Monday, May 9, 2011

یاد کا جادو

ہمارے گھر کے مسائل کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ اس پہ جنات کا سایہ ہے'۔ 'تو آپ اسے بدل کیوں نہیں دیتے'۔ نجمہ خالہ نے اپنے ماموں کی اس بات کو جیسے کسی گنتی میں ہی نہیں رکھا۔ 'ارے بھئ، ہمارے دادا کا گھر ہے وہ۔ اب اس میں ہماری چوتھی پشت رہ رہی ہے'۔ ماموں نے انہیں یاد دلانے کی کوشش کی۔ 'ائے چھوڑیں، ہردوسرا شخص کسی بیماری کا شکار ہے ہر تیسرا شخص ذہنی طور پہ بیمار ہے چوتھی پشت رہ رہی ہے۔ پانچویں پشت باقی بچے گی تو رہے گی۔ ہمیں دیکھیں، تیس سال کے عرصے میں چار گھر خریدے اور ان میں رہے پھر بدل دئیے'۔  خالہ نے پرس میں اپنا موبائل فون تلاش کرتے ہوئے کہا۔
'یہ جائیداد کا خریدنا بڑا مشکل کام ہے'۔  ماموں نے جان چھڑانی چاہی۔ 'ماموں آپ یہ کیا کہہ رہے ہیں ۔ میں ایک عورت ہوں، شوہر کے انتقال کو بھی سترہ سال ہو گئے۔ انکے بعد بھی دو گھر میں نے  یکے بعد دیگرے خریدے۔ انہیں تلاش کیا، اس چکر میں اسٹیٹ ایجنٹس کے ساتھ درجنوں گھر دیکھے۔ پھر جا کر پسند آئے۔ اسکے بعد وہاں جانے سے پہلے انکی مرمت، رنگ و روغن اور ان میں کچھ تبدیلیاں بھی کرائیں۔ یہ سب کام میں نے اکیلے کیا'۔ خالہ نے فخر سے کہا۔ 'کرنے پہ آئے تو انسان کیا نہیں کر سکتا'۔ میں خاموشی سے گفتگو سنتی رہی۔ خیال تھا کہ بات کسی طرح گھوم کر جنات پہ پہنچے گی۔ اور ہم جان سکیں گے کہ اس گھر میں جنات کا کیسے پتہ چلا؟ وہ کیا کرتے ہیں؟ کس نے انہیں دیکھا؟ اور یہ سارے مصائب انکی وجہ سے کیوں ہیں؟؟؟؟؟؟
یہ خالہ ہماری سگی خالہ نہیں۔ بس ہماری اماں سے کچھ بچپن کی دوستی کا تعلق  ہے۔ سو ہمارے بچپن میں بھی ساجھا کر لیا ۔
تو تم بڑی عقلمند سمجھتی ہو اپنے آپکو'۔ ماموں نے ایک بھولپن سے اپنی بھانجی سے کہا۔
اس مرحلے پہ کسی نے گفتگو کا رخ موڑ دیا۔ 'ہماری اماں کا انتقال ایک سو سات سال کی عمر میں ہوا'۔ ماموں نے کچھ سوچتے ہوئے کہا۔ بس اب میری باری تھی۔ جنات ہاتھ نہیں آئے تو کیا ہوا عمر کا حساب بھی کچھ کم نہیں۔ 'ایسے کیسے ہو سکتا ہے؟'  'ہاں آپ لوگوں کو کیسے یقین آ سکتا ہے آپ نے انہیں کہاں دیکھا؟ پھر آجکی نسل کو ایسی باتوں پہ یقین کہاں آتا ہے' 'میں نے انہیں دیکھا تھا۔ اپنے بچپن میں، وہ ایک بہت کام کاجو خاتون تھیں'۔ میں نے نکتہ ء اعتراض کو واضح کرنے کی کوشش کی۔ 'پہلی دفعہ لکھنوء سے پاکستان آئیں تو گھر بھر کی رضائیاں کھلوا کر بیٹھی ہوئیں تھیں۔ اتنی تندرست اور صحیح تھیں کہ  خود بیٹھی ان میں ڈورے ڈال رہی تھیں یا ڈلوا رہی تھیں۔ میں تو یقین نہیں کر سکتی کہ وہ ایک سو سات سال کی تھیں'۔
ہم ہیں ان کے بیٹے اور بتا رہ ہیں کہ ایک سو سات سال کی تھیں۔ ہم صحیح ہوں گے یا آپ'۔ وہ اپنے دھیمے لہجے میں گویا ہوئے۔
انکی سب سے بڑی بیٹی یعنی خالہ کی امی کی عمر اس وقت پچھتر سال کے قریب ہے۔  آپکی امی یعنی خالہ کی نانی ، انکی شادی میں نے سنا ہے کہ اس وقت کے مروجہ طریقے کے مطابق چودہ پندہ سال کی عمر میں ہو گئ تھی۔ اب اگر آپکی امی زندہ ہوتیں تو زیادہ سے زیادہ نوے سال کی ہوتیں۔ اب جبکہ انکے انتقال کو پانچ سال ہو گئے ہیں میرا اندازہ ہے کہ انکی عمر پچاسی سال ہوگی'۔ میں نے حساب کتاب کے تیز رفتار گھوڑے دوڑا دئیے۔
یہ تم سے کس نے کہا کہ انکی بیٹی کی عمر اس وقت پچھتر سال ہے۔ وہ میری بہن ہیں۔ مجھ سے پندرہ سال بڑی۔ میں اس وقت پچھتر سال کا ہو چکا ہوں۔ ماموں نے ایک اور اعتراض کیا۔
لیجیئے جناب عمر کا ایک نیا چکر شروع ہوا۔ میں نے کہا خالہ آپکی بھانجی ہیں۔ یہ لوگ سن چونسٹھ میں پاکستان آئے ہیں ۔ خالہ کی امی یعنی آپکی بڑی بہن کہتی ہیں کہ جس وقت وہ یہاں آئیں تو آپ گیارہ بارہ سال کے تھے۔ اب یہ بات تو ہم نے اتنی تسلسل سے سنی ہے کہ  غلط نہیں ہو سکتی' ۔ تائید کے لئے میں نے انکی بھانجی اور بڑی بہن کی طرف دیکھا ان لوگوں نے گردن ہلائ، تائید میں۔' اب آپ بتائیے ، اگر آپ اس وقت پچھتر سال کے ہیں تو سن چونسٹھ میں آپکی عمر، ایک سادہ سے حساب سےپچیس سال کے قریب بنتی ہے۔ پھر تو آپکو ہر چیز  خاصی  یاد ہونی چاہئیے'۔
ماموں ، میری شکل دیکھنے لگے۔ بہن کی ہجرت کے حوالے سے انکا خاکہ زیادہ واضح نہیں تھا۔ یہ بات تو ماننی پڑتی کہ ایک پچیس سال کے شخص کو یہ چیزیں درستی سے یاد ہوں۔ خاص طور پہ اپنی بڑی بہن کے متعلق۔' نہ آپ پچھتر سال کے ہیں اور نہ آپکی امی کا انتقال ایک سو سات کی عمر میں ہوا۔ آپکی عمر اس وقت ساٹھ سال کے قریب ہے، آپکی بڑی بہن پچھتر سال کی اور امی کا انتقال پچاسی سال کی عمر میں ہوا'۔
بڑی عجیب خواتین ہیں آپ۔  یہ کراچی میں گندم کہاں سے آتا ہے؟'۔ یہ کہہ کر ایک بھولپن سے مسکرانے لگے۔ شاید سوچ رہے ہوں کہ عمر رفتہ کا حساب تو بڑا آسان ہے پھر ہم کاہے کو ایک گورکھ دھندے میں پھنسے رہے۔
دو ہفتے بعد میں نے سنا کہ واپس جا رہے ہیں اپنے وطن بھارت۔ 
سوچا ایک دفعہ پھر ملاقات کی جائے۔ ایک دفعہ پھر اسی کمرے میں لیکن اس دفعہ مختلف لوگ بیٹھے تھے۔ گفتگو کچھ ماضی اور مستقبل کے دو نہ چھونے والے دائروں میں گھوم رہی تھی۔ کبھی چھلانگ کر اس طرف کبھی چھلانگ لگا کر اس طرف۔ ایسے میں اسے حال کے کرداروں کی انگلی پکڑنی پڑتی۔ ماموں نے ایک آہ بھری۔ 'پینتالیس سال ہو گئے ہماری بہن کو ادھر آئے تو ہم پہلی دفعہ آنے میں کامیاب ہوئے۔ اب دیکھیں آ پاتے ہیں یا نہیں'۔ 'ارے نہیں صاحب، خدا آپکو لمبی عمر دے۔ سنا ہے آپکی والدہ  نے بھی کافی لمبی عمر پائ تھی'۔
اسی بچوں جیسی سادگی سے کہنے لگے، 'جی ہاں ماشاءاللہ ایک سو سات سال کی عمر میں انتقال ہوا انکا'۔
وہ جھوٹ نہیں کہہ رہے تھے۔ یادداشت کے طلسم ہوش رُبا میں کہیں کہیں انسان پتھر کا ہو جاتا ہے۔ نہ اس سے آگے دیکھ پاتا ہے نہ پیچھے۔

6 comments:

  1. درستگی نہیں، درستی

    ReplyDelete
  2. ہمارے طالب علمی کے زمانہ ميں محلے کی ہر خاتون ہماری خالہ تھيں اور ہر مرد ہمارے چچا ۔ اب اگر ہوں بھی تو انکل اور آنٹی ہوتے ہيں ۔ ميں نے غلط تو نہيں کہا نا

    بڑی ہمت کی بات ہے کہ صاف جنات کا سايہ کہہ ديا ورنہ کہا جاتا ہے "اس گھر ميں کچھ ہے"۔
    يہ کہانی ہمارے ملک ميں عام پائی جاتی اور شايد ہر شہر ميں اس بيماری کا جتنا زور ہے کسی اور بيماری کا نہيں ہے ۔
    آپ سوچ رہی ہوں گی کہ ميں جنات ميں شايد يقين نہيں رکھتا ۔ جنابہ ۔ جس کا ذکر قرآن شريف ميں ہے اُس پر يقين نہ کرنا مسلمان کا کام نہيں ۔ بات يہ ہے کہ يہ جن ہماری طرح فارغ تو بيٹھے نہيں ہيں کہ ہر کسی کی ناک ميں دھوآں ديتے پھريں ۔ ماہ ڈيڑھ ماہ پچھے ايک مجھ سے کچھ سال چھوٹے ايک صاحب تشريف لائے ۔ سنجيدہ لگ رہے تھے ۔ کہنے لگے "ہمارے اُوپر والے کمرے ميں کچھ ہے" ۔ ميں نے پوچھا "کيسے معلوم ہوا ؟" کہنے لگے کہ "وہ کمرہ پچھلے دس بارہ سال سے بند ہے ۔ اسے کھولا تو قالين کسی کے چلنے کی وجہ سے گھِس گيا ہے"۔ ميں نے کہا "بند رہنے کی وجہ سے کوئی کيڑا اپنا کام دکھا گيا ہے ۔ اس کمرے کو کھلا رکھا کيجئے" ۔

    اللہ ان لوگوں کو عقلِ سليم عطا فرمائے اور اس کے استعمال کرنے کا طريقہ بھی سمجھائے

    ReplyDelete
  3. گمنام، میں نے فیروز اللغات سے دیکھ کر آپکی بتائ ہوئ تصحیح شامل کر دی ہے۔ اگرچہ میں اب بھی اسے کسی اور لغت میں بھی دیکھنا چاہونگی۔ توجہ دلانے کا شکریہ۔
    افتخار اجمل صاحب، میری چارسالہ بیٹی تو اب بھی خالہ ہی کہتی ہے۔ باقی جو لوگ جو پسند کرتے ہیں وہ کہلواتے ہیں۔ مثلاً ہمارے ایک دوست چاہتے ہیں کہ ان کا نام لے تو ان کا نام لیا جاتا ہے۔ کچھ دوستوں کا خیال ہے کہ ماموں نہیں کہنا چاہئیے۔ انہیں ماموں نہیں کہتی۔ کچھ چاچو ہیں۔ کچھ بڑے ابا کوئ چھوٹے ابا۔ بہت ساری خالائیں، تھوڑی پھپھوز۔ کچھ کے نام میں ، میں نے کچھ انتقامی کارروائ رکھی ہے۔ بس بہت ہی اجنبی لوگ بچ جاتے ہیں جو انکل اور آنٹی کے ضمن میں آتے ہیں۔
    اردو میں رشتوں کے نام کم نہیں اور سرمایہ ء ایجاد تمنا ہو تو پھر کیا بات ہے۔

    ReplyDelete
  4. یعنی خالہ کے ایک ماموں ہیں۔ جو ساٹھ سال کے ہیں۔
    خود خالہ کو بیوہ ہوئے سترہ برس بیت گئے۔
    خالہ کیا اپنے ماموں کی ہم عمر ہیں ؟ نہیں نہیں .. یہ نئیں ہوسکتا .. چلو خالہ کی عمر چالیس کرلیں۔ لیکن یہ خالہ تو آپ کی خالہ ہیں۔ تو اس حساب سے آپ کی عمر ہوئی بیس سال۔ پی ایچ ڈی آپ نے سپر گرل کی پیدائش سے پہلے کی ہوگی۔ مطلب کے سولہ سال کی عمر میں۔ یعنی آٹھ برس کی عمر میں آپ نے ایف اے کا امتحان دے ڈالا۔ چھ برس کی عمر میں میٹرک کیا۔ یعنی پیدا ہوتے ہی آپ چوتھی کلاس میں تھیں۔
    اب میں ٹھہرا آپ کا شاگرد ..اب میں سوچ رہا ہوں کہ میری عمر کتنی ہے؟
    یہ تو لگتا ہے کہ جادو کا اثر ہوگیا۔

    ReplyDelete
  5. عثمان، بہت دن ہو گئے ناں آپکو پاکستان چھوڑے ہوئے۔ اول وہ میری سگی خالہ نہیں ہیں۔ یہ ایک کہانی پڑھتے ہوئے آپ نے بہت اہم نکتہ مس کر دیا۔ دوئیم جب خواتین کی شادیاں چودہ پندرہ سال کی عمر میں ہو جائیں تو یہ ایسا ہوتا ہے کہ ماں اور بچوں کے بچے ساتھ ساتھ ہو رہے ہوتے ہیں۔ اکثر بھانجہ بھانجی یا بھتیجا بھتیجی اپنے ماموں ، خالاءووں اور پھوپھیوں اور چچاءوں سے بڑے ہوجاتے ہیں۔ اس لئے سگے خالہ بھانجی کے رشتے میں خالہ کا بھانجی سے بڑا ہونا بالکل ضروری نہیں۔
    امید ہے یہ جادو تو زائل ہو گیا ہوگا۔
    :)

    ReplyDelete
  6. آپ نے اچھا لکھا ہے اور عثمان کا تبصرہ بھی کافی دلچسپ ہے ۔

    ReplyDelete

آپ اپنے تبصرے انگریزی میں بھی لکھ سکتے ہیں۔
جس طرح بلاگر کا تبصرہ نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں، اسی طرح تبصرہ نگار کا بھی بلاگر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اس لئے اپنے خیال کا اظہار کریں تاکہ ہم تصویر کا دوسرا رخ بھی دیکھ سکیں۔
اطمینان رکھیں اگر آپکے تبصرے میں فحش الفاظ یعنی دیسی گالیاں استعمال نہیں کی گئ ہیں تو یہ تبصرہ ضرور شائع ہوگا۔ تبصرہ نہ آنے کی وجہ کوئ ٹیکنیکل خرابی ہوگی۔ وہی تبصرہ دوبارہ بھیجنے کی کوشش کریں۔
شکریہ