اب جبکہ میرے بلاگ پہ مستقل آنیوالے قارئین کے علم میں آچکا ہے کہ میں پاکستان سے باہر ہوں تو اس تحریر پہ نظر پڑنے کے بعد آپ دھوکا مت کھائیے گا میں اب بھی پاک سر زمین سے ہزاروں میل کے فاصلے پہ ہوں۔ نہیں ابھی مجھے اتنا عرصہ نہیں ہوا کہ طالبان بھی خدا کی پیاری مخلوق لگنے لگیں اور انکے ہر دھماکے کے بعد زور زور سے انکی مظلومیت کا نوحہ پڑھنے لگوں اور امریکہ پہ تبرہ بھیجنے لگوں۔ قصہ مختصر سب کچھ ویسا ہی ہے بس فی الحال ہمارے کسی خود کش حملے میں جاں سے گذر جانے کے امکانات کم ہو گئے ہیں۔ تھائ لینڈ کی سرزمین پہ مزید کچھ پیسے خرچ کرنے کے بعد اب میرا کمپیوٹر بھی مردہ خانے سے باہر آگیا ہے۔ کون کہتا ہے کہ پیسے میں اعجاز مسیحائ نہیں۔ بس پیسے کم ہوں تو اعجاز صاحب دور رہتے ہیں۔
یہاں روٹی نہیں کھائ جاتی ہر چیز کے ساتھ چاول ملتے ہیں اور چاول بھی وہ جو ایکدوسرے سے چپکے ہوتے ہیں۔ ایسے چاول ہمارے دیس میں ہوں تو پکانے والے کے پھوہڑ پن پر ہزار لعنتیں بھیجی جائیں۔ ایک ہوٹل میں ہم نے کھانے کا آرڈر دیا ۔ یہ میٹ بال قسم کی چیز تھی اس سے ملتی جلتی چیز کو ترکی میں کباب اور ملائیشیا میں ساٹے کہا جاتا ہے۔ تھائ زبان میں نہیں معلوم کیا کہتے ہیں۔ اسکے ساتھ یہی ابلے چاول منگا لئیے۔ تھوڑی دیر بعد اس نے سامنے ساٹے کی یا کباب کی پلیٹ اور ایک گلاس میں برف رکھ دی۔ اب ہم نے غور کیا کہ یہ برف بھائ صاحب نے کس سلسلے میں لا کر رکھی ہے۔ نہیں اب آپ میں سے کچھ لوگ یہ نہ سوچنے لگیں کہ یہ کسی محفل ناءو نوش کی تیاری تھی کہ آئے کچھ ابر ، کچھ شراب آئے۔ اور پھر وہاں ہمارے کسی دیندار ساتھی کے پہنچنے پہ ہمارا وہ حال ہو کہ
کسی کے آنے پہ ساقی کے ایسے ہوش اڑے
شراب سیخ پہ ڈالی، کباب شیشے میں۔
ہوا یہ تھا کہ ہم نے ان سے رائس منگوائے تھے اور وہ آئس لے آئے۔
نتیجہ؛
تھائ لینڈ میں رہنے کے لئے تھوڑی بہت تھائ زبان بولنا آنا چاہئیے۔ تو اب میں ایک فہرست تیار کر رہی ہوں ضروری الفاظ کی۔ آپ مجھے مشورہ دیں کہ یہ ضروری الفاظ کون سے ہونے چاہئیں۔
Saturday, October 24, 2009
15 comments:
آپ اپنے تبصرے انگریزی میں بھی لکھ سکتے ہیں۔
جس طرح بلاگر کا تبصرہ نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں، اسی طرح تبصرہ نگار کا بھی بلاگر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اس لئے اپنے خیال کا اظہار کریں تاکہ ہم تصویر کا دوسرا رخ بھی دیکھ سکیں۔
اطمینان رکھیں اگر آپکے تبصرے میں فحش الفاظ یعنی دیسی گالیاں استعمال نہیں کی گئ ہیں تو یہ تبصرہ ضرور شائع ہوگا۔ تبصرہ نہ آنے کی وجہ کوئ ٹیکنیکل خرابی ہوگی۔ وہی تبصرہ دوبارہ بھیجنے کی کوشش کریں۔
شکریہ
Subscribe to:
Post Comments (Atom)
زبان تو اتنی جلدی نہيں آنے والی آپ يوں کريں کہ ہر چيز کا تھوڑا تھوڑا سمپل پاس رکھ ليں دکھا کر ويسا مانگ ليا کريں يا پھر اشاروں کی زبان چلا ليں ياد رہے کہ يہ اشارے ادھر کسی پاکستانی کے سامنے نہيں کرنا ورنہ تھائی لينڈ سے آگے جدھر جدھر کا آپکا دورہ ہے وہ بھی وہيں پايا جائے گا
ReplyDeleteکوئی اچنبے کی بات نہیں ۔ شکر کیجئے کہ آپ کوئی ایسی چیز نہیں لادی کہ کسی دیندار کے نہ ہونے کے باوجود آپ کو اُبکائی یا اس بھی بڑھ کر یعنی قے آ جاتی
ReplyDeleteآپ نے میری بات کو ماننا تو نہیں ہے اور ہو سکتا طالبان کی سازش قرار دے دیں مگر مجھے سچ بولنے سے باز رکھنا اگر ناممکن نہیں تو مشکل ضرور ہے ۔ آپ نے لکھا ہے
فی الحال ہمارے کسی خود کش حملے میں جاں سے گذر جانے کے امکانات کم ہو گئے ہیں
یہ آپ کی خام خیالی ہے اگر اللہ نے آپ کی موت خودکش حملے میں لکھی ہے تو آپ اس سے بچ نہیں سکتی ۔ میری دعا ہے کہ اللہ آپ کو طبعی موت نصیب کرے ۔ میں نے شہادت اسلئے نہیں کہا کہ آپ اُسے حرام موت نہ سمجھ بیٹھیں
اسما دو الفاظ تو مجھے آگئے ہیں ایک انکا سلام اور دوسرا شکریہ۔ یہ جو سیمپل والی بات آپ نے کہی ہے تو یہ جیب پہ بڑی بھاری ہوگی۔
ReplyDeleteاجمل صاحب، ایک تو میں نے امکان کی بات کی ہے جسے شماریات کی زبان میں پروبیبیلیٹی فیکٹر کہتے ہیں۔ میں خدائ حکم کو چیلینج نہیں کر رہی۔ وہ علاقے جو سونامی سے متائثر ہوئے ہماری رہائش گاہ سے خاصے قریب ہیں اور اس طرح کراچی کی نسبت یہاں سونامی سے مرنے کا امکان بڑھ گیا ہے۔ آپکی باقی باتوں کے لئیے یہی کہہ سکتی ہوں کہ نیتوں کا حال خدا بہتر جانتا ہے اور مقام شکر یہ ہے کہ کسی بندے کی تقدیر کا فیصلہ وہ جمہوری بنیادوں پہ نہیں کرتا ورنہ میرا بڑا نقصان ہوتا۔
اب کہی ہے بات آپ نے پتے کی ۔
ReplyDeleteحق یہی ہے کہ اللہ کی خوشنودی جسے مل گئی وہ کامیاب و کامران ہوا ۔
اللہ کو چھوڑ کر دنیا کو خوش کرنے کی کوشش کرنے والا بالآخر گھڑے میں گرتا ہے
ارے بی بی ۔ شماریات کی زبان میں اسے امکان ہی کہتے ہیں ۔ اور قرینہ یا احتمال بھی کہتے ہیں ۔ ویسے میں نے شماریات انگریزی میں پڑھی تھی یعنی سٹیٹِسٹکس ۔
ReplyDeleteاور ہاں فلپائن کچھ کھانے بڑے مزیدار ہوتے ہیں اور حلال بھی ہیں ۔
ایک بلوچی گیت ہے جو الن فقیر گایا کرتے تھے ۔ اس وقت بلوچی الفاظ میرے ذہن میں نہیں آ رہے ۔ ترجمہ کچھ یوں ہے
اللہ کو مخاطب کر کے کہا ہے ۔ تیرے عشق میں جو بھی ڈوب گیا ۔ اُسے دنیا کی لہروں سے ڈرنا کیا
تھائی لینڈ میں کسی سے شادی کر لیں۔ چند دنوں میں زبان سیکھ جائیں گے!
ReplyDeleteعنیقہ ناز جی آپ کو مشورہ وہ بھی مفت آپ بھی کیا یاد رکھیں گی کس سخی سےپالا پڑا ویسے آج کل تو مرنے کے بھی پیسے لگتے ہیں ۔ آپ گھر سے باہر کھانا کھانا چھوڑ دیں ،کیا پتا کیا کچھ پکاتے ہوں ۔ بس سبزی کھاہیں وہ بھی بغیر پتوں والی
ReplyDeleteعارف کریم صاحب۔ اگرچہ کہ فلمی شخصیات کے بارے میں مشہور ہے کہ انکی شادیاں منظر عام پہ آنے میں خاصہ وقت لیتی ہیں۔ بعضوں کے تو مرنے پہ پتہ چلتا ہے کہ وہ ویسوں تو بالوں سے محروم تھے لیکن نا صرف کسی کے محرم تھے بلکہ خیر سے بال بچے دار بھی تھے۔ عام زندگی میں بھی مردوں کو ہم نے اپنی شادی کے تذکرے سے جان بچاتے ہی دیکھا ہے۔ باہر کے ممالک میں تو یہ خاصہ ذاتی سوال سمجھا جاتا ہے جب تک کوئ خود نہ بتائے، پوچھنا غیر اخلاقی بات ہے۔ لیکن خیر مسئلہ یہ اٹھ کھڑا ہوا ہے کہ ایک مسلمان عورت ایک وقت میں صرف ایک شادی کر سکتی ہے۔ اب بات یہ ہے کہ میں الحمد للہ مسلمان ہوں، شادی شدہ ہوں اور میری اکلوتی بیٹی اس سال کے اخیر میں تین سال کی ہوجائے گی۔ اب کیا کیا جائے۔ آپ سے درخواست ہے کہ یہ سب معلومات اپنے تک ہی رکھئیے گا۔
ReplyDeleteلیکن میں سوچ رہی ہوں کہ اس طرح تو مسلمان مرد کم از کم چار زبانیں سیکھ سکتے ہیں۔ اگر آپ اسے بےحد ذاتی سوال نہ سمجھیں تو میں پوچھ سکتی ہوں کہ آپکو کتنی زبانیں آتی ہیں؟
:)
سخی تانیہ رحمان، آپکا مشورہ سر آنکھوں پہ لیکن اور بہت سی الجھنیں کم تھیں کہ آپ نے بغیر پتوں کی سبزی کی پابندی لگا دی۔ ناچیز اسکی حکمت سمجھنے سے قاصر ہے۔
:)
مشورہ تو کوئی نہیں کہ میں تو خود کبھی اپنے مشورے پر عمل نہیں کرتا
ReplyDelete;-)
چھٹیوں سے لطف اندوز ہوں
اور خیریت سے واپس آکر دوبارہ سے ہمارا بھیجہ فرائی کرنا شروع کریں۔۔۔
:grin:
وہاں ہر دوکان پر کنگ کی تصویر هوتی هے (خاور کنگ کی نہیں )لیکن مسلمانوں کی دوکان پر اللہ لکھاهوا هوتا هے اس دوکان پر کچھ بھی بے جھجک کھایا جاسکتا ہے
ReplyDeleteجی هاں جن کا کنک ہے ان کا گنگ اور جن کا الله ہے ان کا للہ
میں الله ولا اهوں اس لیے مجھي معلوم ہے
جی تھائی میں بھی مسلمان هوتے هیں
بنکاک کي ائر پورٹ کی مسجد کراچی والي مسجد سے خوبصورت هے
پتے والی سبزی کھانے میں کوئی مسئلہ نہیں ہے ۔ اصل مسئلہ گوشت میں ہے جو صرف مسلمانوں کے ہوٹل وغیرہ میں کھایئے گا ۔ دورِ حاضر میں بڑا مسئلہ نہیں ہے میں نے جوانی میں غیر مسلم ممالک میں کافی مشقت اُٹھائی ہوئی ہے کھانے کے سلسلہ میں
ReplyDeleteبی بی!
ReplyDeleteجس طرح اللہ میاں ماس خور کو ماس عطا کر دیتے ہیں، بعین اسی طرح حلال خور کو حلال مہیاؑ ہو ہی جاتا ہے۔۔ صرف کچھ کوشش کرنا پڑتی ہے۔
علم نہیں کہ آپ تھائی لینڈ میں کس جگہ قیام پذیر ہیں۔ ہیں ، وہاں حلال کھنا اور مسلمان ڈھونڈنے پہ آسانی سے مل جاتا ہے۔ ۔
خاور صاحب اور اجمل صاحب، تھائ لینڈ میں خاصی بڑی تعداد میں مسلمان ہیں۔ میں کچھ عرصے پہلے بھی یہاں آئ تھی تو بنکاک میں بھی قیام کیا تھا۔ اس دفعہ عیاشی زیادہ تھی۔ خود سے کچھ کرنا نہیں پڑا۔ اب پتہ چل رہا ہے۔ خیر بنکاک میں تقریبا چالیس فیصد مسلمان ہیں یہ اس گائیڈ نے ہمیں بتایا جو خود مسلمان تھا۔ ہوسکتا ہے کہ اس نے کچھ مبالغے سے کام لیا ہو۔ تھائ لینڈ کا بیشتر حصہ مختلف جزیروں پہ مشتمل ہے۔ یہاں ماہی گیری کے کاروبار پہ مسلمان چھائے ہوئے ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ کشتیوں پہ جو کھانا ملتا ہے وہ حلال ہوتا ہے۔ اب ہم نے پھوکٹ میں ایک مسلمان بستی دریافت کر لی ہے جہاں غریب نوازہوٹل ٹائپ کے کافی سارے ہوٹل مل گئے ہیں۔ یہ اگرچہ بہت اچھے اور معیاری نہیں ہیں لیکن پیٹ بھرجاتا ہے اور بے فکری رہتی ہے۔
ReplyDeleteجاوید صاحب آپ نے بجا فرمایا۔
خاور صاحب مسلمانوں کے ہوٹل زیادہ خستہ حال ہیں، چار میں سے ایک میں خانہ ء کعبہ کی تصویر، دو میں اردو یا عربی میں بڑا بڑا حلاللکھا ہوا تھا اور ایک میں چاند تارا بنا ہوا تھا۔
ReplyDeleteجعفر، ابھی ایک گھنٹہ پہلے میری بیٹی صاحبہ نے فرمایا کہ ماما تو دماغ کھا لیتی ہین یہ کہتے ہوئے انہوں نے اپنا سر پکڑا ہوا تھا۔ اس مہربانی کی وجہ میرا انہیں پندرہ منٹ کے وقفے سے یہ دوبار کہنا تھا کہ اگر اپنا کیلا کھا کر ختم نہیں کیا تو کوئ چاکلیٹ اور چپس نہیں ملیگا۔
واش روم، ہسپتال، ڈاکٹر، دائیں، بائیں، سیدھا، پیچھے، سڑک، چوک یعنی کراسنگ، ہوٹل، حلال کھانا، سستا، مہنگا، شاپنگ
ReplyDeleteان الفاظ کی فہرست مل جائے تو اکثر جگہ سہولت رہتی ہے۔ اس کے علاوہ اگر خنزیر، گائے، مرغی، بکری وغیرہ کے مقامی متبادل معلوم ہوں تو سونے پر سہاگا