری ہے ،،،، قاید اعظم ایک اسماعیلی خوجہ گھرانے میں پیدا ہوے ،،،، اسکے بعد وہ تعلیم حاصل کرنے کے لیے ایورپ چلے گےء جہاں تک میرا زاتی خیال ہے کہ انکے پاس دین کا اتنا علم نہیں تھا ،۔،،،،، لیکن جب وہ مسلم لیگ میں آے اور وہاں پر انکے علماء کے ساتھ تعلقات ہوے تو وہ دین کے بارے میں جاننے لگے ،،، قاید اعظم کی ظاہری شکل و صورت کو چھوڑکر قاید اعظم نمازی تھے ،،،، مفتی شفیع عثمانی اور مولانا شبیر احمد عثمانیؒ ایک دفعہ قاید اعظم کو ملنے گےء تو قاید اعظم نماز پڑھ رہے تھے ،،، میرا خیال ہے کہ یہ ریڈیو پاکستان کو انٹرویو میں بھی مفتی صاحبؒ نے بتایا تھا اور یہ بات میں نے مولانا اشرف علی تھانویؒ اور تحریک آزادی نامی کتاب میں بھی پڑھی ہے ،،،، اللہ تعالیٰ نے انسے ایک کام لینا تھا وہ لے لیا ،،، بے شک داڑھی رکھنا واجب ہے اور اسکا تارک فاسق ہوتا ہے با اجماع علما لیکن کسی داڑھی منڈے کو مکمل طور پر بے عمل کہہ دینا بھی غلط ہے کیونکہ وہ صرف ایک عمل کو نہیں کر رہا باقی تو کر رہا ہے ،،، تیسری بات یہ ہے کہ قاید اعظم آخر میں سنی ہو گےء تھے اور یہ بات انہوں نے خود مولانا شبیر احمد عثمانیؒ کو بتای تھی ،،، اور مولانا حکیم اختر جو تحریک کا حصہ تھے انہوں نے خود یہ بات مولانا شبیر احمد عثمانی سے سنی میں انکی ریکارڈنگ کا لنک آخر میں دے دوں گا جس بیان میں انہوں نے یہ بات بتای ،،، اور قاید اعظم کا جنازہ بھی مولانا شبیر احمد عثمانی نے پڑھایا تھا ،،،
یہ رہا مولانا تھانویؒ کا خط
http://img11.imageshack.us/img11/756/latter.jpg
یہ ہے مولانا حکیم اختر صاحب کا بیان
http://ahlehaq.com/wordpress/?p=198
اسکے شروع میں تو انہوں نے کوی 16 منٹ اصلاح نفس کی اہمیت پر بات کی ہے اسکے بعد انہوں نے پاکستان کے بارے میں بہت تفصیلی گفتگو کی ہے اور تحریک پاکستان کا آنکھوں دیکھا حال بیان کیا ہے ۔۔۔۔۔ ویسے مجھے لگتا نہیں کے زیادہ لوگ اس میں انٹرسٹڈ ہوں گے لیکن اگر کسی منچلے کا دل کرے تو اس بیان کو کمپوز کر دیں ،،،، رومن یا انپیج میں ۔۔۔
یہ مفتی شفیع عثمانی صاحب کے انٹرویو کا لنک ہے ایک ساتھی کے پاس کیسیٹ میں تھا۔۔۔ اس میں بھی انہوں نے تحریکِ پاکستان کے بارے میں کافی کچھ بتایا ہے ،،،
ReplyDeletehttp://www.4shared.com/file/79488507/385db8cf/Imam_Mufti_Muhammad_Shafi_-_Pakistan_Radio_Interview.html
محترمہ آپ نے بڑی محنت سے قائداعظم کی یہ تصویر نکا ل کر یہ ثابت کرنے کی کوشش کی ہے کہ قائداعظم سکیولر تھے اور خوشی سے پھولے نہیں سمارہیں ہیں۔ بہرحال پاکستان صرف قائداعظم نے اکیلے نہیں بنا لیا تھا برصغیر کے مسلمانوں نے پاکستان کا مطلب کیا لاالہ اللہ کے نعرے کے تحت قربانیاں دیں جس کی وجہ سے یہ ملک بنا اور آپ قائداعظم کی ان تقاریر کا کیا کرینگی جس میں آپ اسلامی نظام زندگی کے نقاذ کے نقیب نظرآتے ہیں۔ آپ نے بڑی اچھی کوشش کی ہے اسلام پسندوں کو مطعون کرنے کی۔۔۔۔ کوشش جاری رکھیں۔۔۔
ReplyDeleteانکل ٹام
ReplyDeleteوعلیکم اسلام،
آپ نے کافی اچھی معلومات فراہم کی اسکا بے حد شکریہ۔ لیکن میں آپکی دی ہوئ معلومات میں کچھ تصحیح اور اضافہ چاہونگی۔ جنگ آزادء صرف مسلمانوں نے اکیلے نہیں لڑی تھی۔ اسکا آغاز مسلمانوں اور ہندءووں دونوں نے ملکر کیا تھا۔ دونوں ہی انگریزوں کی غلامی سے نجات چاہتے تھے۔ جنگ آزادی بغیر کسی خاص فائدے کے ختم ہو گئ۔ ہندءووں نے اندازہ کر لیا کہ اس طرح انگریزوں کو شکست نہیں دی جا سکتی اور انہوں نے اپنی قوم کو اس علم کے حصول پہ لگا دیا جو انگریز اپنے ساتھ لیکر آئے تھے۔ مسلمان اپنے گھمنڈ اور انگریزوں سے اپنی نفرت میں اس چیز کو نہین جان سکے کہ آنیوالا زمانہ کیسی تبدیلیاں لیکر آرہا ہے انہیں اس چیز کو تسلیم کرنے میں بہت وقت لگا کہ سلطنت ہاتھ سے نکل چکی ہے اور اب ایسے واپس نہیں آئیگی۔ اس باب مین آپ سرسید احمد خان کو بھول رہے ہیں جب انہوں نے اپنے ویژن سے اندازہ کیا کہ دراصل مسلمان قوم کی اس وقت اہم ضرورت کیا ہے۔ انہیں انگریزی تعلیم پھیلانے کے الزام میں کافر تک قرار دیا گیا علماء کی طرف سے حتی کہ جب وہ چندے کی مہم پہ نکلے تو انہیں جوتوں کے ہار پہنائے گئے۔ انہوں نے خنداں پیشانی سے یہ کہا کہ کوئ بات نہیں انہیں بیچ کر پیسے حاصل کر لئیے جائیں گے۔ انکا چندہ ایسے ہی صحیح۔ خیر اس باب میں انکے خاصے قصے مشہور ہیں۔
انیس سو تیس کی دہائ تک مسلمان اور ہندو سیاستداں اس بات پہ یقین رکھتے تھے کہ انگریزوں سے آزادی کے بعد متحدہ ہندوستان وجود میں آئیگا ۔ یہ تو تحریک خلافت سے گاندھی کی خاموش علیحدگی نے مسلمان لیڈروں کے کان کھڑے کئیے اور پھر اسکے بعد ہونے والے الیکشن کے نتیجے میں کانگریسی حکومت کا مسلمانوں کے ساتھ امتیازی سلوک تھا کہ انیس سو چالیس میں تقسیم ہن کی قرارداد پیش کی گئ۔معاف کیجَئیے گا خود علماء کی ایک بڑی تعداد یہ سنکر دنگ رہ گئ تھی۔ اس سے پہلے بھی جن لوگوں کی طرف سے اشارتا1ً تقسیم کی بات کی گئ ان میں سے کوئ بھی علماء کی طرف سے نہیں تھا جن تحریکوں کے آپ نے حوالے دئیے ہیں یہ سب ہندوستان کو انگریزوں کی غلامی سے نجات دلانے کی تحریکیں تھیں۔ ان میں سے کوئ بھی تقسیم ہندوستان اور پاکستان بنانے کی تحریک نہ تھی۔
آپ نے انکے ایک دو دفعہ کے ایسے واقعے بتا دئیے اور کہا کہ وہ تو با عمل مسلمان تھے دوسرے بھی انکے دوسری طرح کے واقعات بتا کر یہ کہہ دیتے ہیں کہ وہ تو ایسے تھے۔ اپنے ایمان کی خبر صاحب ایمان جانے۔ آپ نے جو بہت اچھی بات کی ہے اور جو میں کہنا چاہتی تھی کہ جو لوگ داڑھی رکھنے کو یا اور دیگر چیزوں کو بنیاد بنا کر اپنے تئیں بے عمل اور با عمل مسلمان کا فرق کھڑا کرتے ہیں وہ خود ایک فتنے کی بنیاد رکھتے ہیں۔
مجھے یا کسی کو کیا غرض کہ وہ سنی تھے، کھوجے تھے یا شیعہ۔ انہوں نے جس چیز کی ذمہ داری لی اسے ایمانداری اور دیانتداری سے پورا کیا ۔ یہی انکی شخصیت کی خوبی تھی۔
جناب گمنام، پاکستان کے حالات یہ ہیں کہ پندرہ دنوں میں تیرہ دھماکے ہوئے جن میں خود کش حملے زیادہ ہیں۔ عالم یہ ہے کہ تمام تعلیم اداروں میں دہشت چھائ ہوئ ہے کہ اب اگلا دھماکہ ہمارے یہاں نہ ہو جائے۔ پشاور میں مینا بازار میں جو کہ عام طور پہ خواتین کے ساتھ منسلک ہوتے ہیں دھماکے سے ابتک کی اطلاعات کے مطابق سو سے زیادہ افراد ہلاک ہو گئے۔ یہ جنونی کارروائیاں کرنے والے اپنے آپ کو اسلام پسند کہتے ہیں اور انکے حامی انکی پیٹھ ٹھونک بجا کر اس چیز کا رونا روتے رہتے ہیں کہ پاکستان تو اس لئے وجود میں آیا تھا کہ جو اسلام یہ اسلام پسند چاہتے ہیں وہ اس ملک میں جاری و ساری ہو اگر وہ نہیں ہوگا تو جناب ایسا ہی ہوگا۔ آپ کیا سمجھتے ہِں کہ ان اسلام پسندوں کی اس وحشییانہ پسندیدگی کو سند دی جائے یا انہیں جھٹلایا جائے۔ کیونکہ کسی کو یہ بات ماننے میں جتنا چاہے تامل ہو پاکستانی عوام کی اکثریت کو یہ اسلام نہیں چاہئیے۔ آپ اپنی مرضی کے ورژن پہ خود اپنی زندگی گذار سکتے ہیں لیکن کسی دوسرے کو اسکا تابع کرنا یہ آپکا کام نہیں۔ جبکہ انکی مذہب اسلام کو سمجھنے کی بنیاد ہی غلط ہے تو کیا ایسے دیوانوں کو اسی طرھ دندنانے کو چھوڑ دیا جائے کہ کچھ ؛لوگ اپنے تئیں بہترین مسلمان بنتے ہوئے دوسروں کی زندگی عذاب کردیں۔
محمد وقار اعظم، اس تصویر کے لئیے مجھے شما برابر بھی محنت نہیں کرنی پڑی۔ یہ تصویر انٹرنیٹ پہ آدھی دنیا کا سفر طے کرنے کے بعد میرے پاس پہنچی۔ آپ شاید جانتے نہیں کہ دنیا گلوبل ولیج بن چکی ہے۔ اور ابھی اسلام پسندوں کے چاہنے کے باوجود طالبان اپنی حکومت قائم نہیں کر سکے کہ میں کمپیوَٹر یا نیٹ استعمال کرنے کے قابل نہ رہوں۔آپ جیسے اسلام پسندوں کو میرا ایک ہی پیغام ہے اور وہ یہ کہ اپنے آپکو اسلام سپند سمجھنے کے گھمنڈ سے باہر آجائیں۔ اسلام کو آپکی ضرورت نہیں البتہ آپکو اسلام کی ضرورت ضرور ہے اپنی اہمیت جتانے کے لئیے۔
اور وقار صاحب میری مفروضہ خوشی پہ اپنا دل جلانے کے بجائے یہ جاننے کی کوشش کریں اور بہتر اور غیرجانبدار لوگوں کی کتابیں پڑھنے کی کوشش کریں تو شاید آپ یہ بہتر جان پائیں کہ اسلام پسندی کے اصل مطلب کیا ہیں۔ میں تو اپنی کوشش جاری رکھے ہوئے ہون اللہ سے دعا ہے کہ آپکو بھی کوشش کرنے کی توفیق دے تاکہ ہم طالبان جیسے عذاب سے چھٹکارا پانے کے قابل ہو سکیں۔
ReplyDeleteانیقہ آپکی دعا پر ثمہ آمین اور سبحان اللہ
ReplyDeleteدے ان کو سمجھ اور یا دے مجھ کو زباں اور!
طالبان کی بدولت اب یہ دن بھی دیکھنا پڑا کہ اپنے آپ کو سکیو لر کہنے والے ہمیں اسلام پسندی کا مطلب بتائیں گے۔ بحرحال کون سے غیر جانبدار، علامہ پرویز ہود بھائی تا محترمہ عاصمہ جہانگیر۔ ویشے اگر آپ جانبدار اور غیر جانبدار کی بحث کو چھوڑ کر اگر صرف قرآن مجید جو کہ گھر کے کسی طاق نسیاں میں پڑا ہوگا، اٹھا کر اس کی دھول مٹی جھاڑ کر اس کو سمجھ کر بڑھنے کی کوشش کریں تو ممکن ہے کہ :
ReplyDeleteشاید کے اتر جائے تیرے دل میں مری بات
اور اگر نہیں تو قرآن کے الفاظ میں " ہم نے ان کے دلوں پر مہر لگا دی ہے۔" اور بقول اقبال: "مردناداں پر کلام نرم و نازک بے اثر"۔
یہاں ایک مسئلہ ہے۔ اقبال نے مردناداں کا ذکر کیا ہے حالانکہ خواتین بھی نادان ہوتی ہیں۔
آپ جیسے روشن خیالوں کا مسئلہ یہ ہے کہ اگر کوئی آپ کے ساتھ نہیں ہے تو وہ یقینا طالبان کے ساتھ ہے اور یہ شدت پسندی نہیں شاید۔۔۔۔
اسلام پسند وقار صاحب، مجھے نہیں معلوم تھا کہ پرویز ہود بھائ اور عاصمہ جہانگیر نے بھی اسلامی موضوعات پر لکھا ہے انکی تالیفات و مکتوبات کی براہ مہربانی ایک فہرست ضرور فراہم کیجئیے گا کہ اس سے روشن خیالوں کا بھلا ہو انکے دل کی باتیں بھی یہ لوگ لکھ رہے ہیں۔ امید ہے آپ ہم سب کی معلومات میں مزید اجافہ فرمائیں گے۔
ReplyDeleteتو بزعم خود اسلام پسند صاحب، میری مراد یہاں شبلی نعمانی اور طبری کی لکھی ہوئ تاریخ اسلام ہے۔ اتفاق سے یہ اس زمانے کے عالم ہیں جب اسلام پسند اور روشن خیالوں کی تراکیب آپ سب صاحبان کی مہربانی سے وجود میں نہیں آئے تھے۔
خواتین نے تو اب زیادہ بولنا اور لکھنا شروع کیا ہے۔ اقبالکے زمانے میں انکا وجود کوئ ایسی خاص حیثیت نہیں رکھتی تھیں وہ پیدا بھی نادان ہوتی تھیں اور مرتی بھی نادان تھیں۔ چونکہ سوچنے سمجھنے کا کام صرف مردوں کے حصے میں آیا کرتا تھا اس لئیے انہوں نے صرف مردوں کا تذکرہ کیا ہے۔ زمانہ بدل گیا۔ ہے۔ آپ کے زمانے تک پہنچتے پہنچتے اب آپ جیسے علاماءووں کو یہ ضرورت آ پڑی کہ خواتین کو بھی نادان کہیں۔ یعنی مرے کو مارے شاہ مردار۔
پہلی بات یہ کہ یہ تصویر اصل نہیں بلکہ گھڑی ہوئی لگ رہی ہے۔
ReplyDeleteدوسری بات یہ کہ اگر قائدِ اعظم کو جانور پالنے کا شوق تھا تو اس میں کیا برائی ہے؟
تیسری بات یہ کہ کسی شخص کی ذات کو دیکھنے کی بجائے اس کے اعمال کو دیکھیے۔ آپ شدید پیاس کا شکار ہوں تو پانی پلانے والے سے یہ نہیں پوچھیں گی میاں تمہارا مذہب کیا ہے اور کردار کیسا ہے۔
ویسے ناقص کی رائے میں قائدِاعظم کا کردار ہم سے بہت بہتر تھا۔
مزدی بحث مجھ سے نہیں ہوگی۔
Moashra,
ReplyDeleteجس شدت سے آپ نے اسے گھڑی ہوئ کہا ہے اس سے تو لگتا ہے کہ قائد اعظم کے جانور پالنے میں یقیناً کوئ برائ تھی۔ ویسے میں خود بھی کتا پالنے کی کوشش کر چکی ہوں لیکن محبت میں انکی چاٹنے والی عادت نہ پسند ہونے کی وجہ سے میں نے اسے رخصت کر دیا۔ مجھے ویسے جرمن شیفرڈ پسند ہے۔ تو مجھے اس پر پہ ذرا شبہ نہیں کہ یہ گھڑی ہوئ ہے۔ قائد اعظم اپنے وقت میں بھی خاصے مالدار لوگوں میں شامل تھے۔ میں اسے اپنے بچپن میں کسی انگریزی اخبار میں بھی دیکھ چکی ہوں۔
باقی یہ کہ آپ کا مطالعہ کا معیار بے حد توجہ چاہتا ہے۔ اسکا اندازہ مجھے آپکے تبصرے سے ہوا ہے۔اس تحیری اور اس سے منسلکہ تبصرے کو اگر سرسری بھی پڑھا ہوتا تو آپن یہ سب نہ لکھتے۔ اب اسے بہتر کرنے کے لئیے اسی تحریرکو ایک دفعہ پھر ازرہ مہربانی دیکھ لیجئیے گا مزید بحث کی نوبت بھی نہیں آئے گی اور آپکو اپنی غلطیوں کا اندازہ بھی ہو جائیگا۔
عثمان، آپکا شکریہ۔ یہ رویہ ہمیں مجموعی طور پہ کہیں بھی جانے کے لائق نہیں چھوڑتا۔ ہر وہ چیز جو ہمارے مزاج کےیا تصورات کے خلاف ہو وہ عام طور پہ گھڑی ہوئ ہوتی ہے اور ہر چیز کو ہم محض اس معیار پہ جانچنا چاہتا ہے کہ وہ مذہب کی جس جادوئ فارم پہ ہم یقین رکھتے ہیں اسکے جادوئ اثرات کو کتنا سپورٹ کرتا ہے۔
تصویر جس انداز میں ہے، اسے دیکھ کر لگا کہ دو تین تصاویر مِکس کی گئی ہیں۔ قائدِاعظم کی اپنی زندگی تھی، جو چاہے کریں۔
ReplyDeleteمطالعہ کا معیار اندازِ تحریر پر کافی حد تک منحصر ہوتا ہے۔
والسلام
میں مسلمان ہوں، میں مسلمان ہوں کی رٹ لگائے رکھنے کے بجائے کیا ہی اچھا ہو اگر ہم اپنے کردار،اخلاق اور اعمال سے یہ ثابت کریں کہ ہم واقعی مسلمان ہیں اور ہمیں اس پر فخر ہے جس طرح ہمارے قائد نے کیا وہ ایک عام مسلمان ضرور تھے مگر اصولوں کی بلندیوں پر تھے،
ReplyDeleteیہاں تو لوگ اس بات پر ہی بغلیں بجاتے نہیں تھکتے کہ سب سے اچھی گالیاں اور بڑھکیں صرف پنجاب والے ہی نکال سکتے ہیں،افسوس صدافسوس :sad:
راشد کامران نے بہت عمدہ باتیں کہی ہیں اور میں ان سے سو فیصدی متفق ہوں!
ReplyDeleteجناب عنیقہ صاحبہ
ReplyDeleteمجھے آپ کی کافی باتوں سے اختلاف ہے ،،، مثال کے طور پر ہندو نے ہمارا ساتھ دیا تھا جنگ آزادی میں حلانکہ کہ یہ بات سرا سر غلط ہے ہندو نے بلکل بھی ساتھ نہیں دیا تھا ،،، میں نے جن اسلامی کتب میں پڑھا ہے وہاں کسی بھی ہندو کا نام نظر نہیں آتا ،،، اور پاکستان کی معاشرتی علوم کی کتب میں بھی یہ ہی لکھا ہے کہ ہندو نے عین وقت پر دغا کیا تھا ،،، میں آپ کی اس بات سے بھی اتفاق نہیں کرتا کہ ہندو نے سمجھ لیا کہ شیر کو شیر کے بھیس میں ہی رہ کر مارا جا سکتا ہے ہندو چاپلوسی کرنے والی قوم ہے جس کے نیچے ہو گی اسی کی چاپلوسی شروع کر دے گی جبکہ مسلمان غیرت مند لوگ ہوتے ہیں وہ ایسہ نہیں کرتے ہندو نے چاپلوسی کرنا شروع کر دی تھی انگریزوں کی باقی سرسید صاحب نے کوی بڑا تیر نہیں مارا انہوں نے ایک یونیورسٹی قایم کر دی جس میں ایسے لوگ پیدا کیے جو عملاً تو شاید نہیں لیکن ذہنی طور پر انگریز کے غلام تھے اور ابھی بھی ہیں ،،،، ہم مسلمانوں نے ہمیشہ تاریخ میں کبھی کسی کو شکست دینے کے لیے انکے طریقے نہیں اپناے ہم لوگوں کے لیے اللہ کا بھیجا ہوا دین اسلام ہی کافی رہا ،،، یہ ہی وجہ ہے کہ پاکستان کی تحریک آزادی میں جتنے بڑے بڑے لیڈرز کے نام آءیں گے مشکل ہی کوی علی گڑھ کا ہو گا ،،، دیکھیں یہ بات مجھے بڑی عجیب لگتی ہے انگریز کو جن لوگوں سے دشمنی تھی ان کو انگریز نے سزاءیں دیں ،،، کالا پانی میں بھجا ،،، مولانا حسین احمد مدنیؒ جب جیل گےء تو بال کالے تھے اور جب واپس آے تو بال سفید ہو چکے تھے ،،، مولانا محمود الحسنؒ کی جب وفات ہوی تو انکو غسل دینے والوں نے بتایا کہ انکی کمر سے گوشت غایب ہے تب عوام کو پتا چلا کہ جیل میں انگریز انکی کمر پر کوڑے برساتا تھا ،، لیکن سرسید احمد خاں جو عقیدہ کے لحاظ سے بھی مسلمان کم ملحد زیادہ تھے انہوں نے جب انگریز کے خلاف کام کیا تو انکو "سر" کا خطاب دے دیا گیا ،،،، عجیب بات ہے سمجھ میں نہیں آتی ،۔،،،۔
چلیں اب آپ یہ جنونی کاروای کرنے والا طالبان کو قرار نہیں دے سکتیں کیونکہ اب انہوں نے بیان دے دیا ہے کہ یہ سب بلیک واٹر کا کام ہے ،۔،، ہمیں ایسی گھٹیا حرکت کرنے کی ضرورت نہیں ۔۔۔ ایک تو مجھے آپ لوگوں کی سمجھ نہین آتی جو ٹی وی میں خبر آجاتی ہے آپ امریکیوں کی طرح اسکو من و عن تسلیم کر لیتے ہیں ۔۔۔ ہمیں تو یہاں انگلش کی کلاس میں یہ سکھایا گیا تھا کہ ہر خبر کو تنقیدی نظر سے دیکے ،،، اور مجھے آپ لوگوں پر اس بات کی حیرت ہوتی ہے کہ آپ لوگ یونی ورسٹیز سے فارغ التحصیل ہیں اور اتنے اچھا لکھتا ہیں اور اتنی اچھی سمجھ رکھنے کی باوجود آپ لوگ کیسے ان عجیب و غیرب اور تضاد سے بھرپور خبروں کو من وعن تسلم کر لیتے ہیں ۔۔۔ طالبان کے فلاں لیڈر نے قبول کر لیا تو ہم نے مان لیا کہ ہاں بھیء ایسا کوی لیڈر ہے اسنے قبول بھی کر لیا ،،، پہلے امریکہ نے 11/9 کا ڈرامہ کیا تھا افغانستان پر حملے کے لیے اب وہ ان بمب دھماکوں کو بنیاد بنا رہا ہے اور آہستہ آہستہ پاکستان پر حملے کر رہا ہے ،،، تھوڑا تھوڑا کر کے ہمیں کھا رہا ہے اور ہم ابھی تک طالبان کو ہی گالیاں دے رہے ہیں ،۔،،
آپ کی یہ بات بھی بلکل غلط اور قرآن حدیث کے خلاف ہے کہ ہم اپنی مرضی کا اسلام گزارتے رہیں اور دوسرے کو تابع نہ کریں ،،،، کل کو لوگ زنا پر بھی دلاءل دینا شروع کر دیں گے ،،،
اللہ تعالیٰ کہتے ہہیں کہ تم اچھی امت ہو کیونکہ تم لوگوں کو برے کاموں سے روکتی ہو اور اچھای کی ترغیب دیتی ہو
حضور اکرم صلیٰ اللہ علیہ وسلم کے ایک ارشاد گرامی کا کم و بیش مفہوم ہے کہ
جب تم کسی برے کام کو ہوتا دیکھو تو تم اسکو ہاتھوں سے روکو ،، اگر تم ہاتھ سے نہیں روک سکتے تو زبان سے روکو ،، اگر تم زبان سے بھی نہیں روک سکتے تو دل میں برا جانو اور یہ ایمان کا سب سے نچلا درجہ ہے ،،،
اسی لیے جب ہم برے کام ہوتے دیکھیں تو یہ ہمارا فرض بنتا ہے کہ لوگوں کو اس سے روکیں ۔۔۔۔ پاکستان کا مطلب کیا اور ہم نے پاکستان کس لیے بنایا تھا ۔۔۔ 60 سال براداشت کرتے ہوے ہے گےء کیا اب بھی کچھ رہ گیا ہے ؟؟؟؟؟؟؟؟ اب لوگ اپنے گندے غلیظ کاموں کو الٹی سیدھی تاویلیوں سے جسٹیفیای کرنے کی کوشش کرتے ہیں ،،،، جس نے شیو کرنی ہے اور داڑھی کو واجب کے درجے سے ہٹا کر سنت بنا دیتا ہے ،،، جس نے گانے سسنننے ہیں وہ احادیث کا مطلب اپنی مرضی سے کرنے لگتا ہے ،۔،، جس کو ننگا پھرنا ہے اور کہتا ہے کہ قرآن میں پردے کا حکم تو صرف نبی کی بیویوں کے لیے ہی ہے ،،، میرے خیال سے اگر ہر ایک شخص کو اپنی مرضی کا اسلام بنانے کی اجازت دے دی جاے تو پھر اسلام رہ ہی کہاں جاے گا ؟؟؟؟؟ ہر شخص اپنے برے کام کو اسلام کے نام پر کرے گا ،،،
علامہ سرفراز خاص صفدر صاحب فرماتے ہیں کہ حق کو مٹانے کے دو طریقے ہیں
ReplyDeleteایک تو یہ ہے کہ حق کو بیان ہی نہ کیا جاے اور جب بیان نہیں کیا جاے گا تو آنے والی نسلوں کو کیا پتا چلے گا کہ حق کیا ہے اور کیا نہیں ہے ،،، دوسرا یہ ہے کہ حق اور باطل کا ملغوبہ بنا دیا جاے اس طرح خلط ملط کر دیا کے پتا ہی نہ چلے کہ حق کیا ہے اور باطل کیا ہے ،۔،،،
ذخیرۃ الجنان جلد 1 صفحہ 115
اور آجکل یہ ہی ہو رہا ہے کہ لوگ اپنی مرضی کا اسلام بنانے کے لیے قرآن کی آیتوں اور احادیث سے اپنی مرضی کا اسلام ثابت کرنے کی کوشش میں لگے ہوے ہیں جس میں حق اور باطل کا ملغوبہ ہے ،،، اور حق و باطل کے اسی ملغوبے کو فتنہ کہتے ہیں ۔،۔، اب سوال یہ ہے کہ
آپ لوگ جتنا شور مچا لیں کہ یہ کام مسلمان کرررہے ہیں طالبان کر رہے ہیں میں یہ ماننے کو تیار ہی نہیں ۔،،، میں تو ی سمجھتا ہوں کہ یہ دھماکے امریکہ کروا رہا ہے ،،، پاکستان میں تو طالبان تھے ہی نہیں ،۔،، کیا افغانستان میں انکا کام ختم ہو گیا تھا جو وہ پاکستان میں آتے ؟؟؟؟؟ اور اگر یہاں کے لوگوں کو طالبان کا نام دیا گیا ہے تو سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ انکو طالبان کا نام دیا ہی کیوں گیا ہےء ؟؟؟؟؟؟؟ کیا ہماری عقلیں اس چیز کا ادراک کرنے سے قاصر ہیں کہ یہ سب ایک خاص گروہ کو بدنام کرنے کی پری پلینڈ سازش ہے ۔۔۔۔۔
http://www.jang.com.pk/jang/nov2009-daily/02-11-2009/col12.htm
ReplyDeleteچلیں جناب انکل تام صاحب، یہ بات بتا کر تو آپ نے کافی آسانی پیدا کردی کہ آپکی معلومات کے بنیادی ذرائع اسلام کتب یا مسل عالم اور پاکستانی اسکولوں مین پڑھائ جانیوالی معاشرتی علوم کی کتابیں ہیں۔ جنہیں یقیناً کسی استاد نے آپکو اس طرح پڑھایا ہوگا کہ کلاس مین آکر املا کراکے نوٹس لکھوادئیے۔ خود انکی معلومات اتنی محدود ہونگیں کہ کلاس میں سوال کرنے کی اجازت بھی نہ ہوگی۔ اور اگر آپ نے کبھی اپنے طور پہ ادھر ادھر سے نوٹس بنا کر کچھ ان سے مختلف یا الگ لکھنے کی کوشش کی ہوگی تو انہوں نے فرمایا ہوگا کہ جو میں نے لکھوادیا ہے وہ کافی ہے اوعر وہی صحیح ہے۔ الگ سے لکھنے پہ نمبر کٹ جائیں گے۔ ایک زوال پذیر تعلیم کا نمونہ آپکے ان جملوں میں نظر آتا ہے۔
ReplyDeleteاب آئیے حقائق کی طرف تقریباً ساری دنیا میں اپنی تاریخ کو بہتر رکھنے کے لئیے اسکو مسخ کیا جاتا رہا ہے۔ پرانے وقتوں میں یہ کام درباری موءرخ کیا کرتے تھے اور آجکل یا تو تعلیمی ادرون میں حکومت کے زیر اہتمام کتابو کا سلیبس ایسا رکھا جاتا ہے جس میں اس قوم کی کمزوریوں کا تذکرہ نہ ہو یا ھکومت وقت کو اس سے نقصان پہنچنے کا اندیشہ نہ ہو۔ اس سلسلے میں بڑے بڑےممالک کا نام آتا ہے۔ پاکستان کے علاوہ، انڈیا اور اسرائیل اور چین تک میں یہ بات موجود ہے۔ حتی کہ امریکہ بھی۔ یہ فہرست خاصی لمبی ہے۔ آپکے اسکولوں کی کتابیں ضیاءلحق کے زمانے میں تبدیل کی گئیں۔ اور ااس میں ہمارے خطے کی نہ صرف تاریخ محمد بن قاسم کی آمد سے شروع ہوتی ہے بلکہ طلباء کو محمود غزنوی کا کردار بھی عظیم تر دکھایا جاتا ہے۔ وہیں یہ بتانے کی ضرورت نہیں محسوس کی جاتی کہ جنگ آزادی کا آغاز میرٹھ کی ایک چھاءونی سے ہوا تھا۔ جہان سپاہیوں کو دی جانیوای گولیوں کے مترلق تنازعہ کھڑا ہوا تھا۔ اور خبر یہ تھی کہ ان گولیوںکے کور میں سوءر کے گوشت کی چربی شامل ہے اور اسے دانتوں سے کاٹنا پڑتا تھا۔ ہندو گوشت نہیں کھاتے انکے لئے وہ حرام ہے اور مسلمان سوءر کا گوشت نہیں کھاتے۔ انگریز افسر کی زبردستی پہ چھاءونی میں ہنگامہ اٹھ کھڑآ ہوا جو برھتے بڑھتے دوسری چھاءونیوں اور بالآخر عوام تک جا پہنچا۔ یہ ایک مستند بات ہے۔ صرف اپنے پسند کے لوگوں کا مئوقف نہ سنیں بلکہ تاریخ کو جاننا ہے تو ہر ذریعہ کو چھان پھٹک کر دیکھیں۔ اتفاق کی بات ہے کہ یہ ساری معلومات مجھے سب سے پہلے میری معاشرتی علوم کی استاد نے دی اور بعد میں لاتعداد دوسرے ذرائع سے بھی ملی۔ میں کبھی ایک نکتہ ء نظر رکھنے والون پہ اکتفا نہیں کرتی۔ میری تعلیم نے مجھے یہی سکھایا۔ میں صرف مسلمانوں کو مظلوم یا ظالم نہیں سمجھتی بلکہ ہر وہ شخص جو دوسروں کی آزادی فکر میں دخل اندازی کرتا ہے اسے ظالم سمجھتی ہوں۔
انکل ٹام
ReplyDeleteآپ طالبان کی صداقت پہ ایمان لائے ہوئے ہیں اس لئے یہ کہہ رہے ہیں میں تو یہ سمجھتی ہوں کہ جو خود کش حملے کو جائز سمجھتے ہیں جو یہ سمجھتے ہیں کہ اس راہ میں اگر نوزائیدہ بچے بھی مارے جائیں تو انہیں کوئ افسوس نہ ہوگا تو ان جیسے حیوانوں کی کسی بات کا کوئ اعتبار نہیں۔
حق وہ نمہیں ہے جس پہ آپ یقین رکھتے ہیں حق وہ ہے جس سے لوگ گذر رہے ہیں۔ آپکی یہ تحریر جس قدر شدت پسندی، جانبداریت اور اپنے نکتہ ء نظر سے ہٹ کر نہ سننے والے روئیے کو ظاہر کرتی ہے یقیناً طالبان کئ گنا ان خوبیوں سے مزین ہونگے۔ آپ نے تو ابھی تک کسی انسان کو اڑان کر جنت میں جانے کی کوشش نہیں کی۔ لیکن ظاہر سی بات ہے کہ جب یہی رویہ اپنی شدت پہ جائیگا تو ایسا ہونے میں کچھ دیر نہیں لگے گی۔ میری تازہ ترین پوسٹ ضرور پڑھیں۔ اسکے علاوہ تاریخ کو کس طرح مسخ کیا جتا ہے اسکے لئیے اس اتوار کا ارد شیر کاواس جی کا یہ مضمون ضرور پڑھیں۔ لنک یہ ہے۔
http://epaper.dawn.com/ArticleText.aspx?article=01_11_2009_007_006
چلیں جناب انکل تام صاحب، یہ بات بتا کر تو آپ نے کافی آسانی پیدا کردی کہ آپکی معلومات کے بنیادی ذرائع اسلام کتب یا مسل عالم اور پاکستانی اسکولوں مین پڑھائ جانیوالی معاشرتی علوم کی کتابیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔تو انہوں نے فرمایا ہوگا کہ جو میں نے لکھوادیا ہے وہ کافی ہے اوعر وہی صحیح ہے۔ الگ سے لکھنے پہ نمبر کٹ جائیں گے۔ ایک زوال پذیر تعلیم کا نمونہ آپکے ان جملوں میں نظر آتا ہے۔
ReplyDeleteبی بی!
موضوع سے قطع نظر اپنے پچھلے تبصر ے میں انکل ٹام نے معاشرتی علوم اور دیگر درسی کتب کا حوالہ طنزیہ بلکہ دل لگی کے طور پہ دیا ہے کہ کہ زیادہ دور جانے کی بات نہیں کہ معاشرتی علوم کی درسی کتاب میں بھی ھندو کا عیار اور چالباز کہا اور ثابت کیا گیا ہے۔ وغیرہ وغیرہ ۔ اور بی بی! آپ یہ بات سمجھ نہیں سکیں۔ انکل ٹام مجھے صاحب مطالعہ محسوس ہوئے ہیں۔
انکی یہ بات درست ہے کہ امریکہ نے پاکستان کے اندر را وغیرہ کے تربیت یافتہ دہشت گردوں کو طالبان طرز کا نام دے کر، پاکستان کے اندر ایک تیر سے کئی شکار تو کئیے ہیں مگر اسکے ساتھ ساتھ افغانستان ، کشمیر، فلسطین اور دنیا بھر میں اپنے جائز حق آزادی کے لئیے جدو جہد کرتیں مسلمان قوموں کو، اسلام کو دہشت گردی سے جوڑتے ہوئے ، ان سبھی قوموں کو نہائت عیاری سے دہشت گرد قرار دے دیا ہے۔ آپ کے سیکولر ازم کے ڈھنڈورے کا کسی کو کوئی فائدہ نہیں۔ جب تک آپ کے ناموں سے بھی یہ پتہ چلے گا کہ آپ کی نسب اسلام سے ہے۔ تب تک طاغوتی طاقتیں آپ کے خلاف رہیں گی۔ اسلئیے مناسب یہ ہوتا آپ اپنی توانائی ہر قسم کی انا سے باہر نکل کر اور ضد چھوڑ کر اس بات پہ لاگاتیں کہ وہ وقت آنے سے پہلے ہمیں مناسب تیاری کرنی چاہئیے۔ تیاری یعنی علم و عمل ، جستجو و تحقیق ، صبرو ہمت، اتحادواتفاق، اور اسلامی اخلاق اپنا کر کرنی چاہئیے۔ آپ اپنی قوم کی اخلاقی حالت بہتر کر لیں باقی مسعلے ختم ہونا شروع ہو جائیں گے۔ قائد اعظم رحمتہ اللہ علیہ کے بارے میں یہ بحث کہ وہ سیکولر تھے ۔ یہ بحث بہت پرانی ہے۔ اور چند مخصوص لوگ اسے ایک نہائت جامع طریقے سے آگے بڑھاتے چلے آئیں ہیں۔ اس لئیے اس پہ بحث کا نتیجہ کم و بیش وہی نکل سکتا ہے جو ہلاکو کے بغداد پہ حملے کے وقت خلیفہ کے دربار میں جاری بحث کی وجہ سے سقوطِ بغداد کی صورت میں نکلا تھا۔ الا یہ کہ آپ کا کوئی خاص مقصد ہو کہ پاکستان جس وقت ایک نازک موڑ سے گزر رہا ہے اور آپ اپنی سی توانائی تقسیم در تقسیم کے عمل ہہ اپنی سی کوشش پہ ضائع کرنا چاہئیں۔تو اس صورت میں آپ اپنا مقصد ضرور بیان کردیں۔ ورنہ کچھ ایسی باتیں جنکے بار بار بیان کرنے سے فائدے کی بجائے نقصان کا احتمال زیادہ ہو۔ انہیں نہ کرنا یا کسی اور موقع یا فورم پہ کر لینا زیادہ مناسب ہوتا ہے۔
اسلام علیکم
ReplyDeleteاپنے پچھلے کمنٹ کو لکھتے وقت میں کافی جذباتی ہو گیا تھا ،،،، اسی لیے اگر میری کوی بات کسی کو بھی بری لگی ہو تو میں سخت معذرت خواہ ہوں ،،، خاص طور پر عنیقہ آنٹی (میرے خیال سے آپکی اور میری عمر کا فرق اتنا ہی ہے کہ میں آپکو آنٹی بلاوں،اور اس سے میں یہ بھی بتانا چاہتا ہوں کہ بے شک ہمارے درمیان اختلاف ہے لیکن میں پھر بھی آپکی عزت کرتا ہوں ، ورنہ ہمارے ہاں بحث کو ہمیشہ منفی سمجھا جاتا ہے ) سے کیونکہ میں انہی سے مخاطب تھا ،، ،،، آپ نے میری معلومات پر بات کی ہے ،،اگر آپ نے میری معلومات پر جو تنقید کی ہے وہ شاید کافی حد تک ٹھیک بھی ہو میں اپنے علم کے بارے میں کبھی خوش فہمی یا غلط فہمی کا شکار نہیں رہا ،،، اور پاکستان کے تعلیمی نظام کو آُکا زوال پذیر کہنا بلکل درست ہے ،۔،، آخر شروع سے آخر تک پاکستان کو سو کالڈ سکیولر لوگوں نے چلایا ہے ان سے اچھے انتظامات کی امید کیسے کی جا سکتی ہے ؟؟؟ انکو ملا ختم کرنے اور اپنی جیبیں بھرنے سے فرصت ہو گی تو وہ شاید اس طرف بھی توجہ دے لیں ،،، باقی آپ نے شاید میرے کمنٹس کو غور سے نہیں پڑھا ،،، میں نے کہیں بھی نہیں کہا کہ میں طالبان کی صداقت پر ایمان لایا ہوں میں تو بلکہ یہ کہتا ہوں کہ آپ لوگ بی بی سی اور سی این این ، جیو وغیرہ سن کر آمنا و صدقنا کی صداءیں لگاتے نظر آتے ہیں ۔۔۔ اور کبھی کسی خبر پر تنقدی نظریں نہیں ڈالتے ،،، میں تو طالبان کے بھی کافی کاموں کو تنقیدی نظرون سے دیکھتا ہوں اور کی جگہوں پر ان پر تنقید بھی کرتا ہوں ،،، میں نے یہ کہا ہے کہ جن دہشت زدہ چیزوں کو طالبان کی طرف منسوب کیا جاتا ہے میں انکو طالبان کی "حرکیتں" نہیں مانتا ،،، اگر میں اسکو طالبان کا کام مانتا اور یہ کہتا کہ جو وہ کر رہے ہیں ٹھیک کر رہے ہیں پھر آپ کے یہ جملے ٹھیک ہوتے ۔۔۔ میں خود چھری سے لوگوں کے گلے کاٹنے کو ایک جاہلانہ اور کافرانہ کام سمجھتا ہوں ،،، میں مردوں کا کھلے عام عورتوں کو کوڑے مارنا بھی جاہلانہ اور کافرانہ کام سمجھتا ہوں ۔،۔ میں مسلمان ملک میں پبلک پلیسز پر خود کش حملہ بھی جاہلانہ اور ناجایز سمجھتا ہوں ۔،،، لیکن میں یہ بھی مانتا ہوں کہ ان میں سے کوی بھی کام طالبان نے نہیں کیا بلکہ انکی طرف منسوب ہے اور اصل کرنے والا اسکا امریکہ ہے ۔۔۔۔آپ نے آرٹیکل کا لنک دیا ہے میں اسکو پڑھنے کی مکمل کوشش کروں گا ۔۔۔۔ لیکن عجیب بات یہ ہے کہ آپ مجھے ایک ہندو کے آرٹیکل کا لنک دے کر کہہ رہی ہیں کہ مسلمانوں نے اپنی کتابوں اور تقریروں میں جھوٹ بولا ہے یہ لو ہندو کا آرٹیکل پڑھو اس سے سچا دنیا میں کوی نہیں ۔۔۔۔۔۔ میں یہ بات کبھی ماننے کو تیار نہیں کہ مسلمان بحثیت مجموعی جھوٹے ہوں اور وہ بھی ہندو جیسے کافر کے مقابلہ میں ۔۔۔ ایسی سوچ آپکو ہی مبارک ہو ۔۔۔۔ تاریخ مسخ ہونے کا طعنہ شاید میں اس وقت مان لیتا جب میرا ہندو سے واسطہ نہ پڑا ہوتا مجھے زاتی طور پر ہندوں سے واسطہ پڑا ہے جس میں اچھے برا تجربہ بھی شامل ہے اور میرے خیال سے میں عام پاکستانی (جنہیں انڈیا کی فلمیں ڈارمے دیکھنے کے علاوہ کوی کام نہیں )سے زیادہ ہندو کی خلصت سمجھتا ہوں ۔۔۔
جاوید صاحب، میرے علم میں تو یہ تھا کہ دلوں کا حال خدا بہتر جانتا ہے۔ اب آپ بھی اس میں شامل ہوگئے ہیں کیا کہوں۔ انکل ٹام کا نیا تبصرہ پھر پڑھ لیں۔ آپکی باقی باتوں کو میں نے اپنی پوسٹ کے لئیے محفوظ کر لیا ہے۔ آجکلمصروفیت کی بناء پہ شاید فوری طور پہ نہ لکھ پاءووں۔
ReplyDeleteانکل ٹام، اب اتنی بچکانہ باتیں نہ کریں کہ میں سوچوں کہ کوئسولہ سترہ سال کا لڑکا کسی کی ہدایت پہ لکھ رہا ہے۔ ویسے میرے سب سے بڑےذاتی بھتیجے کی عمر اس وقت چار سال اورسب سے بھانجے کی عمر ڈیڑھ سال ہے۔ بھتیجیاں ان سے چھوٹی ہیں اور بھانجیاں فی الحال ابھی دنیا میں نہیں آئیں۔ اس لئیے آپ زیادہ میری عمر کے بارے میں فکر مند نہ ہوں۔ آپ یا کوئ اور مجھے صرف عنیقہ بھی کہے تو میری عزت میں کوئ فرق نہیں آئیگا۔ یہ میرا بے عزتی کا نام نہیں ہے۔
آپ کو علم ہونا چاہئیے کہ ارد شیر کاواس جی ہندو نہیں پارسی ہیں۔ انکا مذہب زرتشت کہلاتا ہے۔ جسکا بنیادی تعلق ایران سے بنتا ہے۔ کراچی میں پارسیوں کی ایک بڑی تعداد رہتی ہے۔ یہ عام طور پر امن پسند لوگ ہوتے ہیں۔ انکے یہاں مرنے کے بعد مردوں کو پرندوں کو کھلادیا جاتا ہے کہ اس طرح کائنات میں توازن قائم رہیگا اور انسان مرنے کے بعد بھی کسی کے کام آجائیگا۔ مجھے انکے بارے میں مزید علم بھی ہے۔ لیکن اپنے زیادہ تر قارئین کی ذہنی سطح کو سامنے رکھتے ہوئے مجھے یقین ہے کہ کچھ لوگ کل کلاں کہیں گے کہ میں شاید پارسی ہوں۔ اب جبکہ آپ نے اپنے مطالعے کی وسعت کو اس حد ےتک پھیلا دیا ہے تو مجھے کینا پڑیگا کہ میرے بھانجے یا بھتیجے میرا بھانجا یا بھتیجا آپ جتنا بڑا ہو کر مجھے اتنے علم پہ طعنے دینے نکلا یا اس نے مجھ سے بحث کی تو آپ جان سکتے ہیں کہ میں اسکا اور اسکے والدین کا کیا حشر کرونگی۔
اسلام علیکم
ReplyDeleteمیں نے کبھی بھی عالم فاضل ہونے کا دعویٰ نہیں کیا ۔۔ بہرحال میں بحث علمی طعنے دینے کے لیے نہیں کرتا سیکھنے کے لیے کرتا ہوں ۔۔ آپ کو شاید غصہ آگیا ہے اپنے سے چھوٹے سے بحث کرنے پر ۔،،، خیر آپ بھی پاکستانی ہیں ۔۔۔ اور یہ بڑی عجیب بیماری ہے پاکستانیوں میں کے علم کو عمر کے ساتھ ملاتے ہیں ۔۔ جو جتنا بڑا ہو اتنا ہی عالم بھی ہو یا جتنا چھوٹا ہو اتنا ہی جاہل بھی ہو ۔۔۔
میرے خیال سے میں اپنا نقطہ نظر مکمل طور پر بیان کر چکا ہوں ۔۔ جسکو ماننا ہو مانے جسکو نہیں ماننا نہ مانے
انکل ٹام سے بس اتنا ہی کہوں گا کہ یہ وہی ہندو ہیں جن کے ساتھ مسلمان ہزاروں برس تک رہتے رہے اوران ہی کی نسلیں سکھ اور مسلمان ہوئیں،اور یہ تب بھی ویسے ہی تھے جیسے آج ہیں یہ دنیا ہے اور کسی حد تک ایک جنگل کی طرح ہے یہاں وہی جیتا اور کامیاب رہتا ہے جو ہوشیاری اور سمجھ داری سے کام لیتا ہے ،بے وقوفوں کو طالبان لے جاتے ہیں یا طالبان بنانے والے کیا سمجھے!
ReplyDeleteسبق پھر پڑھ صداقت کا شجاعت کا
لیا جائے گا تجھ سے کام دنیا کی امامت کا
یہاں شجاعت سے مراد لاشوں کے ڈھیر لگانا نہیں بلکہ وہ شجاعت ہے جو صداقت کے ساتھ حالات کا سامنا کرنے اور ان سے نبرد آزما ہونے کا حوصلہ دیتی ہے!
انکل ٹام یہ بھی ہندو ہیں اور ان پر ظلم کرنے والے مسلمان!
ReplyDeletehttp://www.jang.com.pk/jang/nov2009-daily/04-11-col13.htm2009/
انیقہ جس طرح افضل صاحب کے بلاگ پر لنک آجاتے ہیں کیا کوئی ایسا طریقہ آپ کے بلاگ پر ممکن نہیں ہے؟
ReplyDelete