Wednesday, May 11, 2011

سونا، اک جنوں

سائینس کی کہانی بڑی دلچسپ ہے۔  انسان نے اسے تجسس، خوف، لالچ اور ضد جیسے جذبوں سے گوندھا ہے۔ کچھ نے اس میں خدا کو ڈھونڈھنے کے لئے اپنا حصہ ڈالا اور کچھ نے رد کرنے کے لئے۔ کہانی کسی بھی ارادے سے شروع کی گئ۔ انجام  یہ ہوا کہ خدا انسانوں کے ساتھ جوا ہی نہیں کھیلتا بلکہ کبھی کبھی اپنے پانسے ادھر ادھر بھی ڈال دیتا ہے۔
  یہ کہانی ہیمبرگ کے ہیننگ برینڈ  کی ہے۔ برینڈ فوج میں ایک جونیئر آفیسر تھا۔ کیمیاء سے لگاءو رکھتا تھآ۔ اسکی پہلی  بیوی کا جہیزاتنا تھا کہ فوج کی نوکری چھوڑنے کے بعد وہ الکیمیا پہ کام کر سکتا تھا۔ الکیمیا ، کیمیاء کی وہ ابتدائ شکل ہے جس میں ایک کیمیاداں کا مقصد عام دھاتوں کو سونے میں تبدیل کرنا ہوتا تھا یا پھر کوئ ایسی دوا جو تمام امراض کا علاج کر دے جسے اکسیر کہا جائے۔ یہ شاید خضر کے آب حیات سے متائثر خیال تھا۔ وہ الکیمیسٹ تھا۔ عربوں کو سونےسے بڑی انسیت تھی ۔ یوں  انہوں نے سونے کی تلاش میں کیمیاء میں خاصی دلچسپی لی اور کیمیائ تعاملات کے بنیادی طریقے متعارف کرائے۔
سونا انسان کو ہمیشہ مسحور کرتا رہا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ابتدائ انسان سوچتا تھا کہ خدا کی جلد یقیناً سونے سے بنی ہوگی یا وہ سونے کی طرح چمکیلا ہوگا۔ انسانی خدا بھی اپنے لباس  اور اشیائے استعمال مِیں سونے کا بے دریغ استعمال کرتے تھے۔
قدیم انسان تو یہ بھی سوچتا تھا کہ سورج پگھلا ہوا سونا ہے جسکی سنہیری چمک زمین تک پہنچتی ہے۔ یوں یہ خیال کیا جانے لگا کہ جو چیزیں سنہری نظر آتی ہیں ان کا کوئ نہ کوئ تعلق سونے سے ضرور ہوگا۔
برینڈ بھی اس پتھر کی تلاش میں تھا جو کسی عام دھات کو سونے میں تبدیل کر دے۔ فلاسفرز اسٹون یا جسے ہم اردو میں پارس کہتے ہیں۔ اس نے اپنی پہلی بیوی کی ساری جائداد اس میں جھونک دی۔ مگر کچھ بھی نہ ملا۔
اس کے مرنے کےبعد برینڈ نے دوسری شادی کی ایک مالدار عورت سے۔ ایک دفعہ پھر وہ سونے کے تعاقب میں تازہ دم تھا۔ لیکن اس دفعہ اس نے پچھلے تمام تجربات سے ہٹ کر ایک نئ چیز پہ اپنی توجہ مرکوز کی۔ یہ تھا سنہرا، پیلا انسانی پیشاب۔
کہا جاتا ہے کہ برینڈ نے اس کے لئے ہزاروں لٹرز پیشاب استعمال کیا، پچاس بالٹیاں ، ساڑھے پانچ ہزار لٹر پیشاب۔
اسکے بعد مختلف کہانیاں ہیں۔ مستند یہ ہے کہ برینڈ نے اس پیشاب کو خوب اچھی طرح ابالا۔ اس میں سے دھواں نکلنا شروع ہوا۔ جسے اس نے ڈسٹل کر کے الگ کر لیا۔ بچ ہوئے پیسٹ میں  ٹھنڈا ہونے پہ  ایک مادہ جم گیا جس میں سے سبز رنگ کی روشنی نکل رہی تھی۔ یہ روشنی آگ سے نکلنے والی روشنی کے برعکس ٹھنڈی روشنی تھی۔  یہ سولہ سو تیس میں پیدا ہونے والے کیمیاداں کے لئے ایک حیران کن مشاہدہ تھا۔
یہ سبز روشنی خارج کرنے والا مادہ 'فاسفورس' تھا۔ انسانی پیشاب میں فاسفورس موجود ہوتا ہے فاسفیٹ آئین کی شکل میں۔ اندازاً ایک لٹر میں ایک گرام فاسفورس ہوتا ہے۔ جی یہ وہی فاسفورس ہوتا ہے جو ہماری ہڈیوں کی تشکیل میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔ جسے دیا سلائ سے لیکر دھماکہ خیز اشیاء بنانے میں استعمال کیا جاتا ہے۔


سائینس میں دو طریقے ہیں تحقیق کے۔ یا تو نظریہ پہلے جنم لیتا ہے اور اسکا مشاہدہ عملی سطح پہ بعد میں جانچا جاتا ہے۔ یا  مشاہدات پہلے موجود ہوتے ہیں اور انہیں جوڑ کر ایک نظریہ تخلیق کیا جاتا ہے تاکہ حقائق کے لئَے دلیل لائ جا سکے۔
برینڈ نے انجانے میں جو کیمیائ طریقہ نکالا اسکی دلیل سائینسی سطح پہ یہ بنی کہ پیشاب میں موجود فاسفیٹ کو جب خوب اچھی طرح گرم کیا جاتا ہے تو آکسیجن پیشاب میں ہی موجود کاربن کے دیگر مرکبات سے تعامل کر کے فاسفیٹ میں سے خارج ہو جاتی ہے اور اس طرح فاسفورس عنصر کی حالت میں بچ جاتا ہے۔ دو سو اسی ڈگری درجہ ء حرارت پہ یہ پگھلی ہوئ حالت میں ہوتی ہے جبکہ ٹھنڈا ہونے پہ چوالیس ڈگری کے قریب یہ ٹھوس حالت میں آجاتی ہے۔
فاسفیٹ کی کچ دھات سے فاسفورس حاصل کرنے کے لئے آج بھی یہ طریقہ استعمال کیا جاتا ہے فرق یہ ہے کہ کاربن سے تعامل کرانے کے لئے کاربن کوک استعمال کی جاتی ہے۔

1. (NH4)NaHPO4 —› NaPO3 + NH3 + H2O
2. 8NaPO3 + 10C —› 2Na4P2O7 + 10CO + P4

دوسری جنگ عظیم میں برینڈ کے ہیمبرگ پہ گولہ باری کی گئ۔ ان بموں میں وہی ظالم فاسفورس تھا جسے برینڈ نے انجانے میں دریافت کیا تھا۔
برینڈ کا کیا ہوا؟ وہ اسی طرح ناکام و نامراد رہا۔ دنیا آج تک پارس حاصل نہیں کر سکی۔ البتہ کیمیاء اس ترقی پہ پہنچ گئ کہ آج انسان کی زندگی میں اسکی پیدائیش سے لیکر موت تک ہر چیز میں اس کا دخل ہے۔  اس سفر میں کیمیاء خود پارس بن گئ۔
  مزید معلومات کے لئے یہ دستاویزی فلم دیکھئیے۔


17 comments:

  1. اچھی معلومات ہیں، اور ساتھ میں روابط چپکا کر مزید معلومات کا دروازہ بھی کھل گیا۔ شکریہ

    ReplyDelete
  2. معلومات میں اضافے پر شکریہ
    تحریر کا ماخذ بھی بتادیتیں تو اچھا تھا
    پوسٹ کے ٹائٹل سے لگا کہ شاید سونے یعنی نیند کے بارے میں آپ فرما رہی ہونگی

    ReplyDelete
  3. شاذل، یہ ماءخذ سے آپکی کیا مراد ہے؟ تمام حوالہ جات موجود ہیں اور ایک ویڈیو بھی ساتھ میں ہے۔ اسکے علاوہ آپکو کیا ماءخذ چاہءیے، کھل کے بتائیے۔

    ReplyDelete
  4. اور ہاں اس سونے کو سونے کے علاوہ کیا کہتے ہیں اردو میں۔ آپکو ٹائیٹل سے دھوکا ہوا۔ اس میں اگر میری غلطی ہے تو معذرت۔

    ReplyDelete
  5. یہ تحریر پڑھ کر تو جی پیشاپ ہی آرہا ہے۔ اس لئے باقی باتاں فیر سئی..

    ReplyDelete
  6. "سونا" نہیں بلکہ موضوع کی وجہ سے "سونّا" لکھا جانا چاہئیے یعنی نون پہ " ّ" شد استعمال کرتے ہوئے

    ReplyDelete
  7. چلو جی معذرت قبول فرمائیں
    عثمان کی بات سن کر میری ہنسی رک نہیں رہی

    ReplyDelete
  8. عثمان، اب وہاں بیٹھ کر یہ حساب لگائیں گے کتنا فاسفورس نکالا۔ اور ایک بم بنانے کے لئے کتنی دفعہ جانا پڑے گا وغیرہ وغیرہ۔

    ReplyDelete
  9. یہ کیمیاء کے قصے ہیں تو بڑے دلچسب مگر اپنا اس موضوع پر بس نہیں چلتا..

    ReplyDelete
  10. او جی فاسفورس کا حساب کتاب میں کیوں لگاؤں جی؟ میں کوئی آپ کی طرح کیمیا دان تھوڑی ہوں؟

    ReplyDelete
  11. جب ميں نے آپ کی تحرير "علم و عمل" کے حوالے سے لکھا "جو لوگ اپنے آپ کو کلمہ گو يعنی اللہ پر ايمان لانے والا سمجھتے ہيں اگر وہ اللہ کے فرمان پر عمل نہيں کرتے تو انہيں آپ کس کيٹيگری ميں رکھيں گی ؟"

    تو آپ نے 8 مئی 2011ء کو لکھا تھا "میں کسی کو کیوں کسی کٹیگری میں رکھونگی؟"

    اس کے بعد آپ نے ميری تحرير "شکريہ محترم شکريہ" جو محمد علی مکی کی بداخلاقی اور الزام تراشی کے جواب ميں تھی کے حوالے سے 11 مئی کو يعنی صرف 3 دن بعد لکھا
    "افتخار اجمل صاحب اور عمران اقبال صاحب ۔ آ پ دونوں نے شاید تصوف کی گلیوں میں ذرا سا بھی نہیں جھانکا۔ اس لئے آپ نفی اور اثبات کے اوراد سے واقف نہیں۔ اپنی لا علمی کی سزا دوسروں کو نہ دیں۔ جاہل دیندار اور بے عمل عالم دونوں دین کے لئے خطرناک ہیں۔
    علامہ مفتی جاوید گوندل صاحب قبلہ، میں تو اس چیز پہ یقین نہیں رکھتی کہ مکی صاحب مرتد ہو گئے ہیں۔ یہ آپ سمجھ رہے ہیں۔ اس لئے کہ آپ ایکدم تصدیق یافتہ خدائی مسلمان ہیں در حقیقت اگر آپکی طرف سے سرٹیفیکیٹ مل جائے تو کسی بھی مسلمان کو آرام سے ہو جانا چاہئیے کہ اب جنت دور نہیں۔
    اس جذبہ ئ ایمانی میں آپکو یہ خیال بھی نہیں رہتا کہ جھوٹ بولنا، افتراع باندھنا، تہمت دھرنا یہ سب منافقین کی نشانیاں ہیں۔ اپنی زبان کو پست طریقے سے استعمال کرنا، تعصب کرنا یہ سب بھی نفاق میں آتا ہے دکھاوے کی دین داری عذاب کا ذریعہ ہے۔
    چونکہ میں آج بھی یقین رکھتی ہوں کہ مکی صاحب حالت ایمان میں ہی ہیں اسلئے آپکی یہ دروغ گوئی آپکے مسلمانی اخلاق کے لئے بہتر نہیں۔ امید ہے آپ تنہائ میں رب کریم سے توبہ کریں گے وہ معاف کرنے والا ہے۔ لیکن یہ تو آپ جانتے ہونگے کہ حقوق العباد کی معافی خدا نہیں دے گا۔ اس کے لئے آپکو مجھ سے اور اوروں سے معافی مانگنی پڑے گی"

    آپ نے ايک ہی تحرير ميں اپنی ہمخيال محمد علی مکی کو تو اصلی مسلمان کی کيٹيگری ميں رکھا اور مجھے ۔ عمران اقبال صاحب اور جاويد گوندل صاحب کو بے علم ۔ جاہل ۔ جھوٹا ۔ منافق ۔ منافق ۔ نفاق پرست ۔ تہمت باز اور جانے کون کون سی کيٹيگری ميں رکھ ديا"

    سو آپ نے خود ہی اپنا کردار پوری طرح واضح کر ديا ۔ مجھے کچھ کہنے کی ضرورت نہيں

    ReplyDelete
  12. افتخار اجمل صاحب میں نے گوندل صاحب کے لئے لکحا کہ یہ آپکے مسلمانی اخلاق کے لئے بہتر نہیں ہے۔ اسے آپ دوبارہ پڑھ سکتے ہیں اس سے ثابت ہوتا ہے کہ میں انہیں ان تمام باتوں کے باوجود مسلمان سمجھتی ہوں۔
    آپ دونوں نہیں جانتے کہ تصوف میں نفی اور اثبات کے اوراد ہیں جو کہ قلب کی صفائ کے لئے استعمال کئے جاتے ہیں اور یہ دراصل کلمے کے ابتدائ حصے پہ مرکوز ہیں۔ پھر عمران اقبال صاحب نے کیوں فرما دیا کہ کلمے کو تو چھوڑ دوں۔ کیا مجھے نہیں کہنا چاہئیے کہ علم حاصل کریں۔ وہ دیندار تو ہیں مگر علم نہیں رکھتے۔ آپ نے میرا تبصرہ تحریری طور پہ وہاں موجود ہونے کے باوجود مجھ سے ایک غلط بیان منسوب کرنے کی کوشش کی۔ آپ تو کہتے ہیں کہ آپ دین کا علم رکھتے ہیں پھر آپ نے غلط بیانی سے کیوں کام لیا۔ میں کیوں نہ کہوں کہ آپ جو کہتے ہیں اور جس کا علم رکھتے ہیں اس پہ عمل نہیں کرتے۔ یہی حالات گوندل صاھب کے ہیں وہ بھی جس چیز کی تبلیغ کر کے نام کماتے ہیں اس پہ ععمل کرتے نظر نہیں آتے۔
    دراصل سوال پوچھنے کا حق تو میرا ہے کہ آپ لوگ جس چیز کا علم رکھتے ہیں اور دوسروں کو پورے یقین کے ساتھ بتاتے ہیں اور دوسروں کو اکساتے ہیں کہ وہ آپکے فراہم کردہ یقین پہ دیگر لوگوں کے متعلق غلط ترین رائے قائم کریں۔ ۔ اس وقت آپکے اس عمل کو آپ ہی کے دین کے مطابق کس زمرے میں رکھنا چاہئیے۔
    میں کسی کو کافر نہیں قرار دے رہی۔ نہ دیتی ہوں۔ میں بھی مکی کی طرح آپکی علمی باتوں سے حوالے دے کر پوچھتی ہوں کہ آپ ایسا کیوں نہیں کرتے۔
    میں نے یہ بھی لکھا تھآ کہ جب تک کوئ میرے متعلق ذاتی طور پہ ہرزہ سرائ، غلط بیانی اور تہمت طرازی نہ کرے میں اسے پلٹ کر اسکی ذاتی حیثیت کو کچھ کہنے میں دلچسپی نہیں رکھتی۔ اور جب کوئ ایسا کرتا ہے تو میں اس سے یہ ضرور پوچھونگی کہ آپ ہی کے عقیدے کے مطابق یہ تمام سزا جزا ہے۔ اب بتائیے آپکے متعلق آپ ہی کے انداز میں کیا فتوی دیا جائے۔
    مگر اس پہ بھی کوئ شرمندہ نہیں ہوتا۔

    ReplyDelete
  13. مکی صاحب، اگر اس پہ بھی آپکا بس چلنے لگے تو ہمیں عربی سیکھنی پڑے گی۔ اس پہ ہمارا بس نہیں چلتا۔
    :)

    ReplyDelete
  14. افتخار اجمل صاحب، چونکہ مکی نے اپنی ایک تحریر میں لکھا تھا کہ وہ اپنے تمام تر خیالات کے با وجود دین اسلام پہ یقین رکحتے ہیں اور مسلمان ہیں تو کیا اسکے بعد مجھے یا کسی اور شخص کو انکے ایمان پہ شک کرنا چاہئیے۔
    در حقیقت اس وقت وہ جو کچھ بھی لکھ رہے ہیں وہ گذشتہ مسلمان علماء کے خیالات و تحاریر ہیں۔ ہم میں سے جس کسی کو ان تحاریر پر سے گذرنے کا اتفاق ہوتا ہے وہ اسکے بارے میں کوئ رائے ضرور قائم کرتا ہے۔ اور ہر آزاد انسان اپنی زندگی کے متعلق، اپنے ماحول کے متعلق اور اپنے مذہب کے متعلق آزادی سے سوچنے کا حق رکھتا ہے۔ عقل مند عالم اس ساری چیز کو اس طرح ہینڈل کرتے ہیں کہ معاشرے میں انتشار نہ پھیلے اور دوسروں کو اپنے سوالات کے جواب بھی مل جائیں۔
    اس مرحلے پہ میں یہ ضرور جمع کرنا چاہونگی کہ آپ لوگوں کا شدید رویہ فکر رکھنے والے عناصر کو بہت کچھ سوچنے پہ مجبور کرتا ہے۔ اور یہ پیدا ہونے والی سوچ اس سوچ سے مطابقت نہیں رکھتی جسے پروان چڑھانا چاہتے ہیں۔
    سو اگر آپ سب مبلغین ذرا دھیرج ہو کر اپنے اوپر ایک ناقدانہ نظر ڈالیں تو غیر معمولی صورت حال کی ذمہ داری سب سے زیادہ آپ پہ عائد ہوتی ہے۔
    بجائے اسکے کہ آپ لوگ اپنے حسن سلوک سے اور تدبر کو استعمال کرتے اور دین کی نظری اساس سامنے لاتے۔ آپ سب یوں ظاہر کرتے ہیں کہ دین آپکے ہاتھوں یرغمال ہو چکا ہے اور اب اس سے ملاقات آپکی منشاء سے ہی ہو سکتی۔

    ReplyDelete
  15. سنا ہے فاسفورس کو ہوا میں آگ لگ جاتی ہے۔تو جب پیشاب سے فاسفورس برامد ہوا تو اسے آگ کیوں نہیں لگی؟

    ReplyDelete
  16. غلام عباس مرزا، کالص فاسفورس کو کھلی ہوا میں رکھیں تو اس میں آگ لگ جاتی ہے یہ ہوا میں موجود آکسیجن کے ساتھ فوراً تعامل کرتا ہے۔ اس لئے جب اسے خالس کیا جاتا ہے تو آکسیجن سے محفوظ ماحول میں رکھتے ہیں مثلاً پانی۔
    مزید معلومات کے لئے یہ لنک دیکھیں۔
    http://en.wikipedia.org/wiki/Phosphorus

    ReplyDelete
  17. آخر کار۔۔۔۔۔ ایک طویل انتظار کے بعد کوئی سائنسی تحریر پڑھنے کو ملی۔ اس کے لیے شکریہ ویری مچ۔
    آپ کے پاس ایک ہنر ہے کیمیا کا۔ آپ کی طرف سے تو عوام کے فائدے کے لیے ایسی زیادہ تحاریر آنی چاہئیں۔ لیکن میں زبردستی بھی نہیں کر سکتا۔ آخر آپ کا بلاگ ہے، آپ ہی کی مرضی چلے گی۔

    ReplyDelete

آپ اپنے تبصرے انگریزی میں بھی لکھ سکتے ہیں۔
جس طرح بلاگر کا تبصرہ نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں، اسی طرح تبصرہ نگار کا بھی بلاگر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اس لئے اپنے خیال کا اظہار کریں تاکہ ہم تصویر کا دوسرا رخ بھی دیکھ سکیں۔
اطمینان رکھیں اگر آپکے تبصرے میں فحش الفاظ یعنی دیسی گالیاں استعمال نہیں کی گئ ہیں تو یہ تبصرہ ضرور شائع ہوگا۔ تبصرہ نہ آنے کی وجہ کوئ ٹیکنیکل خرابی ہوگی۔ وہی تبصرہ دوبارہ بھیجنے کی کوشش کریں۔
شکریہ