Thursday, May 5, 2011

آج یا کبھی نہیں؟

کل پہلی دفعہ جیو چینل پہ کامران خان کی زبانی سنا کہ اب وقت آگیا ہے کہ ہم پاکستانی دہشت گردی اور انتہا پسندی کے خلاف اٹھ کھڑے ہوں۔ آج یا کبھی نہیں۔ 
یہ وہی چینل ہے جو انتہا پسندوں کو ہیرو بنانے کا شاید ہی کوئ لمحہ ضائع جانے دیتا ہو۔ ایک طرف امن کی آشا اور دوسری طرف انتہا پسندوں کی بھاشا۔ میڈیا نے انتہا پسندی کو پھیلانے میں بڑی سرگرمی سے کام کیا۔ اور اب وہی اپنے اوپر لگے اس دھبے کو دھو سکتے ہیں۔
خیر، دیر آید درست آید۔ کامران خان کہتے ہیں کہ اب ہمیں سوچنا چاہئیے کہ دنیا بھر میں جہاں کہیں بھی دہشت گردی کی بڑی کارروائ ہوتی ہے ایسا کیوں ہوتا ہے کہ دہشت گرد کا تعلق یا تو پاکستان سے ہوتا ہے یا پھر وہ پاکستان سے پکڑا جاتا ہے۔
اسکی وجہ بالکل سامنے ہے اور وہ یہ کہ دنیا بھر میں پائے جانے والے سینتالیس کے قریب اسلامی ممالک میں پاکستان وہ واحد ملک ہے جہاں پہ عوام ان انتہا پسندوں اور دہشت گردوں کی حمایت کے لئے کمر بستہ ہے۔ یقین نہ ہو تو پچھلے چار مہینے کی بلاگستان کی پوسٹس اٹھا کر دیکھ لیں۔ خاص طور پہ سلمان تاثیر کے قتل کے بعد تحاریر اور انکے تبصرے۔
ہر دہشت گرد اور انتہا پسند ہمارا ہیرو۔ ہم اسکے پیش کئے گئے نظرئے پہ جان دینے اور لینے کو بے قرار۔ جب وہ بم مار کر درجنوں لوگوں کو ایک ساتھ موت کی نیند سلا دیتا ہے تو اول ہمیں یقین نہیں آتا کہ یہ ہمارے ہیرو کے کسی ساتھی نے کیا ہوگا یقیناً کسی نے اسے پھنسایا ہوگا۔ اور اگر دنیا کے دباءو پہ ہم یقین کر لیں تو ہم انا لللہ پڑھ کر دعا کرتے ہیں کہ  اللہ اسکی مغفرت کرے۔ جب وہ کسی کو قتل کر کے سرخرو ہوتا ہے تو ہم اس کا مقدمہ لڑ کر اسے رہا کرانے کو بےتاب۔ جب وہ کسی اور ملک میں گرفتار ہو تو ہم سجدے میں  کہ خدا کوئ چمتکار دکھائے اور وہ رہا ہو جائے۔ آخر کسی دہشت گرد اور انتہا پسند کو کیا چاہئیے۔  یہی عقیدت اور غیر مشروط محبت و وفاداری۔ جس میں دُھت ہمیں یہ خیال تک نہیں آتا کہ تین سال میں تین ہزار سے زائد پاکستانی امریکیوں کے ہاتھوں نہیں انہی 'محبوبوں' کے ہاتھوں زندگی سے محروم ہوئے۔ ہمارے مستقبل کے متوقع حکمراں عمران خان بھی ڈرون حملوں کے لئے اٹھ کھڑے ہوتے ہیں مگر ان خود کش بمبار کے لئے کوئ ریلی نہیں نکالتے۔
لیکن دنیا ہمارے بارے میں کیا سوچتی ہے؟ آئیے اسکے لئے ایک کہانی کے آخری دو صفحات پڑھتے ہیں۔ کہانی کے لکھنے والے ہیں ڈاکٹر شیر شاہ سید۔ ڈاکٹر صاحب پاکستان کے ایک مایہ ناز گائیناکولوجسٹ  ہی نہیں ان لوگوں میں ہیں جنہوں نے پاکستانی خواتین کی فلاح بہبود کے لئے اپنی زندگی کو ایک مشن بنایا ہوا ہے۔ اگر عمران خان کو شوکت خانم ہسپتال  بنانے اور چلانے پہ پاکستان کی حکمرانی پیش کی جا سکتی ہے تو مجھے یقین ہے کہ ڈاکٹر شیر شاہ بھی اسکے مضبوط امیدوار ہو سکتے ہیں۔
انکی گوناگوں خوبیوں میں ایک خوبی ایک اچھا ادیب ہونا بھی ہے۔ انکی کہانیوں کے کئ مجموعے منظر عام پہ آچکے ہیں۔ یہ صفحات  انکے تازہ ترین مجموعے 'دل نے کہا نہیں' کی کہانی  'نفرت کی تصویر'  سے لی گئے ہیں۔
ڈاکٹر شیر شاہ کا کہنا ہے کہ اس مجموعے کی تمام کہانیاں حقائق سے جڑی ہوئ ہیں۔ اور نرا فکشن نہیں ہیں۔ تمام کہانیاں ہمارے آجکے پاکستان سے تعلق رکھتی ہیں۔ کتاب کے پبلشر ہیں شہر زاد اور قیمت ہے دو سو روپے۔
یہ دو صفحات حاضر خدمت ہیں۔
بہتر طور پہ پڑھنے کے لئے تصویر کو کلک کریں۔
 

40 comments:

  1. کہیں پردے کا رونا ہے اور کہیں بیپردگی کا ۔
    اس افسانے میں ( جتنا کہ شیئر کیا گیا ہے ) تو منزل کے مل جانے کا رونا محسوس ہو رہا ہے جی ۔
    کوئی ہنس بھی رہا ہو تو روتا ہوا محسوس کیا جاسکتا ہے جی ۔

    ReplyDelete
  2. بی بی ۔ ابھی ہم فارغ نہيں ہيں ۔ ہمارے من پسند رہنماؤں نے ابھی وزارتوں کے مزے لوٹنے ہيں ۔ اپنے اثاثوں ميں اضافے کے ہدف حاصل کرنا ہيں ۔ ابھی ہم نے ان عوام دوستوں کو ۔ انہی حق پرستوں کو ۔ انہی خدائی خدمتگاروں کو ايک بار پھر ووٹ دے کر مسندوں پر بٹھانا ہے تاکہ وہ اپنے اہداف پورے کريں پھر ہم فتح کے جلوس نکاليں گے نعرے لگائيں گے

    اور

    بھيک مانگيں گے

    ميرا اللہ ۔ کم از کم مجھے اُس دن سے قبل اُٹھا لے

    آپ سوچ رہی ہوں گی کہ ميدان لگنے سے پہلے ہی بھاگ گيا ۔ اور کيا کروں ؟ ايک سال نہيں دو سال نہيں پورے 26 سال آگے لگ کے جد و جہد کی اپنے مستقبل اور اپنی جان کو ايک بار نہيں بار بار داؤ پر لگايا ۔ نتيجے بھی حاصل کئے ۔ اپنے لئے نہيں دوسروں کيلئے ۔ خرچے اپنی جيب سے کئے کسی سے چندہ نہ ليا ۔ جن لوگوں کيلئے کاميابی سے کام کيا ہر بار اُنہوں نے ہی ميری پيٹھ ميں چھُرا گھونپا ۔ ان ميں پی پی پی والے بھی شامل ہيں ۔ مسلم ليگ والے بھی ۔ ايم کيو ايم والے بھی ۔ جماعتِ اسلامی والے بھی ۔ اے اين پی والے بھی ۔ اپنے آپ کو امن پسند کہنے والے سياست کے دُشمن بھی

    يہ لوگ جاہل يا مُلا نہيں تھے سب اعلٰی تعليميافتہ ماڈرن لوگ تھے

    اب آپ بتايئے کہ ميں کس کيلئے باہر نکلوں ؟ اس افراد کے منتشر گروہ کيلئے جو آج تک ايک قوم بھی نہ بن سکے اور جنہيں دوسروں کی ٹانک گھسٹنے سے فرصت نہيں ہے ۔ جو دوسرے کے کام کی بجائے اُس کا نام ۔ جائے رہائش اور جائے پيدائش ديکھتے ہيں ؟

    بي بی ۔ ہميں تقريرون اور تحريروں کی نہيں ۔ عمل کی ضرورت ہے ۔ تحارير آپ بہت اچھی لکھتی ہيں اور اللہ کے فضل سے ميں بھی اچھی لکھ ليتا ہوں اور محسور کُن تقرير بھی کر ليتا ہوں

    ReplyDelete
  3. Agar ye kahani haqeeqat say taluq rakhti hai or work of fiction nahi to jo khatoon Pakistani qom ko qatilon or darindon ki qom keh rahi hain wo ghaliban Afghani origin say hain. Kam az kam unko ye bat nahi karni chahiye. Tareekh gawah hai kay Hindustan par jitni darindgi or barbariyat Afghanon nay rawa rakhi hai kisi nay nahi rakhi. Mahmud Ghaznavi, jis ko baz log unjanay main Musalman qom ka hero mantay hain, yahan sirf loot mar karnay ata tha. Islam ki koi khidmat nahi. Afghani to wo qom hai jo zinda bher kay bachay ko tangon say pakar kar cheer detay hain, khel kay nam par. Kisi ko nahi yakeen to google mojood hai, buz kushi search kar kay dekh lijye kia hota hai.

    Or doosri bat kay communist honay kay jurm main un khatoon kay walid ki kamar tor di gai. Ghaliban un khatoon ko wo mazalim nahi yad jo communist, chahy kisi bhi mulk say unka taluk ho, apnay mukhalifeen kay sath rawa rakhtay thay.

    Barah-e-meherbani is tarha ki mubalgha arai say labrez kahanian parh kay unka reference halat-e-hazra ya mojooda mulki soorat-e-hal say mutalik kisi mamlay main mat dia kijiye.

    Or aik or bat, ye Afghan qom sada ki ehsan faramosh rahi hai. Ye to wo qom hai jo Khana-e-Kaaba main Quran par qasam utha kar tor deti hai. Ye log ya to apas main lartay martay rehtay hain ya phir apnay hamsayon say. Pakistan main aag or khoon ki holi yehi "Masooman" khel rahay hain. Ye Hamid Karzai sahab jo har doosray din Pakistan kay khilaf koi naya byan dagh detay hain, ye bhi Pakistan kay hi tukron par pal kar gaye hain.

    Jis Pakistan nay unhain panah di, ye ehsan faramosh qom usi Pakistan main drugs or mamnooa aslaha phelati rahi or faida uthanay kay bad usay hi galian bhi deti hai. Aj bhi kitnay Afghani esay hain jo Pakistan main karobar kar kay millionaires ban gaye hain lekin Pakistan dushmani nahi chortay.

    Darinda Pakistani qom nahi Afghan qom hai jis nay hamaray pyaray mulk main darindgi ka jal phelaya hua hai. Or hamaray so-called danishwaran, apnay ap ko har mamlay main expert samajhnay walay, jis thali main khatay hain usi main hi chaid kartay hain. Apnay hi mulk ko badnam karnay main unka koi sani nahi. In jesay so-called muhiban-e-watan ko chuloo bhar pani main doob mar jana chahiye.

    Yahan aik or bat. Jab bhi in so-called danishwaron par koi tanqeed ki jaye to ye chila uthtay hain kay ham logon main tanqeed bardasht karnay ka hosla nahi. Bhai tanqeed to ap log bhi nahi bardasht kar patay, tabhi to cheekh-o-pukar shuru kar detay hain. Doosray tanqeed baraye tameer or tanqeed baraye tanqeed main bohat farak hota hai.

    Mulk-o-qom ki khidmat keeray nikalnay say nahi, achai ujagar karnay say bhi ho sakti hai.

    Food for thought~

    ReplyDelete
  4. انجمن غلامان امریکہ کے آپ جیسے ارکان ساری زندگی یہی سوچتے سوچتے مرجائیں گے کہ دنیا ہمارے بارے میں کیا کہتی اور کبھی اس بات کا خیال نہیں آئے گا کہ اللہ اور اہل ایمان کی رائے آپ لوگوں کے بارے میں کیا ہے۔
    آپ لوگوں کے انداز سےکبھی کبھی ایسا لگتا ہے کہ ہیروشیما ناگاساکی پر ایٹمی حملہ ہو یا ویت نام پر قبضہ، لاطینی امریکہ میں کشت وخون ہو یا سرد جنگ کی ریشہ دوانیہ، ایراق، افغانستان ، لیبیا، صومالیہ ، فلسطین اور لبنام پرلاکھوں ٹن بموں کی بارش سب کے پیچھے اسامہ کا ہاتھ تھا۔
    عالمی دہشت گرد امریکہ کو لرکارنے والے اسامہ ہمارے ہیرو تھے، ہیں اور رہے گے، ہمیں آپ جیسے پھٹواور ظلم پرست مسلمانوں کی بکواس سے کوئی فرق پڑتا تھا نہ پڑے گا۔ مجھے پورا یقین ہے کہ آپ لوگ عالمی پراپیگنڈے کا شکار ہوکر امام مہدی کو بھی دہشت گرد کہو گے۔

    ReplyDelete
  5. گمنام صاحب،
    غالباً غالب نے ایسے ہی کسی موقع سے گذر کر کہا تھا کہ
    لو وہ بھی کہہ رہے ہیں کہ بے ننگ ونام ہوں
    یہ جانتا تو یوں لٹاتا نہ گھر کو میں
    انہیں تو عقل آ ہی گء نقصان کے بعد ۔
    انیس سو اناسی کے سویت امریکہ جہاد میں جب افغانیوں کی ایک کثیر تعداد نے پاکستان میں پناہ لی تو وہ پاکستانیوں کے لئے جو سوغات لائے ان میں کلاشنکوف سمیت جدید اسلحہ، ہیروئین جیسا حیات کش نشہ اور بیچنے کے لئے تیسری چیز انکی اپنی خواتین تھیں۔ آج لوگ پاکستانیوں کو اور پاکستانی خواتین کو افغان طالبان کا متعارف کیا ہوا اسلام پیش کرتے ہیں کہ یہ اپنائے اور ہم سے پوچھتے ہیں کہ آپ کے پاس کیا ثبوت کہ افغانستان میں کم عمر لڑکیوں کی بڑی عمر کے مردوں سے شادیاں ہو جاتی ہیں۔
    کیا انہیں کھیلنے کے لئے جھنجھنے دئیے جائیں۔
    کاشف نصیر صاحب، تو آپ نے سدرہ المنتہی کے پاس سے اطلاع حاصل کی ہے کہ اللہ کی ہمارے بارے میں کیا رائے ہے اور جلدی میں اپنی پروگریس بک نہیں لی۔ واپس جائیے اللہ آپکا منتظر ہے، تاکہ آپ جیسے اہل ایمان کو اسکی پروگریس رپورٹ دی جائے۔
    مقام شکر یہ ہے کہ آپ نے اپنی فہرست میں چنگیز خان کے حملے اور ہٹلر کی زیادتیاں شامل نہیں کی۔
    جاپان وہ واحد ملک ہے جس پہ سب سے زیادہ امریکہ کی کرم فرمائیاں ہیں یعنی دو ایٹم بم کا سامنا کیا اس نے۔ کیا اسکے بعد جاپانیوں نے اپنے ہی ہم وطنوں کو مارنا شروع کر دیا تھا، کیا انہوں نے اپنے ہی ہم وطنوں پہ زندگی تنگ کر دی تھی کیا انہوں نے اسلحے سے امریکہ کی اینٹ سے اینٹ بجا دی تھی۔ ایسا تو کچھ نہیں ہوا۔ نہ ویتنام نے یہ کیا۔
    آج کی دنیا انکے ہاتھوں میں ہے جو اقتصادی طور پہ مضبوط ہیں۔ جن کی معیشت مضبوط ہے وہی دوسروں کو للکار سکتے ہیں وہ نہیں جو انسان کی فلاح کے لئے ایک اسکول ایک ہسپتال نہ بنا سکیں لیکن انہیں بم باندھ کر مرنا سکھا دیں۔ لیکن آپ یہ اصول شاید اس وقت سیکھیں گے جب خدا ذاتی طور پہ آپکو آپکی پروگریس رپورٹ تھمائے گا۔ ایک استانی رہ چکنے کے باعث میں آپکو بتادوں کے ایسی رپورٹس کچھ زیادہ مثبت نہیں ہوتیں۔
    امریکہ کے اصل پٹھو وہ ہیں جو در پردہ ان امریکی عزائم کو پورا کرتے ہیں جو امریکہ چاہنے کے باوجود علی الاعلان نہیں کر پاتا۔ اور وہ ہے آپکو پسماندہ رکھنا ذہنی طور پہ اور معاشی طور پہ اور آپکو خود ترسیت میں مبتلا رکھنا۔ ایسے امریکی ایجنٹس میں سے ایک اسامہ تھا۔
    مجھے تو امید نہیں کہ اپنی زندگی میں امام مہدی سے ملاقات کر پاءونگی۔ کیا ہر مسلمان کا امام مہدی پہ ایمان لانا ضروری ہے۔ کیا آپ نہیں سمجھتے کہ مسلمانوں میں اس سلسلے میں مختلف فرقے پائے جاتے ہیں۔ کیا امام مہدی پہ ایمان لانا ایمان کا جز ہے۔ میں اس سلسلے میں کسی قرآنی حکم سے واقف نہیں۔ مجھ سے کسی نے آج تک کہا بھی نہیں کہ ان پہ ایمان لانا ضروری ہے۔ البتہ موقع سے فائدہ اٹھا کر میں مفتیان بلاگستان سے درخواست کرونگی کہ اس بارے میں کم از کم میری معلومات میں اضافہ کریں۔

    ReplyDelete
  6. او جی ہم نے واقعات اور حالات سے سبق نہیں سیکھنا آپ افسانے سنانے چل پڑیں ہیں .. رہنے دیں۔
    پیر مہدی ، مسیح ری لوڈڈ اور دجال بدمعاش کے عیسائیت سے کشید کردہ قصے عہد محدثین سے مسلمانوں کے گھٹنوں میں بیٹھے ہیں۔ ایام تعمیر سے عقل پسند مسلمان ان سے اجتناب برتتے آئے ہیں لیکن اب ایام مایوسی میں یہ باوے آخری سہارا ہیں تو بس خوب بکری ہے۔ مفتیان کو رہنے دیں .. کہیں مولا جٹ سے لے کر سپر مین اور سپائیڈر مین پر بھی ایمان نہ لانا پڑ جائے۔

    ReplyDelete
  7. بجا فرمایا، جیسا کہ ایران۔
    اور جہاں تک اللہ کی رائے جاننے کا تعلق ہے،احمقوں کی جنت میں رہنے والوں کو اتنا بھی نہں پتہ کے اسکے لئے اللہ سے ملاقات نہیں قرآن کو پڑھنا، سمجھنا اور ایمان لانا پڑتا ہے ۔اس ایمان کے ساتھ کہ یہ قرآن ہی اللہ کی طرف سے اتارا ہوا ہے نہ کہ وہ جس کے چالیس پارے تھے۔

    ReplyDelete
  8. کاشف نصیر صاحب، تو آپ نے ایکدفعہ پھر مجھے شیعہ قرار دینے کی کوشش کی چونکہ آپ کا یہ الزام بد دیانتی پہ مشتمل ہے اور لغو ہے اس لئے میں اسے تہمت اور بہتان کے ضمن میں ڈالتی ہوں ۔ اب بتائے کہ اللہ کے نزدیک، جسے آپ اسکی کتاب پڑھنے کی وجہ سے مجھ سے زیادہ جانتے ہیں کسی مسلمان پہ تہمت اور بہتان کی کیا سزا ہے۔ اگر آپ اس بارے مِن خود سے بالکل صحیح فتوی جاری فرمادیں تو میں سمجھوں کہ آپ اللہ کی وہ کتاب پڑھتے ہیں جس میں چالیس نہیں تیس پارے ہیں۔ ورنہ آپ شاید کسی مولانا صاحب کی۸ وہ کتاب پڑھتے ہیں جس میں کسی مسلمان کو شیعہ، قادیانی اور کافر قرار دینے کے موضوعات پہ سیر حاصل گفتگو کی جاتی ہے اور آخیر میں پڑھنے والوں کو عملی امتحان کے لئے کہا جاتا ہے۔
    میں تو صرف یہ جانتی ہوں کہ اللہ کے سوا کوئ معبود نہیں اور محمد اسکے آخری رسول ہیں۔ آپ جا کر امام مہدی کے بارے میں قرآن سے اطلاعات جمع کریں اور ہم سب کو بتائیں تاکہ انکے درست ہونے پہ ہم سب مرنے سے پہلے اپنا ایمان درست کریں۔
    تعجب ہے میں تو سمجھتی تھی کہ یہ امام مہدی کا چکر شیعوں سے تعلق رکھتا ہے لیکن اسکی جڑیں سنیوں میں پائ جاتی ہیں۔
    کہیں ایسا تو نہیں کہ اسامہ ہی امام مہدی ہو اور دنیا کی زبان ایسی ہو گئ ہے کہ امام مہدی پہ دہشت گرد نہیں سی آئ اے کا ایجنٹ ہونے کا الزام لگ سکتا ہے۔ کوئ اور تو اس موضوع کی طرف نہیں آرہا۔ میں آپ سے ہی درخواست کرتی ہوں کہ اس امام مہدی والے مسئلے پہ ذرا تفصیل سے روشنی ڈالیں۔

    ReplyDelete
  9. پہلی بات یہ کہ میں الزام نہیں لگا بلکہ مجھے یقین ہے کہ کا رجہان شیعہ مذہب کی طرف ہے۔ دوسری بات یہ ہے کہ قرآن کریم اور حدیث ملکر دین مکمل کرتے ہیں اور صحیح احادیث میں امام مہدی بشارتیں بڑی تعداد میں موجود ہیں اور تیسری بات یہ کہ اسامہ مرد مجاہد تھے جنہوں نے مسلمانوں کو جہاد کا سبق اس وقت یاد دلایا جب مسلمان اسکو بھول چکے تھے، ان کی جدوجہد کے نتیجے میں پانچ مسلمان ممالک آزاد ہوئے، انکی وجہ سے پاکستان آج روس کا ایک صوبہ نہیں، انہوں نے امریکہ کو اسوقت لرکارا جب وہ ایک ہیرو اور فاتح کے طور پر امریکہ سے بہت کچھ لے سکتے تھے۔ انہوں نے عرب حکمرانوں کی پالیسیوں پر سب سے پہلے انگلی اٹھائی، مقامات مقدسہ پر امریکہ افواج کی موجودگی کے خلاف اٹھاکر انہوں نے مسلمانوں کو فکری شعور دیا، شیخ اسامہ کا سب سے بڑا کارانامہ انتہائی پڑھے نوجوانوں کی ایک تنظیم بنانا تھا، القائدہ عالم اسلام کے ہر کونے پڑھے اسلام پسند نوجوانوں کی تنظیم، القائفہ نے کمیوٹر اور ٹکنالوجی کا استعمال اس دور میں شروع جب پاکستان میں لوگوں نے کمپیوٹر کا صرف نام سنا تھا۔

    اسامہ کے طرز عمل سے کسی کو اختلاف ہوسکتا ہے، لیکن کسی کو بھی انکے اصولی موقف سے کبھی اختلاف نہیں ہوا۔ اسامہ ساری دنیا کی مسلم تنظیموں کے لئے آیڈیل تھے، ہیں اور رہیں گے۔


    اور آخری بار شہید اسلام شیخ اسامہ، امام مہدی نہیں تھے وہ امام مہدی کے ایک چاہنے والے تھے۔

    ReplyDelete
  10. روزانہ جسارت و امت – اسرئیل کے ایک یہودی اخبار الخلافہ نے خبر دی ہے کہ اسامہ بن لادن اصل میں ایک ہندو انتہا پسند تنظیم وشوا ہندو پرشاد کا سر گرم رکن تھا اس کا اصل مذہب ہندو اور نام نارائن بگوان راج تھا

    اس بات کا انکشاف جب ہوا جب امریکی اسامہ کو ہلاک کرنے کے بعد اسلامی رسومات کے مطابق غسل دے رہے تھے اس دوران یہ انکشاف ہوا کے اسامہ بن لادن کا ختنہ نہیں ہوا ہے

    یہ بات پتا لگتے ہی سی آئ اے کے سربراہ نے پاکستان میں اپنے ہم منصب جماعت اسلامی کے منور حسن کو فون کیا اور اس کی تصدیق چاہی ، منور حسن نے کہا کہ ہم تو پہلے ہی کہتے تھے کہ ان خودکش دھماکوں میں انڈیا ملوث ہے اور ہم سوات کے لیے بھی یہی کہتے تھے کہ وہاں ہم نے خود بغیر ختنے کے لوگ دیکھے جو انڈین اجنٹ تھے پر بعد میں ہم نے ان کے ختنے کے لیے نظام شریعت کی تحریک چلائی

    امریکا نے اس تصدیق کے بعد زید حامد اور حمید گل سے بھی رابطہ کیا ،زید حامد نے بتایا یہ ہندو زیونسٹ ہے .امریکی حکام نے مزید معلومات کے لیے ڈی این اے ٹیسٹ کروایا تو یہ انکشاف ہوا کہ اسامہ بن لادن کا ڈی این اے ،شیو سینا کے لیڈر بال ٹھاکرے سے ملتا ہے

    جس پر اباما نے بال ٹھاکرے کو فون کر کے بتایا ، یہ سن کا بال ٹھاکرے پھوٹ پھوٹ کر رونے لگا اور بتایا کہ ہمارا ایک بھائی کمبھ کے میلے میں بچھڑ گیا تھا پھر پتا چلا کے اسے کچھ عرب اونٹوں کی ریس کے لیہ عربستان لے کر چلے گئے تھے ،بال ٹھاکرے نے اپنے بھائی نارائن بھگوان راج کے ملنے پر خوشی کا اظہار کیا پر ساتھ ہی ساتھ اس کے مرنے پر دکھ کا اظہار بھی اظہار کیا ،بال ٹھاکرے نے کہا کہ میرا اور میرے بھائی مقصد ایک ہی تھا زیادہ سے زیادہ مسلمانون کے خون سے ہولی کھیلنا

    بال ٹھاکرے کی خواہش کے مطابق اسامہ بن لادن کی آخری رسومات ہندو مذہبی طریقے سے ادا کی گئیں اور چتا کو جلانے کے بعد راکھ سمندر برد کر دی گئی

    ReplyDelete
  11. ہم نے اللہ کو نہیں دیکھا۔۔۔ تو اللہ پر ایمان کیوں رکھتے ہیں۔۔۔؟
    ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے بھی نہیں ملے۔۔۔ تو ہم ان پر ایمان کیوں رکھتے ہیں۔۔۔؟
    ہم نے فرشتوں کو، انبیاٴ کرام کو بھی نہیں دیکھا تو ان پر ایمان کیسے لے آءے۔۔۔؟
    قیامت اب تک آءی نہیں۔۔۔ سو ہم نے دیکھی بھی نہیں۔۔۔ تو یہ کیسے یقین ہو گیا ہمیں کہ قیامت آءے گی۔۔۔؟
    روز جزا بھی ہمارے تجربے سے نہیں گزرا۔۔۔ تو کیا ہم آنکھیں بند کر لیں۔۔۔؟
    اسی طرح امام مہدی، دجال، حضرت عیسیٰ علیہ السلام سے بھی فی الحال ہماری ملاقات نہیں ہوءی تو کیا ان کے بارے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے حدیثوں کو نظر انداز کر دیں۔۔۔؟ امام مہدی کا ظہور پزیر ہونا خالص اسلامی تعلیمات اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادات کے مطابق ہے۔۔۔ اس میں سنی، شیعہ وغیرہ کا زکر کرنا بہتر نہیں۔۔۔

    ReplyDelete
  12. عمران اقبال صاحب کسی چیز کا منبع اگر قرآن میں موجود نہیں ہے تو کیا احادیث سے اسکا حوالہ کافی ہے۔ ایمان کی دو بنیادی شرائط ہیں اللہ کی وحدت اور رسول کی نبوت ۔
    اسکے علاوہ ایمان مفصل یا ایمان مجمل دونوں میں امام مہدی پہ ایمان لانے کا تذکرہ نہیں۔ یہ معاملہ یہی ختم کرتے ہیں۔
    کاشف نصیر صاحب ابھی میں سیرت النبی کا مطالعہ کر رہی تھی۔ اس میں آنحضرت صل اللہ علیہ وسلم کی حدیث نظر سے گذری۔ آپکے لئے حاضر ہے۔
    نفاق کی چار نشانیاں ہیں۔ جس میں ان میں سے ایک بھی پائ جائے گی اس میں اتنا نفاق کا عنصر موجود ہے۔ اگرچہ وہ نماز گذار اور روزے دار ہی کیوں نہ ہو۔ل اور اپنے کو مسلمان ہی کیوں نہ سمجھتا ہو۔ ایک یہ کہ گفتگو کرے تو جھوٹ بولے، وعدہ کرے تو توڑ دے، امانت سپرد کی جائے تو خیانت کرے ، غصہ آئے تو گالی بکے۔
    آپ اپنے لئے نفاق کی سطح اس حدیث کی روشنی میں متعین کر لیں۔ چونکہ اسامہ آپ جیسے نوجوانوں کا فکری آئیڈیئل تھے اس سے ہم جان سکتے ہیں کہ وہ خود کس قدر ثانت قدم مسلمان تھے۔
    آج پاکستان روس کا ایک صوبہ نہیں محض اسامہ کی وجہ سے ، یہ بات یقیناً آپ نے بھنگ کے نشے میں کہی ہے اس سے مرد مومن مرد حق کی روح کو بڑی تکلیف پہنچے گی۔ اور امریکہ کی مالی اور اسلحے کی امداد اور ٹیکنالوجی کی امداد یہ سب کس کھاتے میں چلی گئیں۔
    پاکستان کے لاکھوں نوجوان منشیات کی بھینٹ چڑھے اسی جنگ کی وجہ سے، ان ماں باپ کی ان کہی قربانیاں کس رجسٹر میں رجسٹر ہونگیں۔ ہزروں پاکستانی اور ہزاروں پاکستانی افواج کے سپاہی اس کار زار میں مارے گئے انکی شہادت کو کس کھاتے میں ڈالیں گے۔ آپ لوگ وہ دل رکھتے ہیں جن پہ مہر لگا دی گئ ہے۔ یہ اب نہیں کھل سکتے روز محشر ہی کھلیں گے۔ اللہ میاں کے ڈنڈے سے۔

    ReplyDelete
  13. آپ کے مرض کا صرف ایک ہی علاج ہے کہ قرآن، حدیث اور تاریخ کا دوبارہ اور غیر متعصب مطالعہ کریں۔

    ReplyDelete
  14. عنیقہ، ایمان مجمل اور ایمان مفصل کے علاوہ احادیث بھی تو ہیں۔۔۔ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادات کو ماننا اور ان پر ایمان لانا ایمان میں شامل نہیں۔۔۔؟؟؟

    ReplyDelete
  15. عمران اقبال صاحب، میں سمجھتی ہوں کہ ہمیں قرآن کو سختی سے پکڑنا چاہءیے۔ ایمان کی جو واضح بنیادیں ہیں انکی طرف دیکھنا چاہءیے۔ کسی انسان کے اعمال سے معاشرے تشکیل پاتے ہیں۔ جو چیزیں انکی بنیاد نہیں ہیں ان پہ بحث کرنا وقت کا زیاں ہے میں اس موضوع کو یہی ختم کرتی ہوں۔ آُ چاہیں تو اپنے بلاگ پہ شروع کر دیں۔
    کاشف نصیر صاحب، کیا نفاق کے بارے میں حدیث کو مجھے دوبارہ سے پرھنے کی ضرورت ہے یا مجھے قرآن کی اس آیت کا ترجمہ صحیح سے پڑھنے کی ضرورت ہے جس میں خدا کہتا ہے کہ تم اپنے اعمال کی ذم٘ہ داری دوسرے لوگوں پہ ڈالوگے اور کہوگے کہ یہ تھے جنہوں نے ہم سے کہا کہ ایسا کرنا چاہئیے اور تمہارے وہ بت اس وقت تم سے منہ موڑ لیں گے۔
    مزید یہ کہ ہر شخص اپنے عمل کا خود ذمہ دار ہے۔
    اگر آپ پڑھنا چاہتے ہیں تو آئیے میں اور آپ مل بیٹھ کر پڑھتے ہیں۔
    اور اگر آپ اپنی بات پہ جمے رہنا چاہتے ہیں تو میں ان باتوں کو وقت کا زیاں سمجھتی ہوں۔ مجھے اس سے فرق نہیں پڑتا کہ امام مہدی آئیں گے یا کیا ہوگا۔ لیکن مجھے اس سے فرق پڑتا ہے کہ میرے ہاتھوں کوئ کون نا حق ہو۔ مجھے اس سے فرق پڑتا ہے کہ میں حلال ذریعے سے روزی حاص کر سکتی ہوں یا نہیں۔ مجھے اس سے فرق پرتا ہے کہ میرے پیارے محفوظ اور پر امن زندگی گذار سکتے ہیں یا نہیں، مجھے اس سے فرق پڑتا ہے۔
    میں زندگی کے حقائق پہ نظر رکھنا چاہتی ہوں۔ اور بحیثیت مسلمان میری صرف اتنی خواہش کہ میری تمام خواہشات خدا کی مقرر کردہ حدود کے اندر ہوں اور انکے حصول؛ کے لئے مجھے کسی بھی دوسرے انسان کو چاہے وہ کسی بھی مذہب سے تعلق رکھتا ہو بالکل بھی حق تلفی نہ کرنا پڑے یہ اس سے بہتر ہے کہ میں اس خواہش کو اپنے سینے سے نکال باہر کروں۔

    ReplyDelete
  16. میں سمجھتی ہوں کہ ہمیں قرآن کو سختی سے پکڑنا چاہءی
    ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
    میں یہاں حدیث اور سنت رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا اضافہ کرنا اپنا فرض سمجھتا ہوں۔۔۔تو صحیح بیان یوں ہوگا:

    "کہ ہمیں قرآن، حدیث و سنتِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو سختی سے پکڑنا چاہیے۔۔۔"

    میں کاشف نصیر کی بات سے اتفاق کرتا ہوں اور آپ کو برادرانہ مشورہ دینا بھی اپنا فرض سمجھتا ہوں کہ آپ کو قرآن، تفسیر قرآن، حدیث اور تاریخ کا دوبارہ غیر متعصبانہ مطالعہ کرنا چاہیے۔۔۔

    یاد دہانی کہ لیے یہ بتانا چاہتا ہوں۔۔۔ کہ اسلام ذاتی نہیں اجتماعی مذہب ہے۔۔۔ اور اس میں اخلاقیات ہی نہیں، تاریخ اور حالات مستقبل کے بارے میں اجتماعی رائے قائم کرنا حکم دیا گیا ہے۔۔۔ اور جو جو لفظ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات اقدس سے منسوب ہے، وہ نا صرف بنیادی حیثیت رکھتا ہے بلکہ معاشرے کی تکمیل میں سو فیصد اہمیت رکھتا ہے۔۔۔ تو براہ مہربانی بنیادی تعلیمات کو اپنی مرضی کا مطلب مت دیجیے اور ضیاع وقت اور فضول بحث کہہ کر تعلیمات کی توہین مت کیجیے کہ ہر حدیث رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے ہر لفظ کی اہمیت مسلم ہے۔۔۔ اور کہیں نا کہیں ان کی اہمیت اپنی جگہ سب سے اہم اور موضوع ہے۔۔۔

    ReplyDelete
  17. امام مہدی علیہ السلام کے متعلق چند اشکالات کا جائزہ اور عقیدہ ظہور مہدی احادیث کی روشنی میں

    http://bunyadparast.tk/

    ReplyDelete
  18. عنیقہ، آپ کے علم میں مزید اضافہ کے لیے، امام مہدی کے بارے میں ہمارے ایک بلاگر بھائی نے کچھ تفصیلات لکھی ہیں۔۔۔ براہ مہربانی انہیں پڑھیے اور اپنے علم میں ضروری اضافہ فرمائیں۔۔۔

    http://bunyadparast.tk/

    ReplyDelete
  19. عمران اقبال صاحب میں احادیث کی حجت پہ اس طرح یقین نہیں رکھتی کہ اسے قرآن کے مقابل لے آیا جائے۔ ایسی کوئ چیز جس پہ قرآن میں کچھ نہیں موجود اسکو محض احادیث کے ذریعے ثابت کرنا وہ بھی ایسی باتیں جو آپکے بنیادی ایمان سے تعلق نہیں رکھتیں۔ تاریخ اور حالات قرآن میں بھی موجود نہیں ہیں۔ قرآن تاریخ اور حالات کی کتاب نہیں ہے۔ قرآن بنیادی طور پہ دین سے متعلق کتاب ہے۔ یہ نہ قائینس ہے نہ تاریخ اور نہ کرنٹ افیئرز۔
    کسی بھی مسلمان کو جن چیزوں پہ ایمان رکھنا چاہئیے اس مین اللہ کی وحدت، اسکے فرشتے، انبیائ، کتابیں اور روز حساب و جزا۔ دراصل انہی چیزوں پہ ایمان سے ہماری اخلاقی حالت پہ بھی اثر پڑتا ہے۔ امام مہدی کے ظہور یا ظہور نہ ہونے سے ہماری بنیادی اخلاقیات اور ایمان کا کوئ تعلق نہیں۔ بنیادی ایمان کو مد نظر میں رکھتے ہوئے ارکان اسلام سامنے آتے ہیں یعنی نماز روزہ زکوت وغیرہ۔ یہاں پہ بھی آپ کو امام مہدی سے کوئ سروکار نہیں۔
    یہ آپ کا ذاتی عقیدہ ہو سکتا ہے۔ اس پہ یقین کرنے کے لئے آپ کسی کو مجبور نہیں کر سکتے۔ جیسے تصوف کے مختلف عقائد پہ یقین رکھنا آپ کا ذاتی عقیدہ ہو سکتا ہے مگر آپ کسی کو اس پہ مجبور نہیں کر سکتے۔
    اگر مجھے امام مہدی والے سلسلے میں دلچسپی ہوتی ہے تو میں اسے پڑھکر یاد رکھتی ۔
    میں نے اپنی طالب علمی کے زمانے میں دینی کتب کا بہت زیادہ مطالعہ کیا ہے۔ اسکی تفصیلات میں جانا پسند نہیں۔ ایک زمانے میں سرفروشی کی تمنا، یعنی جہاد میں شہادت حاصل کرنے کی تمنا بھی پال رکھی تھی۔ لیکن اب میری عمر پندرہ سولہ سال نہیں ہے۔
    اب میں ایسا نہِن سمجھتی۔ اب میں سمجھتی نہوں کہ دوسرے انسانوں کی زندگی کی بھی اتنی ہی اہمیت ہے جتنی میری زندگی کی۔ ہر ایک انسان کو زندگی کے وسائل پہ برابر کا حق ہے۔ خدا اس کا حق دیتا ہے۔ اور سوائے انتہائ حالات کے ہم ایسا کریں تو یہ ظلم ہوگا۔
    عمر میں پختگی کے ساتھ اگر ہم بڑے نہ ہوں، ہماری سوچ میں پختگی نہ پیدا ہو تو زندگی ہی نہیں معاشرہ بھی کھیلواڑ بن کر رہ جاتا ہے۔
    میں اس نتیجے پہ پہنچی ہوں کہ دین کو اس کی سادہ حالت میں ہی رکھنا چاہئیے۔ بغداد کے ان عالموں کی سطح پہ نہیں جہاں چنگیز خانی فوج حملے کو تیار بیٹھی ہو اور علماء قرآن اور احادیث کی مدد سے یہ اندازہ لگا رہے ہوں کہ ایک سوئ کی نوک پہ کتنے فرشتے بیٹھے ہیں۔
    میرا آپکا مخلصانہ مشورہ ہے کہ زندگی کی عملی جہتوں پہ دھیان دیں۔ خدا آپ سے فتوے نہیں عمل چاہتا ہے۔

    ReplyDelete
  20. مذہب پرستوں کی باتیں پڑھتے ہوئے تہذیبی نرگسیت یاد آگئی۔ مختصر سے کتابچہ میں فکر ہائے تہذیب طالبان کا کیا خوب تشخص کیا گیا ہے۔

    ReplyDelete
  21. "عمران اقبال صاحب میں احادیث کی حجت پہ اس طرح یقین نہیں رکھتی کہ اسے قرآن کے مقابل لے آیا جائے۔ ایسی کوئ چیز جس پہ قرآن میں کچھ نہیں موجود اسکو محض احادیث کے ذریعے ثابت کرنا وہ بھی ایسی باتیں جو آپکے بنیادی ایمان سے تعلق نہیں رکھتیں۔"
    ۔۔۔۔۔۔

    محترمہ یہ حدیث کو قرآن کے مقابل’ مہدی کے مسئلہ میں کہا لایاگیا ہے، کوئی مثال پیش کریں گیں۔ حدیث کہیں بھی قرآن کے مقابل نہیں ہے، قرآن و حدیث کو وہی لوگ ایک دوسرے کے مقابل لانے کی کوشش کرتے ہیں جو فسادی ہیں اور اپنی باطل تاویلوں کے ذریعے عوام کو گمراہ کرکے صراط مستقیم سے دور کرنا چاہتے ہیں۔حدیث کو دین سے نکالنے والے حقیقت میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم اورانکی تعلیمات کو دین سے نکالنا چاہتے ہیں۔ قرآن وحدیث دونوں ہی پیغمبر کی زبان سے نکل کر ہم تک پہنچے ہیں، یہ ایک دوسرے کی شروحات ہیں ضد نہیں۔ ویسے آپ کے حدیث کے متعلق کمنٹس پڑھ کر مجھے اندیشہ ہورہا ہے کہ آپ بھی شاید منکرین حدیث کے ٹولے سے تعلق رکھتیں ہیں یا انکے خیالات سے متاثر ہیں۔
    بحرحال میرا آپ کو مشورہ ہے کہ دین کے اہم معاملات اور مسائل پر کوئی بھی بات کرنے سے پہلے مناسب تحقیق کرلیا کریں۔دین اور اس کے ماخذین کے متعلق لاعلمی، جہالت تو کسی حد تک قابل قبول ہوسکتی ہے، بغیر علم کے اپنی رائے دینا اور اس پر اصرار کرنا انتہائی خطرناک ہے۔
    --------------
    """"امام مہدی کے ظہور یا ظہور نہ ہونے سے ہماری بنیادی اخلاقیات اور ایمان کا کوئ تعلق نہیں۔ بنیادی ایمان کو مد نظر میں رکھتے ہوئے ارکان اسلام سامنے آتے ہیں یعنی نماز روزہ زکوت وغیرہ۔ یہاں پہ بھی آپ کو امام مہدی سے کوئ سروکار نہیں۔یہ آپ کا ذاتی عقیدہ ہو سکتا ہے۔ اس پہ یقین کرنے کے لئے آپ کسی کو مجبور نہیں کر سکتے۔ جیسے تصوف کے مختلف عقائد پہ یقین رکھنا آپ کا ذاتی عقیدہ ہو سکتا ہے مگر آپ کسی کو اس پہ مجبور نہیں کر سکتے۔
    ۔۔۔۔۔
    میں سمجھتا ہوں کہ آپ کا یہ موقف بھی اس مسئلہ سے آپکی ناوافقیت اور لاعلمی کی وجہ سے ہیں، ۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک حدیث ہے جس کا مفہوم کچھ اس طرح سے ہے کہ رعایا اپنے بادشاہ کے دین پر ہوا کرتے ہیں۔ امام مہدی کا ہماری اخلاقیات و ایمان کے ساتھ اسی طرح کا تعلق ہے جس طرح ہماری تاریخ کے عظیم مسلمان لیڈروں کا اپنی عوام کے ساتھ تھا، وہ اپنی عوام کے ایمان اور عزت کے محافظ تھے ،۔ حقیقت میں امام مہدی موجودہ دور کے خانقاہ کے کسی صوفی ، بزرگ کی شکل میں نہیں آئیں گے ،حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی مستند احادیث کے مطابق امام مہدی مسلمانوں کے ایک عظیم راہ نما، ہادی اور امام ہونگے، جو بچے کھچے ایمان والوں کو لے کر دجالی قوتوں کا مقابلہ کریں گے اور امت مسلمہ کا وقار دوبارہ بحال کریں گے۔خلاصہ یہ کہ عقیدہ ظہور مہدی ذاتی عقیدہ نہیں ہے بلکہ اجتماعی عقیدہ ہے اور ظلمت کے اندھیروں میں امت مسلمہ کے لیے ایک امید کی کرن ہے۔ آپ میری دی گئی کتابوں کا مطالعہ کرلیں، آپ کو انشا اللہ فاعدہ ہوگا۔

    عمران بھائی عقیدہ ظہور مہدی ایک خالص دینی عقیدہ ہے ،اس کو وہی لوگ اہمیت دیں گے جن کا دین کے ساتھ قلبی تعلق ہے اورجو اسکے اشاعت و دفاع کی فکر کرتے ہیں۔ محترمہ کو اس شخص سے کیا سروکار جس کو حضورصلی اللہ علیہ وسلم نے امت کا آخری مسیحا قرار دیا، جو امت پر آنے والے موجودہ اجتماعی زوال کے بدترین حد تک پہنچ جانے کے بعد "آکر امت مسلمہ کی راہنمائی کرے گا اور دوبارہ قرون اولی کی یاد تازہ کرے گا۔ محترمہ ویسے تو پورے دین کی بات کرتی نظر آتیں اور اب دین کو خود ہی ارکان اسلام تک محدود کرگئیں ہیں۔

    ReplyDelete
  22. عنیقہ، میں آپ کی اس بات سے سو فیصد متفق ہوں کہ اللہ تبارک تعالیٰ ہم سے فتوی نہیں عمل چاہتا ہے۔۔۔

    اپنی صفائی میں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ تصوف سے میری ذات کا دور دور تک کوئی واسطہ نہیں۔۔۔

    امام مہدی، دجال یا حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا ظہور پزیر ہونا ہر مسلمان کا عقیدہ ہے۔۔۔ اور یہ عقیدہ آج نہیں تو کل ضرور عملی شکل میں آپ کے، میرے اور ساری دنیا کے سامنے آ جائے گا۔۔۔ اور اس وقت عمل کا وقت شروع ہوگا۔۔۔ تو آج کو سامنے رکھتے ہوئے کل کے ہونے والے اعمال کو نظر انداز کرنا بہتر نہیں۔۔۔

    آپ نے بے شک درست فرمایا کہ نماز روزہ، زکوۃ اور دیگر اخلاقیات اعمال کے زمرے میں آتی ہیں۔۔۔ اسی طرح جہاد فی سبیل اللہ بھی فرض اعمال میں شامل ہے۔۔۔ اور آج کے بارے میں کہنا تو میرے لیے مشکل ہے۔۔۔ لیکن امام مہدی، دجال اور حضرت عیسی علیہ السلام کے ظہور کے بعد ہر مومن پر جہاد لازم ہو جائے گا۔۔۔ تو کیا ہم "آج" جہاد کو نظر انداز کر دیں۔۔۔؟ کیا یہ بہتر نہیں کہ آنے والے وقت کو سامنے رکھ کر اپنے عقائد کو ابھی سے ہی مضبوط کیا جائے۔۔۔

    ReplyDelete
  23. عمران اقبال صاحب میں احادیث کی حجت پہ اس طرح یقین نہیں رکھتی کہ اسے قرآن کے مقابل لے آیا جائے۔
    ________________________________________________

    پوری بات کیجئے ورنہ عوام الناس میں آپکے بارے میں غلط فہمی پھیل جائے گی ....صاف صاف کہئے کہ میں قران اور حدیث پر اس حد تک یقین رکھتی ہوں جس حد تک وہ میرے نظریات کا ساتھ دیں. قران میں جو مردوں کو عورتوں پر قوام کہا گیا ہے ظاہر ہے آپ جیسی ورکنگ وومن کے لئے نا پسندیدہ بات ہوگی.

    ReplyDelete
  24. بنیاد پرست صاحب، آپ قرآن سے یہ بات بکال کر لائیں اگر نہیں لا رہے تو آپ حدیث کو قرآن کے مقابل لارہے ہیں۔
    عثمان، اپ نے مسیح ری لوڈڈ اور دجال کا تذکرہ کیا ہے کہ یہ عقائد عیسائیوں کے یہاں بھی ہوتے ہیں۔ کیا عیسائ عقائد کے اس سلسلے لنکس دے سکتے ہیں۔
    بین المذاہب تقابلہ ہی بتا سکتا ہے کتنی باتیں دین میں غیر مذاہب سے لے کر علماء نے ڈالی ہیں۔
    جواد صاحب، کیا آپ نبوت کا اعلان کرنے والے ہیں۔ ویسے آپ جیسے مفتی کو عوام الناس کا سہارا لینے کی کیا ضرورت پڑ گئ۔
    آپ ہی بتائیے کہ احادیث کو قرآن کے مقابل لانے والے کو دجال کے زمرے میں کیوں نہ رکھا جائے۔ اللہ تو کہتا ہے کہ میری کتاب کو سختی سے تھام لو۔ آپ کو اس میں کیا اعتراض نظر آ گیا۔
    کیا یہ بات غلط ہے کہ جس چیز کا قرآن میں کوئ ذکر نہیں اسے احادیث سے ثابت کر کے ایمان کا معیار بنانا کہاں تک صحیح ہے۔
    لیکن میں آپ سے یہ سوال کیوں پوچھ رہی ہوں پہلے خواتین کو تو یہ سوالات پوچھنے ہی نہیں چاہئیں۔ ابھی تو آپ ورکنگ ویمین پہ فتوے دے کر فارغ ہوں تو بات آگے بڑھے۔

    ReplyDelete
  25. چونکہ مرد قوام ہیں اس لئے جو فضولیات وہ کرتے اور کہتے رہیں اسکے خلاف کم از کم کسی خاتون کو نہیں بولنا چاہئیے۔ کیا آپ یہ کہنا چاہ رہے ہیں۔

    ReplyDelete
  26. بی بی، آپ دوسروں کو نیچا دکھانے اور جذباتیت میں بہت آگے چلی گئی ہیں۔۔۔ یہاں تک کہ آپ حقائق سے صاف صاف نظر چرا رہی ہیں۔۔۔

    "کیا یہ بات غلط ہے کہ جس چیز کا قرآن میں کوئ ذکر نہیں اسے احادیث سے ثابت کر کے ایمان کا معیار بنانا کہاں تک صحیح ہے"

    بی بی آپ کو قرآن میں کہیں نماز پڑھنے کا طریقہ بتایا گیا ہے۔۔۔؟ اس کتابِ عظیم میں صرف نماز قائم کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔۔۔ جبکہ نماز کا طریقہ سنتِ رسول اور حدیث سے ہمیں سیکھنے کو ملا۔۔۔ اسی طرح روزے، زکوۃ اور حج و عمرہ کے طریقے بھی ہمیں حدیث سے ہی ملتے ہیں۔۔۔

    تو آپ کیسے کہہ سکتی ہیں۔۔۔ کہ قرآن اور حدیث کا کوئی مقابلہ نہیں۔۔۔؟ خدارا ہوش کے ناخن لیں۔۔۔ یہ میرا برادرانہ مشورہ ہے آپ کو۔۔۔ اللہ آپ کو عقل و علم عطا فرمائے۔۔۔

    جہاں تک جواد بھائی کے تبصرے کا سوال ہے تو بی بی۔۔۔ ان کے تبصرے سے کہاں ایسا ظاہر ہو رہا ہے کہ انہوں نے خواتین کو نیچھا دکھایا ہے یا ان کی عقل پر شک کیا ہے۔۔۔ براہ مہربانی ایک نیا موضوع نا گھڑ لیں یہاں۔۔۔ اور نبوت کا دعوی کرنے والی بات بھی نہایت بے ہودہ کی ہے آپ نے۔۔۔

    پھر سے آپ کے لیے دعا ہے کہ اللہ آپ کو ہدایت عطا فرمائے۔۔۔ آمین۔۔۔

    ReplyDelete
  27. بلے بھئی بلے .. یعنی آپ چاہتی ہیں کہ میں لنک شنک لگا کر مذہب پرستوں سے آفیشلی فیر متھا لگا لوں۔ اور نہ صرف اپنے ہاں کے مذہب پرستوں سے متھا لگاؤں بلکہ عیسائی مذہب پرستوں کے بھی لنک پڑھ کر ادھر لگاؤں۔ اور اُس کا فائدہ کیا ہوگا کہ مذہب پرست اپنے مخصوص نعرے بلند کرتے کانوں میں انگلیاں ڈالے اپنے تئیں مجھے کافر اور خود کو مومن قرار دے کر پھر سے اپنی راہ لیں گے۔

    کرائسٹ اور اینٹی کرائسٹ تو عیسائیت کی مرکزی تھیم ہے۔ مختلف عیسائی فرقوں میں تفصیلات کے تھوڑے بہت فرق کے ساتھ یہ تصور بڑی پختگی سے موجود ہے۔ جان کی بائبل اور میتھیو کی بائبل میں اس کا کافی تذکرہ ہے۔ بائبل کی ان ورسز پر عیسائی مبلغین نے بہت کچھ لکھا ہے۔ بجائے یہ کہ آپ جہالت کے ان ضخیم پلندوں پر سر کھپا کر وقت ضائع کریں میں آپ کو ایک شارٹ کٹ بتا دیتا ہوں:
    امریکہ میں مختلف ایویجلیکل مبلغین ٹی وی پر اپنا پیشہ کرتے رہتے ہیں۔ پاسٹر جان ہیگی ، پیٹ رابرٹسن ، جیری فال ویل اس طویل فہرست میں محض چند نام ہیں۔ ان کی اکثر و بیشتر تبلیغ نزول مسیح اور اینٹی کرائسٹ کے گرد گھومتی نظر آتی ہے۔ خاص طور پر جان ہیگی کی تبلیغ ملاحضہ کریں۔ یوٹیوب پر
    John Hagee
    ٹائپ کرکے سرچ کریں۔ بہت سے لنک ملیں گے جس میں جان ہیگی قرب قیامت کے متعلق بائبل کی پیشن گوئیاں ، نزول مسیح اور دجال کا تذکرہ کرتا دیکھائی دے گا۔
    ان میں سے بہت سے ویڈیو کلپ ایسے ہیں کہ دیکھتے گمان گزرتا ہے کہ آپ ڈاکٹر قیامت مسعود کی معروف ویڈیو ہڈن ٹروتھ دیکھ رہی ہیں۔ آگے آپ خود سیانی ہیں۔

    ReplyDelete
  28. بنیاد پرست صاحب، آپ قرآن سے یہ بات بکال کر لائیں اگر نہیں لا رہے تو آپ حدیث کو قرآن کے مقابل لارہے ہیں۔
    آپ ہی بتائیے کہ احادیث کو قرآن کے مقابل لانے والے کو دجال کے زمرے میں کیوں نہ رکھا جائے۔
    ---------------------------------------------
    محترمہ آپ قرآن سے ثبوت پیش کریں کہ اگر کوئی ایسی بات جس کا ذکر قرآن میں نہ ہو لیکن حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی متواتر صحیح حدیث میں اسکا بیان ہو ’ اسکو لینا قرآن کے مقابل لانا ہوگا، اگر آپ اپنے اس خودساختہ اصول کا ثبوت پیش نہیں کرسکتیں تو آپ کا اصول خود قرآن کے مقابل ہے ،اس طرح آپ خود دجال ثابت ہوگئیں۔

    ReplyDelete
  29. عمران اقبال صاحب، دراصل آپ اتنے آگے چلے گئے ہیں کہ آپکو یہ بھی یاد نہیں کہ ارکان اسلام میں سے سب سے زیادہ نماز کا تذکرہ ہے۔ اسی لئے رسول سے نماز کا طریقہ سیکھتے ہیں۔ آپ صرف کوئ احکام الہی اسکے متعلق لے آئیں تاکہ ہم پھر حدیث سے اسے حل کریں۔
    امام مہدی تو ابھی کچھ عرصے ایک صاحب گوہر شاہی کے نام سے وہ بھی بنے ہوئے تھے۔ بعد میں جعلی ثابت ہوئے۔ پکڑے گئے۔۔ اب واپس پلٹیں اور قرآن میں سے اسکی دلیل لائیے کہ امام مہدی پہ یقین رکھنا ایمان لانے کا حصہ ہے۔ کیسے یہ رسول بتائیں گے۔ بالکل ایسے جیسے نماز کا ادا کرنا فرض ہے کیسے یہ رسول بتائیں گے۔ بات ختم۔

    ReplyDelete
  30. میری بھی دعا ہے کہ خدا آپ سب کو ہدایت دے اور اس چیز کی توفیق کہ اپنی عقل کو دین کی سربلندی کے کسی مثبت کام میں لا کر خدا کا قرض اتار سکیں۔

    ReplyDelete
  31. یہ سب ہدایت کے لیئے امام مہدی کے منتظر ہیں،
    کہیں ایسا تو نہیں کہ اپنے کرتوتوں کے جاری رکھنے کےلیئے امام مہدی کی آمد کا جواز تراشا جارہا ہے،کہ جب تک وہ نہیں آئیں گے ہم کیسے سدھریں،
    تب تک چلوایمان کے آخری درجے سے گزارا کر لیں کہ برائی کو دل میں برا جانیں،
    مگر یہ بھول گئے کہ برائی کو دل میں برائی جاننا بھی تب ہی قابل قبول ہوگا جب اپنا عمل اس سے مطابقت رکھتا ہو!!!!

    ReplyDelete
  32. پاکستان ناکام ریاست یا چالاک جواری؟
    http://www.bbc.co.uk/urdu/world/2011/05/110507_pak_failed_state_rwa.shtml

    ReplyDelete
  33. طریقہ نماز تو سنت جاریہ میں سے ہے جو چودہ سو سال سے کعبہ اور مسجد نبوی میں جاری ہے۔ احادیث نہ بھی ہوں تب بھی بنیادی طریقہ نماز سنت جاریہ کی موجودگی میں گم نہیں ہوسکتا۔ یہی حال حج بیت اللہ اور روزہ ، زکوۃ کا ہے۔حیرت ہے مفتیان سنت اور حدیث کے فرق سے ہی واقف نہیں۔
    بلکہ نماز تو یہود میں بھی رائج ہے اور حج بیت اللہ رسول اللہ ﷺ کی آمد سے قبل بھی ہوتا تھا۔ وہ اپنی جگہ کہ لوگوں نے اس میں تحریف کر ڈالی تھی۔ لیکن صالحین اس وقت بھی موجود تھے۔ تاریخ کی کتابوں میں اس کا تذکرہ ملتا ہے۔
    رسول کی وفات اور بخاری ، مسلم کی پیدائش میں تین سو برس کا وقفہ ہے۔ پوری اسلامی سلطنت ، شام مصر روم اور ایران تک پھیلے مسلمانوں کو بخاری اور مسلم کی پیدائش اور ان کی مرتب کردہ کتب کا انتظار نہ تھا۔ بلکہ اور ارکان اسلام کو قرآن اور سنت جاریہ کی روشنی میں ادا کرتے رہے ہیں۔
    اب ان مذہب پرستوں کی عقل ملاحضہ فرمائیں کہ یہ سنت جاریہ کو قربت قیامت کی خبروں جتنا وزن دے رہے ہیں۔ باالفاظ معنی دیگر ، سنت جاریہ یعنی نماز وغیرہ کا طریقہ اتنے ہی وزن پر ہے جتنے وزن پر ابوہریرہ کی بیان کی گئی خبر۔

    ReplyDelete
  34. محترمہ آپ اپنے اصول کاقرآن سے ثبوت نہیں دے سکی ، لیکن دلیل اپنے اصول کے مطابق مانگی رہی ہیں ۔۔ پہلے آپ اپنے اصول کا ثبوت قرآن سے دے کر اپنی ذمہ داری پوری کریں پھر آپ کا میرے سے اس کے مطابق دلیل مانگناٹھیک بھی ہوگا۔
    نیز آپ کا یہ فرمان کہ" نماز ادا کرنا فرض ہے’ کیسے ؟ یہ رسول بتائیں گے" قرآن سے اس کی بھی تخصیص دکھا دیں کہ نماز ویسے ہی ادا کی جائے گی جیسے رسول بتائیں گے۔

    ReplyDelete
  35. بنیاد پرست، ایسے موضوعات پہ بات کرنے سے پہلے بھنگ کا نشہ مت کیا کریں۔ کیا خدا نہیں کہتا ہے کہ میری کتاب کو سختی سے تھام لو۔ جس جگہ رسول کی اطاعت کا کہا گیا ہے وہاں خدا نے پہلے اپنی اطاعت کا حکم دیا ہے۔
    یہی اصول ہے۔ آپکے جید عالم بھی اسی اصول کو استعمال کرتے آئے ہیں۔
    نماز کا حکم پہلے قرآن میں ہے۔ پھر اسے رسول نے پڑھ کر دکھایا۔ روزہ نماز، حج، زکوت حتی کہ جہاد ہر چیز کا حکم پہلے قرآن میں ہے اور پھر اسے رسول نے کر کے دکھایا۔
    آپ اسکا حکم بھی قرآن سے لے آئیں۔
    میں، بار بار بات ختم کر رہی ہوں، آپ بار بار اپنی سوئ کو وہاں لے آتے ہیں۔ میری زندگی میں امام مہدی کو نہیں آنا، میں قرآن سے اس سلسلے میں کوئ واضح ہدایت نہیں پاتی، اس سے میرے اعمال پہ کوئ اثر نہیں پڑتا۔ پھر آپ کا زور اسے منوانے پہ کیوں ہے۔
    کسی بھی انسان کے اعمال پہ جن چیزوں کا اثر پڑتا ہے وہ خدا کی وحدت ہے۔ اور اسکے موجود ہونے کا نظریہ ہے۔ چونکہ ہمیں اسکا تعارف رسول سے حاص ہوتا ہے اسلئے رسول پہ یقین رکھنا ضروری ہے۔ کیونکہ یہ احکامات کتاب سے ملتے ہیں اس لئے کتاب الہی پہ یقین رکھنا ضروری ہے، کیونکہاعمال کی درستگی کا اندازہ جزا سزا سے ہوگا اس لئے یوم آخرت پہ رکھنا ضروری ہے اس لئے یوم آخرت کا یقین ضروری ہے۔
    اس سارے ایمانی سلسلے میں امام مہدی کو موضوع بنائے رکھنے پہ کیوں اصرار ہے؟ میں تو آپکو کافر یا قادیانی یا شیعہ نہیں کہہ رہی محض اس وجہ سے کہ آپ امام مہدی کی بعثت پہ یقین رکھتے ہیں۔ پھر آپ اتنے بے قرار کیوں ہیں۔ میں آپکو اس بات کا حق دے رہی ہوں کہ اگر آپ اس پہ اعتقاد رکھتے ہیں تو رکھیں۔ اگر آپکی تسلی اس سے ہوتی ہے تو اچھی بات ہے، میری نہیں ہوتی۔ اس میں کیا پریشانی ہے۔
    محض اس وجہ سے گوہر شاہی سمیت لاتعداد لوگوں نے امام مہدی ہونے کا دعوی کیا۔ یہ جو آپکے بلوچستان میں ذکری فرقہ پایا جاتا ہے اس کا بانی بھی خود کو امام مہدی کہتا تھا۔
    اگر آپکو امام مہدی مل جائیں تو ان پہ ایمان لے آئیے گا۔ مجھے امید نہیں، میں ان سے مل پاءونگی۔ زندگی مختصر ہے اور اسے محض آنے والے امام مہدی پہ بحث کرنے میں ضائع نہیں کیا جا سکتا۔
    آپ سے ایک دفعہ پھر سوال کرونگی کہ آپ نام بدل بدل کر تبصڑہ کرتا ہے تو اس سے لگتا ہے کہ میری بلاگ کو پڑھنے والے لوگ کافی زیادہ ہیں۔ اگر ایک نام سے کریں گے تو معلوم رہے گا اسکے قارئین محدود ہیں۔ اس طرح سے آپ میرے فائدے کا کام کرتے ہیں۔ ایسا کیوں کرتے ہیں آپ؟
    میں اب آپکے ساتھ اس بحث پہ وقت نہیں لگانا چاہتی۔ کچھ اور بات کریں۔ مثلاً اس سال کراچی میں تینتالیس ڈگری گرمی پڑے گی یا نہیں؟

    ReplyDelete
  36. ۱۔ آپ نے اپنا اصول قرآن سے نہیں دکھایا ۔ جلد سے جلد واضح الفاظ میں
    دکھا دیں۔

    ۲۔ رسول کی اطاعت کا حکم دیا گیا ہے ، اطاعت احکامات میں ہوتی ہے ، تو بات سمجھ آتی ہے آپ نے مثال اعمال کے طریقہ کار کی دی۔ جس پر کوی قرآنی دلیل پیش نہ کی، بہرحال آپ کا اصرار ہے کہ اطاعت کو اعمال میں تسلیم کیا جاے کیا آپ کے پاس اطاعت کو صرف اعمال میں اور دیگر معملات میں صحیح و متواتر احادیث کو قرآن مقابل کہنے کی کوی مخصوص دلیل ہے ؟

    ۳۔ پھر یہ کہا کہ آپکے جید عالم بھی اسی اصول کو استعمال کرتے ہیں، نہ آپ یہ جانتی ہیں کہ میرے کونسے جید عالم ہیں نہ میں یہ جانتا ہوں کہ آپکے کونسے مولوی ہیں۔ نہ ہی ہماری بات فلحال مولوی اور علماء کے حوالے سے ہو رہی ہے ، آپ نے ایک اصول گھڑا اور میں نے دلیل مانگی ، اسی لیے بات کو لمبا کر کے لفاظی استعمال کر کے گھمانے سے بہتر ہے آپ اور میں کھل کر بات کریں۔

    ۴۔۔ آپکی زندگی میں امام مہدی کو نہیں آنا اس پر بھی دلیل پیش کریں۔ چونکہ مسلہ عقائد کا ہے اسی لیے قیاس نہیں چلے گا آپکے الفاظ قطعیت پر دلالت کرتے ہیں لہذا دلیل منطقی یا قیاسی نہ ہو ۔

    ۴۔ بہت سے اعمال کا اثر وحدتِ خدا پر نہیں پڑتا ، مثالیں خود سوچ لیں۔نیز یقین رکھنے آپکی مراد کیا ہے اس پر بھی وضاحت کر دیں،

    ۵۔ آپ کا انداز امام مہدی سے انکار ظاہر کرتا ہے ، باوجود اسکہ میں نے بھی آپکو منکرینِ سنت و حدیث یا ملحدین کی فہرست میں شامل نہیں کیا، نیز جب سنی کتب میں بھی یہ عقیدہ تواتر کے ساتھ آرہا ہے تو اسکو قادیانی یا شیعہ کے ساتھ مخصوص کرنا جہ معنی دارد ؟

    ۶۔ حق یہودی کو بھی عزیر ابن اللہ اور عیسائی کو بھی مسیح ابن اللہ کا حاصل ہے حتیٰ کے دہریے کو وجودِ خالق سے انکار کا بھی حق خالق کائنات نے خود دے دیا ہے ۔ اگر قرآن سے انکی تسلی نہیں ہوتی ہماری ہوتی ہے تو انپر گمراہی کا فتویٰ کس بنیاد پر ؟

    ۷۔گوہر شاہیوں قادیانیوں اور ذکریوں کے غلط عقیدہ مہدی سے اگر انکارِ مہدی لازم آتا ہے تو جعلی مدعی نبوت کی وجہ سے انکارِ نبوت بھی لازم ہو گا ، لہذا آپکی یہ دلیل بھی بودی ہے نیز دلیل کے سامنے قیاس کس پی ایچ ڈی کی ڈگری کے مقالے میں شامل کیا جا سکے گا ؟

    نام بدل کر تبصرہ کرنے کی ضرورت مجھے نہیں آپ میری آی پیز چیک کر لیں ۔ اب یہ غلط فہمی ہے یا خوش فہمی انتخاب میں آپ پر چھوڑتا ہوں۔ اور میں تو آپ کے ساتھ بحث بلکل نہیں کر رہا بلکہ آپکے نظریہ کو سمجھنے کی کوشش کر رہا ہوں تاکہ مستقبل میں آپکی باتیں سمجھنے میں آسانی رہے ۔ میرے الفاظ سوال کی حثیت رکھتے ہیں جواب دینا نہ دینا آپکی مرضی پر منحصر ہے ۔

    ReplyDelete
  37. بنیاد پرست صاحب، تو آپ کی باتوں سے میں یہ نتیجہ اخذ کروں کہ کسی حکم کا سراغ اگر قرآن میں بالکل اشارتاً بھی نہ ہو اور کسی حدیث سے اسے لے لیا جائے تو وہ ایک بالکل صحیح بات ہوگی۔ یعنی حدیث کو قرآن پہ برتری حاصل ہے۔ کیا آپ یہی کہنا چاہ رہے ہیں۔ اگر نہیں تو میری بات سمجھنے میں آپکو کیا مشکل ہے۔
    خدا تو نہیں کہتا کہ محمد صلعم علیم و خبیر ہیں بلکہ وہ خود علیم و خبیر ہے۔
    احادیث کا تحریر کرنا رسول اللہ کی زندگی میں تقریباً ممنوع تھا۔ حوالے کے لئے سیرت النبی مولانا شبلی نعمانی دیکھئیے۔ حتی کہ انتقال سے پہلے رسول اللہ نے جو کچھ کہا یا لکھوایا اسے حضرت عمر نے پھاڑ دیا۔ ان کا یہ قصور بھی شیعہ فرقہ گنتی میں لاتا ہے۔ ان پہ تبرہ بھیجنے کے لئے۔ رسول اللہ کے انتقال کے بھی دو سو سال بعد انکی تالیف شروع ہوئ۔ جس حد تک ان پہ یقین کیا جا سکتا ہے کریں۔
    یہ سارے خاصے نازک مسائل ہیں ، ہمیں ایک اچھا مسلمان بننے کے لئے ان نازک مسائل کو سامنے رکھنے کی کوئ ضرورت نہیں۔ جب ہم معمولی چیزوں پہ اسوہء حسنہ کو سامنے نہیں رکھتے تو دین میں ڈھونڈھ کر باریکیاں پیش کرنا اور نکالنا نیت کی خرابی کے سوا کچھ نہیں۔
    مجھے اس سے کوئ دلچسپی نہیں کہ امام مہدی صاحب آتے ہیں یا نہیں آتے، جیسے مجھے اس سے کوئ دلچسپی نہیں کہ جنات ہیں یا نہیں، جمھے اس سے بھی کوئ دلچسپی نہیں کہ غلام اور کنیز اب ہونے چاہئیں یا نہیں اس قسم کی بحثیں جنکا ہمارے موجودہ مسائل اور ہماری موجودہ طرز زندگی سے کوئ تعلق نہیں ان سے مجھے کوئ دلچسپی نہیں۔
    نہ اب میں غلام اور کنیز کے دور کو واپس چاہتی ہوں نہ اب تک میرے مسائل جنات نے پیدا کئے ہیں اور نہ فی الحال میرا سامنے یہ سوال ہے کہ فلاں شخص امام مہدی ہے اور میں فیصلہ کروں کہ اب کیا کرنا ہے۔
    اس وقت تک رسول اللہ کی لائ ہوئ شریعت اور دین پہ ہم خلوص دل سے نہیں چل پا رہے آپ اب ایسے موضوعات پہ اڑے بیٹھے ہیں۔ پہلے اپنے آپکو رسول کی طرح کتاب کا نمونہ بنالیں اسکے بعد آگے بات کیجئیے۔
    اگر آپ اس پہ یقین رکھتے ہیں تو میری طرف سے آپکو کھلی آزادی ہے رکھیں۔ میں اسے تنقید کا نشانہ اس وقت تک نہیں بناءونگی جب آپ میرے اس عمل پہ کوئ فتوی نہ جاری کریں۔ میں مذہب کے معاملے میں ہر شخص کو آزادی دے رہی ہوں۔ پھر کیا مسئلہ ہے۔ ایک دفعہ پھر یہ سوال؟
    میں مسلمان اس لئے ہوں کہ خدا کی وحدت اور رسول کی رسالت پہ اپنے علم اور مشاہدے کی وجہ سے یقین رکھتی ہوں اس لئے نہیں کہ کسی مولانا یا کسی زید بکر نے اپنے واعظ سے مجھے قائل کیا ہے۔
    میرا خیال ہے کہ شروع سے اب تک میرا موءقف بالکل واضح ہے اس سے زیادہ وضاحت نہیں کی جا سکتی۔
    بہتر یہ ہے کہ اب آپ کوئ کام کی بات کریں۔ میں بالکل ان فتنہ انگیز بحثوں میں نہیں پڑنا چاہتی۔ یہ میرا اس سلسلے میں آخری جواب ہے۔

    ReplyDelete
  38. سب سے پہلے تو میں یہ ہی کہوں گا کہ آپ بہت عجیب بات کر رہی ہیں، ایک طرف تسلیم کرتی ہیں کہ قرآن نے نبی کی اطاعت کا حکم دیا ، اب نبی کی اطاعت کیسے ہو گی اس زریعے کو ماننے سے آپ انکاری ہیں ۔ آپ نے کہا اعمال ایسے ادا کرنے ہیں جیسے رسول نے کیے سوال یہ ہے کہ جب قرآن مین نہیں لکھا کہ رسول نے اعمال کیسے ادا کیے تو احادیث کا انکار کر کے ہمیں کیسے معلوم ہو گا ؟؟؟ اسی لیے میں نے آپ سے پوچھا تھا کہ آپ جو یہ بات کر رہی ہیں کہ ایک جگہ تو رسول کی اطاعت کو تسلیم کرتی ہیں لیکن دوسری جگہ اسی چیز کو آپ قرآن کے مقابل کہتی ہیں اسکی تخصیص قرآن سے دکھا دیں لیکن آپ اس بات کو مکمل طور پر گول کر گئیں۔
    میں بلکل بھی یہ نہیں کہہ رہا ہوں کہ کسی چیز کے حکم کا قرآن میں موجود نہ ہونا اور حدیث میں ہونا حدیث کو قرآن پر برتری دیتا ہے ، یہ بات آپ خود سپیکیولیٹ کر رہی ہیں۔
    بلکہ اگر کسی چیز قرآن میں موجود نہ ہو اور حدیث میں موجود ہو تو پھر بھی حدیث کو قرآن پر برتری حاصل نہیں ہو گی ۔
    اب اگر آپ اس طرح سے سمجھتی ہیں تو میرے خیال سے یہ علم الوحی کی بنیادیات سے لا علمی کی وجہ سے ہے ۔
    محمد ﷺ کو آپ عالم الغیب نہ مانیں، لیکن محمد صلیٰ اللہ علیہ وسلم کو وحی کے زریعے معلومات نہیں پہنچی جو انہوں نے امت تک پہنچائی ؟؟؟ یعنی آپ یہ سمجھتی ہیں کہ اگر ہم یہ تسلیم کر لیں کہ ایک بات قرآن میں نہیں اور حدیث میں ہے تو ہمیں نبی کریم صلیٰ اللہ علیہ وسلم کو عالم الغیب ماننا پڑے گا ؟؟
    بی بی حضور اکرم صلیٰ اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں احادیث کا تحریر کرنا بلکل بھی ممنوع نہیں تھا بلکہ صحابہ کرام حدیث کو نقل کرتے تھے اور محفوظ کرتے تھے ، اور اس پر حوالے بھی دیے جا سکتے ہیں اور یہ بات بھی غلط ہے کہ حضور اکرم صلیٰ اللہ علیہ وسلم کے دو سو سال بعد انکی تالیف شروع ہوی ، جب صحابہ خود لکھتے تھے تو دو سو سال بعد کیسے شروع ہو سکتی ہے ؟؟؟ بلکہ آپکو ایک عام فہم مثال دیتا ہوں ، امام مالک کا زمانہ دیکھ لیں امام ابو حنیفہ کا زمانہ دیکھ لیں دونون کا زمانہ ۱۰۰ ہجری کا ہے حضور اکرم صلیٰ اللہ علیہ وسلم سے بلکل قریب، ان دونوں نے احادیث کی کتاب لکھی ہیں، امام مالک کی موطا اور امام ابو حنیفہ کی کتاب الاثار اور انکے شاگر امام محمد کی موطا امام محمد وغیرہ ۔
    اصل بات یہ ہے کہ احادیث کی ترتیب وغیرہ بعد میں شروع ہوی تھی جسکو انگریزی میں کمپائیلیشن کہتے ہیں ، اور اس سے علوم الحدیث سے لا علم لوگ سمجھتے ہیں کہ احادیث کو جمع ہی اسکے بعد کرنا شروع کیا گیا جو کہ صریحاً غلط ہے ۔
    آپ نے صحیح کہا کہ یہ واقعی نازک مسلہ ہے ، بلکہ میں آپکو دعوت دیتا ہوں کی کسی بھی مدرسہ قطعہ نظر ، دیوبندی، بریلوی ، اہلحدیث آپ فون کر کے پوچھ لیں کہ صحیح و متواتر حدیث کے منکر پر کیا حکم لگے گا ، پھر جو جواب وہ دیں مجھے بھی بتائیے گا ۔ آپ لوگ اپنی عقل کی بنا پر احادیث کا انکار کر رہے ہیں اور پھر ایک طرف تو یہ بھی مانتے ہیں کہ یہ نازک مسلہ ہے دوسری طرف یہ کہتے ہیں کہ ہمیں ان باریکیوں میں پڑنے کی ضرورت نہیں ۔
    تو پھر اگر کوی یہ کہے کہ ختم نبوت کا منکر کافر ہے یا مسلمان ہمیں ان باریکیوں مین پڑنے کی ضرورت نہیں ، وغیرہ تو اس میں کیا خرابی ہو گی ؟؟؟ آپ کسی کو بھی حق دیں کہ وہ جو مرضی عقیدہ رکھے ، لیکن وہ اپنے اس عقیدے کو اسلام کہے یہ حق اسکو نہیں مل سکتا کوی کہتا ہے کہ میں مسلمان ہوں لیکن قرآن کی فلاں فلاں آیت کو نہیں مانتا اور یہ اسلام ہے تو کیا اسکو اپنے ان عقائد کو اسلام کہنے کی اجازت کون دیتا ہے ؟؟؟

    ReplyDelete
  39. محترمہ عنیقہ ناز صاحبہ:

    امام مہدی کا بیان اگرچہ ایمان مفصل اور ایمان مجمل میں نہیں ہے لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ اسکے علاوہ باقی اسلام ہی نہیں ہے۔

    بلکہ قران میں ہے کہ جو چیز تمھیں رسول دیں تو اسکو پکڑو اور جس چیز سے منع کرے تو اس سے منع ہوجاو(مانگنے پر حوالہ دیا جا سکتا ہے)

    تو جناب قران و سنت لازم و ملزوم ہیں ۔
    ہاں آپکی یہ بات درست ہے کہ اگر قران و حدیث کا مقابلہ آجائے تو قران ہی کو اختیار کیا جائے گا۔

    لیکن یہ بات درست نہیں کہ آدمی اسی بات کو بنیاد بنا کر تمام ذخیرہ احادیث سے ہی منکر ہوجائیں۔

    اگر قرب قیامت میں نبی صل اللہ علیہ و علی اٰلہ و صحبہ و سلم نے امام مھدی کی پیشن گوئی کی ہے تو اسمیں برا کیا ہے۔

    میں آپکی اس بات سے بھی اتفاق کرتا ہوں کہ ہمیں امام مھدی کے انتظار میں نیک اعمال نہیں چھوڑنے چاہئے۔ اگر ایک آدمی خود بد عمل ہے تو امام مھدی اسکو کیا نجات دیں گے۔

    خود نبی کریم صل اللہ علیہ و علی اٰلہ و صحبہ و سلم نے اپنے اہل وعیال کو یہ بات کہی ہے کہ اگر قیامت میں کامیاب ہونا ہے تو اعمال کیا کرو۔

    امام مھدی فقط ایک نیک آدمی ہونگے اور اس وقت چونکہ امت مسلمہ تتر بتر ہوگی اور شیطان کا اخری ہتھیار دجال میدان میں نکلنے والا ہوگا ۔ تو اسکے لئے مسلمانوں کو تیار کرنے کیلئے امام مھدی آئے گا۔ اور یہ کوئی ایسی بات نہیں ہوگی کہ وہ نیا شریعت لائے گا یا پادریوں کی طرح گناہوں کو بخشوائے گا۔وہ فقط ایک امتی ہوگا اور شریعت محمدی کی ہی پیروی کرے گا۔

    ہاں چونکہ اس وقت یہ امت مسلمہ کا سردار ہوگا تو اسلئے اس کے لشکر میں شمولیت کے نبوی ہدایات موجود ہیں۔ تاکہ آدمی کہیں خدا مخالف دجالی لشکر میں شامل نہ ہوجائے ۔

    اور یہ شمولیت کے ہدایات قران کے مخالف تو نہیں ہیں۔ تو پھر کیوں خواہ مخواہ قران و حدیث میں تعارض لایاجائے۔

    یہ تو عقل بھی مانتی ہے کہ اگر امام مھدی کے علاوہ کوئی دوسرا اچھا شخص بھی امت محمدیہ کا سردار بن جائے تو ظاہر ہے کہ امت مسلمہ اپنے اس سردار کی ماتحت ہی وقت گزاریں گے۔

    قران خود کہتا ہے کہ أَطِيعُوا اللَّهَ وَأَطِيعُوا الرَّسُولَ وَأُولِي الأمْرِ مِنْكُمْ تو اگر ہماری زندگی میں امام مھدی اولی الامر بن گیا تو کیا فرق پڑتا ہے ہمارے عقیدے پر۔

    رہی شیعوں کی بات تو جناب وہ تو ایک ایسا فرقہ ہے جو کہ یہود یوں کا بنایا ہوا ہے۔

    جیسے قوم یہود نے عیسائیوں کو گمراہ کیا ایسے ہی ابن سباء یہودی نے ان شیعوں کو گمراہ کیا۔ اور اسلام کے نام پر کفر کو پھیلانا شروع کیا ۔ جس کے سبب خود حضرت علی نے بھی انکو سزائے موت دی ہے۔

    تو جس طرح شیعہ مذھب ہی منگھڑت ہے ایسے ہی انکا عقیدہ امام مھدی بھی منگھڑت ہے۔

    انکا امام مھدی تو ننگا عراق کے غار میں چھپ گیا تھا اور وہ اصلی والا قران بھی ساتھ چھپا کر لے گیا ، گویا موجودہ قران جعلی ہے (نعوذباللہ)

    لھذا مسلمانوں کا امام مھدی کا عقیدہ شیعوں کے امام مھدی کے عقیدے پر قیاس کرنا درست نہیں ہے۔


    بحث مباحثے کے وقت گرم جوشی سے کام نہیں لینا چاہئے۔ کیوں خواہ مخوا ایک دوسرے کو برا بھلا کہتے ہو۔اگر بحث میں اعتدال نہیں تو بلاگ لکھنے اور کمنٹس کا فائدہ کیا ہے ۔

    ReplyDelete

آپ اپنے تبصرے انگریزی میں بھی لکھ سکتے ہیں۔
جس طرح بلاگر کا تبصرہ نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں، اسی طرح تبصرہ نگار کا بھی بلاگر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اس لئے اپنے خیال کا اظہار کریں تاکہ ہم تصویر کا دوسرا رخ بھی دیکھ سکیں۔
اطمینان رکھیں اگر آپکے تبصرے میں فحش الفاظ یعنی دیسی گالیاں استعمال نہیں کی گئ ہیں تو یہ تبصرہ ضرور شائع ہوگا۔ تبصرہ نہ آنے کی وجہ کوئ ٹیکنیکل خرابی ہوگی۔ وہی تبصرہ دوبارہ بھیجنے کی کوشش کریں۔
شکریہ