Wednesday, May 25, 2011

شہید تیرا قافلہ تھما نہیں رکا نہیں

اسی طرح رات کو ٹی وی چلا کر کسی بلاگ پہ تبصرہ لکھ رہی تھی کہ اطلاع ملی  شاہراہ فیصل پہ دھماکہ ہو گیا۔ آدھ گھنٹے بعد معلوم ہوا کہ پی این ایس مہران میں بارہ ، پندرہ دہشت گرد گھس گئے۔ س سے آگے اب ایک دنیا واقف ہے کہ کیا ہوا؟
وہ بارہ پندرہ دہشت گرد جو ایک وقت میں بیس بائیس ہو گئے تھے محض تین نکلے باقی کے سب بھاگ گئے۔ انکی تعداد دو سے لیکر آٹھ تک ہے۔ اربوں روپے مالیت کے قیمتی جہاز تباہ ہوئے۔ دس فوجی اہلکار شہید ہوئے۔ 
ایک طبقہ خوش ہے کہ  فوج نے پاکستانی عوام کو جس طرح تیس سال پہلے بے وقوف بنا کر ایک جنگ میں دھکیلا، ملک کی ثقافت اور مستقبل کو  داءو پہ لگایا آج اسے خود مزہ چکھنے کو ملا۔ دوسرا طبقہ خوش ہے کہ جس طرح ہمارے مجاہدین کے خلاف مہم چلائ گئ ، انہیں شہید کیا گیا، نتیجے میں اچھا تھپڑ پڑا۔ ایک اور طبقہ خوش ہے کہ کیونکہ لگتا ہے بالآخر ہمیں امریکہ سے دو بدو لڑنے کا موقع ملے گا۔ آہا، کندن بننے کے دن آنے والے ہیں۔ کندن بننے کے بعد یقیناً اقوام عالم میں ہم سونے کے بھاءو تولے جائیں گے۔
یہاں ہمارے کچھ ساتھی ایسے ہیں جو دو سال پہلے اس خیال کے شدید مخالفین میں سے تھے کہ کراچی میں طالبان اپنی جڑیں پھیلا رہے ہیں۔ آج وہ سب خاموش ہیں۔ یہاں ہمارے کچھ ساتھی ایسے بھی ہیں جنہیں پنجابی طالبان کی اصطلاح پہ کف آنے لگتا تھا۔ آج وکی لیکس کہہ رہی ہیں کہ پنجاب میں طالبان کو جمانے کے لئے لاکھوں ڈالر خرچ ہوئے۔ آج وہ بھی  خاموش ہیں۔
ایسے ہر واقعے کے بعد ٹی وی پہ مبصرین کی ایک بڑی فوج دستیاب ہو جاتی ہے۔
 ایسے ہی ایک ٹاک شو میں ، فوج کے ایک اعلی ریٹائرڈ افسر اتنے جذباتی ہوئے، فرمانے لگے پاکستان کی حفاظت دو قوتیں کر رہی تھیں۔ پھر کچھ سوچ کر انہوں نے اس میں ایک اور قوت کا اضافہ کیا ۔ یہ قوتیں فوج، پٹھان اورخدا ہیں۔  اندازہ ہے کہ آخر میں شامل ہونے والی قوت خدا کی ہوگی۔ لیکن پچھلے دس سال میں فوج اور پٹھان کو لڑا دیا گیا اور اس طرح ملک کے دفاع کو کمزور کر دیا گیا۔ 
چلیں فوج تو پاکستانی انسٹی ٹیوشنز میں شامل ہے۔ لیکن کسی قوم کو جاہل اور معاشی طور پہ کمزور رکھ کر۔ ملک میں بسنے والی دیگر قوموں سے الگ کر کے دین و ملت کی حفاظت پہ معمور کر دینا، کہاں تک درست ہے؟
اگر ہم اس بات کو  من وعن تسلیم کر لیں کہ دہشت گردی کی اس فضا کی ساری جڑ امریکہ ہے۔  تب بھی یہ بات تسلیم کرنا پڑے گی کہ اس میں جو لوگ حصہ لیتے ہیں اور استعمال ہوتے ہیں وہ ہمارے ہی لوگ ہیں۔ کیا امریکہ میں ہونے والی کسی دہشت گردی میں کوئ امریکی شامل ہوتا ہے۔ حتی کہ ممبئ میں ہونے والی دہشت گردی کے واقعے میں بھی پاکستانی یہاں سے وہاں پہنچے۔ لیکن افسوس، ہمارے یہاں دہشت گردی کے ہر واقعے کوانجام دینے والا ایک پاکستانی ہی ہوتا ہے۔ اسکے باوجود کہ یہاں ہزاروں کی تعداد میں امریکی موجود ہیں یہ فریضہ سر انجام دینے کے لئے انہیں پاکستانی مل جاتے ہیں۔ آج تک کسی خود کش حملے میں کوئ امریکی نہیں پھٹا نہ ہی کوئ انڈین۔
یہ لوگ کیوں ان لوگوں کے ہاتھوں استعمال ہوتے ہیں۔ اسکی دو واضح بنیادی وجوہات ہیں۔ تعلیم کی کمی اور بے روزگاری۔ اسکی تیسری سب سے اہم وجہ ہمارے شمالی علاقہ جات کے عوام کو اس فریب میں مبتلا رکھنا کہ وہ بہادر اور جنگجو ہیں۔ ان پہ دین اور ملک کی کڑی ذمہ داری ہے۔  اس خوبی کے بعد انہیں کچھ کرنے کی ضرورت نہیں، وہ بہادر ہیں بچے کے کان میں اذان سے پہلے گولی کی آواز جاتی ہے۔
کیا ایک قوم بننے کے عمل کے لئے یہی نظریات کارآمد ہوتے ہیں؟ یہ بات ہمیں آدھا پاکستان گنوانے کے بعد بھی سمجھ نہِیں آسکی۔ بنگالیوں کو انکی جسامت اور مذہب کے بارے میں  کے طعنے دینے والے ان سے شکست کھا گئے۔
آزاد علاقوں کے پشتونوں کو ایک پر فریب احساس برتری میں مبتلا کر دیا گیا۔ اور اپنی اس آزادی میں وہ کسی قانون کے پابند نہیں رہے۔ ہونا تو یہ چاہئیے تھا کہ آزادی کے بعد انہیں پاکستان کی دیگر اقوام کے ساتھ مین اسٹریم میں لانے کی کوششیں غیر محسوس طریقے سے شروع کی جاتیں۔ تاکہ تبدیلی کا عمل آہستگی سے شروع ہو جاتا۔ لیکن کسی نے اس صورت کو تبدیل کرنے میں دلچسپی نہیں لی۔  البتہ انکی اس حالت سے لوگوں نے فائدہ اٹھایا۔ اس طرح کے انہیں  کوئ دور رس  فائدہ نہیں پہنچا۔  حتی کہ جنت تک پہنچے اور پہنچانے کے لئے بھی یہی راستہ استعمال کیا گیا۔
انکی اس آزاد حیثت کا فائدہ اٹھا کر دنیا بھر کے جنگجو وہاں پہنچ کر اکٹھا ہوتے ہیں۔ اسلحہ کا آزادنہ استعمال ، آزادنہ تیاری، اندھا کیا چاہے دو آنکھیں۔ اگر اس میں کوئ کمی تھی تو وہ عوامی پذیرائ کی۔ وہ ماشااللہ سے پچھلے تیس سالوں کی شبانہ روز محنتوں سے انہیں ایسی ملی کہ ، تیس سال کی داستان تو ایک طرف، پچھلے دس سالوں میں پینتیس ہزار عام پاکستانیوں کے انکے ہاتھوں ختم ہونے کے باوجود ختم نہ ہوئ۔
وہ کہتے ہیں کہ امریکہ دہشت گردی کروا رہا ہے۔ یہ نہیں سوچتے کہ امریکہ لیبیا میں تو القاعدہ کے ہاتھ مضبوط کر رہا ہے دوسرے ملک میں کیسے اسکے خلاف جنگ کر رہا ہے۔ یہ کیسے ممکن ہے کہ اگر ایک ملک میں وہ اسکی مدد کر رہا ہے تو دوسرے ملک میں القاعدہ کے رہنما اس کے دشمن ہونگے۔
آج سے تیس سال پہلے فوج نے امریکہ کا ساتھ دینے کے لئے جہاد کا فلسفہ پھیلایا، اور جہادی کاروبار میں خوب پھلی پھولی، آج سے پندرہ سال پہلے فوج کی سرپرستی میں، امریکہ کی آشیرباد سے طالبان کو افغانستان میں داخل کیا گیا، آج سے دس سال پہلے فوج کی مرضی سے پاکستان امریکہ کی مدد کر کے جنگ کے کاروبار میں شامل ہوا۔ دراصل ہماری فوج اور امریکہ ایک دوسرے کے حلقہ ء اثر میں تین دہائیوں سے چلے آرہے ہیں۔ کس لئے ایک اپنے رسوخ کے لئے دوسرا ڈالرز کے لئے۔ 
اس لئے جب جنرل کیانی نے کہا کہ خوشحالی کے لئے عزت و وقار پہ سودانہیں کریں گے تو مجھے یہ سوچنا پڑا کہ انکا مخاطب فوج کے اعلی عہدے دار ہیں۔ عوام کے پاس نہ خوشحالی ہے نہ عزت اور نہ وقار۔
آج مرنے والا بھی شہید ہے مارنے والا بھی شہید ہے۔ پی این ایس مہران ، کراچی کے واقعے میں  دس شہید فوج کے اور تین شہید دہشت گردوں کے۔ عام پاکستانی  کنفیوز ہے۔ اسے خودکش حملہ آور کا کاز انتہائ نیک لگتا ہے۔ مرنے والوں کا بھی کوئ قصور نہیں۔ یوں شہیدوں کا قافلہ نہ تھمتا ہے نہ رکتا ہے۔

اس سارے واقعے کے بعد جس چیز سے مجھے شدید تکلیف پہنچی وہ لیفٹیننٹ یاسر عباس کی والدہ کی حکومت سے یہ درخواست کہ انکے شہید بیٹے کو نشان حیدر دیا جائے۔
یہ صحیح ہے کہ نوجوان اکلوتے بیٹے کی موت والدین کے لئے ایک بڑا سانحہ ہوتی ہے۔ لیکن ایک ایسے واقعے میں جس میں مزید نو لوگ شہید ہوئے ہیں جد وجہد کرتے ہوئےآخر وہ بھی تو کسی کے بیٹے ہیں۔ یاسر عباس شہید کا خاندان فوج کے اعلی افسران کے لوگوں پہ مشتمل ہے۔ انہیں معلوم ہوگا کہ اس راستے میں یہ کڑے امتحان آتے ہیں۔ پھر ایسی کم بات کیوں کی؟ مجھے نجانے کیوں یقین سا ہے کہ انکی والدہ کو کسی اور نے یہ درخواست کرنے کے لئے کہا ہے۔ ایک ماں کا دل اتنا چھوٹا اور خود غرض نہیں ہو سکتا کہ وہ صرف اپنے بیٹے کے بارے میں سوچے۔
ابھی اس واقعے کی انکوئری نہیں ہوئ۔ ہم تک جو میڈیا کے ذریعے اطلاعات پہنچی ہیں۔ اگر ان سب کو درست تسلیم کیا جائے۔ یہ مان لیا جائے کہ اس میں فوج کے اعلی افسران کی کوتاہی شامل نہیں، اس واقعے کا باعث انکی کوتاہ اندیشی  اور نکما پن نہیں ہے۔ اور جیسا کہ ہم سمجھ رہے ہیں اسکے بر عکس انہوں نے  دہشت گردوں کو ناکام کر دیا۔ اور انہیں لعنت ملامت کرنے کے بجائے انکا مورال بلند کرنے کی ضرورت ہے۔  اسکے بعد بھی اگر نشان حیدر کا مستحق کوئ شخص نظر آتا ہے تو ایک کرنل کا بیٹا یاسر عباس شہید نہیں بلکہ وہ رینجراہلکار خلیل ہے جس نے یہ جان کر بھی کہ دہشت گرد کے ہاتھوں میں گرینیڈ موجود ہیں اسے اپنی گرفت سے آزاد نہیں کیا۔
کیا ہم اسکی اس قربانی اور جوانمردی سے اس لئے گریز کریں کہ وہ اعلی  دولت مند خاندان سے تعلق نہیں رکھتا اور اپنی حیثیت میں کم رینک پہ تھا۔
شہید تیرا قافلہ تھما نہیں رکا نہیں۔ مگر اسے اب رکنا چاہئیے، شہادت سے پہلے مقام بصیرت پہ۔




25 comments:

  1. خالد حمیدMay 25, 2011 at 3:40 PM

    بہت عرصہ پہلے بھیڑ چال کی مثال سنی تھی جو کہ پاکستانیوں پر چسپاں کی گئی تھی اور ہم نے جب سے ہوش سنبھالا ہے یہی دیکھ رہے ہیں چاہے وہ کوئی بھی شعبہ ہو ۔
    ہر کسی نے ایک گروہ کی سوچ کو اختیار کیا ہوا ہے اور اس کے پیچھے بھاگ رہا ہے ان بھیڑوں کی طرح جو ایک پہاڑ سے ایک کے پیچھے ایک گر رہی ہیں اور یہ خاتمے تک چلتا رہے گا۔
    اب نہ جانے ہمارا ختتام کب ہوگا اس ملک کے خاتمے پر یا اس ملک کی تمام عوام کے خاتمے پر اور یاپھر ان دونوں کے خاتمے پر۔
    اور دشمن کے بھی نہ جانے کیا ارادے ہیں اور وہ کس کا خاتمہ چاہتا ہے۔

    ReplyDelete
  2. Aap ye bhi parh lain aik baar:

    http://www.bbc.co.uk/urdu/pakistan/2011/05/110525_mehran_new_militants_shoaib_uk.shtml

    ReplyDelete
  3. ان دنوں ہونے والے واقعات کے بارے میں اتنی کنفیوژنز پیدا کردی گئی ہیں کہ کچھ سمجھ نہیں، کسی ایک طرف آزادانہ رائے دے ہی نہیں سکتے۔

    ReplyDelete
  4. ایک چوتھا طبقہ بھی ہے: طبقہ سانوں کی۔ اس طبقہ کے لئے پاکستان سے آنے والی ہر خبر ایک افسوسناک ریلٹی ٹی وی شو ہے۔ خاکسار کا شمار بھی اسی طبقہ میں کیا جا سکتا ہے۔
    :)
    پنجاب مذہبی شدت پسند تنظیموں کا گڑھ ہے۔ معروف ترین شدت پسند تنظیمیں وہاں بیس کرتی ہیں۔ کسی زمانے میں اگر یہ مذہبی فرقہ واریت ، مساجد میں فائرنگ اور غیر ممالک میں جہادی ایکسپورٹ کرنے تک محدود تھیں تو آج وہ ناسور پک کر سنگین شکل اختیار کرچکا ہے۔ ان شدت پسندوں کی موجودگی کے ثبوت بمع جہادیوں کے انٹرویو ، ذرائع ابلاغ سالوں سے مہیا کررہے ہیں۔ منکرین کو چاہیے کہ اپنا نفسیاتی علاج کروائیں یا پھر ایمانداری سے تسلیم کریں کہ وہ خود بھی دہشت گردوں کی ہمدرد و وکلاء ہیں۔ دونوں ہی باتیں درست ہیں۔
    بلکہ پنجاب تو ایک طرف ، پاکستان کے سب سے بڑے شہر میں بھی شدت پسند کچھ کم نہیں۔ اپنے بلاگستان ہی میں نظر دوڑائیں۔ بلکہ بقول سیانا پاکستان میں اب صرف ہر قسم کے شدت پسند ہی رہتے ہیں۔ اعتدال پسندی تو اب شائد گالی بن چکی ہے۔

    ReplyDelete
  5. آپ نے لکھا ہے وکی لیکس کہہ رہا ہے کہ فلاں بات ہوئی ہے
    کیا وکی لیکس سچ کی اماں ہے؟
    اس پر کتنےلوگ ہیں جو اعتبار کرتے ہیں۔
    باقی اپ کی باتیں قائل کرنے والیہیں۔
    کچھ حقیقتیں تلخ ہوتیہیں لیکن انہیں ماننا بھی پڑتا ہے

    ReplyDelete
  6. آج سے تیس سال پہلے جو جنگ شروع ہوئی تھی اس کے کئی جواز ہوسکتے ہیں، اول تو یہ کہ ایک سپر پاور جو آپکے گرم پانی کی تاک میں تھی آپکے بلکل برابر میں آگھسی تھی، دوم اسکی افغانستان میں موجودگی پاکستان میں موجود دائیں بازو کی جماعتوں کو پی ڈی ایف اے خلق اور پرچم کے طرز کی کسی کاروائی پر اکسا سکتی تھی، ثوم افغانستان میں ایک دوست حکومت کا قیام میں مدد اور چہارم وسطی ایشاء کے مسلمانوں روس کی غلامی سے آزاد کرانا. اس جنگ میں پاکستان کے اندر کوئی بغاوت یا خانہ جنگی نہیں ہوئی اور نہ ہی جنگ مسلمانوں یا پاکستان کی کسی بھی طبقے کے خلاف تھی.
    تاہم نو اگیارہ کے بعد امریکہ کے آگے سر تسلم خم کرنے والے ملکی تاریخ کے بدترین حکمران پرویز مشرف کے اٹھائے گئے اقدام کا کوئی بھی جواز نہیں! اس جنگ میں تعاون پر پاکستانی حکمرانوں اور انکے حمایتیوں کا ایک ہی موقف تھا کہ امریکہ سے کسی فوری اور تباہ کن خطرے سے پاکستان کو بچانا ہمارا مطر نظر تھا، سب سے پہلے پاکستان کا نعرہ بھی اسی لئے دیا گیا، لیکن امریکہ کے آگے گھٹنے ٹیکنے اور اسکی چاکری کرنے کے باجود وہ آپکا نہیں ہوا اور جو کل امداد اس سے آپ کو ملی اس سے کہیں زیادہ آپکا نقصان ہوگیا جبکہ طالبان جو آپکے دوست اور مخلص تھے ان کی پیٹھ میں چھر گھونپ کر آپ نے انہیں اپنا دشمن بنالیا یہ سوچے سمجھے بغیر کے یہ وہ طالبان ہیں جنکے حامی سرحد کے اس طرف پاکستان میں کڑورں کی تعداد میں موجود ہیں.

    عثمان تمہاری بات سے متفق کہ پنجاب سمیت پورے پاکستان میں "شدت پسند" پھیلے ہوئے ہیں، تو حل کیا ہے، شدت پسندوں اور انکے نظریاتی حامیوں کی تعداد لاکھوں کڑوڑوں میں ہے تو کیا آپ ایک لاحاصل جنگ میں خود کو جھونک کر اس پوری شدت پسند عوام کے خلاف اپنی پوری فوج کو لگا دے گے، یا سب سے پہلے پاکستان کے اصول کو بروئے کار لاتے ہوئے مصالحت اور بقائے باہمی کے اصول کو اپنائیں گے. آخر امریکہ اور بھارت پر دس لاکھ سنگین نوعیت کے الزامات لگاکر جب آپ انکے سامنے بیٹھ سکتے تو پاکستان بچانے کے لئے اپنے ناراض بھائیوں کو کیوں نہیں مناسکتے.

    ReplyDelete
  7. کاشف نصیر صاحب، آپکے دلائل انتہائ معصومانہ ہیں۔ یہ وہ دلاءل ہیں جو اس وقت دائیں بازو کی سیاست کرنے والوں نے استعمال کئے۔
    حقیقت یہ ہے کہ امریکہ اور روس اس وقت دنیا کی دو سپر پاورز تھیں جو ایکدوسرے کے مد مقابل تھیں۔ انکے درمیان اسکا آغاز انیس سو پینتالیس کے درمیان ہوا۔ اس وقت دنیا دو پولز کے درمیان تقسیم تھی۔ اسکی وجہ یہ تھی کہ روس میں کمیونزم موجود تھا۔ امریکہ اور دیگر مغربی اقوام کمیونزم کے خلاف تھے۔ روس کا دنیا کی اور ریاستوں پہ بھی اثر تھا جہاں کمیونزم کے اثرات پائے جاتے تھے۔ یوں مغرب جو کمیونزم کو اپنی معیشت کے لئے خطرہ سمجھتا تھا وہ چاہتا تھا کہ روس کو نیست نابود کر دیا جائے۔
    جب پاکستان وجود میں آیا تو روس اور امریکہ دونوں ہی کی طرف سے دوستی کی آفرز موجود تھیں۔ لیکن اس وقت پاکستان نے نجانے کن وجوہات کے تحت امریکن بلاک میں جانا پسند کیا۔ بھارت نے روس سے قریبی تعلقات رکھے اور اس وقت وہ امریکہ سے بھی بہتر تعلقات میں ہے۔
    امریکہ نے انیس سو اناسی میں اپنی جنگ افغانستان میں لڑی۔ اسکے لئے پاکستان کو استعمال کیا گیا ۔ یہ کہہ کر کے اس پہ قبضہ کر لیا جائے گا۔ آج دنیا کے بیشتر ممالک کے درمیان معاشی اور تجارتی روابط ہوتے ہیں۔ اور اس طرح وہ ایک دوسرے کی بندر گاہیں استعمال کرتے ہیں۔ روس پاکستان پہ قبضہ نہیں کر پایا تو کیا اسکی معیشت ختم ہو گئ؟ اور اس وقت نیٹو کی سپلائ کے لئے امریکہ پاکستان کے پانی اور زمین دونوں کو استعمال کر رہا ہے اس وقت بھی وہ پاکستان کی زمین اور پانی استعمال کر رہا تھا۔ ہم نے روس سے تعلق نہیں رکھنا چاہا اور امریکہ کے قبضے میں اس وقت رہنا پسند کیا۔
    عوام کو جنگ ضروری ہے سمجھانے کے لئے پاکستان کے پانی اور جہاد کی کہانی آئ۔ اس وقت مذہبی جماعتوں نے بڑے جوش و خروش سے اس مقصد میں حصہ لیا۔ کیونکہ ضیاء الحق سجھتے تھے کہ مذہبی جماعتوں کو اس نکتے پہ خوب الو بنایا جا سکتا ہے۔
    کہتے ہیں ایک دفعہ شیر کو انسانی گوشت کی عادت پڑجائے تو پھر وہ اسکی ہی کوشش کرتا ہے۔ کوئ ایسا ثبوت لائیں جس سے یہ پتہ چلے کہ انیس سو اناسی کی جنگ ختم ہونے کے بعد امریکہ پاکستان سے چلا گیا تھا اور نائن الیون کے بعد دوبارہ آیا۔
    ناکامی ہوگی۔ میں بتا رہی ہون۔
    سرد جنگ کے متعلق مزید معلومات کے لئے یہ لنک دیکھیں۔
    http://en.wikipedia.org/wiki/Cold_War
    کیا روس کی رایستوں نے آپ سے درخواست کی تھی کہ انہیں غلامی سے آزاد کرایا جائے۔ کل آپ کہیں گے کہ امریکہ میں مقیم پاکستانیوں کی درخواست پہ امریکہ کے خلاف جہاد شروع کیا گیا۔
    افغانستان، میں کیا اب دوست حکومت ہے۔ قیام پاکستان کے بعد ہی سے افغانستان انڈیا کے بلاک میں زیادہ اور پاکستان کے بلاک میں کم تھا۔ اب بھی انہیں آپ سے کوئ دلچسپی نہیں۔ وہ مزاجاً پاکستان کی دیگر اقوام سے خاصے مختلف ہیں۔ آپ انہیں دوست بنانا چاہتے ہیں کیا وہ آپکو دوست بنانا چاہتے ہیں پھر آپ کیوں ان پہ مسلط ہونا چاہتے ہیں۔
    دنیا میں دو ملکوں کے درمیان بہتر تعلق تجارتی یا معاشی بنیادوں پہ استوار ہوتا ہے۔ آخر چین آپکا دوست ہے اسی بنیا پہ۔ ورنہ نہ وہ ایک مسلم ملک ہے نہ اس سے آپکی سرحد ملتی ہے۔
    عثمان آپکی بات کا جو جواب دیں گے وہ دیں گے۔ لیکن یہاں میں یہ کہنا چاہونگی کہ شدت پسند بھی بنیادی طور پہ دو طرح کے ہیں۔ ایک نظریاتی اور دوسرے عملی جنہوں نے ہتھیار اٹھائے ہوئے ہیں۔ نظریاتی شدت سپندوں سے نظریات پہ لڑا جا سکتا ہے لیکن وہ شدت پسند جو ہتھیار اٹھا چکے ہیں اور انہیں رکھنے کو تیار نہیں ان سے ہتھیار رکھوا کر ہی بات ہو سکتی ہے۔ انکی تعداد لاکحوں کروڑوں نہیں ہے چند ہزار ہونگے۔ ان میں سے بیشتر کسی کے اشارے پہ کام کرتے ہیں۔ جنگجوئ انکی فطرت ہے اور دوسرے انکی اس وحشیانہ فطرت کو استعمال کرتے ہیں۔ اس طرح سے اصل ٹارگٹس اور بھی کم ہو جاتے ہیں۔
    نظریاتی شدت پسندوں کو یہ تسلیم کروانا بہت ضروری ہے کہ جو وہ سوچ رہے ہیں اسکا نتیجہ ہماری نسلوں کی تباہی کے سوا کچھ نہیں ہے۔ کامیابی مرنے میں نہیں زندہ رہ کر ریس میں شامل رہنے میں ہے۔ مرنے کی خواہش رکھنا تو کم حوصلہ اور مایوس لوگوں کی نشانی ہے۔
    ہر جنگ مذاکرات کی میز پہ ختم ہوتی ہے۔ لیکن پہلے فریقین میں سے ایک کو تسلیم کرنا پڑتا ہے کہ وہ شکست خوردہ ہے۔ اگر ایسا نہ ہو تو جنگ شروع ہی کیوں ہو۔

    ReplyDelete
  8. یہ جملہ ہیں ،
    اس کا آغاز انیس سو پینتالیس کے درمیان ہوا۔ اس وقت دنیا دو پولز کے درمیان تقسیم تھی۔
    اسے اس طرح پڑھیں،
    امریکہ اور روس کے درمیان سرد جنگ کا آغاز انیس سو پینتالیس کے درمیان ہوا۔ اس وقت دنیا دو پولز کے درمیان تقسیم تھی۔

    ReplyDelete
  9. کاشف ،
    جن لوگوں نے پینتیس ہزار پاکستانی قتل کئے ، ان سے کیا کریں؟ ہاتھ ملائیں؟
    قاتلوں کو ہیرو سمجھنے والے پہلے قاتل کو قاتل اور مقتول کو مقتول تو تسلیم کریں۔ پھر مصالحت اور مباحثہ بھی ہوجائے گا۔

    ReplyDelete
  10. عنیقہ صاحبہ آپکا بنیادی مسئلہ یہ ہے کہ آپ خود کو عقل کل اور علم و فراست کا معمار سمجھتی ہوں، شاید اسی وجہ سے انتہائی سہولت سے مخالف رائے کو بلا کسی سوچ و بچار کے آسانی کے ساتھ مسترد کردیتی ہیں. یہی مسئلہ پاکستان میں اکثر نام نہاد پڑھے لکھے لگوں کو درپیش ہے۔
    انتہائی سیدھی سی بات تھی کہ اسی کی جنگ روس کے خلاف تھی یعنی ایک بڑی طاقت کے خلاف اور موجودہ بے مقصد جنگ غریب اور کمزور افغان قوم اور انکے پاکستانی حامیوں کے ساتھ لڑی جارہی ہے، کیا یہ فرق بھی آپکو سمجھانے کے لئے کوئی ریاضی کا فارمولا مرتب کرنا پڑے گا۔
    انسان جب خود کو طالب کی سطح پر رکھ کر علمی و جملہ بحث میں الجھاتا ہےہے تو اسے سیکھنے اور رائے کے ارتقائی عمل سے گزرنے میں آسانی کا سامنا کرنا پڑتا ہے، مگر جب وہ خود کو ایک عالم فاضل اور مفتی کا درجہ دیکر سامنے والے کی رائے کو غرور، حقارت اور تمسخر کے ساتھ مسترد کردیتا ہے تو اسکے علمی زوال کا آغاز ہوجاتا ہے، بدقسمتی سے یہی حال آپ کا ہے۔آپ اپنی پوری کوشش کرکے اپنے جوابات میں سائل کو نیچا دیکھانے اور سخت جملے معاملے اور تمسخر اڑانے کی پوری کوشش کرتی ہیں۔

    یاد رہے یہ میری طالبانہ رائے ہے، استادی کہیں نہیں ہے۔

    ReplyDelete
  11. یہ سب بکواس اور بیہودہ تھیوری ہے کہ روس کو گرم پانی چاہئیے تھا اسلئیے وہ پاکستان پر قبضہ کرلیتا، یہ دو ہاتھیوں کی جنگ تھی جس میں ضیاءالحق اور جماعت اسلامی جیسی جماعتوں نے پاکستان کو گھاس بنا دیا، اربوں ڈالر لے کر ان لوگوں نے معصوم بچوں کو جہاد کے نام پر مروا دیا، اچھے خاصے انسانوں کے خون منہ لگا دیا وہ انسان سے جانور بن گئے، جب تک امریکہ انہیں ڈالر دیتا رہا وہ اچھا تھا آج وہ ہی امریکہ جب اپنے دئیے ہوئے ڈالر سود سمیت ان کے پیٹ پھاڑ کر نکال رہا ہے تو امریکہ برا ہوگیا، یہود و نصارا ہمارے دوست نہیں ہوسکتے تو یہ بات انیس سو اسسی میں کیوں یاد نہیں آئی ان مذہب فروشوں کو؟ دوسری دلیل یہ دے رہے ہیں کے ایک مسلم ریاست کو کفار سے نجات دلوانی تھی۔ کوئی مذہب فروش مجھے اس بات کا جواب دے گا کے فلسطین میں آج تک کسی پاکستانی مذہب فروش جماعت نے کتنے مجاہدین بھیجے ہیں فلسطینی مسلمانوں کو کفار سے نجات دلوانے کے لئیے؟۔ وہاں کسی کی غیرت اور حمیت کیوں نہیں جاگتی ؟ اسلئیے کے فلسطین میں مسلمانوں کی مدد کے عوض ڈالر نہیں ملیں گے۔

    ReplyDelete
  12. Al-Qaida influence in army;

    http://www.atimes.com/atimes/South_Asia/ME27Df06.html

    ReplyDelete
  13. What others are saying;

    Take Pakistan's Nukes, Please
    http://www.foreignpolicy.com/articles/2011/05/24/take_pakistans_nukes_please

    ReplyDelete
  14. کاشف نصیر صاحب، آپکا اپنے بارے میں کیا خیال ہے۔ آپ اتنے دانا ہیں کہتیس سال سے امریکہ آپکے ملک کی بنیادوں میں بیٹھا ہوا ہے لیکن جس طرح مرغی کے انڈوں کی قیمتیں روز بدلتی ہیں اسی طرح آپ یہ سمجھا رہے ہیں کہ سن دو ہزار گیارہ کی مئ میں امریکہ ہمارے یہاں اس لئے موجود ہے۔
    تیس سال پہلے انہوں نے روس کو ختم کیا۔ دنیا کی واحد سپر پاور بننے کا مزہ اٹھایا۔ ساری دنیا میں بشمول انڈیا، پاکستان اور امریکہ دائیں بازو کو جنگ کا خبط رہتا ہے۔ یوں بھی امریکہ دنیا بھر میں اسلحے کا سب سء بڑا کاروبار امریکہ ہی میں ہے۔ آپ لوگ امریکن دشمنی کے نعرے تو بلند کرتے ہیں مگر امریکہ کے حالات نہیں جانتے اور نہ ہی امریکی فکر کی نفسیات سے واقف ہوتے ہیں۔
    آج وہ افغانستان میں اس لئے موجود ہے کہ وہ وہاں رہنے کے مزے سے واقف ہیں۔ انہیں اپنے عوام کو بھی اس میں مصروف رکھنا ہے۔ انکے اسلحے کی دوکانیں بھی اس سے چلتی ہیں۔ اور اس خطے یعنی جنوبی ایشیاء میں انکے موجود رہنے سے چین کے اوپر دباءو بھی رکھا جاسکتا ہے کہ وہ عالمی طاقت کے طور پہ سامنے نہ آ سکے۔
    شاید آپ اس بات سے واقف ہوں کے دنیا میں طاقت کا اور معیشت کا توازن مغرب سے نکل کر ایشیاء میں آ چکا ہے۔
    آج جو لوگ بہتر معیشت کی دوڑ میں آگے جا رہے ہیں وہ چین ہے، پھر انڈیا ہے۔ پاکستان کو تو ہمارے آپ جیسے جذباتی جہادی لوگوں نے مذاق بنایا ہوا ہے جو ایک طرف امریکہ سے دشمنی جتاتے ہیں دوسری طرف اسکے ہاتھ مضبوط کرتے ہیں۔
    اور یہ نہیں سوچتے کہ ہمیں پاکستان کی ترقی کے لئے سوچنا چاہئیے نہ کہ فرد واحد عنیقہ کی تنزلی کے لئے۔

    ReplyDelete
  15. فرض کریں:
    پاکستان سے تمام جہادی ختم ہوجاتے ہیں اور مزہبی سوچ بھی۔
    مدارس بند کردئے جاتے ہیں۔
    پردے اور داڑھی رکھنے پر جرمانہ بھی لگا دیا جاتا ہے۔
    تو آپ کے خیال میں کا ہوگا؟
    1۔ کیا پاکستان کے حالات بہتر ہوجائیں گے؟
    2۔ کیاپاکستان ترقی کرنے لگے گا اور کتنا عرصہ لگے ترقی میں
    3۔ کیا کرپشن کرنے والے شریف ہوجائیں
    4۔ کیا علیحدگی کی تحریک چلانے والے ریڑھی ٹھیلا لگا نا شروع کردیں گے؟
    5۔ کیا ڈرون حملوں میں مرنے والوں کے ورثا عام معافی کا اعلان کردیں گے؟
    6۔ کیا صوبہ خیبر پختونخواہ میں کی جانے والی شورش جس میں غیر ملکی ایجنسیز بھی شامل میں سب جوگی یا صوفی بن جائیں گے؟
    7۔ کیا پاکستان کو بڑی طاقتیں ایسے ہی چھوڑ دیں گی؟
    8۔ کیا انڈیا تمام ڈیم غیر فعال کردے گا جس سے آج ہماری زراعت موت کے منہ میں پہنچ چکی ہے؟
    9۔ کیا پاکستان کا دفاعی بجٹ آج کے تعلیم کے بجٹ کے برابر ہوجائے گا، اور تعلیم کا بجٹ آج کے دفاعی بجٹ کے پرابر۔
    اور
    ایک اہم بات کہ یہ جہادی تو 1980 سے پہلے کہاں تھے اور اس وقت کیا پاکستان پہلی دنیا میں شامل تھا۔
    اور دوسری اہم بات کہ یہ جہادی اور ملا کو تحریک دلانے والے کون تھے اور اب وہ کیاکر رہے ہیں۔
    کیا جہادیوں اور ملا کو ہی ختم کیا جانا چاہئے
    تو ان کا کیا ہوگا۔
    اور آخری اہم بات کہ یہ سب کرے گا کون؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟

    ReplyDelete
  16. خالد حمید صاحب، آپ جذباتی ہو گئے اور آپ نے ایک ساتھ اتنی باتیں کر ڈالیں جو ایکدوسرے کی متضاد ہیں۔ پہلے ان باتوں کو دیکھتے ہیں۔
    اگر پاکستان سے تمام مدارس اور مذہبی سوچ کو ختم کر دیا جائے۔ آپ ہی کی دلیل استعمال کروں تو انیس سو اسی سے پہلے بھی پاکستان میں قرآنی تعلیم مدارس میں دی جاتی تھی اور ملک میں مذہب پہ لوگ عمل در آمد کرتے تھے۔ کیا آپکا خیال ہے کہ لوگ آج انیس سو اسی سے پہلے کے مقابلے میں زیادہ مذہبی ہیں۔ اس کا جواب یہ ہے کہ لوگ اب پہلے سے زیادہ جاہل ہیں۔ آج لوں کی بڑی تعداد آپکو فتوے دیتی نظر آئے گی کہ ایک مسلمان کو کیا کرنا چاہئیے لیکن خود انکی باری آئے تو معذور۔ آج سے تیس سال پہلے اسی پاکستانی معاشرے میں برداشت کا کلچر تھا۔ جو اب نابود ہے۔
    پردے اور داڑھی پہ اس زمانے میں کوئ جرمانہ نہیں لگایا جاتا تھا۔ ہر ایک آزاد تھا جیسا دل چاہے کرے۔ آجکے پاکستان میں رستہ چلتا ایک انجان مرد بھی ایک عورت کو یہ کہنے میں کوئ عار محسوس نہیں کرتا کہ اسے پردہ کرنا چاہئیے۔ چاہے اس ساری تقریر کے دوران وہ اپنے بدن کو خوب اچھی طرح کھجاتا رہے۔
    سو اس وقت یہ مذہبی منافقت عام نہ تھی۔ کیونکہ کسی کو اس سے فرق نہیں پڑتا تھا کہ آپ مذہبی طور پہ کیسے ہیں۔
    پاکستان میں کہیں بھی علیحدگی کی کوئ مضبوط تحریک نہیں ہے۔ جس طرح مذہبی انتہا پسندوں پہ کوئ کنٹرول نہیں ہے اسی مٹھی بھر علیحدگی پسندوں پہ کوئ کنٹرول نہیں ہے ۔ جو مناسب سیاسی مشاورت سے قابو میں آجائیں گے۔ یہ دہشت پسندی کی طرح ہر سو نہیں پھیلے ہوئے۔
    درون حملوں میں ہلاک ہونے والے کے ورثاء اگر معافی کا اعلان نہیں کریں گے تو انہیں خودکش حملوں میں مرنے والوں کے ورثاء معاف نہیں کریں گے۔ ڈرون حملوں میں مرنے والوں کے مقابلے میں وہ کہیں زیادہ ہیں۔ سب کے سب بے گناہ ہیں جبکہ درون حملوں کے بارے میں ایک واضح رائے جو کہ پاکستانی اداروں کی ہے وہ یہ کہ مرنے والے زیادہ تر دہشت گرد ہیں۔ کسی بھی ملک میں حالات ہمیشہ سو فی صد نہیں رہتے۔ اس لئے یہ نہیں کہا جا سکتا کہ سو فیصدی سب صحیح ہو جائے گا۔ اسکے لئے اور اقدامات بھی کرنے ہونگے۔ لیکن اگر اسے درست نہ کیا گیا تو ہر قسم کا قدم بے کار ثابت ہوگا۔
    انیس سو اسی سے پہلے ہم اس راستے پہ تھے جہاں سے ترقی کی طرف دھیرا سفر جاری رہتا ہے جبکہ اسکے بعد سے ہم آگے کی طرف نہیں پیچھے کی طرف گئے ہیں۔ اور یہ تنزلی ہم اپنے معاشرے کی ہر سطح پہ دیکھ سکتے ہیں۔
    جہادی اور ملا کو تحریک دلانے والے کیا کر رہے ہیں ، عیش کر رہے ہیں عیش۔ اگر یہ سب نہ ہو تو امن کے دنوں میں انہیں پوچھے گا کون۔ امن میں ایسے لوگوں کی کیا اوقات ہوتی ہے۔ یہ جانتے ہیں آپ۔
    انڈیا، ڈیمز اور پانی اور جہاد ملا اور مجاہد کے درمیان کیا رشتہ ہے اسے واضح کریں گے آپ۔
    دفاعی بجٹ، اسی صورت میں کم ہوگا، جب ہم جنگ سے زیادہ اور چیزوں پہ توجہ دیں گے۔ آپکے خیال میں مجاہد اور ملا صاحب کے احترام سے یہ ممکن ہو گا کہ دفاعی بجٹ تعلیمی بجٹ کے مقابلے میں کم ہو جائے۔
    کیا آپ سمجھتے ہیں کہ جہاد اور ملا کی استقامت سے انڈیا سے پانی کا مسئلہ حل ہوگا۔
    کیا مجاہد اور ملا پاکستان کو ترقی کی راہ دکھائیں گے اور دکھا رہے ہیں۔
    کیا ملک سے جدید طریقہ ء تعلیم ختم کر کے مدارس کو رواج دینا چاہئیے۔
    کیا پردے اور داڑھی کے نفاذ کے لئے ایک علیحدہ محکمہ قائم کر کے اسکا بجٹ دفاعی بجٹ کے برابر رکھنا چاہئیے۔
    اور یہ تو ہمیں معلوم ہے کہ یہ سب کرے گا کون۔ چلیں اس قدم پہ ہم آپ سے آگے ہیں۔

    ReplyDelete
  17. خالد حمیدMay 27, 2011 at 4:49 PM

    مادام : یہی تو میں کہنا چاہ رہا ہوں کہ آج بھی علماء اور مدارس کا وہی کام ہے جو وہ اس وقت کر رہے تھے، لیکن عوام نے خود ہی اسلام کا عالم بننے کی کوشش میں اسلام کی شکل بگاڑ دی اور آج ہر شخص اسلام پر بحث بھی کرتا ہے اور فتوے بھی جاری کرتا ہے۔ اور نام بدنام علماء اور مدارس کا ہے کہ یہ معاشرے کو تباہ کر رہے ہیں۔ باقی میں نے نے دوسرے مسائل گنوائے تھے کے کیا وہ بھی ختم ہو جائیں گے ، اور وہ مسائل کیوں پیدا ہوے کیوں کہ یہ مسئلہ مدارس اور علماء کی وجہ سے ہوا ہے۔ اس بات کو تو زیر بحث کوئی لاتا ہی نہیں کہ تحریک دلانے والا کون تھا اور اس نے کس طبقے کے ذریعے تحریک دلوائی۔
    اور جہاں تک جذباتی ہونے کا معاملہ ہے تو میں پہلا جملہ ہی یہ لکھا تھا کہ " فرض کریں"
    ایسا کریں تو کیا ہوگا۔
    اور یہ پھر ہم سب اپنے معاشرے کے لئے پریشان ہیں کہ آخر اس کا حل کیا ہوگا، اور ہم کیسے اس معاشرے کو سہی کرسکتے ہیں، ویسے اس طرح کے حالات میں حکومت ہی سب سے بہترین حل مقرر کرسکتی ہے اور جلد از جلد مقام پر پہنچاسکتی ہے۔

    ReplyDelete
  18. Immu or deegar jihadi darlings kay leeay ju kehtay hain US chala jai tu sab theek hu jai ga;

    انہوں نے بتایا کہ ان کے حملہ آور اب صرف قبائلی علاقوں تک محدود نہیں بلکہ پاکستان اور پوری دنیا میں پھیل گئے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ اب تحریک طالبان پاکستان اتنی مضبوط ہوچکی ہے کہ اگر امریکہ افغانستان سے چلا بھی گیا تو وہ پھر بھی پاکستان میں اپنی کارروائیاں جاری رکھیں گے اور پاکستان میں اسلامی نظام نافذ کرنے تک لڑتے رہیں گے۔

    پاکستان کے ایٹمی اثاثوں کے بارے میں سجاد مہمند کا کہنا تھا کہ طالبان ان اثاثوں کے خلاف نہیں ہیں لیکن پاکستان جن ہاتھوں میں ہے ان غدار ہاتھوں سے ملک کو آزاد کرانا ہے۔ یہ ایٹمی اثاثے مسلمانوں اور اسلام کی امانت ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ان اثاثوں کو حاصل کر کے مسلمانوں کی حفاظت کے لیے استعمال کیا جائے گا۔

    http://www.bbc.co.uk/urdu/pakistan/2011/05/110526_taleban_new_strategy_ha.shtml

    ReplyDelete
  19. کسی جہادی نما فسادی کے پاس جواب نہیں ہے کہ امت مسلمہ کا درد رکھنے والے امت مسلمہ کو کفار سے نجات دلانے والوں کے دل میں فلسطین کے مسلمانوں کے لئیے درد کیوں نہیں اٹھتا؟ آج تک جماعت اسلامی، لشکر طیبہ جیش محمد، اور ایسے جتنے بھی دہشت گرد گروپ ہیں ان میں سے کتنے جانثار فلسطین گئے ہیں آج تک مسلمانوں کو یہودیوں کے ظلم و ستم سے نجات دلانے ؟۔ یہ سب ڈھکوسلہ ہے کے امت مسلمہ کو کفار سے نجات دلانے کے لئیے افغانستان وار میں حصہ لیا گیا تھا، سارا معاملہ صرف اور صرف ڈالروں کا ہے جہاں سے پیسہ ملتا ہے وہاں یہ کرائے کے قاتل اپنی خدمات پییش کرنے کے لئیے حاضر ہوجاتے ہیں، انہیں کونسا اپنے بچے مروانے ہوتے ہیں اپنے بچوں کو تو امریکہ اور یورپ میں تعلیم دلوانی ہوتی ہے جہاد پر مروانے کے لئیے غریب کے بچے ہیں نہ۔ اگر کاشف نصیر کے یہ دلیل مان لی جائے کے امت مسلمہ کو کفار سے نجات دلانے کے لئیے ان لوگوں نے معصوم لوگوں کو خونی بھیڑیا بنایا ہے، تو پھر فلسطین میں کیا عیسائی رہتے ہیں؟ فلسطین کے لئیے مجاہد کیوں نہیں بھیجے گئے آج تک ؟ ہے کسی کے پاس کوئی جواب؟۔

    ReplyDelete
  20. فوج اور آئی ایس آئی کا ایک حصہ دہشت گردی کے کینسر میں مبتلا ء ہے اور اس ناسور کو کاٹ کر پھینکے بغیر پاکستان کے حالات ہر گز سدھر نہیں سکتے!
    Abdullah

    ReplyDelete
  21. یہ بات بلکل غلط ہے کہ ڈرون حملوں میں مارے جانے والوں کی تعداد خودکش حملوں میں مارے جانے والوں کی تعداد سے کم ہے. پہلی بات تو یہ ہے کہ خود کش حملوں میں مارے جانے والوں کی صحیح تعداد معلوم کرنا کوئی مشکل نہیں البتہ ڈرون حملوں میں مرنے والوں کی صحیح تعداد کا اندازہ لگانا صرف ان لوگوں کے لئے ممکن ہے جو کہ ان حملوں سے بنر آزما ہیں۔
    قبائلی علاقوں میں موجود میرے کچھ قریبی دوستوں کے مطابق وہاں اب تک ڈرون حملوں سے تین سے چار ہزار اور افواج پاکستان کی وحشیانہ بمباری سے بیس سے پچیس ہزار لوگ جان کی بازی ہار چکے ہیں جبکہ ادھر شہروں میں خودکش حملوں میں ہزار سے کچھ اوپر عام لوگ شہید ہوئے ہیں جبکہ زیادہ تر خودکش حملے سلامتی سے متعلق اداروں پر ہوئے جنکے بارے میں قبائلیوں کا کہنا ہے کہ یہ اور انکے لوگ ہمیں ہمارے قبائل میں آکر ماررہے ہیں۔
    یاد رہے کہ امریکہ کے نزدیک اب تک لگ بھگ ایک ہزار ڈرون حملے ہوچکے ہیں جبکہ قبائلی اس تعداد کو نہیں مانتے۔

    ReplyDelete
  22. خالد حمید صاحب، اسلام کو آئے تقریبا ڈیڑھ ہزار سال کا عرصہ ہو چلا ہے۔ رسول اللہ کےت انتقلا کے بعد تین سو سال تک علماء نے جو کچھ کیا صحیح یا غلط۔ اسکے بعد ایم منادی کرادی گئ کہ اب کچھ نہیں ہو سکتا۔
    دنیا اتنی بدل چکی ہے کہ اب ہم بعض اسلامی قوانین کے متعلق بات تک نہیں کرتے۔ مثلا غلام اور لونڈی کا مسئلہ۔
    دلچسپ امر یہ ہے کہ قرآن اس سلسلے میں پابندی نہیں لگاتا کہ دین کو سمجھنے اور سمجھانے کا اکم صرف علماء کا ہے۔ پھر یہ پابندی اس وقت کیوں۔
    قرآن جسے رسول اللہ کا معجزہ قرار دیا جاتا ہے اسے سمجھنے اور سمجھانے کی ذمہ داری کیا نا چند لوگوں پہ عائد ہونی چاہئیے جو عربی پڑھ لکھ لیتے ہیں اسکے علاوہ انہیں باکل معلوم نہیں ہوتا کہ دنیا میں جدید علوم کس راستے پہ جا رہے ہیں انسان اپنے تدبر سے کیا دنیا دریافت کر چکا ہے اور اب اسکے اردے کیا ہیں۔
    ان تمام چیزوں سے نا آشنا لوگوں کو کیا علم قرآن کہنا چاہئیے۔ کم از کم میں ان علماء پہ یقین نہیں رکھتی۔ یہی وجہ ہے کہ ان علماء کی کھیپ نے پاکستان کو انتہا پسند جہادیوں کے علاوہ کچھ نہیں دیا۔ اس ساری زبوں حالی کا باعث ان علماء کے علاوہ کوئ نہیں۔ انہوں نے جدید علوم سے اپنے پیچھے رہ جانے کی شرمندگی کو ایک تہذیب سے نفرت اور اسے مٹا دینے کے انتقام میں بدل دیا ہے۔ کیونکہ گیہوں کے ساتھ گھن بھی پستا ہے اس لئے ہم سب ساتھ ہی پسے جا رہے ہیں۔
    ضرورت اس امر کی ہے کہ دینی سطح پہ ایسے تحقیقی ادارے قائم ہوں جہاں سائینس کی تعلیم کا بھی انتظام ہو۔ ایک عالم دین صرف قدیم علماء کے علم تک محدود نہ ہو بلکہ اسے جدید علوم پہ بھی دسترس ہونی چاہئیے۔ اور ان تحقیقی اداروں کا مقصد دین میں اجتہاد ہونا چاہئیے نہ کہ قرآن میں سے سائینس بر آمد کرنے کی ایک لغو کوشش۔

    ReplyDelete
  23. کاشف نصیر صاحب،
    پاکستن آرمی سے تعلق رکھنے والے میجر جنرل غیور محمود اپنی ایک بریفنگ میں اس چیز کی تردید کر چکے ہیں کہ ڈرون حملوں میں زیادہ سویلین مارے گئے ہیں۔ انہوں نے ایک بیان دیا جسکی اب تک کہیں سے کوئ تردید نہیں آئ کہ ڈرون حملے دہشت گردوں کو قابو کرنے میں خاصے مددگار رہے ہیں۔ انکے بیان کا ٹکڑا حاضر ہے۔

    In March 2011 the General Officer Commanding of 7th division of Pakistani Army, Major General Ghayur Mehmood delivered a briefing "Myths and rumours about US predator strikes" in Miramshah. He said that most of those who were killed by the drone strikes were Al-qaeda and Taliban terrorists. Military’s official paper on the attacks till 7 March 2011 said that between 2007 and 2011 about 164 predator strikes had been carried out and over 964 terrorists had been killed. Those killed included 793 locals and 171 foreigners. The foreigners included Arabs, Uzbeks, Tajiks, Chechens, Filipinos and Moroccans.
    اسکے علاوہ مختلف اور ذرائع سے یہ بات کہی جاتی رہی ہے کہ وزیرستان کے لوگ خود طالبان اور القاعدہ سے نجات چاہتے ہیں ۔ حتی کہ اکثر ڈرون حملے مقامی لوگوں کی مدد سے ہوئے ہیں۔ مجھے حیرت ہے کہ آپ ایک گمنام قبائلی کی اس بات کو اہمیت دے رہے ہیں کہ وہ پاکستانیوں کو اس لئے مار رہے ہیں کہ وہ مارنے والوں کا ساتھ دیترے ہیں۔ مگر وہ القاعدہ اور طالبان کے دشمنوں پہ براہ راست حملہ نہیں کرتے۔ حالانکہ وہ اس ملک میں ہزراوں کی تعداد میں موجود ہیں۔ اور اگر وہ انہیں نشانہ بنائیں تو ہم دیکھتے ہیں کہ کیسے وہ یہاں سے واپسی کا راستہ نہیں لیتے۔
    اگر تیس پینتیس ہزار بے گناہ عام پاکستانیوں کے بجائے اتنے امریکی پاکستان میں مارے جاتے تو آپ کا کیا خیال ہے امریکہ اپنی جان بچانے کے لئے کیا کرتا۔
    خود کش حملوں میں مارے جانے والے لوحقین سے بھی کچھ پوچھیں وہ تو وزیرستان میں نہیں رہتے۔ ذرا سی کوشش کریں تو آپ کو بآسانی مل جائیں گے۔
    آپ لوگ جو انکی حمایت اتنی کرتے ہیں ریلیاں نکال کر ان سے کیوں نہیں کہتے کہ ہمارے مسلم بھائیوں ہتیار پھینک دو۔ اپنے بھائیوں کو مارنے کے بجائے اس راستے پہ چلنے کے لئے ہمارا ساتھ دو جس میں ہم سب کی فلاح ہے۔
    انکا جواب پتہ ہے کیا ہوگا؟ وہ کہیں گے تمہارا راستہ دنیا کا راستہ ہے اور ہمارا اللہ کا۔
    میں ان پاکستانیوں میں ہوں جو امریکہ کو اس ملک کے لئے ناسور سمجھتے ہیں مگر میں یہ بھی جانتی ہوں کہ اگر وہ افغان جنگ ختم کر کے یہاں سے چلے جائیں تو بھی پاکستان کی جان طالبان سے نہیں چھٹنے والی کیونکہ نیا پاکستان، آدھا طالبان۔

    ReplyDelete
  24. http://www.jang.com.pk/jang/may2011-daily/28-05-2011/col1.htm

    ReplyDelete
  25. پاکستان کی سیاسی صورتحال کا سائنسی تجزیہ... الطاف حسین…بانی و قائد ایم کیو ایم

    یہ بڑی بدقسمتی کی بات ہے کہ پاکستان کے قومی ادارے ناسور (Gangrene) اور ایڈز کے امراض سے متاثر ہوچکے ہیں لیکن پورے جسم کو بچانے کے لئے ناسور سے متاثرہ حصہ کو جسم سے الگ نہیں کیا جا رہا ہے جس کے باعث یہ مرض جسم کے باقی حصوں میں بھی پھیل رہا ہے ۔ دوسری جانب ہمارے قومی اداروں کا مدافعتی نظام ایڈز کے مرض کے باعث اس قدر کمزور ہو چکا ہے کہ ہر چھوٹی بڑی بیماری حملہ آور ہو رہی ہے۔
    جو لوگ یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ قومی اداروں میں ناسور کا سبب بننے والے ہمارے جسم کا حصہ ہیں، گمراہ ہیں اور انہیں قائل کر کے راہِ راست پر لایا جا سکتا ہے تو وہ لوگ غلط ہیں ۔ ایسے لوگ اس امر سے لاعلم ہیں کہ قومی اداروں کو مکمل تباہی سے بچانے کا ایک ہی راستہ ہے کہ ناسور سے متاثرہ حصہ کو جسم سے علیحدہ کر دیا جائے ۔ اس وقت قومی اداروں کا60% حصہ ناسور کے مرض کا شکار ہے اگر 60% حصہ کو جسم سے الگ نہ کیا گیا تو باقی ماندہ 40%حصہ بھی اس مرض کی لپیٹ میں آجائے گا ۔ اگر ناسور کا شکار پیر جسم سے کاٹ دیا جائے تو ہم لنگڑا کر چل سکتے ہیں مگر ہمارا جسم سلامت رہے گا۔ اس کے علاوہ اس مسئلے کا کوئی حل موجود نہیں ہے ۔ اب قومی اداروں کے سربراہان کو فیصلہ کرنا ہے کہ وہ پورے ادارے کو ناسور سے متاثرہ چند حصوں سے بچانا چاہتے ہیں یا پورے ادارے کو تباہ کرنا چاہتے ہیں۔ گزشتہ دنوں چند دہشت گردوں نے پاکستان کے قومی دفاعی نظام کو چیلنج کیا اور کراچی میں واقع مہران نیول بیس میں داخل ہو کر اس ادارے کی حفاظت پر مامور 1100سپاہیوں کو للکارا لیکن مدافعتی نظام کی کمزوری کے باعث یہ 1100 سپاہی اس قابل بھی نہیں تھے کہ فوری طور پر ان دہشت گردوں کے خلاف کارروائی کرتے۔ یہ سوال قابلِ غور ہے کہ اگر ہمارا قومی دفاعی نظام مٹھی بھر دہشت گردوں کو نہیں روک سکا تو وہ ملک و قوم کو کسی غیر ملکی مداخلت سے کیونکر محفوظ رکھ سکتا ہے؟
    وقت کا تقاضا ہے کہ قومی اداروں کو ناسور اور ایڈز جیسے امراض سے بچانے کے لئے طاقتور ادویات سے علاج کیا جائے جس طرح ایران میں کیا گیا ہے۔ کیا ہم یہ چاہتے ہیں کہ ہم اندھیرے میں رہیں اور یہ امراض بڑھتے بڑھتے پورے جسم کی موت کا سبب بن جائیں۔ اگر جسم کے 60%حصے کو قربان کر کے 40% حصے کو بچایا جا سکتا ہے تو بلا تاخیر متاثرہ حصے کو جسم سے علیحدہ کر دیا جائے اور اس سلسلے میں اگر بے رحمانہ ایکشن لینا بھی پڑے تو اس سے گریز نہ کیا جائے ۔

    http://search.jang.com.pk/details.asp?nid=532285

    Abdullah

    ReplyDelete

آپ اپنے تبصرے انگریزی میں بھی لکھ سکتے ہیں۔
جس طرح بلاگر کا تبصرہ نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں، اسی طرح تبصرہ نگار کا بھی بلاگر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اس لئے اپنے خیال کا اظہار کریں تاکہ ہم تصویر کا دوسرا رخ بھی دیکھ سکیں۔
اطمینان رکھیں اگر آپکے تبصرے میں فحش الفاظ یعنی دیسی گالیاں استعمال نہیں کی گئ ہیں تو یہ تبصرہ ضرور شائع ہوگا۔ تبصرہ نہ آنے کی وجہ کوئ ٹیکنیکل خرابی ہوگی۔ وہی تبصرہ دوبارہ بھیجنے کی کوشش کریں۔
شکریہ