Wednesday, October 7, 2009

سیلف برانڈنگ، مجھے لیجئیے، میں ہی اچھا ہوں

اگرچہ میں ان لوگوں میں سے نہیں جو برانڈ کے پیچھے جان دیتے ہیں اور کپڑوں سے لیکر گھر کی چھوٹی چھوٹی چیزوں تک کسی مخصوص برانڈ کی استعمال کرنا چاہتے ہیں لیکن کبھی کبھی یہ بہت ضروری ہو جاتا ہےجیسے ڈسپوزیبل انجکشن یا پینے کا پانی خریدنا ہو تو میں کسی مخصوص برانڈ کو ہی ترجیح دیتی ہوں۔
کیوں؟
اس لئے کہ برانڈ ایک وعدہ ہے جو پروڈکٹ کو کسٹمر سے جوڑتا ہے۔ یہ کہتا ہے کہ ہم وہ ہیں جو سچ ہے۔  یہ ایک وعدہ ہے کہ ہم اس طرح کی دیگر تمام پروڈکٹ سے بہتر ہیں اور ہم ایسی منفرد خصوصیات کے حامل ہیں کہ آپ کو ہم پر خرچ کرکے مایوسی نہیں ہوگی۔  اگر ہم کہتے ہیں کہ یہ خالص پانی ہے تو یہ ہے اور اگر ہم یہ کہتے ہیں کہ یہ انجکشن پہلے کبھی استعمال نہیں ہوئے تو یقین جانیں یہ ایسا ہی ہے میں اس برانڈ کی اس بات کو سچ سمجھتی ہوں اور اسکی جو بھی قیمت ہو وہ ادا کرتی ہوں۔ برانڈکی کامیابی اس میں بھی ہے کہ اسکا یہ پیغام بالکل صحیح سے اپنے کسٹمر تک پہنچ بھی جائے۔
لیکن اگر میں یہ کہوں کہ آپکو اپنے آپکو برانڈ کرنا چاہئیے اگر آپ ملازمت کی تلاش میں ہیں یا اپنے لئے مزید اچھے مواقع حاصل کرنا چاہتے ہیں تو آپ خاموش ہو جائیں گے ایک انسان خود کو کیسے برانڈ کر سکتا ہے؟
جب آپ ملازمت حاصل کرنا چاہتے ہیں تو دراصل آپ اپنا علم اور اپنی مہارت کو بیچنے کے لئے نکلے ہوتے ہیں۔ اب بتائیے کیا ایسے موقع پر آپ ایک پروڈکٹ میں تبدیل نہیں ہو گئے۔ آپکا ایمپلائر آپکے ریسیومے پر سے گذرتا ہے اور آپ سے انٹرویو کے وقت بالمشافہ گفتگو کرتا ہے۔ یہ سب کلفت اس لئے اٹھائ جاتی ہے کہ وہ اندازہ کر لے کہ وہ جس چیز کے پیسے دینا چاہتے ہیں آیا آپ اتنی قیمت کے ہیں یا نہیں۔ وہ اس ساری مشق سے آپکو جاننے کی کوشش کرتے ہیں۔ آپ انہیں جو نظر آرہے ہیں وہ اسکے مطابق آپکو لیں گے۔ کیا انہیں آپکی صورت میں جو پروڈکٹ مل رہی ہے وہ ایک سچا وعدہ لگتی ہے، اور کیا آپ اپنے برانڈ کی تمام خوبیاں اور وعدے اس تک پہنچا پا رہے ہیں؟
 تو اب یہاں سوال پیدا ہوتا ہے کہ آپ دوسروں کو کیسے نظر آتے ہیں۔ لیکن ٹہریں دوسروں سے پہلے آپ کو تو معلوم ہو کہ آپ کیا ہیں۔ اس پر ہم پہلے بھی گفتگو کر چکے ہیں کہ خود کو جاننا ہی ہر عمل سے پہلے ضروری ہے۔ چلیں ایک کاغذ قلم لیں اور اس پر اپنی خوبیاں لکھ لیں جو آپ سمجھتے ہیں کہ آپ میں موجود ہیں۔ اسی میں ایک دوسرا خانہ بنائیں اور اسپر اپنی کمزوریاں لکھ لیں جو آپ خیال کرتے ہیں کہ آپ میں ہیں۔
اب ایک علیحدہ کاغذ لیں اور اس پر اپنے قریبی رشت داروں، دوستون اور جاننے والوں کے نام لکھیں۔ انکے ساتھ اپنا تعلق بھی تحریر فرما دیں۔ اب ان میں سے ہر ایک سے معلوم کریں کہ وہ آپ میں کون کون سی خامیاں اور کمزوریاں دیکھتا ہے، چاہیں تو انکی تعداد متعین کر لیں کہ اتنی خوبیاں اور خامیاں بتا دیں۔ یہ ایک سروے آپکے بارے میں تیار ہو گیا۔ لیکن اسکا نقص یہ ہے کہ یہ سب لوگ آپکو جانتے ہیں اس لئے ہو سکتا ہے کہ کچھ جانبداری ہو۔ چلیں کسی پارک میں جا کر بیٹھیں اور موقع محل اور حالات دیکھ کر اپنے قریب بیٹھے ہوئے لوگوں سے، یا اپنے کلاس فیلوز سے یا اپنے ساتھیوں سے یہ سوال کر کے دیکھیں کہ وہ آپکے متعلق کیا سوچتے ہیں یا پہلی دفعہ
آپ سے ملکر انہوں نے آپکے متعلق کیا سوچا۔

 اب آپ اپنی لسٹ سے اسے ملائیں جو خوبیاں آپ نے اپنے متعلق خیال کیں کیا وہ دوسروں کو بھی پتہ چلتی ہیں۔ اور اپنے متعلق جو کمزوریاں آپ نے سوچیں کیا وہ واقعی آپ میں موجود ہیں۔
یہ تو آپکو اندازہ ہوگا کہ اگر اپنے متعلق جاننا ہے تو کتنا سخت ہونا پڑیگا ان سوالوں کے جواب صحیح رکھنے کے لئے۔
اب ایک علیحدہ کاغذ پر اس طرح کے مشاہدات نوٹ کریں کہ جب آپ کسی محفل میں جاتے ہیں تو اس محفل کے ماحول پر آپکی شخصیت کا کیا اثر ہوتا ہے، کیا لوگ آپ سے اپنے آپ کو آسانی سے شیئر کر لیتے ہیں یعنی انکی آپ سے دوستی آسانی سے ہو جاتی ہے، آپکے ساتھ رہتے ہوئے انکے اندر کوئ مثبت طرز فکر پیدا ہوتی ہے، اگر آپ وہاں موجود نہ ہوں تو آپکی کمی محسوس کی جائے گی، کیا آپکی وجہ سے لوگ اپنی زندگی میں بہتر تبدیلی لا پاتے ہیں، جب آپ وہاں سے اٹھتے ہیں تو کیا وہاں آپکو یاد رکھا جاتا ہے، کیا آپ یا آپکی باتوں کو لوگ اپنے لئے فائدہ مند پاتے ہیں۔
میں اور میری دوست ایک بس اسٹاپ پر دوستی ہونے سے پہلے کافی دیر کھڑے رہ کر یونیورسٹی آنے کے لئے پوائنٹ کا انتظار کرتے تھے۔ پوائنٹ نہ لینے کی صورت میں ہمیں تین یا چار بسیں بدلنی پڑتی تھیں۔ اسکا خرچہ بہت زیادہ ہوتا تھا۔ تین چار مہینے بعد ہم دونوں کی لامحالہ دوستی ہوئ اور جم گئ۔ ایکدن میں نے اس سے کہا۔ جب آپ شروع میں میرے سے کچھ فاصلے پر کھڑی ہوتی تھیں تو انتہائ روکھی اور ترش رو لگتی تھیں۔ میں سوچتی تھی ایسی اکھڑ لڑکی سے کون بات کرے۔ انہوں نے کہا اور میں آپکو انتہائ مغرور اور اپنی دنیا میں گم سمجھتی تھی۔ یہ ہم دونوں کی غلطی تھی۔ جو ہم تھے وہ نظر نہیں آرہے تھے۔ معاشرتی سطح سے الگ،   یہ غلطی پیشہ ورانہ سطح پر تباہ کن ہو سکتی ہے۔
اپنے آپ کو برانڈ کریں جو آپ چاہتے ہیں دوسروں کو وہ نظر آئیں۔
 اب آئیے پروڈکٹ کے طور پر اپنی مارکٹنگ کی طرف۔ آپکی کامیابی کی رفتار سے دوسروں کو آگاہ ہونا چاہئیے، انہیں پتہ ہونا چاہئیے کہ آپ اپنا کام کتنی محنت اور جذبے سے کر سکتے ہیں، آپکو اپنے کام یا علم کے متعلقہ میدان میں کتنی مہارت حاصل ہے، مستقبل کے لئے آپکے کیا اردے ہیں اور آپ انکے لئے کتنے کو شاں ہیں۔
ٹیکنالوجی کے اس دور میں اپنی کامیابیوں کی کہانی کو ہر جگہ عام کر دیں۔ اسکے لئے آپ اپنا بلاگ، مختلف فورمز، فیس بک یا کوئ بھی کمیونٹی سائٹ استعال کر سکتے ہیں۔ ٹیوٹر کو بھی لوگوں کو اپنی سرگرمیوں سے آگاہ کرنے کے لئے استعمال کر سکتے ہیں۔ لیکن دھیان رہے یہاں میری مراد پیشہ ورانہ اور علمی سرگرمیاں ہیں۔ اس سے باقی لوگوں کو پتہ چلے گا کہ آپ کیا کر رہے ہیں۔ مختلف جگہوں پر چاہے وہ کلاسز ہوں، بلاگ ہو، فورمز یا کانفرنسز اور سیمینارز اپنے تبصرے اپنے سوالات اپنے خیالات سب لوگوں کے  آگے رکھیں تاکہ لوگوں کو پتہ چلے کہ آپ موجود ہیں۔ اپنی موجودگی کا اثر چھوڑتے جائیں جہاں جہاں آپ جاتے ہیں۔
جہاں آپ یہ سب کام کر رہے ہوں ، وہاں یہ یاد رکھیں کہ اپنی متعلقہ فیلڈ میں ہونے والی نئ پیش رفت سے آگاہ رہنے کی کوشش کریں اور اپنے ان دوستوں اور جاننے والوں سے ہمیشہ تعلق میں رہیں جو اس فیلڈ سے منسلک ہوں۔ اس طرح وقت ضرورت آپ مناسب رہنمائ اور مشورہ حاصل کر سکتے ہیں۔ اسکے علاوہ اپنی پیشہ ورانہ مہارت اور علم کو بڑھانے کے لئیے سرکرداں رہیں تاکہ آپ سے لوگ استفادہ حاصل کرتے ہوئے با اعتماد رہیں۔
یہ سب تو پس منظر کے کام تھے اب آپنے آپ کو جب آپ پروڈکٹ کے طور پر لے رہے ہیں تو پروڈکٹ کی ظاہری خصوصیات کے بارے میں کیا خیال ہے۔ برانڈنگ کا تعلق آپکے ماضی کو آپکے مستقبل سے کامیابی کے ساتھ جوڑنا بھی ہوتا ہے۔ آپ کیا ہیں، کس کمیونٹی سے تعلق رکھتے ہیں، کونسی مادری زبان بولتے ہیں آپکی ثقافتی اقدار کیا ہیں۔ جب آپ خود سے ان چیزوں کو طے کر لیں گے تو آپ اپنے کسٹمر کے پس منظر کو جان کر اس تک بہتر طور پر اپنے آپ کو پہنچا سکیں۔
یاد رکھیں برانڈنگ کا عمل جن تین چیزوں سے وابستہ ہے وہ آپکا نظر آنا ، یا نوٹس میں ہونا،، آپکی کمیونیکیشن، اور رویہ ہے۔
اسکا بنیادی مقصد بھی اپنے آپ میں ایسی مثبت خصوصیات پیدا کرنا ہیں جس سے لوگ آپکو توجہ دیں، آپکی ضرورت محسوس کریں اور آپکو اپنی انویسٹمنٹ کے لئے محفوظ خیال کریں۔
 خوش قسمتی چاہے کتنی بار بھی آپکے دروازے پر دستک دے اگر آپ اسکے لئے تیار نہیں ہیں تو کوئ فائدہ نہیں اٹھا سکیں گے۔ اسکی مثال ایسے ہے کہ آپکا علم جتنا اچھا ہو اور آپکے میڈیا کے اندر جتنے اچھے تعلقات ہوں اگر آپ صحیح طریقے سے بات کرنا نہیں جانتے تو کوئ بھی آپکو اپنے چینل پر اینکر پرسن کے طور پر نہیں رکھے گا۔ اپنے آپکو برانڈ کریں بتائیے کہ  آپ یہ کام  بہت بہتر

اور منفرد طریقے سے کر سکتے ہیں، اپنے آپکو مارکیٹ کریں اور اس پروڈکٹ کو بہتر بنانے کے عمل میں لگے رہیں۔
آپ سب کو اس عمل میں مصروف کرنے کے بعد اب میں گرین ٹی پیتی ہوں، اس سے دہی بنا ہوا دماغ دوبارہ سے اپنی اصلی حالت میں آجاتا ہے۔آپکو چاہئیے، خود بنائیے۔ اور ہاں ایک شعر پڑھتے جائیے
غالب خستہ کے بغیر کونسے کام بند ہیں
روئیے زار زار کیا، کیجئیے ہائے ہائے کیوں

اب آگے ملازمت کے انٹرویو کے لئے روانہ ہونا ہے۔


راشد کامران صاحب کا یہ مشورہ خاصہ کارآمد ہے اس لئے میں اسے یہاں ڈال رہی ہوں تاکہ وہ لوگ جو تبصرے نہیں پڑھنا چاہتے انکے علم میں بھی آجائے۔'تسلسل کے لیے ایک مشورہ کہ لنکڈان اس سلسلے میں ایک نہایت اچھا ٹول ہے۔ اپنے پیشے سے وابستہ تمام لوگوں سے نیٹ ورک استوار کریں اور زیادہ سے زیادہ لوگوں سے درخواست کریں کے آپ کی مختلف صلاحیتوں‌پر رائے دیں؛ یہ ٹول نا صرف ان تمام چیزوں میں‌آپ کی مدد کرے گا جو اس بلاگ میں بتائی گئی ہیں بلکہ انڈسٹڑی میں اس کو سنجیدگی سے لیا بھی جاتا ہے چناچہ اس کو انتہائی فارمل رکھیں'۔

12 comments:

  1. اچھی تحریر ہے، شکریہ

    ReplyDelete
  2. بہت اعلی
    میں تو آپ کے بلاگ کی سیٹنگ دیکھ کر دنگ رہ گیا ہوں

    ReplyDelete
  3. نہ نہ ميں اپنے آپ کو مارکيٹ نہيں کر سکتی

    ReplyDelete
  4. بہت ہی عمدہ۔ تسلسل کے لیے ایک مشورہ کہ لنکڈان اس سلسلے میں ایک نہایت اچھا ٹول ہے۔ اپنے پیشے سے وابستہ تمام لوگوں سے نیٹ ورک استوار کریں اور زیادہ سے زیادہ لوگوں سے درخواست کریں کے آپ کی مختلف صلاحیتوں‌پر رائے دیں؛ یہ ٹول نا صرف ان تمام چیزوں میں‌آپ کی مدد کرے گا جو اس بلاگ میں بتائی گئی ہیں بلکہ انڈسٹڑی میں اس کو سنجیدگی سے لیا بھی جاتا ہے چناچہ اس کو انتہائی فارمل رکھیں

    ReplyDelete
  5. یاسر یہ وہ چیز ہے جو مختلف ورکشاپس میں وقت اور پیسہ خرچ کر کے حاصل کی جاتی ہے۔ ایک عام شخص جو ابھی ابھی اپنی تعلیم مکمل کر کے ہٹا ہو اسکے اتنے ذرائع ہونا اول تو مشکل ہوتے ہیں دوسرے کم وسائل میں ان ورکشاپس میں شرکت کرنا ایک عیاشی لگتی ہے۔ خیر میں نے اپنی پوری کوشش کی کہ برانڈنگ کا یہ نظریہ بھی سمجھ میں آنے کی حد تک بیان کر دوں۔
    شازل کیا واقعی میرے سادہ سے بلاگ کی سیٹنگ آپکو پسند آئ۔ میں بہت زیادہ ٹیکنالوجی سے واقف نہیں اور پھر ہٹ اینڈ ٹرائل کے لئے زیادہ وقت بھی نہیں ۔ تو بس یہ ایسا ہی ہے۔ ویسے آپکا شکریہ۔
    اسماء اسکا فیصلہ آپ کیسے کر سکتی ہیں۔ پہلے اپنی برانڈ تو بتائیں پھر بتایا جائے کہآپکو مارکیٹنگ کی ضرورت بھی ہے یا نہیں۔
    :)

    ReplyDelete
  6. zabardast hay !!!
    bus seedhay chaltay rahan tu 50% maslay tu asay he katum hoo gatay hean.

    ReplyDelete
  7. گمنام آپکا کوئ زبر دست نام بھی تو ہوگا۔ یقین کریں میرا علم غیب بہت محدود ہے اور صرف نام سے میں کسی کا پتہ اور فون نمبر نہیں نکال سکتی اور نہ ہی شناختی کارڈ نمبر۔

    ReplyDelete
  8. نہائت عمدہ، آسان اور اپیل ایبل۔ اپنی محنت کی میری طرٖ ف سے بھرپور داد وصول کی جئیے۔ آپ قطرے کو دریا کر رہی ہیں۔ مجھے خوشی ہے کہ آپ نے اپنی صلاحیتوں سے دوسروں کا حصہ نکالا۔ اللہ آپ کوخوش رکھے بی بی!

    ReplyDelete
  9. میں نے نیٹ پر اردو زبان میں پہلی مرتبہ نفسیات پر کوئی مواد دیکھا ہے، آپ نے نفسیات پر لکھنے کا اچھا سلسلہ شروع کررکھا ہے، مجھے بہت اچھا لگا ایک جاندار تحریر کے لیے شکریہ۔

    ReplyDelete
  10. آپ اتنا طویل لکھ دیتی ہیں کہ پڑھتے پڑھتے میری ٹانگیں تھک جاتی ہیں ۔ آپ حیران کیوں ہو رہی ہیں اتنا لمبا ہوتا ہے کہ چل کر پڑھنا پڑھتا ہے اور میں بوڑھا آدمی ہوں ۔ پھر گرمی نہ کھا جایئے گا ۔ کبھی مذاق بھی تو کرنا چاہیئے ہمیشہ خُشک زبانی اچھی نہیں ہوتی
    ارے بھولی بی بی ۔ اگر رشتہ داروں سے اپنے مضبوط اور کمزور نقطے پوچھ لئے تو گئے کام سے ۔
    جب میں سلیکشن کرتا تھا یا سلیکشن بورڈ میں ہوتا تھا تب بھی کئی لطیفے ہوتے تھے لیکن دورِ حاضر کا جواب نہیں ۔ میری ایک بہو بیٹی اور بیٹی ہیومن ریسورس کنسلٹنٹ رہی ہیں ۔ کبھی کبھی مذیدار لطیفے سناتی تھیں ۔ جیسے ایک امیدوار کہنے لگا "مجھے رکھ لیں میں بڑے کام کا آدمی ہوں"۔ پھر سی وی پیش کیا جس میں لکھا تھا میرا فلاں فلاں محکمہ میں فلاں عہدے پر ہے وغیرہ اور ایک صفحہ انہی سے پُر تھا

    ReplyDelete
  11. بہت بہت شاندار تحریر ۔۔۔۔ اسے تو اپنے حلقۂ احباب میں پرنٹ نکال کر بانٹنا پڑے گا۔ واقعی یہ وہ مواد ہے جو ادارے فیسیں لے کر فراہم کرتے ہیں۔
    ویسے ہمارے ایک ساتھی کہا کرتے تھے کہ یہ وہ دورِ ناہنجار ہے جس میں ہر شخص اپنے گلے میں "برائے فروخت" کی تختی لٹکائے پھر رہا ہے اور پھر جو اس کی سب سے بڑی بولی لگاتا ہے، وہ اس کے ہاتھوں بک جاتا ہے۔ اس پورے مرحلے میں کہیں اصول و اخلاقیات نہیں آتے۔ آپ فروخت ہو گئے تو آپ کو وہ سب کچھ کرنا پڑے گا جو آپ کے خریدار نے کروانا ہے۔ ویسے یہ مجھے ایسے ہی یاد آ گیا اس واقعے کا آپ کی اس تحریر سے کوئی ربط نہیں۔ ایک مرتبہ پھر تحریر بہت شاندار ہے۔ اسے کاپی کر کے بار بار پڑھنے کا ارادہ ہے۔

    ReplyDelete
  12. شکریہ جاوید صاحب۔
    اجمل صاحب، آپ بھول رہے ہیں یہ آپ کے لئیے قطعاً نہیں۔ آپ کو جو زحمت ہوئ اسکے لئے معذرت خواہ ہوں۔ غلطی میری ہی ہے۔ بہت سارے دوسرے لوگوں کو بھی تکلیف ہوئ۔ مجھے ان تمام پوسٹس پر لکھدینا چاہئیے تھا کہ کس عمر، ضرورت اور آئ کیو کے لوگ اسے پڑھیں۔تاکہ باقی لوگ اپنی باری کا انتظار کرتے۔
    :)
    شکریہ ابو شامل۔

    ReplyDelete

آپ اپنے تبصرے انگریزی میں بھی لکھ سکتے ہیں۔
جس طرح بلاگر کا تبصرہ نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں، اسی طرح تبصرہ نگار کا بھی بلاگر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اس لئے اپنے خیال کا اظہار کریں تاکہ ہم تصویر کا دوسرا رخ بھی دیکھ سکیں۔
اطمینان رکھیں اگر آپکے تبصرے میں فحش الفاظ یعنی دیسی گالیاں استعمال نہیں کی گئ ہیں تو یہ تبصرہ ضرور شائع ہوگا۔ تبصرہ نہ آنے کی وجہ کوئ ٹیکنیکل خرابی ہوگی۔ وہی تبصرہ دوبارہ بھیجنے کی کوشش کریں۔
شکریہ