Saturday, October 3, 2009

پھول نگر کے کانٹے

ویسے تو ہمارے یہاں انسان کو انسان تسلیم کیا جائے یہی کچھ کم نہیں کہ اس پر انسانی حقوق کا واویلہ بھی مچا دیا جاتا ہے خود ایسے انسان نما انسان بھی حیران ہوتے ہیں کہ وہ بھی انسان ہیں اور انکے بھی حقوق ہیں۔ باقی ہر رویہ روا رکھنے والے یہ سمجھتے ہیں کہ اس حقوق کی جنگ نے شاید ہر چیز میں بگاڑ ڈالا ہوا ہے۔
دنیا کے زیادہ ترغریب اور سماجی ناانصافی کے شکار معاشروں کی طرح ہمارے یہاں بھی خواتین کے ساتھ بد ترین مظالم کئے جاتے ہیں اور اس میں ایک شرمناک حرکت جو ہر تھڑے عرصے بعد تواتر سے کی جاتی ہے انہیں برہنہ سر بازار پھرانا، ایک ایسے معاشرے میں جہاں خواتین کے با عصمت ہونے کی نشانی انکے جسم کا کپڑوں سے زیادہ سے زیادہ ڈھکا ہونا سمجھا جاتا ہے وہاں سزاکے طور پر اسی عورت کو نہ صرف تن پر موجود کسی بھی کپڑے سے محروم کر دیا جاتا ہے بلکہ انہیں لوگوں کے سامنے  سر بازار تماشہ بنایا جاتا ہے۔
ریاستی قوانین ایسی تمام عورتوں کی حفاظت کرنے میں ناکام رہتے ہیں ، وہ عدلیہ جسے آزاد کرانے کے دعویداروں کے گلے خشک اور آنکھیں بند ہو چکی ہیں اب وہ عام شخص کیو انصاف دلانے سے معذور ہے۔ ان سب عناصر کو ابھی ملک میں جمہوریت کی جڑیں مضبوط کرنے سے فرصت نہیں۔
مذہبی جماعتیں جن کے حامی دن رات خواتین کے حجاب کے متعلق بول بول کر اور لکھ لکھ کر تھکتے نہیں۔ وہ اس بات پہ کڑھتے رہتے ہیں کہ یہاں کچھ خواتین کیوں انکے بنائے ہوئے ضابطوں
کے مطابق زندگی نہیں گذارتیں۔ وہ بھی اسے کسی قسم کی زیادتی سمجھنے سے قاصر رہیں گے کیونکہ یہ واقعہ ان عورتوں کے ساتھ پیش آیا جنہیں جسم فروشی کے کاروبار سے منسلک سمجھا جاتا ہے۔
اگر چہ کہ جسم فروشی کا عمل کبھی بھی یکطرفہ نہیں ہوتا لیکن مرد تو ہم جانتے ہیں کہ ترغیب دینے میں آجاتے ہیں اس لئیے یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ قصور کس کا ہوتا ہے اور ایسی ذلیل کر دینے والی سزائیں کس کے حصے میں آنی چاہئیں۔
ہمارے باقی کے نظام کے پاس مسائل کا انبار ہے انہیں اسے مزید بڑھانے سے فرصت نہیں اور عوام اپنی آفات میں مبتلا ہیں۔ اب ان عورتوں کی دادرسی کون کریگا۔ ان جسم فروش عورتوں کے کیا کوئ انصاف کےحقوق نہیں ہوتے۔یہ بے حیائ کے واقعات آخر کب تک اسی طرح بار بار ہوتے رہیں گے۔ اسکا جواب سادہ ہے اور وہ یہ کہ جب تک اسکے مجرموں کو قابل عبرت سزا نہیں ملتی اس طرح کے واقعات ہوتے رہیں گے۔ یا پھر اس معاشرے کو ان عورتوں کے اندر انتقام اور بدلے کی آگ بھڑکنے کا انتظار کرنا چاہئیے۔
میرے اور ساتھی بلاگر بھی اس پر لکھ چکے ہیں میں انکے رابطے یہاں دے رہی ہوں۔ قلم کی زکوات اسی طرح ادا کی جا سکتی ہے کہ ان لوگوں کے لئے بھی لکھا جائے جنکا کوئ پرسان حال نہیں۔ ہم انکی زندگی آسان نہیں کر سکتے لیکن یہ ممکن ہے کہ ہم دوبارہ ان واقعات کے رونما ہونے میں رکاوٹ بن جائیں۔








11 comments:

  1. انتہائی افسوناک بات ہے اور اُس سے بھی زیادہ ہمارے اجتماعی اخلاق کے منہ پر تماچہ ہے کہ جن لوگوں کو برائیاں صرف دوسروں میں ہی نظر آتی ہیں وہ ہرگز اس قابل نہیں ہوسکتے کہ دوسروں کی اصلاح کرتے پھریں۔

    خدا جانے کس قانون کے تحت یہ اُجڈ گنوار لوگ ہمیشہ ہمیشہ کے لئے باعزت شہری بن گئے ہیں، چاہے ان کے کرتوت کیسے ہی گھناؤنے ہوں۔ پھر سچی بات یہ ہے کہ یہ وہی لوگ ہیں جو بے یار و مددگار لوگوں کو ایسی راہ اختیار کرنے پر مجبور کردیتے ہیں اور بعد میں خود ہی دین و مذہب اور برائیوں سے پاک معاشرے کے ٹھیکیدار بن کر آجاتے ہیں۔

    خدا غارت کرے ایسے لوگوں کو۔

    ReplyDelete
  2. ان جسم فروش عورتوں کے کیا کوئ حقوق نہیں ہوتے۔ عنیقہ ناز

    بی بی!
    آپ روانی میں ایک ایسی بات لکھ گئی ہیں جو مناسب نہیں۔ ان جسم فروشوں کے حقوق نہیں بلکہ ان کے لئیے سخت ترین سزائیں مقر ر کی گئی ہیں ۔ خواہ وہ زانیہ مرد ہو یا زانیہ عورت ۔ دونوں میں سے جو شادی شدہ ہے انھیں سنگسار کرنے کا حکم ہے۔ اور غیر شادی شدہ زانی مرد یا زانیہ عورت کی گردن اڑانے کا حکم ہے۔ بظاہر ہمارا لبرل طبقہ ان سزاؤں کے خلاف ہے مگر ان میں پوشیدہ حکمت کو سمجھنے سے عاری ہے۔ بدکاری ثابت کرنا اگر ناممکن نہیں تو انتہائی مشکل ضرور ہے ۔ کیونکہ زنا ثابت کرنا اسلام کی شرائط کے مطابق انتہائی دشوار ہے ۔ اور جھوٹی تہمت لگانے والے کے لئیے بھی کڑی سزائیں ہیں۔ یاد رہے پاکستان میں زنا پہ حدودکیسیز کی بنیاد جھوٹ ، تہمت اور اپنے ذاتی مفادات کے لئیے لوگوں کو مجبور اور بلیک میل کرنا ہوتا ہے۔ جس سے اسلام کا کوئی واسطہ نہیں مگر ہر کسے نا کسے مذہب کو رگیدنا شروع کر دیتا ہے۔ زنا پہ سنگساری یا گردن اڑانے کی کڑی سزا ہونے کی وجہ سے معاشرہ بہت سی لعنتوں سے پاک رہتاہے۔ یہ انتہائی حد جاری ہونے کے امکانات شاذ وناذر ہوتے ہیں ۔ جس وجہ سے ایسے جرائم پہ مزید قانون سازی کی گنجائش باقی رہتی ہے۔

    اسلئیے یہ بات طے ہے کہ اسلام کی حدود کے عین مطابق، پاکستان کے موجودہ قانون کے تحت ۔ اور پاکستانی کے معاشرتی اسٹرکچر میں جسم فروشی کی کوئی صورت نہیں بنتی تو پھر جسم فروشوں کے لئیے سزائیں تو ہیں مگر حقوق نہیں۔کچھ لوگ چیں بہ چیں کرتے ہیں کہ جسم فروشی کا یہ جرم تو پاکستان میں ہمیشہ سے ہوتا آیا ہے۔ جبکہ میری ذاتی رائے میں جسم فروشی پوری دنیا میں ابتدائے آفرینش سے ہی ہوتی آرہی ہے۔ مگر اسکا مطلب یہ نہیں کہ اسے جائز قرار دے دیا جائے یا ایسے گھناؤنے جرم سے چشم پوشی کی جائے۔ اسلام میں جو شئے منع یا حرام ہے وہ ہمیشہ منع اور حرام رہے گی ۔

    پاکستان جیسے ممالک میں جسم فروشی کرنے والی عورتوں کے حقوق کی باتیں مغرب سے رفتہ رفتہ پاکستان برآمد کی جارہی ہیں ۔ مغرب کا بس چلے تو وہ پاکستان پہ ہی کیا موقوف ساری اسلامی دنیا میں جسم فروشی کو نہ صرف ترقی دے بلکہ اسے باقاعدہ ایک بزنس بنا ڈالے۔ جبکہ بہ حیثیت مسلمان ہمیں ایسے اقدمات کی ہر صورت مزاحمت کرنی چاہئیے۔

    آپ کے اصل موضوع کی طرف لوٹتے ہوئے، میں یہ کہنا چاہوں گا ۔ جو واقعہ پھولنگر میں ہوا ۔ اور عرتوں کو سر بازار ننگا کیا گیا ۔ ایسے شرمناک واقعے کی جتنی بھی مذمت کی جائے کم ہے۔ کسی بھی مسلمان کو یہ زیب نہیں دیتا کہ وہ انسانیت کا دامن چھوڑتے ہوئے حیوان بن جائے۔ اگر وہ عورتیں مبینہ طور پہ فاحشہ تھیں یا انہوں نے اس آبادی میں جسم فروشی کا کوئی اڈاہ قائم کر رکھا تھا ۔ تو اہل علاقہ کو پولیس، تھانے یا عدالتوں میں ان پہ کیس کرنا چاہئیے تھا یا متعلقہ ادارے خود بھی قانونی کاروائی کر سکتے تھے۔

    آپ نے ، میں نے، آپ نے ، باقی معزز بلاگر حضرات نے اور دیگر محترم قارئین نے، انسانیت سوز واقعے کی مذمت کردی اور ایسے انسانیت سوز واقعے کے ذمہ دار لوگوں کو قرار واقعی سزا دینے کا مطالبہ بھی جائز ہے ۔ مگر پاکستان میں اس واقعے اور اسطرح کے ملتے جلتے واقعات کے پس منظر پہ کو سمجھنا بہت ضروری ہے ورنہ ایسے واقعات تواتر سے ہوتے رہیں گے صرف مقامات اور کردار بدل جائیں گے۔ ہم سب کو یہ ضرور سوچنا چاہئیے کہ پاکستان میں ایسا کیوں ہوتا ہے۔؟ کیونہ کہ اگر ایک دفعہ عوام کا سیلرواں بپھر جائے تو وہ انقلاب فرانس میں ملکہ و باداشاہ کو عین چوک میں گردن اڑانے سے کم پہ کسی طور راضی نہیں ہوتا۔ اس وقت انھیں کسی ایسے قانون اور قاعدے کی پرواہ نہیں ہوتی۔ جو انھیں اسطرح کے انتہائی اقدامات اٹھانے سے باز رکھیں۔عوام کا غیض و غضب اُس صورت میں اور بڑھ جاتا ہے۔ جب وہ قانون اور قاعدے صرف طاقتورں کو تحفظ اور عام لوگوں کو مغلوب کرنے کے لئیے استعمال کئیے جائیں۔

    پاکستان میں بڑھتی ہوئی فرسٹریشن ، اور حاکموں اور محکوموں کے مابین فرق اور عوام کو رعایا سمجھنے والے قانونی اداروں اور عدالتوں کی عدم توجہی ۔ اور ہر قسم کی ناانصافیوں کی وجہ سے پاکستان میں عام آدمی کا قانون اور انھیں نافذ کرنے والے اداروںپہ یقین بہت مدت ہوئی، ختم ہوچکا ہے۔ پاکستان میں کئی دہائیوں سے یہ عالم ہے کہ شریف آدمی بیچ بازار میں لت جانا منظور کر لیتا ہے مگر پولیس کے پاس جا کر مذید لٹنے اور خوار ہونے کو تیار نہیں ہوتا۔ اور یہی عام آدمی پاکستان کا اجتماعی معاشری تشکیل دیتے ہیں ۔ جب تک قانون بھی اپنا ہونا ثابت نہیں کرتا تب تک عام آدمی ایسے قانون کو ماننے سے عاری رہے گا۔ اپنے طور پہ اپنے مسائل حل کرنے کو ہی مسائل کا حل سمجھتا رہے گا اور پھولنگر جیسے شرمناک واقعات ہوتے رہیں گے۔ جس کے ذمہ دار اہل محلہ ہی نہیں ہماری حکومت ۔ قانون نافذ کرنے والے ادارے ۔ انتظامیہ اور ہمارا عدالتی نظام بھی اتنا ہی قصور وار ہے۔

    ReplyDelete
  3. جاوید صاحب چور کی سزا ہاتھ کاٹنا ہے۔ اگر ہم اسکی عمومی وجوہات کو نظر انداز کر دیں فی الوقت۔ اور اس پر حد جاری کر دی جائے تو قانون اسے صرف ایک سزا دے سکتا ہے اور وہ یہ کہ اسکا ہاتھ کاٹ دے۔ اگر اسکا سر قلم کر دیا جائے تو یہ اسکی حق تلفی اور ظلم ہے۔ بحیثیت چور اسکا حق ہے کہ اسپر جرم ثابت کیا جائے اور جو اس جرم کی مروجہ سزا بنتی ہے وہ دی جائے۔ اس سے الگ جو کچھ کیا جائے وہ حق تلفی ہے اور ظلم ہے۔
    ہر مجرم کے انصاف کے حقوق ہوتے ہیں انہیں پورا کرنا ضروری ہے۔ ویسے ہی حقوق ان خواتین کے ہوتے ہیں جو جسم فروشی کا کاروبار کرتی ہیں یا کرنے پر مجبور ہیں۔ ایسے ہی حقوق بنیادی انسانی حقوق کہلاتے ہیں جو مذہب، نسل، رنگ، زبان، قومیت ،جنس، عمر، کاروبار، معاشرتی حیثیت سے الگ ہو کر ہر انسان کو حاصل ہیں اور جنکی پاسداری ایک صحتمند معاشرے کی تشکیل کے لئیے ضروری ہیں۔

    ReplyDelete
  4. چونکہ اس جملے کو سمجھنے میں مشکل ہو رہی ہے اس لئے میں نے اس میں مزید الفاظ ڈال دئیے ہیں۔ آپ دیکھ لیجئیے گا۔

    ReplyDelete
  5. حدود ٓرڈننس کہاں ہے

    ReplyDelete
  6. ہمارا مسلہ یہ ہے کہ سزا دینے والے بھی مرد حضرات ہیں ۔ اور انصاف نہ کرنے والے بھی مرد حضرات ، اگر وہ جسم فروشی کا دھندا کرتی تھی تو جانے والے کون تھے ۔ اس کا جواب کون دے گا ۔ اگر عورت کو یوں سرئے عام برہنہ کیا جاتا ہے تو مرد کو کیوں نہیں سزا برابر کی ہونی چاہے تھی ۔

    ReplyDelete
  7. گمنام، آپ نے بہت مختصر سوال کیا ہے اور کم از کم میں اسکا پس منظر نہیں سمجھ پا رہی۔ میرے خیال میں اس قسم کے قوانین جب تک اخلاص نیت کے ساتھ تشکیل نہ دئیے جائیں انکا کوئ مثبت اظر نکلنا مشکل ہے اور اسے مفاد پرست اور حس انسانیت سے عاری لوگ اپنے مفادات کے لئے استعمال کتے رہیں گے۔ اب اگر مجھ سے کوئ پوچھے حدود آرڈننس کہاں ہے تو اسکا تذکرہ عام طور پر اس وقت سنائ دیتا ہے جب دو لوگ پسند کی شادی کر کے گھر سے فرار ہو جاتے ہیں۔ اس پسند کی شادی اور فرار ہونے کے اپنے معاشی پس منظر ہیں۔ اور دوسرے اس وقت جب کسی خاتون کو سبق سکھانا ہو۔ میں یہ بات یقین کہہ سکتی ہوں کہ اس وقت جیلوں میں اس آرڈننس کے تحت آنیوالی ایک بڑی تعداد خواتین کی ہوگی۔
    تانیہ خوش آمدید، کسی بھی طور یہ فرض کر لیا گیا ہے کہ قانون سازی کا حق صرف مردوں کو حاصل ہے۔ اسی فرض کی گئ حالت کے تحت خواتین کی ایک بڑی تعداد کو علم سے محروم رکھا یاتا ہے۔ کیا آپکو یہ بات عجیب نہیں لگتی کہ خواتین کے بنیادی مسائل چاہے وہ معاشی ہوں یا جسمانی ان پر بھی مردوں کی ہی تحریریں زیادہ ملتی ہیں۔ جو ظاہر ہے کہ مردانہ نکتہ ء نگاہ سے ہوتی ہیں۔ چونکہ خواتین کے اندر ایسے کیالات کو پنپنے کی ضرورت ہی محسوس نہیں کی جاتی۔
    اب وہ چاہے لال مسجد والے ہون، پھول نگر سے ہوں یا کوئ عام شخص، تمام لوگوں کو خواتین کو لعن طعن کر کے خوشی ہوتی ہے۔
    مجھے تو یہ بھی بیمار ذہن کی عکاسی لگتی ہے کہ خواتین کو برہنہ کر کےسڑکوں پر گھمایا جائے۔ فکر کی بات یہ ہے کہ ایسے بیمار ذہن دن بہ دن کتنے بڑھتے جا رہے ہیں اور انکو ایک عام نارمل انسان کون بنائے گا اور کیسے؟

    ReplyDelete
  8. صرف ایک غلطی کی اصلاح، اسلام میں غیر شادی شدہ زانی اور زانیہ کی سزا گردن اُڑانا نہیں بلکہ ایک معین تعداد میں کوڑے یا/اور شہر بدری ہے

    ReplyDelete
  9. خرم صاحب کی بات درست ہے ۔ غیر شادی شدہ زانی اور زانی کے لئیے سو کوڑے اور ایک سال تک کے لئیے شہر بدی کا حکم ہے ۔ ابلتی بوڑھا مرد اور بوڑھی عورت کے لئیے سنگساری کا حکم ہے۔

    ReplyDelete

آپ اپنے تبصرے انگریزی میں بھی لکھ سکتے ہیں۔
جس طرح بلاگر کا تبصرہ نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں، اسی طرح تبصرہ نگار کا بھی بلاگر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اس لئے اپنے خیال کا اظہار کریں تاکہ ہم تصویر کا دوسرا رخ بھی دیکھ سکیں۔
اطمینان رکھیں اگر آپکے تبصرے میں فحش الفاظ یعنی دیسی گالیاں استعمال نہیں کی گئ ہیں تو یہ تبصرہ ضرور شائع ہوگا۔ تبصرہ نہ آنے کی وجہ کوئ ٹیکنیکل خرابی ہوگی۔ وہی تبصرہ دوبارہ بھیجنے کی کوشش کریں۔
شکریہ